skip to Main Content
کچھ کرنا ہے

کچھ کرنا ہے

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی اور علی کے دوست قریب سے آنے والے نغمے کی آواز پر ہم آواز ہوئے اور دادا جان کا چہرہ امید کی کرن سے چمک اٹھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھڑاک! ٹک دروازہ ایک جھٹکے کے ساتھ کھلا اور فوراًہی نہایت آہستگی سے بند ہوگیا۔ علی اب نہایت احتیاط سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا دادا جان کے قریب آیا مگر دادا جان علی کی آمد سے بے خبر کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ اسی لمحے ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو کے دو قطرے بھی ٹپک گئے۔ 
’’دادا جان کیا ہوا؟ آپ کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ علی جو اب تک دادا جان کو ڈسٹرب کرنے سے احتیاط برت رہا تھا۔ آنسو دیکھ کر رہ نہ سکا اور پوچھ بیٹھا۔ علی ساتویں جماعت کا ایک ذہین بچہ تھا۔ علی کو اپنے دادا جان سے بے حد محبت تھی اور فارغ وقت دادا جان کی لائبریری میں گزارنا علی کا پسندیدہ مشغلہ تھا مگر ساتھ ہی وہ دادا جان کی اس بات کا بھی خیال رکھتا تھا کہ مطالعہ کے دوران کسی قسم کی دخل اندازی نہ کی جائے۔ دادا جان بھی علی کی ذہانت سے بہت خوش ہوتے تھے اور اس کی ہر بات کا تسلی سے جواب دیتے تھے۔ علی کے دادا جان ریٹائرڈ جج تھے اورقائد اعظم ان کی پسندیدہ شخصیت تھے۔ وکیل کا پیشہ بھی انہوں نے قائد اعظم کو آئیڈیل مان کر ہی اپنا یا تھا۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے مگر والد صاحب کے ہمراہ جلسوں میں جانا اور قائد اعظم کی تقاریر نے انہیں اور بھی قائداعظم سے قریب کر دیا۔ قائد اعظم اور تحریک پاکستان علی کے بھی پسندیدہ موضوعات تھے۔ دادا جان اکثر علی کو بتایا کرتے کہ کس طرح برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے لیے یہ پیارا پاکستان حاصل کیا۔ اس وقت بھی دادا جان کے سامنے تحریک پاکستان سے متعلق کتابیں اور آج کا اخبار رکھا تھا۔ اخبار میں کسی بڑے فراڈ کے ملزم کے متعلق خبر پر اب بھی دادا جان کی نظریں مرکوز تھیں۔ جس میں لکھا تھا کہ کروڑوں روپے عوام کے ہڑپ کرنے کے باوجود کسی بااثر شخصیت کے کہنے پر سکندر سیٹھ کو باعزت بری کر دیا گیا تھا۔

*۔۔۔*

فضا میں اذان کی آواز گونجی۔ لوگ مسجد کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں ہر ایک کا موضوع صرف یہی ہے کہ آج کیا فیصلہ ہونے والا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سزا نہیں ہو سکے گی کہ ملزمہ کا تعلق جس قبیلے سے ہے اس کے لوگ اسے سزا سے بچا لیں گے۔ چاہے تعلقات کے ذریعے یا زیادہ سے زیادہ رقم دے کر۔ ادھر ملزمہ کے قبیلے کے لوگ بھی مطمئن تھے کہ یہ تعلقات اور روپیہ پیسہ آخر کس کام کا کہ ہم کسی کو سزا سے نہیں بچا سکیں۔ آپس میں ہر طرح کی پوچھ گچھ کرکے یہ اطمینان کیا جا رہا ہے کہ تمام کام طے پا گئے ہیں یا کچھ کمی ہے۔ انہی سوالات اور جوابات کے درمیان مسجد تک فاصلہ طے پاتا ہے اور نماز کے لیے صفیں بنتی ہیں۔ نماز شروع ہوئی اور کچھ دیر میں دعا کے الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ’’لوگوں تم سے پہلے کی بھی قومیں اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے بچ جاتا اور کوئی غریب وہی جرم کرتا تو سزا کا حقدار ہوتا۔ آج اس کی جگہ فاطمہ بنت محمدبھی ہوتی تو اسے وہی سزا دی جاتی یعنی ہاتھ کاٹنے کی۔‘‘
’’دادا جان بتائیں نا! کیا ہوا آپ کہاں کھو گئے۔‘‘ دادا جان جو ایک دم ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہرے دور میں کھو گئے تھے۔ علی کے مخاطب ہونے سے ایک دم ہی واپس آگئے۔ کچھ لمحہ خاموش رہنے کے بعد دادا جان علی سے مخاطب ہوئے۔ 
’’بیٹا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جب قائد اعظم اعلی تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے تو انہوں نے کیا دیکھ کر لنکنز ان میں داخلہ لیا؟ ‘‘
’’کیونکہ دادا جان لنکنز ان کے صدر دروازے پر عظیم ہستیوں کے نام درج تھے اور ان ناموں میں سب سے اوپر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا تھا۔‘‘ علی کو دادا جان کی بتائی ہوئی باتیں یاد تھیں۔ 
’’ہاں شاباش بیٹا! صرف یہی نہیں بلکہ جب قائد اعظم پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وکیل بنے تو ہمیشہ سچائی اور حق کے لیے انصاف کے لیے لڑے۔ ایسے قانون کے لیے لڑے جو امیر غریب سب کے لیے ایک ہی حکم دیتا ہو یعنی اﷲ کا قانون جو قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے۔ جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی میں عمل کرکے بتایا کہ چوری کوئی امیر کرے یا غریب سزا دونوں کے لیے ایک ہی ہو اور بیٹا تم جانتے ہو ۔ میں نے بھی ایسا ہی جج بننے کا عہد کیا تھا اور جب تک جج رہا۔ سچائی اور انصاف کے لیے میری جدوجہد جاری رہی مگر اب میں ریٹائرڈ ہو گیا ہوں۔ اخبارات میں جھوٹ بے ایمانی اور ناانصافی کی خبریں پڑھتا ہوں تو خود کو بے بس پاتا ہوں میں اپنے پیارے پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر آہ! ‘‘
’’مگر دادا جان آپ نے ہی تو کہا تھا۔ مایوسی کفر ہے۔ پھر آپ مایوس کیوں ہوتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے میں محنت سے پڑھتا ہوں۔ پورے اسکول میں پوزیشن لیتا ہوں کس لیے؟ ‘‘اب سوال کرنے کی علی کی باری تھی۔ 
’’اس لیے مائی ڈیئر سن کہ سب لوگ آپ کو اچھا بچہ سمجھیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے مگر میرا اصل مقصد قائد اعظم کی طرح آپ کی طرح ایک دیانتدار اور سچائی کا ساتھ دینے والا جج بننا ہے اور میرے سارے دوست بھی پیارے پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انس ڈاکٹر بن کر غریب لوگوں کا مفت علاج کرے گا۔ احمد فوج میں جا کر سرحدوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح کوئی پائیلٹ اور کوئی انجینئر بن کر اس سوہنی دھرتی کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘
’’ارے میرے بیٹے یہ تو آپ نے بہت ہی خوشی کی بات سنائی۔ میرا اداس دل اب بہت خوش ہے۔‘‘ دادا جان نے علی کو پیار سے اپنے گلے لگایا۔ 
’’دادا جان اس سے بھی زیادہ خوش کرنے والی بات بتاؤں۔‘‘ 
’’ہاں ہاں ضروربھئی۔‘‘
’’ مگر آپ پہلے میرے ساتھ باہر گلی میں آئیں۔ علی نے دادا جان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں گلی میں لے کر آیا۔ دادا جان نے سیڑھیاں اترتے ہوئے لان میں ہی دیکھ لیا تھا۔ مگر گلی تک آئے تو ان کا چہرہ ایک دم مسکرا اٹھا۔ پوری گلی سبز ہلالی جھنڈیوں سے سجی تھی۔ دادا جان کو دیکھ کر علی کے دوست بھی دادا جان کو سلام کرنے قریب آگئے۔ دادا جان سلام کے بعد ان کی خیریت اور پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگے۔ اتنے میں علی گھر سے ایک پلیٹ میں مٹھائی لے کر آیا۔ پہلے علی نے دادا جان کا منھ میٹھا کرایا پھر باری باری دوستوں کا۔ 
’’یہ کس خوشی میں بھئی۔‘‘ دادا جان اور علی کے دوستوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ 
’’میرے جج بننے کی خوشی میں۔‘‘ علی نے فخر سے کہا۔ 
’’جج؟‘‘ علی کے دوست ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ مگر دادا جان ایک دم مسکرانے لگے اور پیار سے علی کو اپنے ساتھ لگالیا۔ 
ہم زندہ قوم ہیں۔۔۔پائندہ قوم ہیں 
ہم سب کی ہے پہچان ۔۔۔ہم سب کا پاکستان 
علی اور علی کے دوست قریب سے آنے والے نغمے کی آواز پر ہم آواز ہوئے اور دادا جان کا چہرہ امید کی کرن سے چمک اٹھا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top