skip to Main Content

کوئی بات نہیں!

کہانی:Never Mind!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد مصطفی
۔۔۔۔

آج ہنری کی سالگرہ تھی۔ اس کی والدہ نے اسے ایک ریل گاڑی تحفے میں دی، تو والد نے ریل کی پٹڑیاں اور اس کی خالہ نورا نے اسے ایک کتاب تحفے میں دی۔ڈاکیا اس کے لئے تین سال گرہ کارڈ اور سال گرہ کے دوخطوط لے کر آیا، ان دونوں خطوط میں پیسے تھے۔
ایک خط میں فریڈ چاچو کی طرف سے پانچ ڈالر تھے اور دوسرے خط میں ایک منی آڈر تھا جس میں خالہ فلو کی طرف سے دو ڈالر کا تحفہ تھا۔
”میں امیر ہوگیا!“ہنری نے کہا۔”امی کیا مجھے یہ پیسے خرچ کرلینے چاہئیں یا بچا کررکھ لینے چاہئیں؟“
”تمہارے چاچو فریڈ اور خالہ فلو نے خط میں کیا لکھا ہے؟“امی نے پوچھا۔”تمہیں وہی کرنا چاہیے جو انہوں نے کہا ہے۔“
”اچھا!چاچو فریڈ نے تو کہا ہے کہ تم ان پیسوں سے وہ خریدنا جو تمہیں بہت پسند ہو، اور خالہ فلو نے کہا ہے:”میں تمہیں دو ڈالر بھیج رہی ہوں جنہیں تم اپنی مرضی سے خرچ کرنا۔“ ہنری نے کہا۔
”یہ تو بہت اچھا ہے۔“ ماں نے کہا:”تم اپنے پیسے خرچ کر سکتے ہو، تمہیں جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔“
”اوہ اچھا!“ ہنری نے کہا:”میں جانتا ہوں کہ مجھے ان پانچ ڈالر سے کیا خریدنا ہے۔امی! میں ان پیسوں سے وہ رنگوں کا ڈبہ خریدوں گا جو میں نے اس دن کتابوں کی دکان میں دیکھا تھا۔ آپ جانتی ہیں کہ میرے پاس رنگ نہیں ہیں اورمیری شدیدخواہش ہے کہ میں انہیں خریدوں۔ کیا میں آج انہیں خرید سکتا ہوں؟“
”ہاں بالکل!“ والدہ نے کہا:”اور تم باقی پیسوں سے کیا خریدنا چاہو گے؟“
”دوسرے دو ڈالر؟……“ ہنری نے کہا:”مجھے نہیں معلوم امی۔ٹافیاں؟ یا شاید ابھی انہیں میں اپنے بٹوے میں رکھوں گا اور بعد میں دیکھوں گا۔“

۔۔۔۔۔

ہنری اپنے پانچ ڈالر خرچ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کے پاس ایک خوبصورت رنگوں کا ڈبہ ہوگا۔ وہ کالے رنگ کا ہوگااور اس کے اندر تقریباً بیس مختلف رنگ ہوں گے۔رنگوں سے بھری چار بوتلیں بھی ہوں گی اور چار مختلف اقسام کے رنگ کرنے والے برش بھی ہوں گے۔ یہ ایک بہت ہی پیارا اور اچھا رنگوں کا ڈبہ ہوگا۔
”جب میرے پاس یہ خوبصورت رنگوں کا ڈبہ ہوگا تو میں بہت ہی خوبصورت تصویریں بنا سکوں گا۔“ہنری نے اپنے آپ سے کہا۔
”کیسے ہو جارج؟ دیکھومجھے میری سالگرہ پر کیا تحفہ ملا۔“
جارج دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو ہنری دو ڈالر کا منی آرڈر اور پانچ ڈالر کا نوٹ اپنے بٹوے سے نکال کر اسے دکھانے لگا۔اور اس کے ساتھ ہی ایک حادثہ ہوا۔ اچانک ہوا کاجھونکا آیااورہنری کے ہاتھوں سے پانچ ڈالر کا نوٹ چھین کر لے گیا۔ پانچ ڈالر کا نوٹ ہوا میں اونچااور اونچا اڑنے لگا،یہاں تک کہ باڑ کے اوپر سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔
”اوہ! جلدی!…… میرے پانچ ڈالر!“ ہنری چلایا:”جارج جلدی سے باڑ کے اس پار چلیں اور اسے تلاش کریں۔“
جارج اورہنری باڑ پھلانگتے ہوئے نوٹ کی تلاش میں گئے لیکن نوٹ تو بالکل غائب ہو چکا تھا۔ باڑ کے اس طرف ایک بکرا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ہنری ٹکٹکی باندھ کر اس بکرے کی طرف دیکھنے لگا۔
”مجھے یقین ہے کہ اس بکرے نے میرے پیسے کھائے ہوں گے۔“ ہنری نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔”یہ ہر طرح کی چیزیں کھا جاتا ہے۔ کل میں نے اسے اخبار کھاتے ہوئے دیکھا، اور تو اور یہ ڈبے اور دھات کی چیزیں بھی کھانے کی کوشش کرتا ہے۔پیارے بکرے کیا تم نے میرے پانچ ڈالر کا نوٹ کھایا ہے؟“
بکرے نے اپنا سر نیچے کیا اور آگے چل دیا۔
جارج، ہنری کو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا۔”کوئی بات نہیں! تمہارے پاس تمہارا منی آرڈر ابھی بھی ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تمہیں دو تحفے ملے ہیں۔“ جارج نے یاد دلایا۔
”ہاں میرے پاس ہیں۔“ہنری نے کہا:”لیکن وہ صرف دو ڈالر ہیں۔ ان سے میں وہ رنگوں کا ڈبہ نہیں خرید سکوں گا جومیں خریدنا چاہتا ہوں۔ مجھے بہت برا لگ رہا ہے۔“
”کوئی بات نہیں!“ جارج نے دوبارہ کہا۔”تم کچھ مومی رنگ خرید سکتے ہوہنری! تم ان رنگوں سے بھی خوبصورت تصاویر بنا سکتے ہو۔ تم جانتے ہو۔“
”چلو ٹھیک ہے۔“ ہنری نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔

ہنری اورجارج کتابوں کی دکان پر پہنچے جہاں کتابیں، کاغذ، قلم اور رنگ مل رہے تھے۔
”یہ ایک خوبصورت مومی رنگوں کا ڈبہ ہے۔“ جارج نے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”یہ لے لوہنری! یہ صرف ڈیڑھ ڈالر کا ہے۔“
ہنری نے مومی رنگوں کا ڈبہ خرید لیا اور باقی پیسے واپس لیتے ہوئے جارج سے پوچھا:”اب میں ان باقی پیسوں کا کیا خریدوں؟“
”یہ دیکھو! اس ہفتے کی کہانیوں کی نئی کتاب آئی ہے۔“ جارج نے کہا:”یہ خرید لو یہ صرف چالیس سینٹ کی ہے اور اس میں ایک تصویر بھی ہے، رنگ بھرنے کے مقابلے کے لئے،ا ور آخرکے دس سینٹ سے کچھ ٹافیاں خرید لو۔“
ہنری گھر لوٹا تو اس کے پاس مومی رنگوں کا ڈبہ، ایک کہانیوں کی کتاب اور چند ٹافیاں تھیں۔ ہنری نے جارج کو دو ٹافیاں دیں اور وعدہ کیا کہ جب وہ کہانیوں کی کتاب پڑھ لے گا تو اسے ضرور پڑھنے کے لئے دے گا۔
ہنری نے اپنی والدہ کو پانچ ڈالر کھو جانے کی ساری کہانی سنائی۔ اسکی والدہ نے افسوس سے کہا:”کوئی بات نہیں! کوئی بات نہیں! تمہارے سارے پیسے بھی تو کھو سکتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ اس سے بھی برا ہوتا، لہٰذا کوئی بات نہیں!“
”مجھے برا تو لگا۔“بے چارے ہنری نے کہا:”لیکن میں اس کے لئے شوروغل نہیں کروں گا۔ دیکھیں امی!اس کہانیوں کی کتاب میں ایک رنگ بھرنے کے مقابلے کا اشتہار ہے۔ میں اس تصویر میں اچھے سے رنگ بھروں گا، جتنے اچھے میں بھر سکتا ہوں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، اگر میں اس میں اچھے سے رنگ بھروں اور پھر آپ مجھے ڈاک ٹکٹ دیں تا کہ میں اس تصویر کو مقابلے میں بھیج سکوں تو کیا میں انعام جیتنے کا اہل بن سکتا ہوں؟“
”ہاں بیٹا! بالکل!“ماں نے کہا:”تم اچھے سے رنگ بھرنا اور اپنی بہترین کوشش کرنا۔“
”کاش میرے پاس وہ اچھے رنگوں والا ڈبہ ہوتا تو میں مومی رنگ بھرنے کے بجائے اچھے رنگ بھرتا۔“ہنری نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔

ہنری نے پوری توجہ سے تصویر میں رنگ بھرنے پر کام شروع کر دیا اور نہایت خوبصورتی سے رنگ بھرے۔ اس نے ایک بھی بار اپنے رنگ لکیر سے باہر نہیں نکلنے دیے۔ اس کے مومی رنگ نئے اور نوکیلے تھے اس لئے اس نے بہت اچھے سے محنت کر کے خوبصورت رنگ بھرے۔
”بہت شاندارہنری!“اس کی امی نے کہا:”تمہیں اسے ضرور مقابلے میں بھیجنا چاہیے، یہ تصویر تمہیں انعام دلوانے کے قابل ہے۔“
ہنری نے تصویر کے نیچے اپنا نام اور پتا لکھا اور طریقے سے تصویر کو کاٹ کر کہانیوں کی کتاب سے الگ کیا۔ ہنری نے تصویر کو ایک لفافے میں ڈالا اور ٹکٹ لگا کر اسے مقابلے میں انعام جیتنے کے لئے بھیج دیا۔

۔۔۔۔۔

اورکیا آپ جانتے ہیں؟ جب نتائج کا اعلان ہوا تو ہنری کا نام اس فہرست میں شامل تھا جنہیں انعام ملنا تھا۔ ہنری کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ انعام جیت چکا ہے۔اب وہ انعام لے کر آنے والے ڈاکیا کا انتظار کرنے لگا۔ کیا انعام ہوگا؟ کب آئے گا؟
اگلے روز ڈاکیا دوپہر کے بعد ایک خاکی لفافہ لے کر آیا، جس پرہنری کا نام اور پتا درج تھا۔ہنری نے اسے لیا اور والدہ کے پاس دوڑا۔
”امی! امی! یہ آگیا! کیا آپ میری خاطر اسے کھول دیں گی؟“
والدہ نے احتیاط سے لفافہ کھول کر انعام باہر نکالا۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا انعام ہوگا؟ کوئی اندازہ؟؟
وہ ایک بہت بڑا رنگوں کا خوبصورت ڈبہ تھا۔خوبصورت رنگوں سے بھرا ہوا، بالکل ویساہی، جیسا ہنری خریدنا چاہتا تھا۔
”امی!……“ وہ چلایا:”یہ تو اس سے بھی اچھا ہے جو میں خریدنا چاہتا تھا۔ ذرا اسے دیکھئے تو۔ اوہ! میں بہت خوش ہوں۔ یہ ایک بہت ہی اچھا انعام ہے اور اس ڈبے کو انعام میں پانا خریدنے سے بہتر ہے۔“
”اچھا!مجھے بھی بہت خوشی ہوئی ہنری!“ ماں نے کہا:”تم نے اُس رنگوں کے ڈبے کے لئے کوئی شوروغل نہیں کیا جسے تم نہیں خرید سکے تھے، اسی لئے تم ا س خوبصورت انعام کے حقدار ہو۔ بہت اچھے بیٹے!“
اب ہنری اگلے رنگ بھرنے کے مقابلے میں حصہ لینے کے لئے مصروف ہے، لیکن اس بار وہ رنگ بھرنے کے لئے اپنا نیا خوبصورت اور بڑا رنگوں کا ڈبہ استعمال کر رہا ہے۔ اسے امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور وہی چیز جیتے گا جسے وہ چاہتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top