skip to Main Content

کوئل کی عادت

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔

کوئل کی ایک عادت ایسی ہے جس سے تمام پرندے پریشان ہیں، کیا آپ کے پاس مسئلے کا حل ہے؟

۔۔۔۔۔۔

وہ گرمیوں کا ایک دن تھا۔ افریقہ کے جنگل میں شاہ بلوط کے درخت پر ایک فاختہ اور بلبل صبح سے اپنے گھونسلے بنانے میں لگی تھیں۔ اب دن چڑھ آیا تھا لیکن وہ تندہی سے اپنے کام میں مصروف تھیں۔ وہ بار بار اڑ کر جاتیں اور جب واپس آتیں تو ان کی چونچ میں کچھ نہ کچھ دبا ہوتا کبھی درختوں کی ٹہنیاں اور پتے، کبھی گھاس پھوس تو کبھی نرم و نازک پر۔ جب گھونسلے تیار ہوگئے تو دونوں نے ان میں بیٹھ کر دیکھا کہ وہ آرام دہ ہیں کہ نہیں۔ گھونسلے بہت خوب صورت بنا لیے تھے۔ جب وہ ہر طرح سے مطمئن ہوگئیں تو دونوں ایک شاخ پر بیٹھ گئیں لیکن انہوں نے آپس میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ سوچ میں گم تھیں۔
بہت دیر تک وہ اسی طرح بیٹھی رہیں پھر بلبل بولی: ”میرا خیال ہے ہم ایک ہی بات سوچ رہے ہیں؟“ فاختہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گردن ہلائی اور بولی ۔ ”ہاں ہمارا مسئلہ شاید ایک ہی ہے۔ تم اس کالی کلوٹی کوئل کی وجہ سے پریشان ہو نا؟“ بلبل بولی۔
”ہاں! وہ ہر سال ہمارے انڈے گرا کر اپنے انڈے دے دیتی ہے اور ہم اس کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر پالتے رہتے ہیں۔“
”ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ آخر یہ ظلم کب تک چلے گا۔“ فاختہ نے کہا۔
”کیوں نہ ہم پرندوں کے بادشاہ عقاب سے ملیں اور اسے اپنی پریشانی بتائیں۔“ بلبل بولی۔
”اچھی تجویز ہے لیکن عقاب تو اپنی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جنوبی وادی میں گیا ہوا ہے۔ بادشاہت کا فریضہ اس نے الو کو سونپ دیا ہے اور الو حسب عادت اپنا دربار رات میں لگاتاہے، سنا ہے چند چمگادڑوں اور ایک دو الوؤں کے علاوہ وہاں کوئی پرندہ نہیں ہوتا ہم اس سے کیسے ملیں گے؟ رات میں تو ہمیں نظر نہیں آتا۔“ فاختہ بولی۔
”ہم ابھی اس کے پاس چلتے ہیں آخر وہ ہمارا بادشاہ ہے اسے اسی وقت، ہماری فریاد سننی پڑے گی۔“ بلبل نے کہا۔
دونوں نے اڑان بھری اور برگد کے اس سب سے پرانے درخت پر پہنچیں جس پر الو کا بسیرا تھا۔ الو آنکھیں بند کیے خراٹے لے رہا تھا۔ انہوں نے اسے بہت آوازیں دیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ آخر بلبل کو اس کے کان میں تنکا گھمانا پڑا۔ الو ہڑبڑا گیا اور ایک آنکھ کھول کر چیخا۔ ”تم لوگ مجھے کیوں تنگ کررہے ہو؟“ فاختہ بولی۔
”ہم ایک مشکل میں پھنسے ہیں، ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔“
الو نے آنکھیں کھولیں اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا ”بولو کیا بات ہے؟“
فاختہ بولی۔ ”بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہے ہم اپنے بچوں کو کتنا پیار کرتے ہیں۔ ان کے لیے اچھے گھونسلے بناتے ہیں۔ موسم اور شکاریوں سے بچتے ہوئے اپنے انڈے سیتے ہیں، خود بھوکے رہ کر انہیں کھلاتے ہیں اور …. اور۔“
الو نے جمائی لی اور بات کاٹ کر بولا۔ ” ٹھہرو، ٹھہرو! تقریر کی ضرورت نہیں، اپنا مسئلہ بیان کرو۔“
فاختہ چڑ کر بولی۔ ”پچھلے سال میں بچے کو اپنا سمجھ کر پالتی رہی جب اس کے پر نکلے تو وہ کالی کوئل کا بچہ تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں چاہتی تو گرا کر اسے مار سکتی تھی لیکن مجھے رحم آگیا، میں اسے پالتی رہی آخر ایک دن وہ بغیر شکریہ ادا کیے اُڑ گیا۔“
الو نے گردن ہلائی اور بلبل کی طرف متوجہ ہوا۔ بلبل بولی: ”کوئل نے میرے دو انڈے گرا کر اپنے انڈے دے دیے۔ میں انہیں سیتی رہی پھر دونوں بچوں کو دور دور سے لا کر کھانا کھلاتی رہی لیکن وہ کوئل کے بچے نکلے۔ آخر یہ ظلم کب تک چلے گا؟ بادشاہ سلامت ! ہمارا مطالبہ ہے کہ کوئل کو جنگل سے نکال دیا جائے، اس کا جنگل میں اب کوئی کام نہیں ہے۔“ الو سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا: ”یہ ممکن نہیں کیونکہ جن جانوروں کو پہلے جنگل بدر کیا گیا۔ وہ انسانی آبادی میں چلے گئے جہاں انسانوں نے انہیں اپنا فرماںبردار بنا لیا اور ان سے ایسے کام لیے جن سے دوسرے جانوروں کو نقصان پہنچا۔ جیسے گھوڑا اور کتا۔ انسان گھوڑوں پر بیٹھ کر کتوں کی مدد سے معصوم جانوروں کی جان لیتا ہے۔“
”لیکن ہم کوئل کی اس حرکت سے سخت پریشان ہیں۔“
”تمہاری بات درست ہے لیکن اس میں کوئل کا کوئی قصور نہیں ۔وہ شروع سے ہی ایسی ہے ہم اس کی فطرت کو نہیں بدل سکتے۔ ایک دفعہ اس کی کوشش ہوئی تھی۔“ الو سوچتے ہوئے بولا۔ ”مدتوں پہلے چیلوں کی ایک ٹولی نے کوئل کو مجبور کیا کہ وہ اپنا گھونسلہ بنائے۔ وہ ہر وقت اس کی نگرانی کرتی تھیں لیکن کوئل گھونسلہ بنانے پر آمادہ نہ ہوئی آخر انہیں خود ہی اسے گھونسلہ بنا کر دینا پڑا۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے دیکھا کوئل انڈوں پر بیٹھی ہے۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا لیکن کوئل انہیں بے وقوف بنا رہی تھی۔ چند دنوں بعد وہ گھونسلہ چھوڑ کر فرار ہوگئی۔ چیلوں نے دیکھا کہ جنہیں وہ انڈے سمجھ رہی تھیں وہ تو کنکر تھے اور ساتھ کے درخت پر ایک مینا جن انڈوں کو سی رہی تھی وہ کوئل کے انڈے تھے۔ انہوں نے سر پیٹ لیا۔ کچھ دنوں بعد کوئل واپس آگئی اور مسئلہ جوں کا توں رہا۔“
”تو اب ہم کیا کریں؟“ دونوں نے پوچھا۔
الو بولا: ”ہم اس کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اس سے بات کی جاسکتی ہے۔“
”اس سے کب بات ہوگی؟“
”میں اسے بلانے کے لیے کسی کو بھیجتا ہوں۔“ الو ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔ اچانک پتوں میں سرسراہٹ ہوئی اور کوئل نے سر باہر نکالا اور بولی: ”میں بہت دیر سے پتوں میں چھپی آپ لوگوں کی باتیں سن رہی تھی۔ میں بہت شرمندہ ہوں لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں یہ بری حرکت میری فطرت میں شامل ہے لیکن…. لیکن تم دونوں مجھے اپنے گھونسلے دکھادو۔ میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ وہاں انڈے نہیں دوں گی۔“ اس کی آواز بھرا گئی۔
الو نے اسے دلاسہ دیا اور بولا: ” اپنی غلطی تسلیم کرنا اور ان کا حل نکالنا اچھی عادت ہے۔ فاختہ اور بلبل تم اسے اپنے گھونسلے دکھا دو۔“
تینوں الو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے پرواز کر گئیں اور الو نے اپنی نیند کا سلسلہ ایک بار پھر وہی سے جوڑنے کے لیے آنکھیں موندھ لیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top