skip to Main Content

کرایہ

حماد ظہیر

…………………………

’’ صاحب کرایہ تو یہی ہوگا، جانا ہے تو جاؤ ورنہ دوسری بس دیکھ لو‘‘

…………………………

’’اب کیوں کھڑے ہو شاہ جی، کیا کسی انڈے نے روک لیا؟‘‘ صدیقی صاحب نے ڈرائیور کو صدا لگائی۔ وہ ٹریفک پولیس والوں کو انڈوں سے تشبیہہ دیا کرتے تھے۔
’’اجی صاحب، یہ بے چارے پولیس والے سارا دن دھول مٹی اور ٹریفک میں ہماری خدمت کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور آپ انہیں انڈے کہہ رہے ہیں۔‘‘ عثمانی صاحب نے سمجھایا۔
’’تو یہ انڈے کون سے بے کار ہوتے ہیں۔ نہایت فائدہ مند ہوتے ہیں، تبھی تو عوام انہیں ساٹھ روپے درجن خریدتی ہے۔‘‘ صدیقی صاحب جلدی سے بولے۔
’’لگتا ہے شاہ جی اس بھولو کے چکر میں رکا ہے۔‘‘ ماموں مشکوک لہجہ میں بولے۔
دوسروں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں، لہٰذا افضال صاحب چراغ پا ہو کر بولے۔
’’شاہ جی۔۔۔ دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا۔ بھولو کی اس وین میں کوئی سیٹ نہیں، نہ ہی وہ کرایہ دیتا ہے پھر کیوں آپ اسے بٹھاتے ہیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ ڈرائیور کوئی جواب دیتا، بھولو ایک گندا سندا بورا لیے گاڑی میں چڑھ گیا۔بہت سوں نے اسے دیکھ کر ناک بھوں چڑھائی۔
’’ایک تو تم خود ہی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہو۔ اوپر سے اور بھی گند کچرا اٹھا لاتے ہو۔‘‘ ماموں برا سا منہ بنا کر بولے۔
بھولو نے جلدی سے اپنا بوسا سیٹ کے نیچے ٹھونسا اور پھر ایک کونے کی سیٹ میں دبک گیا۔
بس چل پڑی اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی زبان بھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولی میں مگن ہو گیا۔

*۔۔۔*

یہ بس شہر کے ایک بڑے علاقے سے دفاتر کے علاقے کو جاتی تھی۔ اس میں سوار ہونے والے بیشتر افراد ایک وزارت سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ یہ سب لوگ بس کے باقاعدہ ممبر تھے اور ماہانہ بنیاد پر کافی بھاری فیس دیا کرتے تھے۔
کچھ لوگ بے قاعدہ سفر کیا کرتے تھے۔ ان سے روزانہ کی بنیاد پر کرایہ لیا جاتا تھا۔ ان میں بھولو اور دو ایک لوگ شامل تھے۔ بھولو کچی آبادی کے پاس والے اسٹاپ سے چڑھتا تھا۔ اس کے وہاں دو تین کھوکھے تھے ، جن کیلئے وہ سامان وغیرہ لے کر چڑھتا تھا۔
بس کا ڈرائیور ’’ شاہ جی‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ وہ طبعاً کم گو آدمی تھا، لیکن کبھی غصہ میں آتا تو خوب چیختا چلاتا۔ وہ عموماً سڑکوں کے رش اور ٹریفک کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے جھلایا رہتا۔
ماموں جوانی کی حدوں کو پھلانگ چکے تھے، پھر بھی ہیرو بننے کے چکر میں رہتے تھے۔ جگہ بے جگہ اپنے ماضی کے جھوٹے سچے قصے سناتے رہتے۔ اپنے آپ کو نہ صرف دنیا کا سب سے ہوشیار آدمی سمجھتے بلکہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے رہتے۔
افضال صاحب بھاری اور کڑک دار آواز رکھتے تھے۔ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے جب وہ سارے مجمع کو خاموش کرا کے خود کسی جلسہ عام کی طرح تقریر کرسکتے ہوں۔ گو کہ ان کا انداز کسی غنڈہ ٹائپ ولن سے مختلف نہ ہوتا، مگر پھر بھی وہ خود کو ببر شیر سمجھتے جو جنگل میں دھاڑ رہا ہو۔ صدیقی صاحب کا منہ مستقل چلتا رہتا۔ وہ عموماً پان کھاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی بہت سنبھال کر منہ کھولتے (تاکہ پان نہ ٹپک پڑے) اور ایک آدھ طنزیہ جملہ چست کردیتے۔ وہ زیادہ تر باتوں کا جواب سریا آنکھ کے اشارے سے دیتے۔ جواب طلب باتوں کو مسکرا کر ٹال جاتے۔
عثمانی صاحب سنجیدہ آدمی تھے۔ انہیں جرح کرنے کا بے حد شوق تھا۔ کبھی کبھی تو پورے وکیل لگتے، کوئی سنے یا نہ سنے دلائل دیتے رہتے۔ بحث برائے بحث کیلئے ملکی سیاست پر تبصرہ شروع کر دیتے اور کوئی ایسا نکتہ نکال ہی لیتے جس پر گھنٹوں بحث ہو سکے۔
اس وین کا ایک کنڈیکٹر بھی تھا جو ڈرائیور کی مدد کیلئے دروازے پر کھڑا رہتا۔ مڑنے سے پہلے انڈیکٹر کا اور مڑتے وقت شیشوں کا کام دیتا۔ ایسے شیشے جو اردگرد کا منظر دکھانے کے بجائے بول کر بتاتے ہوں ۔ یہ کنڈیکٹر لوگوں سے فیس اور کرائے وغیرہ بھی وصول کرتا تھا اور بوقت ضرورت ڈرائیور کی جگہ لڑبھڑ بھی جاتا تھا۔ بس میں مختلف مزاج کے اور لوگ بھی تھے جو اس میں رونق لگائے رکھتے۔

*۔۔۔*

’’وزیر صاحبہ تو دستخط کرکے اسے فائنل کرچکی تھیں۔ جب میں نے دیکھا تو ان سے درخواست کی کہ میڈم اگر اس میں ذرا سا اضافہ کر لیا جائے تو نہ صرف کمپنیوں کو فائدہ ہو گا بلکہ غریب عوام بھی مستفید ہوں گے۔ پہلے تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئی۔ پھر میں نے جب تفصیل سے سمجھایا تو انہوں نے فوراً وہ تبدیلی کی۔ سمجھو کہ یہ آرڈیننس حکومت کا نہیں بلکہ میرا بنایا ہوا ہے۔‘‘ ماموں کہہ رہے تھے اور اردگرد کے لوگ بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔
دوسری طرف عثمانی صاحب ناک پر بھاری سا چشمہ لگائے کہہ رہے تھے۔ ’’برسراقتدار پارٹی کے کان نہیں ہوتے، وہ کسی کی کچھ نہیں سنتی جبکہ اپوزیشن کے ہاتھ نہیں ہوتے، وہ کبھی کچھ نہیں کرتی۔‘‘
’’ لیکن صاحب بغیر ہاتھوں کے بھی بھلا کچھ کیا جا سکتا ہے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’ کیوں نہیں۔۔۔ دعوے کیے جا سکتے اور کیے بھی جاتے ہیں۔ ہاتھوں والا کوئی کام نہیں کیا جاتا۔‘‘
’’ بلیک میلنگ بھی تو ہوتی ہے۔ اپوزیشن کا مطلب ہے۔ اپ۔۔۔ پوزیشن۔‘‘ صدیقی صاحب نے بھی حصہ لیا۔
’’ میں نہیں مانتا۔۔۔ کس نے کہا یہ؟؟‘‘ افضال صاحب دھاڑے۔ سب خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ وہ کنڈیکٹر سے مخاطب تھے۔
’’روز روز کرایہ بڑھا دیتے ہو۔ کوئی حد بھی ہے۔ جب ڈیزل کی قیمت کم ہوتی ہے تو کم نہیں کرتے۔‘‘ افضال صاحب کی بات پر کنڈیکٹر بولا۔
’’ صاحب کرایہ تو یہی ہوگا، جانا ہے تو جاؤ ورنہ دوسری بس دیکھ لو۔‘‘ 
’’دوسری بس تم دیکھ لو۔ تمیز نہیں ہے بات کرنے کی۔ جاہل ، گنوار ، بدتمیز، پتا بھی ہے کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘ افضال صاحب پھٹ پڑے۔
’’تینوں سے!‘‘ کسی نے آہستہ سے کہا۔
’’ او۔۔۔ لڑائی وڑائی بند کریں۔ یہ بس وارے میں نہیں آرہی ہے جی ۔۔۔ کبھی اتنی بڑی گاڑی رکھی ہو تو پتا بھی ہو خرچوں کا۔ مالک نے بھی کہا ہے کہ کچھ بچے گا منافع، تبھی چلائے گا گاڑی۔۔۔ ابھی تو میرا ہی خرچہ نہیں بچتا۔‘‘ ڈرائیور نے کچھ جھلا کر اور کچھ سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’ خدا کا خوف کرو شاہ جی۔۔۔ اتنے پیسے جو ہم دیتے ہیں، آخر وہ جاتے کہاں ہیں؟‘‘ عثمانی صاحب حیرت سے بولے۔
’’ ابھی پمپ آئے گا نا تو ذرا ٹنکی فل کا بل دینا۔‘‘ شاہ جی بے نیازی سے بولے۔
ادھر بے چارہ کنڈیکٹر ہر کسی کو کرایے کے اضافہ کی تفصیل بتا رہا تھا اور ان سے گلی سڑی سن رہا تھا۔
’’اگر ہم سب ایکا کر لیں تو ان کی مجال نہیں کہ کرایہ کا ایک روپیہ بھی بڑھائیں۔‘‘ ماموں نے خیال پیش کیا۔ 
’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ایسے کہ ہم میں سے کوئی بھی زیادہ کرایہ نہ دے۔ اب وہ ممبران کو تو چھوڑنے سے رہا۔ ‘‘
’’ہاں بالکل! واہ واہ ۔۔۔ ‘‘ ماموں کے خوشامدیوں نے مکھن لگایا۔
’’ بس یہ طے ہوا۔ ہم میں سے ایک بندہ بھی اضافی کرایہ نہیں دے گا۔‘‘ افضال صاحب نے اعلان کیا اور لوگوں نے اس پر تبصرے شروع کر دیئے۔

*۔۔۔*

اگلے دن کنڈیکٹر کا منہ پھولا ہوا تھا۔ شاہ جی کا بھی موڈ آف تھا۔ جب سارے لوگ پورے ہو گئے تو کنڈیکٹر بولا۔
’’اگلے ماہ سے۔۔۔‘‘ افضال صاحب نے بات کاٹی۔ ’’ کوئی اضافی کرایہ نہیں دے گا۔‘‘ 
کنڈیکٹر بولا۔ 
’’ نہیں ۔۔۔ بلکہ کوئی کرایہ ہی نہیں دے گا، بس کے مالک نے اسے بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
’’کیا۔۔۔ مگر کیوں؟؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’اس کی جتنی قیمت ہے، اس کے مقابلے میں یہ نہ ہونے کے برابر منافع دے رہی تھی۔ اس لیے مالک نے سوچا کہ اسے کیش کرا لے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اب کیا ہوگا؟‘‘ کچھ لوگ پریشان ہو گئے۔
’’ نئی بس دیکھیں گے، اور کیا ہوگا؟‘‘ افضال صاحب بولے ۔
’’ارے عثمانی صاحب، آپ کے پاس تو گاڑی ہے نا، مجھے بھی لیتے جائیے گا۔‘‘ صدیقی صاحب جلدی سے بولے۔
’’کوئی مفت کی تھوڑا ہی ہے۔ چلنا ہو تو ٹیکسی سے آدھا کرایہ دے کر چلئے گا۔‘‘عثمانی صاحب نے صاف جواب دے دیا۔
’’او۔۔۔ آپ سب کا تو کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا، یہ تو سوچیں کہ میں اور بالا بے روزگار ہوجائیں گے۔‘‘ شاہ جی اداسی سے بولے۔
’’تم بھی کوئی نئی بس دیکھنا۔‘‘ کسی نے مشورہ دیا۔
’’ آپ لوگ اتنے بڑے بڑے افسر ہو، اگر کچھ پیسے ملا لو تو یہ بس ہی خرید لو۔‘‘ شاہ جی آس لگا کر بولا۔ 
’’ نہ ۔۔۔ نہ جی۔۔۔ بڑا رسکی کام ہے۔ آج کل تو گاڑیاں جلتے آدھا منٹ نہیں لگتا۔ ہمیں ڈبونے ہیں کیا اپنے پیسے!‘‘ ماموں نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’اچھا سال بھر کا ایڈوانس کرایہ ہی دے دو تو کچھ بات بنے۔‘‘ 
’’ بھئی زندگی کا کیا بھروسہ۔‘‘ صدیقی صاحب بولے اور پھر عثمانی صاحب کی طرف اشارہ کرکے بولے۔
’’ اور ان کی زندگی کا تو بالکل ہی نہیں ہے۔‘‘ ایک قہقہہ لگا اور لوگ پھر ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہو گئے۔

*۔۔۔*

مہینہ کی آخری تاریخوں میں پتا چلا کہ ابھی بس کا سودا چل رہا ہے، لہٰذا ایک ماہ اور یہ حسب سابق چلے گی۔ ایک ماہ میں کئی لوگ بھول گئے ۔ اکا دکا نے پوچھا بھی تو پتا چلا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں۔
ایک دن بس کی اگلی سیٹ پر موبل آئل الٹ گیا اور اس بری طرح پھیلا کہ وہاں بیٹھنا تو درکنا ر تھا قریب سے گزرنے پر بھی کپڑے گندے ہوجاتے۔ افضال صاحب پچھلی سیٹ پر برے برے منہ بناتے ہوئے بیٹھ گئے۔
کچی آبادی کے اسٹاپ سے بھولو مع اپنے سامان کے چڑھا اور اپنی سیٹ کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ جس پر افضال صاحب براجماں تھے۔
’’دور ہٹو۔ گندے آدمی ۔ کیوں بدبو اور جراثیم پھیلا رہے ہو۔ ‘‘ افضال صاحب چلائے۔
بھولو مسکراتا ہوا چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’ بھئی تمہاری سیٹ پر بیٹھے ہیں تو کوئی بات نہیں، تم ان کی گود میں بیٹھ جاؤ۔‘‘ ماموں ہنسے۔ بھولو بھی دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ افضال صاحب چراغ پا ہو گئے۔ 
’’کمبخت ، مفت خور۔ ایک تو ہمارے ٹکڑوں پہ پل کر چل رہا ہے اوپر سے بدتمیزی بھی۔‘‘
’’ نہیں نہیں افضال صاحب، مہینہ میں ایک آدھ بار دس روپے دیتا ہے۔ مفت خور نہ کہیں۔‘‘ کسی نے مذاق اڑایا۔ بھولو بدستور مسکراتا رہا۔ افضال صاحب کو مزید طیش آگیا۔ 
’’ آج تو تجھ ہڈحرام کو بس سے اتار کر رہوں گا۔ روکو بس کو روکو۔‘‘ وہ شاہ جی کی طرف متوجہ ہو کر چیخے۔ بس رکی اور کنڈیکٹر بھی آگیا۔ 
’’اتارو اس بدتمیز اور گندے آدمی کو۔ جب کرایہ نہیں دیتا تو لے کر کیوں جاتے ہو۔ ہم سب کا موڈ اور بس کا ماحول خراب کرتے ہو۔ آج اس بس میں یہ صفائی ہو کر رہے گی۔ ‘‘ انہوں نے بھولو کودھکا دینا شروع کر دیا۔
’’ یہ صفائی ضرور ہو گی صاحب۔ ہم بھی تنگ آگئے ہیں روز روز کی چیخ و پکار سے۔ لہٰذا آپ فوراً بس سے اتر جائیے۔‘‘ شاہ جی اور کنڈیکٹر دونوں نے افضال صاحب کے ہاتھ پکڑ لیے۔
’’ یہ۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو، بھولو کو اتارو۔‘‘ وہ ہکلائے۔
’’ آپ نے آج پندرہ تاریخ تک بھی فیس نہیں دی، مفت خورے آپ ہیں اور بدتمیز بھی۔ یہ بھولو تو اس بس کا مالک ہے۔ پچھلے ماہ اس نے اپنے کھوکھے بیچ کر بس خریدنے کیلئے پیسے ملائے تھے۔‘‘ ڈرائیور شاید انہیں اپنے ہاتھوں کے زور سے نہ اتار پاتا لیکن اس کی اس بات نے افضال صاحب کو ایسا شرمسار کیا کہ وہ منہ چھپانے ہی کیلئے بس سے فوراً اتر گئے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top