skip to Main Content
ڈُگڈگی

ڈُگڈگی

محمد الیاس نواز

کردار:

سلیم صاحب

بیگم سلیم

سلیم صاحب کے بچے

مداری

بندر

تماش بین

پس منظر

بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد دوالگ الگ جگہوں پر دو مختلف کام ہو رہے ہوتے ہیں،اور اُن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا،لیکن اتفاقیہ طور پر ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ دیکھنے یا سننے والا یہ سمجھتاہے کہ شاید دونوں کا آپس میں تعلق ہے۔

مناظر

صبح کا وقت ہے ۔شہر کے ایک متوسط علاقے کی ایک کشادہ گلی میں ایک مداری کپڑے کا ایک میلا کچیلا جھولا کندھے پر لٹکائے،دوسرے کندھے پر بندر کو بٹھائے نمودار ہوتا ہے۔مداری سلیم صاحب کے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ مناسب جگہ دیکھ کر اپنی رلّی بچھاتا ہے۔بندر کو پاس بٹھاتا ہے۔جھولے میں سے ٹین کا ایک ڈبہ،ڈُگڈگی اور چند چھوٹی موٹی دوسری چیزیں نکال کر ترتیب سے رکھنے لگتاہے۔اُدھر دیوار کے اُس پار خاتونِ خانہ(بیگم سلیم) دسترخوان بچھا کر ناشتے کا سامان دسترخوان پرترتیب سے چننے لگتی ہیں۔

(پردہ اٹھتا ہے)

 

مداری اپنا سامان ترتیب سے رکھنے کے بعدتھیلے میں سے پاپے اور ڈبل روٹی کے مانگے تانگے کے ٹکڑے نکال کر خود بھی روکھے سوکھے کھانے لگتا ہے اور بندر کو بھی کھانے کو دیتا ہے۔دوسری طرف دیوار کے اُس پار(گھر کے اندر)دستر خوان پر سلیم صاحب ،اہلیہ اور بچے ناشتہ کررہے ہیں۔

اِدھر مداری ناشتے کے بعد تماشا کرنے کو تیار….تماشائیوں میں چند بڑے اور چند اسکول نہ جانے والے غریبوں کے بچے شامل…ڈگڈگی کی آواز….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ….

 

مداری:(بندر سے مخاطب ہو کر ہاتھ میں پکڑی ڈنڈی زمین پر مارتے ہوئے)’’چل بھئی لڑکے!….جنٹل مین!…اٹن شن!….. اپنا کام شروع کر اور سب سے پہلے صاحب لوگوں کو بتا کہ ہم سب کا پالنے والا اور اس دنیا کا مالک کون ہے؟….شاباش!‘‘

 

(بندر اپنے منہ کا رخ آسمان کی طرف کر لیتا ہے اور ساتھ ہی ایک ہاتھ اٹھا کر اُوپر کی طرف اشارہ کرتا ہے اور چند سیکنڈ اسی حالت میں کھڑا رہتا ہے….تماش بین حیرت سے بندر کو دیکھتے ہیں اور خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں……مداری ڈگڈگی بجاتا ہے… .ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…پھر کہتا ہے….

 

مداری:’’ دیکھو جی !…انسان اپنے بنانے والے کو بھول جاتا ہے… مگر یہ جانور ہو کر بھی آپ کو بتائے گا… کہ دنیا کس نے بنائی…چل بھئی لڑکے…سجدہ کرکے اللہ کو یاد کر شاباش! ‘‘…..ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(بندر دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر سر کو زمین سے لگا دیتا ہے….تالیاں بجنے لگتی ہیں)

 

مداری:’’شاباش بھئی جنٹل مین !…. صبح صبح مالک کے کو یاد کرنے کے بعدانسان پہلا کام کیا کرتاہے….بتا ذرا اپنے دیکھنے والوں کو!‘‘….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(بندر پانچوں انگلیاں جمع کرکے منہ سے لگا دیتا ہے)

 

مداری:’’یہ کہتا ہے کہ انسان روزی کی تلاش میں نکلتا ہے….چل پھر صاحب لوگوں کو بتاؤ منکی!… کہ آفس کیسے جاتے ہو ،شاباش ذرا آفس جا کر دکھاؤ!….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…‘‘

 

(بندرگلے میں ٹائی ڈالے ،چشمہ لگا کرمجمعے میں ایک چکر لگاتا ہے پھر ٹین کے چھوٹے سے ڈبے پر بیٹھ کر ہاتھوں کو ایسے گھمانے لگتا ہے جیسے گاڑی چلا رہا ہو)…’’واہ بھئی واہ..لڑکا گاڑی میں آفس جاتا ہے‘‘…اُدھر سلیم صاحب دعائیں پڑھتے ہوئے گھر سے نکلتے ہیں اور آفس جانے کے لیے گاڑی میں جا بیٹھتے ہیں۔)

 

مداری:’’واہ بھئی لڑکے …اب تم بڑے ہوگئے ہو،تم نے آفس جا کرتو دکھا دیا…اب ذرا صاحب لوگوں کو بتاؤ کہ چھوٹے تھے تواسکول کیسے جاتے تھے….لو بھائی جی! اب لڑکا اپنا بچپن دکھا رہا ہے‘‘….ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(اِدھر بندرمداری کا دیا ہوابستہ پہنے ،گلے میں تھرماس اورہاتھ میں لنچ باکس لٹکائے مداری کے گرد چکر لگانے لگتا ہے، اُدھر دیوار کے پار سلیم صاحب کے دونوں بچے اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔)

 

مداری:’’دیکھ بھئی لڑکے!…تم نے پیٹ کی خاطر دیکھنے والوں کو آفس بھی جا کر دکھا یا….بچہ بن کر بھی دکھا دیا…اب ذرا صاحب لوگوں کو یہ بتاؤ کہ گھر کی بیبیاں سبزی ترکاری لینے کیسے جاتیں ہیں…. چل شاباش دکھا تاکہ صاحب لوگ تجھے انعام دیویں‘‘…..ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(بندر کپڑے کا تھیلا ہاتھ میں پکڑ کر ایک میلا کچیلا کپڑا سر پر اوڑھتا ہے،پھر چپل پاؤں میں ڈال کر دو چکر مداری کے گرد لگاتا ہے….تالیاں بجنے لگتی ہیں….اُدھر بیگم سلیم سودے والا تھیلا سنبھالے عبایا پہن کر گھر سے نکل پڑتی ہیں)

 

مداری:(بندر کے چند اور کرتب دکھانے کے بعد)’’ارے بھئی لڑکے !…ایک تو تو بھول بہت جاتا ہے…‘‘….(بندر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے)….’’سبزی خراب ہو جائے گی تب پکائے گا؟….چل ذرا بتا اللہ کا نام لے کر کہ گھر میں کھانا کیسے پکایا جاتا ہے… شاباش جلدی سے گرما گرم کھانا تیار کرکے دکھا صاحب لوگوں کو‘‘……ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

(بندرباورچیوں جیسا کپڑا گلے میں ڈال کر پہلے زمین پر آٹا گوندھنے کی اداکاری کرتا ہے، پھر تالیاں بجا کر خیالی روٹیاں پکاتا ہے، پھرٹین کے ڈبے میں لکڑی چلا کر سالن بنانے لگتا ہے…اُدھر دیوار کے اُس پار بیگم سلیم اپنے باورچی خانے میں کھانا تیار کرنے میں مصروف ہیں۔)

 

مداری:(بندر کی کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے)’’چل بھئی جنٹل مین بوائے!.. بتا ذرااپنے دیکھنے والوں کو …کہ مصروف آدمی گھڑی میں وقت کیسے دیکھتا ہے؟‘‘…..ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(بندر بڑے انداز سے کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھتا ہے کہ تماشائی تالیاں بجانے اور قہقہے لگانے لگتے ہیں….اُدھربیگم سلیم باورچی خانے سے نکل کر سامنے والی دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھتی ہیں….اتنے میں مجمعے میں سے ایک تماشائی مداری کی طرف ایک نوٹ بڑھاتے ہوئے فرمائش کرتا ہے کہ بندر سے کھانا پکانے والا کرتب دوبارہ کروا کر دکھاؤ…بہت مزے کا ہے۔)

 

مداری:’’چل بھئی لڑکے …اللہ کی ذات سب کو رزق دینے والی ہے….صاحب کو تیراپکایا ہوا کھانا بہت پسند آیا ہے…صاحب کی فرمائش ہے کہ ان کو دوبارہ کھانا پکا کر دکھا….شاباش جنٹل میں…اٹن شن‘‘……ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ….

 

(بندر کھانا پکانے کی اداکاری دوبارہ کرنے لگتا ہے جبکہ بیگم سلیم گھڑی میں وقت دیکھنے کے بعد دوبارہ باورچی خانے میں داخل ہو تے ہوئے خود کلامی کرتی ہیں…)

 

بیگم سلیم:(اپنے آپ سے)’’ایسا کرتی ہوں کہ آج میٹھا تیار کر لیتی ہوں، شام کی چائے کے ساتھ بچوں کواور ان کے ابو کو دے دوں گی…‘‘

 

مداری:’’چل بھئی لڑکے آخری کرتب دکھا پھر آرام کریں گے اور یہ صاحب لوگ بہت سخی ہیں ….تجھے انعام بھی دیں گے….یہ تیرا فن مفت میں تھوڑا ہی دیکھنے آئے ہیں ….چل پھر ان کو دکھا کہ جب بچے اسکول سے آتے ہیں تو کیسے آتے ہیں؟ ‘‘.ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ،دَڑُگ…

 

(بندر ہاتھ میں پکڑے بستے کو ایک طرف ڈالتا ہے اور باقی چیزوں کو دوسری طرف ڈال کر ایک طرف ہو کر پڑ جاتا ہے….اُدھرسلیم صاحب کے بچے اسکول سے واپس آکر گھرمیں داخل ہوتے ہیں اور اپنی چیزیں ادھر ادھر ڈال کر صوفے پر پڑ جاتے ہیں۔)

 

مداری:’’چل بھئی لڑکے اب تھک گئے ہیں اوربھوک بھی لگ رہی ہے..اب کھانا کھالیں جو کچھ مالک نے دیا ہے روکھا سوکھا ،اُس کا شکر ہے۔‘‘

 

(مداری جھولے میں سے پٹاری نکالتا ہے اور اس میں سے گھی سے چپڑی باسی روٹی نکال کر خود بھی کھاتا ہے اور بندر کو بھی ایک روٹی تھما دیتا ہے۔اُدھر بیگم سلیم اور بچے دسترخوان پر دوپہر کا کھانا کھارہے ہیں….کھانا کھانے کے بعد تھکا ہو امداری جھولا سر کے نیچے رکھ کر سیدھی کروٹ پر سو جاتا ہے۔.اُدھرکھانے سے فارغ ہو کر بیگم سلیم اور بچے اپنے کمروں میں آرام کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں….مداری کو نیند آتے ہی بندر تھیلے میں سے بچی کھچی روٹی نکال کر کھانے لگتا ہے جبکہ بیگم سلیم کو نیند آتے ہی بچے فریج کی تلاشی لینے باورچی خانے کو آنکلتے ہیں اور آن کی آن میں میٹھے والے کٹورے کا صفایا کر جاتے ہیں…شام کو مداری نیند سے اٹھ کرسامان سمیٹنے لگتا ہے۔اتنے میں سامنے سے ایک بچی ہاتھ میں پیسے دبائے بندر کے کرتب دیکھنے کے لیے آتی ہے…مداری بچی سے کہتا ہے…)

 

مداری:’’اب آئی ہو !…جب ساراتماشا ختم ہو گیاہے؟‘‘

 

(اُدھر بیگم سلیم فریج کھولتی ہیں تو سارا میٹھا ختم ہو چکا ہوتا ہے….اِدھر بچی کے چہرے پر مایوسی نظر آتی ہے…اُدھر بیگم سلیم کا منہ لٹکا ہوانظر آتا ہے….مداری کندھے پر جھولا لٹکائے بندر کو ساتھ لیے جاتا نظر آتا ہے ….)

 

پردہ گرتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top