skip to Main Content

ڈاکو بھائی

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔

”فرح باجی!ایک گلاس پانی تودینا۔“فاروق بھائی نے لحاف سے جھانکتے ہوئے کہا۔
”خودپی لو،اُٹھ کر۔“فرح باجی نے براسامنہ بناکرکہا۔
”پلیز!ایک گلاس پانی دے دونا،مجھے شدید پیاس لگی ہے۔“فاروق بھائی نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
”غضب کی سردی پڑرہی ہے اور تمہیں پیاس لگی ہے، ہے کوئی بات؟“
”کیا شدید سردی میں پیاس نہیں لگ سکتی۔؟“فاروق بھائی نے جھلا کر کہا۔
”لگ سکتی ہے…میں نے کب کہا کہ نہیں لگ سکتی۔“
”توپھراُٹھ کرپانی دے دیں نا!“
”تم ایک کام کیوں نہیں کرتے۔“باجی نے منہ سے لحاف ہٹاتے ہوئے کہا۔
”کیا؟“فاروق بھائی نے جلدی سے پوچھا۔
”یہی کہ اُٹھ کر اچھے بچوں کی طرح خود پانی پی لو۔“وہ مسکرائیں۔
فاروق بھائی نے براسامنہ بنایا،بولے:
”اگرآپ ایک گلاس پانی پلادیں گی توکوئی قیامت نہیں آجائے گی۔“
”یہی بات میں تمہارے لیے کہتی ہوں،خود اُٹھ کر پانی پی لو گے توگھس نہیں جاؤگے اورویسے بھی اپنے ہاتھ سے کام کرنا سنت ہے۔ شاباش!اُٹھواورپانی پی لو،بلکہ یوں کرو،ایک گلاس پانی مجھے بھی دے دو۔“فرح باجی کی بات سن کر فاروق بھائی توجل کر کوئلہ ہی ہوگئے۔
”باجی!یہ آپ اچھانہیں کررہی ہیں۔کسی دن آپ کو بھی کام پڑسکتاہے،پھر نہ کہیے گا۔“
”نہیں کہتی۔“فرح باجی شوخی سے مسکرائیں۔
فاروق بھائی نے ان سے نااُمیدہوکر میری طرف دیکھا۔پیار بھری آواز میں بولے:
”تم تومیرے اچھے بھائی ہو،تم ہی ہمت کرواورمجھے پانی پلادو۔“
”آپ ایک گھنٹے سے دوسروں کی منتیں کررہے ہیں،خود کیوں نہیں اُٹھ جاتے؟“میں نے جل کر کہا۔
”اس لیے کہ میں لحاف سے باہر نہیں نکل سکتا۔“انہوں نے کہا۔
”کیوں!کیالحاف آپ سے چپک گیاہے یا آپ لحاف سے۔“میں نے کہا۔
”دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں ہے۔“وہ آہستہ سے مسکرائے۔
”پھر کیا مسئلہ ہے؟“میں نے حیرت سے پوچھا۔
”بات دراصل یہ ہے کہ میں جیسے ہی لحاف سے باہرنکلوں گا،مجھے سردی لگ جائے گی اورتمہیں تومعلوم ہوگا کہ سردی لگنے سے آدمی کو نمونیاہوجانے کا خطرہ ہوتاہے۔“فاروق بھائی نے جلدی جلدی کہا۔
”شاباش!آ پ کاخیال ہے،دوسرے انسان نہیں ہیں؟یاوہ سردی پروف ہیں۔“میں نے جل کرکہا۔
”یہ بات نہیں،چھوٹے ہمیشہ اپنے بڑوں کی خدمت کرتے ہیں۔“فاروق بھائی مسکرائے۔
”کیافرح باجی آپ سے چھوٹی ہیں؟“میں نے پوچھا۔
”بھئی!بڑوں کا بھی حق بنتاہے کہ چھوٹوں کا خیال رکھیں،اگربڑے ہی چھوٹوں کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیں تویہ خدمت پھرکون کرے گا“فاروق بھائی نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
”ایسا دکھائی دیتاہے،تم لوگ خودنیند لوگے اور نہ ہی کسی دوسرے کر سونے دوگے۔میں کہتی ہوں،تم لوگ آرام سے سوکیوں نہیں جاتے۔“امی جان کی کڑکتی آوازسن کر فرح باجی اور میں نے جلدی سے لحاف منہ پر لے لیا۔
”امی جان!مجھے پیاس لگ رہی ہے۔“فاروق بھائی کی آوازسن کر ہم دونوں نے لحاف منہ سے ہٹائے۔
”ایک گھنٹے سے تقریرجھاڑرہے ہو،اُٹھ کرخود پانی کیوں نہیں پی لیتے۔“امی جان نے انہیں گھورا۔
”وہ…وہ…امی جان…سردی…لگ…لگ جائے گی۔“فاروق بھائی نے اٹک اٹک کرکہا۔
”ٹھیک ہے،میں تمہیں پانی دیتی ہوں،کیونکہ مجھے سردی نہیں لگتی ہے۔“امی جان نے غصے سے کہا اور اُٹھنا چاہتی تھیں کہ فاروق بھائی نے لحاف پرے پھینکا اورچھلانک لگاکر چارپائی سے نیچے کودے اور جب پانی پی کر دوبارہ لحاف میں گھسے توان کے دانت بج رہے تھے۔آج واقعی بہت سردی تھی۔
”اب اگرکسی کی آواز سنائی دی توکان کھینچ لوں گی…سمجھے؟“امی جان بولیں۔
”لیکن امی!آوازتوزبان سے…میرامطلب ہے،آواز تو منہ سے نکلے گی اور آپ نے کان کھینچنے کی دھمکی دی ہے۔یہ توزیادتی ہوگی، بے چارے کان کے ساتھ۔“فاروق بھائی نے ڈری ڈری آواز میں کہا۔امی جان نے گھورکر ان کی طرف دیکھا اوربولیں:
”فاروق،تمہیں تو میں صبح دیکھ لوں گی۔“
”اب کیوں نہیں امی جان؟“فرح باجی کی شوخ آواز اُبھری۔امی جان نے غضب ناک نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔اس سے قبل کہ کچھ کہتیں،معاًایک تیزآواز لہرائی۔
سب کے کان کھڑے ہوگئے،بالکل خرگوش کے کانوں کی صورت،پھر سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،جیسے پوچھ رہے ہوں، بھئی! یہ کیسی آواز تھی،کوئی کچھ نہ بولا۔آواز ایک بارپھرلہرائی۔اس بارپہلے سے تیز تھی۔
”یہ…یہ تو یوں لگتا ہے، جیسے کوئی گنگنایا ہو۔“فرح باجی نے سہم کر کہا۔
”کون ہوسکتاہے؟“فاروق بھائی بولے۔اُن کے لہجے میں بھی خوف تھا۔
”ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، کوئی بلی وغیرہ ہوگی۔“میں نے لاپروائی سے کہا۔عین اُسی وقت ایک ہلکی سی چیخ گونجی۔سب اپنے اپنے بستر پراُچھل پڑے اور پھر حیرت و خوف سے ایک دوسرے کو کوتکنے لگے۔
”امی!مجھے ڈرلگ رہاہے۔“فرح باجی کی آواز میں کپکپاہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
”کچھ یہی حال میرا بھی ہے۔“یہ فاروق بھائی تھے۔
”کیا تمہیں بھی خوف محسوس ہورہاہے،امجد؟“امی جان نے مجھ سے پوچھا۔
”جی نہیں امی،میں ان کی طرح بزدل نہیں ہوں۔“میں نے سینہ پھلا کر کہا۔عین اسی وقت دروازے پر زورداردستک ہوئی اورمیں بستر سے اُچھل کر فرش پر آرہا۔
”کون ہے؟“امی جان قطعاًخوفزدہ نہیں تھیں اور یہ بات ہمارے لیے حیران کن تھی،کیونکہ امی جان پورے گھرمیں سب سے زیادہ بزدل یا ڈرپوک مشہورتھیں۔اس وقت ان کی دلیری اور بے خوفی قابل دِیدتھی۔ہم نے دیکھا،باہر سے جواب نہ ملنے کے باوجود امی جان چارپائی سے اُٹھیں اور دروازے پر پہنچ گئیں:
”باہرکون ہے؟“انہوں نے گرج دار آواز میں کہا۔ باہر سے اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا۔
”کیا تم بہرے ہو؟میری آواز نہیں سن رہے کیا؟“
جواب میں ایک زور دار قہقہہ سنائی دیا اور ساتھ ہی عجیب سی آواز میں کہا گیا:
”میں ڈاکوہوں اوراس گھرکا صفایا کرنے آیاہوں۔“
”ڈاکو!!“فاروق بھائی نے بلند آواز سے کہا اور لگے تھر تھر کانپنے۔
”ہاں،جلدی سے دروازہ کھولو۔میرے پاس وقت بہت کم ہے۔“
”دیکھو!ڈاکوبھائی،جو کچھ بھی ہے،دوسرے کمرے میں ہے،آپ وہاں سے لے لیں۔پلیز!ہمیں مت تنگ کریں۔ہم کمزور دل کے لوگ ہیں،آپ کادیدارنہیں کرسکیں گے۔“میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔امی جان نے شعلہ برساتی نگاہوں سے مجھے دیکھا،بولیں:
”یہ کیا بک رہے ہو؟“
”ہاں!یہ کیا بک رہے ہو پاگل؟“فرح باجی نے امی کے انداز میں کہا۔
”تم لوگوں نے اپنی ٹرٹر شروع کردی۔ دروازہ کھولو،میر ے پاس ضائع کرنے کے لیے فالتووقت نہیں ہے۔“ڈاکوکی ناگوارسی آواز سنائی دی۔
”ایسا عجیب اورغریب ڈاکو ہم زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔“فاروق بھائی نے پرسکون آواز میں کہا۔شاید انہوں نے خو دکوسنبھال لیاتھا۔
”تم مجھے دیکھ کب رہے ہو،میں تودروازے کے اس پارہوں۔“ڈاکو زور سے ہنسا۔
”ڈاکو بھائی!درست کہاآپ نے،لیکن ہم کہہ چکے ہیں،اس کمرے میں سوائے ہم لوگوں کے اورکچھ نہیں ہے۔زیوراورنقدی ساتھ والے کمرے میں موجود ہے۔آپ وہاں سے لے لیں۔“فاروق بھائی نے کہا۔
”وہ تومیں لے ہی لوں گا۔اصل میں،میں آپ لوگوں سے ایک بات کہناچاہتاہوں،جلدی دروازہ کھولیں۔“آواز آئی۔
”ایک بات توآپ دروازہ کھلوائے بغیر بھی کہہ سکتے ہیں،بلکہ ایک سے زاید باتیں بھی، پھردروازہ کھلوانے پرکیوں بضد ہیں۔“ میں نے کہا۔
”جوبات کہناچاہتاہوں،وہ یوں کہنے سے مزانہیں آئے گا۔“ڈاکو کی آواز میں شوخی تھی۔
”توآپ یوں کہیں نا، مزالینے کے لیے دروازہ کھلوارہے ہیں۔“میں نے جل کرکہا۔امی جان نے گھورکرمیری طرف دیکھا،بولیں:
”یہ کیا کہہ رہے ہو،اس موئے سے بچنے کے لیے کوئی ترکیب سوچو۔“ان کی آواز بہت مدہم تھی۔اتنی کہ باہر نہیں پہنچ سکتی تھی۔
”ویسے، میں نے ایسا ڈاکو آج سے پہلے دیکھا،نہ سنا…یہ ضرور کوئی چکرہے۔“فرح باجی نے سرگوشی کی۔
”یہ تو آپ نے ایسے کہا، جیسے آپ پہلے ڈاکو دیکھ چکی ہیں۔“ میں نے انہیں گھورا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ ہم اپنی اپنی چارپائیوں پر بیٹھے تھے اور کمرے کے دروازے کو دیکھ رہے تھے۔
”چکر…کیسا چکر؟“ امی جان نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے، فرح باجی سے پوچھا۔
”اس کا تو مجھے پتا نہیں، لیکن…“
”ایک توانوربھائی ابھی تک لاہور سے واپس نہیں لوٹے۔وہ بہت بہادرہیں،اس موقع پر ضرورکچھ کرتے۔“فاروق بھائی نے کہا۔تمام باتیں سرگوشیوں میں ہورہی تھیں۔ ڈر اور خوف پر لگا کر اُڑ چکا تھا اور اب میرا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ میں اس مشکل صورت حال میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔
”امی!آپ اسے باتوں میں لگائے رکھیں،میں کھڑکی سے باہر جاکر دیکھتاہوں۔“میری بات سن کر امی جان خوفزدہ ہوگئیں،بولیں۔
”اگرسچ مچ کاڈاکو ہواتو؟“
”آپ کا خیال ہے،جھوٹ موٹ کے ڈاکو بھی ہوتے ہیں؟خیر،کوئی بھی ہو،میرے اس بیٹ سے بچ نہیں پائے گا۔پہلے اس سے میدان میں چھکے لگتے تھے۔آج یہاں بھی ایک عددچھکالگ جائے گا۔ویسے آپ تینوں میری کامیابی کے لیے دُعا کیجئے گا۔“میں نے کہااور بیٹ اُٹھاکر کھڑکی کے راستے باہر نکل گیا۔باہر بہت اندھیرا تھا۔جب بیرونی دروازے کے پاس پہنچاتوحیران رہ گیا۔ دروازہ چوپٹ کھلا تھا۔میں دبے پاؤں اندرداخل ہوا۔احتیاط سے دروازہ بند کرکے کنڈی لگادی۔گویاڈاکو صاحب کے فرار کا راستہ بندکرچکاتھا۔ جب میں اس کمرے کے سامنے پہنچا،جس کے باہر ڈاکوصاحب موجود تھے توحیران رہ گیا۔ڈاکوکوئی اور نہیں،میرے بڑے بھائی انورتھے،وہ لاہور سے واپس آچکے تھے اوراب آواز بدل کر ڈاکوبنے ہوئے تھے۔انہوں نے مجھے دیکھ کر ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔گویایہ اشارہ تھا کہ خاموش رہو۔پھر وہ میرے پاس آئے اورسرگوشی کرتے ہوئے بولے:
”بیرونی دروازہ کھلاتھا،تم نے دیکھ ہی لیا ہوگا۔میں نے سوچا،تم لوگوں کو تنگ کیاجائے۔“
”ہم لوگ توآپ سے یوں بھی تنگ ہیں۔“میری زبان سے یہ الفاظ سن کر بھائی انورمجھے مارنے دوڑے مگرمیں نے انہیں اس کا موقع ہی نہ دیا۔تڑپ کردور چلاگیا۔بھائی جان دانت پیس کر رہ گئے۔چند لمحے خاموشی میں گزر گئے،پھروہ بولے:
”کھلے دروازے سے فائدہ اُٹھاکر، اگرسچ مچ ڈاکویاکوئی چور گھس آتاتو؟“
”تو آپ یہ بیٹ دیکھ ہی رہے ہیں، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔“میں نے مسکراتے ہوئے، آہستہ سے کہا۔بھائی جان کو غصہ آگیا۔انہوں نے دبی ہوئی آواز میں کہا:
”پھینکو مت کرو،غلطی پرشرمندہ ہونے کے بجائے شیخی بگھاررہے ہو۔“
”آپ تومجھ پرخواہ مخواہ خفاہورہے ہیں،جب کہ یہ بھول تو کسی اورسے ہوئی ہے۔“ میں نے سہم کر کہا۔اسی وقت فاروق بھائی کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی:
”امجد!ڈاکو بھائی سے گپ شپ کرنے لگے کیا؟“
”ڈاکوبھائی سے نہیں،انوربھائی سے۔“میں نے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”کیا!!!“ فرح باجی کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی اور ساتھ ہی دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ہم نے دیکھا،تینوں کے چہر وں پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے آثار تھے۔
”انور بیٹے! تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا۔“ امی جان کے لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی۔
”جی یہ تو ہے، باقی باتیں بعد میں، پہلے یہ بتائیں،آپ لوگوں نے بیرونی درواز ہ بند کردیاتھا؟“ بھائی جان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
اُن کی بات سن کر امی جان نے فاروق بھائی کی طرف دیکھا۔ان کے چہر ے پر شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔
میں سوچ رہاتھا،بھائی جان لاہور سے آج واپس نہ آ پاتے توجانے کیاہوتا،اس سردرات…اورپھر اچانک لفظ سرد سے سردی یاد آگئی۔
”ارے!آج کتنی سردی ہے اور ہم لوگ بغیرلحافوں کے کھڑے ہیں۔“اتناکہتے ہی میں دوڑا،پھر چھلانگ لگا کراپنے بستر میں جا گھسا اور انتظار کرنے لگا کہ بھائی جان،فاروق بھائی کوان کی بھول کی کیا سزا دیتے ہیں۔ بھائی جان کی آواز کانوں سے ٹکرائی:
”فاروق!تمہاری سزا یہ ہے، تم بغیرکوئی کپڑا لیے بازار سے چلغوزے لے کر آؤ۔“
”مم…مم…مگربھائی جان…س…س سردی بہت ہے۔“فاروق بھائی نے یہ الفاظ کچھ اس انداز سے کہے کہ سب ہنس پڑے۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top