skip to Main Content

چچا ہادی نے جاسوسی کی

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دو گھروں سے ہی مجھے گوشت کی خوشبو آئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے آکر چچا کو بتایا وہ شرلاک ہومز کی طرح گردن ہلاتے ہوئے بولے….
ایک دن جب میں چچا ہادی کے پاس گیا تو دیکھا ان کے کمرے کی دیواروں پر بڑی بڑی تصویریں لگی ہیں۔ جن پر انسانی ہاتھ اور ہاتھوں کی آڑی تر چھی لکیریں بنی تھیں۔ میز پر چند پرانی بوسیدہ کتابیں بھی رکھی تھیں۔ مجھے دیکھ کر چچا چہک کر بولے۔ ”آؤ میاں عامر! مےں تمھارا ہی انتظار کررہا تھا۔“
” یہ کیا ہے؟“ میں نے تصویروں کی طرف اشارہ کیا۔
کہا: ”ایک پامسٹ اپنا کاروبار ختم کررہا تھا میں نے اس سے یہ سامان خرید لیا ہے۔ تمھیں پتا ہے مجھے پامسٹری سے بہت دلچسپی ہے۔ آج سے ہم یہ کام شروع کررہے ہیں۔“ میں نے گہری سانس لی۔
وہ کہنے لگے: ” سائن بورڈ بنوانے کو دے رکھا ہے بس وہ لاتا ہی ہوگا۔“
اتنی دیر میں ایک آدمی بڑا سا بورڈ اٹھائے آتا نظر آیا۔ ”لو وہ آگیا۔“چچا جوش سے بولے۔
ہم باہر آگئے۔ بورڈ پر جلی حرف میں پروفیسر چچا ہادی لکھا تھا، آگے ڈھیروں اسناد بھی درج تھیں۔ جب بورڈ لگ گیا تو ہم اندر آگئے۔ چچا بولے: ”بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا۔“
”میرا خےال ہے مسئلہ تو اب پیدا ہوا ہے۔ یہ اسناد آپ نے کس یونیورسٹی سے لی ہیں؟“ میں نے کہا۔
چچا مسکرا کر بولے: ” میاں پریشان نہ ہو۔ یہ اسناد میں نے آن لائن لی ہیں اور آج سے اپنے کام کی فکر کرنا بھی چھوڑدو ہم یہ کاروبار شروع کررہے ہیں۔“ وہ اس طرح بولے جیسے کوئی فیکٹری شروع کرنے کی نوید سنا رہے ہوں۔
” مجھے کیا کرنا ہوگا؟“ میں نے پوچھا۔
”تم میرے اسسٹنٹ ہو۔ آج سے تمھاری نوکری شروع ہوگئی ہے۔“
”میری تنخواہ کیا مقرر ہوئی ہے؟“ میں نے سوال داغا۔
یہ سن کر وہ گڑبڑا گئے پھر سنبھل کر بولے: ”پانچ سو روپے۔“
”یومیہ؟“
”نہیں میاں ماہانہ۔“ وہ شوخی سے بولے۔
” ٹھیک ہے لائیں دو مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں مجھے نئی پتلونیں خریدنی ہیں۔“ میں نے چالاکی سے کہا۔
چچا کھسیانی ہنسی ہنسے اور بولے: ” میاں ہماری دوستی میں پیسے جیسی بے وفا چیز کو بیچ میں مت لاؤ، دیکھنا کچھ دنوں میں یہاں لوگوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔ ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔“
”آپ کو یقین ہے کہ لوگ یہاں آئےں گے؟“
” کیوں نہیں زیادہ ترلوگ ضعیف الاعتقاد ہےں، ہر کوئی درمیانی راستے کی تلاش میں ہے۔“
” پھر کیا خیال ہے اس بورڈ پر چند اور چیزوں کا اضافہ نہ کردیں مثلاً استخارہ، ہر کا م منٹوں میں وغیرہ۔“ میں نے طنزاً کہا۔
”آئیڈیا برا نہیں ہے۔“ وہ مسکرا کر بولے۔
میں نے زور سے لاحول پڑھی۔
اتنی دیر میں ہم نے ایک ٹین ڈبے والے کو دیکھا جو غور سے بورڈ پڑھ رہا تھا۔ چچا نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ جھجکتے ہوئے اندر چلا آیا اور سلام کیا۔ چچا نے تپاک سے اور میں نے زیر لب جواب دیا۔ چچا نے اسے اپنے سامنے والی کرسی پیش کی۔ وہ اس کا باغور جائزہ لے رہے تھے۔
ٹین ڈبے والا بولا: ”پروفیسر صاحب آپ کی فیس کتنی ہے؟“
”پچاس روپے ایک ہاتھ کے۔“ چچا جلدی سے بولے۔
” میں نے منہدی نہیں لگوانی اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنا ہے۔“ وہ بولا۔
چچا نے اسے گھورا اور ہاتھ آگے کرنے کا حکم دیا، لیکن وہ بولا کہ میں غریب آدمی ہوں بیس روپے دوں گا۔ چچا نے کچھ دیر سوچا پھر بولے۔
”چلو ٹھیک ہے“ اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے دیکھا اس کے ہاتھوں کی اکثر لکیریں غائب تھیں۔ چچا ہاتھ پکڑے سوچ میں گم تھے پھر بڑبڑانے لگے اور بولے: ” میاں تمھارا سیارہ مشتری ہے اور ان دنوں مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔“
وہ بولا: ” ان دنوں کیا، میں نے تو ہمیشہ خود کو مشکلات میں ہی پایا ہے۔“
چچا سرہلانے لگے: ”یہ بتائیں کیا کبھی میں اپنی ذاتی دکان اور گھر لے پاؤں گا؟“
چچا غور سے ہاتھ دیکھتے رہے پھر بولے: ” پانچ سال تک تو مشکل ہے اس کے بعد کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔“
آدمی نے مسکراکر پوچھا: ”میری شادی کب ہوگی؟“
”مجھے نہیں لگتا اب تمھاری شادی ہوگی کیونکہ شادی کی لکیر لوہا پیٹتے پیٹتے مٹ چکی ہے۔“
آدمی کے منھ سے بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ مجھے گڑبڑ محسوس ہوئی، لیکن چچا اپنی باتوں مےں لگے تھے۔ آدمی خوب قہقہے لگا رہا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ چھڑایا اور ادب سے بولا: ”پروفیسر چچا! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں چھ بچوں کا باپ ہوں۔ میرے پاس اپنی ذاتی دکان اور مکان بھی ہے۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
چچا نے بڑھ کر فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اعتماد سے بولے: ”میاں ستاروں کا حساب ہے کبھی غلط بھی ہوجاتا ہے۔ لاؤ فیس نکالو۔“
”کس بات کی فیس؟“
”ہاتھ دیکھنے کی۔“ چچا غضب ناک لہجے میں بولے۔ ”ورنہ دوبارہ اس گلی میں نہیں آنے دوں گا۔“
آدمی کو پیسے دینے ہی پڑے۔ اس نے ٹیبل پر بیس روپے رکھے اور باہر نکل گیا۔ چچا مجھ سے نظریں چرا رہے تھے اور میں اپنی نظروں میں خود اتنا گر چکا تھا کہ سوچ رہا تھا کہ ملازمت کے لیے فوراً ہی استعفا دے کر گھر چلا جاؤں کہ چچا ہادی نے صورتحال کو سنبھالا اور بولے: ” میاں دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔
”گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں “
ایسا بھی ہوتا ہے بہرحال گرمی ہورہی ہے تو ذرا نکڑ سے چند لیموں اور برف لے آؤ۔ شربت بنا کر پیتے ہیں۔“
دل تو چاہ رہا تھا کہ چچا کو کھری کھری سناؤں، لیکن بڑوں کا احترام آڑے آیا۔ میں نے پیسے اُٹھائے اور غصے میں باہر نکل گیا۔ شربت پی کر فارغ ہوئے تو طبیعت کچھ معمول پر آئی۔ چچا گنگنانے لگے اور میں نے اخبار اٹھا لیا ۔اخبار حسب معمول سیاسی بیانوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں اخباررکھ کر گلی میں نظریں دوڑانے لگا۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ میں نے خالہ سکینہ کو آتے دیکھا۔وہ پورے محلے کی خالہ تھیں اور اپنی تیز زبان اور کرارے جوابوں کی بدولت بہت شہرت رکھتی تھیں۔ خاص طور پر چچا ہادی سے اکثر ان کی اَن بَن رہتی تھی۔ وہ گلی میں نظریں دوڑاتی چلی آرہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کچھ ڈھونڈ رہی ہیں۔ چچا کے گھر کے آگے سے گزرتے ہوئے اُنھوں نے بورڈ پر نظر ڈالی، رُک کر اندر جھانکا پھر دروازے کے قریب آکر بولیں :
”اے تم لوگ یہاں کیا بیچ رہے ہو؟“
چچا غصے سے پیچ و تاب کھانے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اُلٹا سیدھا جواب دیتے میں نے جلدی سے کہا ”ہم یہاں قسمت کا حال بتاتے ہیں۔“ وہ اندر چلی آئیں اور بولیں: ”تو ذرا میری چہیتی مرغی کا تو پتا لگاؤ۔ نگوڑی صبح سے غائب ہے۔“
میں نے بڑی مشکل سے ہنسی کو روکا۔ چچا غصے سے بولے ” ہم ایسے کا م نہیں کرتے، پچاس روپے فیس ہے۔“
خالہ کرسی پر بیٹھ گئیں اور بولیں: ”ہاں خیر سے مرغی مل جائے تو فیس بھی دے دیں گے۔“
”لاؤ ہاتھ دکھاؤ۔“ چچا نے کہا۔
خالہ ہنس کر بولیں: ”ہاتھ دکھاؤں گی تو تم بھاگتے نظر آؤ گے۔“
چچا گڑبڑا گئے ،بولے: ” میرا مطلب ہے ہمیں مرغی ڈھونڈنے کے لےے ستاروں سے مدد لینی پڑے گی۔“
” جس سے بھی مدد لو۔ لیکن میری مرغی ڈھونڈ دو۔“
”تمھاری مرغی کب سے غائب ہے؟“
” صبح نکلی تھی باہر اس کے بعد سے نہےں دیکھا۔“ خالہ بولیں۔
” صبح کھایا کیا تھا؟“
”ناشتہ کیا تھا اور کیا کھایا تھا۔ کیا بے تکے سوال کیے جارہا ہے۔“ خالہ غصے سے بولیں۔
”میں تمھارے نہیں مرغی کے کھانے کی بات کررہا ہوں۔“ چچا تلملا کر بولے۔ خالہ زور سے ہنسیں اور بولیں۔ ”اے لو! مجھے کیا معلوم وہ تو صبح سویرے ڈربے سے نکل کر گلی میں چلی جاتی ہے۔ عرصہ ہوا میں نے اسے کھلانا چھوڑ دیا ہے خود ہی گلی میں کچھ چگ لیتی ہوگی۔“
خالہ کی مرغی سارا دن گلی میں گھومتی رہتی تھی، کھلے دروازوں سے دوسروں کے گھروں میں چلی جاتی اور جہاں کچھ کھانے کی چیز نظر آتی تو اس سے مشکل ہی بچ پاتی تھی، لیکن وہ انڈے ہمیشہ اپنے ڈربے میں جا کر ہی دیتی تھی۔ میں ان کی باتیں دلچسپی سے سن رہا تھا۔ چچا اپنی کرسی پر بے چینی سے پہلو بدل کر بولے ۔
”تمھیں کسی پر شک ہے؟“
”کیسا شک؟“ خالہ نے پوچھا۔
”ہوسکتا ہے کسی نے مرغی اُڑالی ہو؟“ چچا عیاری سے بولے۔ چچا نے اپنی پٹری بدل لی تھی، وہ جاسوسی پراتر آئے تھے۔
”مجھے تو تم پر شک ہے۔“ خالہ بولیں۔
چچا اُٹھ کھڑے ہوئے اور بولے: ”اسی وقت میرے دفتر سے نکل جاؤ میں تمھارا کام نہیں کروں گا۔“
خالہ اطمینان سے بیٹھی رہیں اور بولےں: ”تمھیں فیس سے مطلب رکھنا چاہیے۔“
چچا فیس کا نام سن کر واپس بیٹھ گئے اور اگلے سوال پر آتے ہوئے بولے : ” کیا تم نے اس کے برتاؤ میں کچھ تبدیلی محسوس کی تھی یعنی اس کا رویہ کچھ بدلا تھا؟“
”تبدیلی….“ خالہ نے خود کلامی کی اورسوچ میں پڑ گئیں۔ ایک منٹ گزر گیا ۔ خالہ سوچ میں ڈوبی تھیں۔ وہ، وہ کام کررہی تھیں جو اُنھوں نے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ ایک عملی عورت تھیں، سوچ و بچارسے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ہم منتظر تھے۔
وہ بڑبڑائیں ۔ ”تبدیلی تو نہیں البتہ…. “ اور خاموش ہوگئیں۔
چچا بے چینی سے بولے: ”البتہ….“
میرے منھ سے بے اختیار نکلا: ”البتہ ….“
خالہ سکینہ بولیں ”البتہ …. وہ کچھ اُداس تھی۔“
چچا ہادی نے زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارا اور بولے: ” بس مسئلہ حل سمجھو۔ ایک گھنٹے میں یا تو تمھاری مرغی مل جائے گی یا اس کے بارے میں پتا چل جائے گا ۔ لاؤ فیس نکالو۔“
میں نے چچا کو حیرت سے دیکھا۔ خالہ نے بٹوے سے پچاس روپے نکال کر ٹیبل پر پھینکے اور بولیں: ”اگر تم نے دھوکا دیا تو میں ایک کے دس وصول کرنا جانتی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ طمطراق سے چلتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے چچا کی طرف دیکھا۔ وہ سرگوشی میں بولے۔
” میاں بھتیجے میرا خیال ہے خالہ کی مرغی آنجہانی ہوچکی ہے یا تو وہ کسی کے کام و دہن کی لذت کا شکار ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔ تم ایک کام کرو۔ محلے کا چکر لگاؤ۔ یہ کھانے پکنے کا وقت ہے۔ ذرا سونگھ کر اندازہ لگاؤ، کتنے گھروں میں گوشت پک رہا ہے۔“
میں نے اس عجیب کام پر اُنھیں حیرت سے دیکھا اور کہا: ” میں نے ایسا کام کبھی نہیں کیا اور آپ بھول رہے ہیں کہ ہم پامسٹ بنے تھے نا کہ دوسروں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے والے۔“
” میں جھانکنے کو نہےں صرف سونگھنے کو کہہ رہا ہوں اور میاں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو وقت اور حالات کے مطابق چلتے ہیں۔“
میں بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا اور پورے محلے کا چکر لگایا ۔ وہ مہینے کی آخری تاریخےں تھیں۔ ایک دو گھروں سے ہی مجھے گوشت کی خوشبو آئی۔ میں نے آکر چچا کو بتایا۔ وہ شرلاک ہومز کی طرح گردن ہلاتے ہوئے بولے۔ ”اچھا ایک پاپڑ کے بیوپاری ہیں اور دوسرے حوالدار خاں صاحب! مہینے کے آخری دنوں میں بیوپاری کے ہاں سے گوشت کی خوشبو آنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن حوالدار خان صاحب؟“
وہ سوچ میں ڈوب گئے۔ حوالدار صاحب ، پولیس کے محکمے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد چچا بولے: ”میاں بھتیجے اس کا مطلب ہے حوالدار خاں صاحب نے مرغی پر ہاتھ صاف کردیا ہے۔ اب سوچنا پڑے گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔“ وہ خاموش ہوگئے۔
کچھ دیر بعد میں تھوڑی دیر واپسی کا کہہ کر گھر چلا گیا۔ مجھے آنے میں پندرہ منٹ لگے۔ جب میں چچا کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے اندرونی دروازے کو تیزی سے بند ہوتے دیکھا۔ چچا کا کہیں اتاپتا نہ تھا۔ میں نے اخبار اُٹھایا اور خبروں پر نظر دوڑانے لگا۔ اچانک حوالدار خان صاحب کا دروازہ کھلا اور وہ باہر نمودار ہوئے۔ وہ ایک لحیم شحیم آدمی تھے۔ بڑی بڑی مونچھیں چہرے پر سجی تھیں۔ وہ ہر وقت غصے میں نظر آتے تھے۔ انھوں نے گلی میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور سیدھے ہمارے دفتر کی طرف چلے آئے۔ میں بلاؤں سے بچنے کی دعا یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ حوالدار صاحب کی مونچھیں پھڑک رہی تھیں۔
دروازے پر آکر وہ کرخت لہجے میں بولے۔ ”تم نے ابھی کسی کالے برقعے والی عورت کو میرے گھر سے نکلتے دیکھا ہے؟“
”جی نہیں۔ “ میں نے جلدی سے جواب دیا۔
”تمھارا پروفیسر کہاں ہے؟“
”وہ تو بہت دیر سے اندر ہیں۔“
حوالدار صاحب واپس پلٹ گئے، لیکن وہ بہت بے چین نظر آرہے تھے۔ گلی میں ایک بار پھر سناٹا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد اندرونی دروازہ کھلا اور چچا بلی کی سی چال چلتے باہر آئے۔ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ میرے قریب آکر وہ دھیرے سے بولے: ” میاں بھتیجے مسئلہ حل ہوچکا ہے مرغی کی باقیات (پَر وغیرہ) حوالدار خان صاحب کے صحن میں پڑے ہیں۔“ انھوں نے ایک پرچہ اٹھایا اور اس پر کچھ لکھ کر بولے: ”یہ خالہ سکینہ کو دے آؤ۔“
میں نے پوچھا۔ ” آپ کو کیسے پتا چلا کہ پَر حوالدار صاحب کے ہاں پڑے ہیں؟“ وہ عیاری سے مسکرائے اور بولے: ” میاں یہ کاروباری راز ہے اسے مت پوچھو۔“ میں نے پرچہ لیا اور باہر نکلنے لگا تو چچا دوبارہ گویا ہوئے۔ ”اور ہاں ہم ابھی کچھ دیر کے لیے دفتر بند کررہے ہیں۔ تم بھی گھر جاؤ اور اچھے بچوں کی طرح کوئی کہانی پڑھو۔“
میں نے حیرت سے انھیں دیکھا اور کندھے اُچکا کر باہر نکل گیا۔
پرچہ خالہ کو دے کر میں اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے ابھی گھر میں قدم رکھا ہی تھا کہ باہر سے شور کی آواز سنائی دی۔ میں اُلٹے قدموں باہر آیا تو دیکھا خالہ سکینہ، حوالدار خان صاحب کے دروازے پر کھڑی ہیں چند ہی منٹوں میں اُنھوں نے ایسا ادھم مچایا کہ پورا محلہ اپنے گھروں سے باہر آگیا۔ اُنھوں نے حوالدار صاحب کو رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ وہ مرغی کے بچے کچھے پَر ٹھکانے لگانے کے لیے ایک تھیلی میں ڈال رہے تھے کہ خالہ نے انھیں جا لیا اور تابڑ توڑ ایسے حملے کیے کہ حوالدار صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خالہ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ خاں صاحب فوراً انھیں ہزار روپے سکہ رائج الوقت ادا کریں۔ سب لوگ بھی خالہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ خاں صاحب کو ہزار روپے دینے پڑے۔ خالہ بڑبڑاتی ہوئی گھر لوٹ گئیں۔
لوگ بھی جو اس بے وقت کے تماشے سے فیض یاب ہوچکے تھے۔ گھروں میں چلے گئے۔ چچا ہادی کا کہیں پتا نہ تھا۔ بہت دنوں تک حوالدار صاحب اس برقع والی عورت کو ڈھونڈتے رہے جس نے ان کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ میری بھی آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ عورت کون تھی اور چچا ہادی کو کیسے پتا چلا کہ خاں صاحب کے صحن میں مرغی کے پَر پڑے ہیں۔ آپ لوگ زیادہ سمجھدار ہیں، شاید آپ سمجھ گئے ہوں۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top