skip to Main Content

چچا چھکن نے تیمار داری کی

امتیاز علی تاج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چچا چھکن دل میں بخوبی جانتے تھے کہ تیمارداری ان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔اس کے لئے جس جفا کشی ،سکونِ خاطر اور صبر و استقلال کی ضرورت ہے وہ انھیں چھو نہیں گیا ۔اسی وجہ سے عام طور پر اپنی تیمارداری کو عیادت کے درجے سے آگے نہیں بڑھنے دیتے ۔لیکن طبیعت کے ہاتھوں ایسے ناچار ہیں کہ ذرا سی بات میں تاؤ کھا جاتے ہیں چنانچہ ایک روز آگا پیچھا سوچے بغیر تیمارداری کے میدان میں جوہر دکھانے پر آمادہ ہو گئے ۔کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چچی کے سلیقے میں انھیں اپنے سگھڑاپے کی تو ہین نظر آتی رہتی ہے۔پھر اگر کسی بات میں چچی اپنی عرق ریزی اور انکی فراغت کی طرف بھی اشارہ کر دیں تو چچا آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ’’دلِ ناتواں‘‘مقابلہ کیے بغیر باز نہیں رہ سکتا تھا ۔خیر گھر کے دوسرے قصوں میں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں ،ان مقابلوں کا نتیجہ سبق آموز ہو یا نہ ہو ، چچا غیرت والے ہیں تو آئندہ کسی کی تیمارداری کا بیڑا اٹھائیں گے نہیں ۔

بات یوں ہوئی کہ پچھلے دنوں للّو غریب کو نکلا موتی جھرہ ۔شب برأت سے اگلے روز جو مُلہُلا کر بخار چڑھا ہے تو اکیس دن گزر گئے ،ٹس سے مس نہ ہوا ۔گھر میں کام کرنے والی لے دے کے ایک چچی ، وہ غریب کیا کریں ؟گھر اُٹھائیں ،ہنڈیا چولھا دیکھیں ،بچے سنبھالیں یا ہر وقت بیمار کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں ؟ادھر بیمار کے پاس آکر بیٹھیں ،ادھر ماما کی آواز آگئی ۔’’بیوی دال دے جاتیں کہ میں بِین لیتی ۔نہیں کِر کَل رہ جائے گی۔‘‘باورچی کھانے میں پہنچیں تو للو نے ٹھنکنا شروع کر دیا کہ میں تو اماں ہی کے ہاتھ سے پانی پیؤں گا ۔کس کو ٹالیں اور کس کی خبر لیں ۔دن اسی قواعد میں گزرتا ۔رات آنکھوں میں کٹتی ۔پھر ایک دن نہ دو دن،۔میعادی بخار ،تین ہفتے کی محنت نے ادھ مؤا کرڈالا ۔اکیسویں دن سے آس لگائے بیٹھی تھیں کہ بخار ٹوٹ جائے گا ۔لیکن اکیسواں دن بھی آیا اور صاف گزر گیا ۔ایک ہفتہ پہاڑ کی طرح سر پر آکھڑا ہوا ۔

تیسرے پہر بیٹھی تولیے سے للو کے جھانواں کر رہی تھیں کہ کہیں چچا نے امامی کے ہاتھ پان کی ڈبیا اندر بھیج دی ،ساتھ کہلا بھیجا ۔’’خوب ابھی طرح بھر دیں ۔‘‘چچی فکر مند تو بیٹھی تھیں ۔ادھر ہاتھ بھی رکا ہوا تھا،بگڑ کر بولیں ۔’’لے جا اٹھا کے پاندان ۔بھرتے رہیں گے آپ ہی۔‘‘

پاندان کے جواب میں چچا خو د آ موجود ہوئے ۔’’وہ پاندان بھیج دیا تم نے ۔‘‘

چچی غصہ کڑوے گھونٹ کی طرح پی گئیں ۔صرف اتنا کہا ۔’’اور کیا بیمار کی چر پائی اٹھوا کر بھیجتی ؟‘‘

چچا کو اس کی شرح سمجھنے کی جرأت نہ ہوئی ۔چچی کے تیور ڈھب تھے ،للو سے مخاطب ہو گئے ۔’’کیوں بے یار للو !راوی چین لکھتا ہے نا؟بڑے ٹھاٹھ سے جھانواں کروا رہے ہو استاد ۔اب یہ کہو تم اٹھتے کب ہو ؟‘‘

چچی سے رہا نہ گیا ۔بولیں ’’جلدی اٹھ بیٹھ بیٹے ۔ابا فکر کے مارے دبلے ہوئے جا رہے ہیں ۔‘‘

اب اتنے کھلے وار پر چچا کے لیے چپ رہنا کیسے ممکن تھا ،بولے ’’یعنی تم سمجھتی ہو تمھارے سوا کسی کو بچے کی فکر ہی نہیں ؟‘‘

چچی کے لیے بات کھول کر کرنے کے سوا چارہ نہ رہا ۔’’بڑا تیر مارا کہ دوروز تیمارداری کر لی۔سمجھ بیٹھیں کہ ہمچومن دیگرے نیست۔جناب نے تو ایک بچے کی تیمارداری کی ہے ‘میں بیسیوں جوانوں کی تیمارداری کر چکا ہوں ۔اور اب بھی میں نے اگر زیادہ دخل نہیں دیا اور دل مار کے چپکا بیٹھا رہا تو کس کے خیال سے ؟تمھارے کہ بھئی ماں ہے اسے بچے کی مامتا ہے جو جی چاہے کر لینے دو ورنہ مجھے خود کب گوارا تھا کہ بیمار بچے کو تمھارے ہاتھ میں چھوڑ دوں ۔‘‘

چچی سر پھیرتے ہوئے بولیں ۔’’کبھی اتنی توفیق تو ہوئی نہیں کہ گھڑی دو گھڑی بیمار بچے کے پاس آکر بیٹھ جائیں ۔آجاتے ہیں صبح شام ناک پر دیا جلا کر کہ اتر گیا ہوگا بخار ۔کیا بات اب تک اترا کیوں نہیں ‘تیز ہے؟او ہو !……یہ تیمارداری کریں گے ۔‘‘

چچا چھکن دشنام سن سکتے ہیں لیکن ایسا طعنہ جس میں ان کی قابلیت کے کسی پہلو کی طرف اشارہ ہو اور پھر چچی کی زبان سے ‘ان کی برداشت سے باہر ہے۔انھیں غالباً دل ہی دل میں کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس میں مضمر ہے کہ چچی نے ان کی بیوی بن کر ان پر بڑا احسان دھرا ہے اور بیوی کا احسان لینا ان کی مردانگی کسی صورت گوارا نہیں کر سکتی ۔بغیر سوچے سمجھے بولے ۔’’جائیے آپ باورچی خانے میں تشریف لے جائیے،میں آپ کرلوں گا تیمارداری ۔‘‘

چچی ایسے دعووں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ،ناک چڑھا کر بولیں ۔’’کیا کروں ،پتھر تلے ہاتھ دبا ہے ،ڈاکٹر نے کہہ رکھا ہے ،ایک سے زیادہ تیماردار بچے کے پاس نہ رہے ‘گھر میں شور غل نہ ہو ورنہ مجھے تو انکار نہ تھا ۔کہہ دیتی یہ ارمان بھی شوق سے نکال دیکھو۔‘‘

نہ معلو م چچا ایسے موقعوں پر جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں یا اسی قسم کے گزشتہ دعووں کے عواقب انھیں یاد نہیں رہتے ،بولے ’’تم ایک تیماردار اور میں ایک سے زیادہ ہو گیا ؟وہ کیوں ؟اور یہ شور غل کیسا ؟تم تو جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھے بیٹھی رہتی ہو؟‘‘

چچی جل کر بولیں ۔’’چپ شاہ کا روزہ نہیں رکھتی تو بات بات پر امامی اور مودے اور بندو کو پکار کر گھر بھی سر پر نہیں اٹھاتی۔‘‘

چچا بگڑ کر بولے ۔’’بہت اچھا ،جائیے،مودے اور امامی اور بندو کو بھی باورچی خانے میں گھٹنے سے لگا کر بٹھا رکھیے ،میں ان کے بغیر بھی جناب کو دکھا دوں گا کیونکر کرتے ہیں تیمارداری ۔‘‘

چچا کو کمزور حریف سمجھ کر چچی عام طور سے ایسی بات گول کر جایا کرتی ہیں لیکن اس وقت انھیں بھی نہ معلوم کیا ہوا ،جیسی بیٹھی تھیں ویسی ہی اٹھ کھڑی ہوئیں اور جھانوے کا تولیہ چچا کے ہاتھ میں پکڑا سیدھی باورچی خانے کو چل دیں ۔

ان کے یوں اچانک اٹھ کھڑے ہونے کی امید چچا کو بھی نہ تھی ،حیران رہ گئے ۔ایک منٹ تو چپ چاپ تولیے کو دیکھتے رہے ،آخر ذمہ داریوں اور مجبوریوں کے احساس سے کھسیانی ہنسی ہنس پڑے ۔للو سے کہنے لگے ،’’دیکھتا ہے ان کی باتیں ؟سمجھتی ہیں بس انھیں ہی آتی ہے تیمارداری ،اورسب تو اپاہج ہیں ۔‘‘

اماں کے چلے جانے سے للو کچھ کبیدہ خاطر ہو گیاتھا ،کروٹ لے کر پڑ رہا ۔غالباً تکلفاًچچا نے پوچھ لیا ۔’’کیوں بھئی جھانواں کرتے رہیں ۔‘‘

للو نے منہ سے کچھ نہ کہا ،سر ہلا کر ہاں کر دی ۔چنانچہ چچا کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہاکہ جھانواں کریں اور بغیر کسی کی امداد کے کریں ۔بولے ’’ہم آپ کریں گے اپنے بیٹے کے جھانواں ۔‘‘ذرا سے تامل کے بعد آپ پائینتی بیٹھ گئے ،بولے ’’لو بھئی ہم تو کرتے ہیں جھانواں اور تم کرو ہم سے باتیں ۔‘‘

جھانویں کے لیے تولیہ بچھا کر سب پہلوؤں پر سے ایسے تکلف اور اہتمام سے تہ کیا گیا جیسے چچا جھانویں کے لیے گدی نہیں بنا رہے،بیمار کے دل بہلاؤ کے لیے تولیے کی ناؤ تصنیف فرما رہے ہیں ۔اس دوران میں للو سے برابر مخاطب رہے ۔’’یہ چپ سادھنے کی شرط نہیں ہے ، یوں تمھارا دل گھبرا جائے گا ۔باتیں کرنی ہوں گی ہم سے ۔ہاں اچھا یہ بتاؤ ،اچھے ہو کر تم کھاؤ گے کیا کیا ؟‘‘

اکیس دن کا بیمار ،بھلا باتیں کیا کرے ،کروٹ لیے چپکا پڑا رہا ۔تولیہ تہ کر چکنے کے بعد چچا کے چہرے پر فخر و اطمینان کی ایک مسکراہٹ کھیلنے لگی ۔’’اب بنی نہ گدی جھانویں کی ۔اسے کہتے ہیں گدی ۔کبھی دیکھی بھی نہ ہوگی بیگم صاحبہ نے۔‘‘

چچا نے جھانواں شروع ایسے زور شور سے کیا ،گویا جھانواں نہیں کر رہے پاؤں پر پالش کر رہے ہیں ،باتیں مجبوراً بند کردی تھیں کیونکہ ہاتھ کی حرکت کے باعث باتیں گیت کی تانیں سی بن کر حلق سے نکلتی تھیں ۔بار بار گردن بڑھا کر صحن کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید کسی سے نظریں چار ہو جائیں اور وہ اس کارِ نمایاں کی خبر چچی تک پہنچا دے۔سانس پھولا ہوا تھا ،بات نہ ہوتی تھی مگر محض چچی کے سنانے کو کہے بھی جا رہے تھے ۔’’اب مزہ آیا ہوگا جھانویں کا ……بڑی محنت کا کام ہے ……ایک طرح کا فن سمجھنا چاہیے۔‘‘

لیکن پانچ ہی منٹ بعد صورت حالات میں تبدیلی رونما ہوئی،پہنچے اور کہنیاں دکھے لگیں ،بازو ڈھیلے پڑ گئے ،ہاتھ رہ گئے ،دل اکتا گیا۔ اٹھنے کی فکر ہونے لگی مگر اب اٹھیں کیونکر ؟خود اٹھتے ہوئے ندامت ہوتی تھی ،لڑکا بس کر نے کو کہتا نہیں تھا ،نہ امید تھی کہ کہے گا ۔وہ آنکھیں بند کیے ایسا خاموش پڑا تھاگویا اسے خبر ہی نہیں کہ چچا پر کیا گز رہی ہے۔ آخر کچھ دیر بعد تنگ آکر چچا نے ہاتھ روکنا اور اس سے پوچھنا شروع کیا ۔’’کیوں بھئی پیاس تو نہیں لگی ؟پانی لاؤں ؟انار کے دانے نکال دوں ؟……ارے ہاں للو! وہ جو تونے پودا لگایا تھا کیاری میں ،اس میں پھول آگئے ،لا کر دکھاؤں ؟’’مگر للو نے کسی ایسی چیز کی فرمائش نہ کی جسے لانے کے لیے چچا کو اٹھنے کا موقع مل سکتا ۔اسی طرح گم سم چپکا پڑا رہا۔

دو ایک دفعہ چچا نے ایسا بے خلل انداز اختیار کر کے اٹھنے کی کوشش کی گویا ان کی رائے میں للو سو گیا ہے مگر ان کے ہلتے ہی للو کراہنے لگا یا آنکھیں کھول دیں۔ چنانچہ چچاکو طوعاًکرہاًپھر بیٹھ جانا پڑا ۔پاؤں سو گئے تھے ،ہاتھ کانپنے لگے تھے ،کبھی بیٹھنے کا انداز بدلتے ،کبھی جھانواں روک کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کا بازو دبانے لگتے۔جھانواں برائے نام ہو رہا تھا ،مریض کبھی بے چین تھا ،چچا گھبرائی گھبرائی نظروں سے ادھر ادھر تک رہے تھے کہ کسی طرح اٹھنے کا کوئی بہا نہ ملے مگر کسی طرح مشکل آسان نہ ہوتی تھی ۔آخر دل کڑا کر کے بولے ۔

’’بس بھئی اب زیادہ جھانواں نہیں کرتے ،ضعف ہو جاتا ہے ۔‘‘یہ نہ معلوم ہوا کہ مریض کو یا جھانواں کرنے والے کو ۔

یہ کہہ چچا فوراًاٹھ کھڑے ہوئے اور آرام کرسی پر دراز ہو گئے۔تیمارداری کا جوش کچھ سرد سا پڑ گیا تھا ۔بڑی دیر تک منہ بنا بنا کر اپنا ہاتھ دباتے اور انگلیاں چٹخاتے رہے ۔ٹانگیں پھیلا پھیلا کر تھکن اتاری ۔حواس بجا ہوئے تو للو کی طرف توجہ کی ۔’’سو گئے للو !للو بھیا! اے للو ! اوللوے! نیند آگئی کیا ؟اچھا سو رہو۔‘‘باہر چچی نے آواز سن لی ،چھٹن کے ہاتھ کہلا بھیجا ۔’’سونے نہ دینا،دوا کا وقت ہے ۔سرہانے چھوٹی میز پر دوا کی شیشی رکھی ہے،ایک خوراک دے دو۔‘‘

چچا دوا دینے کو اٹھ کھڑے ہوئے ۔شیشی ہاتھ میں لے کر لیبل پڑھا ،ادھر ادھر دیکھا ،داڑھی کھجلائی ،پیٹ سہلایا ۔بے تاب تھے کہ کسی کو امداد کے لیے پکاریں ۔لیکن آج کے دن کسی کی امداد لینا غیرت کو گوارا نہ تھا ،مجبوراً خود ہی دوا دینے پر آمادہ ہوئے ۔شیشی رکھ دوا نکالنے کے لیے پیالی لائے ،کاگ نکالا ،پہلے تو شیشی کو دانتوں میں پکڑ کر کاگ کو پیالے میں انڈیلنے کی کوشش فرمائی ۔اس کے بعدلا حول ولا کہہ کر کاگ میز پر رکھ دیا اور شیشی سے دوا انڈیلنی شروع کی۔بوند بوند بھر نکالتے اور آنکھیں چندھیا چندھیا کر خوراک کا نشان دیکھ لیتے ۔ذرا سی دوا نکالنی باقی تھی کہ شیشی ذرا زیادہ الل گئی ،ڈیڑھ خوراک نکل آئی۔

چچا نے پہلے تو پیالی ٹیڑھی کی کہ خوراک گرا دیں ۔پھر خیال آیا کہ کہیں ضرورت سے زیادہ دو اگر کر خوراک کی مقدار کم نہ ہو جائے چنانچہ ارادہ کیا کہ زائد دوا شیشی میں ڈال کر اطمینان کر لیں ۔

پیالی سے دوا شیشی میں انڈیلی ۔آپ جا نیے پیالی کے چونچ توہوتی نہیں کہ دوا شیشی میں چلی جاتی ،باہر بہ کر نیچے گر پڑی ۔چچا نے ذرا دیر ہاتھ روک کر سوچا ،اب کیا کریں !اس کے سوا چارہ نظر نہ آیاکہ پیالی میں جو دوا باقی رہ گئی تھی ،وہ بھی شیشی ہی میں انڈیل دیں اور ازسرِ نو ایک پوری خوراک نکالیں چنانچہ یک لخت انڈیلی دوا شیشی میں تو ذرا سی گئی ،باقی سب ہاتھ پر سے بہتی ہوئی فرش پرگر پڑی ۔چھٹن کے ہاتھ چچی نے انار کے دانے نکال کر بھیجے تھے ،وہ غریب کھڑا دوا نکالنے کا یہ تماشا دیکھ رہا تھا ،اسے آگئی ہنسی ۔ایسے موقع پر کوئی ہنس پڑے تو چچا کو آگ لگ جاتی ہے ، سر پھیر کر لال پیلی آنکھوں سے اسے گھورا ۔’’بد تمیز کہیں کا ،ہنسا کا ہے پر؟اور یہ کیا موقع تھا ہنسی کا ؟پیٹ پیٹ کر اتّو کر دوں گا ۔‘‘غرض غریب کو ڈانٹ کر رونکھّا بنا دیا ۔

ہاتھ پونچھ پانچھ چچا نے شیشی کو جو دیکھا تو دوا آدھے نشان تک تھی ،آدھی اس ادلا بدلی میں ضائع ہو چکی تھی ۔اب کیا کریں ؟آدھی خوراک سے آدھی خوراک تک دوا نکالنا آسان نہ تھا چنانچہ غور و خوض کے بعد طے کیا کہ بقیہ آدھی نکالی جائے ۔چونکہ باقی خوراک مریض کو نہ دینی تھی بلکہ ضائع کرنی تھی ،اس لیے اسے احتیاط سے نکالنے کی ضرورت چچا کو نہ سوجھی ۔دروازے میں جا شیشی ذرا بے فکری سے دروازے میں الٹ دی ۔

اب جو شیشی آنکھو ں کے سامنے لا کر دیکھتے ہیں تو دوا پھر آدھے ہی نشان تک ، مگر اگلی سے اگلی خوراک کے چچا جھنجلا اٹھے ،بے ساختہ چند نا گفتہ بہ کلمات ان کی زبان سے نکل گئے مگر قہرِ درویش بر جان درویش ،کیا کر سکتے تھے ؟امامی بندو کا قصور تو تھا نہیں کہ غل مچا مچا کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ۔اگلی خوراک ضائع کرنے کے عمل میں مصروف ہو گئے ۔قصہ مختصر کوئی آدھ گھنٹہ اور پانچ خوراکیں ضائع کرنے کے بعد چچا خاطر خواہ طور پر دوا نکالنے میں کامیاب ہو ئے۔

للو کی آنکھ لگ گئی تھی ۔اسے جگایا ،وہ ٹھنکتا ہوا جاگا۔ بچے کے ٹھنکنے اور رونے سے چچا کی تیمارداری پر حرف آتا تھا ۔دبی زبان سے اسے چمکارا اور اس سے طرح طرح کے جھوٹے وعدے کیے۔’’ایک تو جناب من!ہم نے تمھارے لے ڈور کی پوری ریل منگائی ہے ۔اور جناب دوسرے گلشن سے کہا ہے کہ ایک درجن رنگ برنگ کی کنکیاں بنا کر لائے ۔بس ادھر تم اچھے ہوئے اور ادھر پینچ لڑنے کا سامان ہوا۔‘‘

چچا چارپائی پر چڑھے ،سہارا دے کر للو کو اٹھایا ،دوا دینے لگے تو خیال آیا کہ کلی کے لیے پانی تو لائے ہی نہیں ۔اسے پھر لٹابھاگے بھاگے پانی لینے چلے گئے ۔پانی کی پیالی میز پر رکھ کر پھر چارپائی پر چڑھے ،للو کو اٹھایا ،سمجھا بجھا کر بہزار دقت دوا دینے پر آمادہ کیا۔اب جناب نے کیا تماشا کیا کہ پانی کی پیالی تو اس کے منہ سے لگا دی اور کلی کے لیے دوا کی پیالی ہاتھ میں تھام بیٹھ رہے ۔جب اس نے خود ہی ٹھنک کر بتایا کہ یہ تو پانی ہے تو آپ کو اپنی غلطی معلوم ہوئی ندامت تو کیا ہوتی ،او ہو کہہ کر پیالیاں بدل لیں ،اور دوا کی پیالی للو کو دی۔

خالی پیالی اس کے ہاتھ سے لے کر کلی کے لیے پانی دیا تو اب اگال دان کا خیال آیا ۔گھبرا کر اگال دان لینے کو لپکے۔بچے کا در دھڑ سے تکیے پر آگرا ۔ادھر دوا سے اس کا منہ کڑوا ،ادھر لگا سر کو دھچکا ،زور زور سے رونے لگا ۔آپ کبھی اس کے آگے گلاس کرتے ہیں ،کبھی اگال دان ،کبھی انار کے دانے، مگر بیمار کی ضد ،وہ کسی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا ،اماں اماں کہہ کر روئے جا رہا ہے۔چچا گھبر اگھبرا کر کبھی للو کو دیکھتے ہیں ،کبھی دروازے کو کہ کہیں چچی نہ آرہی ہوں ۔بچے کو کبھی لپٹاتے ہیں، کبھی منتیں خوشامدیں کرتے ہیں ۔مگر اس پر مطلق اثر نہیں ہوتا ۔مجبوراً چچی کی سامعہ نوازی کو بلند آواز میں کہنا شروع کیا ۔’’اب ہم نے تو دوا میں کرواہٹ ملا نہیں دی ،ایسی ہی ہوتی ہیں ان ڈاکٹروں کی دوائیں ،ہمارا کوئی قصور ہو تو ہم ذمہ دار ۔یوں اماں کو ہی بلانے کو جی چاہ رہا ہو تو تم جانو۔‘‘

چچی باورچی خانے سے فارغ ہو کر چچا کے پانوں کی ڈبیا بھر رہی تھیں ۔وہیں سے بولیں ۔’’آئی بچے آئی‘‘۔اتنے میں چچی آئیں،للو نے رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا ۔ہچکی بندھ گئی تھی ۔چچاکے ہاتھ پاؤں الگ پھول گئے تھے۔ اب ان سے تسلی بھی نہ دی جاتی تھی ۔الگ کھڑے سراسیمہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ،منہ تک بات آتی تھی مگر نکل نہ سکتی تھی ۔دلاسہ دینے کو ہاتھ اٹھانا چاہتے تھے مگر نہ اُٹھتا تھا چچی آئیں تو ان کے حواس بجا ہوئے ۔بولے ’’آپ ہی آپ رونے لگا بس دوا دی تھی۔‘‘

چچی نے پان میز پر رکھ دیے ۔او ! میرا چاند میرالال!‘‘کہتی ہوئی لپک کر سراہانے بیٹھ گئیں ۔بچے کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور سہلانے لگیں ۔بچے کو ذرا سکون ہوا تو چچا پان کی طرف متوجہ ہوئے ۔پان کھاتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگے ۔’’رٹ ہی ماں کی لگ جائے تو تیماردار غریب کیا کرے ۔‘‘

چچی نے للو کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا تو ٹھنڈا ٹھنڈا تھا ۔ہاتھ دیکھے تو وہ بھی ٹھنڈے !بولیں ۔’’اے ہے اسے تو ضعف کا دورہ پڑ گیا ،پنڈا ٹھنڈا پڑا جا رہا ہے ۔رنگت بھی تو پیلی پڑ گئی ہے ۔ارے کوئی دودھ لاؤ دودھ ،پیچھے چولھے پر رکھا ہے ،بالائی ہٹا کر لانا ۔‘‘

تیمارداری سے ابھی چچا کا باضابطہ چھٹکا راتو ہوا نہ تھا ۔پیالی اٹھا خود دودھ لینے روانہ ہو گئے ۔باورچی خانے میں ماما آٹا گوندھ رہی تھی ،دودھ نکالنے کو اٹھنے لگی، چچا کے منہ تھی پیک ۔’’اوں ہوں اوں ہوں ‘‘کر کے اسے روک دیا ۔لڑکے بڑھنے لگے ۔’’اوں ہوں اوں ہوں ‘‘کر کے انھیں بھی روک دیا ۔خود دیگچی اٹھا دودھ انڈیلنے لگے، دودھ جوش پر آکر ٹھنڈا ہو رہا تھا ،اس پر آگئی تھی بالائی۔ چچی نے کہا تھا ’’بالائی اتار کر دودھ لانا ۔‘‘بالائی ہٹا نے کو آپ رکھ کر ایک پھونک جو مارتے ہیں تو پان کی ساری پیک دیگچی میں ! دودھ کی اچھی خاصی چائے بن گئی ۔

اب چچا کی حالت دیکھنے کے قابل تھی ،کبھی دیگچی کو دیکھیں ،کبھی کھوئے کھوئے ادھر ادھر دیکھیں۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا ،قصور کس کاہے ۔ایک مرتبہ دیگچی نیچے رکھ دی ۔اٹھ کھڑے ہوئے ۔بیمار کے کمرے کی طرف چلے ۔پھر باورچی خانے میں دیگچی کے قریب آکھڑے ہوئے اور ٹھوڑی کھجانے لگے ۔آخر سب کچھ چھوڑ چھاڑ باہر اپنے کمرے میں چلے گئے اور اندرسے چٹخنی لگالی ……ایک منٹ بعد باہر نکلے اور دودھ کی دیگچی اٹھا پھر اندر گھس گئے ۔

اس واقعے سے گھر میں جو تکدر پیدا ہوا تھا ،وہ للو کی صحت یابی سے پہلے رفع نہ ہو سکا ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top