skip to Main Content

چچا چوہدری اور ہم

قاسم بن نظر

………………………………………………………………

یہ ایک مژدہ تھا یا صدمہ جس کے باعث ہم بے ہوش ہوکر چچا کے ہاتھوں میں جھول کر رہ گئے۔

………………….………………….………………….

چچا چوہدری کے ہاں بھیجنے سے بہتر تو یہ تھا کہ ہمیں کسی بے آب و گیاہ سیارے پر بھیج دیا جاتا۔ جہاں ہم خود ہی حکم دیتے اور خود ہی حکم کی تعمیل کرتے۔ سونے جاگنے کا کوئی وقت مقرر نہ ہوتا۔
چچا چوہدری سے بالمشافہ ملاقات کی تمنا دل میں سرے سے تھی ہی نہیں۔ ہم نے انہیں آخری بار کب دیکھا تھا؟ برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں کہیں اس واقعے کا ذکر نہ تھا۔
ریل گاڑی نے جب اسٹیشن پر آکر سیٹی بجائی۔ تو ہم اتر گئے۔ قصہ المختصر، گھر سے تن تنہا نکل کر ہجرت کرنے کا تجربہ ہمیں حاصل ہوگیا تھا۔ مزید براں چچا چوہدری کے ہاں پہنچنے کا معرکہ ابھی باقی تھا۔ ہمیں روانہ ہونے سے پہلے خبردار کردیا گیا تھا کہ چچا چوہدری کے دو کارندے، ہمیں لینے آئیں گے۔ ان دونوں کی نشانی یہ ہوگی کہ دائیں طرف والے شخص کی بائیں آنکھ کے اوپر ایک تل ہوگا جبکہ بائیں طرف والے شخص کی دائیں آنکھ کی دا ہنی طرف کان کی لو کے برابر میں زخم کا ایک دائروی نشان پایا جائیگا۔
یہ نشانیاں من وعن آپ کو بھی بتادیں۔ اور ہم نے اس ضمن میں مبالغہ آرائی سے اپنا دامن پوری طرح بچانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔
وہاں قریب ہی ایک بنچ تھی جس کا ایک پایا ٹوٹا ہوا تھا۔ بیٹھنے کیلئے اس سے موزوں جگہ اور کوئی نہ تھی۔ گوں نا گوں ہم نے کھڑے رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ گھڑی تو ہمارے پاس نہیں تھی لیکن اتنا ہمیں ازبر ہے کہ جب ریل گاڑی نے اسٹیشن چھوڑا تو تقریباً ریل گاڑی کے آمدورفت کے نظام الاوقات کے عین مطابق اس کے اسٹیشن پرآنے اور جانے کے مابین چھ گھنٹے کا فرق تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ ریل گاڑی مبینہ طور پر تین گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی۔ اب اگر ہم سے حساب کتاب میں کوئی غلطی نہ ہوئی ہو تو لگ بھگ تین جمع چھ ۔۔۔ کل نو گھنٹے ہم کھڑے رہے تب کہیں جاکے چچا چوہدری کے ملازم ہمیں لینے آئے۔ ملا حظہ فرمائیے ہماری فرمانبرداری کا عملی مظاہرہ جس کے تحت ہم نے گھر والوں کا یہ حکم مانا کہ ان لوگوں کے آنے تک ہلنا نہیں۔ اگر اس کا ایک فیصد مظاہرہ بھی ہم جلاوطنی سے پہلے کرچکے ہوتے تو ۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو۔
چچا چوہدری کی طرف سے آنے والے سپاہیوں نے اپنی نشانیاں دکھائیں اور ساتھ ہی چچا چوہدری کا ایک تصدیق نامہ بھی دیا جس کا متن ہم تحریر کیئے دیتے ہیں۔
’’پیارے میاں!
مورخہ 4جون 1993ء کو بوقت سات بجے میں چوہدری افضل ولد چوہدری افضال ساکن ڈاک بنگلہ تحصیل چھانگا مانگا دو عدد ملازم جو مکمل طور پر خاندانی ہیں۔ ایک اپنا نام بخشو اور دوسرا اپنا نام شرفو بتاتا ہے۔ میرے ساتھ رہنے کے باوجود دونوں کا ذہنی توازن ابھی تک ٹھیک ہے۔ ان کی عمریں میری عمر کا تین چوتھائی ہیں۔ تمہیں لینے کیلئے بھیج رہا ہوں۔ خط موصول ہونے کے چار گھنٹے کے اندر اندر ان کے ہمراہ میرے ہاں آجاؤ۔ تمہارے انتظار میں میری آنکھیں دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔ تمہارا چچا چوہدری۔‘‘
آخری جملہ پڑھتے ہی ہمیں رونا آگیا۔ یعنی کوئی ہم سے اتنی محبت بھی کرسکتا ہے۔ ایک ہم تھے۔ چچا چوہدری کے بارے میں نہ جانے کیسے کیسے خیالات ذہن میں لارہے تھے۔ ہم فوراً بخشو اور شرفو کے ساتھ چچا چوہدری کے گھر کی طرف چل پڑے۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں اور ہم اڑ کر چچا چوہدری کے ہاں پہنچ جائیں۔ خود غور کریں کہ ایک شخص بلکہ ایک عظیم انسان نے نہ جانے کب سے اپنی آنکھیں نکال کر دروازے پر لگا دی ہیں۔ اب اگر وہ اپنی آنکھیں دروازے پر نکال کرنہیں رکھتے تو ہمیں خود لینے نہ آجاتے۔
چچا چوہدری کے ہاں ملازموں کی ایک فوج ظفر فوج تو موجود تھی لیکن کب تک؟ آخر کب تک چچا بغیر آنکھوں کے دوسروں کے محتاج بنے رہتے۔ اب ہماری ہر ممکن کوشش تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے وہاں پہنچ کر دروازے سے آنکھیں نکال کر چچا کو واپس دیں۔ بلکہ پہلے ہم ان آنکھوں کو صابن سے اچھی طرح دھولیں گے نہ جانے کہاں کہاں کا دھول غبار ان آنکھوں سے چپک گیا ہوگا۔
ایک خط نے ہمارے اندر کی دنیا بدل ڈالی۔ پہلے چچا چوہدری کے لیے ہمارے دل میں نفرت کا طوفان امڈ رہا تھا اور اب محبت کے بادل منڈلا رہے تھے۔ چچا یو آر گریٹ۔
چچا کتنے بڑے مہربان تھے۔ اس کا اندازہ آپ یوں کریں کہ ہمیں گھر بلوانے کے لئے تانگے کا انتظام کیا تھا۔ کیونکہ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ شہر میں بچہ بسوں کے دھکے کھا کھا کر ظلم کی چکی میں پس چکا ہوگا اور یقیناًپہلی مرتبہ تانگے میں بیٹھ کر ہوائی جہاز کے مزے لے گا۔ چچا کی پہلی مہربانی کو دیکھ کر ہی ہم نے انہیں ہیرو کا خطاب دے دیا۔
بہرحال تانگا دوڑتا دوڑتا ایک ڈاک بنگلہ پر کر رک گیا۔ ہم نے ایک چھلانگ ماری اور دروازے پر پہنچے۔ مگر یہ دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ وہاں آنکھ تو کیا آنکھ کا بال بھی نہ تھا۔ ابھی ہم مایوسی کے سمندر میں ہی غوطے لگا رہے تھے کہ تانگے والے نے ہم سے کرائے کا مطالبہ کیا۔ ہم سمجھے کہ وہ مذاق کررہا ہے۔ لیکن ہم ہی غلط سمجھے تھے۔ ہم نے بخشو اور شرفو کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کیا ہم ہی کرایہ ادا کریں گے؟ بخشو نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ تانگا منگوانے کی بنیادی وجہ ہم ہی قرار دیئے گئے ہیں۔لہٰذا قانون، معاشیات، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، الجبرا والمقابلہ، قانون المسعودی اورپرنسپیا کی رو سے تانگے کا کرایہ، ہمیں ہی دینا تھا۔
ہم نے ریل میں جرمانہ بھرنے کا واقعہ سنایا اور یقین مانیئے کہ اگر یہ واقعہ ہم اتنے درد بھرے الفاظ میں چنگیز خان کو سناتے تو وہ دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوجاتا۔ لیکن وہ دونوں تو سومناتھ کے بت کی طرح کھڑے رہے اور ہمیں اپنے بنیان کی جیبوں سے کرایہ نکال کر اس بت کے غرور کو توڑنا پڑا۔
اب ہم اندر موجود ہوئے سب سے پہلے ہمیں ان آنکھوں کی تلاش تھی جو خط جیسے تحریری ثبوت کے مطابق دروازے پر پائی جانی چاہئیں تھیں۔
تھوڑی ہی دیر میں ہمیں ایک ایسے آدمی کے سامنے لے جایا گیا جس کی شکل وصورت اس تصویر کے مطابق تھی جو چچا چوہدری کی تھی۔ اور وہ اپنی آنکھوں سے ہمیں اس طرح گھور رہے تھے کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ آنکھیں کبھی بھی نکالی نہیں گئی ہوں گی۔ ویسے بھی نہیں جیسے ہمارے ہیڈ ماسٹر آنکھیں نکالا کرتے تھے۔
چچا کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ہم ہی ان کے مطلوبہ بھیتجے ہیں ہم نے دادا، پر دادا اور لکڑ دادا کے نام فرفر بتادئیے۔ ان کے سن پیدائش اور سن وفات، قائداعظم کے چودہ نکات اور ایک سو چھ عناصر کے نام سنائے تب جاکر انہیں یقین ہوا کہ یہ ذہین وفطین چشم وچراغ ہمارے خاندان کا ہی ہے۔
تمام رسمی کاروائیاں پوری ہونے کے بعد ہم نے وہ سوال پوچھا جو کہ ہمارے حلق میں کانٹا بن کے چبھ رہا تھا۔ 
’’چچا جان! آپ نے اپنے خط میں کسی غلطی سے یہ لکھ دیا تھا کہ تمہارے انتظار میں میری آنکھوں دروازے پر لگی ہوئی ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے ارشاد کیا ’’وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔‘‘
ہم نے طفلانہ ضد کی تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے انتظار میں میں باربار دروازے کی طرف دیکھتا ہوں۔‘‘
رات ہونے کو تھی۔ سفر کی تھکاوٹ پورے بدن پر تھی۔ ہم لمبی تان کر سونا چاہتے تھے۔ چچا نے سونے سے پہلے کچھ ضروری ہدایات دنیا مناسب سمجھیں۔‘‘
’’یہ لو برخوردار‘‘ چچا نے ہمیں ایک پرانی بندوق پکڑا دی۔ غالباً 1857ء کی جنگ میں یہی بندوق استعمال میں لائی گئی تھی۔
’’کیا رات کے وقت ہمیں شکار کھیلنا ہوگا؟‘‘ ہم نے خون کے گھونٹ نگلتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں نہیں۔ یہ تو میں تمہیں اس لیے دے رہا ہوں کہ اگر کوئی خطرناک جانور کھڑکی کے راستے تمہارے کمرے میں آگھسے تو تم اس پر فائر کردینا۔‘‘
اب آپ ہی بتائیں۔ یہ الفاظ کسی نئی جگہ پہ پہلی ہی رات سننے کے بعد کون جواں بہادری کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ ہم نے قدرے ایک الماری کے پیچھے چھپ کر اپنی ٹانگوں کی کپکپاہٹ کو ظاہر نہ ہونے دیا۔
چچا نے ایک بار پھر آواز دی’’ اور یہ لو نیند کی گولیاں‘‘۔ ہم اچھل کر سامنے آگئے۔ اور ایک ایسا سوال پوچھا جس سے ہماری عقلمندی کو چار سو چاند لگ گئے۔
’’تو کیا یہ نیند کی گولیاں بندوق میں ڈال کر فائر کرنی ہوں گی۔‘‘
رات کے اندھیرے میں ہم نے واضح طور پر نہیں دیکھا کہ اس طرح کا سوال سن کر انہوں نے اپنا غصہ کیسے ضبط کیا۔ انہوں نے بتایا۔
’’نیند کی گولیاں میں تمہیں اس لئے دے رہا ہوں کہ اگر خوف کی وجہ سے تم سو نہ سکو تو دو گولیاں پانی کے ساتھ نگل لینا۔ جلد نیند آجائے گی۔‘‘
لیجئے۔ ہماری بہادری جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اب ہم احتیاطی تدابیر لینے کے بعدکمرے میں جانے کے لئے مڑے ہی تھے کہ چچا نے پھر ہمیں آواز دے کر روکا۔
’’اور سنو۔‘‘
’’جی فرمائیے۔‘‘ ہم سراپا فرمانبردار بن گئے۔
’’ایک اور اہم چیز تو میں تمہیں دینا ہی بھول گیا۔‘‘
ہماری نظریں مستقل چچا چوہدری کی حرکات وسکنات پر تھیں۔
چچا نے ہمیں تھوڑی دیر بعد ایک تعویذ دیا۔
’’یہ کس لئے‘‘۔ ہم نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا
چچا نے سرگوشی والے انداز میں کہا۔
’’رات کے وقت یہاں اکثر بلاؤں اور جن بھوتوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ یہ تعویذ تمہیں ایسی آفات سے محفوظ رکھے گا۔

*****

ہمارا تو خیال تھا کہ بھوت جیسے ہی ہمیں چھوئے گا ہم جل کر بھسم ہوجائیں گے لیکن جناب ہم بھی ’’فولادی خول میں انسان‘‘ تھے۔ ڈوما نے یہ ناول ہمارے ہی بارے میں شاید لکھا تھا۔ کیونکہ نہ ہم جل کر راکھ ہوئے نہ موت کے منہ میں ۔۔۔ بلکہ ہم زندہ سلامت کھڑے رہ گئے۔ اس کی ایک معقول وجہ یہ تھی کہ وہ بھاری بھر کم ہاتھ کسی بھوت کا نہیں بلکہ ہمارے ہر دل عزیز، مہربان چچا چوہدری کا تھا جو ہمیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم تک آپہنچے تھے۔
’’چچا جان! آپ اتنی رات گئے جنگل کے بیچوں بیچ کیا کر رہے ہیں۔‘‘
ہم اپنی زبان پر حسب عادت قابو نہ رکھ سکے۔
’’یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہئے۔‘‘ چچا جان نے دانت پیس کر کہا۔ اندھیرے میں ان کے دانت موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے دکھائی دیئے جیسے ہر دانت میں سو واٹ کا دو دھیا روشنی والاسطید بلب روشن ہو۔ 
ہم نے بھوت کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر بھوت تو غائب ہوچکا تھا۔ ہم نے حیرت کے سمندر میں بلکہ خام تیل کے سمندر میں ڈوب کر بڑی مشکل سے کہا۔ ’’چچا! بھوت!‘‘
’’توآخر تم نے مجھے بھوت کہہ ڈالا۔ میں جانتا تھا کہ تمہیں میری جاہ وحشم والی شخصیت ذرہ برابر بھی پسند نہیں۔ اور تم مجھے دل ہی دل میں برا بھلا کہتے ہو۔ ناہنجار، نامراد، احمق نالائق۔‘‘
چچا چوہدری کی ڈانٹ سننے کے بعد ہم نے معصومیت سے کہا۔‘‘ ہم تو دل ہی دل میں آپ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ مگر آپ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں۔‘‘
چچا نے اپنی لاٹھی ہماری گردن پر ٹکائی اور کہا۔ ’’گھر چلو۔ تمہیں تو میں گھر چل کر سمجھاؤں گا۔‘‘ چچا کے سمجھانے سے تو بہتر تھا کہ ہم بھوت کے ہی گلے لگ جاتے۔ کیونکہ ہم جانتے تھے کہ چچا ہمیں جس جس طریقے سے سمجھائیں گے اس کے بعد ہم کسی کو کچھ سمجھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
ہم بحفاظت وخیریت چچا چوہدری کی حویلی پہنچے تو ان کے دو خاندانی ملازم جڑی بوٹیوں کا ہار لئے ہمارے استقبال کے لئے تیار کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے ہار ڈالنے کے بعد کہا۔
’’چھوٹے سرکار! آپ اکیلے گھنے جنگل میں درندوں کا نوالہ بننے سے بچ گئے اس خوشی میں یہ ہار ہم نے آپ کو پہنایا ہے۔‘‘
’’مگر اس میں سے دواؤں کی بو کیوں آرہی ہے۔‘‘ ہمارا بس چلتا تو وہ ہار فوراً اپنے گلے سے اتار کر پھینک دیتے مگر ہم ان لوگوں کا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے۔
’’ وہ اصل میں رات کے وقت پھول مل نہیں سکے لہٰذا جلدی جلدی میں جڑی بوٹیاں اکھٹا کر کے ابھی ہار بنا دیا۔‘‘ فضلو نے صفائی پیش کی۔
بخشو بولا۔ ’’چھوٹے سرکار! آپ جنگل میں اکیلے کیسے چلے گئے۔‘‘ ہم نے فراخ دلی سے ہنس کر کہا۔ ‘‘ جنگل میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کبھی ڈاکو پکڑ لے جاتے ہیں کبھی بھوت اٹھا کر لے جاتے ہیں کبھی چچا چوہدری گھسیٹ کر لے آتے ہیں ہم ان سب واقعات کی رپورٹ کسی کو نہیں دینا چاہتے۔ نیور مائنڈ۔‘‘
چچا چوہدری نے آگ بگولہ ہوکر کہا۔ ’’تمہیں سخت حفاظتی پہرے میں کوئی کیسے اغواء کر سکتا ہے۔‘‘
’’چچا۔۔۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ ہم کیا جنگل میں رات کے دوسرے پہر سیر کرنے گئے تھے۔ آپ کو یقین کیوں نہیں آتا کہ ہمارے پیچھے ڈاکو اور بھوت پڑ گئے تھے۔‘‘ ہم رونے لگے۔
چچا نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔ ’’وہ شاید تمہیں جانتے نہیں تھے کہ تم کس کے بھتیجے ہو؟‘‘
ہم نے جلدی سے کہا۔ ’’وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ جبھی تو ہم اغوا ہوئے۔ ڈاکو اور بھوت آپ کی کسی پرانی دشمنی کا بدلہ مجھ غریب سے لینا چاہتے تھے۔‘‘ ہم پھوٹ پھوٹ کر بلک بلک کر اور سسک سسک کر رونے لگے۔
آگیا ہے۔ ہمیں جلد ہی اسے جادوئی عمل کروانے کے لئے حقے والے بابا کے پاس لے جانا ہوگا۔‘‘
’’تو کیا ہمیں حقہ پینا پڑے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہمیں اپنے حلق سے غٹ غٹ غٹ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
’’بے وقوف! حقے والے بابا کی شان میں گستاخی مت کرنا۔ ورنہ تم کبھی بھی ان دیکھے بھوت سے چھٹکارا نہیں پاسکو گے۔‘‘ چچا چوہدری نے حقے والے بابا کی حمایت کی۔ بخشو نے پوچھا۔ ’’چھوٹے سرکار کو کب حقے والے بابا کے پاس لے کے جانا ہوگا۔‘‘
’’پوپٹنے سے پہلے۔‘‘ چچا چوہدری نے کہا۔‘‘ پوپٹتی نہیں پو پھٹتی ہے۔‘‘ ہم نے دبے دبے لہجے میں کہا۔ تو چچا چوہدری نے اس مرتبہ ہمیں صرف گھورنے پر اکتفا کیا۔ ان کے گھورنے کا انداز ایسا ہی تھا جیسے الو کسی کو گھورتا ہے بہرحال۔ پو ’’پٹنے‘‘ میں کافی وقت باقی تھا۔ اور ہم سونا بھی نہ چاہتے تھے۔ کیونکہ ’’گھر بدری‘‘ کے بعد ہمیں ایک پل بھی سکون میسر نہیں آسکا تھا۔ اور چچا چوہدری کے پاس آنے کے بعد سے پے درپے پیش آنے والے حادثات نے ثابت کردیا کہ سکون کا لفظ چچا چوہدری کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ بہرحال اگر ہمیں اپنا کوئی قاعدہ نہ ملتا تو تو ہم خود چچا چوہدری کی لغت میں کہیں کھپ جاتے جو ہمیں ہر صورت گوارا نہیں تھا۔
ہم اپنے کمرے میں دوبارہ اغواء ہونے کا خوف ننھے منے دل میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا چچا چوہدری کے کمرے میں ہی سونے چلے گئے۔ چچا چوہدری تو لحاف میں دبکے اونگھ رہے تھے۔ کمرے میں نیم تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ ہم نے چچا چوہدری کے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔
ادھر ادھر نظریں ٹٹولنے کے بعد ہمیں کوئی چیز ایسی نظر نہ آئی جو قیمتی کہلائے جانے کے مستحق ہو۔ سوائے اس تجوری کے جو ایک کونے میں رکھی گئی تھی۔ اور کوئی بہت ہی قیمتی خزانہ اپنے اندر موجود ہونے کی نشاندہی کررہی تھی۔ تجسس کی ایک لہر ہمارے بدن میں سرائیت کرگئی۔ اور اگر ایسا ممکن ہوا تو ہم اکیلے ہی دور کہیں بھاگ چلیں گے اور اس خزانے کو پاکر اتنی شان وشوکت سے رہیں گے کہ نہ ہمیں کوئی امتحان دینا پڑے، نہ فیل ہونا پڑے اور نہ چچا چوہدری کے پاس سزا بھگتنا پڑے۔ اور اس سے قبل کہ حقے والے بابا کے پاس ہمیں لے جایا جائے ہم بھاگ جائیں۔
تجوری کا لاک ہونا حسب روایت تھا۔ اب لاک کیسے کھولا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ تجوری تھی تو اس کا لاک بھی تھا اور لاک تھا تو اس کی چابی بھی کہیں نہ کہیں ہوگی۔ اور ہم انے اپنے ذہن کے اونٹ اور گھوڑے دوڑائے تو کہیں سے اطلاع آئی کہ چابی، چابی والے کے پاس ہوگی۔ ہم نے لعنت ملامت کی کہ اب چابی والے کو ڈھونڈنے کے لئے کون جنگل میں جاکر اپنی جان جوکھوں میں ڈالے۔ پھر دل میں کہا کہ بے وقوف! چابی تو چچا چوہدری کے پاس ہی ہوگی۔ بس یہ مخبری ہوتے ہی ہم نے چچا چوہدری کے بستر کو اس احتیاط کے ساتھ ٹٹولنا شروع کیا کہ وہ کہیں جاگ نہ جائیں اور ہمارا کھیل خراب نہ ہوجائے۔ ہمیں چچا چوہدری کے تکئے کے نیچے سے چابیوں کا گچھا مل گیا تو ہماری باچھیں کھل گئیں۔ کیونکہ چابیوں کے گچھے میں اتنی ساری چابیاں تھی جیسے چچا چوہدری کسی بادشاہ کے خزانچی رہے ہوں۔
بہرحال اب ڈیڑھ دو سو چابیوں میں سے صحیح چابی کا تلاش کرنا time consumingکام تھا۔ اور اس کا ایک ہی طریقہ تھا۔ کہ ہر چابی کو تجوری میں لگا کر چیک کیا جائے۔ بس۔ جناب! ہم تو لگ گئے اس کام پہ۔ کیونکہ ویسے بھی حقے والے بابا کے پاس جانے تک توٹائم پاس کرنا تھا۔ اب ہم نے ہر چابی سے تجوری کو کھولنا شروع کیا۔
ایک۔ دو۔ تین ۔باون ۔تین ۔چوں ۔سٹر سیٹھ۔ اڑ سٹھ، پچانوے۔ چھپانوے۔ اس طرح ہم گنتی بھی کرتے جارہے تھے یہاں تک کہ 199چابیاں چیک ہوگئیں مگر تجوری نہ کھلی۔ اب ایک آخری چابی رہ گئی تھی جو کہ دوسوویں چابی تھی۔ ’’اگر اس سے بھی تجوری نہ کھلی تو۔ اور اگر تجوری کھل گئی تو۔‘‘ دونوں میں سے کوئی بھی بات صحیح ہوسکتی تھی۔ اور آدھا گھنٹہ ہم نے مزید کسی نتیجے پر پہنچے کے لئے آدھا گھنٹہ لگا دیا۔ پھر ہم نے فیصلہ کرلیا کہ چچا چوہدری کے آنکھ کھولنے سے پہلے ہمیں تجوری کھول دینی ہے۔ اور جناب مبارک ہو! دو سوویں یعنی آخری چابی کام آگئی۔ کاش ہم نے اسی چابی سے اسٹارٹ لیا ہوتا۔ مگر یہ کیا۔ خزانہ تو دور کی بات اگر تجوری خالی ہوتی تو بھی اتنی حیرت نہ ہوتی تو جتنی تجوری سے دو عدد جوتے ملنے پر ہوئی۔

*****

تجوری میں جوتے رکھنے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی؟ یہ جاننے کے لئے ہم چچا جان کو گہری نیند سے بھی جگا سکتے تھے مگر ہم نے انہیں اس ’’مصروفیت‘‘ سے بے دخل کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہاں یہ ضرور سوچا کہ اگر جوتوں میں کوئی بہت ہی خاص بات تھی یا اگر یہ مغلیہ دور کے جوتے تھے تو ان کی حفاظت محض تجوری میں رکھ کر نہیں کی جاسکتی تھی بلکہ ان کو چوری ہونے سے بچانے کے لئے چچا چوہدری کو بذات خود ایک بندوق کے ہمراہ تجوری میں بیٹھ جانا چاہئے تھا۔
بہرحال یہ خرافات سوچ سوچ کر ہم اپنے دماغ کی توانائی کی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا اس سے پیشتر کے چچا جان خواب غفلت سے بیدار ہوتے اور ہماری اچھی طرح خبر لیتے ہم نے تجوری کو اس کی اصلی حالت میں بند کردینا بہتر سمجھا۔ مگر جب ہم ایسا کرنے لگے تو تجوری کا دروازہ اس سے الگ ہوکر ہمارے ہاتھ میں آگیا۔ یعنی تجوری بضد تھی کہ ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑوایا جائے۔ مزید یہ کہ وہ ہمارے خلاف ٹھوس ثبوت یعنی تجوری کے بھاری بھر کم دروازے کی صورت میں گواہی دینے پر مصر تھی۔ گویا وہ اہرام مصرام سے زیادہ پراسرار تھی۔
تجوری سے نبرد آزما ہونا بہت مشکل کام تھا۔ ہم نے اپنی سوچ کے گھوڑوں کو دوڑانا چاہا تو انہوں نے دوڑنے سے انکار کردیا اور یہ پیغام دیا کہ تجوری کھولنے سے پہلے اپنی خیریت کا خیال کیوں نہیں آیا۔
بہرحال ایک اچھنبے میں پڑنے کے بعد ایک ترکیب ذہن میں آہی گئی۔ کیوں نہ ہم وہ جوتے ہی غائب کردیں۔ اگر واقعی وہ جوتے بہت قیمتی ہیں تو چچا جان کا شک یقیناًڈاکوؤں پر جائے گا۔ ویسے بھی وہ اب تک اپنی حویلی کے ناقص انتظامات کی خامیوں سے آگاہ ہوچکے تھے۔ جوتوں کو ہم حویلی سے دور کہیں پھینک دیں گے۔ ورنہ اگر ہمارے پاس سے جوتے برآمد ہوئے تو چچا چوہدری ہمیں اتنی زور کی لات ماریں گے کہ سیدھی کراچی میں اپنے گھر کی چھت پر آگریں گے اور یہ لات ٹرین کے سفر سے زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔
ہم نے تجوری کے دروازے کو نہایت عزت واحترام، ادب، پاس، لحاظ اور تمیز کے ساتھ زمین پر رکھا۔ جوتے لئے اور جس طرح چچا جان کے کمرے میں وارد ہوئے تھے ویسے ہی دبے پاؤں نکل گئے۔
اب ہم دوبارہ حویلی سے باہر آکر کسی ڈاکو یا بھوت سے گلے ملنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا جوتوں کو پھینکنے کے لے ہم حویلی کی چھت پر چلے گئے۔ اس چھت کے بارے میں ہم صرف یہی لکھنا چاہیں گے کہ یوں لگتا تھا کہ جنگل بھر کے تمام درند، پرند اور چرند دعوت اڑانے اسی چھت پر مدعو کئے جاتے تھے۔ 
بہرحال ہم نے ایک جوتا ہاتھ میں لیا اور ایک لمبی تھرو ہاتھ سے پورا زور لگا کرلی۔ ہمارے سائنسی نوعیت کے ذہن میں ایک سوال گونجا کہ اوپر پھینکی گئی چیزیں زمین کی طرف کیوں آتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہم نے تھوڑی دیر سانس روک کر انتظار کیا تاکہ رات کے گھمبیر سناٹے میں کہیں پر سے جوتا گرنے کی آواز سن سکیں۔ ہماری سانس کی ڈور کا رشتہ جب زندگی کے تار سے ٹوٹنے لگا تو ہم نے ایک گہری سانس لی اور اس مختصر عرصے میں یقین ہوگیا کہ جوتا شاید زمین پر واپس نہیں آیا اور نیوٹن کے سائنسی اصول غلط ثابت ہوگئے اور ہمیں ’’جوتا چرائی‘‘ کی رسم سے بے گناہ ثابت کرنے کے لئے جوتے کا کرہ ارض پر نہ ملنا ہی بہتر تھا۔
دوسرا جوتا ابھی تک ہمارے ہاتھ میں تھا اور یہ ہمارے لئے بڑے شرم کی بات تھی۔ اب وقت آگیا تھا کہ اس جوتے کو بھی پھینک کر ہم اپنے رنگے ہاتھ صاف کرلیں۔ ہم نے مذکورہ بالا طریقہ اختیار کر کے دوبارہ جوتا پوری قوت سے اچھال دیا اور ردعمل کے طور پر خود چھت سے گرتے گرتے بچے۔ اب ہم مطمئن ہوگئے اور دل کا بوجھ ہلکا کر کے نیچے جانے لگے کہ اچانک درندوں کی چنگھاڑ سنائی دینے لگی۔ جیسے وہ کسی سے انتقام لینے نکل کھڑے ہوئے ہوں۔
ہمیں یہ سمجھنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگی کہ جوتا پھینکتے ہی درندے درندگی پر ہی کیوں اتر آئے؟ کیونکہ دوسرا جوتا زمین پر آنے کے بجائے کسی بھیڑیے یا چیتے کی کھوپڑی سے ٹکرا گیا تھا۔ اور اگر وہ بھیڑیا کسی حسابی مسئلے پر غور خوص کررہا ہوگا تو اسے اپنے تخلئے کا ٹوٹنا بہت برا لگا ہوا اور یقیناًاس کے احباب اور عزیز واقارب اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت بذریعہ جوتے کے خلاف احتجاج کرنے نکل کھڑے ہوئے ہوں گے۔
جب ہم نیچے اترے تو چچا جان فکر مند دکھائی دیئے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی پوچھنے لگے کہ جنگل میں بھونچال کیسا آگیا اب ہم انہیں کیا بتائے کہ سارا کیا دھرا آپ ہی کی وجہ سے ہے۔ چچا جان نے فوراً بندوق سنبھالی گویا وہ سارے جانوروں کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے۔
’’ارے چچا خیر تو ہے؟‘‘ ہم نے سوچا کہ آخری سفر پر جانے سے پہلے چچا کے طبیعت پوچھ لیں۔ چچا چوہدری نے جواب دیا۔ ’’کاہے کی خیر میاں؟ رات کو بھی دو گھڑی سکون سے نہیں سوسکتا۔ ابھی ایک ہوائی فائر کرتا ہوں سارے درندے خاموش ہوجائیں گے۔‘‘
’’کیا آپ انہیں حساب پڑھاتے ہیں۔‘‘ ہمیں چچا چوہدری کی بات سے اپنے حساب کے استاد یاد آگئے تھے۔ جو کلاس کو خاموش کرانے کے لئے ’’دھب‘‘ سے ہماری کمر پر زودار ہاتھ مارا کرتے تھے اور ایسی آواز گونجتی تھی کہ پوری کلاس کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ ویسے بھی اس جنگل میں ہمیں ہر طرف سانپ بھیڑیوں اور چیتے جیسے خونخوار جانوروں کو بوہی سونگھنی پڑھ رہی تھی۔
چچا جان غصے میں بھرے ہوئے باہر نکلنے لگے تو یکایک ہماری نظروں نے ان کی قدم بوسی کی اور بے اختیار ہمارے منہ سے نکلا۔ ’’ارے چچا! کیا آپ ننگے پیر ہی جائیں گے باہر۔‘‘
چچا نے اپنے پاؤں پر دیکھا اور چونک کر کہنے لگے۔ ’’جب سے تم آئے ہو۔ مجھے بھولنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ کدھر ہیں میرے جوتے۔ ‘‘ اب ہم اس وقت کی حالت کو بیان نہیں کرسکتے کہ کس طرح ہم نے اپنے آپ کو لب کشائی سے روکا۔ چچا نے تجوری کی طرف دیکھا اور ہکا بکارہ گئے۔ انہوں نے ایک دلخراش چیخ ماری اور یہ چیخ ایسی خوفناک تھی کہ جنگل میں یکایک خاموشی کا جال بچھ گیا۔ تمام جانوروں کی چیخ پکار بند ہوگئی۔ اور ہمیں یوں لگا کہ کہیں چچا جان کی لائف لائن بھی منقطع نہ ہوگئی ہو۔ ہم نے چچا چوہدری کسی جگہ واقع ہے۔ کلائی کی طرف یا کہنی کی طرف۔ اس کا اندازہ تو پوسٹ مارٹم کے بعد ہی ہوسکتا تھا۔ ہم نے ان کے دل کی دھڑکن سننے کے لئے اپنا کان ان کے سینے پر لگایا تو پھٹ پھٹ، ٹھک ٹھک، کٹ کٹا کٹ،یو یو یو، بھین بھن بھیں، اور آں اوں آں اورجھٹ پٹ جھٹ پٹ جیسی عجیب وغریب اور محیرالعقول آوازیں سماعت سے ٹکرا ئیں۔ اور ہم فوراً اپنا کان دور لے گئے مبادا کہ ہمارے کان کے پردے نہ پھٹ جائیں۔ ہمارا شک یہ غالب آنے لگا تھا کہ چچا چوہدری کو شاید کسی سانس لینے میں تکلیف نہ ہو لہٰذا انہیں کسی طریقے سے ہوا پھیپھڑوں تک پہنچانی تھی۔ اور ہوا پہنچانے کے کیا طریقے ہوسکتے تھے۔ ہم سوچ بچار کرنے لگے۔
سوچ بچار میں یاد آیا کہ حویلی میں کہیں سائیکل میں ہوا بھرنے کا میپ دیکھا تھا۔ اگر اس کے ذریعے ہوا چچا چوہدری کے پھیپھڑوں تک پہنچائی جائے تو ممکن ہے انہیں ہوش ہوجائے۔ مگر اتنے لمبے چوڑے طریقے کو ہم مختصر وقت میں نہیں آزمانا چاہتے تھے۔ لہٰذا واحد شارٹ کٹ یہ تھا کہ ہم پانی کے چھینٹے چچا چوہدری کے منہ پر ڈالیں۔
قریب ہی ایک میز (جوتیں پایوں کے سہارے کھڑی تھی اور اسی وجہ سے وہ چوپایا کہلائے جانے کے مستحق نہ تھی) اس میز پر پانی سے بھرا ہوا گلاس نظر آیا۔ ہمیں اپنے حلق میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہورہے تھے مگر خود پانی پینے سے زیادہ چچا چوہدری کا جان بچانا زیادہ ضروری تھا۔
لہٰذا پانی کے قطرے چچا چوہدری کے منہ پر برسانے لگے۔ چچا چوہدری بھی شاید ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے اور ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ مگر ہم بھی اپنے موقف پر ڈٹ گئے کہ یا تو آج ہوش میں نہیں یا پھر کبھی ہوش میں نہیں۔
لہٰذا ہم نے آخری حربے کے طور پر پانی کا پورا گلاس چچا کے منہ پر انڈیل دیا اور جناب چچا چوہدری چھ لگاتار چھینکوں کے بعد حالت سکون سے حالت حرکت میں آگئے۔
’’ارے چچا۔ آپ تجوری ٹوٹی دیکھ کر بے ہوش کیوں ہوگئے‘‘۔ ہم نے اخلاقاً نہیں۔ رسماً پوچھا۔ چچا نے جواب دیا۔ ’’میرے۔۔۔جوتے۔۔۔چوری ہوگئے‘‘ ہم نے ان کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔ ’’جوتوں ۔۔۔ میں ۔۔۔ کیا۔۔۔ خاص ۔۔۔ بات ۔۔۔ تھی۔۔۔‘‘
چچا نے جواب دیا۔ ’’ان جوتوں میں میں نے خزانے کا نقشہ چھپا کر رکھا تھا۔‘‘

***** 

چچا چوہدری غمگین لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’تم نے اپنی نالائقی کی وجہ سے خزانے کا نقشہ خاک میں ملا دیا۔ اسے میں نے جوتوں میں چھپا کے ہی اسی لئے رکھا تھا کہ دشمنوں کی نظر اس پر نہ پڑے۔ لکڑ دادا کے زمانے سے ہمارا خاندان اسی نقشے کی حفاظت کرتا چلا آرہا تھا۔‘‘
’’کیا وہ دادا لکڑی کھاتے تھے۔‘‘ ہم لکڑ دادا کے ذکر پر چونک گئے۔ مگر چچا چوہدری نے ہمیں زبان درازی کی اجازت نہ دی۔ اور متواتر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ ’’ہمارے خاندان، ہمارے پرکھوں کی نشانی تمہاری وجہ سے جنگلی درندوں کے پیروں تلے آکر کچل گئی ہوگی۔‘‘
’’کیا ہوا جوتا ہمارا خاندانی نشان تھا؟‘‘
ہمارے اس سوال کے جواب میں ’’انہوں‘‘ نے اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ خود کلامی کے انداز میں کہنے لگے۔‘‘ یاخدایا! میں اس لڑکے کے خزانے کے نقشے کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اور یہ ابھی تک جوتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اس کی جوتوں سے ٹھکائی کرنی پڑے گی۔‘‘
پھر نہ جانے چچا چوہدری کے ہاتھ میں کہاں سے ایک اچھا والا جوتا آگیا۔ جتنی دیر میں ہم چچا چوہدری کو بتائیں کہ یہ پاؤں میں پہننے کی چیز ہے اسے ہاتھ میں لینا یا بنک کالا کر سمجھ کر کوئی Confentialچیز اس میں چھپا کے رکھنا (جیسے خزانے کا نقشہ، کوئی قیمتی گھڑی، سونے کی چین، چین وسکون، قانونی دستاویزات یو کائی کار وغیرہ) اس جوتے میں چھپا کے رکھنا مناسب نہیں۔ ہاں البتہ دھلے ہوئے موزے ہی جوتوں میں چھپا کے رکھے جاسکتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ سب زبان پر لانے کا موقع نہیں مل سکا گرچہ ہم بھی منہ میں چھوٹی سی زبان رکھتے ہیں جیسے ’’دوسرے‘‘ لوگ گز بھر کی زبان کہتے ہیں۔
بہرحال، اس طوفانی اور بھیانک رات کا انجام، خزانے کے نقشے کی گمشدگی ہماری پٹائی، اور ایک خوشگوار میچ پر واقع ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگلی صبح ہم نے جی بھر کر ناشتہ کیا۔ پھر بعد میں ہم نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا۔ کیونکہ خزانے کا نقشہ گم ہونے کے لئے افسوس میں تو تھا ہی مگر خوشی اس بات کی تھی کہ ہم پھر کسی خطرناک مہم جوئی سے بچ گئے تھے۔ ورنہ تقریباً خزانے کی تلاش کے لئے ہمیں ان تمام خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا جو ہم خزانے کی کہانیوں میں سننے آئے تھے۔ کہیں ہماری یہ خوشی پائیدار نہ تھی۔ کیونکہ ابھی ہمیں حقے والے بابا کی خدمت میں حاضری دینے جانا تھا۔
’’حقے والے بابا‘‘ کی شخصیت کا خاکہ ہم نے اپنے ذہن میں بنانا شروع کیا۔ ان کے چہرے پر لمبی سفید داڑھی ہوگی۔ گلے میں لمبی لمبی سفید موتیوں والی مالائیں ہوں گی۔ لمبا کرتا اور دھوتی پہنیہوئے ہوں گے اور لمبی سی چادر اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ سر پر لمبی سے ٹوپی پہنے ہوں گے اور ہاتھ میں لمبی سی چھڑی ہوگی۔
اب آپ یہ مت سوچئے کہ ہم لمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں۔ دوسروں پر کچھ پڑھ کر پھونکنے سے جن بھوت بھگانے والے باباؤں کے بارے میں ہمارا اور آپ کا ذاتی خیال اس سے زیادہ اوپر نیچے نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگ کسی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی یا حجرے میں ہی ملتے ہیں مگر ہمارے یہ سارے خیالات اور نظریات اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب چچا چوہدری ہمیں جنگل کے مرکز میں ایک عالیشان مکان کے اندر لے گئے۔
’’کیا یہ حقے والے بابا کا محل ہے۔‘‘ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ہماری آنکھیں خیرہ ہوگئی ’’احمق!‘‘چچا چوہدری نے ہمارے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر کہا۔‘‘ یہ حقے والے بابا کا آستانہ ہے‘‘۔
آستانہ غٹ غٹ غٹ کا آوازوں سے گونج رہا تھا بلکہ ہل رہا تھا۔ ہم سمجھے کہ یہ غٹ غٹ کی آوازیں کبوتروں کی ہیں۔ مگر جلد ہی ہمیں لگ پتہ گیا کہ یہ آواز حقے میں سے برآمد ہورہی تھی۔ حقے والے یا شاید پہلے کسی زمانے میں نواب یا رئیس رہ چکے ہوں گے۔ یا غلطی سے اب بن چکے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے بڑی عمدہ شیروانی اور چوڑی دار پاجاما پہن رکھا تھا۔ داڑھی کے بجائے گھنی دراز باوقار مونچھیں تھیں گلے میں مالاؤں کے بجائے سونے کی چین تھی۔ہاتھ میں سونے کی گھڑی۔ اور انگلیوں میں طلائی انگوٹھیاں۔ سر پر ایک خوبصورت سی ٹوپی تھی۔ اور حقے کو دیکھ کرا یسا لگتا تھا کہ شاید یہ اکبر بادشاہ کے زیرا ستعمال رہا ہوگا۔ وہ ایک مخملیں بستر پر شان بے نیازی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے ذہن میں یہ سب دیکھ کر بجلی کوندی کے یہ سب اصلی ہے بس حقے والے بابا نقلی ہیں۔
چچا چوہدری نے کہا ’’جاؤ بیٹا۔ حقے والے بابا کو سلام کرو۔‘‘
ہم نے ایسا ہی کیا۔ حقے والے بابا نے کہا۔ ’’کہو میاں! بچے کو ساتھ لے کر کیسے آنا ہوا؟‘‘ یہ کہتے ہی حقے والے بابا کے حلق سے کھانسی کا طوفان برآمد ہوا۔ اور وہ نان اسٹاپ کھانستے ہی چلے گئے۔ اور اس سے پہلے کہ یہ کھانسی ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوتی۔ چچا چوہدری نے آگے بڑھ کر حقے کا پائپ ان کے منہ میں ڈالا۔ اور جیسے ہی حقے کا دھواں بابا جی کے حلق میں گیا۔ کھانسی کی جان میں جان آئی۔
پھر بابا جی نے چچا چوہدری کو بولنے کا اشارہ کیا۔ اور ہم سوچنے لگے کہ بابا جی کچھ بولنے کے بجائے اشاروں میں بات کیوں کرنے لگے۔
چچا چوہدری نے کہنا شروع کیا۔
’’یہ بچہ جب سے میرے پاس آیا ہے بڑے عجیب وغریب واقعات میرے ساتھ پیش آرہے ہیں۔
ہم اچانک کھڑے ہوگئے اور بول پڑے۔ یہ سراسر دھاندلی ہے چچا جان۔ عجیب وغریب واقعات آپ کے ساتھ نہیں۔ ہمارے ساتھ پیش آرہے ہیں۔‘‘
بابا جی نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ چچا چوہدری نے سلسلہ کلام منقطع حصے سے دوبارہ جوڑا۔
’’پہلے اسے ڈاکو اٹھالے گیا پھر اس کی ملاقات جن سے ہوئی۔ رات کے درمیانی حصے میں یہ جنگل کے اندرونی حصے میں پہنچ گیا۔ گھر میں یہ عجیب عجیب حرکتیں کررہا ہے۔ یہ عجیب وغریب واقعات براہ راست مجھ پر اثر انداز ہورہے ہیں اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں قیامت میں اس کے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘
’’ہائیں‘‘ ہم نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’کیا آپ کے پاس اور بھی کچھ منہ ہیں جن کا انتخاب آپ موقع کے مناسبت سے کرتے ہیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ بابا جی کے منہ سے ’’ہوں‘‘ نکلا اور ’’ہوں‘‘ کے ساتھ ہی کھانسی کا ریلا نکلا پڑا۔ جیسے ہی انہوں نے حقہ منہ سے لگایا۔ ماحول پر سکون ہوگیا۔
چچاچوہدری کہنے گلے۔‘‘ نہ یہ فیل ہوتا۔ نہ اس کے گھر والے سزا کے طور پر یہاں بھیجتے۔ اور نہ میرا جینا حرام ہوتا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جنگل کا کوئی بھوت اس پر چڑھ گیا ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ ہم نے اچھلنا شروع کردیا۔ چچا چوہدری کہنے لگے۔ ’’دیکھا دیکھا آپ نے۔ بھوت ناچ رہا ہے۔‘‘
ہم نے جھنجھلا کر کہا ’’لاحول والا۔ یہ بھوت نہیں ناچ رہا۔ یہ تو ہم زبردستی اچھل رہے ہیں تاکہ اگر کوئی بھوت ہم پر چڑھ گیا ہے تو نیچے گر جائے۔‘‘
چچا چوہدری نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کر کے کہا ’’خاموش اگر تم خاموش نہیں رہو گے تو حقے والا بابا تمہارا علاج نہیں کریں گے۔‘‘
ہم نے چچا چوہدری کے کان میں کہا‘‘۔ یہ حضرت اپنی کھانسی کا علاج تو کر نہیں سکے۔ میرے بھوت کا یہ کیا علاج کریں گے۔‘‘
؂چچا چوہدری ہمیں آنکھیں پھاڑ کے گھورنے لگے۔ ہم نے ان کی آنکھوں میں جھانکا تو خوفزدہ ہوگئے۔ کیونکہ ہمیں ایسا لگا جیسے کہ بھوت ہمارے اندر نہیں بلکہ چچا چوہدری کے ہی اندر ہے جبھی وہ بھوت جیسی شعلہ مار آنکھوں سے گھور رہے ہیں۔
چچا چوہدری نے بابا جی سے کہا۔ ’’حضور! کچھ عنایت فرمائیں کہ بچہ یہاں سے صحیح سلامت اور ہنسی خوشی واپس گھر جاسکے۔‘‘
ہم نے عرض کیا ’’تعویذ کے بجائے آپ ٹرین کا ٹکٹ ہاتھ پہ رکھ دیں تو ہم ابھی صحیح سلامت اور ہنسی خوشی واپس گھر جاسکیں۔‘‘
بابا جی نے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اور آنکھیں موند لیں۔ تھوڑی دیر تک وہ آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے۔
چچا چوہدری نے کہا۔ ’’باباجی مراقبہ کررہے ہیں۔‘‘
ہم نے کہا ’’بابا جی مراقبہ نہیں کررہے۔ سورہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر چچا چوہدری نے ہمارے سرپرہلکا سا ہاتھ مارا۔
بابا جی کو اس حالت میں جب کافی دیر ہوگئی۔ تو چچا چوہدری نے پہلے تو انہیں ذرا سا ہلایا۔ ایک دو مرتبہ ’’بابا جی ‘‘ کہہ کر اصلی حالت میں لانے کی کوشش کی۔ پھر انہیں جھنجھوڑا اور بھنبھوڑا بھی۔ مگر باباجی ہوش میں نہ آئے۔
’’انہیں حقہ پلائیں۔ تب یہ ہوش میں آئیں گے۔‘‘ ہمارے کہنے پر چچا چوہدری نے حقے کا پائپ ان کے منہ پر ڈالا۔ جیسے ہی حقے کا دھواں بابا جی کے حلق میں گیا بابا جی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔
’’معاف کرنا۔ میں ذرا گہری نیند میں چلا گیا تھا۔‘‘
چچا چوہدری کی عادت تو نہ تھی معاف کرنے کی۔ بس وہ دانت پیس کر رہ گئے۔ باباجی نے کھانسی کے درمیان کہنا شروع کیا۔
’’کل رات جب میں جنگل کے بیچوں بیچ چلہ کاٹ رہا تھا۔ تو اچانک ایک جوتا میرے سر پر آکے لگا۔‘‘
چچا چوہدری اور ہمارے کان کھڑے ہوگئے۔ بابا جی اپنی دھن میں مگن بلکہ اپنی کھانسی میں مگن کہہ رہے تھے۔
’’چلے کے درمیان کسی چیز کا ملنا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ یقیناًاس میں کوئی خاص بات ہے۔ اور میرا کالا علم اور نیلا علم کہتا ہے کہ یقیناًاس جوتے میں کوئی خاص بات ہے۔‘‘
ؔ ؔ ’’کیا خاص بات ہے؟‘‘ ہم نے اور چچا نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہی کہ جس پر کوئی بھوت چڑھا ہوا ہے۔ اس کی پٹائی اگر اس خاص جوتے سے کی جائے تو وہ بھوت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھاگ جائے گا۔‘‘
بابا جی نے اپنی بات ختم کی۔ چچا نے بیتابی سے کہا۔ ’’کدھر ہے وہ جوتا۔‘‘ حقے والے بابا نے اپنے تکئے کے نیچے سے وہ جوتا نکالا۔ یہ وہی جوتا تھا۔ جو ہم نے تجوری سے نکال کر پھینک دیا تھا۔ چچا نے فوراً وہ جوتا چھینا۔ اور اسے الٹ پلٹ کر ٹٹولنے لگے۔ ’’کدھر ہے۔ کدھر ہے وہ خزانے کا نقشہ۔‘‘
چچا چوہدری کے استفسار پر بابا جی بولے۔ ’’خزانے کا نقشہ ۔ کیسا خزانے کا نقشہ۔‘‘
چچا چوہدری بولے۔ ’’ وہی نقشہ جو اسی جوتے میں خاص طریقے سے چھپا کے رکھا تھا۔‘‘
باباجی بولے ’’اچھا۔ وہ خزانے کا نقشہ۔۔۔ میرا مطلب ہے وہ تو مجھے نہیں ملا۔‘‘ چچا نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ اسی جوتے سے بابا جی کا بھوت اتارنا شروع کردیا جس سے بابا جی جو تھوڑی دیر پہلے تک چچا کی نظر میں قابل احترام ہستی تھے اور ہمارا بھوت اتارنے والے تھے

*****

گھر واپس آتے ہوئے چچا چوہدری کا موڈ بہت خراب تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ہم جلد بازی نہ کرتے اور جوتے پھینکنے سے پہلے اگر چچا چوہدری کو جگا کر پوچھ لیتے کہ ان جوتوں کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا ان جوتوں کا شجرہ نصیب لکڑ دادا پتھر دادا وغیرہ سے جا کے تو نہیں ملتا تو ہم اس غلطی بلکہ عظیم جرم کے مرتکب نہ ہوتے۔
ہم نے چچا چوہدری سے پوچھا ’’چچا جان! ہم جانتے ہیں کہ ہم سے جو بھی غلطی سر زد ہوئی ہے۔ وہ انجانے میں ہوئی ہے۔ بھول چوک ہوگئی۔ اور آپ ایک خزانے سے محروم ہوگئے۔ مگر پھر بھی مودبانہ گزارش ہے کہ آپ میری جو سزا چاہیں منظور فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔ فقط آپ کا فرمانبردار اور نالائق بھتیجا۔‘‘
چچا چوہدری نے ہماری تمام باتوں کو من وعن حرف بہ حرف سنا اور ارشاد فرمایا۔ ’’تم فیل ہوگئے تھے تو تمہارے گھر والوں نے تمہیں میرے پاس بھیج دیا۔ میں تمہیں کہاں بھیجو۔‘‘ ہم جلدی سے بولے ’’آپ ہمیں گھر واپس بھیج دیں۔ تاکہ سزا کے طور پر ہم اسی خوبصورت جنگل کی سیر سے محروم ہوجائیں۔‘‘
چچا چوہدری نے ہمیں گھور کر دیکھا تو ہمیں یوں لگا جیسے بارہ بور کی شکاری رائفل سے نکلنے والی گولیاں ہمارے سینے کو چھلنی کر کے دل میں پیوست ہوگئیں ہیں۔ وہ کہتے گئے۔ ’’تم نے مجھے بالکل ہی بیوقوف سمجھ رکھا ہے۔ تمہیں میرے پاس آئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ اور ابھی تو دو مہینے کی چھٹیاں باقی ہیں۔‘‘
اس وقت ہمارے دل سے یہ شکوہ نکلا کہ کاش دو مہینے کی چھٹیاں نہ ہوتیں۔ یا ہم کم از کم ششماہی امتحان میں ہی فیل ہوئے ہوتے تاکہ دس دن کی ہی چھٹیاں گزارنے (بلکہ سزا کاٹنے) چچا چوہدری کے پاس بھیجے جاتے۔ مگر فیل ہونا اور وہ بھی سالانہ امتحان میں۔ یہ کارنامہ کسی کسی کا مقدر بنتا ہے۔ بہرحال اب ہم مقدر کے سکندر کے بجائے ایک ایسے بندر بن گئے تھے جسے جنگل میں لاکے پھینک دیا گیا تھا۔ ہم گھر والوں سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے اور یہ امید دل میں سرا بھارنے لگی تھی کہ ہم گھر والوں کے اپنے ابھی تک صحیح وسالم ہونے کی خبر کسی طرح سنا دیں۔فون کی سہولت وہاں نہ ہونے کے ایک ہزار ایک نقصانات انہیں گنوا دیئے۔ ’’آدمی رابطے میں نہیں رہتا۔‘‘ ٹائم کا ضیاع ہوتا ہے‘‘۔ ’’وقت نہیں کٹتا‘‘۔ آدمی بور ہوجاتا ہے۔ ’’خیر خبر نہیں آتی۔‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ جواب میں چچا جان نے کہا ’’مگر ان تمام نقصانات کے مقابلے میں ایک فائدہ کیا یہ کم ہے کہ ٹیلیفون کا بل نہیں آتا۔ اور آدمی کئی قسم کی ٹینشن سے بچ جاتا ہے۔ جیسے بل کی رقم کی ٹینشن۔ پھر بل جمع کرانے کے لئے لائن میں کھڑا ہونے کی ٹینشن اور جب بل جمع ہوجائے تو پھر اگلے بل کی ٹینشن۔
ہم دل میں سوچنے لگے کہ چچا چوہدری کے ’’بھوت بنگلہ‘‘ یا ٹینشن ہاؤس میں تو یہ چھوٹی موٹی ٹینشن کچھ بھی نہیں تھی۔ ہم نے یہ مدعا چچا چوہدری کے سامنے رکھا کہ ایک چھوٹی سی عرضداشت یہ ہے کہ کسی طرح ہماری خیر خیرت گھر والوں تک پہنچا دیں۔ ہم آپ کے مشکوروممنون ہوں گے۔ چچا چوہدری نے کہا۔ ’’برخردار! تم ایک خط لکھ دو۔ ہم ڈاک خانے میں ڈال آئیں گے۔‘‘
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ہم نے کس طرح ایک قلم اور ایک کاغذ ڈھونڈا اگر یہ کہانی لکھنے بیٹھ جائیں تو کئی سال لگ جائیں۔ مگر ہم چیدہ چیدہ واقعات کو ہی قلم بند کرتے چلے آئے ہیں لہٰذا قلم کاغذ لے کر یہ سرگزشت لکھنا شروع کی۔
’’پیارے امی اور ابو ظاہری طور پر تو میں چچا جان کے پاس بہت خوش ہوں مگر اندر سے میرا حال کسی بھوکے شیر کا ہے۔ نہ یہاں چاکلیٹ کی دکان ہے نہ قریب میں کوئی آئسکریم پارلر، ٹی وی بھی نہیں، البتہ رات بھر ہمیں جنگلی جانوروں کا راگ سنائی دیتا ہے جس کی وجہ سے ٹی وی کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ صحت روز بروز اچھی ہوتی جارہی ہے کیونکہ یہاں پر صرف اونچے اونچے درخت ہیں۔ جن سے تازہ ہوا برآمد ہوتی ہے۔ اور ہماری صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ چاکلیٹ اور آئسکریم نہ کھانے سے ہمارے دانت بھی نہیں خراب ہورہے۔
چچا چوہدری نے ہمارا پورا خیال رکھا ہوا ہے۔ اور ہمیں امید ہے کہ باقی دن بھی نہایت آرام سے کٹ جائیں گے۔ چچا چوہدری کو کوئی کہانی نہیں آتی۔ لہٰذا ہمیں خود ہی کہانی بنانی اور سنانی پڑتی ہے۔‘‘
اس کے بعد ہم نے جانے کیا کیا خرافات لکھے۔ کہ چچا چوہدری کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی اور ہمارا گھوڑے کی طرح دوڑتا ہوا قلم رک گیا۔ چچا چوہدری بولے۔ ’’تم خط لکھ تو رہے ہو۔ مگر یہ جائے گا کیسے؟ یہاں تو کوئی ڈاک خانہ ہی نہیں۔‘‘
لیجئے۔ اب یہ بھی ہمارا ہی قصور تھا۔ اب پتہ نہیں ڈاک خانہ کب بنے؟ ہمیں چچا چوہدری پر غصہ آرہا تھا کہ انہوں نے اپنی باغ وبہار زندگی ایک جنگل میں کیوں برباد کردی۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اسی وقت ہمیں واقعی اپنے آپ پر رونا آرہا تھا کہ ہم فیل کیوں ہوئے۔ اب ہم نے دل میں عہد کیا کہ ہمیشہ دل لگا کر پڑھیں گے۔
اچانک بخشو ہاتھ میں ایک لفافہ لئے ہوئے آیا۔ پتہ چلا کہ ہمارے گھر سے ایک رقعہ لایا ہے۔ ہم نے بے صبری سے اسے اپنی آنکھوں سے عقیدت مندانہ انداز میں لگایا اور فوراً لفافہ چاک کیا۔ اور خط پڑھا۔ لکھا تھا۔
’’پیارے بیٹے! اب گھر واپس آجاؤ۔ ہم سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ اوہ! تو یہ ہمارے ہی گھر میں ہم ہی کا دعوت نامہ تھا۔ ہم خوشی سے قلانچیں بھرنے لگے۔ چچا چوہدری نے وہ خط لے کر پڑھا۔ اور پھر وہ بھی خوشی سے اچھلنے لگے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ ’’خط تو ہمارا ہے۔ آپ کیوں اتنا خوش ہورہے ہیں۔ یقیناًہم نے چھٹکارا پاکر خوش ہورہے ہوں گے۔‘‘
چچا نے کہا کہ ’’نہیں۔ بلکہ اس لئے خوش ہوں کہ اب میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے گھر چل رہا ہوں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔‘‘
ہم نے خط چھین کر یہ خبر پڑھی۔ اس میں چچا کو ساتھ آنے اور ہمیشہ کے لئے ہمارے گھر میں رہنے کا کہاگیاتھا۔ یہ ایک مژدہ تھا یا صدمہ جس کے باعث ہم بے ہوش ہوکر چچا کے ہاتھوں میں جھول کر رہ گئے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top