skip to Main Content

چچا خوش باش

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

نام تونہ جانے ان کاکیاتھا لیکن سب انہیں چچا خوش باش کہہ کرپکارے تھے۔لمباساقد،رنگ سرخ وسفید،آنکھیں بھوری مگرموٹی موٹی،ناک طوطے کی چونچ جیسی،ہونٹ قدرے باریک،سرپر ٹوپی پہنتے اورناک پر چشمہ ہمیشہ جمائے رکھتے تھے۔ململ کا کرتہ اورپاجامہ اُن کا پسندیدہ لباس تھا۔جیساکہ نام سے ظاہر ہے، وہ ہمیشہ خوش باش رہتے تھے۔کوئی آدمی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے کبھی چچا خوش باش کے چہرے پر مسکراہٹ کے سوا کوئی دوسرے تاثرات دیکھے ہوں۔ وہ ہر ایک سے محبت اور چاہت سے ملتے تھے۔ اگرچہ ان کی عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ تھی لیکن ان کی صحت اتنی اچھی تھی کہ محلے کے نوجوان رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔چچا خوش باش بے شمار خوبیوں کے مالک تھے لیکن اُن کی ایک ادا محلے کے لڑکوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ تھی ان کی کرکٹ سے مخالفت۔ لڑکے جب بھی گلی میں کرکٹ کھیلتے، چاچا خوش باش فوراً نازل ہوجاتے اور آتے ہی کرکٹ کی شان میں ’قصیدے‘ پڑھنا شروع کر دیتے۔وہ اکثرکہا کرتے تھے۔”لڑکو! کرکٹ مت کھیلا کرو،اس میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے اورپھر کھلاڑی سارا سارا دن دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے رنگ کالے کر لیتے ہیں۔“ ان کی بات سن کر لڑکے مسکرا دیا کرتے تھے۔
ارشدانہیں کرکٹ کے فوائد گنواتا رہتا تھا لیکن وہ کبھی بھی چچا خوش باش کو قائل نہیں کر سکا تھا۔ بس ان کا یہی موقف تھا کہ کرکٹ فضول کھیل ہے، اس کے ذریعے لوگ اپنا وقت برباد کرتے ہیں، پیسہ برباد کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا رنگ کالا کر لیتے ہیں۔
وہ ایک خوش گوار دن تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ارشد سکول کا کام کر رہا تھا کہ گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر اس کا دوست امجد تھا۔ وہ اُسے لینے آیا تھا۔ دراصل اُن کا کرکٹ کھیلنے کا پروگرام تھا۔ ارشدنے کتابیں سنبھالیں،امی جان کو بتایا اور اس کے ساتھ ہو لیا۔ گھر کے پیچھے قدرے کھلی اور صاف جگہ تھی،جسے انہوں نے گراؤنڈ کا نام دیا تھا۔ گراؤنڈ کے ساتھ ہی چچا خوش باش اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ارشداورامجدگراؤنڈ میں داخل ہوئے تودیکھا،اُن کے کلب کے قریباًسارے کھلاڑی وہاں پہلے ہی موجود تھے۔
”ارشد!آج توموسم بہت خوش گوارہے،کھیل کالطف آجائے گا۔“جاویدنے خوش ہوکر کہا۔
”شرط یہ ہے کہ چچا خوش باش نازل نہ ہوں۔“اجمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہم کھیل رہے ہوں اورچچاخوش باش لیکچر دینے نہ آئیں…یہ ناممکن ہے۔“یہ عابدتھا۔
”مجھے سمجھ نہیں آتی،آخرچچاخوش باش کرکٹ کی اس قدر مخالفت کیوں کرتے ہیں؟“اکرم نے چیونگم چباتے ہوئے کہا۔
”میں تو ہر نماز کے بعد دعا کرتا ہوں، اے اللہ!چچاخوش باش کے بچوں کو بھی کرکٹ کا شوق دے دے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ کھیلنے آجائیں۔دوستو! سوچو،اس وقت کتنا مزا آئے گا،جب اُن کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں گے۔“امجدنے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس پر ایک قہقہہ پڑا۔
”اچھا،اب باتیں بندکرواورکھیل شروع کرو۔“ارشدنے کہا۔
لڑکوں نے دو گروپ بنائے اور کھیلنے لگے۔امجد بیٹنگ کررہاتھااورارشدباؤلنگ۔
”ارشد!اب دھیان سے گیندکرانا،میں چھکاماروں گا۔“امجدنے گویا اُسے چیلنج کیا۔
”تم مجھے چھکا نہیں مار سکتے۔“ارشدنے آنکھیں نکالیں۔
”کیوں نہیں مارسکتا،ابھی کل ہی تو تمہیں لگاتارتین چھکے مارے تھے۔ بھول گئے کیا؟“امجدنے بلاہاتھوں میں گھماکر کہا۔
”وہ تو میری طبیعت خراب تھی،اس لیے تم نے چھکے ماردیے،آج مارکردکھاؤ،تمہیں مان جاؤں گا۔“ارشدنے کہا۔
”کیامان جاؤگے۔“
”یہ کہ تم واقعی شاہد آفریدی ہو۔“اُس نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، آج میں واقعی ثابت کردوں گاکہ میں شاہد آفریدی کی طرح چھکے مارتا ہوں۔چلوتم گیندکراؤ۔“امجد نے سینہ پھلاکر کہا۔
فیلڈرزکوچوکس کرکے ارشدنے بھاگناشروع کیااور پھر وکٹوں کے قریب پہنچ کراُس نے پوری قوت سے گیند پھینک دی۔ مگریہ کیا،جس تیزی سے گیندامجد کی طرف گئی، اسی تیزی سے وہ واپس ہوامیں اُچھل گئی تھی۔ارشدنے گھبراکر گیند کی طرف دیکھا، وہ اُڑتی ہوئی باؤنڈری لائن کی طرف جارہی تھی۔پھر اچانک وہ ہوگیاجس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔چچا خوش باش خوشی سے چہکتے ہوئے، اپنے گھر سے نکل رہے تھے کہ گیند زور سے اُن کے سرسے ٹکرائی اور وہ اُف میں مرا،کہہ کر سرکوپکڑے زمین پر بیٹھتے چلے گئے۔ان کے سر پر موجود ہلکی پھلکی ٹوپی ایک طرف جا پڑی تھی۔ سب لڑکوں نے گھبراکرایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”اب کیاہوگا۔“امجدنے پریشان ہوکر پوچھا۔
”تم نے چھکااِدھر ہی مارنا تھا،کسی اورطرف مارلیتے۔“ارشدنے اُسے گھورا۔
”تم نے گیند ہی ایسی کرائی تھی۔میں کیاکرتا،جدھر شارٹ بنی، اُدھر ہی کھیل دی۔اب مجھے کیا پتہ تھا، گیند چچا کی خیریت دریافت کربیٹھے گی۔“امجدنے منہ بنا کر کہا۔اُس نے جلدی سے بلاعابد کوپکڑادیا تھا۔
”آج ہماری خیر نہیں،کرکٹ سے تو یہ پہلے ہی خارکھاتے ہیں۔“جاویدنے مارے خوف کے کانپتے ہوئے کہا۔
اُدھرچچاخوش باش ابھی تک سرپکڑے بیٹھے تھے۔لڑکے ڈرکے مارے اُن کے قریب جانے سے کترارہے تھے۔پھرانہوں نے دیکھا۔ اچانک چچاخوش باش اُٹھ کرکھڑے ہوگئے۔اُن کے لبوں پر مخصوص مسکراہٹ تیرنے لگی تھی۔
”ارے واہ!چوٹ کھاکر بھی مسکرارہے ہیں۔“عابدحیرت سے بولا۔
”یہ توہے، آخرخوش باش جوہوئے۔“جاوید مسکرایا۔
”وہ…وہ ہماری طرف آرہے ہیں۔“امجدچلا اُٹھا۔
چچاخوش باش تیزی سے اُن کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے۔وہ بھاگنا چاہتے تھے لیکن ایک قدم تک نہ اُٹھا سکے۔آخر وہ اُن کے پاس آگئے اورگھورکرانہیں دیکھنے لگے۔عینک کے پیچھے سے گھورتی ہوئی، اُن کی موٹی موٹی آنکھیں لڑکوں کاخون خشک کیے دے رہی تھیں۔وہ چندلمحے اسی طرح انہیں گھورتے رہے،پھرمسکراکربولے:
”کرکٹ کا ایک نقصان یہ بھی ہے جوتم لوگوں نے ابھی ابھی دیکھاہے۔“
”چچا!ہم نے جان بوجھ کر توآپ کے گیندنہیں ماری۔میں نے ایک شارٹ کھیلا تھا،وہ اتفاقاً آپ سے ٹکراگیا۔“امجدنے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”ایسے چند اتفاق اورہوگئے تومیرے سرپرکئی اورسراُگ آئیں گے،اس طرح کے۔“چچا خوش باش نے ہنستے ہوئے کہا اور ٹوپی اُتارکر سر انہیں دکھایا۔انہوں نے دیکھا،چچا خوش باش کے سر پرایک اورننھا مُنّاسا سرنمودارہوچکاتھا۔
”چچا! ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔“جاوید نے آہستہ سے کہا۔
”تمہارے شرمندہ ہونے سے،کیا یہ گومڑغائب ہوجائے گا۔“چچا خوش باش ہنسے۔
”جی نہیں،اس مرتبہ معاف کردیں،آیندہ دیکھ کر کھیلیں گے۔“ارشد نے رونی صورت بناکر کہا۔
”یعنی کھیلنا نہیں چھوڑوگے۔“انہوں نے آنکھیں نکالیں، پھر یکایک مسکرانے لگے۔
”چچا! ہم کھیل کیسے چھوڑسکتے ہیں۔“امجد منمنایا۔
”کیوں نہیں چھوڑسکتے۔ ارے، جس کھیل کاکوئی فائدہ ہی نہ ہو،اُسے کھیلنے کا فائدہ۔“
ان کی بات سن کر سب نے باری باری ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ کسی فیصلے پر پہنچ گئے۔ پھر جاوید نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا:
”ٹھیک ہے، ہم کرکٹ چھوڑدیتے ہیں،اگرچہ ہمارادل نہیں کرتا۔آپ ہی بتائیں، ہم کون سا کھیل کھیلیں؟“
”تم گلی ڈنڈاکھیلو۔میں بھی اپنے بچپن میں یہی کھیل کھیلاکرتاتھا۔بڑالطف آتاہے۔“چچا خوش باش نے خوش ہوکر کہا اور ایک ٹانگ پر گھوم گئے۔
”یہ…یہ کیا چچا۔“ ارشد کے منہ سے نکل گیا۔
”لڑکو! جب میں بہت زیادہ خوش ہوتا ہوں تو اپنی ایک ٹانگ پر گھوم جاتا ہوں۔“ انہوں نے ناک سے نیچے آتی عینک کو اوپر کرتے ہوئے کہا،پھر چونک کر بولے:
”تمہاری وجہ سے اگر آج میری عینک شہید ہوجاتی تو میں تمہارے ناک میں دم کر دیتا۔ سمجھے!“
”جی، جی سمجھ گئے۔ شکر ہے، آپ کی عینک کو کچھ نہیں ہوا۔ ورنہ ہم تو گئے تھے کام سے۔“ امجد نے گھبرا کر کہا۔
”لیکن چچا،گلی ڈنڈا آج کل کون کھیلتا ہے،یہ کھیل اگر کھیلا بھی جاتا ہے توصرف دیہاتوں میں۔اس کے برعکس کرکٹ مقبول ہے اور دُنیابھر میں کھیلا جاتاہے،خودہمارے ملک میں بھی بہت اچھے اچھے کھلاڑی ہیں، انہوں نے پوری دنیامیں پاکستان کا نام روشن کیاہے۔“عابد کہتاچلاگیا۔
چچا خوش باش نے گھورکراس کی طرف دیکھااورپھرمسکراتے ہوئے کہنے لگے:
”وہ تو ٹھیک ہے،لیکن کبھی غورکیاہے۔اس کھیل میں کتنا وقت برباد ہوتاہے۔صبح سے شام تک پاگلوں کی طرح دھوپ میں کھڑے رہو۔ ہونہہ!یہ بھی کوئی کھیل ہے۔“
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔امجدنے ارشد کو اشارہ کیاکہ اب کیاکریں۔
”ہوں،چچا! کہتے توآپ ٹھیک ہیں لیکن ان دنوں ایک روزہ اور بیس بیس اوورز کے میچز کا زور ہے۔ان میں زیادہ وقت ضائع نہیں ہوتا ہے۔خیر،آپ کہتے ہیں توہم آیندہ گلی ڈنڈا ہی کھیلیں گے، ہمیں تو بس کھیلنا ہے،کھیل چاہے جو بھی ہو۔“ارشدنے کہا۔
اورپھر اگلے دن انہوں نے واقعی گلی ڈنڈاکھیلنا شروع کردیا۔چونکہ وہ کرکٹ کھیلتے تھے، اس لیے انہیں کھیلنے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی۔ اب یوں ہوتا تھا کہ وہ جیسے ہی اپنے مخصوص گراؤنڈ میں پہنچتے،چچاخوش باش فوراًآجاتے۔کھیل سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ اُن کے ساتھ کھیلنے کے لیے۔وہ اُن کے دوست جو بن گئے تھے۔تھوڑا وقت گزرا تو سب لڑکے گلی ڈنڈا میں تاک ہوگئے۔چچا خوش باش نے انہیں گلی ڈنڈاکے بارے میں بہت کچھ بتادیا تھا۔ایک دن شام کے وقت وہ گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔چچا خوش باش اُن کے ساتھ ہی تھے۔
”دوبھئی، اب میری باری ہے۔“امجد کی باری ختم ہوئی توچچاخوش باش نے مسکراتے ہوئے کہا۔امجد نے ڈنڈا اُنہیں دے دیااور وہ کھیلنے لگے۔اچانک انہوں نے ایک زوردارٹُل ماراجوقریب سے گزرتی ہوئی ایک برقعہ پوش عورت کے لگااوروہ بے چاری چیختی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی۔ چچاخوش باش گھبرا گئے اور بھاگتے ہوئے اُس عورت کے پاس پہنچ گئے:
”معاف کیجئے گا محترمہ، بچے آپ کو دیکھ نہ سکے اور آپ کے گلی لگ گئی،آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔“ان کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو ایک جا رہا تھا۔انہوں نے ساری بات لڑکوں پر ڈال دی تھی۔جس کی وجہ سے سبھی کو بہت غصہ آیالیکن وہ غصے کااظہار نہیں کرسکتے تھے۔آخر چچا خوش باش اُن کے بڑے تھے۔
عورت نے اچانک نقاب اُٹھایا اورکڑک کربولی:
”گھر آئیے گا، آپ کو دیکھ لوں گی، غضب خدا کا، بچوں کے ساتھ بچے بنے رہتے ہیں۔“
”ارے!“ چچاخوش باش عورت کا چہرہ دیکھتے ہی یوں اُچھلے جیسے انہیں کسی بچھونے کاٹ کھایا ہو۔وہ اُن کی بیگم تھیں۔ انہوں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ پھر وہ اپنی بیگم کے ساتھ گھر جانے لگے تو امجد نے ہانک لگائی:
”چچا!کل پھر آئیے گا،ہم آپ کا انتظار کریں گے، ساتھ والی گلی کے لڑکوں سے میچ ہے۔“
چچا خوش باش نے گھوم کر اُنہیں دیکھا، مسکرائے اورپھر کھسیانے سے ہوکر قدم اُٹھانے لگے۔سب لڑکوں کے چہروں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔وہ سوچ رہے تھے، چچا خوش باش واقعی خوش باش ہیں۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top