skip to Main Content

چوتھا چور

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

وہ چاروں چور تھے۔تین تو پرانے اور خاندانی چور تھے مگر چوتھے چور کا تعلق ایک شریف خاندان سے تھا۔بچپن میں برے لوگوں کی صحبت میں جا پھنسا اور اس کے نتیجے میں چور بن کر چوروں کے گروہ میں شامل ہو گیا تھا۔ان کا ٹھکانا شہر سے دور ایک ایسے ویرانے میں تھا جہاں کوئی بھی آتا جاتا نہیں تھا۔یہ چور جو کچھ چوری کرکے لاتے تھے،اسے ایک غار میں چھپا دیتے تھے۔اچھے سے اچھا کھاتے تھے اور اچھے سے اچھا پہنتے تھے۔جب کبھی اچھے لباس میں ملبوس ہو کر شہر میں جاتے تھے تو کوئی شخص بھی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ چور ہیں۔
ان میں سے ایک چور ان کا سردار تھا،جو چوری کے معاملے میں بڑا تجربہ کار تھا۔وہ انہیں چوری کے نئے نئے طریقے سکھایا کرتا تھا۔تینوں چور اپنے سردار کی دل و جان سے عزت کرتے تھے اور اس کی ہر ہدایت پر پورا پورا عمل کرتے تھے۔
ایک رات سردار نے کہا،”دیکھو!آج ہم چاروں بڑی ہنرمندی سے چوری کریں گے اور ہم میں سے ہر ایک چوری کرکے جوکچھ لائے گا وہ اسی کو دے دیا جائے گا۔وہ اس کا تنہا مالک ہوگا۔جس طرح چاہے گا اسے خرچ کرے گا۔“
اپنے سردار کے منہ سے یہ بات سن کر سب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال چوری کرکے لائیں گے، کیوںکہ اس مال کے وہ خود مالک ہوں گے۔سردار ان سے ہرگز نہیں لے گا،چناںچہ وہ چاروں روانہ ہوگئے۔
صبح ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی کہ چاروں کے چاروں اپنے ٹھکانے پر جمع ہوگئے۔سردار نے کہا،”لاؤ بھئی دکھاؤ کہ کیا لائے ہو۔تم جو کچھ لائے ہو وہ تمہارا مال ہے۔“
پہلے چور نے سونے کے زیورات دکھائے۔سردار خوش ہو گیا۔دوسرے نے بڑی قیمتی چیزیں دکھائیں۔سردار نے اس پر بھی خوشی کا اظہار کیا اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے شاباش دی۔اب باری تھی تیسرے چور کی۔وہ اب تک بالکل خاموش بیٹھا تھا۔سردار اس کی طرف بار بار کن انکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا اور باتیں دوسروں سے کرتا جاتا تھا۔
”ساقی! اب تمہاری باری ہے۔“
اس چوتھے چور کا نام ساقی تھا اور اس کے ساتھی اور سردار اسی نام سے اسے پکارتے تھے۔
ساقی دو تین لمحے خاموش رہا پھر بولا:
”سردار! اس سے پہلے کہ میں ہاں یا نہ میں جواب دوں۔میں وہ واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ پیش آیا۔“
”ضرور سناؤ۔“سردار نے کہا۔
”سردار! میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ صرف ایک گھر میں نہیں جاؤں گا۔ دو تین گھروں میں جاؤں گا اور زیادہ سے زیادہ مال اٹھاؤں گا، مگر پہلے ہی گھر میں یہ واقعہ پیش آگیا۔“
”کون سا واقعہ؟“
میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھی اور کمزور عورت چارپائی پر پڑی ہے اور درد سے کراہ رہی ہے۔اس کے پاس زمین پر اس کی بیٹی سو رہی ہے۔ گھر کے سامان سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ بڑا غریب خاندان ہے۔بیمار عورت کا ٹھیک سے علاج بھی نہیں ہو رہا۔یہاں کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی مل سکتا تھا اور بڑی آسانی سے،مگر میرا دل بے قرار ہوگیا۔میں نے سوچا،ساقی!تو ایک ایسے گھر کو لوٹنا چاہتا ہے جس میں کچھ ہے ہی نہیں،اور سردار!میری جیب میں جتنی رقم تھی وہ میں نے اس لڑکی کے تکیے کے نیچے رکھ دی تاکہ اس کی ماں کا علاج ہو سکے اور باہر نکل آیا۔“
”پھر؟“
”اس کے بعد میرے اندر کسی اور گھر میں جانے کی ہمت ہی نہ آئی۔اصل میں اس واقعہ نے مجھ پر بڑا اثر کیا۔میں ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارتا رہا اور صبح کے دھندلکے میں یہاں آگیا۔“
سردار نے حقارت سے قہقہہ لگایا:
”ارے تیرے سینے میں تو چوہے کا دل ہے۔سخت بزدل آدمی ہے۔کیوں ساتھیو! میں صحیح کہہ رہا ہوں یا غلط؟“
باقی دونوں چوروں نے بھی اپنے سردار کی طرح حقارت آمیز قہقہے لگائے اور کہا،”سردار! تو نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔یہ چور ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر چور کے دل میں رحم آجائے تو وہ چوری کر ہی نہیں سکتا۔“
”تو کیا یہ بزدل اور نکما آدمی ہمارے گروہ میں شامل رہ سکتا ہے؟“
”ہرگز نہیں! “دونوں نے پرزور لہجے میں کہا۔
سردار سرجھکاکر کچھ سوچنے لگا۔ساقی نے اس کی طرف دیکھا اور سمجھ لیا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے،کہنے لگا:
”سردار میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے میرے پرانے ساتھیوں کو کوئی تکلیف ہو۔میں کسی کو آپ لوگوں کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔“
سردار گرجا،”یاد رکھ اگر تو نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن تجھے ہم کسی صورت میں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔“
”بے شک،بے شک۔“دونوں چوروں نے اپنے سردار کی تائید کی۔
سردار نے ساقی کو اپنی مری ہوئی ماں کی قسم کھا کر یہ عہد کرنے کو کہا کہ وہ کبھی ایسی ویسی حرکت نہیں کرے گا اور ساقی نے یہ قسم کھا لی۔سردار جانتا تھا کہ ساقی کو اپنی ماں سے بڑا پیار تھا اور جب کبھی وہ اسے یاد کرتا تو اس کی آنکھوں میں بے ا ختیار آنسو آجاتے تھے۔ساقی ویرانے سے نکل آیا۔اس ارادے کے ساتھ کے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور اپنے پرانے ساتھیوں سے کسی قسم کا بھی تعلق قائم نہیں کرے گا،اور نہ کسی کو ان کے بارے میں کچھ بتائے گا۔ویرانے سے نکلتے وقت وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔اسے زندگی بسر کرنے کا کا کوئی طریقہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کہاں جائے،کیا کرے،کس طرح روٹی کمائے؟یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا۔
صبح ہوگئی اور وہ چلا جارہا تھا۔چلتے چلتے وہ سبزی منڈی پہنچ گیا۔مختلف علاقوں میں سبزی بیچنے والے یہیں سے سبزی خریدتے ہیں۔ساقی نے دیکھا کہ کافی مزدور سبزیاں اٹھا اٹھا کر دکان داروں کے ساتھ جا رہے ہیں۔کچھ لوگ یہ سبزیاں تانگوں اور ریڑھیوں میں رکھ رہے ہیں۔ بے آسرا،بے سہارا تو وہ تھا ہی۔اس نے جب ایک دکان دار کو آڑھتی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا،”جناب! میں مزدوری کر سکتا ہوں؟“
دکان دار نے کبھی کسی مزدور کو اس تہذیب سے سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔اس نے ساقی کوسر سے پاؤں تک دیکھا اور پوچھا:
”پہلی بار منڈی میں کام کرنے آئے ہو؟“
”جی جناب!“
”بہتر،جو سبزیاں خریدوں میرے تانگے میں رکھتے جاؤ۔“
”اچھا جناب!“
ساقی صحت مند تھا۔بوجھ اٹھاتے ہوئے اسے کسی قسم کی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔اس نے ساری سبزی دیکھتے ہی دیکھتے تانگے میں رکھ دی۔
”تمہارا نام کیا ہے؟“
”ساقی جناب!“
”تانگے میں بیٹھ جاؤ۔“
ساقی اس کے ساتھ تانگے میں بیٹھ گیا۔راستے میں اس نے دکان دار کو بتایا کہ وہ بے کار ہے۔کچھ پڑھا لکھا بھی ہے۔کام کرکے حق حلال کی روزی کمانا چاہتا ہے۔دکان دار نے اس سے کہا،”اگر تم واقعی حق حلال کی کمائی چاہتے ہو تو روز میرا کام کر دیا کرو۔ میں مزدور کو مزدوری دینے میں کنجوسی نہیں کرتا۔“
ساقی نے اسے بتایا کہ وہ اپنے رشتے داروں کو چھوڑ چکا ہے اور اب رہنے کا کوئی ٹھکانا بھی نہیں ہے۔اس شخص نے اسے اپنے ہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ساقی محنت اور دیانت داری سے کام کرنے لگا۔مالک نے جب دیکھا کہ وہ ہر کام بڑے شوق سے کرتا ہے تو اس نے کہا،”سبزیاں تانگے پر لادنے کے بجائے تم میری ایک دکان پر بیٹھ کر سودا بیچا کرو۔“
ساقی اب دکان پر بیٹھتا تھا اور ایمان داری سے اپنے فرائض ادا کرتا تھا۔دکان داری کرتے ہوئے اسے کئی سال بیت گئے۔اس عرصے میں اس نے خاصی رقم بچا لی۔اس رقم سے اس نے آڑھت کا کام شروع کر دیا۔یہ کام برابر بڑھتا گیا اور آٹھ سال کے بعد وہ منڈی کا سب سے بڑا آڑھتی بن گیا۔
دولت اس کی طرف کھنچی چلی آ رہی تھی۔اس نے کرائے کا مکان چھوڑ کر ایک اچھا اور بڑا مکان خرید لیا۔شادی کر لی اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔اس نے چوروں کے سردار سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ۔کبھی کسی سے اس گروہ کے متعلق کوئی بات نہ کی۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔اس نے کسی قدر دور اپنے کمرے میں ایک سائے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا اور اسے پہچان لیا۔وہ اپنے پلنگ سے اٹھ بیٹھا۔
”ٹھہرو! اس نے قریب ایک سائے کو دیکھتے ہوئے کہا۔“
سایہ رک گیا۔ساقی دوسرے کمرے میں گیا اور بیوی کے سارے زیور لا کر ایک جگہ ڈھیر کر دیے۔”یہ لے جاؤ۔“سایہ بے حس و حرکت کھڑا تھا۔
”سردار! یہ زیورات لے جاؤ۔اسی لئے تو تم یہاں آئے ہو!“
”تم!“
”میں ساقی ہوں۔پہچانا مجھے سردار!“
”تم ساقی ہو؟“
”جی ہاں سردار! کیا مجھے اتنا تجربہ نہیں ہے کہ چور کے دبے پاؤں کی آہٹ سن سکوں۔میرے گھر میں سب سے قیمتی چیز یہی ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں اور خوشی سے دے رہا ہوں۔صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔“
”پوچھو۔“
”سردار! تم نے مجھے بے عزت کر کے نکال دیا تھا،کیونکہ میں آخری دن کچھ بھی چرا کر نہیں لایا تھا اور تم سب بہت کچھ لائے تھے،مگر آج میں تمہیں ہزاروں روپے کے زیورات دے رہا ہوں،اور تم میرے محتاج ہو کر آئے ہو۔تم آج بھی چوری کرکے زندہ رہنے پر مجبور ہو اور میں خوش حال ہوں۔یہ کیوں؟میں اس سوال کا جواب تم سے پوچھ رہا ہوں۔“
سردار خاموش کھڑا رہا اور پھر کچھ کہے بغیر چلا گیا۔اب ساقی کی بیوی بھی جاگ کر وہاں آ گئی تھی۔اس نے جو اندھیرے میں چمکتی ہوئی چیزیں دیکھیں تو فوراً ادھر لپکی….زیورات دیکھ کر حیران رہ گئی۔
”میرے زیورات۔“
”ہاں۔“
”کیا کوئی چور لے جا رہا تھا۔“
”لے کر گیا نہیں۔“
ساقی کی بیوی نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کے شوہر نے چور کو زیورات نہیں لے جانے دیے۔
صبح کے وقت ساقی منڈی میں چلا گیا۔ابھی ا سے وہاں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔
”مزدور کو کام مل سکے گا!“
اس نے سامنے دیکھا۔سردار کھڑا تھا۔
”میرزا ادیب
وہ چاروں چور تھے۔تین تو پرانے اور خاندانی چور تھے مگر چوتھے چور کا تعلق ایک شریف خاندان سے تھا۔بچپن میں برے لوگوں کی صحبت میں جا پھنسا اور اس کے نتیجے میں چور بن کر چوروں کے گروہ میں شامل ہو گیا تھا۔ان کا ٹھیکانہ شہر سے دور ایک ایسے ویرانے میں تھا جہاں کوئی بھی آتا جاتا نہیں تھا۔یہ چور جو کچھ چوری کرکے لاتے تھے،اسے ایک غار میں چھپا دیتے تھے۔اچھے سے اچھا کھاتے تھے اور اچھے سے اچھا پہنتے تھے۔جب کبھی اچھے لباس میں ملبوس ہو کر شہر میں جاتے تھے تو کوئی شخص بھی انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ چور ہیں۔
ان میں سے ایک چور ان کا سردار تھا،جو چوری کے معاملے میں بڑا تجربہ کار تھا۔وہ انہیں چوری کے نئے نئے طریقے سکھایا کرتا تھا۔تینوں چور اپنے سردار کی دل و جان سے عزت کرتے تھے اور اس کی ہر ہدایت پر پورا پورا عمل کرتے تھے۔
ایک رات سردار نے کہا،دیکھو!آج ہم چاروں بڑی ہنرمندی سے چوری کریں گے اور ہم میں سے ہر ایک چوری کرکے جوکچھ لائے گا وہ اسی کو دے دیا جائے گا۔وہ اس کا تنہا مالک ہوگا۔جس طرح چاہے گا اسے خرچ کرے گا۔
اپنے سردار کے منہ سے یہ بات سن کر سب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال چوری کرکے لائیں گے،کیونکہ اس مال کے وہ خود مالک ہوں گے۔سردار ان سے ہرگز نہیں لے گا،چناچہ وہ چاروں روانہ ہوگئے۔
صبح ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی کہ چاروں کے چاروں اپنے ٹھکانے پر جمع ہوگئے۔سردار نے کہا،لاؤ بھائی دکھاؤ کہ کیا لائے ہو۔تم جو کچھ لائے ہو وہ تمہارا مال ہے۔
پہلے چور نے سونے کے زیورات دکھائے۔سردار خوش ہو گیا۔دوسرے نے بڑی قیمتی چیزیں دکھائیں۔سردار نے اس پر بھی خوشی کا اظہار کیا اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے شاباش دی۔اب باری تھی تیسرے چور کی۔وہ اب تک بالکل خاموش بیٹھا تھا۔سردار اس کی طرف بار بار اس کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتا جاتا تھا تھا اور باتیں دوسروں سے کرتا جاتا تھا۔
ساقی! اب تمہاری باری ہے۔
اس چوتھے چور کا نام ساقی تھا اور اس کے ساتھی اور سردار اسی نام سے اسے پکارتے تھے۔
ساقی دو تین لمحے خاموش رہا پھر بولا:
سردار! اس سے پہلے کہ میں میں ہاں یا نہ میں جواب دوں۔میں وہ واقعہ سنانا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ پیش آیا۔
ضرور سناؤ۔سردار نے کہا۔
سردار! میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ صرف ایک گھر میں نہیں جاؤں گا. دو تین گھروں میں جاؤں گا اور زیادہ سے زیادہ مال اٹھاؤں گا مگر پہلے ہی گھر میں یہ واقعہ پیش آگیا۔
کون سا واقعہ؟
میں نے دیکھا کھا کہ ایک بوڑھی اور کمزور عورت چارپائی پر پڑی ہے ہے اور درد سے کراہ رہی ہے۔اس کے پاس زمین پر اس کی بیٹی سو رہی ہے۔گھر کے سامان سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ بڑا غریب خاندان ہے۔بیمار عورت کا ٹھیک سے علاج بھی نہیں ہو رہا۔
یہاں کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی مل سکتا تھا اور بڑی آسانی سے،مگر میرا دل بے قرار ہوگیا۔میں نے سوچا،ساقی!تو ایک ایسے گھر کو لوٹنا چاہتا ہے جس میں کچھ ہے ہی نہیں،اور سردار!میری جیب میں جتنی رقم تھی وہ میں نے اس لڑکی کے تکیے کے نیچے رکھ دی تاکہ اس کی ماں کا علاج ہو سکے اور باہر نکل آیا۔
پھر؟
اس کے بعد میرے اندر ہر کسی اور گھر میں جانے کی ہمت ہی نہ آئی۔اصل میں اس واقعہ نے مجھ پر بڑا اثر کیا۔میں ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارتا رہا اور صبح کے دھندلکے میں یہاں آگیا۔
سردار نے حقارت سے قہقہہ لگایا:
ارے تیرے سینے میں تو چوہے کا دل ہے۔سخت بزدل آدمی ہے۔کیوں ساتھیو! میں صحیح کہہ رہا ہوں یا غلط؟
باقی دونوں چوروں نے بھی اپنے سردار کی طرح حقارت آمیز قہقہے لگائیں اور کہا،سردار! تو نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔یہ چور ہو ہی نہیں سکتا۔اگر چور کے دل میں رحم آجائے تو وہ چوری کر ہی نہیں سکتا۔
تو کیا یہ بزدل اور نکما آدمی ہمارے گروہ میں شامل رہ سکتا ہے؟
ہرگز نہیں! دونوں نے پرزور لہجے میں کہا.
سردار سرجھکاکر کچھ سوچنے لگا۔ساقی نے اس کی طرف دیکھا اور سمجھ لیا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے،کہنے لگا:
سردار میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے میرے پرانے ساتھیوں کو کوئی تکلیف ہو۔میکسیکو آپ لوگوں کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔
سردار گرجا،یاد رکھ اگر تو نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن تجھے ہم کسی صورت میں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
بے شک،بے شک۔دونوں چوروں نے اپنے سردار کی تائید کی۔
سردار نے ساقی کو اپنی مری ہوئی ماں کی قسم کھا کر یہ عہد کرنے کو کہا کہ وہ کبھی ایسی ویسی حرکت نہیں کرے گا اور ساتھی نے یہ قسم کھا لی۔سردار جانتا تھا کہ ساقی کو اپنی ماں سے بڑا پیار تھا اور جب کبھی وہ سے یاد کرتا تو اس کی آنکھوں میں بے ا ختیار آنسو آجاتے تھے۔ساقی ویرانے سے نکل آیا۔اس ارادے کے ساتھ کے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا گا اور اپنے پرانے ساتھیوں سے کسی قسم کا بھی تعلق قائم نہیں کرے گا،اور نہ کسی کو ان کے بارے میں کچھ بتائے گا۔ویرانے سے نکلتے وقت وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا ہے۔اسے زندگی بسر کرنے کا کا کوئی طریقہ کہہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کہاں جائے،کیا کرے،کس طرح روٹی کمائے؟یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا۔
صبح ہوگئی اور وہ چلا جارہا تھا۔چلتے چلتے وہ سبزی منڈی پہنچ گیا۔مختلف علاقوں میں سبزی بیچنے والے یہیں سے سبزی خریدتے ہیں۔ساقی نے دیکھا کہ کافی مزدور سبزیاں اٹھا اٹھا کر دکانداروں کے ساتھ جا رہے ہیں۔کچھ لوگ یہ سبزیاں تانگوں اور ریڑھیوں میں رکھ رہے ہیں۔بے آسرا،بے سہارا تو وہ تھا ہی۔اس نے جب ایک دکاندار کو آڑھتی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا،جناب! میں مزدوری کر سکتا ہوں؟
دکاندار نے کبھی کسی مزدور کو اس تہذیب سے سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔اس نے ساقی کوثر سے پاؤں تک دیکھا اور پوچھا:
پہلی بار منڈی میں کام کرنے آئے ہو؟
جی جناب!
بہتر،جو سبزیاں خریدوں میرے تانگے میں رکھتے جاؤ۔
اچھا جناب!
ساقی صحت مند تھا۔بوجھ اٹھاتے ہوئے اسے کسی قسم کی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔اس نے ساری سبزی دیکھتے ہی دیکھتے تانگے میں رکھ دی۔
تمہارا نام کیا ہے؟
ساقی جناب!
تانگے میں بیٹھ جاؤ۔
ساقی اس کے ساتھ تانگے میں بیٹھ گیا۔راستے میں اس نے دکاندار کو بتایا کہ وہ بیکار ہے۔کچھ پڑھا لکھا بھی ہے۔کام کرکے حق حلال کی روزی کمانا چاہتا ہے۔دکاندار نے اس سے کہا،اگر تم واقعی حق حلال کی کمائی چاہتے تے ہو تو روز میر کام کر دیا کرو۔ میں مزدور کو مزدوری دینے میں کنجوسی نہیں کرتا۔
ساقی نے اسے بتایا کہ وہ اپنے رشتے داروں کو چھوڑ چکا ہے ہے اور اب رہنے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے۔اس شخص نے اسے اپنے ہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ساقی محنت اور دیانتداری سے کام کرنے لگا۔مالک نے جب دیکھا کہ وہ ہر کام بڑے شوق سے کرتا ہے تو اس نے کہا،سبزیاں تانگے پر لادنے کے بجائے تم میری ایک دکان پر بیٹھ کر تو سودا بیچا کرو۔
ساقی اب دکان پر بیٹھتا تھا اور ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرتا تھا۔دکانداری کرتے ہوئے اسے کئی سال بیت گئے۔اس عرصے میں اس نے خاصی رقم بچا لی۔اس رقم سے اس نے آڑھت کا کام شروع کر دیا۔یہ کام برابر بڑھتا گیا اور 8 سال کے بعد وہ منڈی کا سب سے بڑا آڑھتی بن گیا۔
دولت اس کی طرف کھنچی چلی آ رہی تھی۔اس نے کرائے کا مکان چھوڑ کر ایک اچھا اور بڑا مکان خرید لیا۔شادی کر لی اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔اس نے چوروں کے سردار سے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا یا۔کبھی کسی سے اس گروہ کے متعلق کوئی بات نہ کی کی۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔اس نے کسی قدر دور اپنے کمرے میں ایک سائے کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا اور اسے پہچان لیا۔وہ اپنے پلنگ سے اٹھ بیٹھا۔
ٹھہرو! اس نے قریب ایک سائے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
سایہ رک گیا۔ساقی دوسرے کمرے میں گیا اور بیوی کے سارے زیور لا کر ایک جگہ ڈھیر کر دیے۔یہ لے جاؤ۔سایہ بے حس و حرکت کھڑا تھا۔
سردار! یہ زیورات لے جاؤ۔اسی لئے تو تم یہاں آئے ہو!
تم!
میں ساقی ہوں۔پہچانا مجھے سردار!
تم ساقی ہو؟
جی ہاں سردار! کیا مجھے اتنا تجربہ نہیں ہے کہ چور کے دبے پاؤں کی آہٹ سن سکوں۔میرے گھر میں سب سے قیمتی چیز یہی ہے جو میں تمہیں دیں رہا ہوں اور خوشی سے دے رہا ہوں۔صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔
پوچھو۔
سردار! تم نے مجھے بےعزتی کر کے نکال دیا تھا،کیونکہ میں آخری دن کچھ بھی چڑھا کر نہیں لایا تھا اور تم سب بہت کچھ لائے تھے،مگر آج میں تمہیں ہزاروں روپے کے زیورات دے رہا ہوں،اور تم میرے محتاج ہو کر آئے ہو۔تم آج بھی چوری کرکے زندہ رہنے پر مجبور ہوں اور میں خوشحال ہوں۔یہ کیوں؟میں اس سوال کا جواب تم سے پوچھ رہا ہوں۔
سردار خاموش کھڑا رہا اور پھر کچھ کہے بغیر چلا گیا۔اب ساقی کی بیوی بھی جاکر وہاں آ گئی تھی۔اس نے جو اندھیرے میں چمکتی ہوئی چیزیں دیکھیں تو فورا ادھر لپکی۔۔۔۔۔۔زیورات دیکھ کر حیران رہ گئی۔
میرے زیورات۔
ہاں۔
کیا کوئی چوری لے جا رہا تھا۔
لے کر گیا نہیں۔
ساقی کی بیوی نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس کے شوہر نے چور کو زیورات نہیں لے جانے دیے۔
صبح کے وقت ساقی منڈی میں چلا گیا۔ابھی اس سے وہاں بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔
مزدور کو کام مل سکے گا!
اس نے سامنے دیکھا۔سردار کھڑا تھا۔
سردار تم؟
آج سے سردار نہیں،صرف ایک مزدور۔نہ صرف میں بلکہ تمہارے دو پرانے ساتھی بھی۔وہ ادھر کھڑے ہیں۔
ساقی نے سب کو باری باری اپنے سینے سے لگا لیا اور اس روز سے ان تینوں نے بھی نیک زندگی گزارنی شروع کر دی۔
سردار تم؟“
”آج سے سردار نہیں،صرف ایک مزدور۔نہ صرف میں بلکہ تمہارے دو پرانے ساتھی بھی۔وہ ادھر کھڑے ہیں۔“
ساقی نے سب کو باری باری اپنے سینے سے لگا لیا اور اس روز سے ان تینوں نے بھی نیک زندگی گزارنی شروع کر دی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top