skip to Main Content
چمگادڑ

چمگادڑ

ظفر شمیم

۔۔۔۔۔۔

چمگادڑ کا تعلق پرندوں کی جماعت سے ہے یا ممالیہ کی جماعت سے اس بات پر کئی صدیوں تک سائنس دانوں میں اختلاف رہا۔ کیونکہ اس میں ایک پرندے اور ایک دودھ پلانے والے جانور دونوں کی خصوصیات بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت مزید اُلجھ گیا جب ویمپائر چمگادڑیں (خون چوسنے والی) زیر بحث آئیں تب ہی چمگادڑ کا نام ایک طفیلئے کی حیثیت سے بھی منظرِ عام پر آیا۔ ان حالات کے پیشِ نظر 1908ء میں حیاتیاتی ماہرین کا ایک جلسہ ہالینڈ میں منعقد ہوا۔ اس مجلس میں ٹیکسانومی (جماعت بندی) کے بڑے بڑے پروفیسروں اور ڈاکٹروں نے شرکت کی۔ اس تقریب میں چمگادڑ کی تمام عادات کا تذکرہ ہوا، دلیلیں دی گئیں اور مباحثے ہوئے۔ بالآخر اسے ایک نئی جماعت میں تقسیم کیا گیا۔ یہ اپنی جماعت کا واحد فرد ہے ’’یعنی اُڑنے والا ممالیہ‘‘
دراصل چمگادڑ پرندے اور ممالیہ کے درمیان کی ایک کڑی ہے۔ دوہری خصوصیات کا حامل یہ جانور رات کا شیدائی ہے۔ رات ہوتے ہی دنیا بھر کے جنگلوں میں ان کے دم سے ہلچل مچ جاتی ہے۔ ویرانے ان کا مسکن اور اندھیرا ان کی خاص کمزوری ہے۔ یہ دن کے وقت اندھیروں اور ویرانوں میں روپوش ہوکر آرام کرتی ہے، کیونکہ یہ سورج کی روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ چمگادڑ کی بعض اقسام اپنے دونوں چمڑے جیسے پروں کو اوڑھ کر درختوں سے اُلٹی لٹکی رہتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ درختوں میں پولی تھین کے شاپر اُڑ کر پھنس گئے ہیں۔ رات کے وقت ان کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں دن کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تیزی سے دیکھ سکتی ہیں۔ یہ قابلِِ رشک قوت بصارت کی مالک ہوتی ہیں۔ ان کے چمڑے جیسے پر ایک سیکنڈ میں 52 مرتبہ پھڑپھڑاتے ہیں۔ چمگادڑ اس روئے زمین کا واحد جانور ہے جو منہ سے کھا کر دوبارہ منہ سے ہی اُگل دیتی ہیں۔ اس صورت میں غذا میں موجود توانائیاں اندر رہ جاتی ہیں اور بقایا فضلہ اُلٹی کے راستے خارج ہوجاتا ہے۔
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں چمگادڑ ایک بے مثال ایجاد کا سبب بنی۔ راڈار سے تو آپ ضرور واقف ہوں گے جس کی مدد سے فضائی حدودوں اور سرحدوں کی نگرانی کی جاتی ہے اور فضائی حدود میں موجود دشمن کی موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے چمگادڑ پر تحقیقات کے بعد یہ آلہ ایجاد کیا تھا۔ چمگادڑ جب رات کے وقت فضا میں اِدھر سے اُدھر اُڑ رہی ہوتی ہے تو اپنے منہ سے متواتر ٹخ ٹخ کی آوازیں نکالتی رہتی ہے۔ یہ ٹخ ٹخ دراصل الٹراسونک (Ultrasonic) شعاعیں ہوتی ہیں۔ یہ شعاعیں جب سامنے موجود چیز سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں تو اس کی لہروں کی مدد سے چمگادڑ کو اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ سامنے شکار ہے۔۔۔ شکاری ہے۔۔۔ یا رکاوٹ۔ اپنے مطلوبہ ریڈیائی سگنل کے موصول ہوتے ہی یہ یا تو شکار پر آنِ واحد میں جھپٹ پڑتی ہے یا پھر فوراً اپنا راستہ تبدیل کرلیتی ہے۔ راڈار کے پیچھے بالکل یہی اصول کار فرما ہے۔
چمگادڑ کے سب سے بڑے دشمن سانپ ہیں جو عموماً دن کے وقت ان پر دھاوا بولتے ہیں، جب ان کی قوت آدھی بھی نہیں رہتی۔ ویمپائر (Vempire) چمگادڑیں افریقہ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ ویمپائر پالتو مویشیوں اور جانوروں کا نہ صرف خون چوستی ہیں، بلکہ ان کے دانتوں کی وجہ سے مویشیوں میں خون کی بیماری بھی ہوجاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں براعظم افریقہ کا ایک بڑا خطہ ان سے متاثر ہوا ہے۔ پائپسٹریل (Pipestrail) دنیا کی سب سے چھوٹی چمگادڑ ہے جو محض تین انچ تک ہوتی ہے۔ یہ برازیل میں پائی جاتی ہے۔ چھ انچ کی پائپسٹریل آپ کے شہر کراچی میں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اگر کبھی آپ غروبِ آفتاب کے وقت سے لے کر طلوع آفتاب کے وقت تک ملیر ندی کے ملحقہ علاقوں کے قریب سے گزریں تو ان کا مشاہدہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ یہ عموماً رزق کی تلاش میں شہروں کا رُخ بھی کرلیتی ہیں۔ انسان کے بالکل قریب قریب بھی اُڑنے لگتی ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنی اُڑنے کی طاقتور اور تیز صلاحیت پر مکمل بھروسہ ہوتا ہے، اس لئے رات کے وقت یہ انسانوں سے بھی نہیں ڈرتی ہیں۔ پاکستان میں چمگادڑ کی 15 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی تین فٹ لمبی چمگادڑ شمالی و جنوبی امریکہ کے خاموش جنگلوں میں پائی جاتی ہے۔
ڈریکولا کا کردار بھی مصنف نے چمگادڑ سے متاثر ہوکر تخلیق کیا تھا۔ فلم ڈریکولا میں ڈریکولا کے کان اور دانت بالکل چمگادڑ جیسے فلم بند کئے گئے تھے۔ بعد ازیں ایک اور فلم بیٹ مین Batman بنائی گئی اس فلم کا مرکزی کردار ہی ایک چمگادڑ نما انسان تھا، تاہم یہ فلم آج بھی ہالی ووڈ کی یادگار فلم تصور کی جاتی ہے اور بچوں میں بے حد مقبول ہے۔
راڈار کی دریافت سے لے کر فلموں اور تحریروں کے دیومالائی کرداروں تک چمگادڑ کی حیات کا ہر پہلو اسے دوسرے تمام جانوروں میں ممتاز کرتا ہے۔ راڈار کی حیرت انگیز دریافت نے سرحدوں کی حفاظت کو جس قدر آسان بنایا تھا اتنا ہی مسئلہ بھی بنا ڈالا۔ جب ناسا کے سائنس دانوں نے راڈار کے منفی پہلوؤں پر غور کیا، چونکہ راڈار پر معمولی سی نقل و حرکت بھی معلوم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں دشمن کی حدود میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی ایسا جہاز یا طیارہ بنایا جائے جو راڈار پر نظر آئے بغیر دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے۔ برسوں تک اس منصوبے پر کام کیا جاتا رہا، لیکن نتیجہ لاحاصل رہا۔ آخرکار ستمبر 2000ء میں راڈار کا توڑ دریافت کرلیا گیا۔ ’’لوہا لوہے کو کاٹتا ہے‘‘ کے مثل چمگادڑ کی مخصوص بناوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے عین اس کی جسامت کے مطابق B-52 طیارہ بنایا گیا۔ دور سے دیکھنے میں یہ طیارہ کوئی بہت بڑا چمگادڑ لگتا ہے۔ یہ ایک قسم کا جاسوس طیارہ ہے۔ جو راڈار پر نظر آئے بغیر دشمن کی حدود میں گھس کر بمباری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم ابھی اس طرح کے دو جہاز امریکی فضائیہ کے حوالے کئے گئے ہیں۔ ستمبر 2006ء تک ایسے 20 بمبار طیارے امریکی فضائیہ کے حوالے کردیئے جائیں گے۔
مادہ چمگادڑ ہر چھ ماہ بعد ایک یا دو بچے پیدا کرتی ہے۔ یہ مسلسل تین ماہ تک دودھ پلا کر اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے اور نر چمگادڑ بھی اپنی مادہ کے شانہ بشانہ بچوں کی پرورش میں مدد دیتا ہے۔ نابینا چمگادڑیں جن کی آنکھیں ہی نہیں ہوتیں یہ صرف اور صرف اپنے منفرد الٹراسونک اور ریڈیائی سگنل کے بل بوتے پر اپنی بسر کرتی ہیں۔ اسی لئے تو چمگادڑ کی اس مخصوص قسم کو اپنی عام اقسام کے مقابلے میں دوگنا زیادہ طاقت قدرت نے عطا کی ہے۔ 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top