skip to Main Content

پچاس لاکھ کے نوٹ

تحریر: ایڈگرویلس
ترجمہ: ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کیا ہوگا؟ ’مے‘ نے سوچا۔ ”یہ گھر، یہ زمینیں، یہ گھوڑے اور گاڑیا ں، کیا یہ سب کچھ بیچنا پڑے گا؟“
معاملہ ہی کچھ ایسا تھا، اس کے والد نے اسے بتایا تھا کہ ان کے کاروبار میں بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے اور اب اُنھیں اپنی ہر چیز بیچنی پڑے گی۔ اس کا خیال تھا کہ اس قسم کی باتیں صرف قصے کہانیوں میں ہوا کرتی ہیں لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ اس کے والد کی تمام دولت قصے کہانیوں کی بات ہوجائے گی۔ وہ ٹہلتی رہی اور سوچتی رہی۔ آخر وہ اپنے والد سے کھل کر بات کرنے کا ارادہ کرکے ان کے کمرے کی طرف بڑھی لیکن وہ باہر برآمدے ہی میں اسے مل گئے۔ وہ اپنی پسندیدہ آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’مے‘ کے قدموں کی آہٹ سن کر اُنھوں نے سر اٹھایا اور اسے دیکھ کر ایک پھیکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر اُبھری۔
مے نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی: ”ڈیڈی! کچھ بتائیے تو سہی کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟ آخر پچاس لاکھ کے نوٹ غائب کہاں ہوگئے؟“
”لو، اب ہماری بیٹی بھی کاروبار کی فکر کررہی ہے۔“ اس کے والد نے کہا۔ ان کا نام جان انٹرم تھا۔ وہ ایک دولت مند تاجر تھے اور مختلف ملکوں کے کرنسی نوٹوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔
”میں کاروباری معاملات تو نہیں سمجھتی، لیکن مجھے کچھ بتائیے تو سہی، شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔ اب میں اتنی چھوٹی بھی نہیں۔“ مے نے کہا۔
”بیٹھو۔“ اُنھوں نے دوسری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ معاملہ اس مہینے کی اٹھارہ تاریخ کو شروع ہوا جب پرنس نامی بحری جہاز یہاں نیو یارک سے انگلستان روانہ ہونے والا تھا۔ یہ جہاز دو بھائیوں فرانسس اور اسمتھ کا ہے۔ تم فرانسس اور اسمتھ کو جانتی ہو؟“
”یہ جو ہمارے رشتے دار ہیں؟“ مے نے پوچھا۔
”بالکل وہی۔“ مسٹر جان نے کسی قدر افسوس کے ساتھ کہا اور پھر بولے۔ ”بینک آف انگلینڈ سے میرا ایک کاروباری معاہدہ ہوا تھا اور بینک نے مجھ سے پچاس لاکھ ڈالر کے مختلف ملکوں کے نوٹ خریدے تھے۔ یہ نوٹ میں نے لوہے کے چھ صندوقوں میں بھرے اور ان صندوقوں پر دھات کے ایسے ٹانکے لگائے کہ وہ بالکل بند ہوگئے۔ یہ میں نے اس لیے کیا کہ ان میں ہوا یا پانی نہ جاسکے۔ پھر ان کو لکڑی کے صندوقوں میں بند کروا کے بحری جہاز پرنس پر لاد دیا گیا۔ بحری جہازوں میں ایسی قیمتی چیزیں اور سامان لے جانے کے لیے ایک خاص کمرہ ہوتا ہے، جسے اسٹرانگ روم کہتے ہیں۔ اس کمرے کا ایک دروازہ برابر والے کیبن میں کھلتا ہے۔ اس کیبن میں ایک ملاح کو ان چیزوں کی حفاظت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ تو بھئی، یہ چھ صندوق، جن میں پچاس لاکھ کے نوٹ تھے، اس جہاز کے اسٹرانگ روم میں رکھ دیے گئے۔ اس کی چابی فرانسس کے پاس تھی، اور چوں کہ معاملہ بہت بڑی رقم کا تھا، لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ جب تک جہاز روانہ نہیں ہوجائے گا، وہ جہاز پر ہی رہے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ رات کو سویا بھی اسٹرانگ روم کے برابر والے کیبن میں بلکہ جب دن کے وقت وہ کسی کام سے اِدھر اُدھر گیا تو اپنے ذاتی ملازم ڈیوڈ کو اسٹرانگ روم کے برابر والے کیبن میں بٹھاگیا۔“
”ڈیڈی، نوٹوں کا کیا بنا؟ یہ بتائیے؟“ مے نے بے تابی سے کہا۔
”بتاتا ہوں بیٹی، میں ساری بات تفصیل سے اس لیے بتارہا ہوں کہ پورا معاملہ تمھاری سمجھ میں آجائے اور تم اس معمے کو حل کرنے میں میری کچھ مدد کرسکو۔ ہاں تو، ۸۱ تاریخ کو صندوق جہاز پر لاد دیے گئے اور اسٹرانگ روم میں تالا لگادیا گیا۔ اس کی چابی فرانسس کے پاس تھی۔ رات کو فرانسس اسٹرانگ روم کے برابر والے کیبن میں سویا اور صبح یعنی ۹۱تاریخ کو جب جہاز کی روانگی کا وقت ہوا تو اس نے جہاز کے قانون کے مطابق، ان ۶ صندوقوں کے کاغذات جہاز کے ’پرسر‘ کو دے دیے۔“ اتنا کہہ کروہ رُک گئے اور پھر کچھ سوچ کر بولے: ”پرسر جہاز کا ایک افسر ہوتا ہے جو تمام سامان کے اور مسافروں کے کاغذات کا خیال رکھتا ہے۔“
”آگے بتائیے، مجھے معلوم ہے کہ ’پرسر ‘کسے کہتے ہیں۔“ مے نے جلدی سے کہا۔
”ہاں تو، فرانسس نے کاغذات پرسر کے حوالے کردیے، اور اس سے کہا کہ یہ چھ صندوق بہت قیمتی ہیں۔ ان میں پچاس لاکھ کے نوٹ ہیں۔ اب ان کو انگلستان تک حفاظت سے پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ اطمینان کرلیجیے کہ اسٹرانگ روم میں صندوق موجود ہیں۔ یہ اسٹرانگ روم کی چابی ہے۔ میں اسٹرانگ روم کا دروازہ کھولتا ہوں۔“ یہ کہہ کر فرانسس نے تالے میں چابی گھمائی اور جب اسٹرانگ روم کا دروازہ کھلا تو…. تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔“
”کچھ بھی نہ تھا؟ کیا اسٹرانگ روم میں کوئی کھڑکی تھی؟“ مے نے پوچھا۔
”کھڑکی کہو یا کچھ اور اصل میں اس کو پورٹ ہول کہتے ہیں۔ یہ ایک گول روشن دان سا ہوتا ہے اور تمام بحری جہازوں میں اس قسم کے پورٹ ہول ہوتے ہیں۔ یہ پورٹ ہول جس رُخ پر تھا، اس طرف پانی تھا اور اس میں سے کوئی چیز گرتی تو سیدھی پانی میں جاتی۔ بہرحال، فرانسس نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ سارا جہاز دو دفعہ چھان مارا گیا۔ ہر جگہ دیکھ لی گئی لیکن کہیں صندوقوں کا نام نشان تک نہ تھا۔ کسی نے کسی کو جہاز سے کوئی چیز لے جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا۔ چوں کہ صبح جہاز کو روانہ ہونا تھا، اس لیے ساری رات اس پر سامان لادا جاتا رہا تھا اور جہاز کے افسر اور مزدور وہاں موجود رہے۔ ظاہر ہے، اگر کوئی چھ کیا ایک صندوق بھی لے کر جاتا تو جہاز سے اُترنے سے پہلے ہی اسے پکڑلیا جاتا۔“
”تو پھر صندوق گئے کہاں؟“ مے نے پوچھا۔
”خدا ہی جانے…. خیر، اسی وقت پولیس بلائی گئی اور اس نے غوطہ خور بھی پانی میں اُتارے لیکن کچھ پتا نہ چلا۔“ مسٹر جان نے افسوس سے کہا۔ ”اب خیال آتا ہے کہ اتنی بڑی رقم ایک ساتھ بھیجنا حماقت تھی۔“
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ دونوں باپ بیٹی اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔ آخر مے نے کہا: ”ڈیڈی آپ بینٹ سے کیوں نہیں بات کرتے؟“
”بینٹ؟ وہ شوقیہ سراغ رساں؟“ جان نے حیرت سے کہا ”وہ بھلا کیا کرے گا؟ پولیس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ ہمارا رشتے دار ہے اور میں مانتا ہوں کہ وہ بہت ذہین ہے لیکن….“
”لیکن ویکن کچھ نہیں، ڈیڈی۔ میرا خیال ہے، وہی ہماری کچھ نہ کچھ مدد کرسکتا ہے۔ میں اسے فون کرکے بلارہی ہوں۔“
بینٹ کے آنے پر مے نے اسے ساری تفصیل بتائی۔ مسٹر جان نے اسے بتایا کہ جہاز ابھی تک بندرگاہ پر کھڑا ہے اور پولیس اسے جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ بینٹ کچھ دیر بعد بندرگاہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ چند گھنٹوں بعد جب وہ واپس آیا تو مسٹر جان نے اسے مسکراتے ہوئے کہا: ”ہاں بھئی، کیا پتا چلا؟“ لیکن ان کے لہجے میں ایک عجیب سی بے یقینی تھی۔
”بہت کچھ۔“ بینٹ نے بتانا شروع کیا۔ ”پہلی عجیب بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جس کیبن میں فرانسس سویا تھا، اس میں سے چھ تولیے غائب ہیں۔“
”تولیوں کا بھلا اس کیس سے کیا تعلق؟“ مسٹر جان نے کہا۔
”بہت گہرا تعلق ہے۔ ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔ چھ صندوق اور چھ تولیے۔ دوسری بات یہ کہ جہاز کا ایک ملازم اس رات کبین کے باہر موجود تھا۔ اسے حفاظت کے خیال سے وہاں بٹھایا گیا تھا۔ میں نے اس سے بات کی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس رات وہ ایک اسٹول پر کیبن کے باہر بیٹھا تھا اور اسے اونگھ آرہی تھی لیکن اسے اچھی طرح یاد ہے کہ اس نے آدھی رات کو کریک کریک کی آوازیں سنی تھیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ آوازیں ایسی تھیں جیسے کوئی ٹائم پیس میں چابی بھررہا ہو اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس نے یہ آواز چھ دفعہ سنی!“
”چھ دفعہ؟“ مے نے حیرت سے کہا۔
”ہاں، چھ دفعہ، چھ صندوق، چھ تولیے، چھ آوازیں۔“ بینٹ نے کہا۔ ”دوسری بات یہ کہ وہ صندوق خاصے وزنی تھی۔ کوئی شخص انھیں اتنی آسانی سے اٹھا کر زیادہ دور نہیں لے جاسکتا اور پھر جہاز پر اور بندرگاہ پر بھی خاصے لوگ موجود تھے۔ لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ صندوق جہاز پر سے نہیں اُتارے گئے۔ میں نے پورٹ ہول کا معائنہ کیا ہے۔ وہ اتنا بڑا ضرور ہے کہ اس میں سے وہ صندوق ایک ایک کرکے نکل جائیں لیکن اس کے فریم پر لوہے کی پتری لگی ہے۔ اگر صندوق اس میں سے گزارے جاتے تو ان کی لکڑی کے پتری پر رگڑ کھانے سے پتری پر نشان ضرور پڑتے مگر اس پر کوئی نشان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی نے بھی صندوق پورٹ ہول سے نیچے پھینکے۔ اس نے ان پر پہلے تولیہ لپیٹا تھا۔“
”تمھارا مطلب ہے، صندوق پورٹ ہول سے پانی میں پھینکے گئے؟“ مسٹر جان نے کہا۔
”بالکل جناب۔“ بینٹ نے جواب دیا۔
”لیکن پولیس کے غوطہ خوروں نے جہاز کے اردگرد کے تمام علاقے میں سمندر کی تہہ کھنگال ڈالی تھی۔ انھیں کوئی صندوق نہیں ملا۔“ مسٹر جان نے کہا۔
”آپ بھول رہے ہیں کہ صندوق آدھی رات کے لگ بھگ پانی میں پھینکے گئے اور پولیس صبح کے وقت آئی۔ مجرموں کے پاس صندوق سمندر کی تہہ سے نکال کر لے جانے کا خاصا وقت تھا اور اُنھوں نے ایسا ہی کیا۔“ بینٹ نے اطمینان سے جواب دیا۔
”لیکن یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں؟“ مے نے پوچھا ”اور پھر سمندر کی تہہ میں صندوق تلاش کرنا اور اُنھیں نکالنا اتنا آسان تو نہیں۔“
”اصولاً تو فرانسس ہی کو اس ساری گڑبڑ کا ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے کیوں کہ چابی اسی کے پاس تھی اور….“ بینٹ نے کہا۔
”تم جانتے ہو کہ وہ میرا رشتے دار ہے اور تمھارا بھی۔ اس لیے میں اس پر کسی قسم کا الزام لگانا مناسب نہیں سمجھتا۔“ مسٹر جان نے بینٹ کی بات کاٹ کر کہا۔
”بہرحال، میرا اس سے ملنا ضروری ہے، اور میں وہیں جارہا ہوں“ یہ کہہ کر بینٹ چلا گیا۔
٭….٭
فرانسس اور اسمتھ ایک بڑے سے گھر میں رہتے تھے۔ دونوں میں سے کسی نے بھی شادی نہیں کی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد انھیں خاص جائیداد ورثے میں ملی تھی لیکن اپنی نااہلی کی وجہ سے اُنھوں نے ساری جائیداد ٹھکانے لگادی۔ یہاں تک کہ ان کے بحری جہازوں کی کمپنی میں بھی صرف دو جہاز رہ گئے تھے۔ بینٹ جب ان کے گھر پہنچا تو دونوں بھائی گھر پر ہی تھے۔ بینٹ کو دیکھ کر اُنھوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسمتھ تو گاڑی میں بیٹھ کر کہیں چلا گیا۔
”کتنی عجیب بات ہے کہ رشتے دار ہونے کے باوجود ہم لوگ ایک دوسرے سے برسوں نہیں مل پاتے۔“ بینٹ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا: ”میں نے سوچا تم لوگوں سے مل لوں اور تمھارا گھر بھی دیکھ لوں۔“
”ہاں، ہاں کیوں نہیں۔“ فرانسس نے کہا۔
”اور میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کا کاروبار خاصے نقصان میں جارہا ہے اور تم اپنے جہاز اور یہ مکان وغیرہ فروخت کرکے فرانس جانا چاہتے ہو۔“ بینٹ نے کہا۔
”لگتا ہے، تم ہمارے بارے میں خاصی چھان بین کرچکے ہو۔“ فرانسس نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا ”ویسے گھر تم ضرور دیکھو، لیکن یہ کرید اچھی نہیں۔“
”ارے، تم تو بلاوجہ ناراض ہورہے ہو۔ دراصل میرے ایک دوست کے والد ایک اچھا مکان خریدنا چاہ رہے ہیں۔ اُنھیں جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی نے تمھارا نام اور پتا بتایا۔ مجھے پتا چلا تو میں نے کہا کہ یہ تو میرے رشتے دار ہیں۔ میں ایک نظر پہلے مکان پر ڈال لوں۔ پھر آپ کو بتاﺅں گا کہ مکان کیسا ہے اور شاید میرے رشتے دار آپ کو یہ مکان کچھ کم قیمت پر بھی دے دیں۔“ بینٹ نے بات بتائی۔
فرانسس بے دلی سے اُٹھا اور اسے مکان دکھانے لگا۔ دونوں ایک ایسے کمرے میں پہنچے جو مختلف اوزاروں اور پرزوں سے بھرا ہوا تھا۔
”یہ کیا ہے؟“ بینٹ نے حیرانی سے چاروں طرف دیکھا۔
”ارے بھئی، یہ اسمتھ کا گودام ہے۔ وہ اسے تجربہ گاہ کہتا ہے۔ کم بخت اچھا خاصا سائنس دان ہے۔ اُلٹی سیدھی چیزیں بناتا رہتا ہے بلکہ اس نے ایک ایجاد تو ایسی کی ہے جو پانی میں….“ فرانسس کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔
”ہاں، ہاں کہو پانی میں کیا؟“ بینٹ نے پوچھا۔
”کچھ نہیں، میرا مطلب ہے، وہ…. رقم جو اس نے ایجاد میں لگائی تھی، وہ سب کی سب ڈوب گئی۔ بہت نقصان ہوا۔“ فرانسس نے جلدی سے کہا۔
”وہ ایجاد تھی کیا؟“ بینٹ نے پوچھا۔
”خدا جانے، میں ان سائنسی باتوں کو بھلا کیا سمجھوں۔“ فرانسس نے بات بدلنے کی کوشش کی لیکن بینٹ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ تب اس کی نظر رنگ کے ایک ڈبے پر پڑی جو حال ہی میں کھولا گیا تھا کیوں کہ اس کے ڈھکن پر رنگ کے نشان تھے اور زیادہ پرانے نہیں لگتے تھے۔ اس ڈبے پر لکھا تھا ”روشن رنگ“ بینٹ سوچ میں پڑگیا۔
٭….٭
دو تین دن گزر گئے، کچھ نہ ہوا، آخر مے نے اُکتا کر بینٹ کو فون کیا۔ ”کہاں ہو تم؟ نوٹوں کا کیا بنا؟ ڈیڈی بار بار پوچھ رہے ہیں۔“
”اچھا ہوا تم نے فون کرلیا۔ میں تمھیں خوش خبری سنانے ہی والا تھا۔“
”کیسی خوش خبری؟“ مے کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
”اپنے ڈیڈی سے کہہ دینا کہ صبح تک ان کی پوری رقم ان کے گھر پہنچ جائے گی۔“ بینٹ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مذاق مت کرو، ہم پریشان ہیں۔“ مے بُرا مان کر بولی۔
”ارے، میں مذاق نہیں کررہا، کل صبح دیکھ لینا۔ پوری بات کل صبح آکر ہی بتاﺅں گا۔“ یہ کہہ کر بینٹ نے فون رکھ دیا اور مے ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی۔
اگلی صبح واقعی مسٹر جان انٹرم کے چھ صندوق، ایک ٹرک میں ان کے گھر پہنچ گئے۔ جب ان کو کھول کر دیکھا گیا تو رقم پوری تھی۔ پورے پچاس لاکھ۔ اتنے میں بینٹ آگیا۔ مسٹر جان نے اسے سینے سے لگالیا اور بولے: ”معاف کرنا۔ جب مے نے مجھ سے کہا کہ بینٹ کو اس کیس کی تفتیش کرنے دیں تو میں نے تمھیں شوقیہ سراغ رساں کہا تھا۔ تم تو چھپے رستم نکلے لیکن یہ قصہ کیا تھا؟“
بینٹ صوفے پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے سوچتا رہا۔ پھر بولا۔ ”آپ وعدہ کیجیے کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کریں گے اور پولیس میں بھی کیس ختم کروادیں گے۔“
”ٹھیک ہے، لیکن پتا تو چلے کہ ہوا کیا تھا۔“ مسٹر جان بولے۔
”میں نے فرانسس اور اسمتھ سے وعدہ کیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔“
دونوں باپ بیٹی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا لیکن بولے کچھ نہیں۔ بینٹ بولا: ”دراصل یہ دونوں مالی اعتبار سے بالکل تباہ ہوچکے ہیں۔ لاکھوں کا قرضہ ہے ان پر اور شاید جہاز بیچ کر بھی ان کا قرض ادا نہ ہو۔ اسی لیے اُنھوں نے پچاس لاکھ کی رقم ہتھیانے کا منصوبہ بنایا۔ اسمتھ بہت ذہین ہے۔ اس نے ایک ایسا آلہ ایجاد کرلیا تھا جو پانی میں گھڑی کی طرح چلتا ہے۔ دراصل وہ پانی کا ٹائم بم ایجاد کرنے کی فکر میں تھا کہ اس نے یہ چیز بنالی۔ اس میں ایک گھڑی ہوتی ہے، جس کی سوئی کو گھما کر آپ ٹائم پیس کی طرح کسی بھی وقت پر لگاسکتے ہیں۔ جب گھڑی کی سوئیاں اس وقت پر پہنچتی ہیں تو اس کا ایک خانہ کھٹاک سے کھلتا ہے اور اس میں سے ایک کارک باہر نکلتا ہے۔ چوں کہ کارک وزن میں ہلکا ہوتا ہے اس لیے خانے میں سے نکلتے ہی تیزی سے اوپر اُٹھتا ہے اور پانی کی سطح پر پہنچ کر تیرنے لگتا ہے۔ اس کارک سے ایک دھاگا بندھا ہوتا ہے جس کا دوسرا سرا اس آلے سے بندھا ہوتا ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ان دونوں نے اس آلے کی مدد سے کس طرح صندوق پار کرلیے۔“
”یہ تو تم نے آلے کے بارے میں بتایا۔ صندوق کہاں غائب ہوگئے تھے؟“ مسٹر جان نے پوچھا۔
”سیدھی سی بات ہے۔ فرانسس نے آدھی رات کے وقت اسٹرانگ روم کھول کر صندوق پر تولیے لپیٹے اور ہر صندوق کے ساتھ ایک ایک آلہ لگادیا۔ اس کے بعد صندوقوں کو پورٹ ہول سے سمندر میں پھینک دیا۔ اس نے گھڑیوں میں دو بجے کا وقت لگایا تھا اور اس سے جو کریک کریک کی آواز پیدا ہوئی تھی، وہ کیبن کے باہر بیٹھے ہوئے آدمی نے سنی تھی۔ خیر، صندوقوں کے پانی میں گرنے سے زیادہ شور نہیں ہوا کیوں کہ پورٹ ہول زیادہ اونچائی پر نہیں تھا اور پھر اس کا رخ گودی کی طرف نہیں، سمندر کی طرف تھا۔ اس لیے نہ کسی نے صندوق پانی میں گرتے دیکھے اور نہ چھپاکے کی آواز سنی۔ اسمتھ کچھ دیر بعد کشتی لے کر آیا اور دو بجے کے قریب جہاز کے پاس پہنچا۔ دو بجتے ہی آلوں کے خانے کھل گئے اور ایک ایک کرکے چھ کارک پانی کی سطح پر اُبھرے۔ ان کارکوں پر اسمتھ نے روشن رنگ کر رکھا تھا۔“
”یہ روشن رنگ کیا چیز ہے؟“ مے نے پوچھا۔
”روشن رنگ ایک خاص قسم کا رنگ ہے۔ جب اس پر روشنی پڑتی ہے تو وہ چمکنے لگتا ہے۔ آپ نے بعض گاڑیوں پر روشن رنگ کے اسٹیکر لگے دیکھے ہوں گے۔ فٹ پاتھوں کے کناروں پر بھی یہ رنگ لگا ہوتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں ان پر روشنی پڑتی ہے تو ان کے چمکنے سے گاڑیاں چلانے والوں کو آسانی ہوجاتی ہے۔ لو جناب، جب اسمتھ کشتی لے کر آیا تو ٹارچ کی روشنی میں اسے چھ کارک دور ہی سے نظر آگئے جو دھاگے کے ذریعے صندوقوں سے بندھے ہوئے تھے اور پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔ اس نے یہ صندوق پانی سے نکال لیے اور انھیں کشتی میں رکھ کر لے گیا۔“
”لیکن تم نے انھیں پکڑا کیسے؟“ مسٹر جان نے پوچھا۔
”جب میں نے کریک کریک کی آوازوں کی بات سنی تو شہر کے گھڑی سازوں سے ملا۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ یہ مخصوص ٹائم پیس پر خاص وقت لگانے کی آواز ہوسکتی ہے۔ پانی کے ایسے آلے کسی زمانے میں فوجی لوگ مختلف تجربوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کبھی ٹائم بم بنانے کے لیے اور کبھی چیزیں پانی میں چھپا کر دو تین گھنٹوں کے بعد نکالنے کے لیے۔ اس کے بعد میں نے فرانسس کے بارے میں تحقیق کی۔ کیوں کہ میرا شبہ اسی پر تھا۔ مجھے پتا چلا کہ یہ دونوں بھائی کنگال ہوچکے ہیں اور مکان بیچ کر ملک چھوڑنے کے چکر میں ہیں۔ اس سے میرا شبہ بڑھ گیا۔ میں نے ان کے گھر میں روشن رنگ کا تازہ کھلا ہوا ڈبا دیکھا اور فرانسس کے منھ سے نکل گیا کہ اسمتھ نے پانی کی کوئی چیز ایجاد کی ہے۔ میں نے اس ایجاد کے بارے میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ اسمتھ نے اسے اپنے نام سے پیٹنٹ کرانے کے لیے حکومت کے محکمے کو درخواست دے رکھی ہے۔ اس نے درخواست کے ساتھ ایجاد کی پوری تفصیل بھی لکھی تھی۔ اسے پڑھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کام ان دونوں بھائیوں ہی کا ہے۔ میں نے انھیں جب ساری بات بتائی تو پہلے تو اُنھوں نے ماننے سے انکار کردیا لیکن جب میں نے پولیس میں جانے کی دھمکی دی تو دونوں گڑگڑانے لگے اور پوری رقم واپس کردی۔ یہ تھا پورا قصہ، آپ کو اپنی پچاس لاکھ کی رقم مبارک ہو۔“
بینٹ جیسے جیسے تفصیل بتا رہا تھا، مسٹر جان اور مے حیرت کے سمندر میں ڈوبتے جارہے تھے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top