skip to Main Content

پُر عزم

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ڈاکٹر صاحب! میرے بچے کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ ٹھیک تو ہوجائے گا ،کوئی پریشانی والی بات ہے تو بتادیں۔ آپ کی یہ خاموشی مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ہے۔‘‘ حمید صاحب نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے 
’’حمید صاحب! کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ میں یہ ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں، آپ اس کے رزلٹ آنے تک انتظار کریں ۔ اﷲ تعالیٰ بہتر ہی کرے گا۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا
’’کیسے فکر نہ کروں۔ ایک مہینے سے آپ کبھی یہ ٹیسٹ اور کبھی وہ ٹیسٹ کر رہے ہیں۔اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہاہے۔مہر بانی فرما کر مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں۔ میں دل پر پتھر رکھ کر سُن لوؤں گا۔‘‘حمید صاحب نے رُو دینے والے انداز میں بات کی۔
’’حمید صاحب ! آپ یونہی پریشان ہو رہے ہیں۔ ابھی تک ایسی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ آپ اپنا دل بڑا رکھیں۔ ان شاء اﷲ اس بیماری کا بھی علم ہو جائے گا۔ ‘‘ڈاکٹر صاحب نے حمید صاحب کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھتے ہوئے کہا

*****

’’آخر کس کی نظر لگ گئی میرے بیٹے کو؟‘‘ نفیسہ بیگم نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’پتہ نہیں ،ڈاکٹر صاحب بیماری کے بارے میں کچھ بتا بھی نہیں رہے ہیں۔ ملک کے سب سے مشہور ڈاکٹر ہیں۔اُنہوں نے بے شمار مریضوں کا کامیا ب علاج کیے ہیں۔‘‘حمید صاحب نے بھی اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
’’صفدر کے دوست بھی پوچھ رہے تھے۔ایک مہینے ہوگیا ،وہ کھیلنے کے لیے نہیں آیا۔ پہلے تو وہ ہمیں کھیلنے کے لیے کہتا تھا۔ ‘‘نفیسہ بیگم نے صفد ر کے دوستوں کے بارے میں بتایا
’’ابھی صفدر کہاں ہے؟‘‘ ابو نے آنکھوں سے عینک صاف کرنے کے لیے اُتاری۔
’’ اپنے کمرے میں ہوگا۔ اپنے کمرے سے باہر آتا ہی نہیں ہے۔ میں نے کتنی بار کہا ہے کہ تازہ ہوا میں جاؤ۔ اس سے تمھاری صحت بھی بہتر ہوجائے گی۔ بس میری باتیں سنتا رہتا ہے۔ اُس کا رد عمل کچھ بھی
نہیں ہوتا۔‘‘ نفیسہ بیگم غمگین ہوگئیں۔
’’میں ابھی جاکر بات کرتا ہوں۔‘‘ حمید صاحب نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے کہا
حمید صاحب کا رخ اب صفدر کے کمرے کی طرف تھا۔ سیڑھیوں سے اُوپر چڑھتے ہوئے ساتھ صفدر کا کمرہ تھا۔ حمید صاحب نے صفدر کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اند ر چلے گئے۔
’’کیسی طبعیت ہے میرے بیٹے کی؟‘‘ حمید صاحب نے پیار بھرے انداز میں کہا
’’ابو میں ٹھیک ہوں۔‘‘ صفد رنے جواباً کہا
’’ مجھے تو ٹھیک نہیں لگتے ہو۔ ایک مہینے سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ نہ باہر کھیلنے جاتے ہو اور نہ ہی ٹھیک طرح سے کچھ کھا پی رہے ہو۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ ‘‘حمید صاحب نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا
’’کچھ نہیں ابو!بس دل نہیں کر رہا ہے۔ویسے ٹیسٹ کی رپورٹ آگئی ہیں۔‘‘ صفد ر نے جواب دے کر پوچھا
’’جی بیٹا! مزید ٹیسٹ بھی لکھ کر دیے ہیں۔‘‘حمید صاحب نے جواب دیا
’’ابو! میں نے آپ کو پہلے ہی کہا ہے کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ آپ بلاوجہ ہی پریشان ہو رہے ہیں۔‘‘ صفد ر نے اپنے خیال سے آگاہ کیا
’’اچھا بھئی ٹھیک ہے۔ اس دفعہ تمھاری بات مان لیتے ہیں۔ ‘‘حمید صاحب نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا

*****

’’ڈاکٹر صاحب یوں اچانک آپ نے مجھے کلینک کیوں بُلا لیا۔‘‘ حمید صاحب نے پریشانی میں پوچھا
’’آپ آرام سے کرسی پر بیٹھ جائیں اور اطمینان سے میری پوری بات سنیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے تسلی دیتے ہوئے کہا
حمید صاحب کر سی پر بیٹھ گئے۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب کو فون آگیا۔ حمید صاحب کے لیے انتظار کا ایک ایک منٹ سال کے برابر گزار رہا تھا۔پانچ منٹ کی گفتگو کے بعد فون بند ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے حمید صاحب کو دیکھا اور اپنی بات شروع کی۔
’’حمید صاحب! چند دن قبل میں اپنے دوست عمران سے ملنے گیا۔ وہ ایک سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ہیں۔ بچوں کی نفسیات کا ماہر ہیں۔ اُس کے ساتھ میں نے آپ کے بیٹے کا کیس ڈسکس کیا۔ٹیسٹ کی رپورٹ اور اپنی رائے سے بھی آگاہ کیا۔ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس
نے کیس کا مطالعہ کیا۔ آخر کاروہ اُس بیماری پر پہنچ گیا۔ اب بس وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ کا بیٹا ،اُس سے ملے۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے وضاحت سے ساری بات بتائی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ویسے صفدر کو بیماری کیاہے؟‘‘ حمید صاحب نے پوچھا
’’حمید صاحب ! آپ کے بیٹے کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ بس اُس کے دماغ میں کسی بات کو لے کر جنگ چل رہی ہے۔ جو اُسے دن بدن پریشان اور کمزور کرتی جارہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بیماری کی تشخص کی۔
’’او۔۔۔۔۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔۔آج صفدر بیٹا باہر کیسے آگئے؟‘‘ ابو نے گھر میں داخل ہونے کے بعد جب صحن میں صفدر کو بیٹھا دیکھا تو کہا
’’یہ خود کہاں آیا ہے۔میں اسے لے کر آئی ہوں۔‘‘نفیسہ بیگم نے جواب دیا
حمید صاحب کرسی پر بیٹھ گئے۔ میز پر پانی کی بوتل اور گلاس پڑے ہوئے تھے۔
حمید صاحب نے پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور صفدر کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’صفدر بیٹا!میرے ایک دوست ہیں عمران صاحب، وہ رات کو کھانے پر بُلا رہے ہیں۔کیا آپ ہمارے ساتھ چلیں گئے۔ اس طرح سیر وتفریح بھی ہوجائے گی۔‘‘حمید صاحب نے پیار کرتے ہوئے کہا
صفد ر نے تھوڑی دیر سوچا۔اس کے بعد ہاں میں جواب دے دیا۔

*****

’’صفدر بیٹا! میرا بیٹا اندر کمرے میں ہے۔آپ اُس کے ساتھ جا کر گپ شپ کرو۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے مسکراتے ہوئے کہا
صفدر صوفے سے اُٹھا اور نوکر کی رہنمائی میں وہ ڈاکٹر عمران کے بیٹے کے پاس چلا گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب!’’آخر ہمارے بیٹے کون سی بیماری ہے؟‘‘ حمید صاحب نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر پوچھا
’’وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے جواب دیا
’’ہمیں کیسے پتہ چلے گا آخر اُسے کون سی بات پریشان کررہی ہے۔‘‘اس بار نفیسہ بیگم نے پوچھا
’’میں صفدر کو ہیٹپائزم کرکے ساری بات معلوم کر لوؤں گا۔پھر آپ کا کام ہے اس تناؤ کو کیسے ختم کرنا ہے۔‘‘ڈاکٹر عمران نے جواب دیا
آدھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر عمران نے صفدر کو لانے کے لیے نوکر بھیجا۔نوکر
جاکر صفد ر کو لے آیا۔
’’صفدربیٹا! کبھی آپ نے پنڈولم کی حرکت کو گننا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے پوچھا
’’نہیں انکل۔‘‘ صفدر نے نفی میں جواب دیا
’’چلو!آج آپ گن کر بتائیں کہ ایک منٹ میں پنڈولم کتنی بار حرکت کرتا ہے۔شرط یہ ہے کہ آپ نے آنکھیں نہیں جھپکانی ہیں۔ٹھیک ہے!‘‘ ڈاکٹر عمران نے پیارکرتے ہوئے کہا
صفدر گھڑی کے پنڈولم کو دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عمران نے بھی اپنا کام شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد صفدر نیند کی حالت میں تھا۔
’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ ڈاکڑ عمران نے سوالات کا آغاز کیا
’’صفدر رضا‘‘ صفدر نے جواب دیا
’’تم کون سے سکول میں پڑھتے ہو؟‘‘
’’ایف ۔جی۔ماڈل سکول فار بوائز۔اسلام آباد‘‘
ڈاکٹر عمران نے ان سوالات سے صفدر کو تیار کر رہے تھے ،تاکہ بعد میں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ ڈاکٹر عمران آہستہ آہستہ اپنا دائرہ اُس سوال کی طرف موڑ رہے تھے،جس نے صفدر کو پریشان کر کے رکھا ہوا تھا۔ڈاکٹر عمران نے سکول، اساتذہ،دوست اور حتی کہ ان کے رشتوں داروں کے متعلق کہیں سوالات پوچھے۔لیکن جواب میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اس کے برعکس ڈاکٹر عمران اُس سوال کے تعاقب میں تھے۔وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ آخر کون سا سوال ہے اس عمر میں صفدر کو لاحق ہوگیا ہے۔
’’حمید صاحب ،یہ بتائیں کہ صفدر کی سالگرہ کس مہینے آتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عمران ایک بےُ تکا سوال نے پوچھا
’’اگست میں آتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اس سوال کا مطلب میں سمجھ نہیں پایا۔‘‘ حمید صاحب نے جواباً پوچھا
ڈاکٹر عمران نے بغیر جواب دیے صفدر سے پوچھا’’آپ کو کون سا مہینہ پسند ہے؟‘‘
’’اگست کا‘‘
’’اگست میں کیا ہوا تھا؟‘‘
’’میری اور پاکستان کی سالگرہ ہے۔‘‘
’’ کیا تم پاکستان سے محبت کرتے ہو؟‘‘
اس سوال کو سننے کے بعد صفدر کے چہرے پر بے چینی صاف نمایاں نظر
آرہی تھی۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عمران سمجھ گئے کہ سوال یا پاکستان کے متعلق ہے یا اُس کی سالگرہ کے متعلق ہے۔ اس لیے ڈاکٹر عمران نے پہلے پاکستان والے سوال میں اضافے کر کے پوچھا’’ کیاتم اور تمھارے والدین پاکستان سے محبت کرتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر عمران نے اندھیرے میں ایک تیر چھوڑا
’’میں کرتاہوں اور میرے امی ابو نہیں کرتے ہیں۔‘‘صفدر کا یہ جواب حمید صاحب اور نفیسہ بیگم پر بجلی بن کر گرا تھا۔ وہ دونوں حیران و پریشان کھڑے صفدر کو دیکھ رہے تھے۔
ڈاکٹر عمران نے صفدر سے توجہ ہٹاتے ہوئے حمید صاحب کو دیکھا۔حمید صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا رنگ جارہا تھا۔
’’حمید صاحب! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ صفدر نے یہ سب کیسے سوچ لیا؟‘‘ڈاکٹر عمران نے پوچھا
’’ڈاکٹر صاحب !آپ تو جانتے ہی ہیں ہمارے ملک کے حالات کیسے ہیں؟بجلی اور گیس کا بحران ہے؟آئے دن قتل و غارت گیری کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ شاید کسی دن پاکستان کے متعلق ایسی باتیں ہوگئیں ہوں جو صفدر کو ناگوار گزاری ہیں۔‘‘حمید صاحب نے جواب دیا
’’حمید صاحب! بچے کا دماغ خالی کتاب کی مانند ہوتا ہے۔وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی سیکھتا ہے۔سب سے زیادہ سیکھنے کا عمل اُس کے گھر میں ہوتا ہے۔ا س لیے اب اس کا بہتر حل یہ ہے کہ آپ ایسی باتوں سے اجتناب کریں۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے سمجھاتے ہوئے کہا
ڈاکٹر عمران اور حمید صاحب اب دوبارہ صفدر کی طرف متوجہ ہوئے۔صفدر کے چہرے سے پریشانی کے آثار ابھی تک جھلک رہے تھے۔
ڈاکٹر عمران نے صفدر کی کیفیت دیکھی اور پوچھا’’کیوں؟ اس کی وجہ تو ہوگئی؟‘‘
’’ابو ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔جو ہم پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔‘‘ 
’’صفدر بیٹا! میں اپنی سوچ بدل لوؤں گا۔ تم ایک بار صحت مند ہوجاؤ۔ہم مل کر پاکستان کی تعمیر میں حصہ ڈالیں گئے۔‘‘اب کی بار یہ آواز حمید صاحب کی تھی جو اپنی غلط سوچ کر شرمندہ ہورہے تھے۔‘‘
’’صفدر بیٹا! میں،تم اور تمھارے امی ابو مل کر یہ عہد کرتے ہیں کہ خود بھی پاکستان کی تعمیر کریں گے اور دوسروں کو بھی اس نیک کام میں شامل کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر عمران نے پُرعزم لہجہ میں کہا

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top