skip to Main Content

ٹارزن سیالکوٹ میں

عبدالرشید فاروقی

……..

ٹارزن نے گھبرا کر اپنے کندھے پر بیٹھے منکو کو مخاطب کیا:
”منکو! ان کپڑوں میں مجھے اُلجھن ہو رہی ہے۔“
”یقینا الجھن ہو رہی ہوگی لیکن کپڑے پہننا آپ کی مجبوری ہے۔ اس لیے کہ یہ ہمارا جنگل نہیں، عمران فیصل صدیقی کا شہر ہے اور پھر یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں لوگ پورے کپڑے پہننا پسند کرتے ہیں۔“ منکو دانت نکالتے ہوئے کہتا چلا گیا۔ اُس کی بات سن کر ٹارزن بُرا سا منھ بنانے لگا۔
”ٹارزن! آپ اُس آدمی سے عمران کے گھر کا پتا معلوم کریں۔“ منکو نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں پوچھتا ہوں۔“ ٹارزن نے کہا اور آگے چلتے ہوئے آدمی کو مخاطب کیا:
”بھائی صاحب! یہ محمدی کالونی کدھر ہے؟“
اُس آدمی نے سر سے پاؤں تک ٹارزن کا عجیب سی نظروں سے جائزہ لیا اور بولا:
”وہ تو یہاں سے کافی دور ہے۔ آپ رکشے سے وہاں جا سکتے ہیں۔“ اُس نے کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
”منکو! لوگ ہمیں عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں؟“
”سردار! یہ ہمارا جنگل نہیں بلکہ پاکستان ہے اور یہاں کے لوگوں کے لیے آپ کا یہ لباس بڑا عجیب ہے اور پھر میں آپ کے کندھے پر سوار ہوں۔“
”میں نے کپڑے تو پہن رکھے ہیں۔“
”لیکن ان کے لحاظ سے یہ کپڑے بڑے عجیب سے ہیں۔“ منکو ہنسا۔
”اب میں ان کی طرح کے کپڑے تو نہیں پہن سکتا نا۔ مجھے اِن کپڑوں میں بھی اُلجھن ہو رہی ہے۔“ ٹارزن نے کہا۔ اُس نے بڑا سا لنگوٹ اور جانور کی کھال سے بنی شرٹ پہن رکھی تھی۔ شرٹ بٹنوں سے محروم تھی۔
”ٹھیک ہے، میں سیالکوٹ میں قیام کے دوران اپنے لیے ان جیسا لباس تیار کروا لوں گا۔“ ٹارزن نے کہا۔ پھر اس نے قریب سے گزرتے ہوئے چنگ چی کو ہاتھ دے کر روک لیا:
”کیا بات ہے۔“ رکشتہ ڈرائیور کا لہجہ بڑا کرخت تھا۔ ٹارزن کو اس کا لہجہ بڑ اناگوار گزرا۔ تاہم اس نے بڑے سکون سے کہا:
”محمدی کالونی جانا ہے۔“
”دو سو روپے کرایہ لوں گا۔“ ڈرائیور نے کہا۔وہ ٹارزن کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے۔“ ٹارزن جلدی سے چنگ چی میں سوار ہوگیا۔ منکو چھلانگ لگا کر پہلے ہی اگلے حصے میں بیٹھ گیا تھا۔رکشے والے نے انہیں محمدی کالونی اُتار دیا۔ اب وہ سڑک کنارے کھڑے آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ رہے تھے۔
”سردار! یہ کالونی تو کافی بڑی ہے۔ ہم عمران کا گھر کیسے تلاش کریں؟“ منکو نے کہا۔
اُسی وقت اُن کے قریب سے ایک بچہ گزرا۔ٹارزن نے اُسے روک لیا:
”بیٹا! ہمیں عمران کے گھر جانا ہے۔“
”کون سے عمران کے گھر، یہاں تو کئی عمران رہتے ہیں، انکل۔“۔ بچے نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”اس عمران کے گھر جو بچو ں کے لیے پیاری پیاری کہانیاں اور نظمیں لکھتا ہے۔“ ٹارزن بھی مسکرایا۔
”اوہ……آپ کو عمران فیصل صدیقی کے گھر جانا ہے۔“ بچے نے جلدی سے کہا۔
ٹارزن نے ہاں میں سر ہلا دی۔
”آئیں میرے ساتھ۔“
بچہ اُنہیں لے کر ایک گھر کے سامنے آ گیا اور بولا:
”عمران بھائی یہاں رہتے ہیں۔“
”شکریہ بیٹے!“ ٹارزن نے کہا تو بچہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔
گھنٹی کے جواب میں ایک نوجوان باہر آیا۔ یہ عمران تھا۔وہ ٹارزن اور منکو کو دیکھ کر حیرت و خوشی سے اچھل پڑا:
”انکل ٹارزن آپ……“
”ہاں! میں وعدے کے مطابق آ گیا ہوں۔“ ٹارزن نے مسکرا کر کہا۔
عمران نے ٹارزن اور منکو کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اُن کے لیے کھانے کی کچھ چیزیں لینے چلا گیا۔ جب واپس آیا تو حیران رہ گیا۔ ڈرائنگ روم میں بہت سے بچے موجود تھے۔وہ ٹارزن سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔
”ارے پپو، ببلو…… تم کب آئے؟“ عمران نے کہا اور ٹارزن کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ہم نے ٹارزن انکل کو آتے دیکھ لیا تھا، چناں چہ فوراً چلے آئے۔“ موٹے سے پپو نے شوخی سے کہا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہوا، یہ ٹارزن انکل ہی ہیں؟“ عمران نے پوچھا۔
”اِن کے لباس سے، ایسے کپڑے تو صرف ٹارزن انکل ہی پہنتے ہیں۔“ ببلو نے شوخی سے کہا۔
ٹارزن نے حیرت سے منکو کی طرف دیکھا، پھر بچوں سے مخاطب ہوا:
”میں نے کوئی اور لباس پہنا ہوتا تو آپ مجھے بالکل نہ پہچانتے؟“
”انکل! ہم نے آپ کے جتنے بھی کارنامے پڑھے ہیں، اُن میں ہمیشہ ذکر ہوتا تھا کہ آپ کا لباس صرف ایک لنگوٹ ہے، لیکن آج آپ نے بغیر بٹنوں کی شرٹ بھی پہنی ہوئی ہے۔“
”اس کے باوجود تم نے مجھے پہچان لیا۔“ وہ مسکرایا۔
اِسی دوران چائے بن کر آ گئی اور وہ چائے سے لطف اندوز ہونے لگے۔ چائے سے فارغ ہوئے تو عمران نے بچوں سے کہا:
”اب آپ جائیں، انکل تھکے ہوئے ہیں۔ یہ آرام کریں گے۔“
”ٹھیک ہے عمران بھائی، اب ہم چلتے ہیں۔“پپو نے کہا، پھر وہ ببلو کو لیے ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
”انکل! میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں،آپ منکو سے باتیں کریں گے۔“ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا اور ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔

O

ٹارزن کے ساتھ ساتھ منکوبھی چونک اُٹھا۔ عمران اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ اندر آ رہا تھا۔اُن کے ساتھ، اُن کے ابو جی بھی تھے۔ ارشد اور خرم کی عمریں قریباًدس اور گیارہ سال تھیں۔ ارشد کلاس چہارم کا طالب علم تھا جب کہ خرم پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ دونوں کو ٹارزن کی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا۔ ٹارزن کے کارنامے پڑھ پڑھ کر انہیں شوق چرایا کہ کسی طرح وہ بہادر ٹارزن سے ملیں۔ اس سے باتیں کریں۔ اس کے کارنامے اس کی زبانی سنیں۔ اُس کی بہادری کا راز جان سکیں۔
ٹارزن کہانیاں پڑھتے ہوئے انہیں بڑی حیرت ہوتی تھی کہ اکیلا ٹارزن کیسے بڑے بڑے دشمنوں کا مقابلہ کر لیتا ہے۔ ایک کہانی میں انہوں نے پڑھا تھا کہ ٹارزن نے ایک لمبی چوڑی خوف ناک بلاکو ہلاک کر دیا۔ اُس بلا کے آٹھ بازو تھے۔ ایک دن ان کے بڑے بھائی عمران نے انہیں بتایا کہ ٹارزن عنقریب پاکستان آ رہا ہے۔ وہ تم دونوں سے بھی ملاقات کرے گا۔ ٹارزن سے ملاقات کا تصو رہی ان دونوں کے لیے باعث مسرت تھا۔آج ٹارزن ان کے گھر میں موجود تھا۔اُ ن کی خوشی دیکھنے والی تھی۔
ٹارزن نے ارشد اور خرم کو پیار سے اپنے پاس بٹھایا:
عمران نے مجھے لکھا تھا، تم مجھ سے ملاقات کرنا چاہتے ہو۔ آج میں تم لوگوں کے سامنے ہوں۔ کچھ پوچھنا چاہو تو میں حاضر ہوں۔ مجھے تمہارے سوالات کے جوابات دے کر خوشی ہو گی۔“
ارشد نے ٹارزن سے کہا:
”انکل! آپ سے مل کر اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔“
”میں محسوس کر رہا ہوں، تم سے مل کر میں اور منکو بھی بہت زیادہ خوش ہیں۔“ ٹارزن نے کہا،
”انکل! ہم آپ کی بہادری کا راز معلوم کرنا چاہتے ہیں۔“ خرم نے کہا۔ یہ سن کر ٹارزن ہولے سے مسکرایا:
”بہادری کا راز صرف یہ ہے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا ہوں۔“
”کسی سے بھی نہیں؟“ انہوں نے حیرت سے کہا۔
اُس کی بات سن کر ٹارزن ایک لمحے کے لیے چپ ساہوگیا، پھر مسکرایا اور کہنے لگا:
”بس ایک سے ڈرتا ہوں، جو اُس سے ڈرتا ہے، وہ پھر کسی سے نہیں ڈرتا، اچھے بچو۔“ ٹارزن نے کہا۔
کسی کو ٹارزن کی بات سمجھ نہ آئی۔ یہ دیکھ کر ٹارزن نے کہا:
”بچو! میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور یہی میری بہادری کا راز ہے۔ اگر آپ اللہ سے ڈرنے لگیں تو کوئی دوسر اآپ کو خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے۔“
بچے سر ہلانے لگے، جیسے بات اُن کی سمجھ میں آ گئی ہو۔ پھر ارشد کہنے لگا:
”انکل! ہماری خواہش ہے، آپ اپنا کوئی کارنامہ اپنی زبانی سنائیں۔“
”میں آپ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا لیکن اس وقت جب میں یہاں سے جانے لگوں گا۔“
”ٹھیک ہے انکل۔“ ارشد اور خرم نے ایک ساتھ کہا۔
”بچو! اب تم لوگ آرام کرو۔ ٹارزن انکل بھی آرام کریں گے۔“ عمران کے ابو جی نے کہا۔
”ٹھیک ہے ابو جی۔“ عمران نے کہا۔ سب اُٹھ کر چلے گئے۔
اُن کے جانے کے بعد ٹارزن بستر پر لیٹ کر چھت کو گھورنے لگا۔ منکو اُس کے پہلو میں تھا:
”سردار! میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔“
”کیا؟“ ٹارزن نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا۔وہ نیچے قالین پر بیٹھا تھا۔
”آپ کسی ظالم کو سزا تو اپنے جنگل میں دیتے ہیں اور اس کی اطلاع دنیا بھر میں ہو جاتی ہے، کیسے؟“
”پیارے منکو! اچھے کام چھپے نہیں رہتے۔ ہوائیں انہیں دور دور تک پہنچا دیتی ہیں۔ یاد کرو، جب ہم یورپ گئے تھے۔ میرے کارناموں کی دھوم وہاں بھی تھی حالاں کہ میں اس سے قبل وہاں کبھی نہیں گیا تھا۔ دیکھ لو، میں پاکستان پہلی بار آیا ہوں لیکن یہاں کے بچے مجھے ایسے جانتے ہیں جیسے میں ان ہی میں سے ہوں۔ کتنی محبت کرتے ہیں یہ لوگ مجھ سے۔“ ٹارزن نے کہا۔
اسی طرح باتیں کرتے کرتے وہ سو گئے۔ اگلی صبح عمران ایک بار پھر ان کے سامنے موجود تھا:
”انکل! آپ نے ناشتا کر لیا ہے؟
”ہاں! ارشد اور خرم ناشتا دے گئے تھے۔“ ٹارزن نے کہا، پھر بولا:
”عمران! تم نے جس مقصد کے لیے مجھے یہاں بلایا ہے، وہ بتاؤ۔ کیا مسئلہ ہے؟“
”انکل! ہمارے علاقے میں ایک دکان دار ہے۔ وہ نقلی دوائیں فروخت کرتا ہے۔ اُسے سمجھاناہے کہ یہ وہ کام نہ کرے۔“ عمران نے کہا۔
”نقلی دوائیں!!“
”جی ہاں! وہ نقلی یعنی جعلی دوائیں فروخت کرتا ہے، لوگوں نے اسے کئی بار سمجھایا، لیکن وہ باز نہیں آتا ہے۔ افسروں سے ملی بھگت کر رکھی ہے اُس نے۔“ عمران نے کہا۔
”اس کا آسان حل تو یہ ہے کہ لوگ اس سے جعلی دوائیں نہ خریدیں۔“ ٹارزن مسکرایا۔
”لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ جعلی دوائیں فروخت کرتا ہے۔“ عمران مسکرایا۔
”تمہیں کیسے معلوم ہوا؟“ منکو زور سے اُچھلا۔
”اس انکل کا چھوٹا بیٹا میری جماعت میں پڑھتا ہے، ایک دن باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے بتایا تھا۔“
”تم نے کسی کو بتا دینا تھا۔ خاص کر اپنے ابو جی کو،وہ اس کی شکایت کرتے۔“
”انکل! اس کا فائدہ نہ ہوتا، وہ بہت چالاک آدمی ہے، بڑے بڑے افسروں سے اس کے تعلقات ہیں۔ پھر کسی کو نہ بتانے کی ایک وجہ بھی تھی۔“ عمران مسکرایا۔
”وجہ۔“ ٹارزن چونکا۔
”اور وہ یہ کہ میں آپ اور منکو سے ملنا چاہتا تھا۔ انکل! ہمارے یہاں کا نظام بڑا عجیب ہے، پولیس کے ساتھ مل کر گندے لوگ، گندے گندے کام کرتے ہیں۔ پیسے کمانا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ کچھ بھی بُرا کام کرتے ہیں۔ مجھے ایسے لوگ اچھے نہیں لگتے۔ آپ اسے سمجھائیں گے، ڈرائیں گے تو وہ جعلی دوائیں بیچنا بند کر دے گا۔“
”اوہ…… میں دیکھتا ہوں۔ مجھے اس آدمی کا پتا دے دو۔ میں اس سے بات کروں گا۔“ ٹارزن نے کہا۔
عمران نے ٹارزن کو اس میڈیکل سٹور والے کا ایڈریس دے دیا۔ اچھی طرح سمجھا بھی دیا۔
”انکل! کیا یہ بہتر نہیں، میں آپ کے ساتھ چلوں؟“ عمران نے کہا۔
”نہیں، میں اس سے اکیلا بات کروں گا اور مجھے پوری امید ہے، میں کامیاب لوٹوں گا۔ تم اپنے ابو جی کے ساتھ جاکر منکو کے لیے تھوڑا سا کھیلوں کا سامان خرید لینا۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان بہت بنتا ہے نا۔“ ٹارزن نے کہا۔
”منکو کے لیے…… یہ کیا کرے گا؟“ عمران حیران تھا۔
”یہ رات مجھ سے کہہ رہا تھا، میں یہاں سے کھیلوں کا سامان لے کر جاؤں گا اور واپس جنگل جا کر جنگل کے دوسرے جانوروں کے ساتھ کھیلوں گا۔“ ٹارزن نے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں سامان خرید کر پیک کر دوں گا۔“ عمران نے ہنستے ہوئے کہا، پھر بولا:
”آپ کب اس آدمی سے ملیں گے؟“
”کل کسی وقت مل لوں گا۔“
”اس کا مطلب ہے، آج آپ دونوں کو سیالکوٹ کی سیر کرائی جائے۔“
”سیر نہیں، تم یہاں کے بچوں سے ملاقات کا بندوبست کر سکو تو اچھا ہوگا۔ عمران!جعلی دوائیں والے کے بچوں کو بھی ضرور بلانا۔“ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ میں ان سے بھی کہہ دوں گا، آنا ہوگا تو آجائیں گے۔“ عمران نے جلدی سے کہااور کمرے سے نکل گیا۔

O

دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ خوب چمک رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔ موسم بہت خوبصورت تھا۔
ٹارزن مختلف بازاروں سے ہوتا ہوا اشرف میڈیکل سٹور پر پہنچا۔ منکو اُس کے کندھے پر تھا۔ اشرف نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ سٹورپر اس وقت کوئی گاہک نہیں تھا۔
”تمہارا نام اشرف ہے؟“ ٹارزن نے منکو کو کندھے سے اُتار کر ایک طر ف کھڑا کرتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں! میں اشرف ہوں۔“
”تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔“
”باتیں لیکن تم ہو کون؟ میں تمہیں نہیں جانتا۔“ اشر ف نے کہا۔ وہ منکو کو بغور دیکھ رہا تھا۔
”میرا نام ٹارزن ہے۔“
”ٹارزن……“ اشرف نے زیرلب دہرایا:
”کہانیوں والا ٹارزن؟“
”ہاں! کہانیوں والا ٹارزن۔“ ٹارزن نے کہا۔
”اوہ…… آؤ، بیٹھو۔ میں بچپن میں تمہاری کہانیاں پڑھا کرتا تھا مگر تم یہاں کیسے۔“ اشرف کے لہجے میں حیرت تھی۔
”میں پاکستانی بچوں کی فرمائش پر یہاں آیا ہوں۔“ ٹارزن نے کہا۔
”کیا واقعی؟“ اشرف کی حیرت دُور نہیں ہوئی تھی۔
”بچوں کے کچھ مسائل ہیں جن کے حل کے لیے اُنہوں نے مجھے دعوت دی ہے۔“ ٹارزن نے مسکراتے ہوئے کہا:
”یہاں سیالکوٹ میں بچوں کا مسئلہ تم ہو۔“
”میں بچوں کامسئلہ ہوں۔“ اشرف ہنس پڑا۔
”ہاں! یہاں کے بچوں کو تم سے شکایت ہے کہ تم ان کی جانوں سے کھیل رہے ہو۔ انہیں جعلی ادویات فروخت کرتے ہو۔“
”اوہ……“ اشرف چونک اُٹھا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا:
”یہ سب افواہیں ہیں جو میرے مخالف پھیلا رہے ہیں۔“
”یہ افواہیں نہیں ہیں اشرف۔ حقیقت یہی ہے کہ تم یہ دھندہ کرتے ہو اور تمہاری سرپرستی بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں۔ میرے دوست! انسانی جان بہت قیمتی ہے اور کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ چند سکوں کی خاطر انسانی جان سے کھیلے اور پھر تم مجھے یہ بتاؤ، کیا تمہارا دین ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟“
ٹارزن کے چپ ہوتے ہی اشرف بولا:
”تمہاری سب باتیں درست ہیں لیکن یہاں تو ہر کوئی ایسا کرتاہے۔ بہت سے امیر لوگ ناجائز دھندوں سے مال بنا رہے ہیں، ایک میں ایسا کر رہاہوں تو کیا قیامت آگئی۔“
”اشرف!یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اچھے لوگوں کے درمیان برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اگر تمام اچھے لوگ تمہاری طرح سوچنے لگیں تو جانتے ہو، کیا ہو گا؟ پوری دنیا میں برے لوگ ہو جائیں گے۔ اپنی سوچ کو بدلو۔ اوروں کی طرف مت دیکھو۔ خود اچھے بنو اور اس بات کا انتظار مت کرو کہ دوسرے اچھے بنیں۔
یاد رکھو! تم اچھے بن گئے تو سب اچھے ہو جائیں گے۔ دولت تو آنی جانی ہے لیکن انسانی جان کا کوئی بدل نہیں۔ میری تم سے درخواست ہے، میڈیکل سٹور چلاؤ لیکن ادویات اصلی فروخت کرو۔ نقلی مال بنانے والوں کی حوصلہ شکنی کرو؟“ ٹارزن خاموش ہو گیا۔
اشرف کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ایک غیر مسلم اُسے نیکی کا درس دے رہا ہے اور وہ انسانوں کی جانوں کا دشمن بنا ہوا ہے:
”ٹھیک ہے ٹارزن۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں، یہ کام چھوڑ دوں گا۔ میں گمراہ ہو گیا تھا، اللہ مجھے معا ف فرمائے۔“
ٹارزن نے خوشی سے اشرف کو گلے سے لگالیا۔
عین اُسی وقت اُن کے کانوں میں آوازیں ٹکرانے لگیں:
اشر ف بھائی……زندہ باد…… اشرف بھائی…… زندہ باد۔“
اُنہوں نے دیکھا۔ بہت سے بچے نعرے لگا رہے تھے۔ سب سے آگے اشرف کا بیٹا تھا۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top