skip to Main Content

وفادار کتے کی قبر

غلام مصطفی سولنگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک وفادار کتے کی کہانی۔۔۔جو بے وفائی کا طعنہ سہہ نہ سکا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھیر تھر پہاڑی سلسلہ ۲۷۰ کلومیٹر کی ایک پٹی کی صورت میں سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کا جنوبی چھیڑا کراچی کے شمال میں آکر اختتام پذیر ہوتا ہے، جبکہ اس کا شمالی حصہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں موجود مرکزی بروہی سلسلہ کوہ سے جا ملتا ہے۔ کھیر تھر سلسلہ کوہ کا سب سے اونچا پہاڑ بنام ’’ ڈاڑھیا رو پہاڑ ‘‘ ہے جو کہ سطح سمندر سے ۷۰۰۰ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس عظیم الشان پَربت پر وفادار کتے کی قبر موجود ہے، جو کہ مرکزی بروہی سلسلہ کوہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں ضلع قمبر۔ شہداد کوٹ میں واقع ہے۔
پتا نہیں کس دور کی بات ہے لیکن بات یہ ہے کہ ایک دفعہ ڈاڑھیارو پہاڑ کی چوٹی پر ایک بروہی نوجوان اپنی کدال سے قبر کھود رہا تھا۔ وہ دُکھ سے نڈھال تھا اور پسینے میں شرابور ۔ قبر کھودنے کے بعد اس نے ایک بوری کھولی۔ بوری سے ایک کتا برآمد ہوا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے جسم میں زندگی کی کوئی علامت نہ تھی۔ وہ بے چارہ اب اس جہان میں نہیں رہا تھا۔ نوجوان نے اس کتے کو قبر میں لٹا دیا اور اس کے اوپر پتھر رکھنے لگا۔
اس دن ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ بروہی نوجوان نے اپنے وفادار کتے کی قبر پر آخری پتھر رکھا۔ کچھ دیر بعد وہ اُٹھا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ صرف وادیاں اور پہاڑ ہی اس کی آواز سن رہے تھے۔ اس نے پورا دن وہاں گزارا اور شام کو روتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔ گھر میں بھی اسے سکون و قرار نہ مل سکا۔ اسے اپنے وفادار کتے کے ساتھ گزارے ہوئے دن بہت یاد آنے لگے۔
ڈاڑھیارو پہاڑ سے ذرا سا نیچے بلوچستان کی طرف یہ بروہی نوجوان ایک پہاڑی گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دن اس نے ایک چھوٹے سے کتے کو پہاڑوں میں بھٹکتے ہوئے دیکھ لیا۔ یہ چھوٹا سا کتا بہت ہی خوبصورت تھا۔ بروہی نے اسے پکڑ لیا اور اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ بروہی اس کا بہت خیال رکھنے لگا۔ کتا جوان ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ بروہی اور کتے کا پیار بڑھنے لگا۔ وہ دن رات اپنے مالک کے ساتھ رہتا تھا۔ پوری وادی میں سندھ والے پہاڑی حصے کے ایک بڑے گاؤں میں ایک ہندو دکاندار رہتا تھا۔ بروہی نوجوان گھر کے لیے سودا سلف لینے کتے کے ساتھ اس کی دکان پر اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک سال خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بارش نہ ہوئی۔ ظاہر ہے کہ بارش نہ ہونے کے باعث فصل نہیں ہوسکی۔ بروہی نوجوان نے ہندو دکاندار کی منت سماجت کی کہ ایک سال تک اسے ادھار پر سامان دیا جائے۔ جواباً ہندو نے کہا کہ وہ اپنا کتا قرض کی ادائی تک یہاں گروی کے طور پر چھوڑ جائے۔ غریب اور مجبور بروہی نوجوان کو ایسا ہی کرنا پڑا۔ اپنے کتے سے جدا ہونے کا وقت آپہنچا تھا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ کتے کو اپنی باُنھوں میں لیا اور اس کے کانوں میں کہا ’’اپنے نئے مالک سے وفادار رہنا جب تک میں قرض ادا نہ کروں، واپس ہرگز نہ آنا۔‘‘
معصوم جانور کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ اپنے مالک کے ہجر کا دُکھ شدت سے محسوس کررہا تھا اور اپنے آپ کو نئے مالک کے ساتھ عارضی طور پر رہنے کو تیار کررہا تھا۔ بروہی نوجوان اپنے وفادار کتے کو الوداع کرنے کے بعد اپنے گاؤں چلاگیا۔
ہندو دکاندار نے کتے کے گلے میں زنجیر ڈالی اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ بے چارے کتے نے پہلے تو کبھی زنجیر دیکھی ہی نہیں تھی۔ اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔ بہرحال اسے اپنے نئے مالک کے ساتھ وفاداری کرنی ہی تھی۔
دن گزرتے گئے۔ بروہی نوجوان نے اپنے کھیتوں کو بڑی محنت سے تیار کیا۔ اسے انتظار تھا کہ بارش ہو اور فصل اچھی ہوجائے تاکہ وہ قرض ادا کرکے اپنے کتے کو واپس گھر لے آئے۔ جدائی کے ان دنوں میں بروہی اور کتا راتوں میں چاند کو تکتے رہتے تھے۔ ان کو ایک دوسرے کا عکس چاند میں نظر آتا تھا۔
ایک رات کیا ہوا کہ ہندو کے گھر میں چور کود گئے۔ چور ہندو کی پوری نقدی، زیورات اور دوسرا قیمتی سامان چرا کر لے گئے۔ کتا زنجیر میں بندھا ہوا تھا۔ لہٰذا مجبور تھا۔ وہ زور زور سے بھوکنے لگا۔ ہندو جاگ اُٹھا۔ اسے محسوس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے۔ اس نے فوراً کتے کو زنجیر سے آزاد کر دیا۔ کتا چوروں کے پیچھے دوڑا۔ چور گاؤں کے باہر ندی کے کنارے پہنچ گئے تھے۔ کتے نے ان کو گھیر لیا ۔ ہندو بھی پیچھے پیچھے چلا آیا۔ گاؤں کے بہت سارے لوگ بھی لاٹھیاں اور کلھاڑیاں لے کر وہاں آگئے۔ اس طرح چور وہیں سامان چھوڑ کر بھا گ گئے۔ ہندو دکاندار کتے کے اس کارنامے پر بے حد خوش ہوا اور کتے کو آزاد کرنے اس کے اصل مالک بروہی کے پاس واپس بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔
’’ تمھارے وفادار اور چالاک کتے نے مجھے بے حد خوش کر دیا ہے۔ اس نے میری قیمتی اشیا اور ساز و سامان چوروں سے واپس دلوایا ہے۔ تمھارے کتے نے تمہارا قرض چکا دیا ہے۔ اب تم میرے قرض دار نہیں ہو۔ میں تمھارے کتے کو آزاد کرکے تمھارے پاس واپس بھیج رہا ہوں۔‘‘ ہندو نے دوسرے دن کتے کے گلے میں یہ پرچی ڈالی اور زنجیر کھول کر کتے کو اس کے پرانے مالک کے گھر جانے کا حکم دے دیا۔
خوشی کے مارے کتے نے اپنے پرانے مالک کے گھر کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ وہ پہاڑی رکاوٹوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر اپنے پرانے مالک بروہی پر پڑی۔ اب کی بار بارش خوب ہوئی تو فصل بھی اچھی ہوئی۔ بروہی نوجوان نے اناج بیچ کر قرض کے پیسے دینے کا انتظام کر لیا تھا۔ وہ ہندو دکاندار کی طرف ہی آرہا تھا۔ آمنا سامنا ہوا۔ کتا خوشی سے دُم ہلانے لگا۔ لیکن دونوں کے جذبات و احساسات ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک بے حد خوش تھا تو دوسرا اس کے برعکس دُکھ اور غصے سے بھرا ہوا تھا۔ کتے نے سوچا کہ اس کا پرانا مالک اس کی بہادری پر بہت خوش ہوگا اور اسے پیار کرے گا۔ جب کہ اس کے بروہی مالک نے سوچا کہ یہ کتا ہندو دُکاندار کے ہاں سے بھاگ آیا ہے اور اس کے لیے شرمندگی اور ذلت کا باعث بنا ہے۔
’’اوئے۔۔۔ بے شرم کتے! تم نے میری بے عزتی کرادی۔ تم نالائق اور نمک حرام ہو۔‘‘ 
کتا بے چارہ بروہی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔بروہی اس کو نظر اندازکررہا تھا۔ اتنے قابل فخر اور وفادار جانور کے لیے یہ سب کچھ برداشت سے باہر تھا۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ اب اس کو پرانا مالک قبول نہیں کرے گا۔ لہٰذا وہ وہیں ڈھلوانی راستے پر گر گیا اور دم توڑ دیا۔
بروہی نوجوان جب ہندو دکاندار کے پاس قرضہ واپس کرنے پہنچا تو اسے حقیقت کا علم ہوا۔ ہندو نے اسے بتایا کہ اس نے کتے کے گلے میں کتے کی رہائی اور قرض کی معافی کا پروانہ باندھ دیا تھا۔ 
دُکھ، اداسی اور پچھتاوے کا بوجھ لیے بروہی نوجوان وہاں سے روانہ ہوا۔ ہلکی بارش ہو رہی تھی لیکن اس نوجوان کے دل میں تو دُکھ کی شدید برسات برس رہی تھی۔ اس نے اپنے مرے ہوئے محبوب کتے کو بوری میں ڈالا اور ڈاڑھیارو پہاڑ کی چوٹی پر قبر کھود کر اسے دفنا دیا۔
آج بھی اس وفادار اور قابل فخر کتے کی قبر اس پہاڑ کی چوٹی پر موجود ہے، جہاں سال کے بارہ ماہ زبردست ٹھنڈ رہتی ہے۔
صدیاں بیت گئی ہیں لیکن سندھ کے لوگ وفادار کتے کی کہانی کو نہیں بھولے۔ ہر ماہ کی چودھویں تاریخ کو جب پورا چاند وادی کھیر تھر کے افق پر نمودار ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے وفادار کتے اور اس کے مالک کا عکس بھی چاند میں نظر آرہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زندگی بھلے ختم ہوجائے لیکن سچا پیار کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پیار میں جنس اور نسل کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ پیار لافانی ہے، جس نے ایک وفادار کتے اور اس کے قابل فخر مالک کو بھی امر بنا دیا ہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top