skip to Main Content

واپس نہیں آتا

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

دادا جان نے مسکراتے ہوئے، ایک نگاہ بچوں پر ڈالی اور بولے:
”کل آپ لوگوں نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا۔“
بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر عابد نے کہا:
”دادا جی! ہم نے ساری نمازیں پڑھی ہیں۔“
”شاباش بچو! اصل کام تو یہی ہے کہ بندہ اپنی رب کے سامنے سر جھکاتا رہے۔ میں بہت خوش ہوں، آپ سب نماز یں پڑھنے لگے ہیں۔“
دادا جان! ہمیں آپ کی تمام باتیں اچھی طرح یاد ہیں۔ آپ نے کہا تھا، نماز ہم مسلمانوں پر فرض ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کافر اور مسلمان میں فرق کرنے والی چیز نماز ہی ہے اور یہ کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب سے پہلے نماز کے متعلق ہی پوچھے گا۔
دادا جان! ہم پہلے نمازوں کے لیے سستی کر جاتے تھے لیکن اب ان شاء اللہ، پابندی کے ساتھ تمام نمازیں باجماعت ادا کریں گے، آپ ہمارے لیے دعا کرتے رہیے گا۔“ احسن نے کہا۔:
”چوں کہ آج میں بہت زیادہ خوش ہوں، اس لیے آپ کی تمام باتیں مانوں گا۔ کہو، کون سی کہانی سناؤں؟“
بچوں کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے۔
”دادا جی! آج جھوٹے لڑکے کی کہانی سنائیں۔“لیاقت نے جلدی سے کہا۔
اُنہوں نے تپائی پر رکھا گلاس اُٹھایا اور پانی پینے لگے۔ جب وہ پانی پی چکے توننھے عثمان نے آہستہ سے پوچھا:
”دادا جی! آپ پانی ہمیشہ دائیں ہاتھ سے اور تین سانسوں میں پیتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ؟“
”پانی ہمیشہ دائیں ہاتھ سے اور تین سانسوں میں پینا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ رہا ہے۔اُن کا طریقہ سنت کہلاتا ہے اور سنت ادا کرنے سے ثواب ملتا ہے۔“ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ کہانی سنانے لگے:
”پنجاب کے ایک بہت خوب صورت گاؤں میں لوگ پیار و محبت سے رہتے تھے۔ اُن میں بہت اتفاق تھا۔ وہ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں جیتے تھے۔
اسی گاؤں میں ایک لڑکا کرم داد بھی رہتا تھا۔ اُس کے ابا جان سارا دن کھیتوں میں محنت و مشقت کرتے تھے اور امی گھر کے کام کاج میں الجھی رہتی تھی۔ کرم داد چھٹی جماعت میں پڑھ رہاتھا۔ اُس میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ بس ایک بری عادت تھی کہ وہ بات بات میں جھوٹ بولتا تھا۔ اُس کے ابا جان اور امی اُسے اس بات پر اکثر ڈانٹتے تھے مگر وہ اپنی عادت سے باز نہیں آ رہا تھا۔ اُس کے دوست بھی اُسے بہت سمجھاتے تھے لیکن وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔
کرم داد گاؤں میں جھوٹا مشہور تھا۔ کوئی اُس کی باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ وہ سچ بھی بول رہا ہوتا تو لوگ اُسے جھوٹ سمجھتے تھے۔
ایک دن کرم داد اپنے دوستوں خرم، اشرف اور رئیس کے ساتھ گاؤں سے باہر چھوٹے بڑے ٹیلوں کے درمیان کھیل رہے تھے۔ یہ جگہ اُن کی پسندیدہ تھی۔ وہ اکثر یہاں کھیلنے کے لیے آجاتے تھے۔کھیلتے کھیلتے اچانک اشرف نے کہا:
’کرم داد! دیکھو، موسم کتنا اچھا ہو رہا ہے۔‘
’ہاں!‘ کرم داد نے ہنستے ہوئے کہا:
’آؤ جنگل میں چلتے ہیں، وہاں کھیلنے میں بہت مزا آئے گا۔‘
’چلو……‘ رئیس نے خوش ہوکر کہا۔
وہ جنگل کی طرف جانے لگے۔ جنگل گاؤں سے بہت زیادہ دُور نہیں تھا۔ وہ جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔
’آؤ آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔‘
’ٹھیک ہے۔‘ کرم داد نے کہا۔
وہ کھیلنے لگے۔
کرم داد، اشرف اور خرم چھپنے سے پہلے رئیس کی آنکھوں پر ایک رومال باندھ چکے تھے۔ رئیس بے چارہ بندھی آنکھوں کے ساتھ تینوں کو تلاش کر رہا تھا لیکن اُسے کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر اُس نے آنکھوں سے کپڑا ہٹا لیا اور اُونچی آواز میں کہنے لگا:
’نہیں بھئی! ایسے مزہ نہیں آئے گا۔‘
تینوں درختوں کی اوٹ سے نکل کر، اُس کے سامنے آ گئے:
’تو پھر کیسے مزا آئے گا؟‘ کرم داد نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’یوں کرتے ہیں، میں اس طرف منہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ تم چھپ جاؤ، میں تمہیں تلاش کروں گا۔ سب سے پہلے ہاتھ آنے والا باری دے گا۔ ٹھیک ہے نا؟‘ رئیس نے کہا۔ تینوں مسکرانے لگے۔
رئیس ان کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہو گیا۔ وہ تینوں دبے پاؤں وہاں سے ہٹ گئے اور پھر مختلف اطراف میں پھیل کر چھپ گئے۔ کرم داد ایک بڑے سے ٹیلے کے پاس لمبی لمبی گھنی جھاڑیوں میں چھپا تھا۔ جھاڑیوں کے بالکل ساتھ ہی ایک گڑھا تھا۔“
داداجان کہانی سناتے سناتے یک دم خاموش ہوگئے۔ بچے پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھے۔ اُن کے خاموش ہوتے ہی وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگے۔ پھر عثمان نے کہا:
”دادا جی! یہ وہ کہانی نہیں ہے جو آپ نے پہلی سنائی تھی۔“
”یہ ایک دوسری کہانی ہے۔ سنو! کرم داد نہیں جانتا تھا کہ اس گڑھے میں ایک چیتا سو رہا ہے۔ یہ چیتا چند دن پہلے ہی اس جنگل میں آیا تھا۔اُس کی آمد کے بارے میں گاؤں میں کسی کو خبر نہیں تھی۔
رئیس پلٹا او رپھر اپنے دوستوں کو تلاش کرنے لگا۔ وہاں جھاڑیوں کے جھنڈ، ٹیلے اور گھنے درخت تھے۔ رئیس نے قریبی تمام درخت دیکھ ڈالے لیکن وہ کسی کو تلاش نہ کر سکا۔ پھر وہ جھاڑیاں کھنگالنے لگا مگر اُسے پھر بھی کامیابی نہ ہوئی۔آخر وہ تھک گیا تھا۔ یہ عصر کے بعد کا وقت تھا۔سورج کی روشنی مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہمت کر کے اُٹھا اور ٹیلوں کو دیکھنے لگا۔ جلد ہی وہ خرم اور اشرف کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اب تینوں ایک بڑے سے درخت کے نیچے کھڑے تھے۔ اشرف کہہ رہا تھا:
’کرم داد کو تلاش کر کے دکھاؤ تو مانیں گے۔‘
’میں اُسے تلاش کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہوں۔ ٹیلے، درخت اور جھاڑیوں کے تمام جھنڈ دیکھ ڈالے ہیں لیکن اُس جھوٹے کا کوئی پتا نہیں۔ اللہ جانے، وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔‘ رئیس نے کہا۔
’آج تو کرم داد نے کمال کر دیا۔‘ خرم نے ہنس کر کہا۔
’بالکل……اپنی ناکامی کا اعلان کر دو، وہ جہاں چھپاہے، باہر آجائے گا۔‘ اشرف نے ہنستے ہوئے کہا۔
رئیس نے گردن کو ہلکی سی جنبش دی اور پھر زور سے کرم داد کو آواز دینے لگا:
’کرم داد…… اوئے کرم داد! سامنے آ جاؤ، میں نے اشرف اور خرم کو تلاش کر لیا ہے۔ تمہیں تلاش نہ کر سکا، اِس کا بہت افسوس ہے۔‘
فوراً کرم داد کی آواز آئی:
’دوستو! میں آ رہا ہوں ……‘
تینوں جھاڑیوں کے اس جھنڈ کو گھورنے لگے، جہاں سے کرم داد کی آواز آئی تھی۔رئیس نے اُس بڑے جھنڈ میں بھی اُسے تلاش کیا تھا۔وہ کرم داد کا انتظار کرنے لگے کہ وہ کب باہر آتا ہے۔اچانک اُس کی خوف ناک چیخیں سنائی دینے لگیں:
’بچاؤ…… بچاؤ…… یہاں چیتا ہے…… یہاں چیتا ہے۔‘اُس کی آواز میں خوف تھا۔
تینوں نے گھبر اکر ایک دوسرے کو دیکھا:
’گدھا! جھوٹ بول رہا ہے، بھلا وہاں کوئی چیتا کیسے ہو سکتا ہے؟‘ خرم نے ہنس کر کہا۔
’وہ جھوٹا تو ہے ہی، غضب کا اداکار بھی ہے۔ دیکھو، چیخنے کی کیسی عمدہ اداکاری کر رہا ہے۔‘ اشرف نے زور سے کہا۔
’کرم داد! یہ ڈرامہ بازی بند کرو اور خاموشی سے چلے آؤ۔ اندھیرا ہونے لگا ہے۔‘ رئیس نے بلند آواز سے قریباً چیختے ہوئے کہا۔ کرم داد کی چیخیں او ربچاؤ، بچاؤ کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔
وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خرم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:
’کہیں وہاں سچ میں کوئی چیتا نہ ہو……‘
’ارے نہیں، اس جنگل میں درندے نہیں ہیں، یہ بات سب جانتے ہیں۔‘
’تم درست کہتے ہو۔ یہاں چھوٹے موٹے جانور تو ہیں لیکن خطرناک جانور نہیں ہیں۔کرم داد ہمیشہ کی طرح ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے۔‘ خرم نے کہا۔
’یار! کیوں ہمیں بے وقوف بنانے پر تلے ہو، جلدی سے باہر آجاؤ۔‘ وہ زور زور سے بولتے اُس جھاڑی کی طرف جانے لگے۔ جہاں سے کرم داد کی چیخیں مسلسل آ رہی تھیں۔
’نکلو باہر جھوٹے۔‘ رئیس نے بڑی زور سے کہا۔پھر اچانک وہ گھبرا کر پیچھے گرا۔ جھاڑیوں میں سے ایک چیتے نے چھلانگ لگائی تھی۔ اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے چیتا ایک طرف بھاگ گیا۔ رئیس اور اشرف بھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں رہے تھے۔ وہ خوف کے مارے کانپنے لگے، پھر وہ ہمت کرکے اُٹھے اور جھاڑیوں میں گھس گئے۔ جھاڑیوں سے آگے گہرائی میں کرم داد خون میں لت پت پڑا تھا۔ اُس کی حالت دیکھ کر وہ چیخ اُٹھے۔ پھر انہوں نے جلدی سے گہرائی میں چھلانگیں لگا دیں۔ کرم داد بُری طرح زخمی تھا۔ چیتے کے دانتوں کے نشان اُس کے جسم پر واضح نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے اُسے جلدی سے گہرائی سے نکالا اور گاؤں کی طرف لے جانے لگے۔“
دادا جان خاموش ہو گئے تھے۔بچے سانسیں روکے اُنہیں دیکھ رہے تھے:
”دادا جان! پھر کیا ہوا؟“یہ عابد تھا۔
دادا جان نے اُسے دیکھا اور آہستہ سے بولے:
”پھر کیا ہونا تھا،کرم داد جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے بہت زیادہ زخمی ہوگیا تھا۔ اگر وہ جھوٹا مشہور نہ ہوتا تو اُس کے دوست اُس کی پہلی چیخ پر ہی آگے بڑھتے اور یوں چیتا اُسے زیادہ زخمی نہ کر پاتا۔“
”لیکن دادا جان! کرم دا د،اُس وقت تو سچ بول رہا تھا……“ احسن نے جلدی سے کہا۔
’ہاں، لیکن اُس کے دوست تو اُسے جھوٹا ہی سمجھ رہے تھے نا۔ جھوٹا آدمی اعتبار کھو دیتا ہے اور اعتبار ایک بار کھو جائے تو جلدواپس نہیں آتا ہے۔ جاتے ہوئے پیچھے افسوس اور دُکھ چھوڑ جاتا ہے میرے بچو……دُکھی ہونے سے ہمیشہ بچنا…… ہمیشہ بچنا۔“

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top