skip to Main Content

نیت

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’جہاں ریت ہی ریت ہو۔ اُس جگہ کو کیا کہتے ہیں؟‘‘ رومان نے مصعومیت سے پوچھا
’’رومان بیٹی! اُس جگہ کو ریگستان یا صحرا کہتے ہیں۔‘‘ دادی امی نے پیار کرتے ہوئے جواب دیا
’’کیا ریگستان میں پانی ہوتا ہے؟‘‘ رومان نے پانی کو کلاس پکڑتے ہوئے کہا
’’پانی تو ہوتا ہے لیکن وافر مقدار میں نہیں ہوتا ۔ ریگستان میں پانی کو قدرت کا انمول عطیہ کہتے ہیں۔‘‘ دادی امی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
’’وہاں کے لوگ زندہ کیسے رہتے ہیں؟‘‘ رومان نے تعجب سے پوچھا
’’وہاں کے لوگ پانی کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔ قطرہ قطرہ پانی کو گرنے نہیں دیتے ہیں۔اُسے احتیاط سے رکھتے ہیں۔‘‘دادی امی نے جواب دیا
’’دادی امی یہ سب کچھ چھوڑ دیں۔ یہ بتائیں آج کون سی کہانی سنا رہی ہیں۔‘‘رومان نے دونوں ہاتھوں سے اپنے آپ کو دادی کی گرفت سے
آزاد کرتے ہوئے کہا
’’رومان بیٹی! آج تم نے ریگستان اور پانی کا پوچھا ہے ۔اس لیے تمھیں اسی کے متعلق کہانی سنوؤں گئی۔‘‘دادی امی جواباً کہا
’’دادی امی !یہ بہت اچھی بات ہوگئی۔اس میں اور لطف آئے گا۔‘‘ رومان نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا
دادی امی نے کہانی شروع کی۔
برسوں پرانی بات ہے کہ دو قبیلوں کا ایک میٹھے پانی کا کنواں پر جھگڑا ہوگیا۔ ایک قبیلہ کا نام حجاز تھا اور دوسرے قبیلہ کا نام قاسم تھا۔قاسم ایک لالچی اور مغرور سردار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کنواں کا پانی صرف اور صرف میرے قبیلے والے ہی استعمال کر سکیں۔ اگر کوئی دوسرا استعمال کرے تو اُسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑے ۔ کیونکہ ریگستان میں ایک ہی میٹھا کنواں تھا۔ اس سے صاف و شفاف پانی نکلتا تھا۔ اس پانی کے بدلے میں وہ قبیلے والوں سے بھاری مقدار میں رقم وصول کرے گا۔ اس طرح اُسے بہت فائدہ حاصل ہوگا۔ جبکہ حجاز قبیلے والے یہ چاہتے تھے کہ میٹھے کنواں پر دونوں قبیلوں کا حق یکساں ہو۔دونوں قبیلے والے اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ قبیلہ حجازنے اپنا ایک قاصد قبیلہ قاسم کی طرف روانہ کیا۔قاصد نے قاسم کو قبیلے والوں کی رائے سے آگاہ کیا۔ لیکن قاسم پر دولت کا بھوت سوار تھا۔ اس لیے قاسم نے قاصد کو قتل کردیا۔ قاصد کے قتل کی اطلاع جب قبیلہ حجاز کو ہوئی انہوں نے ایک فوج تیار کروائی اور کنواں پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔جب قاسم کو خبر ہوئی کہ حجاز قبیلہ کنواں پر قبضہ کرنے کے لیے چلا گیا ہے۔قاسم نے فوراً اپنی فوج کو اکٹھا کر کے کنواں کی جانب کو چ کیا۔۔۔۔۔
’’دادی امی کیا ایک کنواں کی خاطر یہ دونوں قبیلے جنگ کریں گے۔‘‘رومان نے حیرت سے کہا
’’رومان بیٹی! قاسم کی آنکھوں پر دولت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اُسے دولت کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔اس کی نیت میں ہی کھوٹ تھا۔‘‘دادی امی نے جواباً کہا
دادی امی نے کہانی جہاں سے چھوڑی تھی،وہاں سے شروع کی۔
دونوں قبیلے والوں نے کنواں کے پاس پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ کنواں کے ساتھ ایک بزرگ نماز پڑھ رہے تھے۔بزرگ جب نماز سے فارغ ہوگئے۔ انہوں نے دونوں قبائل کی طرف دیکھا۔ قاسم اور حجاز دونوں بزرگ کے پاس آئے۔

’’اے نیک دل بزرگ آپ کو ن ہیں ۔‘‘ قاسم نے ادب سے پوچھا
بزرگ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
’’نیک دل بزرگ آپ جوکوئی بھی ہیں۔ یہاں سے چلے جائیں۔ ہمیں آج ہی اس کنواں کو فیصلہ کرنا ہے۔‘‘حجازنے تلخ انداز میں کہا
’’سالوں سے یہ کنواں خشک تھا۔آج خدا نے اسے میٹھے پانی سے جاری کیا ہے۔اسطرح خدا کی ناشکری نہ کرو۔ کنواں کے پانی کی کوئی راہ نکل لو۔‘‘بزرگ نے کنواں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’مشورا یہ تھا کہ اس کنواں سے دونوں فائدہ اُٹھائیں گے لیکن یہ مانتا ہی نہیں؟‘‘ حجاز نے اپنے قبیلے کی راہ سے آگاہ کیا
’’یقینا! اس کی نیت میں ضرور فتور ہو گا۔‘‘بزرگ نے اطمینا ن سے کہا
’’بزرگ میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے مجبور نہ کریں کہ آپ کی بے ادبی کرجاؤں۔‘‘ قاسم نے غصہ سے کہا
’’اس خون خرابے سے تم کو کچھ نہیں ملے گا۔تم اس فیصلہ سے ضرور پچھتاؤ گے۔ تمھاری آنکھوں میں دولت اور حسد کی پٹی بندھی ہوئی ہیں۔‘‘
بزرگ نے سنجیدگی سے کہا

دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ ہوئی۔کنواں کے ارگرد ہی لاشوں کے انبار جمع ہونے لگے۔آخر میں حجاز قبیلے کی شکت ہوئی۔قاسم نے کنواں پر قبضہ کر لیا۔ سب سے پہلے کنواں میں سے ایک مشکیزہ نکلا اور اپنے گھر والوں کے لیے بھیج دیا۔ قبیلے والوں نے بھی کنواں میں سے پانی پینے کی درخواست کی۔ قاسم نے اجازت دے دی اور اپنے لیے بھی ایک پیالہ منگوا لیا۔ کا فی دیر ہوگئی۔ قاسم کو پیاس کی شدت تنگ کرنے لگی۔تب وہ اپنے خیمے کے باہر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ سارے لوگ گر ے ہوئے پڑے تھے۔صرف ایک آدمی ابھی لاکھڑا رہا تھا۔قاسم نے فوراً جاکر سہارا دیا۔
’’یہ سب کیاہوگیا۔‘‘ قاسم نے حیرانگی سے پوچھا
’’سردار کنواں کا پانی زہریلا ہوگیا ہے۔‘‘ اُس آدمی نے یہ کہتے ہی دم توڑ دیا۔
قاسم ابھی خود کو سنبھال بھی نہ سکا تھا کہ ایک قاصد قبیلے کی طرف سے آتا دکھائی دیا۔قاسم قاصد کو دیکھتے ہی اس کی طرف لپکا۔
’’سردار‘‘ قاصد نے غمزدہ لہجہ میں کہا
’’میری بیوی توسلامت ہے۔‘‘ قاسم نے حوصلہ کرتے ہوئے پوچھا
’’غضب ہوگیا۔ سردار! آپ کی بیوی وہ پانی پیتے ہی ہلاک ہوگئی۔‘‘قاصد نے روتے ہوئے بتایا۔
یہ سننا تھا کہ قاسم زمین پر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو خود کو قبیلے میں پایا۔قاسم نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ گاؤں میں منادی کراد ی کہ کنواں اب زہریلا ہوگیا ہے۔قاسم ہر وقت اﷲ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا تھا۔ قاسم نے سچے دل سے توبہ کرلی تھی کہ نہ وہ مخلوق خدا کا نا حق خون بہائے گا اور نہ ہی انہیں قتل کرے گا۔ مخلوق خدا کی خدمت میں اپنا سب کچھ لوٹا دے گا۔رات کو قاسم کے خواب میں وہی بزرگ آئے۔ 
’’اے نیک دل بزرگ آپ ہی بتاؤ،کنواں کا پانی زہریلا کیسے ہوگیا۔‘‘ قاسم نے روتے ہوئے کہا
’’قاسم! تم نے ناحق اﷲ کے بندوں کو قتل کیا۔ صرف اپنے مفاد کے لیے کنواں پر قبضہ کیا۔ اس لیے اﷲتعالی نے تمھیں سز ا دی ہے۔ اب تم حجاز قبیلے کے پاس جاؤ اور ان سے اپنے کیے کی معافی طلب کرو۔ انہوں نے معاف کردیا ’’سمجھو‘‘ تمھیں خدا نے معاف کردیا۔اﷲتعالی بہت غفورورحیم ہے۔ وہ اپنے بندے کو کبھی تکلیف میں دیکھ سکتا ہے۔‘‘ بزرگ نے تحمل مزاجی سے جواباً کہا
قاسم صبح سویرے ہی قبیلہ حجاز کے پاس پہنچ گیا۔ ان سے اپنے کئے کی معافی طلب کی اور کنواں کے پانی کا استعمال کرنے کے لیے کہہ دیا۔
’’معاف ہم اُسی صورت میں کریں گے۔جب کنواں کا پانی پہلے تم پی کردکھاؤ گے۔‘‘حجاز نے شرط رکھتے ہوئے کہا
’’آؤ چلو! کنواں کے پاس چلتے ہیں۔‘‘قاسم نے خوشی سے کہا
قاسم نے جب کنواں کا پانی پیا تو وہ ایک دم صاف و شفاف اور میٹھا تھا۔ اُس نے دوسرا پیالہ حجاز کی طرف بڑھا دیا۔
قاسم نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ یا خدا تیرا لاکھ لاکھ دفعہ شکر ہے جو کنویں کے زہریلا پانی کو میٹھا کردیا۔میں تیرا بے حد شکر گزار ہوں۔
’’رومان بیٹی! یہ کہانی بھی ختم ہوگئی۔اب تمھاری باری ہے۔‘‘ دادی امی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’دادی امی! ہمیں غرورکبھی نہیں کرنا چاہیے۔ اﷲتعالی کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔اپنی نیت کو صاف رکھنا چاہیے۔کیونکہ اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہوتا ہے۔‘‘ رومان نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا
’’شاباش!!! ‘‘دادی امی نے داد دیتے ہوئے کہا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top