skip to Main Content

نواب صاحب کا قالین

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔

نواب احمد کمال بڑی جابر طبیعت کے مالک تھے۔کوئی بات بھی اپنی مرضی کے خلاف برداشت نہیں کر سکتے تھے۔کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ ان کے حکم کو ٹال سکے۔امیرووزیر،سوداگر،بڑے آدمی۔۔۔سب کے سب ان سے ہر وقت خوف زدہ رہتے تھے کیوں کہ ان کی طبیعت بدلتے دیر نہیں لگتی تھی۔ویسے خوش بیٹھے ہیں مگر جیسے ہی ان کی طبیعت میں کچھ فرق پڑا سارا نظام ہی تہس نہس ہو گیا۔نواب صاحب کو عمدہ اور خوب صورت قالینوں سے بڑی محبت تھی۔دور دور سے قالین منگواتے تھے اور انہیں نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ کسی قالین پر کوئی داغ پڑ جاتا تو وہ بے چین ہو جاتے اور جب تک نیا قالین اس قالین کی بجائے نہ بچھ جاتا انہیں لمحہ بھر کے لیے بھی سکون میسر نہ ہوتا۔یہی وجہ تھی کہ سب درباری اور خدام قالینوں پر قدم بھی نہیں رکھتے تھے اور اگر رکھتے تھے تو انتہائی احتیاط کے ساتھ۔
ایک دفعہ ان کے ہاں بخارا سے قالین آیا۔نہایت شان دار اور رنگین۔اتنا خوب صورت کہ انسان اسے دیکھتا ہی رہ جائے۔۔۔یہ قالین انہوں نے اپنے خاص کمرے میں بچھا دیااور نوکروں کو حکم دے دیا کہ خبردار کوئی شخص ننگے پاﺅں کبھی ادھر نہ آئے۔بھلا کسی کو کیا پڑی تھی کہ قالین پر قدم رکھ کر اپنی جان خطرے میں ڈالتا۔مگر بدقسمتی کا کیا علاج۔ایک دن کی بات ہے کہ ایک نوکر جس کا نام شیرو تھا۔گھر کے دروازے پر بیٹھا دوات میں سیاہی گھول رہا تھا کہ اسے اپنے بچے کے رونے کی آواز آئی۔پریشانی کے عالم میں اُدھر پہنچا جدھر سے آواز آرہی تھی۔اس کا بچہ نواب صاحب کے خاص کمرے میں کھڑا تھا۔شیرو کو اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ اُسے قالین پر ہر گز قدم نہ رکھنا چاہیے خاص طور پر اس وقت کہ اس کے ہاتھ میں سیاہی سے بھری ہوئی دوات بھی ہے۔بچہ کمرے کے درمیان میں کھڑا تھا۔شیرو اس کے پاس پہنچا اور اسے گود میں اٹھانے لگا۔اچانک دوات چھلکی اور سیاہی کے چند قطرے قیمتی قالین پر گر پڑے۔بچہ بتانے لگا کہ اس کی گیند اس کمرے میں کہیں کھو گئی ہے لیکن اس وقت اسے گیند کا خیال کیوں کر آسکتا تھا،اسے تو اپنی زندگی خطرے میں نظر آرہی تھی۔اسے اور تو کچھ نہ سوجھا جھٹ جیب سے رومال نکالااور قالین کے داغ والے حصے کو چھپا دیا۔آنے کو تو وہ اپنے کمرے میں آگیا مگر خوف سے اس کا برا حال تھا۔ دیر تک سر جھکا ئے سوچتا رہا کہ اب کیا کرے اور کس طرح جان بچائے۔یہ تو ظاہر تھا کہ جیسے ہی نواب صاحب کو اس بات کا علم ہوتا ان کا برا حال ہو جاتا اور اس حالت میں نہ جانے کیا حکم دے دیتے۔مار ڈالنے کا حکم بھی دے دیتے توان سے کچھ امید نہیں تھی۔
آدمی کسی بات پر غور کرے تو کچھ نہ کچھ اسے سوجھ ہی جاتا ہے۔اسے بھی سوجھ گیا کہ شہر میں ایک ایسا ماہر شخص بھی رہتا ہے جو داغ دھبے صاف کرنے میں کمال رکھتا ہے۔کیوں نہ اس سے کھل کر بات کر لی جائے۔ضرور اس کے دل میں رحم آجائے گا اور اس کی جان بچ جائے گی۔یہ سوچ کر وہ اس آدمی کے پاس گیا۔
”جمیل آغا!“شیرو نے بڑی عاجزی سے اسے مخاطب کیا۔
”کیا بات ہے شیرو!پریشان کیوں نظر آتے ہو؟“
شیرو نے سارا قصہ بیان کردیا۔
جمیل آغا خاموش رہااور ابھی کچھ دیر اور خاموش رہتا کہ شیرو کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔یہ دیکھ کر جمیل آغا کہنے لگا:
”جانتا ہوں اس وقت تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے۔میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔“
شیروجمیل آغا سے وعدہ کے مطابق نواب صاحب کے خاص کمرے میں پہنچ گیا اور ابھی اس نے قالین کے داغ دار حصے سے رومال ہٹایا ہی تھا کہ اپنے سامنے وہ آگ برساتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بے اختیار کانپ اٹھا۔نواب صاحب شعلہ ناک نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”ہمارے قالین کو کس نے داغ دار کیا؟“نواب صاحب نے گرج کر کہا۔
جمیل آغا نے عرض کیا:
”حضور! یہ داغ بھی مٹ جائے گا۔اسی مقصد کے لیے ہی تو میں یہاں آیا ہوں۔“
”ہم پوچھتے ہیں یہ داغ ڈالا کس نے ہے؟“
جمیل آغا خاموش رہا۔
نواب صاحب نے بڑے غصے سے اپنی بات دہرائی۔اس پر جمیل آغا نے کہا:
”محترم آقا!میرا کام داغ دور کرنا ہے،داغ لگانے والے کا نام بتانا نہیں۔“
نواب صاحب کے سامنے اتنی گستاخی آج تک کسی نے نہیں کی تھی۔ان کی آنکھوں سے شرارے برس رہے تھے۔تیسری بار انہوں نے مجرم کا نام پوچھا مگر جمیل آغا نے وہی جواب دیا۔
نواب صاحب دوتین لمحے خاموش رہ کر گرجے:
اگر دوپہر تک تم نے مجرم کا نام نہ بتایا تو تمہیں داغ دار قالین میں لپیٹ کر آگ لگا دی جائے گی۔یہ ہمارا پہلا اور آخری حکم ہے۔
یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ بڑی بے صبری سے نتیجے کا انتظار کرنے لگے۔
بہتوں کا خیال تھا کہ جمیل آغا ضروراصل حقیقت بتا دے گا لیکن اس کا ارادہ ذرا بھی ڈانواں ڈول نہ ہوا۔اس نے جو کچھ کہاتھا،اس پر جم کر کھڑا تھا۔
جو خبر سارے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔وہ بھا شیرو کو کیوں نہ معلوم ہوتی۔اس نے یہ خبر سنی اور گھر سے نکل گیا۔
شہر میں صرف دو شخصوں کو اصل حقیقت کا علم تھا۔ایک تو شیرو تھا جو مجرم تھا اور دوسرا شخص تھا جمیل آغاجو شیرو کی خاطر اپنی جان قربان کر رہا تھا۔
نواب صاحب اکیلے بیٹھے تھے کہ شیرو وہاں پہنچ گیا اور اس نے سارا قصہ بیان کردیا ۔ابھی دوپہر ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔نواب صاحب نے ساری باتیں سن کر پوچھا:
”تمہیں کون سی چیز یہاں میرے پاس کھینچ لائی ہے؟“
شیرونے بلا تامل جواب دیا:
”حضور! مجرم میں ہوں ،وہ تو بے گناہ ہے۔“
”ہاں مجرم تم ہو۔“
”سزا مجھے ملنی چاہیے۔“
”درست کہا ہے تم نے۔۔۔یہیں ٹھہرو۔ہم ابھی آتے ہیں۔“
نواب صاحب کمرے سے نکل گئے۔دوپہر ہوئی تو محل کے سامنے ایک میدان میں قالین کو آگ لگادی گئی۔شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔جتنے لوگ وہاں کھڑے تھے،جمیل آغا کی تعریف کررہے تھے کہ اس نے کسی کی خاطر اپنی جان قربان کردی ہے۔
جب قالین جل چکا تو نواب صاحب محل کے بڑے دروازے سے باہر نکلے۔۔۔مگر یہ کیا ۔وہ اکیلے نہیں تھے۔ان کے ساتھ جمیل آغا بھی تھا اور شیرو بھی۔تو قالین خالی تھا؟
تماشائیوں کی نظریں حیرت میں ڈوب گئیں۔
نواب صاحب تماشائیوں کے سامنے آگئے اور جب ان کے ہونٹوں پر جنبش ہوئی تو آج پہلی مرتبہ ایک گرجتی ہوئی غضب ناک آواز کی بجائے ایک میٹھی آواز گونجنے لگی۔
”بھائیو!آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ قالینوں کے مقابلے میں انسانیت زیادہ قیمتی ہے کیوں کہ انسان اپنے وعدے پر قائم رہتا ہے اور دوسرے کے لیے اپنی جان تک قربان کردیتاہے۔یہ سبق مجھے ان دو شخصوں نے دیا ہے اور اس کے لیے میں ان کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔“
لوگوں نے نواب صاحب کو پہلی مرتبہ ایک سچے انسان کے روپ میں دیکھا اور خوشی سے ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top