skip to Main Content

نانی اماں کے چٹکلے

اعظم طارق کوہستانی

 ………………
نانی اماں کی سادگی نے بہت سارے چٹکلوں کو جنم دیا۔۔۔ایک مسکراتی تحریر

………………

ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ ہم اس موضوع پر کچھ بھی ضبط تحریر میں لائیں گے، مگر نانی جان کا اصرار رہا تو ہم نے بھی قلم اُٹھا لیا۔ ہم خالہ جان کو نانی اماں کے ہاں چھوڑنے گئے تو وہیں باتوں باتوں میں نانی اماں کی بھی نانی اماں کا تذکرہ چھڑ گیا۔ ان کا تذکرہ کیا تھا گویا ہنسی کی پٹاری تھی۔ ہنس ہنس کر ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ یااﷲ اتنی سادگی۔۔۔ یہ واقعات کیا تھے؟ ہم آپ کو ان سے محروم نہیں رکھیں گے۔۔۔ چلیے ان واقعات کو نانی اماں کی زبانی سنتے ہیں:

ہماری نانی اماں کراچی آئیں تو پورے محلے میں ہمارا واحد ایسا گھر تھا جس میں ٹی وی موجود تھا۔ اس وقت پورے پاکستان میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔ نانی اماں گاؤں کی سادہ سی عورت، اس ڈبہ نما کھلونے میں چلتی پھرتی تصویروں کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔
روز مغرب کے بعد ڈراما شروع ہوتا اور عشاء سے کچھ دیر پہلے ختم ہوتا۔ ڈرامے کے اختتام پر (راقم الحروف کے ) نانا مسجد نماز کے لیے چلے جاتے تھے اور اس دوران خبرنامہ شروع ہوجاتا تھا۔ اب نانی محترمہ بیٹھی ہوئی ہیں، میری چھوٹی بیٹی زبیدہ دونوں ہاتھ ٹھوڑی پر رکھے ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہے۔ خبر نامہ شروع ہوا۔ جیسے ہی خبر پڑھنے والے نے سلام کیا، نانی اماں کا پارہ ہائی ہو گیا: ’’اوبادام زریں! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں، یہ سلام کررہا ہے ہماری زبیدہ بیٹی کو۔۔۔ جب بھی شیر احمد نماز پڑھنے جاتا ہے یہ کہیں سے آجاتا ہے۔ اﷲ اﷲ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ اے زبیدہ۔۔۔ بے شرم کہیں کی، کیسے ٹکرٹکر دیکھتی ہے اسے، جلدی آجا میرے پیچھے، چھپ جا ، شیر کو پتا لگا تو تمھاری خیر نہیں۔۔۔‘‘ دس سالہ زبیدہ حیران و پریشان نانی اماں کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔ اے بادام زریں! تم اسے بھی بھیج دو۔‘‘ میں یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اگر نانی اماں کی ناراضی کا خطرہ نہ ہوتا تو ہنس ہنس کر میرا بُرا حال ہوجانا تھا۔ خیر میں نے ٹی وی بند کردیا۔ شیر احمد (میرے شوہر) آئے تو اُنھوں نے کہا: ’’یہ ٹی وی کیوں بند کیا ہے؟ خبر نامہ چلاؤ نا!‘‘
میں نے اُنھیں بتایا تو وہ ہنسنے لگے۔ نانی اماں مجھے پیچھے سے اشارے کرکے خاموش رہنے کا کہہ رہی تھیں۔ اچانک شیر محمد ان کی جانب پلٹے اور کہا: ’’کیا ہوا نانی اماں؟‘‘
نانی اماں نے گھبرا کر کہا: ’’کچھ نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ زبیدہ سوگئی ہے۔ یہاں کوئی نہیں آیا تھا۔‘‘
’’ارے میری بھولی بھالی اماں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ تو تصویریں ہیں۔‘‘
’’اے ہے کاہے کی تصویریں، میرا البم صندوق میں پڑا ہے۔ اس میں تو کوئی بات نہیں کرتا۔ کراچی آکر نجانے تمھاری غیرت کہاں چلی گئی۔‘‘
شیر محمد کیا جواب دیتا۔۔۔ مسکرا کر خاموش ہوگیا۔
نانی اماں نے میرے داماد کو کوئٹہ خط بھیجنے کا کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں گرمی زیادہ ہے اس لیے وہ کوئٹہ جانا چاہتی ہیں۔ جہانزیب جب گھر آیا تو نانی اماں نے پوچھا۔ 
’’تم نے خط بھیج دیا۔‘‘
’’جی نانی اماں۔‘‘
’’تم زور سے پھینکتے نا، تاکہ جلدی پہنچ جاتا۔ یہاں گرمی بہت زیادہ ہے اور ان کا گھر بھی پہاڑ کی چوٹی پر ہے، تم کسی چیز پر کھڑے ہو کر پھینکتے۔‘‘
جہانزیب پہلے تو پریشان ہوا کہ نانی اماں کیا کہہ رہی ہیں۔ جب گھر والوں نے اشاروں کنایوں سے سمجھایا تو کہنے لگا: ’’ ہاں نانی اماں بے فکر رہیں ، میں نے اتنی زور سے پھینکا ہے کہ وہ سیدھا ان کے صحن میں جا گرا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے۔‘‘ اور نانی اماں جواب میں دعائیں دینا شروع ہوگئیں۔
ایک مرتبہ ٹی وی پر پروگرام چل رہا تھا جو فرسٹ ایڈ باکس کے حوالے سے تربیتی پروگرام تھا۔ نانی اماں نے شیر محمد سے پوچھا۔ 
’’ شیرو! یہ اتنے سارے لوگ کیا کر رہے ہیں۔‘‘
’’یہ ڈاکٹر ہیں اور آپریشن کررہے ہیں۔‘‘
’’ کیا ۔۔۔ تم ان سے کہو نا کہ وہ میری بائیں ٹانگ کا آپریشن کریں، اس میں بہت درد رہتا ہے۔ ان سے یہ بھی کہو کہ میں بہت غریب ہوں فیس نہیں دے سکتی۔‘‘
شیر محمد کے چہرے پر تبسم چھا گیا اور کہا: ’’جی اماں بے فکر رہیں، میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ اور ٹی وی کی جانب منھ کرکے منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑائے تو نانی اماں کو ڈھارس ہوئی۔
’’بے فکر رہیں نانی اماں یہ لوگ کل آجائیں گے۔‘‘ شیر محمد جانتا تھا کہ کل تک نانی اماں بھول بھی جائیں گی۔
شیر محمد کا کوئٹہ جانے کا ارادہ تھا، نانی اماں نے بھی جانے کی ضد کی۔ شیر محمد کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ نانی اماں کو بھی ساتھ لے جاپاتا۔ نانی اماں نے کہا تم مجھے بھی لے جاؤ نا، میرے پاس صرف ایک روپیہ ہے۔‘‘ یہ کہہ کر نانی اماں نے سو روپے کا نوٹ نکالا ۔اس زمانے میں سو روپے بہت زیادہ ہوتے تھے۔
شیر محمد نے اس سے ٹکٹ وغیرہ لیا اور ۹۰روپے واپس نانی اماں کو دیے۔ اتنے سارے پیسے دیکھ کر نانی اماں پریشان ہوگئیں ۔
’’ یہ کیا ہے شیر؟‘‘
اب نانی اماں کو سمجھانا بھی اونٹ کو رکشے میں بٹھانے کے برابر تھا۔ ’’ وہ میں نے پیسے توڑے تو بقایا جو بچے وہ آپ کو دے دیے۔‘‘
’’ پیسے تم نے کیسے توڑے؟‘‘ نانی اماں کی حیرت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ پتھر سے توڑے میں نے۔‘‘ ۔۔۔ شیر محمد نے بھی ایسا جواب دیا جو ٹھک کرکے نانی جان کے دماغ میں بیٹھ گیا۔
گاؤں میں نانی اماں اور ان کے بھائی لکڑیاں کاٹ کر لاتے تھے اور بیچا کرتے تھے۔ نانی اماں ہمیشہ بہت زیادہ لکڑیاں لے کر آیا کرتی تھیں۔ جب کہ نانی اماں کے بھائی ذرا صحت میں کمزورتھے اس لیے وہ اتنی نہیں لا پاتے تھے۔ اب جب بیچنے کی باری ہوتی تو خریدنے والے نانی اماں کو بارہ آنے اور ان کے بھائی کو آٹھ آنے دیا کرتے تھے۔ اس بات پر بھی نانی اماں کا پارہ چڑھ جاتا اور غضب ناک ہوجایا کرتیں۔ ’’تم لوگ مجھے بارہ آنے کیوں دیتے ہو اور میرے بھائی کو آٹھ آنے دیتے ہو،مجھے بھی آٹھ آنے چاہییں۔ ‘‘ وہ نانی اماں کو سمجھاتے کہ بارہ آنے زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر نانی اماں جب ضد پر اَڑ جاتیں تو مجبوراً وہ نانی اماں کو آٹھ آنے اور ان کے بھائی کو بارہ آنے دیا کرتے تھے۔
مرتے وقت بھی نانی اماں کی سادگی میں کوئی کمی نہ آئی، وہ اسی طرح سادہ ہی رہیں۔
ایک دفعہ کہنے لگیں: ’’اگر میں مر گئی تو مجھے کسی کوہستانی کی قبر کے پاس دفنانا۔۔۔ کسی پنجابی کے ساتھ مت دفنانا۔‘‘ وجہ پوچھی تو کہنے لگیں: ’’ مجھے پنجابی نہیں آتی، اگر وہ مجھ سے خیر و عافیت پوچھ بیٹھے تو میں کیا کہوں گی، اس لیے کوہستانیوں کے درمیان دفنانا تاکہ اپنی زبان میں گپ شپ تو لگائی جاسکے۔ ‘‘ 
نانی اماں صوم و صلوٰۃ کی بھی پابند تھیں، نماز کے بعد تسبیح پڑھا کرتی تھیں۔
ایک دن پوچھا کہ نانی اماں آپ تسبیح میں کیا پڑھتی ہیں؟
نانی اماں پہلے تو بتانے پر رضا مند نہیں تھیں۔ بالآخر بہت اصرار پر رازدارانہ انداز میں کہنے لگیں: ’’ میں پڑھتی ہوں کہ اﷲ کرے اختر آجائے، اﷲ کرے اختر آجائے۔‘‘
’’ ہیں۔‘‘ سب کے منھ سے نکلا۔ ’’مگر نانی یہ کیوں؟‘‘
’’وہ آتا نہیں ہے نا، کب سے اس کی صورت دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔‘‘ پھر سب نانی کو سمجھانے کی کوشش کرتے۔ 
نانی اماں اگرچہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی یادیں ہمارے چہروں پر شگفتگی کے پھول کھلا دیتی ہیں۔ اﷲ رب العزت اُنھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے (آمین)۔

*۔۔۔*

نئے الفاظ:
پٹاری: سامان
ہکا بکارہ جانا: گھبرا جانا
راقم الحروف: لکھنے والا
فرسٹ ایڈ باکس: فوری امداد کا سامان
تبسم: مسکراہٹ
ڈھارس: تسلی، اطمینان

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top