skip to Main Content
میں کہانی کیسے لکھوں؟

میں کہانی کیسے لکھوں؟

میر شاہد حسین

……

’’میں ایک کہانی لکھنا چاہتا ہوں۔کیا آپ میری کچھ مدد کرسکتے ہیں؟‘‘یہ وہ سوال تھا جس نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کر دیا۔ 
’’ جی ضرور کیوں نہیں۔۔۔‘‘ میں نے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا جہاں اشتیاق اور امید کے کچھ گہرے بادل دکھائی دے رہے تھے۔
’’ تو مجھے سب سے پہلے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ اس نے مجھ سے جلدی جلدی پوچھا۔
میں خود کوئی بہت بڑا ادیب تو نہیں بس کسی زمانے میں لکھنے لکھانے اور پڑھنے کا کچھ شوق ضرور جنون کی حد تک رہا ہے۔ بچپن میں کچھ ایسے ہی جذبات مجھ پر بھی گزرے تھے اور میں اس کے احساسات کو بخوبی سمجھ سکتا تھا۔ 
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ معاشرہ میں جب کوئی لکھنے کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی مناسب رہنمائی اور قدر افزائی کرنے والا نہ ہونے کے باعث یہ ادیب پیدا ہونے سے قبل ہی دَم توڑ جاتے ہیں ۔ جن کی کچھ رہنمائی یا قدر افزائی ہوجاتی ہے وہ کچھ دیر اس ریگستان میں چلتے ہیں لیکن پھر پانی کے سیراب میں صحرا میں بھٹک جاتے ہیں۔ میں بھی انہی بھٹکے ہوئے راہوں میں سے ایک ہوں اور نہیں چاہتا کہ ناامیدی پھیلا کر آپ کو اس راستے پر چلنے سے روک دوں۔ اسی لیے ایک طویل مدت بعد قلم اٹھایا ہے اور اسی عزم اور امید کے ساتھ کہ جتنا میں جانتا ہوں کم از کم اتنا توآپ کو اس تحریر کے ذریعے دے دوں کہ اگر آپ صحرا میں نکلیں تو آپ کو قافلہ مل سکے ۔ پھر قافلہ مل گیا تو رہنما بھی بہت ملیں گے اور منزل بھی (ان شاء اﷲ )
یہاں تک جو میں نے تحریر کیا ہے یہ میری تحریر کا ابتدائیہ تھا۔اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے اور اس کا تعلق آپ کے ذہن کے ساتھ ہے۔ جب آپ کے ذہن میں خیالات پرورش پاتے ہیں تو کہانی تخلیق پاتی ہے۔ تخلیق کی پرواز کو آج علم کی دنیا میں سب علوم میں افضیلت کا درجہ حاصل ہو گیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایسی چیز کو تخلیق کرتے ہیں جس کا اس سے پہلے دنیا میں وجود نہیں تھا۔ اس سوچ کے نتیجہ میں ہی دنیا میں کئی اہم ایجادات ہوئیں۔ کسی نے سوچا تو ہی اس کو بنانے کا خیال آیا۔ سوچ اور خیال کا کہانی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ جسے آگے چل کر میں مزید واضح کرتا رہوں گا۔
سوچ اور خیالات کا انداز

دنیا کے تمام لوگ ایک طرح سے نہیں سوچتے ۔ ہر ایک کا سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ جو اکثر بعد میں ہمارے اختلافات کی وجہ بھی بنتے ہیں۔میں اپنی بات کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاؤں گا جس سے آپ کو میری بات باآسانی سمجھ میں آجائے گی۔
مثال نمبر۱
 ایک کیلے کا چھلکا کسی سڑک کے کنارے گرا ہوا تھا۔ ایک شخص بے دھیانی میں گزرا تو وہ اس چھلکے سے پھسل کر سڑک پر گر پڑا۔ اب اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں سے ایک نے دیکھا تو افسوس سے سوچا ’’اُف۔۔۔ بے چارے مسافر کو چوٹ لگ گئی۔‘‘
دوسرے نے دیکھا تو سوچ کر ہنسا۔ ’’ہاہاہاہا۔۔۔ کیسا گرا ہے۔‘‘ 
تیسرے نے دیکھا تو اس نے غصہ سے سوچا: ’’یہ کس احمق نے چھلکا سڑک پر پھینکا ہے؟‘‘
چوتھے نے دیکھا تو سوچا: ’’ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی اور اس چھلکے سے گر جائے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ آگے بڑھا اور اس نے چھلکا بھی ایک طرف کیا اور اس گرے ہوئے کو بھی اٹھایا۔  
ہو سکتا ہے کہ بیک وقت کئی قسم کی سوچیں ایک ساتھ آپ کے ذہن میں آجائیں لیکن میں نے جان بوجھ کر اس کو الگ الگ کیا ہے تاکہ سمجھا سکوں کہ سوچنے کے کئی زاویئے ہو سکتے ہیں۔اب آپ نے مزید زاوئیے سوچ کر تحریر کرنا ہیں۔
میں کہانی کیوں لکھوں؟
جب آپ کہتے ہیں کہ میں کہانی کیسے لکھوں؟ تو میرا آپ سے سوال یہ ہوگا کہ میں کہانی کیوں لکھوں؟ جی ہاں۔۔۔! سوال کے جواب میں سوال ہی ہے۔ جس طرح ایک سوال کئی سوالات کو جنم لیتے ہیں اسی طرح یہ سوال بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ جیسے جیسے ہم ان سوالوں کے جوابات کو پاتے جائیں گے ہماری راہ گزر واضح ہوتی جائے گی۔ اس سوال کا جواب آپ نے خود سوچ کر تحریر کرنا ہے۔
کہانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ایک انسان اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے تو وہ اپنی زبان کا استعمال کرتا ہے۔آپ کیا سوچتے ہیں؟ جب تک بولیں گے نہیں تو پتا کیسے چلے گا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے خیال میں اتنی طاقت ہوکہ میرے خیال کو بدل سکے اور میں بھی آپ کا ہم خیال بن جاؤں۔
قلم اور زبان
قلم کی ایجاد نے زبان کے استعمال کو کم کردیا۔ زبان سے نکلی ہوئی بات کو سننے والا کچھ اور بھی سمجھ سکتا ہے لیکن قلم کا لکھا ہوا دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے۔ میں یہاں قلم اور زبان کے استعمال پر زیادہ بات نہیں کروں گا کیونکہ اس پر آپ خود تحریر کریں گے۔ میں یہاں صرف کچھ اشارے دے رہا ہوں۔ جو کہانی سنائی جاتی تھی وہ صرف وہی لوگ سن پاتے تھے جو موجود ہوتے تھے۔ اس طرح بہت کم لوگ سن پاتے تھے۔ لیکن قلم سے لکھی گئی تحریر محفوظ ہو کر دنیا کے کونے کونے میں نہ صرف اس زبان کے سمجھنے والوں کے لیے بلکہ ترجمہ ہو کر دیگر کی بھی دسترس میں آگئی۔
نثر نگاری 
اب آپ نے لکھنے کا سوچ ہی لیا ہے تو یہ بھی جان لیں کہ بات کہنے کے کئی طریقہ رائج ہیں۔ جن میں سے دو نثر نگاری اور شاعری ہیں ۔ ان میں کیا فرق ہے؟ آپ اپنی سوچ کو شاعری کی شکل بھی دے سکتے ہیں اور نثر نگاری کی شکل بھی دے سکتے ہیں۔ شاعری اور نثر نگاری میں فرق میرے نزدیک یہ ہے کہ شاعری وہ شکل ہے جس میں لکھنے والا شاعر سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتا ہو اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر اسے نثر نگاری کرنا چاہیے جس کی کئی اصناف(شکلیں) ایجاد ہوچکی ہیں۔ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
اقبالؔ نے جس خیال کو ایک شعر میں لکھا ہے اس کو سمجھانے کے لیے آپ کو نثر نگاری میں کئی جملے تحریر کرنا پڑیں گے۔ دوسرے لفظوں میں نثرنگاری خیال کی وضاحت کا نام بھی ہے۔
آج کل قلمکار شاعری میں نثر نگاری اور نثر نگاری میں شاعری کرنے لگے ہیں ۔ میں اس کی مخالفت کرنے کے بجاے اسے ’’جدت طرازی‘‘ کا نام دوں گا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز ارتقاء کا شکار ہے۔جمود کسی بھی شکل میں جس شعبہ میں ہوگا اسے خود بخود ختم کردے گا۔ انسان کسی بھی حال میں ایک ہی شکل میں رہنا پسند نہیں کرتا۔یہی چیز اسے نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ 
نثر نگاری کی اصناف(اشکال)
نثر نگاری میں جو اصناف بہت عام ہیں، ان میں داستان، ناول، ڈرامہ اور افسانہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اصناف معرضِ وجود میں آچکی ہوں گی لیکن میرے علم میں فی الحال اتنی ہی ہیں اور اگر ہیں بھی تو ان چار ہی میں سے کسی ایک کی بہن یا بھائی ہوسکتے ہیں۔داستان کو میں سب سے قدیم صنف میں شمار کرتا ہوں کیونکہ جب قلم بھی وجود میں نہیں آیا تھا تو لوگ ایسی ایسی داستان گوئی کرتے تھے کہ سننے والے دنیا و مافیا سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ پھر جب قلم کا زمانہ آیا تو ان داستانوں کو زبان سے قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کیا جانے لگا۔ داستان سنانے والے کا انداز عموماً آپ بیتی کا ہوتا تھاجو اپنے اوپر گزرے ہوئے واقعات کو اس انداز میں بیان کرتا کہ سننے والا سنتا ہی چلا جاتا۔اس سے قبل کہ بات آگے چلے ہمیںیہاں آپ بیتی اور جگ بیتی کے فرق کو سمجھ لینا ہوگا۔
آپ بیتی اور جگ بیتی کا فرق
’’ آپ بیتی‘‘ اسے کہتے ہیں جو اپنے اوپر بیتے گئے انداز میں بیان کی جائے اور ’’جگ بیتی‘‘ اسے کہتے ہیں جو کسی پر گزرے گئے انداز میں بیان کی جائے۔اس میں بھی اکثر لکھنے والے گڈمڈ کرتے ہیں۔ جگ بیتی لکھتے لکھتے آپ بیتی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور کبھی آپ بیتی سے جگ بیتی کا انداز اختیار کرتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے مثال نمبر ۲ کو بغور پڑھیں۔
مثال نمبر:۱ 
جگ بیتی:
علی ایک اچھا طالب علم تھا۔ تمام اساتذہ اس پر فخر کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے کیونکہ علی نہ صرف اساتذہ کا احترام کرتا تھا بلکہ ان کی باتوں پر سختی سے عمل پیرا بھی ہوتا تھا۔ایک دن اس کی کلاس میں ایک لڑکا داخل ہوا جس کا نام اسلم تھا۔ 
’’کیا آپ مجھ سے دوستی کرنا پسند کریں گے؟‘‘ اسلم نے کہا۔
’’ جی کیوں نہیں؟۔۔۔ میرا نام علی ہے۔‘‘ علی نے خوش دلی سے اپنا تعارف کرایا اور اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے اس کی طرف بڑھا دیا۔
آپ بیتی:۲
میں ایک اچھا طالب علم تھا۔ تمام اساتذہ مجھ پر فخر کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے کیونکہ میں نہ صرف اساتذہ کا احترام کرتا تھا بلکہ ان کی باتوں پر سختی سے عمل پیرا بھی ہوتا تھا۔ایک دن میری کلاس میں ایک لڑکا داخل ہوا جس کا نام اسلم تھا۔ 
’’کیا آپ مجھ سے دوستی کرنا پسند کریں گے؟‘‘ اس نے کہا۔
’’ جی کیوں نہیں؟۔۔۔ میرا نام علی ہے۔‘‘ میں نے خوش دلی سے اپنا تعارف کرایا اور اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے اس کی طرف بڑھا دیا۔# 
آپ اس مثال کو دیکھ کر ایسے ہی دو پیراے تحریر کریں جن میں آپ بیتی اور جگ بیتی الگ الگ ہو۔
اصناف کی تعریف یا اِن میں فرق
داستان نے جب ترقی کی تو اسے ناول ،ڈرامہ اور افسانہ کی شکل ملنے لگی۔میری کم نظری میں آج ادب میں کسی بھی صنف کی ٹھیک ٹھیک تعریف کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے نہیں کہ یہ تعریف کے قابل نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ ان اصناف میں بے شمار تبدیلیاں اور جدت طرازیاں واقع ہوچکی ہیں۔میں یہاں صرف عموماً کا ذکر کروں گااس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ دو جمع دو کا کوئی فارمولہ ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک اور تین بھی چار ہوتے ہیں ۔ دو اور دو بھی چار ہوتے ہیں۔ اس لیے ہماری نظر مقصد پر رہنی چاہیے نہ کہ دو اور دو یا ایک اور تین پر۔ 
لغت کے اعتبار سے افسانہ جھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعہ یا کسی ایک پہلو کی خلاقانہ اور فنی پیش کش ہے جو عموماً کہانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ایسی تحریر جس میں اختصار(مختصر) اور ایجاز بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔وحدت کا تاثر اس کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ناول زندگی کا کل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔جبکہ افسانہ اور ناول میں طوالت کا فرق بھی ہے۔تعریف تو ہم نے کردی ہے لیکن میرے خیال میں آپ کو یہ تعریف کچھ پلے نہیں پڑے گی جب تک کہ آپ خود اس کا عملی مشاہدہ نہ کرلیں۔جو میں آگے چل کر تفصیل سے بیان کروں گا۔

………

مرکزی خیال (Central Point)
ہر سوچ اور خیال کا ایک مرکز ہوتا ہے جس کے گرد ہماری سوچ گردش کرتی ہے۔ جسے ہم مقصد کا نام دے سکتے ہیں۔ میرا مقصد ایک کہانی لکھنا ہے ۔ اب میری سوچ اور خیال اسی کہانی کے گرد گھومیں گے۔ میں معاشرہ میں موجود غربت کی منظر کشی کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے ایک کہانی تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے میں ایک حقیقی یا غیر حقیقی کردار پر کہانی تحریر کرنے سے متعلق سوچوں گا۔ جو لامحالہ مجھے کہانی کے مرکزی خیال کی طرف لے جائے گی۔ جس کے گرد میری کہانی چکر کھائے گی۔ 
مرکزی خیال کو آپ انگریزی کی اصطلاح ’’روڈمیپ‘‘ (Road Map) سے باآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ایک ایسا نقشہ ذہن میں بنائیں جو ابھی قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل نہیں ہوا۔ اسی نقشے کے مطابق آپ اپنے گھر(کہانی) کی تعمیر کریں گے۔ نقشے میں آپ نے کتنے کمرے، کتنے کچن اور کتنے بیڈ روم وغیرہ رکھے ہیں اور کتنا رقبہ رکھا ہے۔ طے کرلیا ہے تو آپ تعمیر کا آغاز کرسکتے ہیں۔ بغیر نقشہ (مرکزی خیال) کے اگر آپ کہانی تحریر کرنا چاہیں گے تو آپ کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی نسبت اگر نقشہ اچھا تیار کیا گیا ہے تو عمارت بھی باآسانی آپ کی مرضی کے مطابق کھڑی ہوگی۔ وگرنہ عین ممکن ہے کہ آپ لکھنے بیٹھے تھے۔ غربت پر کہانی لیکن لکھ دی ڈاکوؤں کی داستان۔ 
کہانی کے لوازمات:
جس طرح ایک کھانا بغیر مصالحہ جات کے بدمزہ لگتا ہے۔ اسی طرح ایک کہانی بھی کچھ بنیادی لوازمات کے بغیر بدمزہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ میں لکھنے کی طرف متوجہ ہوں۔ ان لوازمات یا مصالحہ جات کو سمجھ لیں۔ ان لوازمات میں مزاح، سسپنس، حیرت، افسردگی، خوشی، بھیانک ، خوف ، محبت ، نفرت وغیرہ کا استعمال عام ہے۔ان لوازمات کا تعلق دیکھا جائے تو ہمارے تاثرات یا جذبات (Emotions)سے ہے۔ بہترین تاثرات و جذبات کا استعمال ہی کہانی کو کہانی بناتا ہے۔ کہاں کس جذبے کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس کا کوئی فارمولا نہیں بنایا جا سکتا۔ اسے ہم صرف مشق اور مشاہدے کے ذریعے ہی بہتر کرسکتے ہیں۔
مشاہدہ(Observations)
اچھا مشاہدہ ہی ہمیں ادیب بناتا ہے۔ ایک واقعہ کو کئی لوگ دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن ایک ادیب عام واقعے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ وہ اپنے سوچ کے زاویے کو استعمال کرکے اس پر ایسی تحریر رقم کرتا ہے کہ دنیا اس واقعے پر رک کر سو چنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے۔ پچھلی تحریر میں مثال نمبر۱ میں ایک شخص گرا تھا۔ لاکھوں لوگ ہر روز کئی بار گرتے ہیں لیکن ادیب اسی ایک عام واقعہ پر لکھ کر لوگوں کو بے حسی سے بیدار کرتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ادیب کسی معاشرہ کا بیدار شخص ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کا مشاہدہ اور سوچ ہی معاشرہ کی شکل بناتا یا بگاڑتا ہے۔ جی ہاں! اسی قلم سے آپ معاشرہ کو بگاڑ کی طرف بھی راغب کرسکتے ہیں۔ اس پر آگے چل کر تفصیل سے بات کروں گا۔ 
مشاہدہ کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں۔ آپ ہر روز کئی مشاہدات سے گزرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی ایک مشاہدے کو تحریر کریں۔ یہاں میں نئے لکھنے والوں کو کہوں گا کہ وہ ہر اچھے یا برے مشاہدہ پر تحریر لکھنے کے بجاے اس پر تحریر کرنے کی کوشش کریں جس سے وہ خود متاثر (Enspire)ہوئے ہوں یا جس پر سوچ کر ان کا دل خود انہیں لکھنے پر آمادہ کرے۔ قلم کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہم اکثر لکھنے والے سوچ کر کوئی کہانی لکھتے ہیں لیکن دل یا طبیعت ساتھ نہیں دیتی اور کہانی ادھوری رہ جاتی ہے۔ اسی لیے میں دل اور طبیعت کے میلان کا قائل ہوں۔ جب تک تحریر دل سے نہیں لکھی جائے گی اثر بھی نہیں کرے گی۔ اس کے لیے کسی وسیع مشاہدہ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ 
بقول فیض احمد فیضؔ 
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اب یہاں فیضؔ کا ذکر ہوا ہے تو میرؔ کا نہ ہو تو ہماری روح کو بھی چین نہیں آئے گا۔ تو بقول میرؔ 
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کہا
ان شاعروں کی تو اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے لیکن ادیب بھی ان ہی کے بھائی ،بہن ٹھہرے ہیں۔ یہ بھی معاشرے کے ستائے ہوئے حساس لوگ ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو وہ بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ حساسیت ہی ایک ادیب کو لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے اور معاشرہ کو ایک اچھی تحریر مل جاتی ہے۔ جس طرح شہد کی مکھیاں باغوں کے پھولوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں اور اس کو انسان مزے لے لے کر استعمال کرتا ہے۔ 
میرا مقصد قطعاً یہاں پر یہ نہیں کہ آپ بھی درد وغم جمع کرنا شروع کردیں اور حساس بن جائیں یا دل کے مریض بن جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ جسے محسوس کریں۔ صرف اسی کو تحریر کرنے کی کوشش کریں۔ جسے محسوس نہیں کیا اس پر قلم نہ چلائیں۔ اے سی میں بیٹھ کر گرمی پر تحریر نہ کریں۔ جس نے بس کا سفر نہیں کیا۔ وہ بس کے سفر پر تحریر نہ کرے۔یہ صرف میرا اپنا خیال ہے۔ جس سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں۔
کردار(character)
کافی مشاہدہ کر لیا۔ اس لیے اب آتے ہیں کچھ کردار کی تخلیق کی طرف۔ آپ چاہے ڈراما لکھیں، چاہے ناول یا کوئی افسانہ۔ ان میں کچھ کرداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کردار خیالی بھی ہوسکتے ہیں اور حقیقی بھی۔ اس کے لیے کوئی قید نہیں۔ لیکن یہ بات کسی ادیب کے لیے مناسب نہیں کہ وہ حقیقی کردار کو انہی ناموں سے تحریر کرے کیونکہ اس سے کسی کی دل آزاری ہوسکتی ہے اور یہ اس شعبہ کے ساتھ بالکل انصاف نہیں۔ حقیقی کردار پر تحریر لکھتے وقت کرداروں کے نام ضرور تبدیل کردینے چاہیے۔ کردار تخلیق کرتے وقت مشاہدہ بہت کام کرتا ہے۔ ڈرامے کے ابتداء میں کرداروں کے نام تحریر کیے جاتے ہیں۔
مثال نمبر۳
اسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لڑکا (ہیرو)
چوہدری عظمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکے( ہیرو)کا والد
رحمو بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غریب کسان
عدیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسان کا بیٹا
متفرق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چوہدری عظمت کے ملازمین،گاؤں کے لوگ، ڈاکیہ وغیرہ وغیرہ۔(ان کے نام ڈرامہ میں نہیں آئیں گے)
مندرجہ بالا مثال کو دیکھ کر آپ بھی ایک مرکزی خیال کے مطابق کچھ کردار تخلیق کریں۔ 
عنوان (Heading)
اب ہم کہانی لکھنے کے لیے قلم اٹھا چکے ہیں۔ کہانی کا عنوان بظاہر کسی اہمیت کا حامل دکھائی نہیں دیتا لیکن میرے نزدیک اس کو بہت اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ کسی زمانے میں ایسی تحریریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ جن کے عنوان سے ہی کہانی کا مقصد واضح ہوجاتا تھا۔ جیسے ’’برائی کا انجام‘‘، ’’اچھا بادشاہ‘‘، نیک لکڑہارا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر کچھ ترقی ہوئی تو اس کا عنوان کچھ ایسے ہو گئے۔ ’’ نیکی کر دریا میں ڈال‘‘، ’’ بلاعنوان‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ آج کل پڑھنے والے کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا یا پھر وہ پڑھنے کی طرف مائل نہیں ہوتا تو وہ صرف عنوان سے ہی اندازہ کر لیتا ہے کہ کہانی اس کے مطلب کی ہے کہ نہیں؟ ایک اچھی کہانی یا تحریر کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کی بات کو زیادہ لوگوں میں پڑھا جائے۔ اگر پڑھنے والا آپ کی تحریر کے عنوان کو پڑھ کر ہی آگے نکل گیا تو وہ آپ کی ایک ایسی تحریر سے محروم ہوجائے گا جو آپ نے بہت محنت سے تیار کی ہے۔ اس لیے جب بھی عنوان تجویز کریں۔ خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے میں یہاں اپنی کچھ تکنیک بیان کررہاہوں جس سے آپ کو کافی رہنمائی مل گی۔
مثال نمبر۴۔ کہانی کے دلچسپ عنوانات
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ (یہ میری اپنی تحریر کا عنوان تھا)،’’درد چپکے سے آئے گا‘‘، ’’ وہ کہاں گیا‘‘، ’’جزیرے کے قیدی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
کہانی کے عنوانات تحریر کرتے وقت دلچسپی اور تجسس کو ضرور پیش نظر رکھیں۔ اکثر ادیب کہانی کے عنوانات آغاز کے بجاے اختتام پر تحریر کرتے ہیں۔ اس میں کچھ غلط نہیں لیکن اگرعنوان جاندار اور اچھے ہواور اس میں کشش ہو۔
نقطہ آغاز (ابتدائیہ) (Starting Point)
کہانی کا آغاز بھی عنوان کی طرح ’’دلچسپی اور تجسس ‘‘ سے بھرپور ہونا چاہیے۔ چاہے کہانی کسی بھی موضوع پر تحریر کی جارہی ہو۔ ضروری نہیں کہ آپ تجسس والی تحریر میں ہی تجسس کا استعمال کرتے ہیں۔ تجسس انسانی فطرت کا وہ اہم پہلو ہے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ایک ادیب اچھی کہانی تحریر کرتا ہے۔ اس کی اہمیت آج کے دور میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جبکہ پڑھنے والا قاری پڑھنے کی طرف زیادہ راغب دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جلدی میں دکھائی دیتا ہے اور صفحات پلٹ کر ورق گردانی کرتے ہوئے اپنا وقت بچانا چاہتا ہے۔ اگر اسے آپ کی تحریر کے آغاز میں ہی کہانی کا کچھ سراغ مل گیا۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں تو وہ آگے بڑھ جائے گا۔ اس لیے آغاز میں ہی کہانی کی بقا اور فنا ہے۔ 
کہانی کے آغاز سے قبل آپ نے مرکزی خیال ، کردار اور انداز تحریر (آپ بیتی یا جگ بیتی) سوچ لیا ہوگا۔ اب جب آپ آغاز کریں گے تو ابتدا میں کرداروں کو متعارف بھی کرواسکتے ہیں اور کہانی کو بھی کھول سکتے ہیں ۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ ہم نے ہر قاری کو اپنی تحریر پڑھنے پر مجبور کرنا ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کہانی کے آغاز میں کردار کو بالکل متعارف نہ کروایا جائے اور نہ ہی کہانی کو کھلنے دیا جائے۔ میرے نزدیک کہانی کا آغاز نقطہ عروج (Turning Point)سے ہونا چاہیے۔ جس پر ہم اگلے باب میں بات کریں گے کہ نقطہ عروج کیا ہے؟ ابھی آغاز میں صرف اتنا سمجھ لیں کہ کہانی درمیان سے شروع کریں۔ 
مثال نمبر۵
’’ٹھہرو ۔۔۔ میں سوچتا ہوں۔‘‘ اسلم بولا۔
’’ نہیں۔۔۔!! میرے پاس وقت نہیں۔ ‘‘ وہ غصے سے کہہ رہا تھا۔
’’ ایسا نہ کہو، میں نے ہمیشہ تمہیں وقت پر پیسے دیئے ہیں۔ اس بار۔۔۔‘‘ اسلم یہ کہتے ہوئے اس کے قدموں میں گر گیا۔ لیکن وہ اپنی رعونت میں اسے ٹھوکر لگاتا ہوا باہر نکل گیا۔ ’’ کل مجھے یہ مکان خالی کردو بس۔۔۔!!‘‘
اس نقطہ آغاز میں تجسس ہے کہ اسلم کون ہے اور’’ وہ‘‘ کون؟’’ وہ‘‘ غصے میں کیوں ہے؟ اور اسلم کو کیا مجبوری ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات قاری کو جبھی مل سکیں گے۔ جب وہ آپ کی تحریر کو پڑھے گا۔ یہ کوئی تجسس بھری کہانی نہیں بلکہ ایک دکھ بھری داستان ہے۔ دکھ کو بارہ مصالحوں کی چاٹ میں نمک کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے آپ کسی کے زخموں پر نمک بھی چھڑک سکتے ہیں اور کسی کے زخم کو بھر بھی سکتے ہیں۔ یہ آپ کی تحریر پر منحصر ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشی کے لمحات کو بھول جاتا ہے لیکن دکھ کو اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اسی کبھی نہیں بھولتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی اس کے دکھ کا ذکر کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ ایسی تحریر لکھیں تو وہ سو فیصد کامیابی کی سرحد کو عبور کرے گی کیونکہ یہ دل کے راستے خاموشی سے روح میں سرایت کرجاتی ہے۔ یہ بھی میرا اپنا خیال ہے جس سے آپ سب اختلاف کرسکتے ہیں۔ 
نقطہ عروج(Peak Point)
آغاز تحریر کرنے کے بعد جب آپ آگے بڑھیں تواپنے کرداروں کو اور کہانی کو بھی کھولتے جائیں۔ اکثر ادیب کہانی کے اختتام تک کہانی کو مکمل نہیں کھولتے اور یہی ان کی کامیابی کی اصل وجہ ہوتی ہے۔نقطہ عرو ج دراصل آغاز کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن جیسا کہ ہم آپ سے کہہ چکے ہیں کہ ہم آغاز میں ہی عروج لا سکتے ہیں تاکہ قاری کو متوجہ رکھ سکیں۔ اکثر ادیب نقطہ آغاز تو بہت خوب کرتے ہیں لیکن آگے چل کر کہانی کے درمیان میں کہانی کی ٹانگیں توڑ دیتے ہیں ۔اس کی وجہ کمزور مرکزی خیال ، سوچ کی ناپختگی ، مشاہدہ کی کمی اور کہانی کے لوازمات کا نامناسب استعمال پایا جاتا ہے۔
کہانی کے درمیان میں لکھتے ہوئے عروج و زوال کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ یکطرفہ کہانی عموماً بدمزہ اور بور کردیتی ہے۔ جب تک ہیرو مشکل کا شکار نہ ہو تو کہانی کامیاب (Hit) نہیں ہوتی اورمیرے نزدیک کہانی میں جس قدر عروج و زوال زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی قدر کہانی کامیاب ہوتی ہے۔ یہ انسان کے دل کی طرح کبھی ہیرویا ہیروئن کو کھلے یا بند راستوں کی طرف لاتی اور نکالتی ہے۔ جس سے کہانی میں خون کی روانی (دلچسپی) برقرار رہتی ہے۔ عروج و زوال کے بغیر بھی آپ اپنی کہانی کو لے کر چل سکتے ہیں مگر شرط وہی ہے کہ دلچسپی ہونا چاہیے۔ یہ دلچسپی کہانی میں اٹھنے والے سوالات سے بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور عروج و زوال سے بھی۔ تند و تیز جملوں سے بھی کی جاسکتی ہے اور مزاح کی چاشنی سے بھی۔ یہاں بھی کوئی ایک فارمولا نہیں لیکن مقصد دلچسپی یا تجسس ہے جس کے بغیر قاری تحریر کو پڑھے گا یا چھوڑ دے گا۔ 
میرے پاس مثال کے لیے صفحات کی قلت ہے اس لیے آپ اپنی ساتھی میں سے دلچسپی کی کوئی سی دو تحریروں کے درمیان موجود عروج و زوال یا دلچسپی کے نقطہ عروج پر تبصرہ کریں۔ 
نقطہ اختتام (Ending Point)
اب ہم کہانی کے نقطہ اختتام کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔ کہانی کی دلچسپی عین ممکن ہے کہ برقرار رکھنے میں آپ کامیاب رہے ہوں۔ کہانی کو اب مکمل کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ نقطہ اختتام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ آپ کو ہٹ یا فلاپ کرتا ہے۔ اکثر ادیب اپنے پیغام کو یہاں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اپنے پیغام کو کہانی کے اندر جگہ جگہ چھوڑتے جاتے ہیں۔بعض کوئی پیغام دیے بغیر ہی کہانی کو پڑھنے والے کے ذہن کے مطابق کھلا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود ہی کوئی سبق حاصل کرے ۔

………

’’روکو مت جانے دو۔۔۔‘‘ اس جملے سے آپ کو کیا سمجھ میں آیا؟
کیا کہنے والے نے یہ کہا ہے کہ روکو نہیں بلکہ جانے دو یا یہ کہا ہے کہ روکو، جانے مت دو۔ اس جملے سے دونوں مطلب ہی نکل سکتے ہیں۔ آج میں آپ کو انہی رموز سے آگاہی دوں گا کہ لکھتے وقت آپ کو زبان وبیان میں کن خاص باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ یاد رہے کہ میرے پاس صرف اشارے اور تجاویز (Tips) ہیں۔ اسی طرح جس طرح سے فنکار کے ہاتھ میں مٹی برتن بنانے کا خام مال ہے اور عام انسان کے لیے صرف مٹی ہے۔ زبان و بیان کا درست استعمال ہی دراصل ایک کہانی کو کہانی بناتا ہے ورنہ ہر روز کئی کہانیاں لوگ سناتے ہیں۔ لیکن سننے والا بوریت محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر اسی کو اچھے انداز میں پیش کیا جائے تو اسی میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ تو چلتے ہیں کچھ نئی اور پرانی باتوں کی یاددہانی کی طرف۔۔۔
عمر کا تعین
لکھنے والا عموماً اپنی دھن میں لکھتا ہے اور اس سے بے نیاز ہو کر لکھتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے کی کیا عمر ہوگی؟ بس دل کا بوجھ ہے۔ جسے صفحہ قرطاس پر نکال کر ہلکا کرنا ہے۔ پھر جب یہ بوجھ اتر جاتا ہے اور کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی تو پھر یہی بوجھ دوبارہ سے بڑھنے لگتا ہے۔ تو میرے خیال سے جب بھی لکھنے کا خیال دل میں لائیں۔ پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ آپ کو پڑھنے والا کون ہے؟ اگر میں بچوں کے لیے لکھ رہا ہوں تو کس عمر کے بچوں کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ میری بات ان کی سمجھ میں ہی نہ آئے۔ جب تک بات سمجھ میں نہیں آئے گی مزا کیا خاک آئے گا۔ چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے آسان اور چھوٹے جملوں کا استعمال کرنا چاہیے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے۔ الفاظ میں پختگی اور جملوں کو بڑا کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے طویل تحریر کچھ مناسب نہیں دکھائی دیتی۔ 
الفاظ کا چناؤ
الفاظ کے چناؤ کا کام مشق کے ذریعے ہی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ بزرگ کہتے تھے کہ جس نے ایک کتاب لکھنی ہو اسے سو کتابیں پڑھنی پڑھتی ہیں۔ جب لکھنے کا شوق پالا ہے تو پڑھنے کا شوق بھی پیدا کرنا ہوگا۔ جس قدر آپ اچھے ادیبوں کی تحریروں کا مطالعہ کریں گے۔ آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن یہ ہمہ گیر (جاری رہنے والا) عمل ہے۔ آپ اس خیال سے لکھنا ترک نہ کریں کہ جب تک میں سو کتابیں نہیں پڑھتا تب تک مجھے نہیں لکھنا۔ جس قدر بھی الفاظ کا ذخیرہ آپ کے ذہن میں ہے۔ اس کا ہی استعمال کرتے رہیں۔ بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ اس میں بہتری خودبخود آتی جائے گی۔ 
املا کی درستگی
املا کے ذیل میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ زبان اور اس کے تمام قواعد کسی فرد واحد، ادارے یا انجمن کے تابع نہیں۔ زبان ایک وسیع تر معاشرتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج چلن سے وجود میں آتا ہے اور جس کے پیچھے صدیوں کی تاریخی اور لسانی ترقی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زبان اور رسم الخط میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کوئی فردِ واحد، کمیٹی یا انجمن یا ادارہ جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ تبدیلیاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ زبان کے خاموش معاشرتی عمل کے تحت از خود رونما ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور ادارے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے میں احساس و شعور کو بیدار کر دیں اور آگہی کی فضا پیدا کر دیں تا کہ انتشار دور ہو۔ لیکن بدقسمتی سے یہ انتشار دور ہونے کے بجائے بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، چنانچہ اصولوں میں اتنی لچک بہرحال ہونی چاہیے کہ زبان کے وسیع تر چلن اور آئندہ ضرورتوں کا ساتھ دے سکیں۔ ہمارا جو فرض ہے۔ وہ ہم نے ادا کرنا ہے۔ فیصلہ بہرحال زمانہ اور وقت کرے گا۔
مثال نمبر۶
عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں ’’الف ‘‘ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ’’ہ‘‘ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ’’ہ‘‘ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا’’ ہ‘‘ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ’’ہ‘‘ سے صحیح ہیں:شوربہ۔ چغہ۔ سقہ۔ عاشورہ۔ قورمہ۔ ناشتہ۔ ملغوبہ۔ الغوزہ۔
ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہیے:
معمّا۔ تماشا۔ تقاضا۔ حلوا۔ مربّا۔ مچلکا۔ بقایا۔ تمغا۔
(نوٹ: یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اشاعتی ادارے اپنی سمجھ اور فکر کے مطابق آپ کے الفاظ کی املا کو تبدیل کرنے کا حقدار سمجھتے ہیں۔ جس پر اکثر لکھنے والے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔یہ ایک الگ علمی بحث ہے جس پر آگے کھل کر تحریر کیا جائے گا)
گرامر کی درستگی
اب میں یہاں آپ کے گرامر کی درستگی تو نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور مشورہ دے سکتا ہوں کہ براے مہربانی جب بھی وقت ملے کبھی کبھی اردو گرامر پر بھی نظر کرم کرتے رہیں۔ آج کل گرامر کی ٹانگیں ہم سب ہی بہت توڑ تے ہیں کیونکہ یہ ہماری زبان ہے اور اس کی خاطر مدارت ہمارا فرض ہے۔ واحدجمع، الفاظ ضد، ہم معنی الفاظ وغیرہ پر کم از کم ایک نظر کرم ضرور عنایت کریں۔ 
انگریزی اصطلاحات
ادب کسی بھی معاشرہ کی زبان کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ اردو زبان چونکہ کئی زبانوں کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے انگریزی زبان کو بھی اس نے اپنے اندر کسی حد تک ضم کر لیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے دریغ انگریزی اصلاحات کو اپنی زبان میں فروغ دیتے چلے جائیں۔ گرامر میں انگریزی کی اردو اصطلاحات باآسانی مل جاتی ہیں۔ کوشش یہی ہونا چاہیے کہ حتیٰ الامکان (جہاں تک ممکن ہو) اردو کے الفاظ کو فروغ دیں۔ لیکن بعض جگہوں پر انگریزی کا استعمال ناگزیر بھی ہوجاتا ہے۔ جس طرح اکثر ادیب اپنے معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کو انگریزی بولتے ہوئے دکھاتے ہیں تاکہ پڑھنے والے کو معلوم ہوجائے کہ یہ کس کلاس کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ انگریزی زبان ہمارے معاشرے میں بولی ہی نہیں جاتی۔ پھر معاشرے کی درست ترجمانی کے لیے ان کی ویسی ہی شکل دکھانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کسی خاص زبان جیسے بنگالی، بہاری، سندھی، پشتو، سرائیکی، پنجابی وغیرہ کو ویسی ہی اردو بولتے ہوئے لکھا جاتا ہے جیسا کہ وہ بولتے ہیں۔ اس سے لکھنے والا قوم کا نام بھی نہیں لکھتااور اس سے اس قوم کا پتا چل جاتا ہے ۔مگر یہاں حتی الامکان قوسین (بریکٹ) میں اصل تحریر کردینا چاہیے تاکہ پڑھنے والا غلط اور درست کی تمیز کرسکے۔
مثال نمبر۷
’’اَم (ہم) کو تو پتا ہے تم کیا بات کرتا ہے؟ تمہارے کو تمیز نہیں کہ بات کیسے کرنی ہے؟‘‘ وہ بولا۔ 
’’یو نان سنس (you nonsense)۔۔۔ ‘‘ اس کا بھی پارہ چڑھ گیا۔#
محاورے اور ضرب المثل
محاورہ لغت میں ’’بول چال اور بات چیت‘‘ کو کہا جاتا ہے، لیکن اصطلاح میں محاورہ اس خاص بول چال کا نام ہے جس میں الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہ ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر ’’روٹی کھائی‘‘ اور ’’قسم کھائی‘‘ کو لیجیے۔ پہلے جملے میں ’’کھانا‘‘ حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن دوسرے جملے میں ایسا نہیں، پس دوسرا جملہ محاورہ ہے۔محاورے کے بارے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہیے کہ اس کے الفاظ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاتی ورنہ محاورہ غلط قرار پائے گا۔ 
مثلاً :اپنے منہ میاں مٹھو بننا(اپنی تعریف خود کرنا) ، اپنا الو سیدھا کرنا(اپنا مطلب نکالنا)، آگ بگولا ہونا (غضب ناک ہونا)، اینٹ سے اینٹ بجانا(تباہ و برباد کرنا)وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اسی طرح جب کوئی واقعہ بار بار تجربے اور مشاہدے میں آئے تو ان تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ پیش کرنے کے لیے چند الفاظ یا جملے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب یہ الفاظ یا جملے عرصہ دراز تک کسی خاص موقع پر استعمال کیے جاتے رہیں اور اپنے لفظی معنوں سے گزر کر کچھ اور معنی دیں تو ان کو ’’ضرب المثل‘‘ کہتے ہیں۔ 
مثلاً:الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے(قصور اپنا ہو لیکن دوسروں پر ناراض ہونا)، اونچی دکان پھیکا پکوان (شہرت بہت زیادہ ہو اور اصلیت کچھ نہ ہو)، اونٹ کے منہ میں زیرہ (خواہش اور ضرورت سے کم)، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی(برائی ہمیشہ چھپ نہیں سکتی) وغیرہ وغیرہ۔
ان کا استعمال کہانی کو خوب صورت بناتا ہے۔ ایسے مختصر الفاظ جو پوری بات کو واضح کردیتے ہیں جسے آپ پوری کہانی میں بیان کرتے ہیں۔ یہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا کام کرتے ہیں۔اب سمندر کو کوزے میں بند تو نہیں کیا جاسکتا لیکن سمجھنے والا باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ بہت بڑی بات کو ایک جملہ میں بیان کرنا مقصود ہے۔ محاورے اور ضرب المثل کا استعمال زیادہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پڑھنے والا سر کھجانے لگے اور صفحہ پلٹنے پر مجبور ہوجائے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ آپ اسے بھی ایک بار سرسری ہی سہی لیکن پڑھ ضرور لیں۔ آج کا پڑھا کل بہت کام آئے گا۔ آج کل محاوروں اور ضرب المثل کا استعمال زیادہ تر مزاح میں کیا جاتا ہے لیکن سنجیدہ تحریروں میں بھی اس کا استعمال ضروری ہوگیا ہے۔
اوقاف (Punctuation)
اوقاف دراصل پڑھنے والے کو تحریر سمجھنے میں بہت مدد فراہم ہے۔ جیسا کہ آغاز میں آپ نے ایک جملہ پڑھا تھا۔ اس میں دراصل اوقاف کا ہی مسئلہ تھا۔ اگر اسے اوقات کے ساتھ لکھا جائے تو ہر پڑھنے والا باآسانی سمجھ جائے گا۔ ’’روکو۔۔۔ مت جانے دو۔‘‘ 
روکو کے بعد ایک وقفہ’’۔۔۔‘‘ دینے سے بات سمجھ آتی ہے ۔ ’’،‘‘ یہ بھی وقفہ ہی کی علامت ہے لیکن یہ عموماً ایک لفظ کو دوسرے سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسے میں چھوٹا وقفہ کہتا ہوں۔ 
جب کردار بولتا ہے تو ’’ استعمال ہوتا ہے اور جب کردار اپنی بات ختم کرتا ہے تو ‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’۔۔۔‘‘ میں کہی گئی بات پڑھنے والے کو مدد دیتی ہے کہ کب بات شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی۔ اکثر ادیب اس کا استعمال کرنا اپنی توہین یا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ جس کے باعث اکثر ایڈیٹر حضرات یا کمپوزر (کمپیوٹر ٹائپسٹ) حضرات کا کام بڑھ جاتا ہے ۔’’۔۔۔‘‘ جب بھی بات ختم ہو اس کے آگے یہ ضرور لکھیں کہ یہ کس نے کہا ہے اور کس انداز میں کہا ہے؟ 
مثال نمبر ۸
’’ روکو۔۔۔ مت جانے دو۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ ’’لل۔۔۔ لیکن۔۔۔ کسے؟ مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا!‘‘ اس نے تعجب سے اِدھر اُدھردیکھ کر کہا۔#
اوپر دی گئی مثال میں سب کچھ ہے لیکن ایک بڑی غلطی ہے جو اکثر لکھنے والے اپنی سوچ کی رو میں لکھتے چلے جاتے ہیں اور اپنا صفحہ تو اس طرح بچا لیتے ہیں لیکن پڑھنے والے کو اکثر گھما کر رکھ دیتے ہیں۔ جب ایک کی بات ختم ہوجائے تو براے مہربانی اگلی سطر (لائن) سے آغاز کریں۔ اسی طرح جب ایک بات ختم ہوجائے تو دوسری سطر میں دوسرا پیراگراف شروع کریں۔ پیراگراف دراصل تحریر میں استری شدہ کپڑوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بغیر استری کے بھی کپڑے، کپڑے ہی ہوتے ہیں لیکن استری کرنے سے یہی کپڑے دیکھنے سے بہترین لگنے لگتے ہیں۔
تاثرات (Emotions)
کہانی دراصل تاثرات کا ہی مجموعہ ہوتی ہے۔ اس کا استعمال کہاں کس طرح کرنا ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہی ایک ادیب کو حاصل ہوتا ہے۔ جو تاثرات کو بہترین انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس کی کہانی اپنی منزل کو پا لیتی ہے اور جو بہترین کہانی میں تاثرات کا استعمال ٹھیک سے نہیں کرپاتا وہ منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ 
یہ تاثرات آخر ہے کس بلا کا نام؟ اس کو سمجھانا قدرے مشکل ہے لیکن سمجھنا نہیں۔۔۔ آپ خوش ہیں تو چہرے سے ظاہر ہوجاتا ہے لیکن کہانی میں کردار کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کہانی میں لکھتے ہیں کردار بہت خوش تھا۔ پڑھنے والا سمجھ گیا۔ لیکن لکھنے والے کی خوب صورتی اس وقت سمجھی جاتی ہے جب وہ بغیر یہ لکھے پڑھنے والے کو اپنی تحریر سے سمجھا دیتا ہے۔ اس کا کردار اس طرح سے ظاہر ہونے لگتا ہے جس سے پڑھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ کردار خوش ہے۔ اس کے کام سے ، اس کی باتوں سے یہ سب ظاہر ہونے لگتا ہے۔ لیکن نئے لکھنے والے تاثرات کا استعمال تحریر کرکے کریں۔

………

میں نے اسے کہانی لکھنے کے تمام اصول اور طریقے سمجھا دیئے تھے۔ وہ غور سے میری تمام باتوں کو سنتا رہا اور اثبات میں سر ہلاتا رہا کہ اسے سب سمجھ آرہی ہے۔ میں بہت خوش تھا کہ میں نے بھی ایک ادیب تیار کر دیا ہے ۔ بالآخر میں نے اسے کہا کہ اب جاؤ اور ایک کہانی لکھ کر لاؤ۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم کیسی کہانی لکھتے ہو؟
وہ چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد ہی وہ میرے سامنے تھا اور ایک صفحہ پر کہانی میرے سامنے تھی۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف اور کبھی صفحہ کی طرف دیکھا۔ اتنی جلدی تم نے کہانی لکھ دی۔
’’ بہت خوب‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔پھر میں اس کہانی کو پڑھنے لگا۔ کہانی بہت اچھی تو نہ تھی لیکن پہلا قدم تھا اس لیے میں نے اسے شاباش دی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کہانی اس نے لکھی ہے۔
’’ کیا یہ کہانی تم نے خود لکھی ہے؟‘‘ میں نے حیرت سے تصدیق چاہی ۔
’’ جی ۔۔۔ جی !! میں نے خود لکھی ہے۔‘‘ اس نے فخر سے کہا۔ 
میں نے یہ تحریر ساتھی کے مدیر کے سپرد کردی ۔ یہ کہتے ہوئے کہ بچہ ہے ذرا خیال کیجئے گا۔اگلے ماہ ہی ساتھی میں وہ تحریر شائع ہوئی جسے دیکھ کر وہ خوشی سے باہر ہو گیا اور مجھے لگا کہ جیسے مجھے اپنے لگائے ہوئے درخت کا پھل مل گیا۔
یہ میری تحریر کا ابتدائیہ تھا ۔ اس لیے اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔۔۔
اندازِ تحریر
اندازِ تحریر کسی بھی ادیب کا خاصہ ہوتا ہے جو اسے دوسرے ادیب سے منفرد یا ممتاز کرتا ہے۔ہر ادیب کا ایک خاص یا مخصوص انداز تحریر ہوتا ہے ۔ یہاں اندازِ تحریر سے مراد ان کی لکھائی نہیں بلکہ الفاظ کا چناؤ، جملوں کا انداز، مخصوص آغاز یا ایسا ہی کہانی میں کچھ خاص ہوتاہے جو پتا دیتا ہے کہ اسے کس نے تحریر کیا ہوگا؟ میں یہاں بہت سے ادیبوں کی تحریروں پر روشنی ڈال کر سمجھا سکتے ہیں کہ ان کے اندازِ تحریر میں کیا خاص بات ہے؟ لیکن میں یہ کام بھی آپ پر بھی چھوڑوں گا کیونکہ اس سے آپ کو اندازِ تحریر سمجھنے کے ساتھ ساتھ مختلف ادباء کو بھی سمجھنے کا موقع میسر آئے گا۔ 
بقول غالبؔ 
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
ہر نئے لکھنے والے کے سامنے یقیناًکچھ نمونہ اندازِ تحریر ہوتے ہیں جنہیں وہ پڑھتا رہا ہے۔ ہم جنہیں پڑھتے ہیں یا جن ادیبوں کو پسند کرتے ہیں ان کا عکس ہماری تحریر میں یقیناًغیر محسوس انداز میں جھلکتا ہے۔ بہت کم ادیب اس سے آزاد رہتے ہیں۔ اس میں کوئی بری بات نہیں کہ آپ کس کے انداز میں لکھتے ہیں ۔لیکن ادب میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اسی میں ایک اچھے ادیب کی بقا ہے۔ قاری ایک ہی انداز پڑھتے پڑھتے بور ہوجاتے ہیں اور پھر ایک اچھا ادیب بھی ان کے درمیان اپنی جگہ کھو دیتا ہے۔ قاری کو پڑھنے والے کی تحریر میں پہلے سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ وہ اب کیا بات کرے گا؟ یا انجام کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ 
اکثر ادیب مخصوص موضوعات پر ہی قلم چلاتے رہتے ہیں جو میرے نزدیک جمود کی ایک شکل ہے ۔ کسی ادیب نے ایک مزاحیہ تحریر لکھی اور اسے اتنی پذیرائی ملی کہ وہ اب مزاحیہ تحریریں ہی لکھنے لگ گیا۔ جبکہ وہ سنجیدہ تحریریں بھی بہت خوب لکھ سکتا تھا۔ ادیب کو مختلف موضوعات پر قلم چلاتے رہنا چاہیے چاہے اسے پسندیدگی کی سند ملے یا نہ ملے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ادیب کی مشق سخن ہوتی ہے اور اس پر مخصوص چھاپ نہیں لگتی۔ 
منظر کشی
منظر کشی عموماً آرٹسٹ اپنی ڈرائنگ کے ذریعے کرتے ہیں اور ایک ادیب کو بھی اس کی ضرورت جگہ جگہ پر محسوس ہوتی ہے اور وہ کرتا ہے۔ جس سے پڑھنے والے کو ماحول کا اندازہ ہوتا ہے۔ بغیر منظر کشی کے بھی آپ ماحول کو ظاہر کرسکتے ہیں لیکن منظر کشی تحریر میں دلکشی اور خوبصورتی کا باعث بنتی ہے۔
مثال نمبر۹
’’ کتنی سردی ہورہی ہے۔۔۔ میرے تو دانت بجنے لگے ہیں۔‘‘ عمر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تیزی سے مسلتے ہوئے گرم کیا۔
’’ میری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔۔۔ چلو سامنے قہوہ خانہ چلتے ہیں۔ ‘‘ عثمان نے عمر کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن وہاں تو مجھے کوئی نظر نہیں آرہا ۔‘‘ عمر نے قہوہ خانہ کا دور سے جائزہ لیتے ہوئے کہا۔#
مثال نمبر ۱۰
رات کی تاریکی بڑھتے ہی سردی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے میں ہر شخص اپنے اپنے گھروں میں محصور ہونا پسند کرتا ہے لیکن عمر اور عثمان کو آج گھر پہنچنے میں کافی دیر ہو گئی تھی کیونکہ راستے میں ان کی گاڑی خراب ہوگئی تھی اور اب انہیں کسی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں وہ کچھ دیر ٹھہر کر خود کو اس سردی سے محفوظ رکھ سکیں۔ ان کی نگاہیں اردگرد کا جائزہ لے رہی تھیں جہاں دور دور تک کوئی ایسی دکان نہ تھی جو کھلی ہو۔ ایسے میں عثمان کو ایک قہوہ خانہ دکھائی دیا ۔#
مثال نمبر ۹ میں منظر کشی کرداروں کے ذریعے کی گئی ہے اور مثال نمبر ۱۰ میں منظر کشی بغیر کرداروں کے کی گئی ہے۔ اس سے آپ بخوبی سمجھ سکیں گے کہ منظر کشی کیا ہوتی ہے۔ پڑھنے والے کو منظر کشی حقیقت سے قریب کرتی ہے اور وہ خود کو اسی ماحول میں پاتا ہے۔ کہانی اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب پڑھنے والے کو بھی اسی ماحول میں لے جائے۔ ورنہ گرمی میں بیٹھا شخص سردی کو محسوس نہیں کرسکے گا اور اسے کہانی کی سمجھ نہیں آئے گی۔
منظر کی تبدیلی
اگر آپ منظر کشی کو سمجھ چکے ہیں تو پھر آپ کو منظر کی تبدیلی کو بھی سمجھناہوگا۔ یہ بہت آسان ہے۔ کہانی میں کئی منظر آتے ہیں۔کبھی اسکول کا منظر ہوتا ہے تو کبھی گھر کا اور پھر کبھی میدان کا تو کبھی آفس کا۔ جب کہانی ایک منظر سے نکل کر دوسرے منظر میں داخل ہوتی ہے تو اسی کو منظر کی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ *۔۔۔* منظر کی تبدیلی پر اختتامی نشان لگایا جاتا ہے جس سے پڑھنے والے کو پتا چلتا ہے کہ وہ اب دوسرے منظر میں داخل ہونے لگا ہے۔ اکثر کہانیاں ایک ہی منظر میں ختم ہوجاتی ہیں اور اکثر میں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ جیسے آپ بیتی میں منظر کی تبدیلی بہت کم ہوتی ہے کیونکہ سنانے والا ایک ہی منظر میں رہ کر آپ کو اپنی روداد سناتا ہے۔
ڈرامہ نگاری میں منظر کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ادیب آغاز میں پہلے منظر تحریر کرتا ہے جس میں منظر کشی کرتا ہے ۔منظر پر کردار اپنا ڈرامہ کرتے ہیں اور پھر دوسرا منظر تحریر کیا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ ڈرامہ اپنے منظر بدلتا ہوا اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور پردہ گر جاتا ہے یعنی اس کا مطلب ڈرامہ کا اختتام ہوتا ہے۔
مثال نمبر۱۱
ٖمنظر(کلاس کا منظر) بچے اپنی کرسیوں پر برجمان ہیں۔ کلاس میں بے حد شور ہو رہا ہے اور ٹیچر کلاس میں موجود نہیں۔
منظر (کمرہ کا منظر)کمرہ میں انور خاموشی سے پڑھنے میں مصروف ہے۔ اس کے پاس کتابیں بکھری ہوئی ہیں۔ #
کہانی میں ربط
لفظ مل کر الفاظ بناتے ہیں اور پھر یہی الفاظ مل کر جملے کی شکل بن جاتے ہیں۔ جملے ایک تسلسل سے چلیں تو پیراگراف کی شکل لے بن جاتے ہیں اور پھر انہی پیراگراف سے ایک مضمون یا ایک کہانی مکمل ہوتی ہے۔ ہر کڑی دوسری کڑی سے جڑ کر ایک زنجیر بنتی ہے۔کہانی میں بھی لفظوں اور جملوں کا ربط ایک دوسرے سے اسی طرح ہونا چاہیے۔ بے ربط جملے اور پیرائے کہانی کا وزن کم کردیتے ہیں۔ 
اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ اگر آپ کسی سے بات کریں اور سامنے والا آپ سے کبھی ایک بات کرے اور کبھی دوسری کرے لیکن بات مکمل نہ کرے ۔ بولتے ہوئے ٹھہر ٹھہر جائے تو آپ بور ہوجائیں گے اور آپ کو بات بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ اسی طرح کہانی لکھتے وقت ہمیں اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ غیر ضروری جملوں کا استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی بات نپے تلے انداز میں لکھ کر مکمل کی جائے۔ 
جدت طرازی
معاشرے بھیڑ چال چلتا ہے لیکن ادیب کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ معاشرہ کیا پڑھنا چاہتا ہے یہ اہم نہیں بلکہ آپ معاشرہ کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں، میرے نزدیک یہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے منفرد خیالات پر توجہ دینی چاہیے۔ ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس پر اس سے قبل نہیں لکھا گیا یا کم لکھا گیا ہو۔ 
مثال کے طور پر ’’کتے‘‘ کے موضوع پر بہت سے مزاح نگاروں نے بہت خوب خوب لکھاہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں لکھا ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس موضوع پر نہ لکھیں لیکن اگر آپ لکھیں تو دوسروں سے کچھ ایسا مختلف لکھیں کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھے۔ 
اب آپ اس بات کو ہی دیکھ لیں کہ جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں میرے پیش نظر کوئی ایسی تحریر نہیں جو میں نے اس سے قبل ’’کہانی کیسے لکھیں ‘‘کے موضوع پر پڑھی ہو۔ یقیناًاس موضوع پر بھی لکھا گیا ہوگا لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں پڑھا لہٰذا میں اپنی تحریر کو پیش کرتے وقت ایک نیا رنگ پیش کررہا ہوں جس میں کسی اور رنگ کی آمیزش نہیں۔اپنی تعریف کبھی کبھی خود کرنی پڑتی ہے جب کوئی حوصلہ افزائی نہ ہوتی ہو۔ ایک ادیب کے لیے حوصلہ افزائی کتنی ضروری ہے ۔

………

تحریر کی اشاعت کے بعد اس کی خوشی اور حوصلے میں کچھ اس قدر اضافہ ہوا کہ اس نے مزید تحریر لکھنے کا ارادہ کیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے مجھے ایک مرکزی خیال بتایا۔ جس کو ہم دونوں نے مل کر ایک کہانی کی شکل دی۔ میں نے اس کے خیال کی بے حد تعریف کی اور اس کے بعد اس نے وہ تحریر لکھ کر میرے حوالے کردی۔ اس بار مجھے کہانی میں جگہ جگہ غلطیاں دکھائی دیں جس پر میں نے اس کی اصلاح کی۔ جب میں اس کی تحریر لے کر مدیر کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی پہلی کہانی جو شائع ہوئی تھی وہ نقل شدہ تھی۔ اب تو میں نے اپنا سر پکڑلیا۔ 
کبھی کبھی ہم اپنی منزل کو جلدپانے کے لیے شارٹ کٹ (چھوٹا راستہ) اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں صحیح یا غلط کی تمیز کیے بغیر منزل کا حصول چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں اس طرح حاصل کی گئی منزل ہمیشہ عارضی ہوتی ہے۔ 
جس طرح ایک ننّا پودا زمین سے نکلنے سے قبل ایک جدوجہد سے گزرتا ہے وہ جدوجہد ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ ایک درخت کی زمین میں چھپی جڑیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن پائیدار درخت یا پودا ہمیشہ جتنا اوپر اٹھتا ہے اتنا ہی زمین کے نیچے بھی اپنی جگہ بناتا ہے۔ ایک بیل کا پودا درخت کے مقابلے میں جلدی اوپر اٹھتا ہے لیکن اس کی زمین میں جڑیں اتنی گہری نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے اسے ہمیشہ سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ 
اگر آپ بھی خود کو درخت کی طرح مضبوط و توانا دیکھنا چاہتے ہیں تو آج سے خود کو مستقل مزاجی اور حوصلہ مندی کا عادی بنائیں۔ پہلی تحریر لکھنے کے بعد شائع نہ ہونے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ کبھی نقل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اس سے آپ کے اندر چھپی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔ آج کی نشست میں ہم کچھ تکنیکی باتوں پر دھیان دیں گے جن کی بظاہر کوئی اہمیت دکھائی نہیں دیتی لیکن اکثر یہی باتیں تحریر کی ناقابل اشاعت کا باعث بنتی ہیں۔
لکھائی (Hand writing)
ہر شخص کی لکھائی دوسرے کی لکھائی سے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ کی لکھائی پڑھنے میں آسان اور کچھ کی بہت دشوار ہوتی ہیں۔ اب میں آپ سے خوش خطی کی مشق کرنے کو نہیں کہوں گا لیکن توجہ ضرور دلاؤں گا کہ آپ جیسا بھی لکھیں کم از کم جلدی جلدی نہ لکھیں۔ اگر کچھ لکھا ہے تو اس کو ایک الگ کاغذ پر دوبارہ صاف صاف کرکے تحریر کریں۔ اکثر ادیب پہلی بار لکھی گئی تحریر کو ہی روانہ کردیتے ہیں جس میں جگہ جگہ جملوں اور لفظوں کی کانٹ چھانٹ کی گئی ہوتی ہے۔ دیکھنے اور پڑھنے والے کا تاثر پہلی نظر میں ہی کچھ اچھا نہیں ہوتا قبل اس کے کہ وہ آپ کی تحریر کو پڑھنا شروع کرے۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ “first impression is the last impression” (پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے)۔ آپ کسی سے پہلی بار ملتے ہیں تو تیا ری سے ملتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ گھر میں جیسے تھے ویسے ہی اٹھے اور ملنے پہنچ گئے۔ 
سطر چھوڑنا (Line Break)
تحریر لکھتے وقت اکثر ادیب سطر (لائین) نہیں چھوڑتے اور اس طرح وہ اپنا صفحہ تو بچا لیتے ہیں لیکن اشاعتی ادارے کے لیے ایک مشکل پیدا کردیتے ہیں جنہیں تحریر میں کچھ تبدیلی کرنا مقصود ہوتی ہے۔ ہمیشہ اشاعت کے لیے تحریر روانہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ ہر سطر کے بعد ایک سطر چھوڑ کر تحریر کریں۔ اسی ضمن میں خیال رکھیں کہ دائیں طرف سے بھی تھوڑی سی جگہ چھوڑ کر لکھیں۔ جیسا کہ اسکولز میں بچوں کو دائیں طرف سے ایک لکیر کھینچ کر لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ میں پہلے یہی سمجھتا تھا کہ یہ صفحے کا ضیاع ہے لیکن بعد میں اندازا ہوا کہ اگر ایسا نہ کریں تو بچے کاپی کے صفحہ کے کونے میں چلے جائیں گے جہاں لکھنا دشوار بھی ہے اور اسی جگہ پر کاپی کی پن بائنڈنگ ہوتی ہے۔ آپ کسی کاپی پر تو تحریر لکھ نہیں رہے لیکن جن صفحات پر لکھ رہے ہیں ان کو بالآخر جوڑنے کے لیے پیپر پن وغیرہ کا استعمال کریں گے جس سے آپ کی تحریر دائیں طرف سے دب جائے گی اور پڑھتے وقت دقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر آپ نے پن کا استعمال نہیں بھی کیا تو اشاعتی ادارے اکثر تحریر کا ریکارڈ اپنی فائل میں کرتے ہوئے دو بڑے سوراخ کرتے ہیں جس سے اچھی بھلی تحریر زخمی ہوجاتی ہے۔ اگر آپ اس بات کا خیال پہلے سے کرلیں تو پڑھنے والے کی طبیعت خوش ہوجائے گی۔ وہ تحریر اسے پسند آئے یا نہ آئے لیکن خوش طبعی کے معیار پر تو پورا اتر ہی جائے گی۔ 
صفحے کی پشت (Back Page Side)
کچھ ادیب صفحے کے دونوں طرف لکھتے ہیں۔ جسے اکثر اشاعتی ادارے پسند کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس کی وجہ کچھ خاص تو میری سمجھ میں نہیں آئی لیکن گمان غالب ہے کہ اس سے کمپیوٹر کمپوزنگ میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر آپ کی تحریر میں تصحیح کی گنجائش زیادہ ہو تو اس کی پشت استعمال کی جاسکے۔ میری ناقص راے میں اگر ایسا نہ کیا جائے تو کوئی خاص حرج نہیں لیکن عین ممکن ہے کہ تصحیح کرنے کی گنجائش زیادہ نہ دیکھ کر تحریر کو فوراً ناقابل اشاعت قرار دے دیا جائے۔ 
صفحہ نمبر اور حوالہ جات
(Page No. & Ref.)
تحریر کے ہر صفحے پر صفحہ نمبر اور حوالہ جات (کہانی کا نام اور ادیب کا نام وپتا) ضرور تحریر کرنا چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر بدقسمتی سے آپ کا صفحہ کھل کر کہیں ادھر ادھر ہوجائے تو باآسانی پتا چل سکے کہ یہ کس کی تحریر کا کون سا صفحہ نمبر ہے۔ ان حالات کا سامنا اکثر اس وقت پیش آتا ہے جب تحریر کی پن کھلتی ہے یا جب تحریر فائل سے نکل کر کمپوزنگ کے مرحلہ میں جاتی ہے۔ اکثر قابل اشاعت تحریریں بدقسمتی سے یہاں پہنچ کر بے نام ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اکثر ادیب اپنے خط کے باہر اپنا نام پتا تحریر کرکے ذمہ داری سے عہدہ برآں ہوجاتے ہیں ۔اگر خط کھولنے والا ہر تحریر پر اس کا عنوان، صفحہ نمبر اور ادیب کا نام لکھنے بیٹھ جائے تو وہ تحریر کی تصحیح کیاکرے گا؟ عموماً ادیب اپنا پتا تحریر کے آخر میں تحریر لکھتے ہیں جو درست عمل ہے۔ تاکہ تحریر پڑھنے کے بعد اگر ادیب سے رابطہ کرنا مقصود ہو تو ایسا کیا جاسکے۔ یہ پتا اشاعت کے لیے نہیں، صرف رابطے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ایک حوالہ مزید دیا جاتا ہے جب آپ کوئی مضمون تحریر کرتے ہیں اور اس کا مواد آپ مختلف کتابوں سے جمع کرتے ہیں۔ جس طرح شہد کی مکھی جگہ جگہ سے پھولوں کا رس جمع کرکے شہد بناتی ہے۔ اسی طرح ایک اچھا مضمون نگار کبھی اپنی یادداشت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ وہ اس کے ثبوت میں حوالہ دیتا ہے تاکہ پڑھنے والا جان سکے کہ وہ جو تحریر پڑھ رہا ہے وہ قابل بھروسہ ہے۔ اسلامی مضمون تحریر کرنے والے ادیب خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اگر کوئی حدیث یا قرآن کی آیت کو بیان کریں تو ساتھ میں (القرآن یا الحدیث) کے بجاے مکمل حوالہ(سورۃ النساء، آیت ۴) (بخاری، جلد۲) دیں تاکہ کوئی بھی باآسانی اسے دیکھ سکے۔ 
فوٹو کاپی (Photo Copy)
ویسے تو آپ تحریر کو لکھنے کے بعد جب اسے خوش خط کریں گے تو خودبخود اس کی ایک کاپی (نقل) آپ کے پاس رہ جائے گی لیکن اگر ایسا نہیں تو اپنی تحریر کی ایک فوٹو کاپی ضرور کروائیں تاکہ آپ جان سکیں کہ جو تحریر آپ نے روانہ کی تھی اس میں شائع ہونے کے بعد کہاں کہاں پر تبدیلی کی گئی ہے اور اگر شائع نہیں ہوسکی تو آپ اس قابل ہیں کہ اس کے لیے اشاعتی ادارے کو اپنی تحریر کی واپسی کا مطالبہ نہ کرنا پڑے۔اکثر تحریریں اشاعتی ادارے تک کے سفر کو خوش اسلوبی سے طے نہیں کرپاتیں جس کے نتیجے میں ادیب پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے پاس اس کی کوئی نقل نہیں ہوتی اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ اس تحریر کو لکھنے کے قابل نہیں پاتا۔ ان پریشانیوں سے بچنے کی یہی شکل ہے کہ آپ میرے مشورے پر عمل کریں۔ اکثر تحریروں میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں ردوبدل کرکے ادیب دوبارہ کسی دوسرے ادارے میں اشاعت کی کوشش کرسکتا ہے۔ لیکن اخلاقی طور پر یہ درست نہیں کہ جس تحریر کو آپ نے ایک اشاعتی ادارے کو دیا ہے وہ انتظار کیے بغیر آپ دوسرے اور تیسرے اشاعتی ادارے کو بھی روانہ کردیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اسی لیے فوٹو کاپی اکثر اشاعتی ادارے قابل قبول نہیں سمجھتے۔ اس لیے فوٹو کاپی آپ اپنے پاس رکھیں اور تحریر کی اصل ہی اشاعت کے لیے روانہ کریں۔
اصلاحی جائزہ (Final Revision)
تحریر کو خوش خط کرنے سے پہلے اپنی تحریر کا بغور اصلاحی جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اکثر لکھتے وقت ہم کسی جذبات کی رو میں یا جلدی میں کچھ غلط تحریر کرجاتے ہیں۔ تحریر کو لکھنے کے بعد ایک نظر بغور اصلاحی جائزہ لیں اور اسی تحریر میں رد و بدل کرلیں۔ خوش خط کرنے سے پہلے آپ اپنی تحریر کو کسی ایسے شخص کو ضرور پڑھائیں جو زبان و بیان کی غلطیوں کو سمجھ سکتا ہو۔اس سے ایک طرف غلطیوں کا خدشہ کم ہوجاتا ہے اور دوسری طرف آپ کو اپنی تحریر پر راے مل جاتی ہے۔ اس راے کی روشنی میں آپ اپنی تحریر میں تبدیلی کرسکتے ہیں لیکن کوشش کریں کہ ایسا نہ کریں کیونکہ جو آپ کی راے ہے اس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ عین ممکن ہے کہ جو تحریر کسی ایک شخص کو اچھی دکھائی دے رہی ہو وہ اکثر کی نظر میں اچھی نہ ہو۔ اس لیے راے صرف راے ہی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ایک تحریر میں مختلف خیال بیان کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہیے یہی کہانی کی خوب صورتی ہے۔ 
اشاعتی ادارے کی پالیسی (Policy Mattar)
ہر اشاعتی ادارے کی ایک پالیسی ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کی تحریریں شائع کرے گا۔ ویسے تو اکثر اشاعتی اداروں کی پالیسی تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا فرق ضرور پایا جاتا ہے جو اکثر تحریر کے لیے ناقابل اشاعت کا قلمدان بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے بچوں کا رسالہ ہے اور اس میں آپ بڑوں کے افسانے بھیج دیں تو مدیر یہی کہے گا کہ ہم شائع نہیں کرسکتے۔بعض اشاعتی ادارے جنوں بھوتوں کی کہانیاں شائع نہیں کرتے۔ غیر اخلاقی مواد کو تقریباً سبھی ادارے غیر پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس میں بھی کچھ تقسیم پائی جاتی ہے کہ کس قدر شائع کیا جا سکتا ہے اور کس قدر نہیں۔ کسی ادارے میں اس کی حد بہت کم اور کسی میں بہت زیاد ہ ہے۔ اسی لیے تحریر لکھنے کے بعد جب تحریر کو کسی اشاعتی ادارے کے لیے روانہ کریں تو اس سے قبل اس اشاعتی ادارے کے رسائل کا ضرور بغور مطالعہ کرلیں تاکہ جان سکیں کہ یہاں کیا معیار ہے۔اچھی اچھی کہانیاں بھی اکثر انہی پالیسوں کی نظر ہوجاتی ہیں۔ اس میں کہانی کا قصور کم اوربھیجنے والے کا قصور زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اکثر ادیب مجھے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔
انتظار (Wait)
وقت بہت بڑا مرہم ہے۔ اچھے اچھے زخموں کو بھر دیتا ہے مگر شرط وہی ہے کہ صبر کیا جائے ۔ پھر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ صبر کا پھل کتنا میٹھا ہوتا ہے۔ وقت تو جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے لیکن انتظار کی گھڑیوں کو طویل ہونے سے بچانے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری تحریر لکھنے کی کوشش کریں۔ جو ادیب لکھنے کے بعد اشاعت کی راہ دیکھتے ہیں ان کی تحریر شائع ہوبھی جائے تو دوسری تحریر کی اشاعت کے درمیان کافی عرصہ گزر جاتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری تحریر لکھنے والے بغیر تعطل کے اشاعتی منظر پر رہتے ہیں۔ اگر ایک تحریر ناقابل اشاعت ہو تو دوسری قابل اشاعت ہوہی جاتی ہے۔ اس طرح لکھنے والے کو انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا اور اس کی تحریریں بھی اشاعتی ادارے کے پاس اشاعت کے مرحلے سے گزرنے کا وقت خوش اسلوبی سے پورا کرتی ہیں۔ 
اب آپ میری اس تحریر کو ہی دیکھ لیں جسے میں نے آج سے کوئی پانچ ماہ قبل تحریر کیا تھا اور اب میں اس میں معمولی ترمیم کے ساتھ ہر ماہ آپ کے سامنے دکھائی دیتا ہوں۔ اب مجھے اپنی تحریر کی اشاعت کا نہیں بلکہ آپ کی حوصلہ افزائی اور تبصرے کا انتظار ہوتا ہے۔ تو پھر جلدی سے آپ اپنا تبصرہ خوش خط لکھ کر میری ان تمام تکنیکی باتوں کا دھیان رکھتے ہوئے ساتھی کے پتے پر روانہ کریں تاکہ یہ سلسلہ بغیر انتظار کے اسی طرح چلتا رہے۔

………

ایک روز کلاس میں ہمارے استاد نے داخل ہوتے ہی ایک بہت عجیب وغریب سوال کیا۔ ان کا سوال یہ تھا کہ آپ دنیا میں موجود کسی ایک چیز کا نام بتائیں جو بیکار اور بے مقصد ہے۔ وہ اس پر انعام دیں گے۔ ہم نے انعام کے لالچ میں اپنی عقل کے دوڑے بہت دور دور تک دوڑا دیئے لیکن کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جو بیکار ہو یا جس کا کوئی مقصد نہ ہو۔ ہم جس چیز کا بھی نام لیتے استاد محترم اس کا فائدہ اور مقصد بیان کر دیتے اور ہم اپنا سا منھ لے کر رہ جاتے۔ 
آج میں نے اس کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ بحث ایک عرصہ سے زیر بحث ہے کہ’’ ادب براے ادب‘‘ ہونا چاہیے یا ’’ادب براے اصلاح‘‘؟ میرا مقصد یہاں آپ کے درمیان اس موضوع پر بحث کرانا مقصود نہیں ہے۔ صرف گزارش یہ کرنا ہے کہ جب آپ اس ادب کے دریا میں کودے ہیں تو ان مگرمچھوں سے بھی کسی دن واسطہ پڑے گا لہٰذا پہلے سے ان کو پہچان لیں۔
ادب براے ادب
اس سے مراد میری ناقص عقل کے مطابق یہ ہے کہ ادیب کو تحریر اس لیے تحریر کرنا چاہیے کہ وہ ادب کو پروان چڑھارہا ہے۔ معاشرہ میں جو موجود ہے اسے دکھائے۔ اپنے الفاظ میں ایسا جادو پیدا کرے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں گرفتار ہوجائے۔نئے الفاظ سے معاشرے کو روشناس کرائے اور ایک ایسا ادب تخلیق کرے جس سے پڑھنے والا محظوظ ہوسکے اور ادب کو فروغ حاصل ہو۔
ادب براے اصلاح
دوسری طرف وہ ہیں جو ادب کو اصلاح کے لیے استعمال کرنے کے قائل ہیں۔ یہ معاشرہ میں موجود ہر چیز کو اُسی طرح کہانی میں دکھانے کے قائل نہیں۔ ان کے یہاں ہر تحریر میں اصلاح کاہونا ضروری ہے۔ یہ ادب کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے لکھنے کے قائل ہیں۔ یہ اس تحریر کو بے مقصد سمجھتے ہیں جس میں اصلاح کا پہلو نہ ہو۔ 
اپنی دانست کے اندر میں نے ان دونوں کا کسی حد تک فرق واضح کردیا ہے۔ مزید تشریح کے لیے آپ کو ادب کے اساتذہ سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ میں کسی بھی ایک کی نفی یا حمایت نہیں کروں گا۔ فیصلہ آپ پر چھوڑوں گا کہ آپ اس کے حق یا مخالفت میں مجھے تحریر کریں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے جب میں نے اس پر کوئی بات نہیں کرنی تھی تو اس کا ذکر ہی یہاں کیوں چھیڑا ہے۔ اس کا میرے نزدیک ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی ادیب تحریر لکھتا ہے تو وہ لامحالہ کسی نہ کسی ایک پلڑے کا انتخاب کر لیتا ہے۔ اگر کہانی اصلاح کرنے کے لیے لکھنے بیٹھا ہے تو وہ ضرور بالضرور کہانی میں نصیحت چھوڑے گا۔ اس کے برخلاف دوسرا ادیب کہانی لکھنے پر اپنا دھیان لگائے گا اور قطع نظر اس کے کہ کوئی نصیحت کی جائے۔ 
اس کے علاوہ دوسری بات یہ کہ پہلا ادیب معاشرہ میں موجود خرابی کو اسی طرح نہیں دکھائے گا۔ مثال کے طور پر معاشرے میں انگریزی کا رواج عام ہو چکا ہے لیکن وہ پھر بھی ہر شخص کے منھ سے برخلاف اچھی اردو کا استعمال کروائے گا۔ معاشرے میں گالیوں کا رواج عام ہو گیا ہے لیکن وہ اپنی تحریر میں کسی گالی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اس کا کردار کہانی کے اختتام پر ضرور سدھر جائے گا یا پھر اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن دوسرا ادیب انگریزی کا استعمال بھی روانی سے کرے گا ، اس کے کردار گالیاں بھی دیں گے(اگر ادیب کو ضرورت محسوس ہوئی تو۔۔۔) اور سب سے بڑی بات کہانی کا اختتام عموماً وہ پڑھنے والے کی سوچ پر چھوڑے گا۔ خود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرے گا کہ یہ اچھا ہے یا برا ہے؟
آج کل دونوں مکتب فکر کی سوچ کے ادیب ایک دوسرے کو اتنا قائل کرچکے ہیں ان میں اب بہت زیادہ فرق نمایاں نظر نہیں آتا۔ جو کسی حد تک اچھی بات ہے۔ اکثر ادیب بیک وقت دونوں کشتیوں کے مسافر دکھائی دیتے ہیں۔ اگر آپ نے بھی اپنے لیے کسی کشتی کا انتخاب کر لیا ہے تو پھر آگے بڑھتے ہیں۔۔۔
مثبت یا منفی
معاشرہ میں موجود ادیب بھی معاشرے کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے۔ جب معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو ادیب بھی اس سے لامحالہ محفوظ نہیں رہ پاتا۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکاہوں کہ سوچ کا کہانی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ادیب کی سوچ بھی مثبت یا منفی ہوتی ہے جیسے ہر انسان کی ہوتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک عام انسان مایوس ہوتا ہے تو وہ اکیلا ہوتا ہے لیکن جب ایک ادیب مایوس ہوتا ہے تو وہ پورے معاشرے کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔ 
مشہور فلاسفر افلاطون اور ارسطو (شاگرد اور استاد) ایک ساتھ کسی سفر پر تھے۔ ارسطو چونکہ استاد تھا اس لیے وہ آگے آگے چل رہا تھا اور افلاطون احترام سے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ ایک جگہ نہر آئی تو افلاطون فوراً آگے بڑھ گیا اور اس نہر کو عبور کرگیا۔ ارسطو کو افلاطون کی یہ حرکت پسند نہ آئی ۔ اس نے اس حرکت سے متعلق سوال کیا۔ 
افلاطون نے عرض کیا: ’’حضور! آپ کا احترام اپنی جگہ لیکن نہر میں پانی کا اندازہ نہیں ہورہا تھا اور عین ممکن تھا کہ آپ اس نہر میں گرجاتے اور ڈوبنے کا خدشہ تھا۔ اسی لیے میں آگے بڑھا۔ اگر میں ڈوبا تو صرف اکیلا میں ہی ڈوبوں گا لیکن اگر آپ ڈوب گئے تو بہت سے لوگ علم سے محروم ہوجائیں گے۔‘‘ 
ایک ادیب کی ذمہ داری ایک استاد سے بھی کئی گنا بڑھ کر ہے۔ جب ہم عام بول چال کرتے ہیں تو بغیر سوچے سمجھے بولتے چلے جاتے ہیں لیکن کہانی لکھتے وقت بھی اکثر ادیب ایسا ہی کرتے ہیں۔ جو ذہن میں آیا لکھ دیا۔ جیسا کہ میں خود بھی ایسا ہی کرتا تھا لیکن اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ جو بھی لکھتا تھا، اسے دوبارہ ضرور بغور پڑھتا تھا کہیں کچھ غلط تو تحریر نہیں ہوگیا۔ اکثر تحریروں کو کیریوں کی طرح پکنے کے لیے رکھ چھوڑتا تھا۔
سوچ کی آمد
اکثر ادیب میری اس بات سے اتفاق کریں گے ان پر اچانک ہی کسی سوچ کی آمد ہوتی ہے اور پھر وہ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ پورا دن بھی بیٹھ کر سوچتے رہیں تو سوچ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتی یاگزر بھی جائے تو وہ کہانی لکھنے پر انہیں مجبور نہیں کرتی۔ میں ان ادیبوں کو ’’من موجی ادیب‘‘ کہتا ہوں جن میں میرا بھی شمار ہوتا ہے۔ ان کی سوچ دل کے زیر اثر ہوتی ہے اور جب تک ان کے دل کی اجازت نہیں ملتی، دماغ کتنے بھی اچھے آئیڈیاز کہانی کے لیے پیش کردے۔ یہ ادیب نہیں لکھ پاتے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رات کے بارہ بجے جب وہ سونے کے لیے بستر پر جا رہے ہوں تو اچانک ان کی رگ ادیب پھڑک اٹھتی ہے اور وہ اپنی نیند کو بالاے طاق رکھ کر ایسی اچھی تحریر لکھتے ہیں جس کی لوگ تعریف کیے بغیر نہیں رہتے۔ 
یہ سوچ کی آمد کب، کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟ اس کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتناسمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنے پاس ایک نوٹ بک اور قلم ضرور رکھیں۔ تاکہ جب بھی یہ آمد ہو آپ اس کا کم از کم مرکزی خیال ضرور تحریر کرلیں۔ اگر ممکن ہو تو میرا مشورہ ہے کہ سوچ کی آمد کے ساتھ ہی تحریر کو لکھنے کا فیصلہ بہت مناسب رہتا ہے۔ کیونکہ اکثر ہم اسے ٹال کر دوبارہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو وہ بات نہیں بنتی جو سوچ کے وقت تھی۔ 
کہانی کو ہمیشہ ایک ہی نشست میں مکمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اکثر ادیب ابتدائیہ لکھنے کے بعد کسی اور کام میں لگ جاتے ہیں اور پھر جب دوبارہ بیٹھتے ہیں تو مکمل نہیں کرپاتے، یا پھر کہانی کا توازن بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم کہانی کے متعلق سوچتے ہیں تو اس وقت ہماری سوچ کا ایک رخ ہوتا ہے اور ہمارا ایک موڈ (مزاج) ہوتا ہے۔ دوسری نشست میں یہ رخ تبدیل ہوجاتا ہے یا موڈ میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ 
جیسا کہ ابھی میرے مزاج میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ’’میں کہانی کیسے لکھوں‘‘ کو یہی ختم کردوں ۔۔۔

………

جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس وقت ’’میں کہانی کیسے لکھوں؟‘‘ کے چھ حصے مکمل ہوچکے ہیں اور اب تک جو میں نے لکھا اسے میں ’’کہانی کیسے لکھوں ‘‘ کا خلاصہ کہہ سکتا ہوں۔ جسے پڑھ کر یقیناًبہت سے ساتھیوں کو رہنمائی ملی لیکن مجھے فکر ان ساتھیوں کی ہے جو اب بھی کہانی لکھنے سے محروم ہیں اور انہیں شاید بہت کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اس کی وجہ یقیناًمیری تحریر کی کمزوری ہے۔ اس دوران کئی ساتھیوں نے باقاعدگی سے مشق کی اور کئی ساتھیوں نے دامے درمے سخنے (وقتاً فوقتاً) حصہ لیا۔ بہت سے ساتھی ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے میری تحریر کو پڑھا لیکن مشق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کی وجوہ پر میں پہلے بات کرچکا ہوں۔ اب تک جو لکھا گیا وہ صرف اشارے تھے اور کہتے ہیں عقلمندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن عقل کو استعمال کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اکثر لوگ عقل کے استعمال کو عقل کا ضیاع سمجھتے ہیں، شاید اسی لیے وہ عقل کو استعمال نہیں کرتے۔
آج میرا موڈ (مزاج) خود مشق کرنے کا ہے۔ اس لیے چلتا ہوں کچھ سوالات کی طرف جو کہانی لکھنے کے ضمن میں اکثر وبیشتر ہمارے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا تسلی بخش جواب نہ ہونے کی صورت میں کہانی آگے نہیں بڑھتی یا یوں کہہ لیں کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ آپ نے میرے بہت سے سوالات کے جوابات اب تک دیے ہیں۔ اب میں کچھ سوالات کے جوابات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ذرا غور کریں شاید آپ بھی اس کا سامنا کرنے والے ہیں یا کررہے ہیں۔
سوال۱۔ میں کہانی کیوں لکھوں؟
جواب: یہ سوال میں نے آپ سے بھی کیا تھا اور آپ نے اس کے بہت سے جوابات مجھے دیے تھے جن میں سے اکثر سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ میرے نزدیک کہانی تین وجوہ کی بنا پر تحریر کی جاتی ہے۔
۱۔ شوق ۲۔ شہرت ۳۔ ضرورت
اکثر شوق کے ساتھ شہرت کی خواہش بھی شامل ہوجاتی ہے اور کبھی کبھار نظریہ ضرورت بھی شامل حال ہوجاتا ہے۔ اب ضرورت کے ضمن میں پیسہ شامل کرنا کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا کیونکہ لکھنے والے ادیبوں کو کسی بھی دور میں اس سے کچھ خاطر خواہ معاوضہ وصول نہیں ہوا ماسوائے چند ایک کے جو کسی بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کرپائے۔ آغاز میں شوق ہی بنیادی وجہ ہوتی ہے جس کے ساتھ خودنمائی بھی شامل ہوتی ہے۔ کسی کو ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کسی کو باغبانی کا اور کسی کو کچھ اور۔۔۔ اب اس شوق سے ان کو کیا وصول ہوتا ہے اس کی ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اکثر شوق ہمارا جنون بن جاتے ہیں جنہیں ہم چاہتے ہوئے بھی چھوڑ نہیں پاتے۔ کہانی کے ساتھ میرا نام شائع ہوا اور سب نے میری واہ واہ کی اور میری حوصلہ افزائی ہوئی۔ اگر لکھنے والے کی حوصلہ افزائی نہ ہو تو بہت جلد کہانی کی کہانی ہوجائے گی۔ جس میں آپ کا کوئی قصور بھی نہیں ہوگا۔ کچھ دوست کہانی اس لیے لکھتے ہیں کہ وہ اسے ایک مقصد (مشن) سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کو بھی شوق کی بیماری پہلے ہوتی ہے اس کے بعد ہی کہانی وجود میں آتی ہے ورنہ مقصد تادیر ساتھ نہیں رہتا۔ جیسے اب مجھے چاے پینے کا شوق ہے۔ قطع نظر اس سے مجھے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ کیا نقصان؟۔۔۔ پھر شوق بھی اکثر بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آگے شہرت اور ضرورت کا کیا بنے گا؟
سوال۲۔ ایک اچھے ادیب کا سوال ہے کہ جنہیں کہانی لکھنی آتی ہے اور وہ پھر بھی کہانی نہ لکھ سکیں تو کیا کریں؟
جواب: اس کا پہلا سیدھا اور سادا سا جواب یہ ہے کہ وہ میری طرح ’’کہانی کیسے لکھیں؟‘‘ لکھنا شروع کریں یا پھر لمبا چوڑا تبصرہ کرنا شروع کردیں۔ کم از کم اس طرح کچھ نہ کچھ لکھتے تو رہیں گے اور دوسرے نئے لکھنے والوں کا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا۔ اپنے تجربات سے اگر آپ نے کچھ فائدہ نہیں اٹھانا تو کم از کم دوسروں کو ہی منتقل کردیں جو اس دریا میں تیرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جن کی تحریریں آپ کی نظر سے گزرتی ہیں ان پر تبصرہ کریں تاکہ ان کی کچھ حوصلہ افزائی ہوجائے اور اصلاح بھی۔ 
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑے اچھے اچھے ادیب گمنامی کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجوہ پچھلے سوال میں زیر بحث آچکی ہیں یہاں صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ کہانی لکھنے کی وجہ رہے نہ رہے لیکن اگر رابطہ استوار رہا تو کبھی بھی کسی بھی وقت واپسی کا راستہ کھلا ملے گا۔ یہاں رابطے سے مراد ادیبوں کی محفل بھی ہوسکتی ہے۔ رسائل کو پڑھتے رہنے یا دیکھنے کی صورت بھی ہوسکتی ہے۔ یہ صورت ڈائری کی شکل میں آپ کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔
سوال۳۔ کہانی لکھنا ایک خداداد صلاحیت ہے اور ہر کوئی کہانی نہیں لکھ سکتا اور کہانی لکھنا سیکھا نہیں جاسکتا۔
جواب: یہ سوال نہیں بلکہ خود کا ایک فیصلہ ہے جو میں اور آپ باآسانی کرسکتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے اورضروری نہیں کہ ہر کسی کے پاس یہ صلاحیت ہو لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آپ کو کیسے پتا چلتا ہے جب کہ آپ نے کبھی کوشش ہی نہ کی ہو۔۔۔ کامیابی یا ناکامی کسی صلاحیت کے ہونے کی دلیل نہیں مانی جاسکتی۔ صلاحیت ایک خام مال کی طرح ہوتی ہے جسے نکھارنا اور سنوارنا پڑتا ہے۔ ہیرے کو پتھر سمجھ کر پھینک دینے سے ہیرا کبھی پتھر نہیں بنتا لیکن اس کی حقیقت صرف ایک بہترین جوہری ہی جان سکتا ہے۔ پھر شناخت ہوجانے کے بعد اس کی تراش خراش ہوتی ہے اور تبھی وہ اپنی اصل قیمت پاتا ہے۔ میں بھی صرف آپ کو پرکھنے کے لیے کہانی لکھنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ کامیابی یا ناکامی صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام صرف سچے دل سے کوشش کرنا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی آرٹسٹ کے لیے فائن آرٹ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی جبکہ وہ بھی خداداد صلاحیت ہے۔ سیکھنا شرط ہے اور آزمائش کے بغیریہ ممکن نہیں۔
سوال۴۔ میں اکثر کہانی لکھنے کے لیے بیٹھتا ہوں لیکن میری کہانی مکمل نہیں ہو پاتی ۔نتیجتاً کہانی کو بیچ میں ہی چھوڑ کر اٹھنا پڑتا ہے۔جو اکثر بعد میں مکمل نہیں ہوپاتی۔
جواب۔ یہ سوال نہیں بیماری ہے جو اکثر ادیبوں کو ہوتی ہے یا ہوجاتی ہے۔ اس کا جواب جتنا آسان ہے علاج اسی قدر مشکل ہے۔ اس بیماری کے کئی درجے ہیں۔ کسی کو یہ لکھنے کے آغاز میں ہی لاحق ہوجاتی ہے اور کچھ کافی بہت سا لکھنے کے بعد اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اﷲ نے کسی ایسے مرض کو پیدا نہیں کیا جس کا علاج نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کے علاج اور تدارک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ اگر مریض خود ہی ٹھیک نہ ہونا چاہے تو دوا بھی کچھ کام نہیں کرتی۔ چونکہ کہانی کا اصل مرکز دماغ نہیں دل واقع ہوا ہے۔ اسی لیے اکثر جب دل نہیں چاہتا تو دماغ بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے۔ اسی لیے دل ودماغ کو ساتھ رکھنا اور ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہے۔ دماغ میں کہانی کا ایک زبردست خیال کوندا لیکن دل کو پسند نہیں آیا لہٰذا جب کہانی شروع ہوئی تو اکتاہٹ کے احساس نے آلیا اور پھر کہانی درمیان میں ہی رہ گئی۔ اس لیے خیال کا دماغ کے ساتھ دل سے بھی ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ کبھی کبھی دل بھی چاہتا ہے کہ کہانی لکھی جائے اور دماغ میں بھی بہترین خیال آتا ہے لیکن حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کہانی لکھی جاسکے۔ بیکار تو کوئی انسان نہیں ہوتا ۔ہر کسی کو کچھ نہ کچھ کام سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ اس بیماری میں حوصلہ افزائی کی کمی، شوق کی کمی اور ترجیحات میں تبدیلی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جب ایک ادیب بڑے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ ہر آنے جانے والے خیال پر کہانی لکھنے نہیں بیٹھتا اور کسی اچھے خیال کی آمد تک ناکارہ ہوجاتا ہے۔
سوال۵۔ کہانی لکھنے کا بہترین وقت کون سا ہے؟ 
جواب۔ کہانی لکھنے کا بہترین وقت وہی ہے جس میں آپ کو کہانی کا خیال شدت سے ستانے لگے اور کہانی آپ پر طاری ہوجائے ۔ لیکن کوشش کریں کہ اس دوران کوئی دوسرا کام سرانجام نہ دیں ورنہ یہ خیال کی آمد کا سلسلہ رک بھی سکتا ہے۔ ویسے بھی ایک وقت میں ایک ہی کام کو کرنا چاہیے تاکہ بھرپور انداز میں کام کو سرانجام دیا جاسکے۔ بیک وقت کئی کام کرنے سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کام بھی ٹھیک سے سرانجام نہیں ہو پاتا۔ پھر خیال کا تعلق تو ویسے بھی مکمل طور پر دماغ کے ساتھ ہے۔ جب دماغ کی توجہ دیگر کاموں کی طرف بھی ہو تو توجہ تقسیم ہوجاتی ہے۔ پھر کوشش کریں کہ جس کام کے لیے آپ بیٹھے ہیں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی اٹھیں۔ ورنہ ایک نشست میں لکھی گئی تحریر اور دوسری نشست میں لکھی گئی تحریر میں اکثر فرق نمایاں ہوجاتا ہے۔ اسی لیے میرا مشورہ ہے کہ کہانی ایک ہی نشست میں لکھیں تو بہتر ہے۔
سوال۶۔ کہانی اچھی لکھی ہے یا خراب، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ ادیب، ایڈیٹریا قاری؟
جواب: ویسے تو عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ قاری کسی ادیب کا بہترین جج ہوتا ہے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کا فیصلہ ادیب کرتا ہے نہ ایڈیٹر اور نہ ہی قاری۔ آپ حیران ہورہے ہیں کہ پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ میرے نزدیک اس کا درست فیصلہ وقت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ادیب نے جنگ کے ماحول میں ایک کہانی لکھی جس کا موضوع جنگ تھا۔ ایڈیٹر نے بھی اسے پڑھا تو اسے یہ لگا کہ آج کی ضرورت جنگ ہے اس نے شائع کیا۔ قاری جو جنگ سے متاثر تھا اس کے دل کو بھی خوب بھایا اور اس نے اس کی تعریف کی۔ لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ہی امن کے دور میں یہ جنگی جنون اب وقت کی ضرورت نہیں۔ اسی لیے جب لائبریری میں اس کہانی کو تاریخ پڑھے گی تو وہ یہی کہے گی کہ جنگ سے متاثر ہوکر لکھی گئی کہانی ہے۔ میں نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے کہ اس مثال کے ذریعے آپ کو سمجھاؤ لیکن پھر بھی اگر کسی کی سمجھ میں نہ آسکی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔اکثر بڑے ادیبوں کے افسانے آج لائبریریوں میں شوق سے پڑھے جاتے ہیں جنہیں اس وقت لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ’’شکوہ‘‘ لکھنے پر علامہ اقبال کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ آج شاعری میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس بات سے قطعی مایوس نہ ہوں کہ ایڈیٹر نے کہانی ناقابل اشاعت کردی یا قاری کی طرف سے کچھ اچھا تبصرہ نہیں آیا۔ 
’’ میں کہانی کیسے لکھوں؟‘‘ کے تمام بنیادی اصول آپ کو معلوم ہوچکے ہیں۔ اب عملی طور پر’’مریخ نمبر‘‘ سے واپسی پر آپ کو کچھ سکھانے کی کوشش کریں گے۔تب تک کے لیے پچھلی اقساط کا بغور مطالعہ کریں۔ امید ہے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔ میں اپنی بات اس یہاں اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔۔۔

ناجانے لوگ کیوں میری بات سمجھ نہیں پاتے
میں احساس لکھتا ہوں لوگ الفاظ پڑھتے ہیں
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top