skip to Main Content

میں قائد اعظم بنوں گا

فوزیہ خلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے استاد صاحب نے مجھ سے کہا تھا تم محمد علی جناح ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’ خواجہ ٹاؤن، کوٹھی نمبر ۱۱۰ سے تمہیں ایک بچے کو اغوا کرنا ہے۔ تمہارا کام اسے اٹھا لانا ہے بس۔ باقی کام روڈن کا ہے تم کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ کوٹھی بہت بڑی ہے۔ عموماً بچے کے ماں باپ گھر پر نہیں ہوتے۔ وہ آئے دن پارٹیوں میں ہوتے ہیں۔ گھر پر ایک آیا ماں ہوگی۔ تم سات تاریخ کو رات دس بجے کے قریب پہنچ جاؤ گے۔ تین ملازم ہوتے ہیں۔ مالی، باورچی، اور چوکیدار۔ کوٹھی کے مالک کا نام غفران رندھا وا ہے۔ آج کل اس کو اپنے بچے کے لیے ٹیوٹر کی تلاش ہے۔ تم اپنے آپ کو ٹیوٹر ظاہر کرو گے۔ تمہیں یہ کہنا ہے کہ رندھاوا صاحب سے میری بات ہوچکی ہے۔ میں بچے سے ملاقات کروں گا۔ چوکیدار تم کو نہیں روکے گا۔ رات دس بجے مالی اور باورچی اپنے کام نبٹا کر اپنے کوارٹرز میں جا چکے ہوتے ہیں۔ سات تاریخ کو ایک بہت بڑی کانفرنس ہے۔ غفران رندھاوا اپنی بیگم کے ساتھ رات ۸ بجے کے قریب نکل جائے گا۔ اس کی واپسی ۱۲ بجے تک ہوگی۔ تمہارے پاس ٹھیک دو گھنٹے ہوں گے اور تمہارا کام آدھ پون گھنٹہ سے زائد کا نہیں ہوگا۔ کیوں کیا میں غلط کہہ رہا ہوں غوری؟‘‘
’’ نہیں باس۔ آپ کبھی غلط کہہ ہی نہیں سکتے۔‘‘ غوری بولا۔
’’غفران رندھاوا کے بھائی جبران رندھاوا کی وجہ سے یہ سارا چکر چلانا پڑ رہا ہے۔ اصل غرض ہم کو جبران رندھاوا سے ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب؟ باس میں سمجھا نہیں۔‘‘ غوری چونکا۔
’’غفران رندھاوا وغیرہ چار بھائی ہیں۔ چاروں کے ہاں پیسے کی ریل پیل ہے مگر کسی کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے۔ صرف غفران رندھاوا کے ہاں اولاد ہے۔یہ بچہ ان کے رندھاوا خاندان کا واحد وارث ہے اور جبران رندھاوا کی تو جان اپنے بھتیجے میں ہے۔‘‘
’’ یہ جبران رندھاوا وہی تو نہیں سپر ٹنڈنٹ جیل جبران رندھاوا؟‘‘
’’تم درست سمجھے غوری۔ یہ وہی ہے اور ہم کو اصل کام اسی جیلر سے ہے۔‘‘
’’اوہ۔ میں سمجھ گیا۔‘‘ غوری بولا۔
’’ چند دن پہلے میرے ایک نہایت قابل اعتماد ساتھی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اسی کو چھڑانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بس غوری تمہیں بتانے کے لیے اتنا بہت ہے۔ ادھر کا معاملہ دوسرے سنبھالیں گے۔ ہاں ایک کام کی بات رہ گئی۔‘‘
اچانک باس چونکا۔ پھر بولا۔
’’بچہ اغوا کرکے لانے کے تمہیں اس مرتبہ پورے دو لاکھ ملیں گے۔‘‘
غوری کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس نے کرسی سے پشت لگا کر آنکھیں بند کر لیں اور ماضی میں ڈوب گیا۔

*۔۔۔*

غوری گھر میں داخل ہوا تو گھر میں غیر معمولی سناٹا تھا۔ وہ جب بھی گھر میں داخل ہوتا تھا اس کا اکلوتا بیٹا محمد علی دوڑ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا تھا۔ پھر آج کیا بات ہے محمد علی کہاں ہے۔ وہ آگے بڑھا تو اسے اپنی بیوی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل تڑپ اٹھا۔
’’ کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟‘‘ وہ بھاگ کر کمرے میں داخل ہوا۔ محمد علی آنکھیں بند کیے بے سدھ پڑا تھا۔ اس کا جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ اس کی بیوی سرہانے بیٹھی رو رہی تھی۔
’’ صبح اس کو بہت معمولی بخار تھا۔ میں نے دوا پلا کر اسکول بھیج دیا تھا۔ میں چھٹی کرانا چاہ رہی تھی مگر یہ کسی طرح مانا ہی نہیں۔ اسکول چلا گیا۔ اب جب سے آیا ہے ایسے ہی پڑا ہے۔‘‘
’’ کیا بات ہے بیٹا ۔ آنکھیں تو کھولو۔‘‘ غوری نے تڑپ کر کہا۔ اسی وقت بچے نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔
’’بابا۔‘‘ اس نے آہستہ سے پکارا۔ غوری اس پر جھک گیا۔
’’بولو بیٹا۔ میں تمہارا ہر ہر لفظ سن رہا ہوں۔‘‘
’’ کل ۱۴ اگست ہے ناں۔ بابا۔اس نے پروگرام میں حصہ لیا ہے۔ میرے استاد صاحب نے کہا تھا کہ تم محمد علی نہیں بلکہ محمد علی جناح ہو۔ مجھے ڈرامہ میں قائد اعظم بنایا گیا ہے۔ میں کل بھی اسکول ضرور جاؤں گا۔ ‘‘ اس نے بہت آہستہ سے اپنی بات مکمل کی۔ غوری کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ’’ میں قائد اعظم بنوں گا۔‘‘محمد علی بولا۔
’’ ضرور ۔ ضرور۔‘‘ غوری نے خوش ہو کر کہا۔
محمد علی آنکھیں موند رہا تھا۔ وہ نیم غشی کے عالم میں تھا اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ غوری نے اسے کندھے پر ڈالا اور تیزی سے باہر بھاگا۔

*۔۔۔*

’’یہ تمام ٹیسٹ آپ کو ابھی کرانا ہوں گے۔ بچے کو ہوش نہیں آرہا ہے اور یہ تمام ٹیسٹ ہوں گے بارہ ہزار نو سو کے۔ پیسے ادھر کاؤنٹر پر جمع کرا دیں اور بچے کو اسپتال میں داخل کرا دیجئے۔ داخل کرنا ضروری ہے۔‘‘
غوری کو تمام اسپتال گھومتا محسوس ہوا۔ ایک کونے میں کھڑے ہو کر اس نے اپنی جیب سے تمام پیسے نکالے یہ دو سو آٹھ روپے تھے۔ آج بیس تاریخ تھی ابھی پہلی میں دس دن تھے۔ غوری ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیرہ تھا۔ اس کی چھ ہزار تنخواہ تھی۔ ڈھائی ہزار کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ بہت ہی مشکل سے مہینہ گزار پاتا تھا۔ عموماً مقروض ہی رہتا تھا۔ آئے دن دوست احباب، دودھ والے ، پرچون والے اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر چلاتے رہتے تھے۔ 
غوری کو امید تھی کہ اسے اب کہیں سے ادھار نہیں ملے گا اور دوائیں تو سب بعد کی باتیں تھیں۔ وہ کافی دیر اسپتال والوں کی منت سماجت کرتا رہا پھر وہ بچے کو لے کر اسپتال کے کونے میں بیٹھ گیا اور دیر تک بے آواز روتا رہا۔ محمد علی ان کی زندگی میں شادی کے دس سال بعد آیا تھا۔ ایک بہت خوبصورت اور ذہین بچہ۔ ایک محنتی طالبعلم اور فرمانبردار بیٹا۔ اسکول میں بھی تمام اساتذہ اسے بہت پسند کرتے تھے۔
غوری کافی دیر روتا رہا اور پھر بچے کو کندھے پر ڈال کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

*۔۔۔*

رات تک بچے کی حالت کافی تشویشناک ہو چکی تھی۔ وہ خون تھوک رہا تھا۔ محمد علی کے حلقہ احباب میں زیادہ تر اسی کی طرح کے غریب لوگ تھے۔ دس بارہ ہزار ان کے لیے بڑی رقم تھی۔ اچانک اس کو محمد علی کے پرنسپل صاحب کا خیال آیا وہ ان کے گھر روانہ ہو گیا۔
دروازہ کھٹکھٹا کر وہ کافی دیر کھڑا رہا۔ رات کے ۲ بج رہے تھے۔ غوری کا دل کسی پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ آخر ایک ملازم نے دروازہ کھولا اور اسے اندر لے گیا۔
تھوڑی دیر بعد پرنسپل صاحب اندر داخل ہوئے۔ غوری نے روتے ہوئے انہیں تمام واقعہ کہہ سنایا۔
’’ میں گھر پر بہت کم نقدی رکھتا ہوں۔ اس وقت میرے پاس پانچ ہزار روپے ہیں۔ البتہ میں محمد علی کے باقی اساتذہ سے رابطہ کرتا ہوں۔ امید ہے کچھ دیر میں مطلوبہ رقم جمع ہوجائے گی۔‘‘
پرنسپل صاحب بولے اور پھر وہ فون پر جھک گئے۔
تھوڑی دیر بعد کچھ اساتذہ آئے۔ کوئی ایک ہزار، کوئی پندرہ سو، کوئی دو ہزار لے کر آرہا تھا۔
اس تمام کاروائی میں رات کے چار بج گئے۔ اب غوری کے پاس پندرہ ہزار تھے۔
’’ میں آپ سب کا احسان مرتے دم تک نہیں بھولوں گا۔ آپ سب انسانی روپ میں فرشتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ کی اولادوں کو زندگیاں دے۔ میں اِن شاء اﷲ آہستہ آہستہ کرکے چند ماہ میں یہ قرض اتار دوں گا۔ ‘‘ غوری رو کر بولا۔
’’ رقم واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ محمد علی صرف آپ کا نہیں ہمارا بھی بیٹا ہے۔ جائیے اب دیر نہ کیجئے۔‘‘ پرنسپل صاحب بولے۔
اور غوری بھیگی آنکھوں سے وہاں سے روانہ ہو گیا۔

*۔۔۔*

غوری بے ہوش محمد علی کو لے کر اسپتال پہنچ چکا تھا۔ اس نے بچہ کو بستر پر لٹایا اور جیب سے رقم نکالنے لگا۔
’’یہ لیجئے۔ ڈاکٹر صاحب میں پیسے لے آیا ہوں۔ خدارا اب تو علاج شروع کر دیجئے۔‘‘
ڈاکٹر نے بہت الجھی ہوئی نظروں سے پہلے محمد علی کو اور پھر غوری کو دیکھا اور پھر آہستہ سے غوری کا شانہ تھپتھپانے لگا۔
’’ کیا ہوا ڈاکٹر صاحب۔‘‘ وہ پریشان ہو کر بولا۔
’’ ہمیں افسوس ہے مسٹر غوری۔ بچہ تو کئی گھنٹے پہلے دم توڑ چکا ہے۔ آپ نے لانے میں تاخیر کر دی۔ ‘‘ ڈاکٹر نے بہت اطمینان سے اپنا جملہ مکمل کیا اور پلٹ کر دوسرے مریض کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’ نہیں۔۔۔ نہیں ڈاکٹر صاحب۔‘‘ غوری نے اچھل کر ڈاکٹر کا گریبان پکڑ لیا۔
’’ تم لوگوں نے میرے بچے کو جان بوجھ کر مارا ہے۔ تاخیر میری وجہ سے نہیں تاخیر تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘
وہ ڈاکٹر کا گریبان پکڑ کر اسے زور زور سے جھنجھوڑنے لگا۔ غوری حواس میں نہیں تھا۔ وہ ہوش و حواس سے بالکل بے گانہ تھا۔ اس نے ڈاکٹر کو زور سے دھکا دیا۔ ڈاکٹر کا سر میز سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر ڈاکٹر کے بے ہوش ہونے سے قبل ہی غوری خود صدمے سے بے ہوش ہو چکا تھا۔

*۔۔۔*

غوری کو ہوش آیا تو وہ ٹھنڈے فرش پر پڑا تھا۔ پولیس والے اس کے نزدیک تھے۔
’’ یہ قتل کا مجرم ہے۔ اس نے ڈاکٹر کو قتل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر کو سر میں اس زور سے چوٹ لگی تھی کہ ڈاکٹر بچ نہیں پایا۔ ہم کو ثبوت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ بیسیوں افراد نے اپنی آنکھوں سے اس کو قتل کرتے دیکھا ہے۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا۔
’’ یہ قتل کا مجرم ہے۔ یہ قتل کا مجرم ہے۔ یہ قتل کا مجرم ہے۔‘‘ غوری ہسٹریائی انداز میں چلانے لگا۔
’’وہ غوری جو کبھی کسی کو تھپڑ نہ مار سکے اس غوری نے قتل کر دیا۔ ہاں۔ وہ غوری آج قاتل بن گیا ہے۔ اب غوری کی بیوی کیا کرے گی۔ اپنے شوہر اور بیٹے کے بغیر کیسے جیے گی۔‘‘ وہ چلا چلا کر رونے لگا۔ پھر زور زور سے ہنسنے لگا اور ہنستا چلا گیا۔ اسے سکون کا انجکشن لگا دیا گیا اور ایک بار پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔

*۔۔۔*

 

غوری کو دس سال کی سزا سنا دی گئی تھی۔ دس سال۔۔۔ دس سال اس نے جیل میں گزارے۔ دس سال میں وہ واقعی ایک مجرم بن گیا۔ باس روڈن، شالا سب اس کے جیل کے ساتھی تھی۔ عادی مجرم۔ پکے مجرم ۔ انہوں نے غوری کو بھی مجرم بنا دیا تھا۔
دس سال بعد جب غوری جیل سے نکلا تو اسے کہیں روزگار نہ ملا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔ وہ بالکل تنہا تھا۔ ایسے میں باس روڈن ، شالا وغیرہ نے اس کو سنبھالا۔ اب قتل، اغواء، ڈکیتی سب اس کے لیے آسان کام ہو گئے تھے۔ اب وہ باس کا ایک قابل اعتماد ساتھی تھا۔ جس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا۔ غوری بھول چکا تھا کہ کبھی وہ ایک ہمدرد شوہر اور پیار کرنے والا باپ تھا۔ بیوی کی موت کی خبر سن کر اس نے اپنے محمد علی کی یادوں کو بھی کھرچ کھرچ کر دل سے نکال دیا تھا۔اب اس کو صرف ایک ہی بات یاد تھی اور یہ کہ وہ باس کا ساتھی ہے۔ قابل اعتماد ساتھی۔

*۔۔۔*

خواجہ ٹاؤن ، کوٹھی نمبر ۱۱۰ کے قریب پہنچ کر اس نے گھڑی دیکھی۔ ٹھیک دس بج رہے تھے۔ کوٹھی کے پچھلے حصہ پر پہنچ کر اس نے روڈن کو فون ملایا۔
’’ہاں روڈن۔ کہو سب خیریت ہے۔‘‘
’’ہاں غوری ۔ غفران رندھاوا کی کوٹھی میں سب خیریت ہے۔ غفران رندھاوا اپنی بیوی سمیت جا چکا ہے۔ بلکہ میں نے تمہارا کام اور آسان کر دیا ہے۔ یار غوری اب تمہیں چوکیدار سے نبٹنے کی بھی ضرورت نہیں۔ میں اس کو اندر لمبا لٹا آیا ہوں۔ ٹھیک بارہ بجے اغوا کے بعد تم مجھے فون کرو گے۔ میں اس وقت سپرٹنڈنٹ جیل جبران رندھاوا کے پاس ہوں گا۔ فون پر اس کی بچے سے بات کروائی جائے گی۔ یعنی غفران رندھاوا کے بچے سے بات کروائی جائے گی کہ اگر بچے کی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے ساتھی روبن کو چھوڑ دو۔ ورنہ ہم بچے کو ہلاک کر دیں گے۔ ویسے تو یہ جیلر بڑا ایماندار بنتا ہے مگر اب اس کی تمام اکڑ نکل جائے گی۔ اچھا غوری! اب تم اپنا کام کرو۔‘‘ سلسلہ کاٹ دیا گیا تھا۔ غوری کے لیے اندر داخل ہونا کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہوا۔ وہ اندر آرام سے داخل ہو گیا۔ اس نے گیٹ میں کنڈی لگائی اور لان عبور کرکے سامنے کمرے کی طرف آگیا۔ کمرے میں لائٹ جل رہی تھی۔ کھڑکی سے جھانکا تو اندر بستر پر سفید بالوں والی آیا ماں سوئی ہوئی نظر آرہی تھی۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ اندر سے بچے کی بہت پیاری آواز باہر آرہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بچہ کوئی کتاب پڑھ کر کسی کو سنا رہا ہے۔ غوری بلا ارادہ سننے لگا ۔ وہ پڑھ رہا تھا۔
’’قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح کی عمر ۷۱ سال تھی وہ بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکے تھے۔ انہیں آرام کی غرض سے کوئٹہ لے جایا گیا جہاں کی آب و ہوا نے آپ پر کافی اچھا اثر کیا ۔ ایک دن قائد اعظم کے معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے کہا۔
’’ہماری پوری کوشش ہے کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہو جائے جتنی آج سے سات آٹھ سال پہلے تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح مسکرائے اور فرمایا:
’’چند سال پہلے یقیناًمیری یہ آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں اس لیے نہیں کہ میں موت سے ڈرتا ہوں بلکہ اس لیے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نے جس کام کے لیے مجھے مقرر کیا ہے۔ میں اسے اپنی زندگی میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ اب وہ کام پورا ہو چکا ہے۔ میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوں۔ پاکستان بن گیا ہے۔ اس کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ قوم کو جس چیزکی ضرورت تھی، وہ قوم کو مل گئی۔ اب قوم کا یہ کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرکے اسے ناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنا دیں۔ میں طویل سفر کے بعد تھک گیا ہوں۔ آٹھ سال تک مجھے قوم کے اعتماد و تعاون سے عیار اور مضبوط دشمنوں سے تنہا لڑنا پڑا ہے۔ میں نے اﷲ کے بھروسے پر انتھک کوشش اور محنت کی ہے اور پاکستان کے حصول کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر دیا ہے۔ میں آرام چاہتا ہوں، اب مجھے زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
قائد اعظم کے دوسرے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ اور کرنل الٰہی بخش نے ایک ساتھ کہا۔
’’ خدا آپ کو تادیر پاکستان کی رہنمائی کے لیے زندہ رکھے۔ آپ کے بعد کون ہے جو قوم کی کشتی کو اس بھنور سے نکال کر فتح کے ساحل تک لے جاسکتا ہے۔ ‘‘
قائد اعظم کی آنکھ سے ایک موٹا سا چمکدار آنسو نکل کر مسہری پر گرا اور انہوں نے کمبل سے منہ ڈھانپ لیا۔‘‘
بچہ خاموش ہو گیا تھا۔ غوری نے محسوس کیا جیسے بچہ رو رہا ہو۔ غوری نے کھڑکی پر دباؤ ڈالا۔ کھڑکی کھل گئی۔ وہ بے آواز اندر کود گیا۔ وہ ایک بہت ہی خوبصورت اور معصوم سا بچہ تھا۔ وہ اپنی سوئی ہوئی آیا ماں کو کتاب پڑھ کر سنا رہا تھا۔ بچے کی پشت ، غوری کی جانب تھی۔ اس کے سنہری بال کانوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ غوری نے سنا بچہ رندھی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
’’ پیارے قائد اعظم ۔ آپ نے کتنی قربانیاں دیں ۔ کیا ہم اس مملکت کے لیے کچھ کر پائے اب یہاں کیا ہے۔ قتل ۔ ڈکیتی ۔ اغوا۔۔۔ پیارے قائد اعظم میں بڑا ہو کر اپنے وطن کو ان لوگوں سے پاک کروں گا۔ قاتلوں سے ڈاکوؤں سے۔‘‘
غوری خاموش کھڑا تھا۔ وہ محسوس کررہا تھا اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ دو قدم چل کر بچے کے مدمقابل آکھڑا ہوا ۔ غوری نے پیارے بچے کی جانب دیکھا۔
’’ آپ کون ہیں انکل؟‘‘ بچے نے اسے حیران ہو کر دیکھا۔
’’ میں تمہارا ٹیوٹر ہوں۔ تمہار ا کیا نام ہے؟‘‘
’’ میرا نام محمد علی ہے۔ بلکہ نہیں میں محمد علی جناح ہوں۔ کل میرے اسکول میں ڈرامہ ہے مجھے قائد اعظم بنایا گیا ہے۔ میں قائد اعظم بنوں گا۔‘‘
’’ میں قائد اعظم بنوں گا۔ میں قائد اعظم بنوں گا۔ میں قائد اعظم بنوں گا۔‘‘ غوری کو ایسا لگا جیسے کوئی چیخ چیخ کر یہ فقرہ بار بار اس کے کان میں کہہ رہا ہو۔
غوری زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں محمد علی کے ہاتھوں کو تھام لیا۔
’’ پیارے محمد علی۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں لمبی زندگی دے اور تمہارے والدین کا کلیجہ ہمیشہ ٹھنڈا رکھے۔‘‘
غوری نے جھک کر بچے کا ماتھا چوما اور کھڑکی سے کود کر اندھیرے میں گم ہو گیا۔

*۔۔۔*

 

’’جیلر صاحب یہ کام تمہارے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ صرف ایک حکم کی دیر ہے اور روبن کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ورنہ پھر تمہارا بھتیجا۔۔۔‘‘ روڈن کی آواز گونج رہی تھی۔ ’’لمحوں میں فیصلہ کر لو۔‘‘
’’مسٹر روڈن فیصلہ کرنا میرے لیے ذرا مشکل کام نہیں ہے۔ میں ایسے فیصلوں میں ذرا نہیں ہچکچاتا۔ میں اپنے وطن عزیز پر اپنے لاکھوں بھتیجے قربان کر سکتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے مسٹر روڈن۔ تم نے ایک غلط شخص کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ جیلر صاحب کی پرسکون آواز غوری کے کانوں سے ٹکرائی۔ غوری کان لگائے باہر ہی کھڑا تھا۔
’’ مجھے اشتعال مت دلاؤ۔ جیلر۔ جلدی کرو۔ دیر مت لگاؤ۔‘‘ روڈن نے اپنا پستول جیب سے نکال لیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے موبائل کے نمبر ملائے اور بولا۔ 
’’ لو جیلر ۔ اپنے بھتیجے سے بات کرو۔‘‘
’’ میں کہہ چکا ہوں روڈن۔ میں تم کو اپنا فیصلہ بتا چکا ہوں۔ تم جو کر سکتے ہو کر لو۔‘‘
’’ میں تمہیں مار کر روبن کو لے ہی جاؤں گا۔ تم خود بھی مرو گے اور بچہ بھی۔‘‘ روڈن بولا۔
’’ ایک ۔۔۔ دو ۔۔۔ تین۔‘‘ تین کے بعد اس سے قبل کہ روڈن کا پستول گولی اگلتا ، غوری کے پستول سے گولی نکلی اور روڈن کے ٹھیک سینے پر لگی۔ سرخ سرخ خون تیزی سے بہنے لگا۔
’’ پیارے محمد علی۔ تم اپنے وطن کو قاتلوں سے، ڈاکوؤں سے ، لٹیروں سے پاک کرو گے تو تم مجھے اپنا ہم قدم پاؤ گے۔ پیارے محمد علی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘ 
غوری نے آہستہ سے کہا اور باہر مڑ گیا۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top