skip to Main Content

مینڈک کا آپریشن۔۔۔۔۔۔!

محمدعلی ادیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بائیو لوجی کے پریڈ میں آج لیبارٹری میں مینڈک کا آپریشن کرنے کا پرٹیککل تھا۔ اس لیے تمام طالب علم بناکر لیبارٹری روم کی طرف جا رہے تھے۔جہاں پر سر اُن کا پہلے سے منظر تھے۔ تمام طالب علموں کے آجانے کے بعد لیبارٹری روم کا معاون اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ اُس نے باری باری تمام طالب علموں کے سامنے ایک ایک عدد مینڈک رکھ دیا۔اس کے ساتھ آلات جرائی(ڈائی سیکشن بکس) بھی تھا۔
’’آپ کے سامنے ایک عدد مینڈک ہے۔جس کا آج ہم نے آپریشن کرنا ہے۔‘‘سر کے یہ جملے کئی طالب علموں کے چہروں پر رونق لے آئے تھے اور چند ایسے بھی تھے جن کے چہروں پر پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔وہ سوچ رہے تھے کہ ہم نے کبھی مچھر نہیں مارا یہ مینڈک کی چیرپھاڑکیسے کریں گے۔ان ہی سوچوں کے ساتھ سر نے عملی تجربہ کرنا شروع کر دیا۔’’سب سے پہلے آپ مینڈک کے منہ سے نیچے ایک کٹ پیٹ تک لے کر جائیں گے۔ اُس کے بعد مختلف عضو کا معائنہ کرنا شروع کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘سر ایک ایک عضو کے بارے میں بتاتے
جارہے تھے۔اُنہوں نے اس عملی کام کو پورا کرنے کے لیے فزکس کا پریڈ بھی لے لیا تھا۔ بالاآخر وہ آپریشن کو ختم کرنے کے بعد ایک کامیاب نگاہ اپنے طالب علموں پر ڈال رہے تھے جوعملی کام میں ابھی بھی مصروف تھے۔
’’اُمید ہے آپ کو مینڈک کی چیر پھاڑ سمجھ میں آگئی ہو گئی۔‘‘سر نے سارے طالب علموں کو متوجہ کرتے ہوئے پوچھا
’’جی سر!‘‘تمام طالب علموں نے ایک زبان میں جوا ب دیا۔

*****

سرمد بیٹا! آج کیا پڑھایا گیا ہے؟ ‘‘ سرمد کی امی نے پوچھا
’’امی جی!آج کچھ پڑھایانہیں بلکہ آپریشن کرنا سکھایا گیا ہے۔‘‘ سرمد کو معلوم تھا کہ اُس کی اس کی امی یہ سوال ضرور پوچھیں گئیں،کیونکہ ہر دن امی اُس سے کچھ پوچھیں نہ پوچھیں یہ ضرور پوچھتی تھی۔اس لیے وہ ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ سرمد کی امی دیہات کی سیدھی سادی سی خاتون تھی۔جو صرف گھریلو کاموں اور بچوں کی تربیت میں مصروف عمل رہتی تھی۔
’’کس کا آپریشن کر کے آئے ہو؟‘‘ امی نے پریشانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
’’بس امی! ایک مینڈک میرے پاس آیاتھا۔اُس نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گردے میں پتھری ہوگئی ہے میرا آپریشن کردو۔اس لیے مجھے اُس مصعوم پر ترس آگیا اور آپریشن کر دیا۔‘‘ سرمد نے بھلا کی مصعومیت چہرے پر لاتے ہوئے جواب دیا۔
’’چل شریر کہیں کا،اپنی ماں سے مذاق کرتا ہے۔‘‘ امی نے پیار کرتے ہوئے کہا
’’امی !ان باتوں میں مجھے یاد ہی نہیں رہا ہے کہ آج میرا فٹ بال کا میچ ہے۔میں جا رہا ہوں۔‘‘سرمد نے سامنے کیلنڈر پر نظر ڈالی جس پرلال گول نشان بنا ہوا تھا،جومیچ کھیلنے کا دن تھا۔

*****

’’یار میرے پاؤں میں بہت درد ہو رہا ہے۔ذرا آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔‘‘سرمد نے اپنے دوست سے کہا
’’یار میں نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ تم اپنے پاؤں سے ٹھیک طرح سے ہٹ نہیں لگا پا رہے تھے۔‘‘دوست نے بھی اپنے خیال بیان کیا
’’چلو!وہ سامنے تو اب میرا گھر ہے ۔ گھر جا کر پاؤں کو دیکھتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہے۔‘‘
سرمد کے دوست نے اُسے گھر چھوڑا اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگیا تھا۔ جو دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔

*****

’’ارے۔۔۔۔۔۔۔یہ کیاہو ا ہے؟میرا انگھوٹھے کا ناخن پھول کر کُپا ہو گیا ہے؟‘‘ سرمد نے اپنے پاؤں کو دیکھا اور خود کلامی کی اس دوران میں امی نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔
’’سرمد بیٹا! آج سکول نہیں جانا کیا؟‘‘
’’امی ! یہ دیکھیں میرا پاؤں!‘‘ سر مدنے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’یہ کیا ہوا ہے؟‘‘ امی نے پاؤں کی سوجن دیکھتے ہوئے پوچھا
’’مجھے کیا پتہ امی ! کل رات سے ناخن میں شدید درد ہو رہی تھی۔صبح اُٹھ کر دیکھا تو یہ صور ت حال بنی ہوئی تھی۔‘‘سر مد نے جواب دیا
’’مجھے لگتا ہے کہ ناخن کی جڑ ٹوٹ گئی ہے۔اس وجہ سے ناخن میں پیپ بھر گئی ہے۔‘‘امی نے پاؤں کے انگھوٹھے کا معائنہ کرتے ہوئے کہا
’’اب میں کیا کروں؟‘‘سرمد نے پریشانی سے پوچھا
’’تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔وہ ناخن کو دیکھ کر ہی علاج کریں گے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ تمھارے ناخن کا آپریشن ہوگا۔‘‘ امی نے آخری جملہ سرمد کو چھیڑنے کے لیے بول دیا ۔
’’نہیں امی!اﷲ کے لیے ایسا نہ کہیں،میں اپنے ناخن کا آپریشن نہیں کرواں گا۔‘‘ سرمد نے ڈرتے ہوئے کہا
’’یہ تو بیٹا ڈاکٹر تم سے بہتر جانتے ہیں۔چلو ناشتہ کر لو پھر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔‘‘امی نے پیار سے سر کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا
سرمد مرے مرے قدموں کے ساتھ تیا ر ہوا اور بجھے ہوئے دل سے ناشتہ کیا۔ اُ س کے ذہن میں یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ میں آپریشن نہیں کرواں گا۔امی بھی گھر کے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر سرمد کے پاس آگئی۔
’’چلو،ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘امی نے محبت بھرے انداز میں کہا
’’چلیں! جسے آپ کی مرضی ہو۔‘‘ سرمدنے جواب دیا
ڈاکٹر راشد محمود ان کے فیملی ڈاکٹر تھے۔جب بھی گھر میں کوئی بیمار ہوتا۔امی اُسے ڈاکٹر راشد محمود کے کلینک پر لے جاتیں تھیں۔اﷲ تعالی نے اُن کے ہاتھوں میں شفارکھی ہوئی تھی۔وہ بچوں کی بیماری کے ماہر ڈاکٹر تھے۔اس کے علاوہ وہ ایک سرجن بھی تھے۔شام کے وقت وہ
ہسپتال میں ہوتے تھے اور صبح اپنا کلینک چلاتے تھے۔سرمد نے ٹوکن نمبر لیا اور امی کے ساتھ بینچ پربیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد ہی اُن کا نمبر آگیا۔
’’سرمد بیٹا! کیا ہوا ہے؟‘‘ڈاکٹر راشد نے مشفقانہ لہجے میں پوچھا
’’میرے پاؤں کا ناخن خراب ہوگیا ہے،چلنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔‘‘ سرمد نے وضاحت سے تکلیف بتائی۔
ڈاکٹر راشد نے ناخن کا بغور معائنہ کیا اور کاغذ پر کچھ لکھنے لگے۔ڈاکٹر راشد نے امی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا’’ سرمد کے ناخن میں انفکیشن ہوگیا ہے۔ چند دنوں تک پٹی ہوگی جس سے زخم خشک ہوجائے گا۔اس کے بعد ایک چھوٹا سا آپریشن ہوگا۔اس سے ناخن کو کاٹ کر باہ نکال لیا جائے گا۔‘‘
امی نے غور سے ڈاکٹر راشد کی بات سنی اور کہنے لگیں’’ کوئی بات نہیں ہے۔سرمد خود آپ سے پٹی کرواتا رہے گا۔ کب آپریشن کروانا ہے ،مجھے بتا دیں۔‘‘
ڈاکٹر راشد نے ایک بار پھر معائنہ کرتے ہوئے کہا’’انشاء اﷲ اس کا آپریشن تین دن کے بعد ہوجائے گا۔ ابھی آپ اس کی پٹی کروالیں۔‘‘

*****

آج تیسرا اور آخری دن تھا۔جب سرمد نے اپنی پٹی کروانی تھی۔کل اُس کے پاؤں کے ناخن کا آپریشن تھا۔ سرمد کو رہ رہ کر مینڈک کا آپریشن یا د آرہا تھا۔جو اُس نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کیا تھا۔سرمد نے بڑے بے رحمانہ طریقے سے آپریشن کیا تھا۔اُس کی وجہ سے سرمد کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھاکہ شاید ڈاکٹر راشد میرے ناخن کے ساتھ ایسے کچھ نہ کر دیں۔اس بات کا اندازہ سرمد کی امی نے بھی لگا لیا تھا۔

*****

سرمد کلینک میں لگے ہوئے بستر پر لیٹا ہو اتھا۔اب انتظار صرف ڈاکٹر راشد کا تھا جو مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ایک ایک پل سرمد پر صدیوں جیسا گزار رہا تھا ۔آدھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر راشدسرمد کے پاس آئے۔پہلے ناخن کا اچھا طرح معائنہ کیا۔ایک نظر سرمد کو دیکھا جو بہت ڈراہو ا تھا۔

’’ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تمھارے پاؤں کو سُن کیا جائے گا۔اس سے تمھیں کوئی درد نہیں ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’سچی بات ہے! کوئی درد نہیں ہوگا۔‘‘ سرمد نے ڈرتے ڈرتے ہوئے پوچھا

’’جی بالکل! آپریشن میں آپ مجھ سے بات بھی کرسکتے ہیں۔اس سے آپ کا دھیان زخم کی بجائے مجھ پر ہوجائے گا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے انگھوٹھے کو ربڑ کی باریک نالی سے زور سے باندھ دیا تاکہ خون بندھ ہوجائے۔اس کے بعد زخم میں سُن کرنے والا ٹیکہ لگایا۔اس دوران سرمد کو بہت تکلیف ہوئی جس کا اظہار اُس نے ایک زور دار چیخ سے کیا۔

’’بس شاباش ہو گیا ہے،تم یہ بتاؤ کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر راشد نے سرمد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا

’’میٹرک!‘‘ سرمد نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔

’’مینڈک کا چیر پھاڑ کر لیا ہے۔‘‘ ڈاکٹرراشد نے پوچھا

’’جی!!!‘‘سرمد نے اکڑتے ہوئے کہا

’’چلو !اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ادھر دیکھو کوئی درد محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا

’’درد تو نہیں!بس کوئی پن لگنے کا احساس ہو رہا ہے۔‘‘ سرمد نے آنکھیں کھول کر ڈاکٹر راشد کی طرف دیکھاجو کسی چیز سے زخم کاٹ رہے تھے۔سرمد کے ذہن میں اچانک ایک سوال آیا کہ یہ جس آلات سے زخم کاٹ رہے ہیں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہو گی اور اپنا یہ خیال ڈاکٹر راشد پر ظاہر کر دیا۔’’یہ چیر پھاڑ کے آلات کس کی ایجاد ہیں،میرے خیال میں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہوگے۔‘‘

’’تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ آلات کسی انگریز نے نہیں بلکہ ایک مسلمان سائنس دان نے ایجاد کیے تھے۔اُس کا نام یوحنا بن ماسویہ تھا۔‘‘

’’دنیا کا پہلا سرجن کون ہے؟جس نے جسم کو چیر پھاڑ کر معلوم کیا کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں؟‘‘ سرمد اپنے تکلیف بھو ل کر اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے سوال پوچھنے لگا۔

’’دنیا کا پہلا سرجن بھی یوحنا بن ماسوریہ تھا۔یہ عباسی خلیفہ کا شاہی طیب تھا۔عباسی خلیفہ نے کچھ بن مانس دیے اور حکم دیا کہ ان کے جسم کو چیر کر معلوم کرو کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں۔یوحنا بن ماسوریہ نے شاہی حکم کے مطابق بن مانس کا جسم چیر کر اس کے اندرونی اعضا ء کی نوعیت اور مقدار معلوم کی۔چیرپھاڑ کو انگریزی میں ڈائی سیکشن کہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے وضاحت کے ساتھ جواب دیا اور آہستہ آہستہ کر کے خراب ناخن کو کاٹنے لگے۔

’’ آخر بن مانس کیوں دیے۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ سرمد نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا

’’بن مانس کی بناوٹ انسانوں سے ملتی جلتی ہے شاید اس لیے دیے ہوں گے۔ ویسے ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہندی میں بن کا مطلب جنگل اورمانس کا مطلب آدمی کو لیا جاتا ہے ۔اس طرح بن مانس کا پورا مطلب ہوا جنگل کا آدمی۔‘‘ ڈاکٹر راشد روئی سے خون صاف کرنے لگے۔ اُنہوں نے بھی ناخن کی چیر پھاڑ کو ختم کر دیا تھا۔اب اُن کا کمپاڈر سرمد کے پاس بیٹھا پٹی کر رہا تھا۔

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ،ایک تو میرا ڈر ختم ہوگیا اور دوسرا مجھے اتنی اچھی معلومات بھی فراہم ہوگئیں۔‘‘سرمد نے مسکراتے ہوئے کہا

’’ارے بیٹا!یہ تو میرا کام ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشدنے پیار بھرے انداز میں کہا

*****

سرمد کلینک میں لگے ہوئے بستر پر لیٹا ہو اتھا۔اب انتظار صرف ڈاکٹر راشد کا تھا جو مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ایک ایک پل سرمد پر صدیوں جیسا گزار رہا تھا ۔آدھ گھنٹے کے بعد ڈاکٹر راشدسرمد کے پاس آئے۔پہلے ناخن کا اچھا طرح معائنہ کیا۔ایک نظر سرمد کو دیکھا جو بہت ڈراہو ا تھا۔
’’ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تمھارے پاؤں کو سُن کیا جائے گا۔اس سے تمھیں کوئی درد نہیں ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
’’سچی بات ہے! کوئی درد نہیں ہوگا۔‘‘ سرمد نے ڈرتے ڈرتے ہوئے پوچھا
’’جی بالکل! آپریشن میں آپ مجھ سے بات بھی کرسکتے ہیں۔اس سے آپ کا دھیان زخم کی بجائے مجھ پر ہوجائے گا۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے انگھوٹھے کو ربڑ کی باریک نالی سے زور سے باندھ دیا تاکہ خون بندھ ہوجائے۔اس کے بعد زخم میں سُن کرنے والا ٹیکہ لگایا۔اس دوران سرمد کو بہت تکلیف ہوئی جس کا اظہار اُس نے ایک زور دار چیخ سے کیا۔
’’بس شاباش ہو گیا ہے،تم یہ بتاؤ کس کلاس میں پڑھتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر راشد نے سرمد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا
’’میٹرک!‘‘ سرمد نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔
’’مینڈک کا چیر پھاڑ کر لیا ہے۔‘‘ ڈاکٹرراشد نے پوچھا
’’جی!!!‘‘سرمد نے اکڑتے ہوئے کہا
’’چلو !اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ادھر دیکھو کوئی درد محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا
’’درد تو نہیں!بس کوئی پن لگنے کا احساس ہو رہا ہے۔‘‘ سرمد نے آنکھیں کھول کر ڈاکٹر راشد کی طرف دیکھاجو کسی چیز سے زخم کاٹ رہے تھے۔سرمد کے ذہن میں اچانک ایک سوال آیا کہ یہ جس آلات سے زخم کاٹ رہے ہیں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہو گی اور اپنا یہ خیال ڈاکٹر راشد پر ظاہر کر دیا۔’’یہ چیر پھاڑ کے آلات کس کی ایجاد ہیں،میرے خیال میں ضرور کسی انگریز کی ایجاد ہوگے۔‘‘
’’تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ آلات کسی انگریز نے نہیں بلکہ ایک مسلمان سائنس دان نے ایجاد کیے تھے۔اُس کا نام یوحنا بن ماسویہ تھا۔‘‘
’’دنیا کا پہلا سرجن کون ہے؟جس نے جسم کو چیر پھاڑ کر معلوم کیا کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں؟‘‘ سرمد اپنے تکلیف بھو ل کر اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے سوال پوچھنے لگا۔
’’دنیا کا پہلا سرجن بھی یوحنا بن ماسوریہ تھا۔یہ عباسی خلیفہ کا شاہی طیب تھا۔عباسی خلیفہ نے کچھ بن مانس دیے اور حکم دیا کہ ان کے جسم کو چیر کر معلوم کرو کہ اندرونی اعضا کتنے اور کیسے ہیں۔یوحنا بن ماسوریہ نے شاہی حکم کے مطابق بن مانس کا جسم چیر کر اس کے اندرونی اعضا ء کی نوعیت اور مقدار معلوم کی۔چیرپھاڑ کو انگریزی میں ڈائی سیکشن کہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر راشد نے وضاحت کے ساتھ جواب دیا اور آہستہ آہستہ کر کے خراب ناخن کو کاٹنے لگے۔
’’ آخر بن مانس کیوں دیے۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ سرمد نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
’’بن مانس کی بناوٹ انسانوں سے ملتی جلتی ہے شاید اس لیے دیے ہوں گے۔ ویسے ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہندی میں بن کا مطلب جنگل اورمانس کا مطلب آدمی کو لیا جاتا ہے ۔اس طرح بن مانس کا پورا مطلب ہوا جنگل کا آدمی۔‘‘ ڈاکٹر راشد روئی سے خون صاف کرنے لگے۔ اُنہوں نے بھی ناخن کی چیر پھاڑ کو ختم کر دیا تھا۔اب اُن کا کمپاڈر سرمد کے پاس بیٹھا پٹی کر رہا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا بہت بہت شکریہ،ایک تو میرا ڈر ختم ہوگیا اور دوسرا مجھے اتنی اچھی معلومات بھی فراہم ہوگئیں۔‘‘سرمد نے مسکراتے ہوئے کہا
’’ارے بیٹا!یہ تو میرا کام ہے۔‘‘ ڈاکٹر راشدنے پیار بھرے انداز میں کہا

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top