skip to Main Content
مکھنا ہاتھی کا شکار

مکھنا ہاتھی کا شکار

حبیب اللہ بیگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

47ء کا ذکر ہے کہ ہم لوگ ٹھاکر پھول سنگھ کی دعوت پر ان کے علاقے میں شکار کھیلنے گئے۔ ٹھاکر صاحب تمائی کے ایک بڑے زمیندار ہیں اور عظمت ماموں کے پرانے دوست ہیں۔
اس شکار کے لئے ہم لوگوں نے خاص طور پر کالج سے دس چھٹیاں لی تھیں۔ انہیں دنوں عظمت ماموں بھی رخصت پر گورکھپور سے آئے ہوئے تھے۔ ایک دن صبح کوئی نو بجے ہم لوگ کالا ڈھونگی روڈ پر مرغابیاں اور تیتر مارنے گئے اور تقریباً ڈیڑھ میل کے اندر ہم نے چار پانچ مرغابیاں اور تین بھورے تیتر مار لئے۔ دھوپ ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نومبر کی سردی سے منجمد خون رگوں میں حرکت کرنے لگا تو ہم لوگوں کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہوگئے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے اور چائے پینے کی تجویز بالاتفاق منظور کی گئی اور ایک سڑک کے کنارے ہم لوگ موٹر سے اُتر پڑے۔ ہادی خاں باورچی نے چولہا اور چائے کا سامان نکالا اور اپنا کام شروع کردیا۔
اس وقت چائے ہم کو دنیا کی عزیز ترین چیز معلوم ہورہی تھی۔ سردی کے اثر سے نیلے ہونٹ، ٹھنڈے کان اور اکڑی ہوئی انگلیاں اپنی اصلی حالت میں آگئیں۔
آپس میں مزے مزے کی باتیں ہورہی تھیں کہ سڑک کے اُلٹے ہاتھ کی طرف کے جنگل میں سے ایک آدمی کے بری طرح چیخنے کی آواز آئی۔ ہمارے ہاتھوں کی پیالیاں گرتے گرتے رہ گئیں۔ لیکن ہمارے سنبھلنے سے پیشتر ٹھاکر اور عظمت ماموں جنگل میں آواز کی سمت پر داخل ہوچکے تھے۔
ہم لوگوں نے بھی جلدی جلدی بندوقیں اُٹھائیں، گراب کے کارتوس بھرے اور اس طرف چل دیئے۔ مگر اب نہ تو کوئی آواز آرہی تھی اور نہ ہی عظمت ماموں اور ٹھاکر صاحب کا پتا چل رہا تھا کہ وہ کدھر گئے ہیں۔ اس لئے دس پندرہ منٹ تک ہم لوگ اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ ایکا ایکی ہمیں فائر کرنے کی آواز آئی اور اس کے تھوڑی دیر بعد عظمت ماموں کی سیٹی سنائی دی، ہم فوراً ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ گھاس کے ایک چھوٹے سے میدان کے کنارے عظمت ماموں اور ٹھاکر صاحب جھکے ہوئے کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ ہم لوگ بھی دوڑتے دوڑتے وہاں پہنچے، دیکھا تو ایک آدمی بے ہوش پڑا ہے، اس کا سر پھٹا ہوا تھا اور عظمت ماموں رومال سے اس کا خون صاف کررہے تھے۔۔۔
’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘ ہم نے ایک دم سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
یہ شخص کسان معلوم ہوتا تھا اس کا ماتھا بری طرح زخمی تھا، اس کے پٹی وغیرہ باندھنے کے بعد جمیل صاحب نے اس کو گود میں اُٹھالیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم موٹر پر پہنچ گئے اور زخمی کو اندر لٹادیا۔
ہمارے اصرار پر عظمت صاحب نے بتایا کہ جب ہم اس میدان کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک مکھنے ہاتھی نے اس شخص کو سونڈ میں اُٹھا رکھا تھا اور وہ اسے اِدھر اُدھر اُچھال رہا تھا۔ ہم نے جب ہوائی فائر کیا تو وہ اس کو بڑے زور سے ایک طرف پھینک کر بھاگ گیا۔ یہ ایک پیڑ سے ٹکرا گیا جس سے اس کا سر پھٹ گیا ہے اور ایک کولہا اُتر گیا۔۔۔‘‘
ٹھاکر صاحب بتانے لگے ’’یہ ہاتھی ریکارڈ شدہ ہے۔ اس نے گاؤں کے گاؤں تباہ کردیئے ہیں۔ میرے علاقے کے بعد چار آدمی اس نے مار ڈالے ہیں۔ اس کے واسطے پانچ سو روپے انعام سرکاری طرف سے مقرر ہے۔۔۔‘‘۔
’’جسونت نگر‘‘ تک پہنچتے پہنچتے ٹھاکر صاحب نے ہاتھی کی تباہ کاریوں کی کئی داستانیں سنادیں۔
اس شخص کو جب ہلدوانی ہاسپٹل میں بھیجا گیا تو اسے سمجھا دیا گیا کہ تم یہ نہ کہنا کہ مجھے ہاتھی نے زخمی کردیا ہے، بلکہ یہ کہہ دینا کہ میں پیڑ سے گرگیا تھا۔
اسی دن عظمت ماموں، فاریسٹ آفس گئے، تاکہ اس ہاتھی کے مارنے کی اجازت لے لیں۔ مگر انہوں نے اجازت نہ دی، کیونکہ ان کے پاس ہاتھی کے شکار کے قابل بھاری بور کی رائفل نہ تھی۔
جنوری 48ء کے شروع میں ٹھاکر صاحب نے ہم لوگوں کو پھر شکار پر مدعو کیا اور ہم لوگ پھر وہاں پہنچے۔ ایک دن ٹھیکیدار امتیاز حسین شکار کے واسطے آئے۔ ہمراہ میں وہ اپنا ٹرک بھی لائے اور کہا کہ سردار بھگت سنگھ کے لڑکے کی شادی ہے۔ انہوں نے مجھ سے شکار کی فرمائش کی ہے تاکہ براتیوں کی دعوت کی جاسکے۔ اس کے لئے انہوں نے میرے ٹرک کی ٹینکی کو پیٹرول سے فل کردیا ہے، تاکہ رات بھر شکار کھیلا جاسکے۔ ہمیں یہ سن کر بہت خوشی ہوئی، کیونکہ ہمارا دل ٹرک سے شکار کھیلنے کو بہت چاہ رہا تھا۔ چنانچہ اسی رات کو ہم چھ آدمی ٹرک پر کالا ڈھونگی روڈ کے لئے روانہ ہوگئے۔ رات کے گیارہ بجے سڑک پر پہنچ گئے اور بہت جلد تین سانبھ، چار جھانگ، ایک چیتل اور ایک سو مار لیا (واضح رہے کہ ماسوائے سانبھروں کے کسی جانور کو ذبح نہ کیا، کیونکہ سکھ مسلمان کا حلال کیا ہوا جانور نہیں کھاتے) اور دو بجتے بجتے واپسی کی ٹھانی۔ ٹرک کا رُخ موڑا گیا اور ہم جسونت نگر کی طرف چلے۔
سڑک کے کنارے ایکھ کے کھیت میں کوئی جانور چلتا ہوا محسوس ہوا۔ ٹرک روکا گیا۔ جمیل صاحب نے سرچ لائٹ ڈالی۔۔۔ زمین سے کافی بلندی پر دو سرخ سرخ آنکھیں چمکیں۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جانور ہے؟ ایک تو یہ کہ ایکھ میں اس کا بدن چھپا ہوا تھا، دوسری بات یہ کہ آنکھیں زمین سے کافی بلند تھیں، تیسری بات یہ کہ اس جانور کی دونوں آنکھوں کے بیچ کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ مگر یہ سب نظر کا دھوکہ قرار دے کر طے کیا گیا کہ یہ جانور شیر ہے اور غالباً دیمک کے گھر پر پیر رکھے کھڑا ہے۔
ہمارے سب کے پاس تین بندوقیں بارہ بور کی تھیں، جن میں گراب کے کارتوس رکھے تھے۔ جمیل صاحب کے پاس تین سو ساٹھ بور والی دو نالی رائفل تھی۔ اس لئے انہوں نے بڑے اطمینان سے لے کر فائر کیا۔ فائر ہوئے ایک لمبی ’’پیں، پیپ، پورو، پرو رو‘‘ سنائی دی اور ہم سب کے منہ سے ایک دم نکلا ’’ارے ہاتھی ہے‘‘۔ سجاد نے بھی ٹرک کی طرف آتے ہوئے ہاتھی پر ٹھائیں ٹھائیں دو گراب چلا دیئے۔ اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی دونوں نالیں ایک ساتھ چلادیں۔ ٹھاکر صاحب نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا، مگر ہاتھی برابر چیختا ہوا بھاگا چلا آرہا تھا۔۔۔ ہم لوگوں نے جلدی جلدی بغیر دیکھے کارتوس دوبارہ بھرے اور پھر فائر کرنے کو بندوقیں کندھے سے لگائی تھیں کہ ہاتھی کھیت سے باہر آیا۔ اس کے چھوٹے سے قد کو دیکھ کر کہا ’’مکھنا ہاتھی‘‘ اور پھر ٹھائیں ٹھائیں دو فائر کردیئے۔ میں نے بھی دو کارتوس خراب کئے۔ ادھر سرچ لائٹ بہت قریب سے پڑی ادھر وہ مستقل چاند ماری سے گھبرا گیا تھا۔ اس لئے وہ پلٹا اور بھاگنا چاہتا تھا کہ ’’تڑتڑ‘‘ جمیل صاحب نے دو گولیاں اس کے جمادیں۔ بغیر دیکھے کہ کہاں پڑیں۔ اتنی دیر میں مہدی ڈرائیور نے ٹرک اسٹار کردیا۔ سڑک کی جنوب میں ہمارا ٹرک بھاگا جارہا تھا اور دوسری طرف شمال کے رُخ زخمی اور غصے سے جھلایا ہوا ہاتھی۔ اس ناخوشگوار حادثے کے زیرِ اثر جسونت نگر تک مکمل خاموشی چھائی رہی۔ جسونت نگر پہنچ کر جو واقعے کی نوعیت پر غور کیا تو یہ معاملہ بہت برے نتائج والا ثابت ہوا۔ اب کیا ہوگا؟‘‘ اس وقت ایک ہی سوال ہم سب کی زبان پر تھا۔
ٹھاکر صاحب نے تمام شکار تو رات ٹھیکیدار صاحب کے ہمراہ روانہ کردیا تھا اور ان کو ہدایت کردی تھی کہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ صبح ہوتے ہی ناشتے کے بعد انہوں نے اپنے نوکر جگو کو بلایا اور اس سے کہا کہ جا تہہ خانے میں سے ’’ٹھوسم ٹھانس‘‘ نکال لا۔ ہم آپس میں ’’ٹھوسم ٹھانس‘‘ کے متعلق سوال ہی کررہے تھے کہ وہ ایک ٹوپی دار، بہت پرانی ایک نالی رائفل نکال کر لایا۔
ٹھاکر صاحب نے اس کی صفائی کے احکامات دیئے اور بتایا کہ یہ پانچ سو بور کی رائفل ہے اور اس میں آٹھ ڈرام کالی بارود چلاتا ہوں۔ بالکل توپ ہے توپ۔
اس وقت ہالینڈ کی بنی ہوئی وہ پرانی رائفل ہمیں سچ مچ توپ ہی معلوم ہوئی، کیونکہ ہاتھی کے خاتمے کے لئے اس سے بڑا ہتھیار ہمارے پاس کوئی نہ تھا۔
عظمت ماموں نے فوراً فیصلہ کردیا کہ یہ رائفل میں چلاؤں گا اور میں ہی ہاتھی ماروں گا۔ اس لئے اس کی صفائی کے بعد بارود کی کپی اور گولیوں کی تھیلیاں منگوائیں اور کندھے کو رائفل سے آشنا کرنے کے لئے انہوں نے ’’ٹارگٹ‘‘ بنا کر پچیس گولیاں چلائیں جن میں آخری بارہ گولیاں ٹھیک نشانے پر پڑیں۔ مگر عظمت ماموں کا کندھا سوج گیا۔ ہر بار جب وہ فائر کرتے تھے تو دھویں کا ایک بادل پیدا ہوتا تھا اور بارود کی خوشبو چاروں طرف پھیل جاتی تھی۔
ان تمام تیاریوں کے بعد ہم سب بیل گاڑی میں بیٹھ کر رات والی جگہ پر پہنچے۔ ایکھ کے کھیت میں جاکر دیکھا وہاں بہت سی جگہوں پر خون لگا تھا۔ سڑک پر جس طرف ہاتھی بھاگا تھا اس پر برابر خون کی چھینٹیں پڑی تھیں۔ تقریباً ایک فرلانگ جانے کے بعد ہاتھی جنگل میں جہاں لاکھ تلاش کیا مگر اس کا کوئی نشان نہ ملا۔
دو دن بعد کا ذکر ہے کہ ہم لوگ جسونت نگر میں تھے کہ اطلاع آئی کہ مدھونگر میں ہاتھی نے دو آدمیوں اور ایک بچے کو ہلاک کردیا اور ایک جھونپڑی کو تباہ کردیا۔
مدھو نگر جسونت نگر سے چھ میل جنوب میں واقع ہے اور اس جگہ سے جہاں اس ہاتھی کو زخمی کیا تھا۔ پندرہ میل ہے۔ اس لئے ہم نے کہا کہ ہاتھی ادھر چلاگیا ہے اس لئے آج رات کالا ڈھونگی روڈ کے کنارے کے جنگل میں ٹارچنگ کی جائے (یعنی ٹارچ جلا کر شکار کھیلا جائے) تجویز بالاتفاق منظور ہوئی، مگر اختر خاں صاحب کو اسی وقت بخار چڑھ آیا اور انہوں نے جانے سے انکار کردیا۔
رات کے گیارہ بجے ہم لوگ جنگل میں داخل ہوگئے۔ احتیاطاً ’’ٹھوسم ٹھانس‘‘ لے لی گئی۔ جنگل میں ہم ایک پگڈنڈی پر جارہے تھے جو بالکل پہاڑ کے دامن میں بنی ہوئی ایک پرانی کوٹھی نما عمارت تک پہنچاتی ہے۔ تھوڑی دیر کی محنت کے بعد ہم نے تین چار چیلیں مار لی تھیں اور ان کو پگڈنڈی کے کنارے ہی پیڑوں پر لٹکا دیا تھا کہ واپسی میں لے لیں گے، عین جنگل کے درمیان میں جو پہنچے ہیں تو سامنے سے ہاتھی کے بولنے کی آواز آئی۔ عظمت ماموں نے ماچس جلا کر ہوا کا رُخ دیکھا۔ تو بولے ’’غضب ہوگیا، ہوا اسی طرف جارہی ہے، جدھر ہاتھی ہے اور بہت ممکن ہے کہ ہاتھی ہماری خوشبو سونگھ کر ہی بولا ہو۔۔۔‘‘ ان کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ ٹھاکر صاحب نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور بولے ’’دیکھئے کوئی جانور بھاگ رہا ہے، اس کی آواز آرہی ہے کہیں ہاتھی ہی نہ ہو۔۔۔‘‘
اور ہم نے جو کان لگا کر سنا تو واقعی ہاتھی آرہا تھا اور وہ بھی ہماری سمت!
ہم سب جلدی جلدی مضبوط پیڑوں پر چڑھ گئے۔ میں اور جمیل صاحب ایک ہی پیڑ پر چڑھ گئے۔ ان کے پاس ان کی تین سو ساٹھ بور کی رائفل اور میرے پاس ٹھاکر پول سنگھ کی ’’اکسپلورا‘‘ دو نالی بارہ بور تھی۔ درخت پر پہنچتے ہی میں نے جلدی سے بندوق کھول کر گراب کے کارتوس نکال لئے اور کانٹریکٹائل اور روٹیکس گولی کے کارتوس ڈال لئے جو میں ہمیشہ ایسے ہی وقت کے لئے رکھتا تھا۔ اس وقت دل کی حالت کچھ عجیب تھی۔ ہاتھی کے بھاگنے سے چھوٹے چھوٹے پیڑوں کے ٹوٹنے کی آواز سن کر اور ساتھ میں ان کے خوفناک تصور سے دل بیٹھا سا معلوم ہوتا تھا۔ بار بار بندوق کا سیفٹی کیچ چڑھاتا تھا اور اُتارتا تھا۔ جمیل صاحب بھی فوری فائر کے لئے دونوں بلیوں پر اُنگلی رکھے تیار بیٹھے تھے اور وہ گھڑی بھی آگئی کہ ہاتھی ہمارے کافی قریب آگیا۔ مگر بدقسمتی سے وہ عظمت ماموں کے پاس سے نہیں نکلا، بلکہ ٹھاکر پھول سنگھ کے پیڑ کے سامنے آکر رُک گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ صاف تو نظر نہیں آرہا تھا، مگر اس کے چلنے کی آواز اس کے وجود کا ثبوت دے رہی تھی۔۔۔ عظمت ماموں اس انتظار میں تھے کہ انہیں نہایت اطمینان سے فائر کرنے کا موقع ملے، کیونکہ اس رائفل کو چلنے کے بعد دوبارہ بھرنا، ایسے نازک وقت میں ناممکن تھا۔
ہاتھی کے سامنے آتے ہی پانچ سیکنڈ کے انتظار کے بعد ٹھاکر جی نے اپنی بارہ بور ٹوپی دار بندوق سے ایک گولی اور ایک گراب اس کے رسید کیا، جس کے جواب میں چیختے ہوئے ہاتھی نے بڑھ کر درخت کے ٹکر ماری۔ تب ادھر سے زبیری صاحب نے دو گولیاں چلادیں اور ایک دہشت ناک چیخ کے ساتھ وہ ہماری طرف پلٹ پڑا پانچ قدم بھی نہ چلا ہوگا کہ میں نے بھی دونوں گولیاں اندھا دھند چلادیں۔ ہمارا پیڑ عظمت ماموں کے پیڑ کے قریب تھا۔ چنانچہ انہوں نے دیکھا کہ ہاتھی اِدھر ہی آرہا ہے تو انہوں نے سجاد سے ٹارچ ڈالنے کو کہا اس نے ٹارچ ڈالی اور پہلے انہوں نے بھی بارہ بور سے ایک گولی اور گراب چلا کر فوراً رائفل ہاتھ میں لے لی۔۔۔ اتنے فائر کسی اور جانور پر ہوتے تو وہ ڈھیر ہوجاتا، مگر یہاں تو ہاتھی کا معاملہ تھا۔۔۔ اور وہ بھی زخمی اور غصے سے پاگل ہاتھی!
اتفاق سے ہاتھی عظمت ماموں کے پیڑ کی طرف مڑ گیا اور جب وہ بالکل پیڑ کے نیچے پہنچ گیا تو اس نے شیشم کے پتلے تنے کے گرد اپنی سونڈ لپیٹ دی۔۔۔ تو ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔۔۔ دور تک جنگل گونج گیا۔۰ ہاتھی اور پیڑ دھویں سے چھپ گئے۔۔۔ اور بارود کی خوشبو ہماری ناک میں پہنچی تو آنکھیں بے قرار ہوگئیں کہ جلدی دھواں صاف ہو۔ سجاد ٹارچ ڈالے تو ہم دیکھیں کہ کیا ہوا؟ ایک منٹ کے بعد جب جنگل میں موت کی سی خاموشی چھاگئی اور سجاد نے ٹارچ ڈالی تو ہاتھی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ آدھے گھنٹے کی مکمل خاموشی کے بعد عظمت ماموں کی آواز آئی۔۔۔ ہم سب نیچے اُتر آئے اور اپنے دشمن کی جانب گئے۔ پانچ سو بور کی گولی اس کی کھوپڑی پر اوپر کی طرف لگی تھی۔ تمام بھیجا جل کر راکھ ہوگیا تھا اور خون کا ایک سیاہ لوتھڑا اس پانچ مربہ انچ کے زخم پر لٹکا ہوا تھا۔
مشورے کے مطابق خشک لکڑیاں جمع کی گئیں اور ان سے ہاتھی کو ڈھک کر ہم لوگ جسونت نگر واپس آئے۔ دوسرے دن صبح کیمرہ لے کر گئے۔ فوٹو وغیرہ کھینچنے کے بعد وہ لکڑیاں پھر ہاتھی پر ڈال دیں اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔
مکھنا ہاتھی کو مرے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں، مگر آج تک محکمہ جنگلات والے اور آس پاس کے شکاری حیران ہیں کہ وہ ریکارڈ شدہ ہاتھی کدھر غائب ہوگیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top