skip to Main Content

مقابلہ کتب بینی

کہانی: Horrid Henry Reads a Book
مصنف: Francesca Simon
ترجمہ: گل رعنا

۔۔۔۔۔۔۔
ہنری نے کتاب تو ایک بھی نہیں پڑھی لیکن….

۔۔۔۔۔۔

مس بٹیل ایکس کلاس کو کچھ بتارہی تھیں لیکن ہنری سننے کے بجائے حساب کی کتاب میں کیڑے مکوڑے بنارہا تھا۔ وقفے وقفے سے اس کے کانوں میں کوئی ایک آدھ لفظ پڑجاتا تھا۔ ”کتاب….“ مقابلہ، انعام۔ انعام کا لفظ سنتے ہی ہنری کے کان کھڑے ہوگئے۔ ”کیسا انعام؟“ وہ چلایا۔ ”چیخو مت ہنری!“ مس بٹیل نے ناگواری سے کہا۔ ہنری نے دوبارہ چیخ کر کہا۔ ”کس بات پر انعام ملے گا؟“
”ہنری! اگر تم کتاب میں کیڑے مکوڑے بنانے کے بجائے ٹیچر کی باتوں پر توجہ دے رہے ہوتے تو تم کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔“ مس نے کہا۔ ہنری کا منھ بن گیا۔ ایک تو ٹیچر کی باتوں میں دلچسپی لو اور جب سوال پوچھو تو ٹھیک سے جواب بھی نہیں ملتا۔
”ہاں تو بچو! جیسا کہ میں کہہ رہی تھی کہ کتب بینی کے اس مقابلے کے لیے آپ کے پاس دو ہفتے ہیں، ان میں آپ جتنی بھی کتابیں پڑھنا چاہیں، پڑھ سکتے ہیں۔ جو سب سے زیادہ کتابیں پڑھے گا وہ یہ مقابلہ جیت جائے گا لیکن یاد رکھیے کہ آپ جتنی بھی کتابیں پڑھیں گے، سب پر ایک رپورٹ بھی لکھیں گے تاکہ پتا چلے کہ آپ نے وہ کتاب واقعی پڑھی ہے۔“ مس کہہ رہی تھیں۔
”اوہ! مقابلہ کتب بینی!“ ہنری کا منھ لٹک گیا۔ کتاب پڑھنا سخت مشکل اور بھاری بھرکم کام ہے۔ کتاب کے ورق الٹنے سے ہی ہنری تھک جاتا تھا۔ آخر یہ اسکول والے کوئی دلچسپ مقابلے کیوں نہیں کراتے؟ جیسا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانے کا مقابلہ، سب سے زیادہ چیخنے کا مقابلہ، سب سے زیادہ بچوں کی پٹائی کرنے کا مقابلہ؟ ہنری یہ سب مقابلے باآسانی جیت سکتا تھا لیکن نہیں بھئی! مس بٹیل کوئی اچھا مقابلہ تھوڑی کراسکتی ہیں۔ خیر! وہ کسی صورت اس فضول مقابلے میں حصہ نہیں لے گا مگر پھر انعام بھی برینی برائن یا کلیور کلیئر کو مل جائے گا اور وہ منھ دیکھتا رہ جائے گا۔ یہ تو بے ایمانی ہے!
”انعام کیا ہوگا؟“ موڈی مارگریٹ نے پوچھا۔ ”کوئی فضول ہی انعام ہوگا مثال پنسل بکس۔“ ہنری نے سوچا۔ ”ٹافیاں؟“ گریڈی گراہم چلایا۔ ”ایک کروڑ روپے؟“ روڈ رالف بولا۔ ”کپڑے؟“ پریٹی پرنس چلائی۔ ”اسکیٹ بورڈ؟“ ایروبک ال چیخا۔
”خاموش۔“ مس بٹیل نے کہا۔ ”جیتنے والے بچے کو انعام کے طور پر ایک نئے کھلنے والے تھیم پارک کا فیملی ٹکٹ دیا جائے گا۔“ ہنری سنبھل کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ”اوہ تھیم پارک! کتنا مزہ آتا ہے پارک میں! رولر کوسٹرز، سوئمنگ پول، جھولے! اف!! اس کے والدین تو اسے کبھی بھی کسی تھیم پارک میں لے کر نہیں گئے لیکن اگر وہ یہ مقابلہ جیت جائے تو تھیم پارک جاسکتا ہے۔ اس کو یہ انعام جیتنا ہی ہوگا۔ مگر کیسے؟ وہ بغیر کوئی کتاب پڑھے مقابلہ کتب بینی کیسے جیت سکتا ہے؟
”کیا کامک بکس بھی مقابلے میں شامل ہوسکتی ہیں؟“ روڈ رالف چلایا۔ ہنری کا دل اچھل کود کرنے لگا۔ کامک بک پڑھنے میں تو وہ استاد تھا اور باآسانی یہ مقابلہ جیت سکتا تھا۔ مس بٹیل نے رالف کو قہر آلود نظروں سے دیکھا، پھر بولیں۔ ”ہرگز نہیں! کلیور! تم کتنی کتابیں پڑھ سکتی ہو؟“
”پندرہ۔“ کلیور کلیئر بولی۔
”برائن تم؟“
”اٹھارہ۔“
”انیس!“ کلیئر بولی۔
”بیس۔“ برائن بولا۔ ہنری دل ہی دل میں مسکرایا۔ کیا ان سب کو جھٹکا نہیں لگے گا جب وہ یہ مقابلہ جیت جائے گا؟ جس لمحے وہ گھر پہنچا، بس اسی وقت سے کتابیں پڑھنے پر جت جائے گا۔
٭….٭
گھر جا کر ہنری نے ٹی وی لگالیا۔ کتابیں پڑھنے کے لیے تو ابھی پورے دو ہفتے پڑے ہیں۔ منگل کو پانچ نئی کامک بکس پڑھنا زیادہ ضروری تھا، کتابیں تو کل بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ بدھ کو ٹی وی پر اتنے اچھے پروگرام آتے ہیں۔ وہ کل سے کتابیں پڑھنا شروع کرسکتا ہے۔ جمعرات کو نیا کمپیوٹر گیم کھیلنے کے بعد کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ملا۔ جمعہ! پورے ہفتے کی تھکن جمع ہوگئی۔ آج ذرا آرام کرلیا جائے۔ کتابیں پڑھنے کے لیے تو ابھی کافی وقت ہے۔
اور پھر یوں ہی اگلا ہفتہ بھی گزر گیا۔ ”ہنری! تم نے کتنی کتابیں پڑھ لی ہیں؟“ اس کے چھوٹے بھائی پیٹر نے پوچھا۔ ”بے شمار۔“ ہنری نے جھوٹ بولا۔ ”اور تم نے؟“ اس نے پوچھا۔ ”پانچ! اپنی کلاس میں سب سے زیادہ۔“ پیٹر نے فخر سے کہا۔ ”اوہ صرف پانچ! خیر! ویسے اس وقت تم کیا پڑھ رہے ہو؟“ ہنری نے سرسری انداز میں پوچھا۔
”ننھا شہزادہ۔“ پیٹر بولا۔ ”اور یہ کس بارے میں ہے؟“ ہنری نے تفتیش جاری رکھی۔ ”بڑی اچھی کتاب ہے۔ یہ ایک ایسے شہزادے کے بارے میں ہے جو….“ پیٹر کہتے، کہتے رک گیا۔ ”ایک منٹ! میں تمھیں نہیں بتارہا۔ تم مجھ سے کہانی پوچھ کر اسے اپنی رپورٹ میں شامل کرلوگے۔ خیر! اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کل مقابلے کا آخری دن ہے۔“ ہنری کو لگا جیسے کسی نے اس کے سینے پر خنجر گھونپ دیا ہو۔ دو ہفتے کس قدر تیز رفتاری سے گزر گئے! ”کیا کہا؟ کل مقابلے کا آخری دن ہے؟“ ہنری چلایا۔ ”ہاں!“ پیٹر بولا، ”تمھیں کتابیں مقابلے کے پہلے دن سے پڑھنی چاہیے تھیں۔ کبھی بھی آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔“ پیٹر نے نصیحت آمیز لہجے میں کہا۔ ”بکواس بند کرو!“ ہنری چلایا۔ ”کیا کروں، کیا پڑھوں! مجھے یہ مقابلہ ہر قیمت پر جیتنا ہے۔ اُف!“ ہنری نے کہتے کہتے ایک دم پیٹر کی کتاب پر جھپٹا مارا۔ ”مجھے اپنی کتاب دو!“ پیٹر نے کتاب واپس کھینچی۔ ”نہیں، مجھے پڑھنے دو۔ یہ میری کتاب ہے۔“ وہ چلایا۔ ”میری! میری!“ دونوں میں کھینچا تانی شروع ہوگئی اور کتاب بیچ میں سے پھٹ گئی۔ ”امی! ہنری نے میری کتاب پھاڑدی۔“ پیٹر چلایا۔ امی، ابو بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے۔ ”اف! تم لوگ ایک کتاب پر لڑ رہے ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیا کہوں۔“ امی سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئیں۔ ”مگر مجھے سمجھ آرہا ہے۔“ ابو بولے۔ ”ہنری! اپنے کمرے میں جاﺅ!“ ٹھیک ہے! جارہا ہوں۔“ ہنری پاﺅں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا۔
”مجھے یہ مقابلہ ہر حال میں جیتنا ہے! کیا کروں؟“ وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ گھر کی لائبریری میں بہت سی کتابیں رکھی ہیں۔ وہ ان سب کے نام اپنی لسٹ میں لکھ سکتا ہے۔ بہت آسان حل ہے! وہ خوش ہوگیا۔ پھر اچانک اس کو یاد آیا کہ اسے ہر کتاب کے بارے میں ایک رپورٹ بھی لکھنی ہے جو وہ کتاب پڑھے بغیر نہیں لکھ سکتا۔ مس بٹیل نے ساری مشہور کتابیں پڑھی ہوئی ہیں۔ اگر وہ ان کتابوں کے بارے میں غلط رپورٹ لکھے گا تو پکڑا جائے گا۔ اوہ! کیا کروں؟ ارے ہاں! وہ پیٹر کی لسٹ ادھار لے سکتا ہے۔ اس نے اپنی کتابوں پر رپورٹ بھی بنائی ہوگی۔ ہنری چپکے سے پیٹر کے کمرے میں گھس گیا۔ رپورٹ پیٹر کی ٹیبل پر رکھی تھی۔ ”سنڈریلا، ریڈ رائڈنگ ہڈ، تھری بیٹرز، لٹل پرنس، سلیپنگ بیوٹی۔ اف! کیا ایسی بچکانہ کتابیں وہ مقابلے کی لسٹ میں شامل کرسکتا ہے؟“ کرنی ہی پڑیں گی۔ تھیم پارک جانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اس نے جلدی، جلدی کتابوں کے نام اور رپورٹ اپنے پاس نقل کرلی۔ زبردست! اب اس کی لسٹ میں پانچ کتابیں شامل ہیں لیکن پھر ہنری کو ایک خوفناک حقیقت کا احساس ہوا۔ مقابلہ جیتنے کے لیے پیٹر کی پانچ کتابیں ناکافی تھیں۔ اس نے اسکول میں سنا تھا کہ کلیور کلیئر ابھی تک سترہ کتابیں پڑھ چکی ہے۔ اب کیا کروں؟ ایک تو مس بٹیل نے ہر مشہور کتاب پہلے سے ہی پڑھی ہوئی ہے۔ کوئی غلط رپورٹ بھی تو نہیں بناسکتا ان پر اور پھر اچانک ہنری کے دماغ میں ایک شاندار خیال آیا اور وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ مس بٹیل نے بے شک ساری مشہور کتابیں پڑھ رکھی ہوں گی لیکن انھوں نے دنیا میں چھپنے والی ہر کتاب تو نہیں پڑھی ہوگی۔ ایسی بہت سی کتابیں ہوں گی جو مس نے کبھی نہیں پڑھی ہوں گی۔ کتابیں، جو ابھی تک لکھی بھی نہیں گئیں! ہنری نے بیٹھ کر تیزی سے لکھنا شروع کیا۔ ”چوہے کے سفری کارنامے۔“ یہ ایک چوہے کی سفری داستان ہے جو شہر جا کر ایک بلی، ایک کتے اور ایک گائے سے ملا۔ دوسری کتاب: ”چوہے نے دنیا کا چکر لگایا۔“ اس کتاب میں ایک چوہے نے دریافت کیا کہ دنیا گول ہے۔ اچھا اب کچھ مختلف ہونا چاہیے۔ ”لڑکا اور کتا“ ہاں! نام اچھا ہے مگر اس کی کہانی کیا ہوگی؟ ہنری تیزی سے سوچ رہا تھا۔ ”ایک لڑکے نے ایک کتا پالا، پھر وہ کتا کھو گیا، پھر لڑکے نے اسے ڈھونڈلیا، ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔“ اس کے بعد اگلی کتابیں ”دو کتے اور ایک لڑکا“ دو لڑکے اور ایک کتا۔ ”تین لڑکے اور دو کتے۔“ ہنری لکھتا چلا گیا۔ جب کتابوں کے ناموں اور ان پر رپورٹ لکھنے سے چار صفحے بھر گئے تو ہنری کا ہاتھ لکھتے، لکھتے دکھنے لگا تو اس نے ہاتھ روک لیا اور کتابوں کی گنتی شروع کردی۔ ستائیس کتابیں! وہ اب یہ مقابلہ جیت سکتا ہے۔
٭….٭
مقابلے کے نتیجے کا اعلان ہونے ہی والا تھا۔ ہنری کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی کتابیں یقینا سب بچوں سے زیادہ ہوں گی۔ وہ یہ مقابلہ جیت جائے گا۔ ”سب بچوں نے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اچھی، اچھی کتابیں پڑھیں۔ مگر انعام کا حقدار صرف ایک ہی بچہ ہوسکتا ہے۔“ مس بٹیل کی آواز گونج رہی تھی۔ ”اور وہ میں ہوں۔“ ہنری نے سوچا۔ ”تو بچو! مقابلہ کتب بینی جیتا ہے۔ کلیور کلیئر نے اٹھائیس کتابیں پڑھ کے!“ ہنری سیٹ سے اٹھتے، اٹھتے واپس بیٹھ گیا۔ اف! اگر وہ صرف ایک اور کتاب ”چھ کتے، دو چوہے اور تین لڑکے“ اپنی لسٹ میں بڑھالیتا تو وہ کلیور کلیئر کے برابر ہوسکتا تھا۔ اتنی سخت محنت کے بعد بھی وہ ہار گیا تھا۔ اس نے مٹھیاں بھینچیں۔ ادھر کلیور کلیئر مسکراتی ہوئی ہال کے اسٹیج پر گئی۔ ”ویل ڈن کلیئر!“ مس بٹیل مسکرائیں اور اس کی لسٹ ہوا میں لہرائی۔ ”لسٹ میں میری پسندیدہ کتاب او ہنری کی کہانیوں کا مجموعہ ”خوش باش شہزادہ“ بھی شامل ہے۔“ وہ کہتے کہتے رک گئیں۔ اوہ کلیئر! تم نے غلطی سے خوش باش شہزادہ دو بار اپنی لسٹ میں لکھ دیا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں، میرے خیال میں ستائیس کتابیں بھی کسی بچے نے نہیں پرھی ہوں گی اس لیے اب بھی یہ مقابلہ تم نے ہی جیتا ہے۔“
”میں نے ستائیس کتابیں پڑھی ہیں!“ ہنری چیخا اور کودتے پھاندتے اسٹیج پر چڑھ گیا۔ ”تھیم پارک! تھیم پارک! مجھے میرا انعام دو۔“ اس نے کلیئر کے ہاتھ سے تھیم پارک کے ٹکٹ چھینتے ہوئے کہا۔ ”یہ میرا ہے۔“ کلیئر نے ٹکٹ دوبارہ چھین لیا۔
مس بٹیل سنجیدہ ہوگئیں۔ انھوں نے ہنری کی لسٹ کا جائزہ لیا۔ ”میں نے کبھی لڑکے اور کتے والی سیریز نہیں پڑھی، نہ ہی اس کے بارے میں کہیں سنا ہے۔“
”شاید اسی لیے کیوں کہ یہ آسٹریلین سیریز ہے۔“ ہنری نے ڈھٹائی سے کہا۔ مس بٹیل نے اسے گھور کر دیکھا مگر کچھ کہہ نہ سکیں، بڑی مشکلوں سے انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” یہ مقابلہ برابر رہا ہے۔ اس لیے تم دونوں کو ہی تھیم پارک کا ایک، ایک فیملی ٹکٹ دیا جائے گا۔ اس تھیم پارک کا نام ہے: ” کتابوں کی دنیا۔“ تم دونوں کو انعام بہت، بہت مبارک ہو۔“ ہنری جو خوشی سے اچھل رہا تھا یک لخت اپنی جگہ رک گیا۔ ”کتابوں کی دنیا؟ نہیں! اس نے کچھ غلط سن لیا ہے۔“
”کتابوں کی دنیا ایک نیا تھیم پارک ہے جہاں آپ لوگ تیز رفتاری سے کتابیں پڑھنے کا مقابلہ کرسکتے ہیں، لائبریری سے کتابیں ڈھونڈنے کے آسان طریقے سیکھ سکتے ہیں۔ اسپیلنگ کے مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار موضوعات پر بے شمار کتب وہاں موجود ہیں جن سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔“ مس بٹیل کہہ رہی تھیں۔
”نہیں!“ ہنری کی چیخ تالیوں کی گونج میں دب کر رہ گئی۔
اس تحریر کے مشکل الفاظ
یک لخت: اچانک
دریافت : کھوج، تلاش
حقدار : مستحق
بھاری بھرکم : وزنی

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top