skip to Main Content

مضبوط رشتہ

محمد طلحہ نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمشا! میرے کپڑے استری کردو…. شام کو میرے دوست آئیں گے، ان کے لیے کوئی لذیذ چیز بنا دو اور ہاں یاد آیا۔ میرے لیے ایک گلاس ٹھنڈا ٹھنڈا جوس بنا دو۔‘‘ حمزہ نے آتے ہی دو تین احکام رمشا کو سونپ دیے۔
’’ارے نوکرانی سمجھ رکھا ہے کیا۔ میں تمھاری نوکرانی ووکرانی نہیں ہوں کہ مہاراج حکم کریں اور میں فوراً بجالاؤں۔‘‘ رمشا نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ ک…کیا مطلب! فوراً جا کر میرے کپڑی استری کرو بے وقوف!‘‘ اب کی بار حمزہ کا پارہ ہائی ہوگیا۔
’’تم بڑے بھائی ہو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تمھارے اشاروں پر کام کروں گی۔ میں نے بھی اب سوچ لیا ہے..چاہے تم میرے سامنے ہاتھ بھی جوڑو تو بھی میں کچھ نہیں کرنے والی!‘‘ رمشا نے منھ چڑاتے ہوئے کہا تو رمشا کا انداز دیکھ کر حمزہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’ مجھے بھی شوق نہیں ہے اس بے وقوف سے کام کروانے کا! اپنے کپڑے جلوانے سے تو بہتر ہے کہ میں بغیر استری کے کپڑے پہن لیا کروں۔ تمھارے ہاتھ کے بنائے کھانے کھا کر مجھے ابکائیاں آنے لگتی ہیں اور۔۔۔اور جوس بنا تے وقت تو کبھی چینی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جیسے ایک گلاس کے لیے نہیں بل کہ ایک بالٹی کے لیے جوس بنایا ہو!‘‘ حمزہ غصے سے بھرے لہجے میں بولا۔
’’ تو میں نے کب کہا ہے کہ مجھ سے کام کروایا کرو!‘‘ رمشا نے بھی لا پروائی سے جواب دیا۔
یہ سن کر حمزہ پیر پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔

……*…….

’’حمزہ! آج شام کو رمشا کی سہیلیاں آنے والی ہیں۔ بازار سے جاکر یہ سامان لے آؤ!‘‘عابدہ بیگم نے حمزہ کو سامان کی لسٹ پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’کیا! میں نہیں لاسکتا اس چڑیل اور اس کی سہیلیوں کے لیے کوئی سامان ۔ ارسلان کو بھیج دیں۔‘‘ حمزہ کے سر پر پہلے ہی غصے کا بھوت سوار تھا۔
’’مگر ارسلان تو اس وقت ٹیوشن گیا ہوا ہے۔‘‘عابدہ بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جو بھی ہو۔ میں اس کے لیے بازار نہیں جارہا۔ محلے کے کسی بچے سے منگوا لیں۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘ حمزہ ابھی تک اپنی ضد پر قائم تھا۔
اچانک اس کا موبائل فون گنگنا اُٹھا۔ اس کے دوست عاقب کا فون تھا۔ اس نے فون سنا اور پھر امی سے بولا: ’’امی! میں عاقب کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جارہا ہوں۔ دو گھنٹے بعد آجاؤں گا۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ باہر نکل گیااور عابدہ بیگم اس کو دیکھتی رہ گئیں ۔اب اُنھیں جلد ہی ایک بہت اہم فیصلہ کرنا تھا۔

…..*……

حمزہ، ارسلان اور رمشا، یہ تینوں بہن بھائی تھے۔ ارسلان سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر بھر کا لاڈلا تھا ۔ جب کہ رمشاا ور حمزہ ، دونوں اوپر تلے کے تھے اور ان کے درمیان ڈیڑھ سال کا فرق تھا۔ دونوں بڑے ہوتے جارہے تھے…حمزہ بڑا تھا اس لیے اکثر رمشا کو چھوٹا سمجھ کر اس سے کام کرواتا رہتا ۔ مگر شاید رمشا بھی اب تنگ آچکی تھی، اسی لیے کچھ دنوں سے حمزہ اور رمشا کے درمیان روز کسی نہ کسی بات پر تکرار ہوہی جاتی ۔ احسن صاحب اور ان کی بیگم عابدہ اس بات سے سخت پریشان تھے۔ عابدہ بیگم ان دونوں کو وقتاً فوقتاً سمجھاتی رہتیں مگر ان پر کسی بھی بات کا اثر نہ ہوتا۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے دور دور رہنے لگے تھے۔

…..*……

وہ دن حمزہ کے لیے انتہائی پریشان کن تھے۔ ان دنوں اس کا انٹر کے دوسرے سال کا نتیجہ آنے والا تھا۔ آخر نتیجہ آگیا اور خوب آیا۔ تمام گھر والے بہت خوش تھے اور ہر جگہ سے مبارک باد وصول ہورہی تھی۔ کچھ دن بعد ابو نے حمزہ کو کمرے میں بلا کر کہا: ’’بیٹا! تمھارے بچپن سے خواہش تھی کہ تم ایک کام یاب ڈاکٹر بنو۔‘‘
’’ جی ہاں ابو! مجھے بھی آپ کی اس خواہش کا احترام ہے۔ اب مجھے اگلے پانچ سال خوب محنت کرنی ہے۔‘‘
’’ لیکن بیٹا ، یہ میرا خواب تھا کہ میں تمھیں ہمیشہ اعلا سے اعلا تعلیم دلواؤں۔ چناں چہ اب میں تمھیں امریکا بھیج رہا ہوں ۔ ‘‘
’’کیا..!اب…ابو آپ مجھے امریکا بھیج رہے ہیں؟ لیکن میں آپ سب کے بغیر کیسے رہ سکتا ہوں۔‘‘حمزہ حیران نہ ہوتا تو اور کیا کرتا۔
’’ بس بیٹا…میں جانتا ہوں تم میری خواہش کا احترام کرو گے۔ ‘‘
’’ جی ابو…! میں آپ کا ہر حکم ماننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ دو موتی اس کی آنکھوں سے بہہ کر اس کے رخسار میں جذب ہوگئے۔
اس کے بعد ویزے کے لیے درخواست کی گئی۔ کچھ دن بعد حمزہ امریکا جانے کی تیاری کر رہا تھا۔

…..*……

گھر میں خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیات تھیں۔ خوشی اس بات کی تھی کہ بچہ اعلا تعلیم کے لیے امریکا جارہا ہے تو دوسری طرف جدائی کا غم تھا۔ 
’’چلو شکر ہے، اب تم سے جان چھوٹ جائے گی۔‘‘ رمشا نے حمزہ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ہاں، مجھے بھی اس چڑیل سے نجات مل جائے گی۔‘‘ حمزہ نے بھی آگے سے منھ بنایا۔ 
اگلے دن سب حمزہ کو ہوائی اڈے سے رخصت کر کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ سب کے چہروں پر اُداسی چھائی ہوئی تھی ۔

…..*……

حمزہ کو نیو یارک آئے ہوئے تقریبََا تین ماہ ہوچکے تھے۔ وہ اب اپنے آپ کو وہاں سنبھال چکا تھا۔ ان تین مہینوں میں اسے اگر کسی کی یاد نے سب سے زیادہ ستایا تھا تو وہ اس کی بہن رمشا کی یاد تھی۔ جب وہ اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے استری کرتا ۔ .اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتا۔ اپنے کمرے کو صاف ستھر ا کرتا۔ اسے اپنی وہ بہن یاد آجاتی جو اس کے کہے بغیر ہی یہ سب کام کردیا کرتی تھی ۔ اب اسے ’بہن ‘ کی اہمیت کا احساس ہورہا تھا۔

…..*……

ان تین ماہ میں سب گھر والوں کی اس سے بات ہوتی رہتی تھی۔ فون پر بات کر کے گھر والے مطمئن ہوجاتے لیکن رمشا پھر بھی بھائی کے بغیر اُداس رہنے لگی تھی۔ اسے ’بھائی‘ کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوا تھا جب اس کی سہیلیوں کی پارٹی میں کوئی بھی سامان لانے والا نہیں تھا۔ صبح وقت پر پابندی کے ساتھ کالج چھوڑنے والا کوئی نہ ہوتا۔ جب کسی سہیلی کے گھر جانے کی ضرورت پڑتی تو لے جانے والا کوئی نہ ہوتا۔اسے حمزہ کے ساتھ کیے ہوئے سارے جھگڑے رہ رہ کر یاد آرہے تھے۔

…..*……

حمزہ آج تقریباً ایک سال بعد گھر آرہا تھا۔ سارے گھر میں ایک جشن کا سا سماں تھا۔ لیکن سب سے زیادہ خوش رمشا تھی۔ جب حمزہ گھر پہنچ گیا اور دو تین دن گزر گئے تو عابدہ بیگم نے دونوں کے رویوں میں خاص تبدیلی محسوس کی تھی ۔ وہ بہت خوش تھیں۔ آخر حمزہ کے واپس جانے کا دن قریب آگیا۔ اس دن فجر کے بعد عابدہ بیگم نے دونوں بہن بھائیوں کو اپنے کمرے میں بلایا۔ 
’’ بیٹا! میں نے تم دونوں کے رویوں میں بہت زبردست تبدیلی محسوس کی ہے۔‘‘ وہ مسکر ا رہی تھیں جب کہ دونوں سر جھکاے ان کی بات سن رہے تھے۔
’’بیٹا! یاد رکھو…بہن بھائی کا رشتہ محبت اور خلوص کا رشتہ ہوتا ہے۔ و ہ آپس میں ایک ہو کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھتے ہیں۔ بڑا بھائی چھوٹی بہن کی ہر خواہش پوری کرتا ہے ۔ اگر بہن بڑی ہو تو وہ چھوٹے بھائی کا خیال کرتی ہے۔ ان کے رشتے ایسی گانٹھ سے بندھے ہوتے ہیں جنھیں کوئی نہیں کھول سکتا۔ جب سے حمزہ امریکا گیا تھا میں نے رمشا کے رویے میں خاص طور پر تبدیلی محسوس کی تھی اور یہی حال حمزہ کا بھی ہوگا۔ میں جانتی تھی تم دونوں کو ایک دن ایک دوسرے کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ میرے خیال میں تم لوگ بچپن کی وہ تمام تلخ شرارتیں بھلاچکے ہوگے جس کی بنا پر تم دونوں ایک دوسرے سے دو ، دو ،تین ، تین دن تک بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اب میرے خیال میں تم دونوں کو ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس ہوگیا ہے۔ تم دونوں اب دل ہی دل میں ایک دوسرے کو معاف کرہی چکے ہوگے۔ ‘‘
’’ جی امی! میں رمشا کو معاف کرچکا ہوں۔‘‘
’’میں بھی۔‘‘ رمشا نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اللہ تم دونوں کو خوش رکھے بیٹا!‘‘ 
اسی شام رمشا اپنے بھائی کو ائیرپورٹ پر الوداع کہہ رہی تھی۔ لیکن اس مرتبہ واقعی وہ بھائی کے واپس جانے پر غمگین تھی کیوں کہ اس کو بہن بھائی کے رشتے کا احساس ہوچکا تھا۔

…..*……

نئے الفاظ:
ناک بھوں چڑھانا: خفا ہونا/نفرت ظاہر کرنا
ابکائیاں: قے آنے کی حالت، متلی
تکرار: بحث، جھگڑا
تلخ: کڑوا

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top