skip to Main Content
مشن تھری ڈی کی تباہی

مشن تھری ڈی کی تباہی

محمد ندیم اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اغوا کے بعد

جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ ایک غار میں موجود تھے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد وہ غار سے باہر نکلے تو چار وں طرف پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ انہیں صرف اتنا یاد تھا کہ جب ان کے منہ پر رومال رکھا گیا تھا، اس کے بعد ان کا ذہن گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا تھا۔
”ہم اغوا ہوچکے ہیں۔“سلیمان نے کھلی فضا میں سانس لیتے ہی کہا۔
”ہم اغوا ہو چکے ہوتے تو یوں آزادانہ طور پر غار سے باہر نہ نکل پاتے۔“مہد جھٹ سے بولا۔
”تھوڑی دیر چپ کرو گے کہ میں سمجھ سکوں کہ ہوا کیا تھا اور ہم ان پہاڑوں میں کیسے پہنچے ہیں۔“عبیرہ نے جھڑکنے کے انداز میں انہیں ڈانٹ ہی دیا۔
”ارے ہاں ہم اس بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی کے تعاقب میں تھے۔ لیکن ہماری گاڑی اور چاچو شکیل اور داؤد کہاں ہیں؟“عبیرہ ایک دم اچھلی۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح نظر آرہے تھے۔
”لگتا ہے وہ اغوا کار ہمیں اس غار میں چھوڑ کر گاڑی اور چاچو شکیل کو ساتھ ہی لے گئے ہیں۔“افرا جو ابھی ابھی اپنے حواس پر قابو پاکر ہوش میں آئی تھی، بولی۔
”اے خدایا!ہم کس مصیبت میں پھنس گئے، میں نے عبیرہ سے کہا بھی تھا کہ ہم بس ایبٹ آباد انکل دانیال کے گھر مہمان بن کر آئے ہیں یہاں کوئی ”مشن سکوارڈ“ نہیں کھیلا جائے گا لیکن پھنس گئے نا کسی مصیبت میں؟“ سلیمان روہانسے انداز میں بولا۔

٭٭٭

یہ چاروں اپنے امی ابو اور چاچو شکیل کے ساتھ ایبٹ آباد اپنے انکل دانیال کے گھر چھٹیاں گزارنے پہنچے تھے۔ ان کا اس بار چھٹیاں گزارنے کا منصوبہ ایبٹ آبا دکا ہی بنا تھا کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ ایبٹ آباد بھی ایک پرفضا شہر ہے۔ گزشتہ سال انکل دانیال، ان کا بیٹا داؤد اور ان کی بیوی ملتان آئے تھے تو اس وقت انہوں نے دعوت دی تھی کہ بچوں کی چھٹیاں ہوں تو ایبٹ آباد ضرور آئیں۔ وہ ان کی دعوت پرابھی تین دن پہلے ہی ایبٹ آباد پہنچے تھے۔ کل ہی وہ سیر کے لیے ایبٹ آباد کے پرفضا مقام ٹھنڈیانی کو گئے تھے، اس مقام کی خاص بات وہاں وسیع علاقے پر پھیلے پائن درختوں کے جھنڈ تھے، یہ ایبٹ آباد شہر سے کوئی اکتیس کلو میٹر دور تھا۔ اس کے مشرق میں دریا کنہار اپنی پور ی روانی کے ساتھ بہتا تھا اور وہاں سے کشمیر کے پہاڑ نظر آتے تھے۔ اگلے دن ان کا پروگرام مالسہ گاؤں اور استوڑہ گاؤں کی سیر کا تھا، یہ گاؤں شہر سے پندرہ کلو میٹر دور ایک پیالہ نما وادی میں تھے۔ جس دن انہوں نے ان دونوں گاؤوں کی طرف سیر کو جاناتھا، اسی دن انکل دانیال کو ایک ضروری کام سے کسی آفس جانا پڑا،ناشتے کی ٹیبل پر انہوں نے بتایا کہ آج کا دن آپ لوگ ایبٹ آباد کے بازار اور خصوصاً ریڈیو سٹیشن اور اس کے ساتھ شملہ پہاڑی کی سیر کو جاسکتے ہیں، انہوں نے ڈرائیور کے ساتھ اپنے بیٹے داؤد کو بھیجنے کا کہا اور اجازت لے کر اٹھنا چاہا تو چاچو شکیل بولے، ”اگر آپ ڈرائیور کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تو ہم داؤد کے ساتھ ہی نکل جائیں گے اور میں خود اچھی ڈرائیونگ کر لیتا ہوں۔“انکل دانیال مسکرائے اور بولے،”دیکھ لینا،یہاں پتھریلی زمین ہے اور زگ زیگ راستے کہیں کسی حادثے سے بچے رہ سکو گے۔“
”جی ……جی ……انکل پچھلے سال یہ مظفرآباد کے پہاڑی راستوں پر گاڑی ڈرائیو کر چکے ہیں، ہمیں ان کی ڈرائیونگ پر کسی قسم کا شک نہیں۔“عبیرہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”چلیں جی ……جیسے آپ مناسب سمجھیں میں کاکا صاحب کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں۔“انکل دانیال نے اپنے ڈرائیور کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”بھئی ہم تو انکل دانیال کے بغیر کبھی بھی عبیرہ اور چاچو شکیل کے ساتھ باہر نہیں نکلیں گے، کیونکہ جب جب ان دونوں کے ساتھ کسی اجنبی شہر میں نکلے ہمیشہ مصیبت میں ہی پھنسے ہیں۔وہ تو اللہ میاں کا شکر ہے کہ ہمیشہ اس نے بچایا۔“ مہد نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا، اس کی بات سن کر سارے گھر والے ہنس دیے۔ عبیرہ نے اس کی جانب غصے سے دیکھا۔
”جاؤ بھاڑ میں …… مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم دونوں بلکہ تینوں کو ساتھ لے کر جانے کا۔“عبیرہ نے سلیمان، مہد اورافرا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”بھئی ایسی بھی کیا بات ہے؟“ انکل دانیال نے ان کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”انکل یہ ہماری عبیرہ رانی کو ایڈونچر کا بہت شوق ہے، شوق کی حد تک ٹھیک ہے لیکن جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کر انہوں نے اپنا ایک ”اسکواڈ“بنا رکھا ہے، جسے انہوں نے ”مشن اسکوارڈ“کا نام دے رکھا ہے اور اس اسکوارڈ کی انچارج بھی خود ہی ہیں۔ تین سال پہلے ہم ماموں کے ہاں کراچی گئے تو یہ جعلی انڈے بنانے والے گروہ کے پیچھے ایسے پڑی کہ اس گروہ کو پکڑوا کر ہی دم لیا، یہ کارنامہ ویسے تھا شاندار،کہ جعلی دودھ بنانے والے گروہ کو پکڑانے سے بھی شاندار کارنامہ۔۔۔۔“افرا نے تعریف ہی کر دی۔
”اے بھئی ہماری بیٹی تو پھر شرلاک ہومز کو پڑھتی ہوگی، بلکہ یہ تو ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ عبیرہ اتنی بہادر بچی ہے۔“عبیرہ انکل دانیال کی بات سن کر خوشی سے پھول سی گئی۔
”اب دیکھ لیں تعریف سنتے ہی پھول کر کپا ہو جائے گئی۔“ مہد نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
”لیکن پیارے بچو! یہ بہادری اپنی جگہ لیکن کبھی بھی کسی کام میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤ جس سے جان کو خطرہ لاحق ہو۔ کیونکہ یہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے مترادف ہو گا۔“انکل دانیال نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”بس بھائی! ہمیشہ ان کو یہ ہی نصیحت کرتی ہوں، لیکن پتہ نہیں کیوں عبیرہ کو سمجھ نہیں آتی، اس چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے دیے ہیں۔“عبیرہ کی امی بولیں۔

٭٭٭٭

ناشتے کے بعد وہ لوگ داؤد کے ساتھ ایبٹ آباد کی سیر کو نکل چکے تھے۔ چاچو شکیل گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ جبکہ داؤد انہیں راستے سمجھا رہا تھا۔ چاچو شکیل منجھے ہوئے ڈرائیو ر کی طرح گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے شملہ پہاڑی سے نیچے اتر رہے تھے، سامنے ہی ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد کی عمارت نظر آرہی تھی۔ اچھا تو یہ ہے وہ ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد جہاں پر پوٹھوہاری فنکاروں کی آواز پورے پاکستان میں پہنچتی ہے۔انہیں گھر سے نکلے ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ دوپہر ہونے کو تھی۔ اس دن دھوپ میں تمازت کچھ زیادہ ہی تھی۔ انہیں پیا س محسوس ہورہی تھی۔ سلیمان نے جب اپنی پیاس کا بتایا تو سب نے ہی اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو داؤد کی نشاندہی پر وہ ریڈیو پاکستان ایبٹ آبا دکی عمارت سے ملحق ایک جوس کارنر پر رک گئے۔ وہ گاڑی سے نیچے اتر کر جوس کارنر میں داخل ہوچکے تھے اور ملک شیک کا آڈر بھی ہو چکا تھا۔ ملک شیک پینے کے بعد سلیمان، مہد، افرا، عبیرہ اور داؤد گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے جبکہ چاچو شکیل کیش کاؤنٹر پر جوسز کا بل ادا کرنے میں مصروف تھے۔ عبیرہ اس دوران شہر کی سٹرکوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ سڑک پر معمول کی ٹریفک رواں تھی۔ کہ اچانک اس کی نظر سفید کار پر پڑی وہ کار اپنی حد رفتا ر سے کچھ زیادہ ہی تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی ان کی جانب بڑھ رہی تھی، مقامی لوگوں کے لیے یہ معمول ہو سکتا تھا لیکن عبیرہ کے لیے یہ غیر معمولی تھا۔ عبیرہ نے غور سے اس کی نمبر پلیٹ دیکھنا چاہی لیکن اس گاڑی کی نمبر پلیٹ تو تھی ہی نہیں۔ اتنی دیر میں وہ تیز رفتار گاڑی پلک جھپکتے ہی ان کے پاس سے گزر گئی۔ اتنی دیر میں چاچو شکیل بھی گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ چاچو شکیل بھی اسی تیز رفتار گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
”چاچو!جلدی گاڑی سٹارٹ کریں۔ ہمیں اس گاڑی کا پیچھا کرنا ہوگا۔“عبیرہ کی الجھن بتارہی تھی یہ گاڑی اور اس رفتار معمول کی کارروائی نہیں ہوسکتی بلکہ کچھ ایسا ضرور ہے، بھلے اس کا وہم ہی ہو لیکن اس کے اندر کا جاسوس اسے اکسا رہا تھا کہ اس گاڑی کا پیچھا کرنا چاہیے۔ اتنی دیر میں چاچوشکیل ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکے تھے۔ لیکن وہ جلدی میں نہیں تھے۔
”چاچو!میں نے کہا نا کہ اس گاڑی کے پیچھے چلیں۔“ عبیرہ ایک بار پھر بولی۔
”نہیں چاچو!ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس گاڑی کا پیچھا کرنے کی بلکہ گھر چلیں، بھوک بھی لگ رہی ہے اور گھر والے بھی انتظار کر رہے ہوں گے۔ اب کی بار عبیرہ کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ یہ نہ ہو کہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں، نیا شہر ہے،اجنبی لوگ ہیں اور اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوا بھی تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم کسی جھنجھٹ میں پڑیں۔“ سلیمان نے ہمیشہ کی طرح عبیرہ کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے چاچو شکیل کو گھر جانے کا کہا۔ لیکن چاچو شکیل کچھ سوچ کر گھر جانے کی بجائے اس تیز رفتار گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی بھگا دی۔ عبیرہ ونڈ سکرین سے سامنے سڑک پر دیکھ رہی تھی وہاں معمول کی ٹریفک تھی لیکن تیز رفتار گاڑی کا نام و نشان نہیں تھا شاید وہ بہت دور نکل چکی تھی۔ لیکن ان کی گاڑی بھی ایک رفتار سے تیز دوڑ رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد ان کے سامنے دو راستے تھے۔ اچانک سے دو راستے دیکھتے ہی وہ مایوس ہوگئے کہ اب وہ تیز رفتار گاڑی بھلا کس راستے پر جا سکتی ہے، اتنی دیر میں عبیرہ چلائی، ”چاچو بائیں جانب جانے دیں۔“
”بائیں جانب کیوں؟“ چاچو شکیل بولے۔ چاچو شکیل کی بات سن کر عبیرہ بولی وہ دیکھیں سڑک پر ابھی تک دھول اڑرہی ہے اور سڑک پر چلنے والے لوگ بھی رک کر اسی طرف دیکھ رہے ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ تیز رفتار گاڑی اسی جانب گئی ہے اور لوگ بھی اس غیرمعمولی رفتار والی گاڑی کو دیکھنے کے لیے ہی اس جانب دیکھ رہے ہیں۔“چاچو شکیل نے بھی اپنی گاڑی اسی راستے پر ڈال دی۔ ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ شہر کی آباد ی کم ہونا شروع ہوگئی اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں نظر آنے لگیں۔ ان کی گاڑی دوڑتی جارہی تھی۔ لیکن ابھی تک وہ گاڑی ان کے سامنے نہیں آئی تھی جس کے تعاقب میں وہ تھے۔ گاڑی میں بیٹھے باقی تمام بچے خاموشی سے باہر ہی دیکھے جارہے تھے۔ پھر اچانک ہی انہیں سامنے دور سے دھول اڑائی دوڑتی ہوئی وہ گاڑی بھی نظر آہی گئی۔ عبیرہ کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آئے،لیکن اس کی رفتار ابھی بھی تیز تھی۔ چاچو شکیل نے اپنی گاڑی کی رفتار بڑھادی، ان کے پاس پوٹھوہار جیپ تھی۔ وہ کچھ ہی لمحوں میں تیز رفتار گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔ آگے پختہ سڑک ختم ہو چکی تھی، اردگرد پہاڑوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر تھی جس کی وجہ سے تیز رفتار گاڑی کی رفتار قدرے کم ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ تیزرفتار ہوتی گاڑی کے مزید قریب ہوتے، ایک پہاڑ کا موڑ کاٹتے ہی وہ تیز رفتار کار اچانک سے گم ہوگئی۔ چاچو شکیل نے بریک لگادیے۔ وہ پریشان ہوگئے کہ قریب قریب کہیں بھی وہ گاڑی نظر نہیں آرہی جس کا وہ تعاقب کررہے تھے۔ انہوں نے بھی اپنی گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور گاڑی سے اتر کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگے۔ ابھی سڑک پر ہی تھے اور ارد گرد کا جائزہ لے رہے تھے کہ آخر کار وہ کار کہاں گم ہو سکتی ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے تو ان کے سامنے تھی۔ کہ اچانک عبیرہ کو رائفلوں کا کھڑاک سنائی دیا۔ ان کے سامنے دو نقاب پوش کھڑے تھے۔ ”خبردار……“ان کے لہجے سپاٹ تھے۔ اسلحہ بردار نقاب پوشوں کو دیکھتے ہی جیسے ان کے ہوش گم ہوگئے۔ اتنی دیر میں ایک نقاب پوش نے آگے بڑھ کر عبیرہ کے منہ پر ایک کپڑا رکھ دیا۔

٭٭٭

ہدف کا پہلا سراغ
”ہائے اللہ ……میرے بچے کس حال میں ہوں گے۔“عبیرہ کی ماں گھبرائی ہوئی تھی۔ سامنے صوفے پر چاچو شکیل اور داؤد پریشان بیٹھے تھے۔
”شکیل!مجھے شروع سے کہانی بتاؤ، ہوا کیا تھا؟“ انکل دانیال بھی اپنے ضروری کام سے واپس پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔
”ہم جوس کارنر سے نکلے تو عبیرہ کو ایک گاڑی نظر آئی جو غیر معمولی رفتار سے سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح عبیرہ کی رگ جاسوسی پھڑک اٹھی اور ہم نے شک کی بنیاد پر اس گاڑی کا تعاقب کیا۔ پھر اس کے بعد ایک جگہ پر وہ گاڑی غائب ہوگئی۔ ہم بھی وہیں رک گئے۔ لیکن جیسے ہی ہم جائزہ لینے کے لیے اس جگہ اپنی گاڑی سے اتر ے سامنے دو نقاب پوش آن پہنچے انہوں نے عبیرہ، سلیمان، مہد اور افرا کے منہ پر رومال رکھ کر بے ہوش کر دیا لیکن مجھے اور داؤد کو گن پوائنٹ پر ہماری گاڑی میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے سامنے ہمارے بچوں کو اپنی گاڑی میں ڈالا اور ہم بے بسی میں اس وقت کچھ بھی نہ کرسکے اور وہ آناً فاناً وہاں سے نکل گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے اور داؤد نے اس گاڑی کا پیچھا کیا لیکن ہمیں کافی دور تک ان کا نام و نشان نظر نہ آیا اور اسی پریشانی میں ہم دونوں واپس گھر پہنچے ہیں۔
”اللہ خیر کرے، ……اللہ پاک ان کی زندگیوں کو محفوظ رکھے۔“عبیرہ کے ابو کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ پریشانی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ جبکہ داؤد کی امی عبیرہ کی امی کو دلاسہ دے رہی تھیں کہ ہم نے صبح جاتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے رب کے سپرد کیا تھا اور وہ ہی ہے جو انہیں اسی طرح محفوظ طریقے سے واپسی گھر پہنچائے گا جیسے شکیل اور داؤد کو محفوظ طریقے سے گھر پہنچادیا۔
”پریشان نہ ہوں۔ میں ابھی اپنے دوست انسپکٹر حامد کو فون کرتا ہوں اور انہیں اس ساری صورتحال سے آگاہ کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ وہ جلد اس کا حل نکال لیں گے، کیونکہ ایسے مسائل کا حل نکالنے میں وہ ماہر پولیس والے ہیں۔ انہوں نے بڑے بڑے گینگ پکڑے ہیں۔ پھر انکل دانیال انسپکٹر حامد کا نمبر ڈائل کرنے لگے۔ دوسری طرف سے ہیلو کی آوازآئی جو انسپکٹر حامد کی ہی تھی۔
”جی دانیال صاحب!خیریت سے فون کیا۔“انسپکٹر حامد نے خیریت دریافت کی تو انکل دانیال نے چاچو شکیل کی زبانی سنی ساری کہانی ان کے گوش گزار کر دی۔
”کیا! ……؟“انسپکٹر حامد ایک دم چونکے۔ ”دانیال صاحب ذرا فون شکیل صاحب کو دیں۔“ انسپکٹر حامد نے فوراًچاچو شکیل سے بات کرنا چاہی۔ ”شکیل صاحب!کیا وہ گاڑی سفید رنگ کی تھی؟“انسپکٹر کا سوال سن کر چاچو شکیل بولے۔ ”جی ہاں ……“
”اوکے میں ابھی دانیال صاحب کے گھر آرہا ہوں۔“یہ کہتے ہی انہوں نے کال کاٹ دی۔
”کیا کہا انسپکٹر صاحب نے ……؟“انکل دانیال فوراً بولے۔
”وہ ادھر ہی آرہے ہیں۔“چاچو شکیل بولے۔

٭٭٭

انسپکٹر حامد پہنچ چکے تھے۔ وہ ڈرائنگ روم میں سب کے ساتھ بیٹھے تھے اور چاچو شکیل کی زبانی رونما ہونے والا واقعہ سن رہے تھے۔
”ہونہہ! اس کامطلب وہ پروفیسر جعفر ی کے بیٹے کو اس طرف لے کر گئے ہیں۔“انسپکٹر حامد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب!……کون پروفیسر جعفر ی ……؟“سب کے منہ سے نکلا۔
”دانیال صاحب میں پروفیسر جعفری کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے شہر کے مشرق میں جو سائنس لیبارٹری موجود ہے وہاں کے انچار ج صاحب۔ انہی کی کال آئی تھی کہ ان کے بیٹے کو کچھ نامعلوم لوگوں نے اغوا کر لیا ہے۔ کیونکہ کچھ عرصے سے پروفیسر جعفری کو دھمکیاں مل رہی تھیں کہ اگر وہ ان کا کہنا نہیں مان جاتے تو یا تو وہ پروفیسر جعفری کو مار ڈالیں گے یا پھر انہیں کوئی ایسا نقصان پہنچائیں گے جس کی تلافی ناممکن ہوگی۔“انسپکٹر حامد نے بتایا۔ اور کہنے لگے۔”جب ان کا فون آیا تو ہم نے فوری طور پر اس جگہ کا جائزہ لیا جہاں سے ان کے بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا تو وہاں پر لگے سیکورٹی کیمروں کی مدد سے یہ جان پائے کہ وہ گاڑی سفید رنگ کی تھی اور اغوا کاروں نے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔ لیکن اس سے آگے کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں تھا۔ میں ابھی وہیں سے واپس آکر آفس بیٹھا ہی تھا اور اپنے ماتحتوں کو مزید تفتیش کے لیے شہر میں پھیلا دیا تھا۔ لیکن اسی وقت آپ لوگوں کی کال آگئی۔ یقین جانیے آپ کی کال آتے ہی میری ایک گتھی تو سلجھ ہی گئی کہ وہ اغوا کار کس طرف گئے ہیں۔شکرہے یہ میرے ”ہدف کا پہلا نشان“ہے جو آپ کی کال سے ملا ہے۔“
اسی دوران انہوں نے فون ملایا اور اپنے ایک ماتحت کو پیغام دینے لگے۔ کہ وہ باقی جگہوں کو چھوڑ کر سیدھے شہر کی مشرق کی جانب سبز پہاڑی کی جانب اغوا کاروں کے پیچھے جائیں۔ پھر وہ اٹھے، انکل دانیال، عبیرہ کے ابو اور چاچو شکیل سے کہنے لگے،”چلیں ہم پروفیسر جعفری کے گھر چلیں گے۔“ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ دروازے کی بیل بجی۔ جیسے ہی چوکیدار نے دروازہ کھولا تو سامنے عبیرہ، سلیمان، مہد اور افرا کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر پریشانی اور ہوائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ لیکن جیسے ہی ان کی نظر چاچو شکیل پر پڑی تو ان کی پریشانی رفوچکر ہوگئی اور وہ بھاگ کرچاچوشکیل سے چمٹ گئے۔
”بیٹا شکر ہے تم لوگ صحیح سلامت گھر پہنچ گئے۔“عبیرہ کے ابو کی آواز سن کر گھر میں بیٹھی خواتین بھی باہر نکل آئی۔ انہوں نے بچوں کو دیکھ کر خوشی سے بھاگ کر انہیں گلے لگایا۔ سب گھر والوں کی خوشی دیکھنے والی تھی۔
”دانیال صاحب!ہمارے پاس وقت بہت کم ہے،ہمیں فوری طور پر پروفیسر جعفری کی جانب چلنا ہوگا۔“انسپکٹر حامد بولے۔ پولیس یونیفارم میں موجود انسپکٹر حامد کو دیکھ کر عبیرہ نے پوچھا۔
”انکل دانیال!یہ انکل کون ہیں اور ہمارے گھر کیسے؟ اور یہ کن پروفیسر جعفری کی بات کر رہے ہیں۔“افرا سے رہا نہ گیا۔
”چلو بچو!آپ بھی ہمارے ساتھ ہی پروفیسر جعفری کے گھر جائیں گے،راستے میں بات ہوگی کہ آپ پر کیا بیتی اور پروفیسر جعفری کا کیا تعلق ہے، آپ سے اور آپ کے اغوا کاروں سے۔……“انسپکٹر حامد نے کہا تو بچوں نے نہ سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ قدم بڑھا دیے۔

٭٭٭

پریشان پروفیسر
پروفیسر جعفری پریشانی کے عالم میں اپنے ڈرائنگ روم میں انسپکٹر حامد کا انتظار کر رہے تھے۔ کیونکہ دانیال صاحب کے گھر سے نکلتے ہی انسپکٹر حامد نے انہیں فون پر مطلع کر دیا تھا کہ وہ کچھ مہمانوں کے ساتھ ان کے ہاں آرہے ہیں۔ کافی دیر گزرنے کے بعد ”پریشان پروفیسر“نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کردیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ انہیں رہ رہ کر اپنے جوان بیٹے کا خیال پریشان کر رہا تھا کہ ان کی ان کو بیوی کی رونے والی آواز نے انہیں ان کی طرف متوجہ کردیا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم میں پہنچ چکی تھیں۔
”جعفری صاحب!کیا میرے بیٹے کو ہی ان ظالموں کی قربانی بنانا تھا۔ ہائے ……ہائے ……وہ اب تک پتہ نہیں میرے بچے کے ساتھ کیا سلوک کر چکے ہوں گے۔“بیگم جعفری روتے ہوئے پروفیسر جعفری کو کوس رہی تھیں۔
”اگر میرے بچے کو کچھ ہوگیا تو ……تو یہ یاد رکھیے گا میں کبھی آپ کو معاف نہیں کر پاؤں گی۔“ بیگم جعفری کا غصہ واجب تھا۔ وہ ایک ماں تھیں اور ماں کا اپنی اولاد کے لیے یہ جذبہ جبلی تھا۔ پروفیسر جعفری بھی جانتے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔ اس لیے انہوں نے غصے کی بجائے ہمت اور حوصلے سے بیگم جعفری کی ڈھارس بندھائی۔
”بیگم!حوصلہ رکھیں۔ میں نے جو بھی فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے سامنے میری اولاد کیا میری جان بھی بہت کم ہے۔ میں اس ملک میں پیدا ہوا جسے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ میری سرحدوں پر میرے محافظو نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور میرے ملک کو انہوں نے ہمیشہ بری نظر رکھنے والوں سے بچایا اور اپنی جانوں کے نذرانے دیے۔“ پروفیسر جعفری کی باتوں میں ایک محب وطن بول رہا تھا۔
”جعفری صاحب!آپ نے ان کی بات کیوں نہ مانی، اگر نہیں ماننا تھی تو کم از کم انہیں تو اعتماد میں لے لیتے جن کے لیے سارے جتن کیے۔ وہ ہماری سیکورٹی کا تو کوئی بندوبست کرتے اور ہم آج یوں اپنے بچے کے لیے نہ ترس رہے ہوتے اللہ نہ کرے ان ظالموں نے اگر ایسا ویسا کچھ کر دیا ہوا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی۔“بیگم جعفری کا غصہ اور غم ابھی پوری طرح ان پر حاوی تھا۔
”اب بھی وقت ہے ان کی پیشکش قبول کر کے ہم اپنے بچے کو بچا سکتے ہیں۔“بیگم جعفری بولے جارہی تھیں۔ پروفیسر جعفری خاموشی سے بیگم کی باتیں سن رہے تھے لیکن کچھ بول نہیں رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بیگم جعفری ماں کی مامتا سے مجبور ہو کر وطن سے غداری کا کہہ رہی ہیں۔ ایک طرف ماں تھی تودوسری طرف باپ کی باپتا بھی قائل کر رہی تھی کہ وہ بیگم کی بات مان جائیں اور ”فارمولا“ ان ملک دشمنوں کے حوالے کر دیں اور اپنے بیٹے کو موت کے منہ سے واپس لے آئیں لیکن پھر ان کا ضمیر بھی ایک طرف کھڑا انہیں ملک سے محبت کا درس دے رہا تھا اور وہ دل اور ضمیر کی جنگ میں پھنس گئے۔ پھر وہ جذبات میں بولے۔
”اللہ پاک ہماری نیتوں کو خوب جانتا ہے۔ میں نے جو بھی فیصلہ کیاوہ اللہ پاک کے سچے دین کے نام پر بنائے گئے ملک پاکستان کی بقا کے لیے تھا۔ میرے ملک پاکستان کی بقااسی میں ہے کہ میں اور میرے جیسے وہ لوگ جنہیں اللہ پاک نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ہم اپنا حق ادا کرتے ہوئے ملک کے مستقبل اور خوشحالی اور تحفظ کے لیے اپنی جانوں تک کو قربان کر دیں۔ یہ تومیرا ایک بیٹا ہے میرے جتنے بھی بیٹے ہوتے میں اپنے حق کے لیے انہیں بھی نذرانے کے طور پر قربان کرنے سے گریز نہ کرتا۔ مجھے کامل یقین ہے اپنے رب پر کہ جس ذات نے مجھے حق پر کھڑا رکھا وہ اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں کرے گا اور ملک دشمنوں کے خطرناک عزائم کو نیست و نابود کر دے گا اور ہمارا بیٹا صحیح سلامت اپنے گھر واپس آئے گا۔ ان شاء اللہ۔“

٭٭٭

بیگم جعفری پاؤں پٹختی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئیں اور اسی دوران دروازے پر بیل کی آواز سنائی دی۔ پروفیسر جعفری سمجھ گئے کہ انسپکٹر حامد اور ان کی ٹیم یقینا پہنچ چکے ہیں اور اگلے ہی لمحے انسپکٹر حامد اور ان کے ساتھ چار بچے اور تین لوگ موجود تھے۔
”السلام علیکم!“پروفیسر جعفری نے سب کا استقبال کیا اور انہیں ڈرائنگ روم میں وسعت دل سے جگہ دی۔ پروفیسر جعفری جانتے تھے کہ انسپکٹر حامد جلد یا بدیر اس کیس کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کا سابقہ ریکارڈ ان کے بلکہ پورے شہر کے سامنے تھا۔
”جی انسپکٹر صاحب!کچھ معلومات آپ کے سامنے آئیں؟“پروفیسر جعفری نے پوچھا۔
”جی بالکل ہماری تفتیش کے دائرہ کا رمیں ان بچوں کا عمل دخل کافی حد تک نامعلوم اغوا کاروں تک پہنچا سکتا ہے۔“ انسپکٹر حامد نے عبیرہ اور باقی بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ہیں!یہ بچے ……ان کا کیسا عمل دخل ہو سکتا ہے۔؟“پروفیسر جعفری کے سوال میں تعجب صاف جھلک رہا تھا۔ پھر انسپکٹر حامد نے ہونے والے واقعہ سے مکمل آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بچے شک کی بنا پر ان کا پیچھا نہ کرتے تو ہمیں کبھی پہلا سراغ نہ ملتا کہ وہ گاڑی اور اغوا کار جنہوں نے آپ کے بیٹے کو اغوا کیا ہے وہ کس طرف گئے ہیں۔ ابھی میں نے اپنی نفری کو اسی جانب بھیجا ہے۔ امید ہے جلد ہی کوئی نیا سراغ ڈھونڈ کر اغوا کاروں تک پہنچ جائیں گے۔ جبکہ اغوا کاروں نے جب ان بچوں کو اغوا کیا تو ایک غارمیں بے ہوش بچوں کو چھوڑ کر خود ایک بار پھر فرار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جس راستے پر وہ گئے ہیں جیسے ہی وہ کچھ آگے پہنچیں گے تو آگے دریائے کنہار اپنی پوری رفتار سے بہہ رہا ہے۔ ہم نے دریا پر رہنے والے جاسوسوں جو کشتیوں کے ملاح کے طور پر ہمیشہ دریا پر ہی موجود ہوتے ہیں انہیں اطلاع دے دی ہے اگر وہ دریا کی جانب نکلتے ہیں تو ہمارے جاسوس انہیں قابو کر لیں گے۔“انسپکٹر حامد نے تفصیل بتائی۔
”اور اگر وہ دریا کی جانب نہ نکلے تو ……؟“پروفیسر جعفری کا ایک بار پھر سوال تھا۔
”اگر وہ دریا کی جانب نہ نکلے تو انہیں پہاڑوں میں وہ روپوش ہوں گے تو ہم اس علاقے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان تمام غاروں کو بھی جانتے ہیں جہاں وہ پناہ لے سکتے ہیں۔“انسپکٹر حامد نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔”لیکن پروفیسر صاحب آپ ہمیں پہلے بتائیں گے کہ یہ اغوا کار آپ سے کیا چاہتے تھے جو آپ نے انکی بات نہیں مانی اور انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا۔ آپ ہمیں بتائیے تاکہ ہم کیس کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسی طرزپر اقدامات اٹھا سکیں۔ امید ہے آپ ہم سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے۔“ انسپکٹر حامد نے تفتیش کا رخ پروفیسر جعفری کی جانب موڑتے ہوئے کہا۔ پروفیسر جعفری نے سوال سن کر پہلے انسپکٹر حامد کے ساتھ موجود بچوں اور بڑوں کو دیکھا اور بولے۔
”یہ ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اجنبی لوگوں کے سامنے شاید مناسب نہ ہو گاکہ میں میں آپ کو تفصیلی کچھ بتاسکو ں۔“ پروفیسر جعفری نے تشویش ناک لہجے میں کہا تو انسپکٹر حامد بولے۔
”آپ کھل کر بات کریں۔ یہ بچے کوئی عام بچے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے کارنامے سن کر جہاں میں دنگ رہ گیااگر آپ سنیں گے تو آپ بھی حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔ یہ بچے بھی محب وطن اورسچے پاکستانی بچے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کے سامنے آپ بات کریں مجھے امید ہے کہ جتنے سمجھدار یہ بچے ہیں،ہو سکتاہے کوئی سراغ نکالنے میں ہماری مدد بھی کر سکیں گے۔“ انسپکٹر کی بات سن کر عبیرہ اور سب بچوں سمیت بڑوں نے بھی غور سے پروفیسر کی بات سنی۔ پروفیسر جعفری بولے۔
”میں نے ایک نئی ایجاد کی ہے۔ وہ ایک ایسی ایجاد ہے جو دنیا میں ابھی کسی ملک کے پاس نہیں ہے۔ اس کا تعلق ہماری فوج سے بالواسطہ بنتاہے۔“پروفیسر جعفری کی بات سن کر سب ایک دم چونکے۔
”کیسی ایجاد ……؟“عبیرہ جھٹ سے بولی۔ پروفیسر جعفری نے ناگواری سے ایک بار عبیرہ کی جانب دیکھا لیکن پھر تسلی بھرتے ہوئے بولے۔
”میں نے ایک نئی تھری ڈی گن ایجاد کی ہے۔ جس میں کارتوس یا گولی نہیں استعمال کی جاتی بلکہ ……!“
”تو پھر اس میں کیا استعمال ہوتا ہے۔؟“سب کے لہجے میں تجسس تھا۔
”یہ ایک لیزر گن ہے۔ جو کئی میل دور دشمن کو لیزر سے ہی ختم کر سکتی ہے۔ جس کی آواز بھی نہیں ہے۔ بس دشمن پر لیزر ماریں اور ٹریگر دبا دیں تو دشمن جل کر بھسم ہو جائے گا۔“پروفیسر جعفری اپنی ایجاد کے بارے میں بتارہے تھے۔
”واؤ ……یہ تو دنیا کی منفرد ایجاد ہے۔“سب نے یک زبان کہا۔
”لیکن آپ کی اس ایجاد اور اس کے فارمولے کو کون ہتھیانا چاہتا ہے۔ جب کہ آپ نے اپنے ملک اور فوج کے لیے یہ ایجاد کیا ہے۔؟“ اب کی بار انسپکٹر حامد کا اگلا سوال تھا۔
”میں نہیں جانتا وہ کون لوگ ہیں جو مجھے دھمکا رہے تھے۔ میں نے اسی دن پہلی بار انہیں دیکھا جب وہ میرے گھر میں آئے۔ ان کے چہروں سے لگ رہا تھا کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں بلکہ کسی اور ملک کے ہیں۔“
”کسی اور ملک آخر کار چہرے مہرے سے پتہ تو لگ ہی گیا ہوگا کہ کس ملک کے باشندے تھے۔“ انسپکٹر حامد نے پوچھا۔ پروفیسر جعفری بولے۔
”وہ تین لوگ تھے۔ ان میں سے ایک سفید فام جبکہ دو سانولے رنگ کے تھے۔ سفید فام تو یورپین تھا کوئی،لیکن وہ سانولے رنگ والے مجھے ہندوستانی لگ رہے تھے۔“
”یہ ہونہ ہو ……یہ لوگ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں۔“ انسپکٹر حامد کی بات سن کر عبیرہ اور باقی بچے اور بڑے ایک دم سہم سے گئے۔ اس سے قبل تو کبھی انہیں ایسے خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ پہلے تو وہ جب بھی کسی ایڈونچر میں شامل ہوئے تو وہ معمولی جرائم کرنے والے لوگ تھے۔ لیکن پہلی بار کسی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ سے پالا پڑا تو یقینا ان کی پریشانی بنتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ خفیہ ایجنسی والے بندہ مارنے سے گریز نہیں کرتے وہ اپنے مشن کو مکمل کرنے کے لیے کئی کئی جانیں بھی لے سکتے ہیں۔
”جب وہ پہلی بار یہاں میرے سامنے آئے تو انہوں نے دھونس کی بجائے آرام سے میرے ساتھ بات کی کہ ”یہ تھری ڈی گن“اور اس کا فارمولا انہیں دے دیں۔ اس کے بدلے میں وہ منہ مانگی رقم ان کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں گے۔“ پروفیسر جعفری بتارہے تھے۔
”اس کے بعد ا ن کا تین بار فون آیا، لیکن سکرین پر نمبر نمودار نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے ان کی پیشکش قبول نہیں کی اور انہیں بتایا کہ وہ اس نئی ایجاد کے حوالے سے پاک آرمی کیساتھ مل کر بہت جلد پریس کانفرنس کرنے جارہے ہیں، تو وہ مجھے دھمکانے لگے کہ وہ میرے خاندان کو مار دیں گے۔اس طرح آج میرے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا۔“پروفیسر جعفری نے تفصیلات بتائیں۔
”یہ چونکہ ملکی سلامتی کامسئلہ ہے تو ہم فوری طور پر پنڈی ہیڈکوارٹر اطلاع کریں گے۔ تاکہ ہمارے خفیہ ادارے اس مسئلے کو حل کرنے میں آگے بڑھیں اورملک دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔“انسپکٹر حامد نے کچھ سوچتے ہوئے پروفیسر جعفری سے کہا۔
”اس سے پہلے ہی میں میجر شوکت حیات کو مطلع کر چکا ہوں۔ چونکہ تھری ڈی گن ایجاد کا ان کے علم میں تھا اور وہ ہی میرے ساتھ رابطے میں تھے۔ان کی نفری بھی تفتیش کے لیے نکل چکی ہوگی۔“
عبیرہ اور دوسرے بچے سہم گئے تھے۔ کہ وہ اب کی بار جس دشمن کی تاک میں لگے تھے وہ کوئی عام دشمن نہیں بلکہ غیر ملکی دشمن ہے۔ یقینا اس کے ہاتھ لمبے ہوں گے جسے دوسرے ملک میں بیٹھ کر یہ معلومات مل گئی ہیں کہ پاک ایشیا میں ایسی جدید ایجاد سامنے آنے والی ہے اور اس ایجاد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سرحد پار کی اور پروفیسر جعفری تک پہنچنے میں دیر نہیں کی۔ اس کا مطلب پاک ایشیا میں ان کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے ادارے بھی سوئے ہوئے نہیں ہے بلکہ اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کریں گے۔ اتنی دیر میں پروفیسر جعفری کے موبائل پر کال آنے لگی۔ پروفیسر جعفری موبائل کی سکرین دیکھتے ہی اچھلا۔
”انسپکٹر صاحب!یہ ان ہی اغوا کاروں کی کال آرہی ہے۔“

٭٭٭

ٹن ……ٹن ……ٹارگٹ
ایبٹ آباد سے آنے والی سڑک کے ختم ہوتے ہی وہ لوگ ایک ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک پر پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹارگٹ مکمل کر لیا تھا۔ پروفیسر جعفری کا بیٹا ان کے قبضے میں تھا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ اس کے اغوا سے پروفیسر جعفری کی حب الوطنی ہوا میں اڑ جائے گی اور ”تھری ڈی گن“کے ساتھ ساتھ اس کا فارمولا آسانی سے ان کے ہاتھ لگ جائے گااور وہ اپنے ملک لوٹ جائیں گے۔ ایبٹ آباد سے نکلے ہوئے انہیں ابھی کوئی پچیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ڈرائیور نے سائیڈ شیشے پر نظر دوڑاتے ہوئے وکرم کو آگا ہ کیا۔ ان کے تعاقب میں ایک پوٹھوہار جیپ ہے جو کافی دیر سے ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اغوا کے دوران ہوسکتا ہے کسی نے انہیں دیکھ لیا ہواور وہ ہمارے تعاقب میں ہوں۔ ان کے ساتھ سفید فام جو اس ”مشن تھری ڈی“ میں ان کا معاون تھا۔ وکٹر نے بھی سائیڈ شیشے پر نظر دوڑاتے ہوئے ڈرائیور کی بات کی تصدیق کی۔
”ابھی اس پہاڑ کا موڑ کاٹتے ہی ہم ڈھلوان پر اتریں گے۔ ریڈی اینڈ ہائی الرٹ“وکرم نے فوراً حکم صادر کیا۔ ڈرائیور نے موڑ کاٹنے ہی اپنی گاڑی ایک ڈھلوان پر ڈال دی۔ پہاڑی کی ڈھلوان سے اوپر ایک عمودی چٹان تھی جس کی وجہ سے سڑک پر کھڑے ہو کر نیچے کھڑی کسی بھی چیز کو دیکھنا ناممکن تھا۔ اسی دوران وکرم اور وکٹر نے ڈرائیور اور اغوا ہونے والے نوجوان کو گاڑی میں چھوڑا اور خود جائزہ لینے کے لیے لیٹے ہوئے سڑک کی جانب بڑھنے لگے۔ جب وہ ابھی سڑک کے کنارے پہنچے تھے تو انہوں نے اسی جیپ کو کھڑے دیکھا۔ وکٹر نے سر اٹھا کر اوپر دیکھاتو سامنے چند بچے اور ایک نوجوان کو پریشان کھڑے دیکھا۔ ایک لمحے میں خیال آیا کہ بچوں کا ان سے کیا لینا دینا۔ شاید یہ بچے راستہ کھو گئے ہیں یا پھر لانگ ڈرائیو پر نکلے ہوئے ہیں کچھ دیر کے لیے یہا ں کھڑے ہو کرپہاڑوں کا نظارہ لے کر واپس لوٹ جائیں گے۔ یہ ہی بات وکرم بھی سوچ رہا تھا۔لیکن ان کے پاس وقت کم تھا تو انہوں نے فور ی طور پر انہیں خاموش کرانے کا سوچا،پہلے تو وکرم نے سوچا کہ انہیں شوٹ کر دیا جائے لیکن پھر وکٹر نے کہا کہ نہیں ان بے قصور بچوں کو مارنے کی بجائے بے ہوش کرو اور چلتے بنو اور پھر ایسا ہی ہوا انہوں نے بچوں کو بے ہوش کیا جبکہ دو لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جبکہ بے ہوش بچوں کو ساتھ لے کر چل دیے لیکن راستے میں خیال آیا یہ بچے ان کے کسی کام کے نہیں ہیں بلکہ الٹا بوجھ بن رہے ہیں تو انہوں نے تھوڑی دور جاکر سڑک کنارے ایک غار میں انہیں رکھ کر اپنی منزل کی جانب چل دیے۔ کچھ دور جاکر ڈرائیور نے بڑے پہاڑ کا موڑ کاٹتے ہی گاڑی ایک بار پھر ایک ڈھلوان پر ڈال کی۔ نیچے عمودی گہرائی تھی۔ لیکن قدرتی طور پر بنے راستے پر گاڑی چلائی جاسکتی تھی۔ نیچے وادی میں پہنچ کر ان کے سامنے دوراستے تھے۔ ڈرائیو نے گاڑی کا رخ شمال کی جانب کر دیا۔ سامنے ہی اوپر سے ایک پانی کا جھرنا جو ایک ایک آبشار کی صورت نیچے گر رہا تھا۔ آبشار کے گرتے پانی کے سامنے پانی کی قدرتی گزرگاہ ایک ندی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ان کی گاڑی اس ندی کے کنارے چلتی ہوئی آبشار کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی۔ وہاں پانی کی بہتات نے خود رو جھاڑیوں کواتنا بڑا کر دیا تھا کہ دور سے کھڑے ہوکر کوئی بھی ان خود روجھاڑیوں میں کھڑا ایک بڑا ٹینک بھی نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔ اب کی گاڑی ان خود رو جھاڑیوں میں چلتی ہوئی ایک جگہ رک گئی۔ وکٹر نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر کر ان جھاڑیوں میں ایک مخصوص جگہ پر پھیلی جھاڑیوں کو ہاتھ سے ہٹا کر راستہ بنایا اور نیچے ایک زنجیر کو کھینچ دیا۔ ایک ہلکے سے دھماکے سے زمین کھسکنے لگی۔ یہ زمین میں چھپا ہوا ایک بینکر تھا۔ ایک ایسا بینکر جس میں بیک وقت دو گاڑیاں چھپائی جاسکتی تھیں۔ وہ لوگ گاڑی سمیت بینکر میں داخل ہو چکے تھے۔ نیچے جاتے ہی ایک زنجیر کو کھینچنے سے زمین میں بنا خلا پھر سے زمین کا منظر پیش کرنے لگا۔ وہ ایک سجا سجایا کمرہ تھا۔ انہوں نے ایک بینکر نما کمرے میں پہنچ کر اغوا شدہ لڑکے کو باہر نکالا۔ اتنی دیر میں وکر م کے ٹرانسمیٹر پر ٹوں ……ٹو ں ……ٹوں کی آواز گونجنے لگی۔
”میجر گپتا سپیکنگ ……“دوسری طرف سے آواز آئی
”یس سر! وکرم ……“وکرم نے کال اوکے کرتے ہی کہا۔
”مشن تھری ڈی ……ٹن ……ٹن ……“گپتا نے کسی کوڈ میں کہا۔
”یس سر!مشن تھری ڈی ……ٹن ……ٹن ……ٹارگٹ“ وکرم نے کوڈ میں بتایا۔
”ویلڈن ……گریٹ ایچومنٹ ……بٹ“
”وکرم آپ ٹارگٹ کو نقصان اس وقت تک نہیں پہنچائیں جب تک آخری کوشش نہ کر لیں۔ آپ مسٹر جعفری سے دوبارہ رابطہ کریں گے۔ انہیں آخری سگنل دیں گے۔ ہماری اطلاع کے مطابق وہ کل پریس کانفرنس کرنے جارہے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ تب تک ان کا بیٹا محفوظ رہے گا جب تک وہ پریس کانفرنس کینسل کرنے کا سگنل نہیں دیتے۔
”رائیٹ سر!“ وکرم نے بات سمجھتے ہوئے نئی ہدایات سمجھتے ہوئے کہا۔
”اف ……مسٹر جعفر ی سگنل نہیں دیتے تو دونوں کو اڑادو۔“گپتا نے ان کی موت پر مہر لگاتے ہوئے آخری حکم دیا۔
کال ختم ہوتے ہی وکرم نے وکٹر کی جانب دیکھا اور اس نوجوان کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اسے کیوں اغوا کیا گیا۔ لیکن اس کال کے بعد اسے کچھ سمجھ آیا تھا کہ اس اغوا کا تعلق اس کے والد جعفری صاحب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
وکٹر نے ایک لمحے کے لیے وکرم کی جانب دیکھا اور وکٹرنے فوراً تھرایا سیٹ (سٹیلائیٹ فون)اس کی جانب بڑھادیا۔ انہوں نے یہ آخری کال پروفیسر جعفری کو ملائی تھی۔
کال کرنے کے بعد ان کا منصوبہ طے ہوا کہ کل وہ پریس کانفرنس کے طے شدہ وقت کے مطابق وکرم اور وکٹر دونوں اسی جگہ پہنچے گے۔ اگر پروفیسر جعفری نے ان کا سگنل توڑا تو فوراً اسے ختم کر دیا جائے گا اور واپس آکر اس کے بیٹے کو ختم اور گیم اوور۔وکٹر نے فوراً بریف کیس میں سے دو پریس کارڈ نکالے اور مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے کمرے میں قہقہہ لگایا۔

٭٭٭

دوسری غلطی کی گنجائش
پروفیسر جعفری کی موبائل پر انہی کی کال تھی۔
”پروفیسر صاحب آپ کال اٹینڈ کریں۔ آپ کی کال ٹریپ ہورہی ہے۔ میں نے اسی وقت آپ کا موبائل ٹریپ پر لگا دیا تھا۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کے موبائل پر آنے والی کال سے پتہ لگا سکیں گے کہ کال کرنے والے کی پوزیشن کیا ہے۔
”جی فرمائیے!“پروفیسر جعفری کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔
”آپ کا بیٹا ہمارے قبضے میں آچکا ہے۔ دیکھ لیں پروفیسر آپ نے ہماری پیشکش قبول نہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اب دوسری غلطی کرنے کی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ اب یا تو تم کل پریس کانفرنس کرو گے یا پھر کانفرنس کا پروگرام ملتوی کر کے ہماری پیشکش قبول کرو گے۔“دوسری طرف سے ایک بار پھر پیشکش اور دھمکی دونوں ساتھ دیے جارہے تھے۔
”میں قطعاً تمہاری پیشکش کو قبول نہیں کروں گا۔“ پروفیسر کا لہجے اب سپاٹ ہو چکاتھا۔
”اوکے تمہارے پاس آج کی رات ہے سوچ لو ……اور خبردار کسی بھی قانونی کارروائی کو بروئے کار لائے تو وقت سے پہلے ہی تمہارے بیٹے کی گیم آؤٹ کر دی جائے گی۔“ٹوں ……ٹوں کے ساتھ ہی ایک با ر پھر کال کاٹ دی گئی۔
پروفیسر جعفری کے موبائل کا سپیکر آن تھا۔ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو وہاں موجود تمام افراد نے باآسانی سنی تھی۔
”پروفیسر صاحب آپ پریس کانفرنس کے موقع پر پہنچ کر پریس کانفرنس سے معذرت کر لیں گے۔“عبیرہ ایک دم سے بولی۔ اس کی بات سن پروفیسر سمیت انسپکٹر حامد اور سب لوگ ششدر رہ گئے۔
”اور ہاں!آپ اس سلسلے میں میجر صاحب کو پہلے اعتماد میں لے لیں گے۔“عبیرہ ایک بار پھر گویا ہوئی۔
”بچے تم کیا کہہ رہی ہو؟“انسپکٹر حامد عبیرہ کی بات سن کر صوفے سے جیسے اچھل گیا ہو۔
”انسپکٹر صاحب سنیے میرا پلان ……“سب لوگ عبیرہ کی جانب متوجہ ہوگئے۔ جب وہ سارا پلان بتاچکی تو انسپکٹر حامد نے اٹھ کر عبیرہ کو پیار سے تھپتھپایا اور بولے ”واقعی تم بہادر لڑکی ہو۔ اس طرف تو ہمارا خیال گیا ہی نہیں۔“
”ہاں!وہ لوگ واقعی اپنی آخری کوشش کریں گے کہ شاید عین وقت پر پروفیسر صاحب کو اپنے بیٹے کا خیال آجائے اور وہ پریس کانفرنس وہیں ملتوی کر دیں۔ کیونکہ وہ کسی طور پر بھی ”تھری ڈی گن“کو حاصل کر نا چاہیں گے۔ اگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ہوسکتا ہے وہ اسی وقت پروفیسر صاحب پر قاتلانہ حملہ بھی کریں۔ کانفرنس ملتوی کرنے کا منصوبے کا مطلب ان تک پہنچنے میں ہمیں کچھ وقت مل جائے گا۔ اور پھر جس نشان کا ذکر عبیرہ کر رہی ہے۔ وہ نشان ملتے ہی ہمارا نشانہ ٹھیک جگہ پر لگے گا۔ پھر وہ اپنے گھروں کو چل دیے کہ کل کے لیے تیاری کر سکیں۔

٭٭٭

دو منہ والا سانپ
اگلے دن انسپکٹر حامد، خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں اور ”مشن اسکوارڈ“جس میں چاچو شکیل، عبیرہ اور اس کے ساتھی شامل تھے۔چاچو شکیل اور عبیرہ کے باقی ساتھی باہر ہی نفری کے ہمراہ رک گئے جبکہ عبیرہ حلیہ بدل کر انسپکٹر حامد کے ہمراہ کانفرنس روم میں پہنچ چکی تھی۔ پروفیسر جعفری اور میجر صاحب جب کانفرنس ہال میں پہنچے تو ملکی اور غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کے نمائندگان موجود تھے۔ عبیرہ کی نظر تمام نمائندوں کے ہاتھوں پر تھی کیونکہ جب اس کے منہ پر بے ہوش کرنے والا رومال رکھا گیا تھا تو اس نے بے ہوش ہونے سے قبل اس ہاتھ پر دیکھا تھا جس پر ایک سانپ کا نشان تھا جس کے دو منہ تھے۔ پھر جیسے ہی عبیرہ کی نظر ایک نمائندے کے ہاتھ پر پڑی تو وہ ایک دم سے اچھلی پڑی۔ اس کے منہ سے ”وہ مارا“ کا نعرہ بلند ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس کا نشانہ ٹھیک نشانے پر لگا تھا۔ ان کی توقع کے عین مطابق وہ غیر ملکی جس نے انہیں اغوا کیا تھا اس پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ عبیرہ نے فوراً انسپکٹر حامد کو آگاہ کیا اور خاموشی سے اس شخص کی طرف اشارہ کیا۔ جس کے ہاتھ پر”دو منہ والا سانپ“ کا نشان واضح نظر آرہا تھا۔ انسپکٹر حامد ایک دم سے چوکنا ہوگیا۔ وہ چلتا ہوا ڈائس کی طرف بڑھا۔ جہاں میجر صاحب اور پروفیسر جعفری پریس کانفرنس کے لیے بالکل تیار کھڑے تھے۔ انسپکٹر حامد کو دیکھتے ہی پروفیسر جعفری نے کان ان کی طرف کیا۔ ان کی بات سنتے ہی پروفیسر جعفری کے چہرے پر ایک پریشانی کی جھلک واضح نظر آئی۔ چونکہ یہ ایک منصوبے کا حصہ تھا۔ پھر وہ بولے:
”میں معذرت چاہتا ہوں کہ میری بیوی کو ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے پریس کانفرنس ملتوی کی جاتی ہے۔“وکرم اور وکٹر نے جیسے ہی پروفیسر جعفری کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو وکرم نے وکٹر کی جانب فاتحانہ نظر وں سے دیکھتے ہوئے اشارہ کیا اور وہ ہال سے باہر نکل چکے تھے۔ وکرم اورو کٹر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی ایک نعرہ بلند کیا۔
”آخر کار!پروفیسر جعفری کو ہماری بات سمجھ آہی گئی اور بیٹے کی جان بچانے کے لیے اس نے جھوٹ بولا اور پریس کانفرنس ملتوی کر دی۔ اب بہت جلد ”مشن تھری ڈی“مکمل کر کے ہم اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔“وکٹر نے خوشی سے باچھیں پھیلا کر کہا اور گاڑی اپنے بینکر کی طرف دوڑا دی۔

٭٭٭

جیسے ہی وکرم اور وکٹر باہر نکلے تو انسپکٹر حامد اور عبیرہ بھی اس کے پیچھے ہی نکل کھڑے ہوئے۔ شہر میں لگائے گئے سیکورٹی کیمروں سے ان کی نگرانی مسلسل شروع ہوچکی تھی۔ سیکورٹی کیمروں کی نگرانی کے لیے باقاعدہ سیل اپنا کام شروع کر چکا تھا۔ خفیہ اداروں سمیت انسپکٹر حامد اوراس کی ٹیم بھی پوری تندہی کے ساتھ اپنے فل ایکشن میں تھی۔ راتوں رات اس پہاڑی سلسلے پر ان کے جاسوس چھپے ہوئے تھے جو راستوں کی نگرانی کر رہے تھے جہاں جہاں سے وکرم اور وکٹر کی گاڑی گزر رہی تھی۔ انسپکٹر حامد کو بذریعہ وائرلیس مطلع کیا جارہا تھا۔ خفیہ ادارے فضائی نگرانی پر مامور تھے۔

٭٭٭

وکرم اور وکٹر جیسے آبشار کے پاس خود رو جھاڑیوں کے پاس پہنچے اور اس سے قبل کے وہ زنجیر کو کھینچتے ایک فائر کی آواز نے وکٹر کو ڈھیر کر دیا۔ وکرم اس ناگہانی صورتحال کو دیکھتے ہی بینکر کی بجائے دوسری طرف بھاگا لیکن ایک گرم سیسہ اس کی ران میں انگارے بھر رہا تھا وہ کراہتا ہوا زمین پر آن گرا۔ اتنی دیر میں خفیہ اداروں کے لوگ اس کے سر پر پہنچ چکے تھے۔ وکرم اس ناگہانی آفت کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ پھر اتنی دیر میں انسپکٹر حامد اور مشن اسکوارڈ کی ٹیم بھی موقع پر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے خود رو جھاڑیوں میں بنے راستے پر نظر دوڑائی اور بجائے وکرم کی جانب وہ سیدھے ان خود رو جھاڑیوں میں گھس گئے جہاں وکٹر کی خون آلودہ لاش پڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک زنجیر تھی۔ انسپکٹر حامد کو یہ سمجھنے میں رتی برابر بھی دیر نہ لگی کہ اس زنجیر کو کھینچنے سے کیا ہوگا۔ اور اس نے زنجیر کھینچ دی۔ وہ اپنی نفری کے ساتھ جب بینکر میں داخل ہوا تو ہلکی روشنی اور ہلکی باتوں کی آواز نے انہیں چوکنا کردیا۔ لیکن جب وہ چپکے سے اندر داخل ہوئے توسامنے ایک سانولے رنگ کا شخص بے دھیانی میں لیٹا چھت کو گھور رہا تھا جب کہ اس کے ساتھ رسیوں میں جکڑا پروفیسر جعفری کا بیٹا اوندھا منہ پڑا تھا۔ پہلے ہی ہلے میں انہوں نے وکرم کے ڈرائیور کو اپنے قابومیں کر لیا۔

٭٭٭٭

”مشن اسکوارڈ“کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ اس سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی تھی کہ ملک دشمن کی خفیہ ایجنسی کا ”مشن تھری ڈی“کی تباہی کا سبب وہ نوعمر بچے بنے تھے۔ بڑے سے راؤنڈ ٹیبل کے گرد انسپکٹر حامد، پروفیسر جعفری، مشن اسکوارڈ کی ٹیم اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور میجر صاحب موجود تھے جبکہ سامنے دو کرسیوں پر”را“کے ایجنٹ اور ان کاڈرائیور بھگوان داس بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے کالے نقاب سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جبکہ کچھ دور ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے نمائندے لائیو دیکھ رہے تھے۔ دنیا بھر کا میڈیا دشمن ملک کا مکرہ چہرہ دکھا رہا تھا۔ ساتھ وہ عبیرہ اور اس کے ساتھیوں کے مشن اسکوارڈ کے نئے کارنامے سے بھی دنیا پوری کو آگا ہ کر رہا تھا۔
اسی دوران میجر صاحب نے عبیرہ کو اپنے پاس بلایا اور اس کا ہاتھ اٹھاتے ہوئے پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ جب تک میرے ملک پاک ایشیا میں ایسے بچے جن کے آباء و اجداد نے اپنے خون سے یہ دھرتی حاصل کی ہے۔ یہ بچے زندہ ہیں ہمارے ملک کی جانب کوئی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ہمارے ادارے اپنی جگہ لیکن ہم ایسے بچوں کی ہمت کی داد دیتے ہیں جن کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بدولت ہمارا ملک دنیا میں اپنا منفرد مقام بنارہا ہے۔ پاکستان قیامت تک رہنے کے لیے قائم ہوا اور قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ۔

پاکستان زندہ باد ……پائندہ باد۔۔۔۔ اور پھر پاک ایشیا کے ٹی وی چینلوں پر قومی ترانہ بجنے لگا اور دیکھنے والے ”مشن اسکوارڈ“کے اس کارنامے پر سردھننے لگے۔

٭٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top