skip to Main Content
مرتا ہوا کھوجی

مرتا ہوا کھوجی

تحریر: آرتھر کونن ڈائل

ترجمہ:محمد الیاس نواز

۔۔۔۔۔۔

شرلاک ہومز لندن میں مسز ہڈسن کے گھر کی پہلی منزل پر رہ رہا تھا۔ مسز ہڈسن شرلاک ہومز کے کمروں میں ہونے والی اجنبی سرگرمیوں اور رات بھر لوگوں کی آمد و رفت کی عادی ہو چکی تھیں۔ چونکہ ہومز اپنے گھر کا بھاری کرایہ ادا کرتا تھا اس لئے مسز ہڈسن اس بارے میں کوئی اعتراض نہیں کرتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ہومز ایک بہت ہی خاص آدمی ہے اور بہت اہم کام کرتا ہے۔

ایک دن مسز ہڈسن میرے گھر آئیں اور مجھے بتایا کہ ہومز سخت بیمار ہے،’’وہ موت کے منہ میں جا رہا ہے ڈاکٹر واٹسن۔وہ پچھلے تین دن سے سخت بیمار ہے مگر اس نے مجھے ڈاکٹر کو بلانے کی اجازت نہیں دی۔ آج صبح سے اس کا چہرہ سفید ہو رہا ہے اور اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑچکے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ،مسٹر ہومز! میں اسی وقت ڈاکٹر کو لینے جا رہی ہوں،تو مسٹر ہومز نے مجھ سے کہا،’تو پھر ڈاکٹر واٹسن کو لے آؤ۔‘اس لئے میں جتنی جلدی آسکتی تھی، آگئی۔‘‘

مجھے یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ہومز بیمار ہے اور مجھے علم ہی نہیں۔ میں مسز ہڈسن کے ساتھ جلدی سے ان کے گھر پہنچا۔ ’’میں آپ کو زیادہ کچھ نہیں بتا سکتی ڈاکٹرواٹسن۔ وہ راتھر ہتھے میں دریا کے قریب کام کر رہا تھا۔ وہاں سے جب واپس آیا تو بیمار ہو گیا۔ بدھ والے دن دوپہر کے بعد وہ بستر پر چلا گیا۔ تین دن سے اس نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔‘‘

’’تم نے ڈاکٹر کو کیوں نہیں بلایا مسز ہڈسن؟‘‘

’’اس نے مجھے نہیں جانے دیا جناب۔۔۔ اوہ، میرے عزیز! میں بہت ڈر رہی ہوں کہ وہ موت کے منہ میں جا رہاہے۔‘‘

جب میں نے ہومز کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ مسز ہڈسن ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ اس کا چہرہ بالکل ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ ہونٹ بالکل خشک اور پیلے ہوچکے تھے۔ اس کی آنکھوں کے گرد بڑے بڑے سیاہ حلقے پڑچکے تھے۔ وہ مردے کی طرح نظر آرہا تھا،بالکل ویسے ہی جیسے مسز ہڈسن نے بیان کیا تھا۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں ہومز؟‘‘ میں اس سے پوچھتے ہوئے اس کے بستر کی جانب بڑھا۔

’’رک جاؤ، رک جاؤ!‘‘ ہو مز عجیب آواز میں چلایا۔اس کا بات کرنے کا انداز اس سے بالکل مختلف تھا جیسے وہ پہلے مجھ سے بات کیا کرتا تھا۔

’’مگر کیوں؟‘‘

’’کیونکہ یہ میری خواہش ہے واٹسن۔ اور اپنی حفاطت کا خیال رکھو۔‘‘

’’اپنی حفاطت کا خیال؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ہاں، میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا غلط ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو سماٹرا سے آئی ہے اور اس کے بارے میں ڈچ ہی جانتے ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ اور تکلیف دہ طریقے سے انسان کو مارتی ہے مگر اس کا نتیجہ آخرکار موت ہی ہے۔ اس لئے واٹسن مجھے مت چھوناورنہ تم خوداپنے ہاتھوں سے بیماری پکڑو گے۔‘‘

’’مگر میں ہر حال میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں، ہومز!۔۔۔‘‘

’’یہ ایک بیماری ہے اور تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے واٹسن۔ اس لئے معاف کرنا ، تم اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

’’اچھا تو پھر میں سر جیسپر میک یا پینروز فشر یا لندن کے اچھے ڈاکٹروں میں سے کسی بھی دوسرے ڈاکٹر کو لے آتا ہوں۔‘‘

’’وہ لوگ مشرقی بیماریوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ۔۔۔یہ سب کچھ اس وقت ہواہے جب میں ایک ایسے آدمی کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس نے دوسرے کو مارنے کیلئے ایک دوا کا استعمال کیا تھا کہ خود اس بیماری کا شکار ہو گیا۔ تم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

’’اگرچہ میں کچھ نہیں کر سکتا مگر ڈاکٹر اینس ٹری اس وقت لندن میں ہیں اور وہ مشرقی بیماریوں کے بارے میں اپنی معلومات کے حوالے سے مشہور ہیں۔ میں جا رہا ہوں تاکہ میں ایک بار ضرور انہیں یہاں لے آؤ۔‘‘

جب میں نے یہ الفاظ کہے تو ہومز بستر سے چھلانگ لگا کر دروازے کی طرف بھاگا اور تالے میں چابی گھما کر دوبارہ بستر پر آ گرا۔

’’تم ابھی نہیں جا سکتے واٹسن، کیوں کہ چابی میں نے نکال لی ہے۔ ہاں، چھ بجے جا سکوگے اور ابھی چار بجے ہیں۔‘‘

’’ تم پاگل ہو گیے ہو ،ہومز۔‘‘

’’صرف دو گھنٹے ٹھہرجاؤ واٹسن۔‘‘

’’ اچھا ٹھیک ہے۔‘‘میں بہت فکر مند تھا مگر اس کے علاوہ اور میں کر بھی کیا سکتا تھا۔

’’ٹھیک ہے، مگر ابھی میرے قریب مت آنا اور بعد میں جا کر کسی ایسے شخص کو تلاش کرنا جو میری مدد کر سکے مگر ڈاکٹر اینس ٹری نہیں۔ میں تمہیں بعد میں بتاؤں گا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ اب میں آرام کر رہا ہوں اور تم اگر چاہو تو میری کتابیں دیکھ لو۔ چھ بجے ہم دوبارہ بات کریں گے۔‘‘

میں تھوڑی دیر کھڑا اس بے چارے کی طرف دیکھتا رہا۔ اس نے چہرے پر بستر کی چادر ڈال رکھی تھی جس سے لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے۔ تب میں نے خاموشی سے آرام گاہ کا چکر لگایا اور الماریوں میں لگی کتابوں اور دیواروں پر لگی تصویروں کو دیکھنے لگا۔ اسی دوران میری نظر آگ کے پاس رکھی کالی اور سفید ڈبیا پر پڑی۔ میں نے اسے اٹھانے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اسی وقت ہومز ایک چیخ کے ساتھ بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’اسے ہاتھ مت لگاؤ، واٹسن میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ اسے ہاتھ مت لگاؤ۔‘‘ وہ دوبارہ اپنے بستر پر گرتے ہوئے بولا،’’کسی چیز کو مت چھونا واٹسن۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے اس بات سے نفرت ہے کہ کوئی میری چیزوں کو چھیڑے یا اپنی جگہ سے ہلائے۔‘‘

اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ آدمی بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔ میں ایک ایک منٹ گننے لگا۔ جب چھ بجے تو ہومز مجھ سے مخاطب ہوا:

’’اب تم بتیاں جلا سکتے ہو واٹسن۔ مگر صرف تھوڑی دیر کے لیے ناکہ زیادہ وقت کے لیے، اور مہربانی کرکے کھڑکیاں مت کھولنا۔‘‘

میں نے بالکل ویسا ہی کیا جیسا اس نے کہا تھا۔ پھر اس نے آرام گاہ کی دوسری طرف رکھی الماری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا :

’’تمہیں وہاں کچھ کاغذ اور خط رکھے نظر آئے؟….. مہربانی کرکے ان کو اٹھا کر یہاں میرے قریب میز پر رکھ دو… بہت شکریہ…. اورہاں، وہ چھوٹی والی کالی اور سفید ڈبیا بھی، مگر اپنے ہاتھ سے اس کو مت چھونا۔ اخبار کے ٹکڑے سے خیال کے ساتھ اٹھا کر یہاں کاغذات اور خطوط کے ساتھ رکھ دو…. بہت اچھا، اب تم مسٹر کلورٹن اسمتھ کو لینے لوور برکے اسٹریٹ جا سکتے ہو۔‘‘

ہومز واضح طور پر بہت بیمار تھا اور مجھے اس کو اکیلا چھوڑتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا مگر اس کا حکم یہی تھا۔

’’میں نے یہ نام کبھی سنا نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’نہیں، یقیناًنہیں سنا ہوگا واٹسن، مسٹر کلورٹن اسمتھ سماٹرا میں رہتے ہیں اور آج کل لندن آئے ہوئے ہیں۔ وہ کسی اور کے مقابلے میں مشرقی بیماریوں کے بارے میں کافی زیادہ جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بیماری کے بارے میں بھی مطالعہ کر چکے ہوں گے اور اپنی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے مجھے اچھا کر دیں گے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم چھ بجے سے پہلے ان کے گھر جاؤ کیونکہ وہ چھ بجے تک کام کرتے ہیں اور اس سے پہلے وہ کسی سے نہیں ملتے۔ تم انہیں یہ بتا کر کہ میں کتنا بیمار ہوں، جلدی آنے کا کہو۔ ورنہ میں مر جاؤں گا کیونکہ زندگی کی جنگ ہارنے میں میرے پاس تھوڑا ہی وقت ہے۔‘‘

جب ہومز یہ بات کہہ رہا تھا اس وقت اس کے ہاتھ ہوا میں حرکت کر رہے تھے۔ وہ سر کو دائیں بائیں ہلا رہا تھا جبکہ اس کی آنکھیں چھت کی طرف لگی ہوئی تھیں۔تب مجھے یقین ہو گیا کہ ہومز اگلے گھنٹے تک زندہ نہیں رہے گا۔

’’صرف ایک اور بات واٹسن،‘‘جیسے ہی میں دروازے کی طرف بڑھا، ہومز نے کہا، ’’کوشش کرو کہ وہ یہاں آئے۔ وہ تمہیں منع کرے گا کیونکہ وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ جب اس کے غریب بھتیجے کا انتقال ہوا تھا تو میں نے اس بارے میں بات کرنے کے لئے اسے بلانے کی کوشش کی تھی تو اسے کتنا غصہ آیا تھا۔ مگر کوشش کرو کیونکہ و ہی مجھے بچا سکتا ہے۔‘‘

’’میں اسے یہاں اٹھا لاؤں گا۔‘‘

’’نہیں، نہیں، اسے بتاؤ تاکہ وہ خود یہاں آئے، یہ بہت ضروری ہے۔،اورتم اس سے پہلے وہاں سے نکل کر اس سے پہلے ہی یہاں واپس پہنچ جانا۔‘‘

’’ہاں ، اگر تم یہی چاہتے ہو تو۔‘‘

مسز ہڈسن ہومز کی آرام گاہ کے باہر کھڑی تھیں۔ وہ آہ بھرتی ہوئی آہستہ سے بولیں:

’’ میں اپنے گھر سے جب اس طرف آئی تو ہومز کی اپنے آپ سے باتیں کرنے اورگانا گانے کی آوازیں باہر آرہی تھیں۔ وہ بے چارہ تو بالکل ہی پاگل ہو گیا ہے۔ ‘‘

ابھی میں گھر سے چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک آدمی تیزی سے میری طرف بڑھا۔ یہ ہومز کا ایک پرانا دوست، لندن پولیس کا انسپکٹر مارٹن تھا۔

’’ہومز کیسا ہے؟‘‘

’’وہ بہت بیمار ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ مجھے یقین ہے کہ میں نے انسپکٹرمارٹن کے ہونٹوں پر چھپی ہوئی ایک ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی تھی مگر میں نے سوچا کہ شاید میری غلط فہمی ہے۔ جب میں لوور برکے اسٹریٹ پہنچا تو ایک ملازم نے مسٹر کلورٹن اسمتھ کے گھر کا دروازہ کھولا۔ میں نے اس سے کہا کہ مسٹر کلورٹن اسمتھ کو بتاؤ کہ میں آیا ہوں۔ چند منٹ بعد ملازم واپس آیا اور بولا:

’’معافی چاہتا ہوں جناب، مسٹر کلورٹن اسمتھ اس وقت مصروف ہیں۔ آپ صبح آجا ئیے ۔‘‘

میں نے سوچا کہ ہومز اپنے بستر پر موت کے منہ میں جا رہا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ میں اس کے لئے مدد لے کر آؤں گا۔ میں انتظار نہیں کر سکتا۔ میں نے ملازم سے اصرار کیا تو وہ مجھے مسٹرکلورٹن اسمتھ کے کمرے میں لے گیا۔ وہاں آگ کے پاس میں نے ایک لمبے، موٹے، بد صورت اور کرخت چہرے والے آدمی کو بیٹھے دیکھا۔ اس نے میری طرف غصے سے دیکھا۔

’یہ کیا ہے! یہ کیا ہے!‘‘ وہ زوردار آواز میں گرجا،’’ میں نے تم سے کہا ہے کہ تم کل آنا، اب میں تمہیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘

’’ میں معافی چاہتا ہوں جناب… یہ بہت لازمی ہے….مسٹر شرلاک ہومز….‘‘

جیسے ہی میں نے ہومز کا نام لیا اس شخص کے چہرے پر تبدیلی نظر آنے لگی۔ اب کوئی غصہ نہیں تھا بلکہ تأثرات کچھ مختلف تھے۔صاف نظر آرہا تھا کہ مسٹر کلورٹن اسمتھ ہومز کے بارے میں سننے کے لئے بے تاب تھا۔

’’تم اسی کے پاس سے آ رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’ہاں۔‘‘

’’کیا حال ہے اس کا؟ کیسا ہے وہ؟‘‘

’’وہ بہت بیمار ہے، اسی لئے تو میں آیا ہوں۔‘‘

آدمی نے دوسری کرسی کی طرف اشارہ کیا اور ہم دونوں بیٹھ گئے۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر دیکھی مگر اپنی غلط فہمی سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔

’’مجھے افسوس ہوا یہ سن کر۔‘‘ وہ بولا،’’میں ہومز کو اس وقت سے جانتا ہوں جب ہم نے کچھ کاروباری معاملات میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔‘‘

’’ہومز کوآپ کی مدد چاہئے مسٹرکلورٹن اسمتھ۔ آپ وہ واحد آدمی ہیں جو اس کی بیماری کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ بیماری ہے جو سماٹرا سے آئی ہے اور اسے آہستہ آہستہ موت کے منہ میں لے جا رہی ہے۔‘‘

’’مگر مسٹرہومز یہ کیوں سوچ رہا ہے کہ یہ ایک مشرقی بیماری ہے؟‘‘

’’ان دنوں وہ چینی بحریہ کے کارندوں کے ساتھ راتھر ہتھے میں کام کر رہا تھا۔ پچھلے ہفتے ان کا جہاز سماٹرا سے لندن آیا تھا۔ یہ یقیناًاس کو وہیں سے لگی ہے۔‘‘

’’اوہ! اور وہ کتنے دنوں سے بیمار ہے؟‘‘

’’تین دن سے۔‘‘

’’اچھا!یہ تو بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ میں اسے دیکھنے کے لیے ضرور تمہارے ساتھ جاؤں گا۔‘‘

مجھے یاد آگیا کہ ہومز نے مجھ سے کیا کہا تھا،’’مجھے کہیں اور بھی جانا ہے۔‘‘میں نے کہا،’’کیا آپ وہاں اکیلے جا سکتے ہیں؟‘‘

’’ہاں، میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ میں آدھے گھنٹے میں وہاں ہوؤں گا۔‘‘

میں جلدی سے وہاں سے نکلا اور ہومز کے ہاں پہنچ گیا۔اس کی طبیعت تھوڑی سی بہتر لگ رہی تھی۔ آواز میں تھوڑی سی جان آگئی تھی مگر چہرہ اسی طرح سفید تھا اور بہت بیمار نظر آرہاتھا۔

’’اچھا! تو واٹسن تم اسے دیکھ آئے؟‘‘

’’ہاں، وہ آرہا ہے۔‘‘

’’بہت اچھا، اور تم نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ کیا برا ہو گیا ہے؟‘‘

’’ہاں میں نے اسے چینی بحری کارندوں کے بارے میں بتا دیا ہے۔‘‘

’’بہت شکریہ، تم نے جو کرنا تھا وہ کردیا واٹسن. اب تمہیں زیادہ دیر یہاں نظر نہیں آنا چاہئے۔‘‘

’’مگر میں یہاں رک کر انتظار کرنا چاہتا ہوں اور سننا چاہتاہوں کہ وہ کیا کہتا ہے۔‘‘

’’ہاں، ضرور، مگر میرا خیال ہے کہ مسٹرکلورٹن اسمتھ اسی وقت زیادہ تفصیل بتائے گا جب وہ یہ سمجھے گا کہ وہ اور میں اکیلے ہیں۔ واٹسن، میں چاہتا ہوں کہ تم اس الماری میں چھپ جاؤ۔‘‘

ہومز نے کمرے کی دوسری طرف بنی ایک بڑی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘

’’کیا؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔

’’جلدی!… وہ کرو جو میں نے کہا، واٹسن… یہ بہت ضروری ہے… ہلنامت، بولنا مت، بس سنو۔‘‘

میں جانتا تھا کہ ہومز ٹھیک کہہ رہا ہے۔ وہ اکثر مجھے ایسی عجیب چیزیں کرنے کو کہتا رہتا ہے۔ اس لیے جیسا اس نے کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا۔ چند منٹ بعد مسٹرکلورٹن اسمتھ کے آنے کی آواز آئی۔ تب میں نے سنا کہ ہومز نے ہانپنا شروع کر دیا اور اس کی آواز بھی دوبارہ سخت بیماروں جیسی ہو گئی تھی۔

’’ہومز!ہومز!کیا تم مجھے سن سکتے ہو؟‘‘

’’کیا یہ تم ہو، کلورٹن اسمتھ؟‘‘ہومز نے کہا۔ وہ بہت آہستہ بول رہا تھا۔، اس کی آواز بہت کمزور تھی۔’’تمہارے آنے کا بہت شکریہ۔‘‘

کلورٹن اسمتھ ہنسا،’’تمہیں پتا ہے کہ تمہارے ساتھ کیا غلط ہو گیاہے، ہومز؟‘‘

’’ میرا خیال ہے کہ یہ بالکل وہی بیماری ہے جس نے تمہارے غریب بھتیجے کی جان لے لی۔‘‘

’’ہاں، ہاں، بے چارہ وکٹر۔ وہ چوتھے دن مر گیا تھا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وکٹر ایک مشرقی بیماری سے مرا اور وہ بھی یہاں لندن میں۔ حالانکہ وہ کبھی مشرق کی طرف نہیں گیا۔ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اس کو یہ بیماری اس وقت لگی جب وہ میرے پاس آیا۔ لندن کا وہ واحد آدمی جس نے اس بیمار ی کے بارے مطالعہ کیا۔ تم نے اس بات کی طرف دھیان دیا کہ نہیں ہومز؟ یہ تمہارے لئے کان کھڑے کردینے والی بات ہے۔‘‘

’’میں جانتا ہوں کہ اسے تم نے قتل کیا ہے۔‘‘

’’تم جانتے ہو؟ …اچھا، کوئی بھی تمہاری بات کا یقین نہیں کرے گا اور اب تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری مدد کروں۔ ہاہاہا۔۔۔‘‘

ہومز کے زور زور سے ہانپنے کی آواز آنے لگی۔ ’’مجھے پانی دو، پانی!‘‘ وہ کراہنے لگا۔

’’اچھا، تم مرنے کے قریب ہو، ہومز! مگر ابھی چند چیزیں ہیں جو مجھے تم سے کہنی ہیں۔ لہٰذا میں تمہیں تھوڑا سا پانی دے دیتا ہوں، اسے پیو۔‘‘

’’میری مدد کرو کلورٹن اسمتھ، میری مدد کرو۔ تم نے جو بھی کیا میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ میں بھول جاؤں گا، میرا وعدہ ہے۔‘‘

’’مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ تم میرے بھتیجے کی موت کے بارے میں کیا سوچتے ہو۔ وہ اب نہیں ہے اور ہم باتیں کر رہے ہیں۔ تم بتاؤ، تم کیا سمجھتے ہو کہ تمہیں یہ بیماری کیسے لگی، ہومز؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ مجھے ان بحری کارندوں سے لگی ہے جب میں ان کے ساتھ کام کر رہا تھا، ڈاؤن اسٹریٹ، راتھر ہتھے میں۔ ان کے کہنے کے مطابق انکا جہاز اسی وقت سماٹرا سے آیا تھا۔‘‘

’’تو تمہارا کیا خیال ہے کہ یہی وجہ ہے؟…. اچھا، تم غلط فہمی پر ہو۔ تمہیں یاد ہے کہ چند دن پہلے تم نے ڈاک سے آئی کوئی چیز وصول کی تھی؟‘‘

’’ڈاک سے؟‘‘

’’کالے اور سفید رنگ کی ایک ڈبیا، تمہیں یاد نہیں؟‘‘

’’میں سخت بیمار ہوں، میں مر رہا ہوں، میری مدد کرو۔۔۔۔‘‘

’’سنو، ہومز۔ ڈبیا یاد کرو۔ وہ بدھ کو آئی تھی۔ تم نے اسے کھولا تھا۔ یاد آیا؟‘‘

’’ہاں، ہاں، اس کے اندر کوئی چیز تھی۔ جیسے ہی میں نے اسے کھولا، میری انگلی کٹ گئی۔‘‘

’’یہ بات ٹھیک ہے، ہومز…. اسی طرح تمہیں بیماری لگی اور اب تم مرنے جا رہے ہو بالکل وکٹر کی طرح۔ یہ تمہارے لئے سبق ہے۔ تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم یہ دیکھنے آؤ کہ وکٹر کیسے مرا اور اتنے سوال کرو!‘‘

’’ڈبیا۔۔۔ ڈبیا.. اب مجھے یاد آیا۔ وہ میز پر ہے۔‘‘

’’اچھا، اب یہ کمرے سے باہر میری جیب کے ذریعے جائے گی۔ اور پھر کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں نے تمہیں کیسے قتل کیا۔ تم اپنے خاتمے کے قریب ہو، ہومز۔ میں یہاں بیٹھ کر تمہیں مرتا ہوا دیکھوں گا۔‘‘

ہومز اب بالکل خاموش تھا۔ پھر اس کی مشکل سے سنائی دینے والی آواز آئی:

’’بتی روشن کرو، کلورٹن اسمتھ۔ بتی روشن کرو۔‘‘

’’بتی، بہت اچھا ہومز۔ میں بتی روشن کردیتا ہوں۔ اور کوئی کام ہے جو تم کروانا چاہتے ہو؟‘‘

’’ایک سگریٹ، ایک سگریٹ۔‘‘ اب ہومز کی آواز بالکل معمول کے مطابق ویسی ہی تھی جیسی پہلے تھی۔ اس میں کوئی بیماری یا موت کا اثر نہیں تھا۔ ہاں معمولی کمزوری ضرور تھی۔ یہ وہی آواز تھی جس آواز کو میں جانتا تھا۔ پھر میں نے بستر کے قریب کلورٹن اسمتھ کی آواز سنی:

’’اس کا کیا مطلب ہے ہومز؟‘‘وہ چلایا۔

’’ایک سگریٹ….. شکریہ، کلورٹن اسمتھ…. تین دن سے بغیر کھانے اور پانی کے میرا حلیہ سخت بیماروں جیسا ہو گیا ہے۔ مگر مجھے سگریٹ کی طلب بہت زیادہ ہورہی ہے۔ کیوں… اور کس لیے؟ ….میں دروازے پر کسی کی آواز سن رہا ہوں؟‘‘

اچانک میں نے آرام گاہ کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ کوئی اندر آیا۔

’’یہ ہے قاتل، انسپکٹر مارٹن! تم اسے لے جا سکتے ہو۔‘‘

’’جب میں نے دیکھا کہ بتی روشن ہو گئی ہے تو میں سمجھ گیا کہ میرے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘ انسپکٹر بولا۔

’’شکریہ انسپکٹر، اور تم اس کی جیب سے چھوٹی ڈبیا برآمد کر سکتے ہو۔ اسے خیال سے نکالو… شکریہ… اسے یہاں رکھ دو۔ ہم اسے بعد میں استعمال کرنا چاہیں گے۔‘‘

کلورٹن اسمتھ نے بھاگنے کی کوشش کی۔ پھر تھوڑی سی ہاتھا پائی کی آواز آئی۔ پھر میں نے سنا کہ انسپکٹر نے اسے ہتھکڑیاں پہنا دیں۔

’’تم کیا سوچ کر یہ سب کر رہے ہو، ہومز؟‘‘ کلورٹن اسمتھ چلایا، ’’میں یہاں تمہاری مدد کرنے آیا تھا۔ کوئی شخص تمہاری کہانی پر یقین نہیں کرے گا۔ اس کی حیثیت تمہارے الفاظ سے زیادہ نہیں ہے جو تم میرے خلاف بول رہے ہو۔‘‘

’’اوہ میرے عزیز، اوہ میرے عزیز، بے چارے واٹسن کو تو میں تقریباً بھول ہی گیا تھا۔ مہربانی کرکے اب الماری سے باہر آجاؤ، واٹسن۔ بہت شکریہ یہاں ہونے کا۔ مجھے یقین ہے کہ تم مسٹر کلورٹن اسمتھ کے بارے میں پہلے ہیں جان چکے ہو۔ بعد میں تم اور میں تھانے جائیں گے تاکہ تم وہ سب کچھ بتا سکو جو تم نے سنا…… انسپکٹر! جلد ہی تم سے تھانے میں ملاقات ہوگی۔‘‘

’’تم نے دیکھا، واٹسن۔‘‘ انسپکٹر مارٹن کے کلورٹن اسمتھ کو گرفتار کرکے تھانے لے جانے بعد ہومز بولا،’’میں چاہتا تھا کہ ہر شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ میں واقعی مر رہا ہوں۔ تمہیں اس بات کا یقین دلانا مسز ہڈسن کا کام تھا، اور کلورٹن کو یقین دلانا تمہارا کام تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کلورٹن یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ اس نے جو کام کیا ہے اس کا کیا بنا۔‘‘

’’مگر تمہارا چہرہ ہومز؟…. تم تو واقعی بیمار لگ رہے ہو۔‘‘ میں نے کہا۔

جیسے ہی ہومز نے گیلے کپڑے سے چہرے کو پونچھا تو میں حیران ہو گیا۔ سب کچھ ختم ہو گیا اور اس کا چہرہ دوبارہ صحت مند نظر آنے لگا۔

’’یہ بہت آسان تھا‘‘ ہومز بولا، ’’تین دن تک بغیر کھائے پئے چہرے کی حالت کچھ اچھی نہیں دکھائی دیتی واٹسن۔ مگر اپنے آپ کو صحیح معنوں میں بیمار دکھانے کے لئے میں نے مسز ہڈسن کا دیا ہوا تھوڑا سا غازہ (فیس پاوڈر) استعمال کیا تھا۔یہ میں نے بہترین کام کر لیا….کیا تم اتفاق کرتے ہو؟‘‘

’’ہاں، مگر میں بہت زیادہ فکر مند تھا۔‘‘

’’بالکل، میں نہیں چاہتا تھا کہ تم میرے بستر کے زیادہ قریب آؤ، کیونکہ تم بہت تیزی سے اصل سچائی دیکھ لیتے۔یہ میرامنصوبہ تھا تاکہ کلورٹن اسمتھ کو ہم اپنے تک لا سکیں۔ تم نے دیکھا کہ جب کالے اور سفید رنگ کی ڈبیابدھ والے دن ڈاک سے آئی تو مجھے یقین تھا کہ یہ کلورٹن اسمتھ نے بھیجی ہے اور یہ خطرناک ہے۔اسی لئے میں نے اس کو نہیں چھوا ۔یہ ضرور وہی چیزہے جس سے بے چارہ وکٹر وحشت ناک موت مر گیااور کلورٹن اسمتھ کے خیال میں، میں بھی موت کے منہ میں جا رہاتھا۔میں نے اسے بیوقوف بنایا تھا تاکہ اس سے سچ اگلوایا جا سکے اور یہی تو میں چاہتا تھا۔

تمہارا بہت شکریہ واٹسن، کھونٹی پر لٹکامیرا کوٹ ذرامجھے پکڑا دو۔جب ہم تھانے سے فارغ ہو ں گے تو میرا خیال ہے کہ ہم ضرور سیمپسن ریسٹورینٹ سے ضرور کچھ کھائیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top