skip to Main Content

مداری

تحریر: لیوس جونز
ترجمہ: سلیم احمد صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بازار میں دکانوں کے شوکیسوں میں سجی ہوئی چیزوں کو دیکھتا جا رہا تھاکہ ایک بوند ٹپ سے میرے سر پر پڑی۔اس کے بعد دوسری میرے ہاتھ پر گری۔میں بارش سے بچنے کے لیے ایک دکان کے اندر گھس گیا۔یہ پالتو جانوروں کی دکان تھی۔میرے اندر داخل ہوتے ہی ایک موٹی تازی خاتون،سرخ لباس پہنے،میری جانب آئی اور مسکرا کر بولی۔”آؤ، بیٹے۔کیا چاہیے؟ کوئی جانور یا کوئی پرندہ؟“
میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں۔میں تو دراصل بارش سے بچنے کے لیے دکان کے اندر چلا گیا تھا۔
”میں سمجھ گئی۔“خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔”تمہیں بھی میری طرح جانوروں اور پرندوں سے پیار ہے اور تم کچھ خریدنے آئے ہو۔“
”مم…میں…میں دراصل بارش سے بچنے کے لیے اندر آگیا تھا۔“میں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”کوئی بات نہیں، بیٹے۔“خاتون نے اطمینان سے کہا۔”خریدنا مت،مگر دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ذرا ادھر آؤ۔یہ بلی دیکھو۔اس ڈبے میں سوئی ہوئی بالکل شہزادی لگ رہی ہے۔اور یہ دیکھو، کتے کے تین پلے۔“وہ دکان کے اندر جاکر تین چھوٹے چھوٹے پلے لے آئی۔ اس نے انہیں زمین پر چھوڑ دیااور وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں اچھلنے کودنے لگے۔
”یہ سارا دن اسی طرح کھیلتے رہتے ہیں۔ اچھے ہیں ناں؟“ خاتون نے پوچھا۔
”جج… جی ہاں…اچھے ہیں، مگر میرے پاس خریدنے کے لیے پیسے…“میں نے رک رک کر کہا۔
”کوئی بات نہیں، بیٹے۔“ خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اس کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ہم باتیں کرتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ تمہیں پرندے اچھے لگتے ہیں۔“
میں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔”جی ہاں، اچھے لگتے ہیں۔آپ کے پاس پرندے بھی ہیں؟“
خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔”ادھر آؤ،اس طرف۔“وہ مجھے دکان کے پچھلے حصے میں لے گئی ”یہاں ہیں پرندے۔“ اس نے کہا۔وہاں واقعی بہت سارے پرندے تھے۔ میری نظر طوطوں پر ٹک گئی۔
”یہ طوطے بولتے بھی ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”کچھ بولتے ہیں۔“ خاتون نے جواب دیا۔
”بولتا ہوا طوطا کتنے کا ہے؟میرے پاس ایک پونڈ ہے۔“ میں نے کہا۔
”مجھے افسوس ہے،بیٹے۔ایک پونڈ میں نہیں دے سکتی۔بولتا ہوا طوطا دو پونڈ کا ہے۔“خاتون نے کہا۔
اب بارش رک گئی تھی۔میں خدا حافظ کہ کر باہر نکلا اور گھر کی جانب چل پڑا۔لیکن بازار میں ایک جگہ مجمع لگا دیکھ کر رک گیا۔کوئی مداری اپنے سامنے میز لگائے کھڑاتھا۔میز پر تین پیالیاں الٹی رکھی ہوئی تھیں اور مداری زور زورسے کہ رہا تھا۔”دیکھئے، صاحبان،مہربان، قدردان۔ یہ تین پیالیاں ہیں اور تینوں خالی ہیں۔آپ خود آگے آکر انہیں دیکھ لیں اور تسلی کرلیں کہ یہ خالی ہیں۔ ان کے نیچے کوئی چیز نہیں ہے۔“
کئی لوگ مجمع سے آگے بڑھے اور پیالیوں کو اٹھا کر دیکھا۔سب خالی تھیں۔
”دیکھئے، جناب۔یہ میں نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک سبز گیند نکالی ہے اور اسے بیچ والی پیالی کے نیچے رکھنے لگا ہوں۔یہ لیجیے۔“اس نے بیچ والی پیالی اٹھاکراس کے نیچے گیند رکھ دی۔
”اب بتائیے، صاحبان۔کون سی پیالی کے نیچے گیند ہے؟ٹھیک۔درمیان والی پیالی کے نیچے ہے۔اب کھیل شروع ہونے لگا ہے۔ میں پیالیوں کی جگہ بدلوں گا اور آپ میرے ہاتھوں اور پیالیوں کو غور سے دیکھتے رہیں۔جو شخص کسی پیالی پر ایک پونڈ کا نوٹ رکھے گا اور اس کے نیچے سے گیندنکل آئے گی تو اسے دو پونڈ ملیں گے۔اگر نہ نکلی تو اس کا پونڈ میرا ہو جائے گا۔“
یہ کہ کر مداری نے پیالیوں کی جگہ بدل دی۔میں جانتا تھا کہ اب گیند کون سی پیالی کے نیچے ہے لیکن بعد میں اس نے ذرا تیزی دکھائی اور میری نظر چوک گئی۔ایک آدمی آگے بڑھا اور اس نے ایک پونڈ کا نوٹ دائیں پیالی پر رکھ دیا۔
”دیکھتے ہیں، بھائی جان،مہربان،قدردان۔“مداری نے یہ کہتے ہوئے پیالی اٹھائی مگر اس نے نیچے کچھ نہ تھا۔اس نے بائیں طرف والی پیالی اٹھائی تو اس کے نیچے گیند تھی۔”کوئی بات نہیں۔پھر قسمت آزمائیے،بھائی جان۔“مداری نے نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے کہا اور پھر سے گیند اور پیالیوں کا کرتب دکھانے لگا۔
اس نے کئی بار یہ کرتب دکھایا اور پر بار ایک ایک پونڈ کے نوٹ اس کی جیب میں چلے گئے۔ایک بار تو میرے جی میں بھی آئی کہ میں بھی اپنا نوٹ ایک پیالی پر رکھ دوں،مگر میں نے سوچا کہ جب اتنے بڑی عمر کے لوگوں کا اندازہ غلط ہو رہا ہے تو میرا اندازہ کیاخاک ٹھیک ہوگا۔
”لیجیے،صاحبان۔اب آخری بار۔“مداری نے کہااور پھر وہی کھیل دکھانے لگا۔ایک اور صاحب ایک پونڈکا نوٹ لہراتے ہوئے آگے بڑھے اور انہوں نے وہ نوٹ درمیان والی پیالی پر رکھ دیا۔مداری نے درمیان والی پیالی اٹھائی تو اس کے نیچے گیند نہ تھی۔”اچھا، صاحبان، مہربان، قدردان۔آج کا کھیل ختم۔لیکن ایک جادو آپ کو دکھا دوں۔آپ خوش ہو کر گھر جائیں گے۔“ یہ کہ کر اس نے دائیں پیالی بھی اٹھا دی۔گیند اس کے نیچے بھی نہ تھی۔اس کے بعد اس نے بائیں پیالی پر ہاتھ رکھا اور زور سے پوچھا۔”اس کے نیچے کیا ہے، بھائی جان؟“سب لوگ بولے ”سبز گیند۔“
”نہیں، صاحبان“ یہ کہ کر اس نے پیالی اٹھائی تو اس کے نیچے سے ایک طوطا نکلا۔
”آپ یہ طوطا بیچیں گے؟“جب لوگ چلے گئے تو میں نے مداری سے پوچھا۔
”ہاں تم خریدوگے؟“اس نے پوچھا۔
”کتنے کا ہے؟میرے پاس تو ایک پونڈ ہے۔“میں نے کہا۔
”یہ اتنے ہی کا ہے۔لے لو۔“اس نے طوطا میری جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے نوٹ اسے دیتے ہوئے کہا۔”یہ بولتا ہے ناں؟“
”ہاں جو سنے گا، وہی بولے گا۔“مداری نے کہا۔
میں طوطے کو لے کر خوشی خوشی گھر پہنچا اور اس سے کہا۔”میں مٹھو۔“
”ٹیں ٹیں۔“طوطا جواب میں ٹیں ٹیں کرنے لگا۔
”میاں مٹھو چوری کھاؤ گے؟“ میں نے کہا۔

”ٹیں ٹیں، ٹیں۔“طوطے نے کہا۔میں سمجھ گیا کہ مداری نے مجھے الو بنایا ہے۔اب میں اس طوطے کا کیا کروں؟کیوں نہ اسے بیچ دوں۔یہ سوچ کر میں اسی جانوروں والی دکان پر پہنچا جہاں تھوڑی دیر پہلے بارش سے پناہ لینے کے لیے رکا تھا۔ سرخ لباس والی موٹی سی خاتون نے میری بات غور سے سنی اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
”بیٹے، ہم بیچتے ہیں، خریدتے نہیں۔ مداری نے تمہیں دھوکا دیا ہے۔ میرا بھائی لاری اس مداری کو جانتا ہے۔تم اس کے پاس جاؤ۔ شاید وہ مداری سے تمہاری رقم واپس دلوادے۔“خاتون بولی۔
میں نے خاتون سے اس کے بھائی کا پتا پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں سے کچھ دور اس کی دکان ہے اور دکان کا نام ہے۔”ننھے عجائبات۔“دس بارہ منٹ بعد میں ”ننھے عجائبات“نامی دکان پر کھڑا تھا۔اس دکان میں واقعی بہت سارے ننھے ننھے عجائبات تھے۔لمبی لمبی اور نارنجی پلاسٹک کی ناکیں، چڑیلوں اور ڈریکولا کے چہرے، ماچس کی ڈبیاں (جن کی دیا سلائیں جلتی نہ تھیں)، پستول(جن میں سے گولی کی بجائے پانی نکلتا تھا)، قلم اور پنسلیں (جو لکھتے نہ تھے)،سرخ اور نیلی بوتلیں (جن میں ایک لٹر پانی ڈالو تودو لٹر پانی نکلتا تھا)،پراسرار لفافے(جن میں سے چاہو تو مچھلی نکالو، چاہو تو گل دستہ)۔ مجھے دیکھ کر ایک لمبا تڑنگا آدمی میری جانب بڑھا۔”تم جانوروں والی دکان سے آئے ہو ناں؟……حیرت کی کوئی بات نہیں۔“اس نے مجھے حیران دیکھ کر کہا۔”میرا نام لاری ہے۔ مجھے میری بہن مولی نے فون کرکے سب کچھ بتا دیا ہے۔تو وہ مداری کا بچہ پھر لوگوں کو لوٹنے کے لیے شہر میں آگیا ہے؟“
”جی ہاں، کیا آپ میرے پیسے اس سے واپس دلوادیں گے؟اس نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ طوطا بولتا ہے۔“میں نے کہا۔
”تب تو تم اس کی چال میں آگئے۔یہ طوطا اس لیے نہیں بولے کہ یہ سن نہیں سکتا۔یہ بہرا ہے۔“
”تم تو مم…مم….“میں نے منہ لٹکاتے ہوئے کہا۔
”مگرتم فکر نہ کرو۔ہم چال کا جواب چال سے دیں گے اور اس سے تمہاری رقم نکلوالیں گے۔مجھے اس سے زیادہ چالیں آتی ہیں۔ انسان کو آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں اور بہت سارے لوگ آنکھیں تو کھلی رکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں۔“
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ میں نے کہا۔
”ہوسکتا ہے۔یہ دیکھو۔میں فرش پر سے یہ تیلی اٹھا رہا ہوں۔“
”یہ توجلی ہوئی ہے۔“ میں بولا۔
”ہاں، جلی ہوئی ہے۔“ اس نے کہا۔
”لیکن میں اسے ماچس کی ڈبیا پر رگڑوں گا تو یہ جلے گی۔“اس نے کہا۔اس نے وہ تیلی ماچس پر رگڑی تو وہ واقعی جل گئی۔
”یہ…یہ…یہ کیسے ہوا؟“میں حیران رہ گیا تھا۔مجھ سے بات بھی نہ ہورہی تھی۔
”یہ جلی ہوئی تیلی نہ تھی۔میں نے اس پر سیاہی لگا کر اسے نیچے پھینک دیا تھا۔تمہیں آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود نظر نہیں آیا۔اب دیکھو میں وہی چیز لکھ سکتا ہوں جو تم سوچ رہے ہو۔“
”یہ ناممکن ہے۔“ میں نے کہا۔
”نہیں، یہ ممکن ہے۔یہ کہ کر لاری نے ایک کاغذ پر کچھ لکھا اور پھر اسے الٹا دیا۔پھر مجھ سے پوچھا۔”تم کیا سوچ رہے تھے؟“
”بس کا ٹکٹ ……“میں نے جواب دیا۔
لاری نے کاغذ الٹ دیا، اور میں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا کہ اس پر دو لفظ لکھے ہوئے تھے”بالکل وہی۔“میں پھر دھوکا کھا گیا تھا۔لاری نے اگلے دن میرے ساتھ مداری کے پاس جانے کا وعدہ کیا۔ جب میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا۔”یہ سب ہاتھ کی صفائی ہے۔مداری کے ہاتھوں پر نظر رکھو اور وہ جو کرے، اسے غور سے دیکھو۔تم اس کی چالاکی سمجھ جاؤ گے۔“
جلد ہی ہم مداری کے پاس پہنچ گئے۔وہ اس وقت ایک آدمی کا نوٹ جیب میں ڈال رہا تھا۔”مجھے افسوس ہے،بھائی جان، مہربان، قدردان۔آپ کا نوٹ گیا۔آپ نے غلط پیالی بتائی۔اب پھر یہ کھیل کھیلتے ہیں۔“
”ٹھہرو، میرے بھائی!“لاری نے کہا۔
مداری اس کی طرف دیکھ کر غصے میں بولا۔”تم کیوں آئے ہو یہاں؟“
لاری نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور لوگوں سے کہنے لگا۔”دیکھئے صاحبان، مہربان، قدردان۔یہ مداری میرا دوست ہے۔ یہ آپ کو اپنا کرتب دکھا چکا۔اب میں آپ کو اپنا کرتب دکھاؤں گا۔ کسی کے پاس رومال ہوگا؟“اسے کسی نے رومال دے دیا۔
”اور کسی کے پاس دو پونڈ کا نوٹ ہوگا؟“لاری نے پوچھا۔سب لوگ چپ چاپ کھڑے رہے۔کسی نے اسے نوٹ نہ دیا۔اس نے مداری کی میز پر رکھا ہوا دو پونڈ کا نوٹ اٹھا لیا، جو اس نے انعام میں دینے کے لیے رکھا تھا۔ ”یہ رہا دو پونڈ کا نوٹ، میرے مداری بھائی کا۔مداری بھائی، گھبراؤ نہیں۔ میں نے تمہارا نوٹ صرف کرتب دکھانے کے لیے لیا ہے۔“
یہ کہ کر لاری نے دو پونڈ کا نوٹ رومال میں رکھا اور پھر اسے درمیان سے پکڑ کر نیچے لٹکا دیا۔
”دیکھئے، مہربان، قدردان۔ میرے ہاتھ میں رومال ہے اور رومال میں دو پونڈ کا نوٹ ہے۔جس کسی کو شک ہو آکر دیکھ لے۔“لاری نے کہا۔کئی لوگ آگے آئے اور باری باری رومال کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا۔انہوں نے دوسرے لوگوں کو بتایا کہ نوٹ رومال کے اندر موجودہے۔اتنے میں ایک خاتون ادھر سے گزری۔ لاری نے اس سے کہا۔”آپ بھی دیکھ لیں بی بی، کہ رومال میں نوٹ ہے یا نہیں۔“عورت نے رومال کے اند رہاتھ ڈالا اور بولی۔”ہے۔مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
”میں کرتب دکھانے لگا ہوں۔“ لاری نے کہا۔
”مجھے نہیں دیکھنا کرتب ورتب۔ میں تو سبزی لینے جارہی ہوں۔“یہ کہ کر وہ عورت چلی گئی۔
”ادھر آؤ لڑکے۔“ لاری نے مجھے بلایا۔”یہ رومال لواور اسے کھول کر سب کو دکھاؤ۔“
میں جلدی سے آگے بڑھا۔مجھے یقین تھا کہ رومال کھولوں گا تو اس میں سے نوٹ ہی نکلے گا کیوں کہ اس پورے عرصے میں میری نظریں برابر لاری کے ہاتھ پر جمی رہی تھیں اور اس نے کچھ گڑ بڑ نہ کی تھی۔
لیکن جب میں نے رومال کھولا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس میں دو پونڈ کے نوٹ کی بجائے میرا طوطانکلا۔
”مم…مم…میرا نوٹ کہاں ہے؟ مجھے واپس دو۔“مداری نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”لاری بولا۔”ایک کرتب تم نے دکھایا اور نوٹ کمائے۔ایک کرتب میں نے دکھایا اور نوٹ کمایا۔حساب برابر ہوگیا۔تم بھولے بھالے لوگوں کو لوٹتے ہو۔اگر تم ابھی اس شہر سے نہ گئے تو میں پولیس کو فون کرکے تمہیں پکڑوا دوں گا….بھاگتے ہو یا….؟“
مداری نے آناً فاناً وہاں سے اپنا بوریا بستر گول کیا اور بھاگ نکلا۔وہ جاتے جاتے میرے ہاتھ سے اپنا طوطا لے گیا۔مجھے بھی طوطے کا کوئی ملال نہ تھا۔وہ بولتا تو تھا نہیں۔
جب لاری اور میں واپس اس کی دکان پر پہنچے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔میں نے پوچھا۔”آخر نوٹ کیسے غائب ہوگیااورطوطا رومال میں کیسے آگیا جبکہ میری نظریں مسلسل تمہارے ہاتھوں پر تھیں اور میں نے پلکیں تک نہ جھپکی تھیں؟تم نے جیبوں میں ہاتھ بھی نہ ڈالے تھے…. پھر یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟“
”میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ تم آنکھیں تو کھلی رکھتے ہو، مگر دیکھتے نہیں۔“لاری مسکرا کر بولا۔
”مگر میں تو تمام وقت تمہارے ہاتھوں کو دیکھتا رہا تھا۔“میں نے حیرت سے کہا۔
”اور اسی لیے تم نے اس خاتون کو نہیں دیکھا جس نے رومال میں ہاتھ ڈال کر نوٹ دیکھا تھا۔“لاری نے کہا۔
بات کچھ کچھ میری سمجھ میں آنے لگی تھی۔ میں نے کہا۔”وہ خاتون…اس خاتون نے ہی وہ نوٹ رومال سے نکالا اور اس کی جگہ طوطا رکھ دیا۔“
”ہاں۔ تم ٹھیک سمجھے۔“ لاری بولا۔
”اور وہ تھی کون؟“ میں نے پوچھا۔
”میری بہن، مولی۔ اور یہ رہا وہ دو پونڈ کا نوٹ۔اب تم اس نوٹ سے میری بہن کی دکان پر جا کر بولنے والا طوطا خرید سکتے ہو۔“ میں نے ہاتھ بڑھا کر نوٹ لے لیا۔
”اور یہ ایک کرتبوں کی کتاب ہے۔یہ میر ی جانب سے تمہارے لیے ایک تحفہ ہے۔ اسے پڑھ کر تم بھی کرتب دکھا سکتے ہو۔لیکن ذرا ٹھہرو!کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں نے اس کتاب کے صفحہ 10پر کس لفظ کے نیچے لکیر کھینچی ہے؟“
”نہیں، جناب“ میں نے کہا۔
”کوشش تو کرو۔“وہ بولا۔
”No“میں نے زور سے کہا۔
”ٹھیک ہے، یہی وہ لفظ ہے جس کے نیچے میں نے لائن لگائی ہے۔“یہ کہ کر لاری نے کتاب کا صفحہ نمبر10مجھے دکھایا جس پر لفظ ”No“کے نیچے لکیر لگی ہوئی تھی۔میری آنکھیں حیرت سے کچھ اور کھل گئیں!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top