skip to Main Content

لڑاکو شاکر اور باگڑ بلا

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا باگڑ بلے انسان بن جاتے ہیں؟
ایک ایسا سوال جس پر متعدد ناول اور ڈرامے لکھے جاچکے ہیں

۔۔۔۔۔۔

ذاکر اور شاکر دونوں سگے بھائی تھے لیکن ان کی عادتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ذاکر جتنا خوش اخلاق اور ملنسار تھا۔ شاکر اتنا ہی بداخلاق اور لڑاکو تھا۔ دونوں کے پاس آبائی زمین تھی جس پر وہ کھیتی باڑی کرکے گزر اوقات کرتے تھے۔ شاکر بہت غصیلا تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے کے لیے تیار ہوجاتا، آخر تنگ آکر لوگوں نے اس سے ملنا چھوڑ دیا۔ وہ اس سے لین دین بھی نہیں کرتے تھے۔ حتیٰ کہ جس راستے سے شاکر گزررہا ہوتا اس راستے سے بھی ہٹ جاتے تھے۔ جب لوگوں نے اس سے میل جول ختم کر دیا تو وہ اپنا غصہ جانوروں اور چیزوں پر اتارنے لگا۔
کھیت میں ہل چلاتے ہوئے شاکر کے ہاتھ میں ایک لمبا چابک ہوتا تھا۔ جو وقفے وقفے سے ہوا میں لہرا کر بیل کی پیٹھ پر پڑتا رہتا تھا جس سے اس کی پیٹھ پر زخم آگئے تھے۔ وہ بے چارہ، تھکا ہارا پورے کھیت کا چکر لگاتا رہتا۔ شاکر کو کسی پل چین نہ تھا۔ جب بیل آہستہ چلتا تو وہ اسے چابک مار کر تیز چلنے کو کہتا اور جب وہ تیز چلتا تو تب بھی مارتا اور کہتا کیا تیز چل کر ہل توڑے گا؟ ذاکر اسے بہت سمجھاتا لیکن اس کے کان پر جوں بھی نہ رینگتی۔ معصوم جانور مجبوراً اس کا ظلم سہہ رہا تھا، لیکن آخر کب تک؟ ایک دن جب وہ دونوں تھان پر پہنچے تو بیل کوغائب پایا۔ اس نے رسی چبا چبا کر توڑلی تھی اور فرار ہو گیا تھا۔ ذاکر نے شاکر کو چبائی ہوئی رسی دکھائی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اب بھی بیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ آخر دونوں بیل کی تلاش میں نکلے اور آس پاس کے گاؤں اور ویرانوں میں تلاش کرتے رہے۔ پورا دن گزر گیا لیکن بیل نہیں ملا۔ تھک ہار کر دونوں بھائی گھر آگئے۔
وہ فصل بونے کا موسم تھا، انہیں ہل چلانے کے لیے جانور کی ضرورت تھی لیکن کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی۔ آخر انہوں نے خود ہی ہل چلانا شروع کیا۔ وہ کاندھے پر ہل رکھ کر باری باری کھیت جوتتے۔ ایک تھک جاتا تو دوسرا آجاتا۔ یہ بہت سخت اور محنت کا کام تھا۔ شاکر کی غلطی کی وجہ سے وہ بہت مشکل میں پھنس گئے تھے لیکن اس کو پھر بھی احساس نہ تھا اب وہ کبھی زمین پر بگڑتا تو کبھی موسم کو باتیں سناتا، حتیٰ کہ ہل جوتتے ہوئے سر پر منڈلاتے پرندوں کو بھی ڈانٹتا اور کبھی تو ہل سے لڑنے لگتا۔ زمین جہاں نرم ہوتی وہاں ہل آسانی سے چلتا تھا اور جہاں پتھریلی ہوتی وہاں بہت زور لگانا پڑتا، شاکر غصے میں بھر جاتا، ذاکر اسے سمجھاتا کہ زمین سخت ہے اس میں ہل کا کیا قصور، لیکن شاکر کہاں کسی کی بات سمجھتا تھا۔
ایک دن وہ سخت زمین میں ہل چلا رہا تھا کہ ہل کی پھال (زمین جو تنے کا آلہ جو ہل میں لگایا جاتا ہے) کسی پتھر میں اٹک گئی اس نے بہت زور لگایا لیکن نہ نکلی۔ وہ غصے سے کھولتا ہوا پلٹا اور ہل کو سر پر سے گھما کر زمین پر دے مارا جس سے اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ذاکر نے سر پیٹ لیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، نقصان تو ہو چکا تھا۔ آخر اس کی سزا بھی شاکر کو بھگتنی پڑی۔ اسے ہل اٹھا کر تین کوس تک دوسرے گاؤں مرمت کے لیے لے جانا پڑا کیونکہ گاؤں کا بڑھئی کہیں گیا ہو اتھا اور ان کے پاس سواری کے لیے کوئی جانور نہیں تھا۔ مرمت کے بعد انہوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ شاکر کو اب کچھ عقل آگئی تھی۔ اب وہ ہل کو تو کچھ نہیں کہتا تھا، لیکن کھیت میں لگے باگڑ بلے (Scare Crow) کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کو لات رسید کرتا اور کہتا ” تو سالوں سے اسی طرح کھڑا ہے آخر کب تک کھڑا رہے گا؟ انسان بن کچھ کام کر۔“ باگڑ بلا، بے چارہ بھلا کیا جواب دیتا، لیکن شاکر کا یہ معمول بن گیا تھا۔
ان ہی دنوں ان کے ایک چچا گاؤں آگئے۔ وہ ایک سیلانی (گھومنے پھرنے والا) آدمی تھے، قرب و جوار کے ہر گاؤں میں ان کے رشتہ دار موجود تھے۔ وہ کچھ کچھ دن ہر جگہ گزارتے، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ان کا کل مال و متاع کپڑے کی ایک گٹھڑی تھی جسے وہ لاٹھی میں پھنسا کر کندھے پر رکھ لیتے۔ یہ لاٹھی کبھی سہارا لینے، کبھی آوارہ کتوں کو ڈرانے اور کبھی چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کی خبر لینے کے کام بھی آتی تھی۔ چچا ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے، خاص طور پر جب انہوں نے شاکر کوباگڑ بلے کے لات جماتے اور غصہ کرتے دیکھا تو وہ ذاکر سے بولے: ”شاکر کا مرض تو دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔“
ذاکر نے کہا: ” ہاں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔“
چچا نے شاکر کو سمجھانا چاہا تو وہ بولا: ”چچا مجھے چھوڑو اپنی بات کرو سوکھ کر کانٹا ہو رہے ہو، بازو اور ٹانگیں کتنی پتلی ہیں ایسا لگتا ہے جیسے سوکھی ہوئی لکڑیاں ، کیا کھانا پینا چھوڑ دیا ہے؟“
ذاکر نے اسے گھورا۔ چچا ہنس کر بولے: ”میاں! میں جینے کے لیے کھاتا ہوں ، کھانے کے لیے نہیں جیتا اور پیدل سفر کرتا ہوں۔“ شاکر نے ان کی باتوں کو ہنسی میں اڑا دیا۔
وہ گرمیوں کے دن تھے۔ دونوں بھائی منھ اندھیرے ہی کھیت میں کام شروع کر دیتے تھے تاکہ زیادہ کام ٹھنڈے وقت میں نمٹا لیں۔ ایک دن جب دونوں سو کر اٹھے تو ذاکر کی طبیعت کچھ خراب تھی اس نے کہا کہ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ شاکر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ذاکر اٹھا اور کھیت کا رخ کیا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا۔ جب وہ کھیت پر پہنچا تو یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ شاکر بے ہوش پڑا ہے۔ بہت کوشش کے بعد وہ ہوش میں آیا اس کی حالت خراب تھی وہ بہت خوفزدہ تھا۔ ذاکر نے اس سے ماجرا پوچھا، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر ذاکر نے اسے گھر بھیج دیا۔ جہاں اسے تیز بخار ہو گیا اور وہ کئی دن تک اس میں مبتلا رہا۔ کچھ دنوں بعد جب اس نے دوبارہ کھیت میں کام شروع کیا تو ذاکر نے اسے ایک بہت بدلا ہوا انسان پایا۔ اس نے غصہ کرنا اور لڑنا چھوڑ دیا تھا۔ یہاں تک کہ باگڑ بلے سے بھی دور رہتا، بلکہ کوشش کرتا کہ اس پر نظر بھی نہ پڑے۔ بس خاموشی سے کام میں لگا رہتا تھا۔
کچھ دن گزرنے کے بعد ذاکر نے دوبارہ اس رات کا ذکر کیا۔ شاکر کے چہرے پر خوف چھا گیا۔ وہ دھیرے سے بولا: ”ہوا یوں کہ میں نے روز کی طرح کھیت میں کام شروع کیا اور باگڑ بلے کے پاس سے گزرتے ہوئے حسب عادت اسے لات ماری۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا تھا کہ ایک بھیانک آواز سنائی دی۔ گھوم کر دیکھا تو باگڑ بلا پیچھے آرہا تھا مجھے آنکھوں پر یقین نہیں آیا، اچانک مجھے چابک آن کرلگا۔ میں گھبرا کر پلٹا۔ وہ میرے پیچھے لگا تھا اور ٹھہر ٹھہر کر بھیانک آواز میں کچھ کہہ رہا تھا، مجھے لگا وہ کہہ رہا ہے انسان بن انسان غصہ نہ کر۔ میں نے کھیت کا چکر لگایا۔ میں سمجھ بوجھ کھو بیٹھا تھا آخر گر کر بے ہوش ہو گیا۔“
شاکر نے تمام واقعہ اٹک اٹک کر سنایا تھا اس کی آواز خوف سے لرزرہی تھی۔ ذاکر نے بھی اس کی بات میں ایک عجیب سی سنسنی محسوس کی۔ ان کے علاقے میں یہ بات مشہور تھی کہ اکثر راتوں میں کھیتوں میں لگے باگڑ بلے انسان بن جاتے ہیں۔ کچھ توقف کے بعد شاکر بولا: ” شاید وہ میرے سلوک سے تنگ آکر کچھ دیر کے لیے انسان بن گیا تھا۔“
بعد کے دنوں میں شاکر کا رویہ دوسروں سے اچھاہوتا گیا، لڑنا جھگڑنا تو اس نے چھوڑ ہی دیا تھا۔ اب اس نے دوست بنائے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے لگا۔ ذاکر نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔
دن گزرتے رہے اس بار ان کی فصل بہت اچھی ہوئی انہوں نے ایک جوان بیل خرید لیا۔ شاکر اس سے اچھا سلوک کرتا تھا۔ پھر ایک دن چچا نگر نگر گھومتے وہاں آپہنچے۔ شام کا وقت تھا۔ ذاکر اور چچا چارپائی پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ شاکر اپنے کسی بیمار دوست کی عیادت کو گیا ہوا تھا۔ چچا بولے: ” اب تو شاکر بہت بدل گیا ہے۔“
ذاکر نے کہا: ” ہاں اﷲ کا شکر ہے۔“ پھر وہ بات اس کی زبان پر آگئی جس کا ذکر اس نے اب تک کسی سے نہیں کیا تھا۔
وہ بولا: ”چچا کیا باگڑ بلے کبھی انسان بن جاتے ہیں؟“
چچا مسکرا کر بولے: ”میاں یہ سب انسان کا تخیل ہوتا ہے، انسان تو ہم پرست ہے۔“
ذاکر نے انہیں تمام واقعہ سنایا، چچا مسکراتے رہے پھر بولے: ”میاں پتلے وتلے کچھ نہیں کرتے، انسان کے دکھ کا مداوا انسان ہی کرتا ہے، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان پتلے کا روپ دھار لے، اندھیرے میں کیا پتا چلتا ہے۔“
”کیا مطلب؟“ ذاکر نے حیرت سے پوچھا۔
چچا بولے: ”چھوڑو ان باتوں کو۔“ پھر انہوں نے اپنی گٹھڑی کھولی اور بولے: ”جب میں پچھلی دفعہ یہاں آیا تھا تو غلطی سے تمہاری ایک چیز میرے سامان میں چلی گئی تھی۔ اپنی امانت لے لو۔“ انہوں نے کپڑوں کے درمیان سے چابک نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
”ہائیں! یہ آپ کے پاس کیسے آیا؟“ ذاکر حیرت سے چلایا ۔ وہ چچا کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ چچا مسکرا رہے تھے۔ پھر بات اس کے سمجھ میں آگئی۔ وہ بھی مسکرانے لگا۔
چچا بولے: ”اچھا میاں کل میں یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔“
ذاکر نے کہا: ” نہیں چچا کچھ دن اور ٹھہریں ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں۔“
”نہیں مجھے کام ہے۔ اگلی بار آؤں گا تو دیر تک ٹھہروں گا۔“ وہ بولے۔
” اچھا تو پھر یہ چابک اپنے ساتھ ہی لے جائیں شاید پھر کہیں ضرور ت پڑ جائے۔“ ذاکر نے کہا۔
دونوں نے قہقہہ لگایا اور ڈوبتے سورج کو دیکھنے لگے جو تیزی سے مغرب کی طرف جھک رہا تھا۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top