skip to Main Content
لال چڑیا

لال چڑیا

غلام مصطفی سولنگی

……….

چڑیا کو اس کے بچے دیکھ کر ڈر گئے۔۔۔

……….

کسی جنگل میں ایک چڑیا رہتی تھی۔ اس نے اپنا گھونسلا ایک درخت کی گھنی شاخ پر بنایا تھا جس پر انگور کی بیل لپٹی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کے دو بچے اور ایک بوڑھی ماں بھی رہا کرتی تھی۔ دو ننھے منے بچے بچپن ہی میں اپنے باپ کے پیار سے محروم ہوگئے تھے، اس لیے ان کی ماں ان سے بے حد پیار کرتی تھی۔ بے چاری ماں نے دن رات ایک کرکے بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ وہ دور دور سے اپنے بچوں کے لیے کھانے کی مزے دار چیزیں لایا کرتی تھی۔ وہ اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی اور ان کو گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتی تھی۔ رات کو دونوں بچوں کو اپنے پروں میں چھپا کر سویا کرتی تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے بھی کچھ بڑے ہوگئے اور اپنی توتلی زبان میں ’’چُوں۔۔۔ چُوں۔۔۔ چیں۔۔۔ چیں‘‘ کرنے لگے۔ جب چڑیا کھانے کی تلاش میں گھر سے باہر جاتی تو ان کی حفاظت کے لیے اپنی بوڑھی ماں کو تاکید کرجاتی تھی۔ وہ بالکل بوڑھی ہوچکی تھی اور ہر وقت لیٹی رہتی تھی۔ کام کاج تو وہ کرتی نہیں تھی۔ نانی کو بھی اپنے نواسوں سے بہت محبت تھی، اس لیے وہ ان کا بڑا خیال رکھتی تھی۔

چڑیا کا یہ معمول تھا کہ صبح سویرے اُٹھ کر نماز پڑھتی تھی۔ پھر بچوں کو ہاتھ منھ دھلوا کر ناشتہ کرواتی تھی۔ اتنی دیر میں نانی بھی نماز سے فارغ ہو کر اور کچھ کھا کر ادھر ادھر ٹہلنے لگتی تھی۔ چڑیا بچا ہوا ناشتہ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی اور پھر دوپہر کے کھانے کی تلاش میں نکل جاتی۔ دوپہر کا کھانا سب مل کر مزے سے کھاتے تھے اور اس کے بعد وہ سب کچھ دیر کے لیے آرام کرتے تھے۔

چڑیا شام کو رات کے کھانے کی تلاش میں نکلتی تھی اور سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے اپنے گھونسلے میں واپس آجایا کرتی تھی۔ کھانا کھا کر بچے نانی اماں سے ضد کرتے۔ ’’نانی۔۔۔ اماں کوئی کہانی سنائیں۔‘‘

بچوں کی ضد دیکھ کر نانی اماں ان کو کوئی کہانی سناتی تھیں۔ کبھی کالے دیو کی کہانی، کبھی شیر اور گیدڑ کی، کبھی سانپ اور بچھو کی، کبھی تتلی پری کی۔ کہانی سن کر بچے چپکے سے اپنی امی کے پروں میں چھپ کر سوجاتے تھے۔

ایک دن خدا کا کر کرنا کیا ہوا کہ چڑیا جب صبح گھر سے نکلی تو رات تک واپس نہیں آئی۔ گھر میں سب پریشان ہوگئے۔ نانی بے چاری پریشانی سے ادھر ادھر دوڑنے لگی۔ بچے بھی الگ پریشان تھے۔ دکھ اور پریشانی میں ان کا بھی برا حال ہوگیا۔ صبح ناشتے کے بعد انھوں نے کچھ کھایا بھی نہ تھا۔ رات ہوگئی، لیکن بے چاری چڑیا نہ جانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔ اب تو بچے رونے لگے۔ نانی اماں نے بڑی مشکل سے بچوں کو سلایا اور خود بیٹی کے انتظار میں بیٹھی رہی۔

ادھر چڑیا جیسے ہی کھانے کی تلاش میں ایک گھر میں اتری تو فوراً ہی ایک جال میں پھنس گئی۔ اس گھر کے ایک بچے عرفان نے اسے جال سے نکال کر پنجرے میں بند کردیا اور پھر اس سے کھیلنے لگا۔ چڑیا بے چاری دکھ سے رونے لگی کہ نہ جانے اب کیا ہوگا۔

جب شام ہوئی تو عرفان نے چڑیا کو پنجرے سے باہر نکالا اور اسے لال رنگ لگانے لگا اور جب چڑیا کا سارا جسم لال ہوگیا، تب جا کر اس نے چڑیا کو اڑادیا۔

بے چاری چڑیا نے آزاد ہوتے ہی خدا کا لاکھ لاکھ شکر اد کیا لیکن اب تو رات ہوچکی تھی اور اسے راستہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اندھیرے میں کہیں راستہ بھول ہی نہ جاؤں۔ لہٰذا اس نے رات شاہی باغ میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اسے بچوں کی یاد بہت ستانے لگی، مگر وہ صبح ہونے کے انتظار میں تھی جب صبح ہوئی تو وہ جلدی سے ا پنے گھر کی طرف اُڑی۔

گھر میں تو ماجرا ہی کچھ اور تھا۔ جب وہ خوشی سے گھر میں داخل ہوئی تو بچے اُس کو دیکھ کر ڈر گئے اور دوڑ کر اپنی نانی کے پروں میں جاچھپے۔ نانی نے جب دیکھا کہ ایک لال رنگ کی چڑیا بچوں کو ڈرانے آئی ہے تو وہ لاٹھی اٹھا کر اس کے پیچھے دوڑی۔ بے چاری چڑیا نے لاکھ سمجھایا کہ میں تمھاری بیٹی ہوں لیکن نانی نے اسے مار پیٹ کر نکال دیا۔ بے چاری چڑیا زار و قطار رونے لگے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے بچے بھوک سے مرجائیں۔ اس لیے وہ روزانہ کھانا گھر میں رکھ کر چلی جاتی تھی۔

ایک دن جب چڑیا جنگل کی طرف کھانے کی تلاش میں جارہی تھی تو راستے میں اس کی ملاقات ایک پری سے ہوئی۔ چڑیا کو دیکھ کر پری نے کہا۔ ’’بہن چڑیا! تم بہت پریشان اور دکھی نظر آرہی ہو۔ کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ، ممکن ہے کہ میں تمھاری کوئی مدد کرسکوں۔‘‘

چڑیا نے اپنے دکھ کی ساری داستان پری کو سنادی۔ اس کے بعد پری نے چڑیا کو مشورہ دیا۔ ’’صبح سویرے اللہ رب العزت کا نام لے کر سورج سے اپنا حال بیان کرنا۔ وہ تمھاری مدد ضرور کرے گا اور ان شاء اللہ! تم جلد ہی اس مصیبت سے نجات حاصل کرلوگی۔‘‘

یہ سن کر چڑیا بہت خوش ہوئی اور پری کا شکریہ ادا کرکے جنگل کی طرف چلی گئی۔

دوسرے دن جب سورج پہاڑوں سے ابھرنے لگا تو چڑیا نے رو کر اسے اپنا حال سنایا۔ چڑیا کا حال سن کر سورج کو بھی بہت دکھ ہوا۔ پھر اس نے چڑیا کو بتایا: ’’پیاری چڑیا! کل آسمان پر بادل چھائیں گے اور بارش بھی ہوگی اور پھر بارش کے بعد ایک خوبصورت قوس قزح بھی آسمان پر نمودار ہوگی۔ تم صبح سویرے اٹھ کر شبنم سے غسل کرنا اور پھر ایک بڑے درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھ جانا۔ جب میری پہلی کرن نکلے گی تو اس کی روشنی تمھارے بدن پر بھی پڑے گی۔ پھر جب قوس قزح کے رنگ غائب ہوں گے تو اس کے ساتھ تمھارا یہ لال رنگ بھی غائب ہوجائے گا۔‘‘

دوسرے دن چڑیا نے ایسا ہی کیا۔ سب سے پہلے شبنم سے غسل کیا اور پھر ایک بڑے درخت کی اونچی شاخ پر جابیٹھی۔ تھوڑی دیر کے بعد آسمان پر بادل چھاگئے۔ بارش ہوئی اور بعد ازاں قوس قزح بھی ظاہر ہوئی۔ جب سورج نکلا تو اس کی روشنی چڑیا کے بدن پر بھی پڑنے لگی۔ کچھ دیر بعد جب قوس قزح بھی غائب ہوگیا اور وہ پھر سے پہلے جیسی چڑیا ہوگئی۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی اور ایک دم اپنے گھر کی طرف اُڑی۔

بچے اپنی ماں کو دیکھ کر اس سے چمٹ گئے۔ ماں نے بچوں کو بہت پیار کیا اور پھر اپنا احوال بیان کیا۔ سب شرمندہ ہوگئے اور اس سے معافی مانگنے لگے۔ اس خوشی میں انھوں نے رات کو سویاں پکا کر کھائیں اور وہ سب پھر سے ہنسی خوشی رہنے لگے۔

*۔۔۔*

 

قوس قزح: دھنک، ست رنگی کمان جو

برسات کے بعد نظر آتی ہے

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top