skip to Main Content

لالٹین کی روشنی

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔جہاں بارش نے ہر طرف پانی ہی پانی جمع ہوگیا تھا۔دن کے بارہ بجے ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی تھی،مگر جب تیسرا پہر شروع ہوا تو مینہ نے موسلادھار بارش کی صورت اختیار کر لی تھی۔
شام ہوتے ہوتے آندھی بھی چلنے لگی تھی۔مصیبت یہ ہوئی کہ تیز و تند جھونکوں کی وجہ سے بجلی کے تار ٹوٹ گئے اور گاؤں کے پکے مکانوں کے اندر جو بلب جل رہے تھے وہ بجھ گئے۔البتہ کچے گھروں کی لالٹینیں جلتی رہیں۔مستری اللہ رکھا کے گھر میں بھی لالٹین جل رہی تھی اور اس لالٹین کی روشنی میں مستری اللہ رکھا کی بیوی مرادو بار بار اٹھ کر اپنی بیمار بیٹی صفیہ کی چارپائی کے پاس جا کر اسے دیکھتی تھی کہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے۔
صفیہ دن کے وقت تو ہنستی بولتی رہتی تھی،مگر کئی راتوں سے اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ نیند اس کی آنکھوں میں آتی ہی نہیں تھی۔آتی بھی تھی تو آدھے گھنٹے یا اس سے کچھ زیادہ وقت گزر جانے پر اڑ جاتی تھی اور اس رات تو اس کو بخار بھی ہو گیا تھا۔مرادو بیٹی کے ماتھے پر ہاتھ رکھتی تھی تو یہ دیکھ کر بے قرار ہو جاتی تھی کہ بخار پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ماتھا پہلے سے زیادہ گرم محسوس ہوتا تھا۔
مستری اللہ رکھا گھر میں نہیں تھا۔اسے شہر میں ایک مکان بنانے کا کام مل گیا تھا ۔دو دن سے وہیں تھا اور یہ کہہ کر گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دس روز تک واپس آ جائے گا اور ابھی تک وہیں تھا۔
مستری عام طور پر شہر ہی جاکر کام کرتا تھا۔اس کی عدم موجودگی میں ماں بیٹی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں رہتی تھی۔سوداسلف مرادو خود بازار جاکر خرید لاتی تھی اور صفیہ گھر کے کام میں اس کی پوری پوری مدد کرتی تھی۔
بارش ہو رہی تھی،آندھی بھی چل رہی تھی،مرادو یہ سوچ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی کہ صفیہ سو رہی ہے۔وقت ایک گھنٹے سے زیادہ گزر گیا تھا۔ مرادو کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ کہیں اس کی بیٹی جاگ نہ اٹھی ہو یا ایسا نہ ہو بخار کی وجہ سے بے ہوش ہی نہ ہو گئی ہو۔
وہ اٹھی،آہستہ سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھا اور یکلخت اسے احساس ہوا کہ اس نے گرم توے کو چھو لیا ہو۔
”صفو۔“ ماں کی گھبرائی ہوئی آواز بہ مشکل اس کے حلق سے نکلی۔
”جی اماں۔“ صفیہ بڑی کمزور آواز میں بولی۔
”بخار بڑا تیز ہے۔“
”کوئی بات نہیں ہے اماں! بس ذرا پانی۔“صفیہ نے جلدی سے کہا۔
مرادو نے مٹی کے گھڑے سے گلاس میں پانی ڈالا۔بیٹی کی طرف جاتے ہوئے لالٹین کی لو اور اوپر کر دی اور ادھر چلی جہاں صفیہ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔
”میں صدقے! پی لو۔“
صفیہ نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے گلاس کو تھامنے کی کوشش کی۔کچھ پانی اس کے کرتے کو گیلا کر گیا۔مرادو نے جلدی سے گلاس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کا کنارہ بسم اللہ پڑھتے ہوئے صفیہ کے ہونٹوں سے لگا دیا۔
ایک ہی گھونٹ پی کر صفیہ نے منہ پیچھے ہٹا دیا۔
”اور پیو۔“
”نہیں اماں! “ یہ کہتے ہوئے صفیہ نے اپنا سر تکیے سے لگادیا۔وہ اس قدر کمزور ہو چکی تھی کہ چند لمحوں سے زیادہ بیٹھنا مشکل ہو گیا تھا۔
لالٹین کی مدہم روشنی میں مرادو اپنی بیٹی کو پریشان نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”صفو۔“
”جی اماں۔“
”بخار بہت تیز ہے۔میں حکیم صاحب کو۔۔۔۔“
”نہ اماں!۔۔۔۔میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔“صفیہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”وہ سامنے ہی تو جانا ہے۔ حکیم بڑا مہربان ہے۔جلد آ جاؤں گی۔“
صفیہ منع کرتی رہی مگر مرادو نے الماری میں سے دوپٹہ نکال کر اوڑھ لیا۔
”اماں۔“
مرادو کو معلوم تھا کہ صفیہ کیا کہنا چاہتی ہے۔بولی:
”میں ابھی گئی۔۔۔۔ابھی آئی۔“اصل میں مرا دو دل میں ڈرتی تھی کہ بخار اور تیز نہ ہو جائے،اس لیے وہ ہر حال میں حکیم صاحب سے دوا لانے کے لئے مصر تھی۔
”اللہ رحم کرے گا۔گھبرانا بالکل نہیں۔۔۔۔ہیں صفو!“
”پر اماں باہر بڑا اندھیرا ہے۔“
”کوئی بات نہیں۔ایک منٹ ہی کا تو راستہ ہے۔“
مرادو دروازے کی طرف جانے لگی۔
”اماں لالٹین لے جاؤ۔“صفیہ نے کہا،مگر یہ فقرہ ماں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکا۔وہ جلدی سے نکل گئی۔
ماں کے جانے کے بعد صفیہ کھلی آنکھوں سے چھت کو گھورنے لگی۔ابھی اسے دو تین لمحے ہی گھورتے ہوئے گزرے ہوں گے کہ ایسا محسوس ہوا جیسے دروازے کے باہر سے آواز آئی ہے۔
اس نے چھت سے نظریں ہٹا کر دروازے کی طرف دیکھا۔
آواز پھر آئی جو صفیہ سمجھ نہ سکی،مگر وہ دروازے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی تھی۔
ماں گھر میں نہیں۔۔۔میں اکیلی۔۔۔اس کے ذہن میں اس خیال نے گھبراہٹ اور خوف پیدا کردیا۔
اب کے آواز آئی:
”مہربانی کریں۔“
”مہربانی کریں!۔۔۔یہ کیا معاملہ ہے۔۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔کیا چاہتا ہے؟“
یہ سوچ کر وہ اٹھ کر چارپائی سے نیچے پاؤں رکھنے لگی۔
کوئی چور ہوتا تو دروازہ کھلا ہے،بڑی آسانی سے اندر آ سکتا تھا۔دروازے پر کھڑے ہو کر مہربانی کریں کیونکر کہتا۔
نہ جانے اس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر لالٹین اٹھائی اور دروازے کی طرف جانے لگی۔
”کون؟“
”میری بیٹی کی حالت خراب ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جا رہا تھا۔گر پڑا۔لالٹین ٹوٹ گئی ۔اندھیرے میں ڈاکٹر کے گھر جانا مشکل ہے۔“
صفیہ دروازے کے پاس کھڑی یہ آواز سن رہی تھی۔
”مہربانی کریں۔۔۔“
صفیہ نے منہ سے ایک لفظ تک نہ کہا۔لالٹین ہاتھ بڑھا کر آگے کردی۔
”بڑی جلدی واپس کردوں گا۔“
اب کے صفیہ بولی:
”لے جائیے۔“
لالٹین نہ رہی تو کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔ وہ اپنی چارپائی کی طرف جانے لگی۔چارپائی تک پہنچنے میں اسے کوئی دقت نہ ہوئی۔تکیے کی پشت لگا کر اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر پھیرا۔اس کی انگلیاں پسینے میں بھیگ گئیں۔چند منٹ تک وہ بیٹھی رہی۔
مراد واپس آ گئی تھی۔اس نے گھر میں اندھیرا دیکھا تو اس کا دل دہل گیا۔
”یا اللہ خیر! اس کے منہ سے نکلا۔“
آہٹ ہوئی تو صفیہ نے اندازہ لگالیا کہ اس کی ماں آ گئی ہے اور اندھیرا دیکھ کر پریشان ہو گئی ہے۔
”اماں۔“
”صفو۔“
دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو پکارا۔
”صفو۔“مرادو کے دل میں کئی ایسے خیالات آگئے تھے جنہوں نے اسے بری طرح خوف زدہ کردیا تھا۔
”اماں۔“صفیہ بولی:” میں ٹھیک ہوں۔۔۔بالکل ٹھیک ہوں۔“
”تو لالٹین کیوں بجھ گئی۔“
”اماں! لالٹین وہ شخص لے گیا ہے جسے ہم سے زیادہ ضرورت تھی۔“
”کیا کہہ رہی ہے تو۔“مرادو کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
”اماں! کوئی فکر نہ کریں۔۔۔مل جائے گی۔“صفیہ کے لہجے میں ایک ایسے اطمینان کی جھلک نمایاں تھی جو ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بالکل خیریت سے ہے۔مرادو آگے بڑھ کر بیٹی کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”کون لے گیا لالٹین۔کون آیا تھا۔۔۔ہائے میرے اللہ۔۔۔خیر ہوئی نا؟“
صفیہ کہنے لگی:” اماں تو خواہ مخواہ گھبرا رہی ہے۔“اور اس نے سارا واقعہ سنا دیا۔
”میں تو بری طرح ڈر گئی تھی۔ حکیم صاحب کا انتظار کیا،کسی دعوت پر گئے تھے، واپس نہیں آئے۔“
”اماں اب پڑیوں کی کیا ضرورت ہے۔“
”کیوں۔“
”دیکھو تو بخار اتر گیا ہے میرا۔“
”مرادو نے اس کا ماتھا چھوا۔کچھ گرم تھا،مگر پہلے جیسا نہیں تھا۔“
”اللہ تیرا شکر ہے۔“
ماں بیٹی باتیں کرنے لگیں۔
بارش ختم ہو چکی تھی۔آندھی کا بھی زور نہیں رہا تھا۔ابھی صبح کاذب تھی۔پھر آہستہ آہستہ روشنی پھیلنے لگی۔ کچھ دیر بعد دروازے میں سے روشنی اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔
”کون؟“مرادو دروازے کے پاس پہنچی۔وہاں دو شخص کھڑے تھے۔ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔
”بہت بہت شکریہ۔آپ نے میری مدد کی تھی۔لیجئے اپنی امانت۔“
”میں بھی آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔لالٹین نہ ملتی تو یہ صاحب میرے گھر پہنچ نہیں سکتے تھے۔“
”بہن جی یہ ڈاکٹر ہیں۔انہی کو ساتھ لے جانے کے لیے ان کے گھر گیا تھا۔میری بچی کی حالت بڑی خراب ہو گئی تھی۔انہوں نے ٹیکا لگایا اور اللہ نے فضل کر دیا۔یہ بھی آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آئے ہیں۔“لالٹین والے نے کہا۔
دونوں سمجھ رہے تھے کہ لالٹین مرادو نے دی تھی۔
”آپ اندر آ جائیں۔“
مرادو انہیں اندر لے آئی۔جب وہ بیٹھ گئے تو مرادو نے ساری حقیقت بتائی۔
دونوں بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر نے بڑی محبت اور شفقت سے صفیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”بیٹی! تیری یہ قربانی میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ایسی ہی ایثار کرنے والی بیٹیاں قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں۔“
صبح طلوع ہو چکی تھی اور اس کی روشنی ہر طرف پھیلنے لگی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top