skip to Main Content

قدرت کے پھیپھڑے

ڈاکٹر ادیب عبدالغنی شکیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اللہ کے بندے! اتنی کنجوسی بھی ٹھیک نہیں، اتنی بچت کرکے کہاں لے جائے گا،کمال ہے کسی بھی کمرے میں اے سی نہیں لگوایا، کوٹھی کا رقبہ تو اتنا زیادہ ہے اور اس میں سے کورڈ ایریا ایک تہائی تو ہوگا۔ میرے اور تمھارے مالی وسائل ایک جیسے ہیں لیکن میں اس کنجوسی کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میرا گھر تو تم نے دیکھا ہی ہے وال ٹو وال کارپٹ اور ہر کمرے میں ڈیڑھ ٹن کا اے سی ،ماربل لگا کارپورچ اور چم چم کرتا برآمدہ…. اور ایک تم ہو کہ تم نے درخت پودے لگا لگا کر گھر کو جنگل بنا رکھا ہے۔“
حسیب میرے دوست نے ایک ہی سانس میں میری اچھی خاصی کلاس لے لی۔
اس سے پہلے کہ میںاسے کوئی جواب دیتا ۔حسیب کی بیگم اپنے بچوں سمیت کمرے سے باہر آگئیں۔
حسیب نے فوراًکار کی چابی نکالی اور مجھ سے ہاتھ ملا کر بیگم بچوں کو لے کر چلاگیا ۔
کچھ دن بعد وہ ایک دن آیا تو گرمی سے سخت پریشان تھا۔ اس وقت عثمان میاں نے صحن میں تازہ تازہ چھڑکا ؤکیا تھا اور میں نیم کے درخت کے نیچے بیٹھا زرعی رقبے کے حسابات چیک کررہا تھا ۔
حسیب میرے ساتھ والی کرسی پر ڈھے سا گیا ۔کہنے لگا :
”یار! بہت گرمی ہے ،بزنس ٹور سے واپس آرہا ہوں گاڑی کا اے سی بھی لگتا ہے بالکل کام نہیں کررہا ۔“پھر وہ اچانک رک سا گیا۔ اچنبھے سے اس نے مجھے دیکھا اور بولا: ”مگر یہاں تو بہت ٹھنڈک ہے۔ اف مزہ آ گیا۔“ میں مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ وہ ہمیشہ سے بہت باتونی تھا۔اس سے پہلے کے میں کچھ کہتا۔اس کی نظر میرے سامنے کاغذات پر پڑی تو اس کی ذہنی رو کہیں اور پہنچ گئی۔
”یار! اس بار تو بجلی کے بلوں نے مت مار کر رکھ دی ہے، ایک لاکھ سے اوپر تو اسی مد میں نکل گیا ہے، تمھارا بل کتنا آیا ہے؟“
میں نے کہا ۔”7200“
اس نے حیرت سے پوچھا :”بہتر سو یا بہتر ہزار ؟“
میں نے کہا ۔”بھائی! بہتر سو یعنی سات ہزار دوسو۔“
اس نے آنکھ مارتے ہوئے کہا:”میٹر سے کوئی چھیڑ چھاڑ کی ہوئی ہے یا لائن مین سے لائن ملائی ہوئی ہے ؟“
میں نے کہا :”لاحول ولا قوة….یار! تجھے پتہ ہی ہے کہ میں اس لائن کا بندہ نہیں ہوں، مجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک اچھی طرح ذہن نشین ہے کہ ’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘….پھر بجلی چور پوری قوم کا مجرم ہوتا ہے تو میں کیو ں کروڑوں لوگوں کا مجرم بنوں؟….اس دن تم نے ایک بات کہی تھی تو مجھے جواب دینے کا موقع نہ ملا تھا، آج عرض کرتا ہوں کہ میرے گھر میں ائیر کنڈیشنر اس لیے نہیں ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنے گھر میں درخت لگوائے ہوئے ہیں۔درخت قدرت کے پھیپھڑے ہیں جو صاف شفاف تازہ آکسیجن ہمیں مہیا کرتے ہیں، درجہ حرارت کوکم کرتے ہیں، بجلی کی فکر نہ بل کی ٹینشن، کچی مٹی پر پانی کا چھڑکا ؤ عجب بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے اور سبزہ وہریاول آنکھوں کو طراوٹ بخشتا ہے ۔درخت نہ اے سی کے آؤٹر کی طرح گرم گندی ہوا باہر پھینک کر ماحول کو آلودہ کرتے ہیںنہ بجلی کا میٹر گھومتاہے۔ اسی طرح گرمی سے براہ راست اے سی میں جاﺅ یا اے سی سے گرمی میں آﺅ تو طبیعت خرابی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں۔“
حسیب نے خلاف معمول آج میری بات خاموشی سے سنی تھی۔
میں نے اس کی تواضع کے لیے پہلے تازہ آم منگوائے اور پھر کچی لسی۔ اتنی دیر میں دونوں چیزیں ٹھنڈی ہوئیں، ہم نے نیم تلے بیٹھ کر روٹی، ساگ، پودینے کی چٹنی اور سلاد سے کھائی۔دھوپ تیز تھی مگر درخت کی چھاؤں میں بے حد فرحت بخش ٹھنڈک تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
حسیب کھانا کھاتے کھاتے بے ساختہ بول اٹھا :
”یار آج تو کھانے میں وہ مزہ آیا جو کسی فائیواسٹار ہوٹل کے کھانے میں بھی کبھی نہیں آیا، پھر آم اور کچی لسی نے تو لطف دوبالا کردیا۔“
حسیب چلا گیا۔ اگلے ہفتہ آیا تو حسب معمول پھر پریشان تھا۔اس کی پریشانی کا سبب اس کے برادرنسبتی (بیگم کے بھائی) کی طبیعت خرابی تھی۔اس کے دونوں گردے فیل ہو گئے تھے اور ڈا کٹر ز نے گردوں کی دھلائی کے لیے اب ہر ہفتے ڈائیلیسز کا کہا تھا۔شہر کے ایک مشہور مہنگے ہسپتال میں ایک ہفتہ بعد ڈائیالسس شروع ہوناتھا ۔
میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا :
”حسیب یار ! اس پر ابھی بات کرتے ہیں ، مگر پ ہلے گرمی بہت ہے ، ذرا سانس لو۔ یہ سرائیکی وسیب کی سوغات پیلو کھاﺅجس کا ذکر اپنی شاعری میں ہمارے اجداد کے شاگرد رشید حضرت خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن والے نے بھی کیا ہے۔“
وہ خاموشی سے پیلو کھانے لگا۔
کچھ دیر کے بعد میں بولا: ” تمھیں درختوں سے جھڑنے والے پتوں سے بڑی کوفت ہوتی ہے ناں، حالانکہ پتے بہت اچھی قدرتی کھاد کا کام دیتے ہیں، خیر آج یہی پتے آپ کے سالے صاحب کا مسئلہ بھی حل کریں گے ان شاءاللہ!“
وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا۔
”یہ درخت جو تم دیکھ رہے ہو ،ہمارے علاقے کا مشہور درخت ہے سوہانجنا۔ اس کی پھلیوں کے ساتھ قیمہ ڈال کر بناؤ تو بہت مزے کا بنتا ہے، کبھی کسی دن تمھیں کھلاﺅں گا، انگلیاں چاٹتے رہ جاﺅ گے ، خیر فی الحال تو اس کے پتے گھر لے جاﺅ، ان پتوں کو سائے میں خشک کرو جب سوکھ جائیں تو انھیں پیس لو۔ بس پھر یہ سفوف ایک چمچ صبح اورایک چمچ شام اپنے بھائی کو کھلاؤ تازہ پانی سے۔ اس کے ساتھ بازاری کھانوں سے مکمل پرہیز کرواؤ، ایک ہفتے بعد بتانااگر فیل شدہ گردے اے پلس گریڈ لے کر پاس نہ ہوں توکہنا۔ان شااللہ العزیزبالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔“
اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اسے میری بات کا یقین نہیں آیا تھا مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ وہ پتے لے گیا۔
ڈیڑھ ہفتے بعد حسیب کا ایک دن فون آیا۔
”یار! کمال ہو گیا۔ اللہ کا شکر ہے طاہر ٹھیک ہوگیا،لاکھ کی نہ لگے خاک کی لگ جائے والا معاملہ ہوگیاہے، تمھارا بے حد شکریہ۔ اس کی صحت یابی کے سلسلے میں ہم نے دعوت رکھی ہے ، تم مہمان خصوصی ہو گے اس تقریب کے۔ اس جمعے کو تم نے بھی ضرور آنا ہے۔“
حسیب کی آواز میں ایسی چہکار تھی مجھے بے حد خوشی ہو ئی۔میں چند ثانیوں کے بعد بولا:
”بہت بہت مبارک ہو،یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے ،میں ان شاءاللہ دعوت میں ضرور شریک ہوں گا لیکن اس شرط پر کہ یہ جشن صحت شور شرابے اور ہنگامے والا یا پہلے سے شکم سیرلوگوں کو کھلانے والا جشن نہ ہو،بلکہ غریبوں یتیموں اور محتاجوں کوکھانا کھلایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ تم بھی اپنے اتنے بڑے گھر میں شجرکاری کا ارادہ کرو۔ قدرت کے پھیپھڑے گردے کام کریں گے تو ہمارے پھیپھڑے گردے دل صحیح کام کریں گے۔“
حسیب کھلکھلا کر ہنس پڑا :”ارے یار کیوں نہیں، اب تو میں بھی درختوں کی افادیت کا قائل ہوگیا۔ اب تومیں بھی ضرور بالضرور درخت لگاﺅں گا ان شا اللہ!“

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top