skip to Main Content
قاتل کون تھا؟

قاتل کون تھا؟

فوزیہ خلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہَٹ میں ہونے والے اس قتل میں کون ملوث تھا؟تجسس سے بھرپور کہانی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیق اور ابتسام آج فاران کی طرف آئے ہوئے تھے۔ چاے کا دور چل رہا تھا۔ سموسے اور پکوڑے کھائے جارہے تھے۔

’’یار فاران، تمھاری امی چاے بڑی مزے دار بناتی ہیں۔‘‘ ابتسام کہہ رہا تھا۔

’’اور سموسے، یہ سموسے بھی اُنھوں نے ہی بنائے ہیں۔‘‘ فاران فوراً بولا۔

’’یار۔۔۔ ابتسام، آج کل انکل حسام کہاں ہیں۔‘‘ انیق نے ابتسام سے اس کے والد انسپکٹر حسام کے بارے میں پوچھا۔

’’ابو کسی کیس کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘

’’کہاں پر۔۔۔ کس جگہ۔‘‘ فاران نے بے چین ہو کر پوچھا۔ جواب میں ابتسام مسکرانے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ فاران کی طبیعت میں بہت کھوج اور بے چینی ہے۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے لیے بے چین رہتا ہے۔

’’زیادہ تفصیل تو مجھے بھی نہیں پتا۔ جانے سے پہلے وہ کہہ رہے تھے کہ سمندر کے کنارے ایک بڑا سا ہٹ ہے، وہاں پر جارہے ہیں۔ کوئی کیس حل کرنے۔‘‘ ابتسام نے جواب دیا۔

’’کیوں نہ ہم بھی وہاں چلیں۔ دیکھیں تو سہی۔ کیس کیسا ہے اور کس طرح سے حل کیا جارہا ہے۔ یوں بھی ہم فارغ ہی تو بیٹھے ہیں۔‘‘ فاران فوراً بولا۔

’’ہاں۔۔۔ ابتسام تم ان کو فون کرکے معلومات لو ناں۔ ہم تینوں بھی چلتے ہیں۔ کیا پتا ہم تمھارے ابو کے کچھ کام ہی آجائیں۔‘‘ انیق نے بھی جلدی سے کہا۔

’’چلو ٹھیک ہے میں ان سے پوچھتا ہوں۔‘‘ ابتسام بولا اور انسپکٹر حسام کا نمبر ملانے لگا۔

’’لوبھئی۔۔۔ تفصیل پتا چل گئی۔‘‘ موبائل آف کرکے اس نے کہا۔

’’بتاؤ ناں۔‘‘ فاران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

’’ساحل سمندر کے کنارے اس ہَٹ میں ایک قتل ہوگیا ہے ابو اسی کی تفتیش کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے ماتحت بھی ہیں۔ اُنھوں نے مجھ کو ہَٹ کا راستہ سمجھادیا ہے۔ وہ بہت پراسرار ہٹ ہے۔‘‘ ابتسام نے ڈرامائی انداز میں کہا۔

جواب میں انیق اور ابتسام مسکرانے لگے۔

*۔۔۔*

اُن کے گھر سے ساحل سمندر کافی دور تھا۔ ان کو وہاں پہنچنے میں کافی دیر ہوگئی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہونے والی تھیں۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ عموماً وہ انیق کے بابا کی پرانی جیپ استعمال کرتے تھے۔ انیق کے ڈرائیور ہارون بابا ان کو لے جاتے تھے مگر ہارون بابا کئی روز سے بیمار تھے۔ لہٰذا ان تینوں دوستوں کو خود ہی آنا پڑا۔

سمندر کی لہریں کافی اُونچی اُٹھ رہی تھیں۔ غروب آفتاب کا منظر کافی دلکش تھا وہ کچھ دیر تک وہاں دیکھتے رہے پھر اُنھوں نے ہَٹ کی طرف قدم بڑھادیے۔ یہاں پر دور دور تک کافی ہَٹ بنے ہوئے تھے اور ہَٹوں کی قطار کافی دور تک چلی گئی تھی۔ کچھ ہَٹ چھوٹے اور پرانے تھے جبکہ کچھ کافی بڑے اور دو منزلہ تھے۔

انسپکٹر حسام نے ان کو جس ہَٹ کا بتایا تھا وہ بھی کافی بڑا مگر پرانا تھا۔ یہ بھی دو منزلہ تھا اور کافی پھیلا ہوا تھا۔ چار دیواری کے ساتھ ساتھ ایک اُجاڑ سا باغ بھی تھا۔

تینوں اندر داخل ہوگئے۔ سامنے ہی انسپکٹر حسام اپنے دو ماتحتوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے: ’’السلام علیکم بابا جان۔‘‘ ابتسام بولا۔

’’انکل السلام علیکم۔ تفتیش کیسی چل رہی ہے؟‘‘ انیق اور فاران نے کہا۔

سلام دعا کے بعد انکل بولے:’’یہاں پر ایک قتل ہوگیا ہے۔ آؤ، میں تم تینوں کو تفصیل بتاتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ اندر کمرے میں چلو۔‘‘

تینوں اندر کمرے میں چلے آئے۔ کمرے کے بیچوں بیچ خون پھیلا ہوا تھا۔

’’قتل اس کمرے میں ہوا تھا۔ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوادی گئی ہے۔ لاش اوندھے منھ پڑی تھی۔ اس کے جسم پر خنجر کے تین نشان ملے ہیں۔ دو نشان کمر پر جبکہ ایک کندھے کے قریب ہے۔ مقتول کا نام حیان شاہ ہے یہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں پکنک منانے آیا تھا۔‘‘ انسپکٹر حسام نے بتایا۔

فاران زمین پر جھک گیا: ’’انکل یہاں پر خون سے کچھ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دیکھیے یہاں زمین پر۔‘‘

’’ہاں، مقتول یعنی حیان شاہ کی سیدھے ہاتھ کی ایک انگلی خون میں ڈوبی ہوئی تھی، اس نے مرنے سے پہلے قاتل کا نام لکھنے کی کوشش کی ہوگی۔‘‘ سب انسپکٹر بولا۔

وہ جھک کر بغور دیکھنے لگے۔ ’’یہ حرف ’ج‘ لگتا ہے۔‘‘

فاران سوچ میں ڈوبتے ہوئے بولا: ’’جیسے اس نے ’ج‘ سے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہو۔‘‘

’’حیان شاہ کے ساتھ یہاں کون کون دوست تھے؟ جن کے ساتھ وہ پکنک منانے آیا تھا۔‘‘

’’یہ کل چھ لڑکے تھے۔ جس میں سے حیان شاہ تو مارا گیا۔ اب پانچ ہیں۔ ان کے نام جمیل، جبران، شاہ میر، اریب اور اشعر ہیں۔‘‘

’’یہ۔۔۔ یہ پانچوں لڑکے کہاں ہیں؟‘‘ انیق نے پوچھا۔

’’ہم نے ان پانچوں کو ایک بڑے کمرے میں روک رکھا ہے۔ جب تک قتل کی تحقیق مکمل نہیں ہوجاتی۔ یہ پانچوں یہاں سے جا نہیں سکتے۔‘‘ انسپکٹر حسام بولے۔

’’ویسے اب قاتل کو پکڑنے کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ سب انسپکٹر نے کہا۔

’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ کیسے۔‘‘فاران تیزی سے بولا۔

’’مقتول نے قاتل کا نام لکھنے کی کوشش کی ہے جو حرف جیم سے شروع ہوتا ہے۔ مقتول کے دو دوستوں کے نام جمیل اور جبران ہیں لہٰذ اب ہمارا کام آسان ہے۔‘‘ سب انسپکٹر بے فکری سے بولا۔

’’فرض کریں قتل شاہ میر نے کیا ہے۔ قتل کرنے کے بعد وہ مقتول کی انگلی خون میں ڈبو کر ایسا نام لکھنے کی کوشش کرتا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ قتل کسی ایسے فرد نے کیا ہے جس کا نام جیم سے شروع ہوتا ہے اور وہ خود شک سے بَری رہے۔‘‘ فاران نے جلدی جلدی کہا۔ جواب میں سب انسپکٹر اور حوالدار نے فاران کو بہت تیز نظروں سے گھورا۔

’’ویری گڈ فاران۔ تم ایک ذہین لڑکے ہو۔‘‘ انسپکٹر حسام نے کہا۔

’’اس کا مطلب ہے صرف جبران اور جمیل شک کے دائرے میں نہیں ہیں بلکہ شاہ میر، اریب اور اشعر بھی ہیں۔‘‘ ابتسام نے فوراً نتیجہ نکالا۔

’’وہ پانچوں کہاں ہیں۔۔۔ ہم ان سے ملنا چاہیں گے۔‘‘ فاران نے جلدی سے کہا۔

’’چلو۔۔۔ اندر کمرے کی طرف چلو۔‘‘

وہ سب اندر کمرے کی طرف چلے آئے۔ یہ ایک گول ہال نما کمرہ تھا۔ یہاں بہت سی کرسیاں پڑی تھیں۔ پانچ لڑکے ان پر خاموش نظریں جھکاے بیٹھے تھے۔ ان کی عمریں لگ بھگ بیس سے پچیس برس ہوں گی۔

’’میں۔۔۔ میں جبران ہوں۔‘‘ ایک نے اُٹھ کر کہا۔ یہ ایک مضبوط جسم کا لڑکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نہایت تیز چمک تھی۔

’’اور میں جمیل۔‘‘ دوسرے نے اُٹھ کر کہا۔ وہ نہایت خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا، شاید اس کو بتایا گیا تھا کہ قاتل کا نام جیم سے شروع ہوتا ہے۔

اشعر اور شاہ میر چھوٹے قد کے نہایت دبلے پتلے لڑکے تھے جبکہ اریب بہت لمبا چوڑا تھا۔ اس کے ہاتھ بڑے بڑے تھے اور چہرے سے بہت تیز اور مکار دکھائی دیتا تھا۔ وہ ہنستا تھا تو اور خوفناک لگتا تھا۔

’’آ۔۔۔ آپ اریب ہیں۔‘‘ ابتسام نے ہکلا کر کہا۔

’’جی۔۔۔ میں اریب ہوں۔‘‘

’’آپ بہت بے فکرے سے نظر آرہے ہیں۔‘‘ فاران نے اس کو گھور کر دیکھا۔

’’جی۔۔۔ مجھے بے فکر ہی ہونا چاہیے۔ جبران اور جمیل کو فکر کرنی چاہیے۔ مقتول نے ان کا نام لکھنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ اریب نے دانت نکالے اس کے ڈیل ڈول کی طرح اس کے جبڑے بھی بہت چوڑے اور باہر کو ابھرے ہوئے تھے۔

’’ہوسکتا ہے قتل آپ نے کیا ہو مسٹر اریب۔‘‘ فاران نے زہریلے لہجے میں کہا۔

’’اور قتل کرکے آپ نے الزام جبران اور جمیل پر ڈالنے کی کوشش کی ہو۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ میں نے لندن میں تعلیم حاصل کی ہے۔ میں لندن ہی میں پلا بڑھا ہوں۔ ابھی حال ہی میں پاکستان آیا ہوں۔ میرے سب ہی دوست جانتے ہیں کہ میں اُردو نہیں لکھ سکتا۔ نہ پڑھ سکتا ہوں۔ ہاں بولنا ضرور سیکھ گیا ہوں۔‘‘ اریب کے سکون میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔

فاران نے اسے گھور کر دیکھا پھر انکل انسپکٹر حسام کی طرف مڑا۔

’’انکل آلہ قتل نہیں ملا۔ یعنی خنجر۔‘‘

’’نہیں ابھی تک نہیں۔‘‘

اس تمام گفتگو میں جبران نے تو پھر بھی کچھ جواب دیے تھے مگر جمیل، اشعر اور شاہ میر بالکل خاموش رہے تھے۔ جمیل تو اس قدر حواس باختہ تھا کہ بار بار ماتھے سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔

’’بہرحال۔۔۔ قاتل آپ پانچوں میں سے ہی کوئی ایک ہے۔ وہ آپ میں سے بھی کسی کو قتل کرسکتا ہے۔ آلہ قتل ابھی اسی کے پاس ہے۔ آپ پانچوں کو ایک دوسرے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کوشش کریں آپ پانچوں ایک دوسرے سے دور دور ہی رہیں۔‘‘ فاران نے سنسنی خیز انداز میں کہا۔

’’میں کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘ اریب نے فوراً منھ بنا کر کہا۔

’’او۔۔۔ اور۔۔۔ مم۔۔۔ میں بھی نہیں۔‘‘ جبران نے ہکلائی ہوئی آواز نکالی۔

اشعر، شاہ میر اور جمیل سر ہلا کر رہ گئے۔

*۔۔۔*

اگلے کچھ گھنٹوں میں فاران، انیق اور ابتسام نے دونوں منزلیں چھان ماریں مگر ان کو کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اوپر والی منزل میں چار کمرے تھے۔ چار کمروں میں جبران، اشعر، شاہ میر اور جمیل نے الگ الگ کمرے میں اپنے آپ کو بند کرلیا تھا جبکہ اریب آزادانہ اِدھر اُدھر گھومتا پھر رہا تھا۔ اس کے انداز میں بے خوفی تھی۔ اس کو سمندر کے کنارے ٹہلنا بھی بہت پسند تھا۔

کوئی سراغ نہ پا کر فاران، انیق اور ابتسام سخت مایوس ہوئے تھے۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ انھوں نے نیچے والی منزل میں اپنے سونے کا انتظام کیا تھا۔ نیچے ایک بڑا ہال تھا اس میں ساتھ ساتھ بستر ڈال لیے گئے تھے۔

ایک طرف انسپکٹر حسام، سب انسپکٹر اور حوالدار نے اپنے بستر لگائے تھے۔ دوسری طرف انیق اور ابتسام لیٹ گئے تھے: ’’تم لیٹو گے نہیں فاران۔‘‘

’’مم۔۔۔ میں۔۔۔ ہاں کیوں نہیں۔ ضرور لیٹوں گا۔‘‘ فاران نیم دراز ہوگیا۔ تھوڑی دیر تک وہ تینوں کیس کے سلسلے میں باتیں کرتے رہے پھر ان کی آنکھ لگ گئی۔ سب سے پہلے انیق کی آنکھ لگی پھر ابتسام سوگیا۔ انسپکٹر حسام اور ان کے ماتحت پہلے ہی سوچکے تھے۔ اوپر والی منزل کے آگے کا دروازہ مقفل کردیا گیا تھا اب اوپر سے کوئی نیچے نہیں آسکتا تھا۔

کافی اندھیرا تھا جب انیق کی آنکھ کھلی۔ زیرو کا بلب بھی نہیں جل رہا تھا جبکہ وہ بلب جلا کر سوئے تھے۔ انیق کو سخت وحشت سی محسوس ہوئی۔ سمندر کی لہروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ انیق ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور ابتسام کو شانے سے پکڑ کر جھنجھوڑنے لگا: ’’اُٹھ جاؤ ابتسام، دیکھو کتنا ہولناک اندھیرا ہے۔‘‘

ابتسام نے پھرتی سے اٹھتے ہوئے اپنا موبائل نکال لیا۔ چشم زدن میں اس نے موبائل کی لائٹ آن کرلی۔ اس نے لائٹ اِدھر اُدھر ڈالی۔ دور انسپکٹر حسام اپنے ماتحتوں کے ساتھ سوئے دکھائی دیے۔

’’فف۔۔۔ فاران۔۔۔ کہاں گیا۔‘‘ ابتسام کے منھ سے کپکپاتی آواز میں نکلا۔

فاران پورے ہال نما کمرے میں نہیں تھا۔

’’فاران کہاں چلا گیا۔‘‘ انیق نے حیرت زدہ لہجے میں کہا پھر اتسام کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’کیا بات ہے ابتسام تم بہت خوفزدہ ہوگئے ہو۔‘‘

’’یہ مت بھولو۔۔۔ قاتل ابھی ہمارے درمیان ہی ہے۔‘‘

ابتسام نے جواب دیا۔ انیق نے اپنا خوف جمتا محسوس کیا، اسی لمحے اسے ایک اونچی اور لمبی چیخ کی آواز سنائی دی۔

’’چچ۔۔۔ چیخ۔۔۔ یہ کون چیخا۔ آواز اوپر کی منزل سے آئی ہے۔‘‘ انیق اور ابتسام آگے پیچھے اوپر کی منزل کی طرف دوڑ پڑے۔ اُنھیں اپنے پیچھے مزید دوڑتے قدموں کی آواز آئی۔ اس کا مطلب تھا انسپکٹر حسام اور ان کے ساتھی بھی جاگ چکے تھے۔

*۔۔۔*

فاران کافی دیر تک لیٹا رہا مگر اس کو نیند نہ آئی۔ اچانک اس کو محسوس ہوا جیسے اوپر کی منزل میں کوئی چل رہا ہو وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر آگیا۔ اوپر کی منزل کی گرل میں بھی بھی تالا لگا ہوا تھا۔

’’کک۔۔۔ کون جا رہا ہے۔‘‘

’’یہ میں ہوں۔‘‘ جواب میں اریب کی آواز سنائی دی۔‘‘ مجھے نیند نہیں آرہی تھی اس لیے ٹہل رہا تھا۔‘‘

رات کی تاریکی میں اریب کا چہرہ اور خطرناک لگا۔ وہ گرل سے آلگا تھا: ’’صاحب تم لوگ خواہ مخواہ پریشان ہورہے ہو۔ میں بتاتا ہوں یہ قتل جمیل نے کیا ہے۔‘‘

’’جمیل نے۔ تم کو کیسے پتا چلا۔ وہ بے چارہ تو پہلے ہی اس قدر ڈرا ہوا ہے۔ اس قدر خوفزدہ ہے۔ وہ کسی کو کیا قتل کرے گا۔‘‘ فاران بولا۔

’’ارے نہیں۔۔۔ وہ تو اداکاری کررہا ہے۔ ویسے تو ہم سب ہی حیان شاہ کے دوست ہیں۔ مگر جمیل سے اس کا اکثر جھگڑا ہوجاتا تھا۔ کافی لمبی بحث و تکرار چلا کرتی تھی ان کے بیچ اور ابھی چند دن پہلے تو کافی لڑائی ہوگئی تھی۔‘‘ اریب نے کہا۔ فاران کو یک لخت اپنی دلچسپی بڑھتی محسوس ہوئی: ’’کک کس۔۔۔ کس بات پر ہوا تھا جھگڑا۔‘‘

’’حیان شاہ اور جمیل آپس میں صرف دوست ہی نہیں بلکہ کزنز بھی ہیں۔ دونوں آپس میں چچا زاد بھائی ہیں۔ ان کے دادا کی کچھ چھوڑی ہوئی جائیداد ہے۔ کچھ زمینیں ہیں۔ اسی بات کو لے کر دونوں کے درمیان اکثر جھگڑا ہوجاتا تھا۔ جمیل کا کہنا تھا کہ حیان شاہ کے والد نے زبردستی ساری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔‘‘ اریب خاموش ہوگیا۔ فاران سوچ میں پڑگیا تھا۔ قتل کی وجہ بڑی معقول تھی۔ ہوسکتا ہے یہاں ہٹ میں بھی اسی طرح کی کوئی بحث چھڑگئی ہو اور غصے میں جمیل کے ہاتھوں حیان شاہ مارا گیا ہو۔

’’اور اور یہ تینوں کیسے ہیں۔ اشعر، شاہ میر اور جبران۔‘‘

’’اشعر اور شاہ میر تو بہت ہی دبلے پتلے ہیں اور پھر یہ غصیلے اور لڑائی جھگڑا کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اشعر اور شاہ میر قاتل ہوسکتے ہیں اور پھر ان کے اس قتل کی کوئی وجہ بھی نہیں۔‘‘

’’اور۔۔۔ اور جبران۔‘‘ فاران نے فوراً پوچھا۔

’’میں۔۔۔ اپنے بارے میں، میں خود بتادیتا ہوں۔‘‘ پیچھے سے آواز آئی۔ اریب بجلی کی تیزی سے پلٹا۔ جبران پیچھے ہی کھڑا تھا۔

’’مجھے تمھاری باتوں کی آواز آرہی تھی۔ میں یہی دیکھنے چلا آیا کہ تم کس سے باتیں کررہے ہو۔‘‘ جبران بھی گرل تک چلا آیا۔

’’حیان شاہ سب سے زیادہ مجھ سے قریب تھا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ وہ میرا سب سے گہرا دوست تھا۔ ہمارے درمیان بھائیوں والے تعلقات تھے۔‘‘ جبران بولا۔

’’ہاں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘ اریب نے تسلیم کیا۔

’’یہ کوئی بات نہ ہوئی۔ اچانک کسی بات پر جھگڑا ہوتا ہے، قتل و غارت گری ہوجاتی ہے اور دیرینہ تعلقات پل بھر میں دشمنی میں بدل جاتے ہیں۔‘‘ فاران نے خشک لہجے میں کہا۔

’’مگر میرے پاس قتل کی کوئی وجہ نہیں۔ میں بھلا حیان شاہ کو کیوں قتل کرنے لگا۔‘‘ جبران نے کندھے اچکائے۔

’’آپ فکر نہ کریں۔ قتل کی وجہ ہم خود تلاش کرلیں گے اور پھر۔۔۔‘‘ فاران کہتے کہتے رُک گیا۔

’’آپ دونوں تو یہاں کھڑے ہیں۔ اشعر، شاہ میر اور جمیل اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ پھر اوپری منزل پر کون ہے جو چل رہا ہے۔ میں چلنے کی صاف آواز سن رہا ہوں۔ کیا یہاں پر آپ پانچوں کے علاوہ کوئی چھٹا بھی ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ چھٹے بابا کمال دین ہیں۔‘‘

’’بابا کمال دین۔۔۔ یہ کون ہیں۔‘‘

’’یہ باورچی ہیں۔ ان کو ہم اپنے ساتھ لائے تھے کھانا وغیرہ بنانے کے لیے۔‘‘ جبران بولا۔

’’مم۔۔۔ مگر وہ ہیں کہاں۔ دکھائی نہیں دیے۔‘‘

’’وہ کچن کے قریب ہی بستر لگا کر سوگئے تھے۔ کل شام سے ان کو بخار ہے۔ اسی لیے آپ لوگ ان سے مل نہیں سکے۔‘‘ جبران نے جلدی جلدی کہا۔

’’ہاں البتہ انسپکٹر حسام صاحب اور ان کے ماتحت جب آئے تھے تو بابا کمال دین سے مل لیے تھے۔‘‘ اریب بولا۔

اچانک فاران بُری طرح چونکا، اسے محسوس ہوا جیسے راہداری میں جو بلب روشن تھا وہ بجھ گیا ہو۔ اب سیڑھیوں تک تاریکی پھیل گئی تھی۔

بلب کس طرح بجھ گیا۔ اس کو کیسے بند کیا گیا؟ وہ سوچ میں پڑگیا۔ اس تاریکی سے کون فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے؟

اب گرل کا تالا کھولنا ضروری ہوگیا تھا۔ وہ چابی لینے نیچے اتر آیا۔ نیچے سب سو رہے تھے۔ وہ چابی لے کر اوپر آیا تو اوپر کوئی نہیں تھا۔ جبران اپنے کمرے میں جاچکا تھا۔ اریب بھی اسے کہیں دکھائی نہ دیا۔ شاید وہ اوپر چھت پر چلا گیا تھا۔

فاران ایک ایک کمرے سے کان لگا کر آگے بڑھتا چلا گیا۔ پھر اچانک وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ایک کمرے سے باتوں کی آواز آرہی تھی وہ کان لگا کر سننے لگا۔ یقیناًیہ اشعر اور شاہ میرکی آواز تھی۔

’’کیا ان میں سے کوئی قاتل ہے؟‘‘ فاران سوچ میں پڑگیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس نے ابھی تک ان دونوں پر شک نہیں کیا تھا۔

آواز زیادہ واضح نہیں تھی۔ اشعر اور شاہ میر بہت دھیمی آواز میں گفتگو کررہے تھے۔

’’وہ وہ انگوٹھی کہاں گئی۔ ہیرے کی انگوٹھی؟ آخر وہ کہیں ملی کیوں نہیں۔‘‘ اشعر کہہ رہا تھا۔

’’ہاں۔۔۔ ہم نے ہر جگہ ڈھونڈلی۔ آخر وہ گئی تو گئی کہاں۔‘‘ شاہ میر کی آواز اُبھری۔ وہ کس انگوٹھی کا ذکر کررہے تھے۔ وہ انگوٹھی کس کی تھی؟ فاران سوچنے لگا۔ اس کا مطلب ہے راہداری میں اندھیرا ان دونوں نے ہی کیا ہوگا تاکہ چپکے سے ہر ایک کے کمرے کی تلاشی لے سکیں۔ مگر کیوں؟ اس کو اپنے کیوں کا کوئی جواب نہ ملا۔

فاران ابھی دروازے سے کان لگائے ہی کھڑا تھا کہ اسے پیچھے سے کسی نے زبردست دھکا دیا۔ وہ اچھل کر دور جاگرا۔ اس کے منھ سے ایک بلند چیخ نکلی اور پھر اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوب گیا۔

*۔۔۔*

اس کو ہوش آیا تو دن کا اُجالا پھیل چکا تھا۔ انیق اور ابتسام اس کے پاس ہی بیٹھے تھے۔ اس کو ہوش میں آتا دیکھ کر مسکراے: ’’تم کئی گھنٹوں بعد ہوش میں آئے ہو۔ ہم کو ڈاکٹر بلانا پڑا تھا۔ وہ تم کو انجکشن لگا کر گیا ہے۔‘‘ انیق بولا۔

’’اوہ‘‘ فاران فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’تفتیش۔۔۔ تفتیش کہاں تک پہنچی۔ باقی سب کہاں ہیں۔‘‘

’’سب ٹھیک ہیں۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آگئی ہے۔ بابا جان وہی پڑھ رہے ہیں۔‘‘ ابتسام نے انسپکٹر حسام کے بارے میں بتایا۔

’’ہم نے کئی باتیں معلوم کی ہیں۔‘‘ انیق بولا۔

’’ایک تو یہ کہ حیان شاہ الٹے ہاتھ سے لکھتا تھا۔ سیدھے ہاتھ سے نہیں۔‘‘

’’اوہ۔‘‘ فاران نے اچھل کر کہا۔ ’’مگر جاے واردات پر تو اس کی شہادت کی انگلی خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس نے قاتل کا نام لکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

’’سمجھ میں نہیں آتا کہ قاتل ایسی غلطی کیسے کرسکتا ہے؟ وہ بہرحال حیان شاہ کا دوست تھا۔ یقیناًاسے یہ بات معلوم ہوگی کہ وہ لکھنے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرتا ہے۔‘‘

’’اور۔۔۔ ایک بات اور ہے۔ حیان شاہ جب یہاں آیا تھا تو وہ ایک بہت بیش قیمت ہیرے کی انگوٹھی پہنے ہوا تھا۔ وہ انگوٹھی غائب ہے۔ نہ لاش کی انگلیوں میں تھی نہ ہی حیان شاہ کے سامان میں ملی اور نہ کسی دوسرے لڑکے کے سامان میں ملی۔ ہم تلاشی لے چکے ہیں۔‘‘ انیق جلدی جلدی بولا۔

انگوٹھی کا ذکر سنتے ہی فاران اچھل کر کھڑا ہوگیا: ’’یار بڑے تیز جارہے ہو تم دونوں۔‘‘

’’صرف تم دونوں نہیں۔۔۔ انکل حسام نے بھی ہماری مدد کی تھی۔‘‘ انیق بولا۔

’’مگر اتنا سب کچھ جاننے کے بعد بھی ہم ابھی تک قاتل سے دور ہیں۔‘‘

’’مم۔۔۔ میں قاتل کے بارے میں ایک اندازہ لگاچکا ہوں۔‘‘ فاران بولا پھر اس نے چپ کا اشارہ کیا اور سرگوشی کے انداز میں بولا۔

’’کوئی کمرے کے باہر کھڑا ہماری گفتگو سن رہا ہے۔‘‘

فاران دبے قدموں دروازے تک آیا اور پھر اس نے جھٹکے سے دروازہ کھول دیا، باہر کوئی نہیں تھا۔

*۔۔۔*

’’پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دیکھ کر میرے تو ہوش گم ہوگئے ہیں۔‘‘ انسپکٹر حسام کہہ رہے تھے۔

’’ہاں واقعی یہ بہت حیران کن ہے۔‘‘ ان کا ماتحت کہہ رہا تھا۔

’’چلو آؤ۔۔۔ فاران، ابتسام اور انیق کو بھی یہ رپورٹ بتائیں۔ ذرا دیکھیں تو سہی وہ اب کیا کہتے ہیں؟ اس رپورٹ نے تو میرے سارے اندازے ہی غلط ثابت کردیے ہیں۔‘‘ انسپکٹر حسام اُلجھے ہوئے انداز میں کہہ رہے تھے۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتے آگے بڑھنے لگے، اچانک اُنھوں نے کسی کو تیزی سے راہ داری کا موڑ کاٹتے ہوئے دیکھا۔

’’یہ کون تھا؟‘‘ وہ سوچ میں پڑگئے۔ ’’ سمت میں تو صرف ایک ہی آخری کمرہ ہے جس میں فاران لوگ ہیں۔ پھر یہ کون اس طرف آیا تھا۔‘‘

وہ کمرے کے دروازے پر پہنچے تو ابتسام باہر ہی کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ہی فاران بھی تھا۔

’’گڈ۔۔۔ ہوش میں آگئے تم۔‘‘ انھوں نے فاران کو دیکھ کر کہا۔

’’بابا جان۔۔۔ ان پانچوں میں سے کوئی ہماری باتیں سننے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘ ابتسام بولا۔

’’ہاں میں نے اس کی جھلک دیکھ لی تھی۔‘‘ انسپکٹر حسام نے کہا۔

’’کک۔۔۔ کون۔۔۔ کون تھا وہ۔‘‘

’’شاید اریب۔۔۔ میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا مگر میرا خیال ہے وہ اریب ہی تھا۔ ان پانچوں میں اتنا قد اور ڈیل ڈول اسی کا ہے۔‘‘

’’اوہ! تو قاتل اریب ہے۔‘‘ ابتسام بولا۔

’’ارے نہیں۔۔۔ نتیجہ نکالنے میں اتنی جلدی نہ کرو۔ اب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سن لو۔ حیان شاہ کی کمر پر خنجر کے دو نشان ہیں جبکہ تیسرا نشان کندھے کے پاس ہے۔ خنجر کے دو نشان کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ یہ دونوں گھاؤ رات کو بارہ بجے مارے گئے تھے جبکہ تیسرا کندھے کا گھاؤ اس کے ایک گھنٹے کے بعد کا ہے۔ یعنی رات ایک بجے کے آس پاس مارا گیا ہے۔‘‘

’’کیا۔‘‘ حیرت کی زیادتی سے ان تینوں کے منھ سے نکلا۔

’’مم۔۔۔ مگر قاتل کو ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انیق ابھی تک حیران تھا۔

’’ایسا کرتے ہیں ہم باہر چلتے ہیں۔ یہاں پھر کوئی ہماری باتیں سن سکتا ہے۔‘‘

انسپکٹر حسام نے اپنے دو ماتحت اندر چھوڑ دیے اور وہ تینوں، انسپکٹر حسام کے ساتھ باہر ساحل پر چلے آئے۔

’’چلیے۔۔۔ بولیے۔‘‘ ایک بڑے پتھر پر بیٹھتے ہوئے ابتسام نے کہا۔

’’کوئی ایک پورا جائزہ پیش کرے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔‘‘ انیق نے کہنا شروع کیا۔ ’’جمیل اور حیان شاہ آپس میں نہ صرف دوست بلکہ کزنز بھی ہیں۔ ان کے درمیان زمینوں اور جائیداد پر اکثر بحث ہوجاتی ہیں۔ ہَٹ میں بھی ان دونوں کے درمیان بحث ہوگئی اور اس چکر میں حیان شاہ مارا گیا۔‘‘

’’اس پر مجھے کئی اعتراضات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر مجرم جمیل تھا تو اس نے اپنے ہی نام کو خون سے کیوں لکھنے کی کوشش کی۔ دوسرا اعتراض یہ کہ جمیل تو حیان شاہ کو اچھی طرح جانتا تھا پھر اس نے داہنے ہاتھ کی انگلی کو خون میں کیوں ڈبویا جبکہ حیان شاہ لکھنے کے لیے اُلٹا ہاتھ استعمال کرتا تھا۔۔۔ تو۔۔۔ تو۔۔۔‘‘ فاران کہتے کہتے رک گیا۔

’’اوہ۔۔۔ میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔ قاتل کون ہے۔‘‘

اتنا کہہ کر فاران پتھر سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور تیزی سے ہَٹ کی جانب بھاگا۔ انیق، ابتسام اور انسپکٹر حسام بھی تیزی سے اس کے پیچھے لپکے۔

*۔۔۔*

وہ ہٹ میں پہنچے تو فاران کسی کو کہیں نظر نہ آیا۔ اُنھوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ تمام کمرے چیک کیے۔ راہ داریوں میں دیکھا۔ پھر چھت پر چلے گئے مگر فاران کہیں نہ تھا۔

’’آخر وہ کہاں گیا۔‘‘ انیق حیران ہو کر بولا۔

’’سوجھ گئی اس کو کوئی اچھی بات۔‘‘

’’مجھے بھی ایک بات سوجھی ہے۔ میں بھی ابھی آتا ہوں۔ تم سب کو یہاں بڑے کمرے میں جمع کرلو۔ دیکھو۔۔۔ کوئی رہ نہ جائے۔‘‘ انسپکٹر حسام نے کہا۔

’’چلو ہم یہی کام کرلیتے ہیں۔‘‘ ابتسام نے مایوسی کے انداز میں کہا اور سب کو نیچے کمرے میں جمع ہونے کی ہدایت دینے لگا۔

اریب ہمیشہ کی طرح بے فکر دکھائی دے رہا تھا۔ شاہ میر اور اشعر نظریں نیچے کرکے چپ چاپ چلے آئے آج تو ان کے کندھے بھی جھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ جمیل ہمیشہ کی طرح خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی ہوائیاں اڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ جبران کافی بے چین نظر آرہا تھا۔ شاید وہ قاتل کا نام جاننے کو بے چین تھا۔ وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ تفتیش اب مکمل ہوا چاہتی ہے۔

’’کیا سب آچکے ہیں؟‘‘ حوالدار بولا۔

’’بابا کمال دین نے کچن کے قریب ہی اپنا بستر ڈال رکھا ہے۔ وہ سو رہے ہیں۔ میں نے ابھی آتے ہوئے دیکھا تھا ان کو تیز بخار ہورہا ہے۔‘‘ جبران نے فوراً کہا۔

’’کیا ہیرے کی انگوٹھی مل گئی؟‘‘ شاہ میر نے نظریں اوپر کرکے کہا۔

’’پتا نہیں گئی تو گئی کہاں؟‘‘ اشعر بولا

’’فاران بتارہا تھا آپ دونوں پہلے بھی ہیرے کی انگوٹھی کے بارے میں بہت بے چین رہے ہیں۔ آخر اس انگوٹھی سے آپ لوگوں کو کیا دلچسپی ہے؟‘‘ ابتسام بولا۔

’’حیان شاہ جب ہَٹ میں آیا تھا تو ہیرے کی ایک بہت ہی قیمتی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا۔ ہم سب نے ہی دیکھا تھا اور پھر وہ مارا گیا۔ ہم نے اس کی لاش بھی دیکھی مگر اس کی انگلیاں خالی تھیں۔ انگوٹھی کہاں گئی۔ یہ خیال تو سب کے ہی ذہن میں آیا تھا۔ اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوجاتا کہ ہم نے انگوٹھی چرانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ اشعر نے بہت اعتماد سے جواب دیا۔

’’اور آپ لوگوں نے تو اب تک صرف شک ہی کیا ہے۔ نہ انگوٹھی آپ لوگوں کو مل سکی نہ آپ لوگ آلہ قتل یعنی خنجر ڈھونڈسکے۔‘‘ اریب نے منھ بنا کر کہا۔

اسی لمحے آہٹ کی آواز آئی۔ فاران اور انسپکٹر حسام آگے پیچھے چلے آرہے تھے۔

’’تم۔۔۔ کہاں گئے تھے؟ فاران۔‘‘ ابتسام نے بے چین ہو کر پوچھا۔

’’مجھ کو ایک زور دار خیال سوجھا تھا۔‘‘ فاران مسکرایا۔ پھر اس نے اپنی بند مٹھی کھول دی۔ سب کے سب اچھل پڑے۔ فاران کی ہتھیلی میں ہیرے کی انگوٹھی جگمگ کررہی تھی۔

’’یہ۔۔۔ یہ کہاں سے ملی۔‘‘ اشعر کے منھ سے نکلا۔

’’ایک ایسی جگہ سے ملی جس کے بارے میں، میں جب بتاؤں گا تو آپ سب حیرت زدہ رہ جائیں گے۔‘‘ فاران بولا۔

انسپکٹر حسام مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔

’’ادھر دیکھو۔۔۔ یہ کیا ہے۔‘‘

ایک مرتبہ پھر سب اچھل پڑے۔ انسپکٹر حسام کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا جس کا پھل خون آلود ہورہا تھا اور خون سوکھ کر سیاہ ہورہا تھا۔

’’کک۔۔۔ کیا اس پر سے انگلیوں کے نشانات ملے۔‘‘ شاہ میر کی آواز ابھری جیسے وہ نیند میں بول رہا ہو۔

’’مسٹر شاہ میر۔۔۔ انگلیوں کے نشانات سے پہلے آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ یہ خنجر ملا کہاں سے؟‘‘ انسپکٹر حسام نے چبا چبا کر کہا۔مگر جواب میں سب خاموش رہے۔

’’انگلیوں کے نشانات کی رپورٹ اب آنے ہی والی ہے۔‘‘

’’رپورٹ آنے سے پہلے میں کچھ عرض کردوں۔‘‘ فاران نے بے چین ہو کر کہا۔

’’ضرور کہو۔‘‘ انسپکٹر حسام مسکراے۔

’’حیان شاہ اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ یہاں پکنک منانے آیا۔ رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ حیان شاہ کی انگلی میں ایک بے حد قیمتی انگوٹھی تھی۔ مجرم نے بھی وہ انگوٹھی دیکھی۔ اس کی نیت بدل گئی۔ رات میں جب حیان شاہ کمرے میں اکیلا تھا۔ مجرم اندر داخل ہوا۔ اس کا خیال تھا حیان شاہ سورہا ہوگا اور وہ خاموشی سے انگوٹھی اتارلے گا اور یہی ہوا وہ سورہا تھا۔ مجرم انگوٹھی اتارنے لگا کہ حیان شاہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے مجرم کو انگوٹھی اُتارتے پکڑلیا۔ ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ مجرم کے پاس ایک خنجر تھا اس کا قتل کا کوئی ارادہ نہ تھا، نہ ہی مجرم کوئی عادی مجرم یا قاتل تھا۔ بس جھگڑے میں مجرم نے خنجر سے دو مرتبہ حیان شاہ کی کمر پر وار کیا۔ حیان شاہ گرگیا۔ خون بہنے لگا۔ مزے کی بات یہ کہ جھگڑے میں انگوٹھی بھی وہیں کہیں گرگئی۔ مجرم کو نہ ملی اور مجرم حواس باختہ ہوگیا اور خنجر چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلا۔‘‘ فاران خاموش ہوگیا۔

’’مگر خنجر کے تو تین گھاؤ ہیں۔ تیسرا گھاؤ کیسے لگا؟ اور پھر وہ گھاؤ تو ایک گھنٹہ بعد کا ہے؟‘‘انیق نے اُلجھے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’اور مجرم ہے کون؟‘‘ ابتسام بولا۔

’’بتاتا ہوں۔۔۔ صبر کرو۔‘‘ فاران نے مسکرا کر کہا۔ ’’مجرم سمجھا کہ حیان شاہ مرچکا ہے مگر حیان شاہ مرا نہیں تھا۔ وہ زخمی تھا اور ہوش میں تھا۔ انگوٹھی اس کے خون میں ڈوبی پڑی تھی۔ حیان شاہ نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس کو اۃٹھالیا اور ہاتھ میں پہن لیا۔ مجرم چونکہ ایک کمزور آدمی تھا اس لیے کاری وار نہ لگاسکا۔‘‘

سب کی نظریں شاہ میر کی طرف ایک دَم سے اُٹھیں۔

’’یہ جھوٹ ہے۔۔۔ میں قاتل نہیں ہوں۔‘‘ شاہ میر چیخ پڑا۔

’’یہ ٹھیک ہے کہ تم قاتل نہیں ہو۔ تم قاتل بننے سے بال بال بچ گئے۔ تمھارے وار سے حیان شاہ مر نہیں سکا تھا لیکن بہرحال کڑی سزا تو تم کو بھی ملے گی۔‘‘ انسپکٹر حسام بولے۔

’’پھر قاتل کون ہے؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔

’’پہلا شک مجھ کو یہ ہوا کہ حیان شاہ کی سیدھے ہاتھ کی انگلی خون میں ڈوبی ہوئی تھی جبکہ وہ اُلٹے ہاتھ سے لکھتا تھا یہ بات اس کے سب ہی دوست جانتے تھے پھر یہ غلطی کس سے ہوئی؟ یقیناًیہ کوئی ایسا شخص تھا جو حیان شاہ کو زیادہ جانتا نہ تھا۔ اس کا دوست نہ تھا۔‘‘ فاران رُک گیا۔

’’کک۔۔۔ کیا مطلب۔‘‘ سب ایک ساتھ چِلّاے۔

’’ایک گھنٹے کے بعد بابا کمال دین چاے بنا کر سب کے کمروں میں لے کر آئے۔ اُنھوں نے حیان شاہ کو زخمی حالت میں دیکھا۔ انگوٹھی اس کی انگلی میں تھی۔ حیان شاہ اوندھے منھ پڑا تھا۔ بابا کمال دین اس کے ہاتھ سے انگوٹھی اُتارنے لگے۔ وہ بھی یہی سمجھے کہ حیان شاہ مرچکا ہے۔ اچانک حیان شاہ پلٹا اور ان کو دیکھ کر چور چور پکارنے لگا۔ وہ گھبراگئے۔ خنجر حیان شاہ کے نیچے دبا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ پلٹا۔ بابا کمال دین کو خنجر نظر آگیا۔ بابا کمال دین ایک عادی مجرم ہیں۔ یہ شاہ میر کی طرح بے وقوف نہیں تھے۔ اُنھوں نے خنجر اُٹھالیا۔ لپک کر کندھے پر ایک وار کیا۔ یہ کاری وار تھا۔ حیان شاہ آخری سانسیں لینے لگا اور بابا کمال دین خنجر اور انگوٹھی لے کر وہاں سے فرار ہوگئے۔‘‘ فاران کہتا چلا گیا۔

’’اور فرار ہونے سے پہلے اُنھوں نے اس کے سیدھے ہاتھ سے مجرم کا نام لکھنے کی کوشش کی اور یہی بے وقوفی ان کو لے ڈوبی۔ حیان شاہ اُلٹے ہاتھ سے لکھتا تھا اور یہ بات صرف بابا کمال دین ہی نہیں جانتے تھے۔‘‘ انسپکٹر حسام نے کہا۔

’’مجھے یہی خیال آیا تھا۔ میں سیدھا کچن میں گیا اور نمک کے ڈبے سے مجھ کو انگوٹھی مل گئی۔‘‘ فاران نے جلدی جلدی کہا۔

’’مگر میں مجرم کیسے ثابت ہوا؟ کیا صرف اس لیے کہ میں کمزور ہوں اور۔۔۔‘‘ شاہ میر چیخ پڑا

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو شاہ میر، مجرم تو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مگر خنجر پر ہم کو انگلیوں کے نشان ملے ہیں۔ یہ نشان بابا کمال دین نے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مگر پھر بھی نشانات نظر آرہے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی آتی ہی ہوگی۔‘‘ انسپکٹر حسام بولے۔

’’بابا کمال دین خنجر کو سمندر میں بہادینا چاہتے تھے مگر ان کو موقع نہ مل پایا۔

’’قتل کے بعد ہی ان کو تیز بخار نے آلیا اور یہ ہَٹ سے باہر نکل کر سمندر تک جا ہی نہیں سکے۔ یوں خنجر ہَٹ میں ہی رہ گیا۔‘‘

’’مگر یہ تھا کہاں۔‘‘ اریب نے پوچھا۔

’’ہاں بتائیے ناں۔۔۔ کہاں تھا؟‘‘ جمیل نے بے چین ہو کر کہا۔

’’مسٹر جمیل یہ آپ کے کمرے سے ملا ہے۔‘‘

’’مم۔۔۔ میرے۔۔۔‘‘ وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا۔

’’جی ہاں آپ کے۔۔۔ بیٹھ جائیں۔ بخار کے باعث بابا کمال دین سمندر تک تو جانہ سکے۔ مگر یہ جیم سے نام بنانے کی کوشش کرچکے تھے کہ ہم جبران یا جمیل پر شک کریں گے۔ اُنھوں نے خنجر جمیل کے کمرے میں چھپادیا۔‘‘ انسپکٹر حسام بولے۔

’’لاش اٹھالینے کے بعد بھی انگوٹھی کہیں نظر نہ آئی تو شاہ میر بے چین ہوگیا۔ اس نے انگوٹھی کو ہر طرف ڈھونڈا مگر وہ نہ ملی اور ملتی بھی کیسے وہ تو بابا کمال دین نکال لے گئے تھے۔‘‘ فاران نے کہا۔

’’بابا کمال دین کوئی باورچی نہیں ہیں۔ یہ عادی مجرم ہیں اُنھوں نے اپنا حلیہ کچھ تبدیل کرلیا ہے۔‘‘ انسپکٹر حسام بولے۔ اسی وقت موبائل کی گھنٹی بجی۔ وہ کچھ دیر تک بات کرتے رہے پھر انھوں نے موبائل بند کردیا: ’’انگلیوں کے نشان کی رپورٹ آگئی ہے۔‘‘

’’ارے۔۔۔ شاہ میر کہاں گیا۔‘‘ فاران کے منھ سے نکلا۔

وہ سب بھاگ کر باہر نکلے تو شاہ میر دوڑتا ہوا نظر آیا۔

’’شاہ میر تمھارا یہ بھاگنا تمھارے کچھ کام نہ آسکے گا۔ خنجر پر تمھارے اور بابا کمال دین کی انگلیوں کے نشانات مل چکے ہیں۔ اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردو۔‘‘ انسپکٹر حسام بلند آواز میں بولے۔

’’میرے گھر والے جیتے جی مرجائیں گے۔ جب ان کو میری گرفتاری کی خبر ملے گی۔‘‘ اس نے بھی بلند آواز میں کہا۔

’’یہ بات تو تمھیں جرم کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھی بلکہ میں تو یہ بات ہر مجرم ہی سے کہا کرتا ہوں کہ جرم کرتے وقت اپنے گھر والوں کا تو سوچ لیا کرو۔ تمھارے بعد ان کا کیا ہوگا۔‘‘

’’اور۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کی کڑی سزا کا سوچ لو۔ تو پھر جرم کبھی کروگے ہی نہیں۔‘‘ فاران نے فوراً کہا۔

اور ہتھکڑیوں کے جوڑے مجرم کی طرف بڑھنے لگے۔

*۔۔۔*

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

مقتول: قتل کیا گیا

حواس باختہ: ہکا بکا ، گھبرایا ہوا

مقفل: بند یا قید کیا گیا

وحشت: گھبراہٹ

چشم زدن: پلک جھپکتے ہوئے، فوراً

ڈگ بھرنا: لمبے قدم اٹھانا، تیز چلنا

پھل: نوک، کھانا کی چیز

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top