skip to Main Content

فیشن

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر نئے فیشن کو اپنانے والوں کے لیے ایک خاص تحریر

۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر کبھی تم بونوں کے گاوٗں نفیس آباد میں جاوٗ تو تمھیں ایک حیرت انگیز چیز دیکھنے کو ملے گی۔ وہ یوں کہ وہاں کا جو باسی تمھیں ملے گا اس نے اپنی پتلون پر دائیں ٹخنے سے اوپر ایک سبز پتا یا تو باندھا ہوا ہوگا یا پھر سلایا ہوا ہوگا اور تم حیران ہی ہوتے رہو گے کہ آخر ماجرہ کیا ہے؟ چلیں میں آپ کو اس کی وضاحت کرتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تم اتنی سی بات خاص طور پر ان سے نہیں پوچھو گے۔
اس بات کی ابتدا ہمیں اس دن سے کرنی ہوگی جب سیمی چاے پینے اس گاوٗں میں آیا تھا۔ سیمی نفیس آباد کا باسی نہیں تھا بلکہ وہ قریبی شہر فیشن آباد کا رہنے والا تھا۔ جہاں ہر وقت نت نئے فیشن ایجاد ہوتے تھے اور وہاں کے رہنے والے بونے ہر وقت بنے ٹھنے رہتے۔ سر پر نوک دار ہیٹ پہنتے اور ہمیشہ کوٹوں پر لگے ہوئے بٹنوں کی ترتیب بدلتے رہتے اور کپڑوں میں بھی جدت اختیار کرتے۔ جبکہ نفیس آباد کے لوگ پرانی وضع قطع کے لوگ تھے۔ اگرچہ وہ بھی جدت پسندی اپنانا چاہتے تھے لیکن چاہتے ہوئے بھی وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے جیسا کہ سیمی کا کہنا تھا کہ انہیں کپڑے پہننے کا سلیقہ نہیں تھا۔ انہوں نے کوٹ کے بٹن پندرہ ہی رکھے حالانکہ فیشن آباد میں کوٹ پر کب سے چودہ بٹنوں کا رواج چل رہا تھا۔ نفیس آباد میں وہی دو جیبیں چل رہی تھیں جبکہ فیشن آباد میں ان کی تعداد پانچ ہوچکی تھی۔ نفیس آباد میں لوگ ہمیشہ فیشن آباد کے بارے میں سوچتے رہتے اور جب بھی کوئی مہمان فیشن آباد سے آتا تو نفیس آباد والے اسے سرماتھے پر بٹھاتے۔
وہ اسے اپنی حرکت سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے تاکہ مہمان پر ان کا یہ تاثر نہ جائے کہ وہ فیشن نہیں کرسکتے۔ اس لیے اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جب سیمی نے اپنے کزن بنٹی جو نفیس آباد میں رہتا تھا کے ساتھ چاے پینے کا پروگرام بنایا تو پورے نفیس آباد میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔ سیمی بہت سوٹڈ بوٹڈ بونا تھا اور ہمیشہ بنا ٹھنا رہتا تھا۔ بنٹی کو جب اس کے آنے کی خبر ملی تو وہ اسے راز نہیں رکھ سکا۔ سیمی کا خط ملتے ہی بنٹی بھاگا بھاگا اپنے دوستوں کے گھروں میں گیا اور انہیں اگلے ہفتے سیمی کے آنے کی اطلاع دی۔
بنٹی نے سب کو بتایا کہ وہ اپنے کزن سیمی کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کرے گا اور اس پارٹی میں تمام دوستوں کو مدعو کرے گا۔ پھر اس نے سب دوستوں کو درخواست کی کہ وہ سبھی اپنے بہترین لباس پہن کر پارٹی میں آئیں تاکہ ہم سیمی پر ثابت کرسکیں کہ نفیس آباد کے رہنے والے بھی لباس کے انتخاب میں فیشن آباد والوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ لہٰذا اسی دن سے نفیس آباد کے باسیوں نے تیاری شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے بہترین کپڑوں کا انتخاب کیا۔ کئی کئی دفعہ ان پراستری چلائی۔ کوٹ کے بٹنوں تک ہر شے کو پالش کیا۔ کوٹ پتلون پہننے والوں نے سامنے والی جیب میں ڈالنے والے رومال دھو کر استری کیے۔
بنٹی نے سیمی کی آمد پر کئی قسم کے کیک تیار کیے اور مربوں اور جام والی دکان سے جام لے کر ان کیکوں پر خوبصورتی سے لگایا۔ پھر اس نے پیلی اور سرخ دو قسموں کی جیلی تیار کی اور جب سیمی کے آنے کا دن آیا۔ تو بنٹی چاے والی میز انتہائی خوب صورتی سے سجا چکا تھا۔ جس کی نظر بھی اس میز پر رکھی ہوئیں مزیدار چیزوں پر پڑتی تو اس کے لیے شام تک کا وقت گزارنا مشکل ہوجاتا۔ بنٹی نے سب کو شام چار بجے آنے کی تاکید کررکھی تھی۔ کیونکہ سیمی سہ پہر ساڑھے تین بجے آرہا تھا اور بنٹی سیمی کو سستانے اور اپنے کپڑے وغیرہ درست کرنے کے لیے کچھ وقت دینا چاہتا تھا۔
ادھر اڑھائی بجے دوپہر سیمی نے فیشن آباد سے اپنا سفر شروع کیا اس نے نفیس آباد پیدل آنا تھا جو چار میل کی مسافت پر تھا۔ اس نے اپنا نیا سوٹ زیب تن کررکھا تھا۔ سر پر نیا ہیٹ تھا اور اس میں سرخ رنگ کا پَر اَڑسا ہوا تھا۔ وہ اپنے کزن بنٹی کے گھر کے بہت قریب تھا اور اب وہ اس کے ساتھ اچھی سی چاے پینے کے لےے تیار تھا۔ چاے کے لیے اس نے دوپہر کا کھانا بھی بس نام کا ہی کھایا تھا۔ وہ خوشی خوشی چل رہا تھا۔ سورج گرم تھا اس لیے وہ سایہ دیکھ کر چلتا تھا۔ منھ سے اپنی پسندیدہ دھن سیٹی کے ذریعے بجارہا تھا۔ وہ جب نفیس آباد کے بالکل قریب پہنچا تو اس کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔ سیمی کا پاوٗں کسی شے میں الجھا جس سے اسے ٹھوکر لگی اور وہ منھ کے بل گر پڑا اور جب وہ دوبارہ کھڑا ہوا اس نے دیکھا کہ اس کے دائیں گھٹنے سے اس کی پتلون میں رگڑ سے سوراخ ہوچکا ہے۔ سیمی بیچارہ بہت مایوس ہوا اس نے اپنی قسمت کو کوسا کہ یہ کیا ہوا؟
لیکن ….پھر اس نے سوچا کہ کوئی بات نہیں اب اس کی منزل نزدیک ہے وہ گھر پہنچ کر بنٹی سے سوئی دھاگہ لے کر اپنی پتلون کی مرمت کرلے گا۔ پھر اس نے ایک سبز پتا لیا اور اسے پتلون کے سوراخ میں اڑس لیا۔ کیونکہ اس کے گھٹنے سے تھوڑا تھوڑا خون بھی رس رہا تھا۔ اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ خون کے دھبوں سے باقی پتلون کا بھی بیڑہ غرق ہوجائے پھر وہ دوبارہ چل پڑا اور جلد ہی وہ بنٹی کے گھر پہنچ گیا۔ بنٹی گھر کے دروازے پر اس کے استقبال کے لےے کھڑا تھا۔ وہ اسے سیدھا غسل خانے میں لے گیا۔ تاکہ وہ منھ ہاتھ دھو لے۔ پھر بنٹی نے غور سے سیمی کا سوٹ دیکھا اور پھر یہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا کہ خود اس کے سوٹ کی تراش خراش سیمی کے سوٹ سے کم نہیں ہے۔
اور تب ہی اس کی نظر اس سبز پتے پر پڑی جو سیمی کی پتلون میں ہونے والے سوراخ میں اَڑسا ہوا تھا۔ اچھا تو یہ بات ہے۔ اس نے سوچا…. یہ نیا انداز ہے یقینا میرا خیال ہے کہ پتلونوں میں یہ نئی جدت ہے اور مصیبت یہ ہے کہ میرے دوستوں میں سے کسی کو اس فیشن کا علم ہی نہیں ہے۔ اب میں کیا کروں؟ ابھی چاے میں آدھ گھنٹہ باقی ہے میرا خیال ہے مجھے چھوٹے چھوٹے پیغام لکھ کر سبھی دوستوں کو بھجوانے چاہیے کہ ہر کوئی اپنی پتلون پر دائیں گھٹنے کے اوپر سبز پتا سلا کر لائے۔
بنٹی نے فیصلہ کیا۔ مہمان تھوڑی دیر ٹھہر کر آئیں گے۔ ”سیمی کیا تم اتنی دیر باغیچے میں بیٹھ کر آرام کرنا پسند کرو گے آخر تم اتنا چل کر آئے ہو۔ تھک گئے ہوگے؟“ بنٹی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
لہٰذا جیسے ہی سیمی باغیچے میں آرام کی خاطر گیا۔ بنٹی نے ایک خط تحریر کیا اور اپنے ملازم کو کہا کہ یہ جا کر میرے سارے دوستوں کو پڑھا دو۔ خط کی تحریر کچھ یوں تھی۔
”تمام دوستوں سے التماس ہے کہ مہربانی فرما کر اپنی اپنی پتلون پر دائیں طرف گھٹنے کے کچھ اوپر ایک ایک سبز پتا سلوالیں۔ یہ فیشن آج کل فیشن آباد میں استعمال ہورہا ہے اور سیمی نے بھی یہ انداز اپنا رکھا ہے۔“
آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جیسے ہی یہ اطلاع بنٹی کے دوستوں کو ملی انہوں نے انتہائی برق رفتاری سے سبز پتے اپنی پتلونوں کے دائیں گھٹنے کے اوپر سلوائے۔ جس سے ان کو آنے میں کچھ دیر تو ہوئی لیکن بہرحال کام مکمل ہوگیا۔
اتنی دیر میں سیمی باغیچے میں جا کر گہری نیند سو گیا تھا اور جب وہ جاگا تو اس نے دیکھا کہ پہلا مہمان گھر میں داخل ہورہا ہے۔ اسے یاد آیا کہ اس نے پتلون کے سوراخ کو تو مرمت ہی نہیں کیا۔ اب مہمان میرے بارے میں کیا سوچیں گے پھر بھی وہ اٹھا اور اس نے پہلے مہمان سے مصافحہ کیا۔ لیکن جب سیمی نے اسے غور سے دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس کی طرح شاید یہ مہمان بھی منھ کے بل گرا ہے اور اس کی پتلون بھی وہیں سے پھٹی ہے جہاں سے میری کیونکہ میری طرح اس نے بھی دائیں گھٹنے پر سبز پتا باندھ رکھا ہے لیکن اس کی حیرت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ جب اس نے دوسرے مہمان بونے کو بھی اسی حلیے میں دیکھا اور پھر تیسرے اور پھر چوتھے اور پھر بنٹی بھی لیکن اس کے بارے میں سیمی کو یقین تھا کہ جب وہ گھر آیا تھا تو بنٹی چنگا بھلا تھا۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا کہ آخر یہ سب دائیں گھٹنوں پر پتے کیوں باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا؟ لیکن یہ خواب ہر گز نہ تھا کیوں کہ مزے دار کیک جو وہ کھا رہا تھا اصلی تھے اور جیلی اتنے مزے کی تھی کہ منھ سے نہیں اُتر رہی تھی۔ سبھی مہمان بھی خوش باش نظر آرہے تھے۔ بظاہر انہیں کوئی چوٹ نہیں لگی تھی اور نظروں نظروں میں وہ کبھی سیمی کے بندھے پتے کو دیکھ رہے تھے اور کبھی فخریہ انداز میں اپنے گھٹنے کے ساتھ بندھے پتوں کو۔ سیمی تو پاگل ہونے والا تھا آخر کار ایک بونے نے اس راز کا عقدہ کھول ہی دیا: ”کیسا نیا فیشن ہے۔ گھٹنے کے ساتھ سبز پتا باندھنا۔ کیا خیال ہے بھائیو۔“ اس نے سب سے پوچھا۔
پھر اس نے سیمی سے بھی پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے فیشن میں نفیس آباد، فیشن آباد سے زیادہ پیچھے تو نہیں؟ یہ بات سن کر سیمی کو سمجھ آئی کہ نفیس آباد والے فیشن آباد والوں کے فیشن کی نقل کرنا چاہ رہے ہیں حالانکہ اس طرح کا فیشن نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ ہوسکتا ہے بنٹی نے مجھے دیکھ کر یہ سمجھا ہو کہ میں نے پتلون میں شاید جان بوجھ کر فیشن کے طور پر یہ پتا اَڑسا ہے۔ حالانکہ میں اسے بتانے ہی والا تھا کہ میں راستے میں گر گیا تھا اور مجھے چوٹ بھی آئی تھی اور پتلون پھٹنے اور خون نکلنے کی وجہ سے میں نے اس میں پتا اڑس لیا تھا اور اگر میں بنٹی سے سوئی دھاگہ مانگ لیتا تو وہ کبھی اسے فیشن میں نئی جدت نہ سمجھتا۔
میرا خیال ہے اس نے سبھی دوستوں کو خفیہ پیغام بھیجا ہوگا کہ سبھی گھٹنوں پر پتے باندھ کر آوٗ کیونکہ یہ فیشن ہے۔ واہ کیا مزاحیہ بات ہے!! سیمی کا خیال بالکل درست تھا۔ اب اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ جب وہ اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتا تو ہر مہمان اسے گھٹنے پر پتا باندھے دکھائی دے رہا تھا اور ظاہر کررہا تھا کہ وہ بہت ماڈرن ہے۔ اس نے سوچا کہ اب اسے یہ راز راز ہی رکھنا چاہیے کہ اس طرح کا مضحکہ خیز فیشن کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ کیوں کہ اگر انہیں پتا چلتا ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوں گے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی آنے والی ہنسی پر قابو کیسے پائے۔ سیمی نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پایا۔ کیوں کہ وہ بہت شریف النفس بونا تھا لیکن جب پارٹی ختم ہوئی تو وہ بہت خوش تھا۔ وہ اب صرف ہنسنا چاہتا تھا اور واپسی کا سارا راستہ وہ ہنستا ہی رہا۔ کاش تم نے اس کے قہقہے سنے ہوتے۔ وہ اتنے اونچے تھے کہ راستے میں اپنے بلوں سے باہر کان نکالے خرگوش بھی ڈر کر اپنے بلوں میں گھس گئے اور وہاں سیمی کے بے ساختہ قہقہوں کا ساتھ ہنس کر دیتے رہے حالانکہ بے چاروں کو خود بھی علم نہیں تھا کہ وہ کیوں ہنس رہے ہیں۔اس دن سے آج تک نفیس آباد میں یہ فیشن رائج ہے۔
اس لیے بچو! اگر تمہاری ملاقات کسی ایسے بونے سے ہو جس نے اپنے دائےں گھٹنے پر سبز پتا باندھا ہو تو تم سمجھ ہی جاوٗ گے کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے؟ اور ایک بات اور…. میرا خیال ہے آئندہ تم بھی احتیاط کرو گے اور ڈھنگ کی چیز پہنو گے۔ خواہ مخواہ کسی کو تماشا بنے دیکھ کر خود تماشا نہیں بنوگے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top