skip to Main Content

غلط خواہشیں

اشتیاق احمد

۔۔۔۔۔۔

سلیم احسان سے میری ملاقات ایک شاپنگ سنٹر میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں ملازم تھا۔ میں نے اس سنٹر سے کچھ چیزیں پسند کیں اور ملازم سے ان کا بل پوچھا تو اس نے مجھے سلیم احسان کی طرف بھیج دیا۔ وہ سنٹر کے ایک کونے میں کاﺅنٹر کے پیچھے بیٹھا تھا۔ گویا بل وصول کرنا اس کی ذمے داری تھی۔ میں نے بل اور رقم اس کے حوالے کی۔ اس نے رقم گنی اور رسید لکھ دی۔ میں نے سامان کا بیگ اٹھایا اور دکان سے نکل آیا۔
بچے کار میں میرا انتظار کر رہے تھے۔ میں ذرا جلدی میں تھا، اس لیے بچوں کو شاپنگ سنٹر میں ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ ان کی وجہ سے اور دیر ہوسکتی تھی، کیوں کہ اس صورت میں وہ بھی کچھ چیزیں ضرور پسند کرتے۔ بچے ان چیزوں کو دیکھنے لگے اور میں نے کار گھر کے راستے پر ڈال دی۔
بیگم ان چیزوں کے انتظار میں تھیں۔ انہیں بچوں کے ساتھ شام کو ایک تقریب میں جانا تھا۔ اب میں فارغ تھا۔ چنانچہ اپنے کمرے میں آکر ایک کتاب کے مطالعے میں گم ہوگیا، کتابوں کا مطالعہ میرا شوق ہے۔
دوسرے دن صبح گھر کے ملازم نواز خان نے ناشتے کا سامان لانے کے لیے مجھ سے پیسے مانگے۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دھک سے رہ گیا۔ بٹوا جیب میں نہیں تھا۔ میں پریشان ہوگیاکہ بٹوا کہاں گیا۔ پہلے تو گھر میں ادھر اُدھر تلاش کیا۔ جب نہ ملا تو سوچنے بیٹھ گیا کہ بٹوا کہاں گیا؟
اس وقت یاد آیا کہ شاپنگ سنٹر میں، میں نے بل ادا کیا اور بقیہ رقم بٹوے میں رکھی تھی۔ اس کے بعد بٹوا جیب میں رکھا تھا یا نہیں، یہ یادنہیں آرہا تھا۔
میں نے فوراً گاڑی نکالی اور شاپنگ سنٹر پہنچ گیا۔صبح کا وقت تھا۔ ناشتے وغیرہ کا سامان لینے کے لیے آنے والے گاہکوں کا بہت رش تھا اور سلیم احسان بھی بہت مصروف نظر آرہا تھا۔ میں پریشان ہوگیا کہ اس وقت اس سے بٹوے کے بارے میں پوچھا جائے یا نہیں؟ دراصل بٹوے میں کافی رقم تھی۔ اس کے علاوہ کچھ ضروری کاغذات بھی تھے۔
میں ایک طرف کھڑا ہو کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ پہلے تو وہ چونکا، پھر مسکرایا۔ ساتھ ہی اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں اس کی طرف لپکا۔ اس نے دراز کھولی اور بٹوا میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا:”یہ لیں آپ کا بٹوا۔“
بٹوے کو دیکھ کر میں خوش ہوگیا۔ میرے منہ سے نکلا:”بہت بہت شکریہ۔“
وہ بولا: آپ اپنی نقدی وغیرہ چیک کر لیں۔“
میں نے مسکرا کر کہا:”ویسے اس کی ضرورت نہیں۔ آپ دکان سے کس وقت فارغ ہوتے ہیں۔“
”یہ کس لیے پوچھ رہے ہیں آپ؟“
وہ مجھ سے بات بھی کر رہا تھا اور ایک گاہک سے بل کی رقم لے کر اسے گن بھی رہا تھا۔
”اچھے لوگوں کو دوست بنانا میرا شوق ہے۔“
وہ مسکرا دیا ، پھر بولا:”میں رات کو دس بجے فارغ ہوتا ہوں، کیوں کہ اسٹور دس بجے بند ہوتا ہے۔“
”ٹھیک ہے، میں آج رات دس بجے آﺅں گا۔“
اس نے سر ہلا دیا اور میں چلا آیا۔ دس بجے اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اسٹور بند ہونے پر وہ بھی باہر آگیا۔ میں نے اسے کار میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا: ”میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔ راستے میں ہم بات چیت بھی کر لیں گے۔“
”اچھی بات ہے، میں ماڈل ٹاﺅن میں رہتا ہوں۔“
میں نے کار آگے بڑھا دی۔ اس وقت میں نے اس سے پوچھا: ”کیا نام ہے آپ کا؟“
اس نے فوراً کہا:”جی! سلیم احسان!“
”پہلی بات تو یہ ہے کہ میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ دکان پر اس وقت بہت بھیڑ بھاڑ تھی، اس لیے اس کام کے لیے میں نے یہ وقت چنا۔“
”اس کی تو خیر ضرورت نہیں تھی۔ وہ آپ کی امانت تھی او ر میں نے سنبھال کر رکھ لی، آپ آئے تو میں نے آپ کے حوالے کر دی۔“
”کیا آپ کو معلوم ہے، اس میں کتنی رقم تھی؟“
”میں نے ایک نظر بٹوے کو ضرور دیکھا تھا، کیوں کہ بٹوے کا مالک کہہ سکتا تھا کہ اس میں تو اتنی رقم تھی؟ پھر اسی وقت اسٹور کے مالک کو بتا دیا تھا کہ اس طرح سے بٹوا ملا ہے اور اس میں اتنی رقم ہے۔ انھوں نے رقم گن لی تھی، تاکہ کوئی پریشانی نہ ہو۔“
میں نے پھر پوچھا: ”پھر انھوں نے بتایا تھا کہ اس میں کتنی رقم ہے؟“
”میں نے ان سے نہیں پوچھا، نہ انھوں نے مجھے بتایا، بس بٹوا جوں کا توں میرے حوالے کر دیا اور میں نے اسے دراز میں رکھ دیا۔“
”میرا جوتوں کا ایک بڑا کارخانہ ہے، لیکن اس کارخانے میں آپ جیسا ملازم ایک بھی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس اسٹور کی ملازمت چھوڑ دیں اور میرے ہاں آجائیں۔“
اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر نہیں آئے۔ بس وہ مسکراتا رہا۔
”آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟“
”آپ اسٹور کے مالک سے بات کر لیں۔اگر وہ اجازت دیتے ہیں تو میں آپ کے پاس آجاﺅں گا۔“
”آپ کو یہاں کتنی تنخواہ ملتی ہے؟“
”دس ہزار روپے ماہوار۔“
”میں آپ کو بیس ہزار روپے دوں گا۔“
”بات تنخواہ کی نہیں، اجازت کی ہے، وہ اجازت دیں گے تومیں دس ہزار پر بھی آپ کے ہاں کام کر لوں گا۔“
”اور وہ اجازت کیوں نہیں دیں گے بھلا، کیا کوئی معاہدہ ہوچکا ہے؟“
”نہیں، ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ آپ بس ان سے بات کر لیں۔“
”اچھی بات ہے، میں کل آﺅں گا۔“
ماڈل ٹاﺅن پہنچنے پر اس نے راستہ بتایا اور ہم اس کے گھر کے سامنے پہنچ گئے۔ باہر سے وہ ایک خوب صورت اور چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ میں نے مزید کوئی بات پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ کار سے اترتے ہوئے بولا:”آئیے، ایک کپ چائے ہوجائے۔“
میں نے جواب دیا:”آج نہیں، پھر کسی دن۔“
وہ ایک بار پھر مسکرا دیا۔ بات بات پر مسکرا دینا، اس کی عادت تھی۔ دوسرے دن میں شاپنگ سنٹر کے مالک سے ملا۔ وہ بہت ملنسار اور پُرخلوص تھے۔ بہت گرم جوشی سے ملے۔ جب میں نے انہیں بٹوے کے بارے میں بتایا تو وہ مسکرانے لگے۔ انھوں نے اپنا نام رضوان بیگ بتایا۔ پھر میں نے اپنے مطلب کی بات انہیں بتائی۔ میری بات سن کر انھوں نے کوئی حیرت ظاہر نہ کی۔ پرسکون انداز میں کہنے لگے:”سلیم احسان کو میں کیسے فارغ کردوں؟ اس جیسا ملازم تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا، وہ تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ہر لحاظ سے ایک نگینہ اور ہیرا ہے۔ میں تو اسے اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتا ہوں، لہٰذا میں آپ کی بات نہیں مان سکتا۔ مجھے افسوس ہے، آپ کی خواہش کو پورا کرنا میرے بس میں نہیں۔“
میں نے کہا:”لیکن آپ اسے اس کی مرضی پر تو چھوڑ سکتے ہیں۔“
رضوان بیگ نے چونک کر پوچھا:”کیا مطلب؟“
”میرا مطلب ہے کہ آپ یہ بات اس پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ آپ اسے دس ہزار روپے دے رہے ہیں۔ میں اسے بیس ہزار دوں گا، کیا یہ اس کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں ہوگا؟“
”اچھی بات ہے، میں اسے بلا کر آپ کے سامنے ہی یہ بات کہہ دیتا ہوں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
جلد ہی سلیم احسان اندر آگیا۔ اس نے کہا:”السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام! آﺅ سلیم بیٹھو۔“
اس کے بیٹھنے پر رضوان نے کہا:”یہ تمہیں اپنے کارخانے میں ملازم رکھنا چاہتے ہیں۔ بیس ہزار تنخواہ دیں گے۔ انھوں نے مجھ سے بات کی تو میں نے تمہیں فارغ کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے کہا کہ میں تمہارے مستقبل کی بہتری کے لیے یہ فیصلہ تم پر چھوڑ دوں۔ میں نے ان کی یہ بات مان لی۔ اب تم چاہو تو ان کے ہاں ملازمت کر سکتے ہو۔“
”مجھے افسوس ہے جناب! میں بیگ صاحب کو نہیں چھوڑ سکتا، بات تنخواہ کی تو ہے ہی نہیں، اگر میں چاہوں تو یہ تیس ہزار روپے دے دیں گے، لیکن میں یہ نہیں چاہتا۔ انھوں نے مجھ سے ہمیشہ ایک باپ جیسا سلوک کیا ہے، بلکہ یہ مجھے اپنے بچوں سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔ ہمارا تعلق ایک مالک اور ملازم کا نہیں، بلکہ ایک باپ اور بیٹے کا ہے۔ ایک بیٹا بھلا اپنے باپ کو کس طرح چھوڑ سکتا ہے؟ نہیں جناب! یہ نہیں ہوسکتا۔“
”آپ لوگ بہت اچھے ہیں، بہت ہی اچھے۔ میں نے ایک غلط خواہش کی تھی، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے تھا۔ کیاآپ دونوں مجھے معاف کر دیں گے۔“
رضوان بیگ نے کہا:”کوئی ایسی بات نہیں۔ ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں، آپ بھی بہت اچھے آدمی ہیں۔ یہ آپ کے اچھا ہونے کا ثبوت ہی تو ہے کہ آپ سلیم احسان کو ملازم رکھنے کے لیے بے چین ہوگئے۔“
اتنے میں ایک ملازم چائے لے آیا۔ تینوں چائے پینے لگے۔ اس وقت میں نے ان سے کہا:”خیر، میں آپ کو ملازم تو نہ رکھ سکا، لیکن میں آپ کو اپنا دوست تو بنا سکتا ہوں نا؟ میں آپ دونوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ کیا آپ میرے اس ہاتھ کو بھی خالی لوٹا دیں گے۔“
رضوان بیگ نے کہا:”نہیں نہیں، بالکل نہیں۔ اچھا دوست تو ہر زمانے میں ایک نعمت رہا ہے۔ آپ ہمارے دوست بن جائیں، ہم آپ کے دوست بن جائیں، یہ تو خوشی کی بات ہے۔“
اور پھر ہم تینوں نے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملائے۔ اس وقت میں نے کہا:”ایک ملازم کی حیثیت سے تو میں آپ کو نہیں پاسکا، لیکن ایک دوست کی حیثیت سے میں نے آخر آپ کو پالیا، نہ صرف آپ کو، بلکہ رضوان صاحب کو بھی۔“
اس دن کے بعد سے ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی، وہ بھی مجھے بہت پسند کرنے لگے۔ آج میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں جارہا ہوں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ آج سلیم احسان کی شادی ہے۔ اب قدرتی طور پر آپ سوچیں گے کہ یہ شادی کس سے ہورہی ہے؟ تو جواب ہے، رضوان بیگ کی بیٹی سے۔ مجھے امید ہے، آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ ہم لوگ تو خیر ہیں ہی بہت زیادہ خوش، کیوں کہ اب تو میری بیگم کی بھی ان دونوں گھرانوں کی خواتین سے گہری دوستی ہوچکی ہے۔ کیا آپ کو یہ جان کر اور زیادہ خوشی محسوس نہیں ہوئی؟

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top