skip to Main Content

عینی گواہ

ترجمہ وتلخیص: فصیح اللہ حسینی

…..

جیمز نے مکان کا مرکزی دروازہ کھولا اور اس کے ساتھ ہی سورج کی تیز شعاعیں ٹھنڈے کمرے کو گرم کر گئیں۔ اس نے بناکسی شور کے دروازے کو آہستہ سے بند کیا اور خاموشی سے گھرسے آنے والی آواز سننے لگا۔ گھر کے کسی کونے سے آنے والی ٹائپ رائٹر کی آواز وہ واضح طور پر سن سکتا تھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے اپنی جیب سے پستول نکال لیا۔
سامنے کے کمرے میں ایک آدمی دھاری دار جوڑا زیب تن کیے، دروازے کی طرف پیٹھ کر کے ٹائپ رائٹر پر جھکا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں تیزی سے کام کررہی تھیں۔ وہ دروازہ کھلنے کی آواز نہ سن سکا تھا اور اب تک آنے والے کی موجودگی سے بے خبر تھا۔
جب اس نے سانس خارج ہونے کی بھاری آواز سنی تو اسے معلوم ہوا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے۔
”ہیلو پیٹرسن۔“ نووارد کی آواز گونجی اور اچانک کمرے میں گونجتی کھٹ کھٹ کی آواز ختم ہو گئی۔
اور دھاری دار جوڑے میں ملبوس بیٹھا شخص آنے والے کی طرف پوری طرح متوجہ ہو چکا تھا۔
وہ مبہوت ہو کر جیمز کی طر ف دیکھ رہا تھا۔ جیمز میز کے سامنے کی طرف آیا۔ اس کی چھوٹی آنکھوں سے وحشت چھلک رہی تھی۔
”بھاگنے کی ضرورت نہیں پیٹرسن! ورنہ یہ پستول چلنے کیلئے بے قرار ہے۔“ جیمز نے دھمکی دی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور غیر معمولی طور پر وہ دونوں ایک جیسے ہی تھے۔ دونوں کی براؤن آنکھیں، بڑھی ہوئی نوکدار داڑھی تھی اور دونوں کی ناک پتلی اور لمبی تھی۔ وہ زیادہ بوڑھے نہیں تھے بلکہ چالیس کے اندر اندر تھے۔
”تم کون ہو؟“ پیٹرسن نے بلند آواز سے نووارد سے پوچھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں پلک جھپکنے سے قاصر تھیں۔ گو کہ حیرت اور خوف دونوں اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔
جیمز نے ایک طنزیہ ہنسی کے ساتھ اپنی پستول باہر نکال لی اور کہا۔ ”تم مجھے داڑھی میں نہیں پہچان سکتے۔ اچھا تو میری آواز کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟کیا پہلے یہ آواز تم نے کبھی نہیں سنی؟“
پیٹرسن اب بمشکل سانس لے پا رہا تھا اور ہانپتے ہوئے اس کے منہ سے نکلا ”جیمزہیری؟“
”ہاں جیمزہیری واپس آچکا ہے۔“ جیمز پھنکارا۔
پیٹرسن بے چینی سے میز کے کنارے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا ہوا تھا اور اس نے دردناک آواز میں کہا۔ ”تم نے جو کچھ میرے ساتھ کیا تھا کیا وہ کافی نہیں تھا؟؟ تم جانتے ہو کہ میں ……“
”ہاں میں جانتا ہوں کہ تم معزور ہو۔ میں نے ابھی تمہیں گارڈن میں لنگڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔“
”تم بالکل ویسے ہی ہو جیسا میں نے سوچا تھا۔ بارہ سال پہلے جب میں نے تمہیں مار کر اپنے انتقام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کی تھی اور میں نے تمہیں پہاڑی کی چوٹی سے نیچے مصروف اور چلتے روڈ پر پھینک دیا تھا۔ اس حادثے کو دیکھ کر میں نے تو یہ سمجھا تھا کہ تم مر جاؤ گے مگر معجزاتی طور پر تم بچ گئے تھے اور لوگ تمہاری لاش ڈھونڈتے رہے۔ میں نے فوراً ہی پین فیلڈ کا علاقہ چھوڑ دیا تھا اور اب …… میں دوبارہ آچکا ہوں۔“
پیٹرسن کی گوری جلد پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔
”اب کیا چاہتے ہو تم؟میں پہلے ہی اتنا دلبرداشتہ ہو چکا ہوں۔“ پیٹرسن کے منہ سے بمشکل الفاظ نکلے۔ ”جیمز تو جا چکا تھا!!“
”چھ مہینے پہلے میں نے تمہاری تصویر دیکھی تھی اخبار میں۔ تم دنیا والوں کے سامنے دوبارہ منظر عام پر آئے اور ایک کامیاب ڈرامہ نگار کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ تم بہت امیر آدمی ہو۔ اور میں دولت چاہتا ہوں پیٹرسن دولت…… سمجھے…… دولت……“جیمز کی آنکھوں سے دولت کی حرص صاف ظاہر ہو رہی تھی۔
پیٹرسن نے بے چارگی کے ساتھ تھوک نگلتے ہوئے کہا۔”میں گھر میں کوئی پیسہ نہیں رکھتا۔ ابھی میرے پاس صرف بیس ڈالر ہیں۔“
جیمز بولا ”مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں۔ میں تمہاری چیک بک دیکھنا چاہتا ہوں۔“
”تم ایسا نہیں کر سکتے۔“ پیٹرسن بولا۔
”بکواس بند کرو۔ مجھے چیک بک چاہیے اور بس ……“ اور اس کے ساتھ ہی جیمز کی پستول پیٹرسن کی طرف ہو گئی۔
پیٹرسن کی حالت پتلی ہو چکی تھی اور وہ جیمز کے ہمراہ اوپر کے کمرے میں گیا اور میز کی دراز میں پڑی فائلوں میں چیک بک تلاش کرنے لگا۔ بالآخر چیک بک مل گئی۔ کئی استعمال شدہ چیک بھی اس میں پڑے ہوئے تھے۔
جیمز نے بے صبری سے چیک بک لی اور سرسری نظر ڈالنے لگا۔اس کی گول مٹول آنکھیں ایک دم چمک اٹھیں۔
”تم نے بالکل ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔“
”اب سنو! تم ابھی پچیس ہزار ڈالر کا چیک اپنے نام سے لکھو گے اور پھر نیشنل مرچنٹ بنک فون کرکے کہو گے کہ میں پیسے نکلوانے آرہا ہوں …… پیسے تیار رکھو۔سمجھے……؟؟“
پیٹرسن روتے ہوئے بولا ”میرے پاس بس یہی رقم ہے اور تم مجھے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔“
اچانک جیمز پر وحشت طاری ہو گئی۔
”تم دیکھ رہے ہو یہ پستول۔ اگر تم نے منع کیا تو اس کی گولیاں تمہارے سینے میں اتر جائیں گی۔“ اچانک وہ ٹھنڈا ہوا۔
”دیکھوجیسا میں کہتا ہوں ویسا ہی کرو اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں مارنا نہیں چاہتا۔“ اچانک اس کا غصہ بھڑک اٹھا۔ ”لیکن میں ایسا کر دوں گا اگر تم نے مجھے مجبور کیا تو……“
تھوڑی دیر پیٹرسن سوچنے لگا اور پھر اس نے چیک بک نکالی اور چیک تیار کر دیا۔
جیمز نے چیک لیا اور پرانے چیک سے دستخط کا موازنہ کیا اور کہا ”بہت اچھے! اب بنک فون کرو۔“
پیٹرسن نے فون کیا اور جیمز نے کہا ”تمہارا کام اب ختم ہو گیا۔ میں پیسے نکلوانے بنک جا رہا ہوں اور تم یہیں رہو گے۔“ پیٹرسن حیرانی سے بولا۔ ”میں تو سمجھا تھا کہ……“
”تم سمجھے کہ میں تمہیں پیسے نکلوانے کیلئے ساتھ لے جاؤں گا۔“ جیمز ہنسا۔ ”نہیں پیٹرسن میں بے وقوف نہیں ہوں کہ تمہیں لے جا کر اتنا بڑا رسک لوں۔ میں نے چھ مہینے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے، جب میں نے تمہاری تصویر اخبار میں دیکھی تھی۔ہم دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور میں اس کا پورا فائدہ اٹھاؤں گا۔ میں تمہارے کپڑے پہن کر جاؤں گا۔ اور کوئی مجھے پہچان نہیں سکے گا۔میں آوازیں بدلنے کا ماہر ہوں اور تم کسی طرح لنگڑا کر چلتے ہو یہ میں ابھی دیکھ چکا ہوں۔“
پندرہ منٹ بعد جیمز ساتھ والے کمرے سے دھوبی کا دھلا صاف ستھرا جوڑا پہنے آیا۔ پانامہ ہیٹ کا چھجہ اس کی آنکھوں پر سایہ کررہا تھا۔ جبکہ پیٹرسن میز کی کرسی کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور اس کے منہ پر ٹیپ لگا ہوا تھا۔
جیمز نے ہنستے ہوئے پیٹرسن کی لاٹھی اٹھا لی اور تھوڑی دیر لنگڑا کر چلنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اسے اطمینان ہوگیا تو اس نے ٹیلی فون اٹھایا اور پین فیلڈ کی ٹیکسی کمپنی سے ٹیکسی منگوالی۔
پھر اس نے قینچی لی اور ٹیلی فون کی تمام تاریں کاٹ ڈالیں اور ٹیلی فون کو جلاڈالا۔
پیٹرسن ششدر حالت میں بیٹھا رہا۔ جب دروازے کی گھنٹی بجی۔ جیمز نے دروازہ کھولا۔ ٹیکسی ڈرائیور باہر موجود تھا۔
”مسٹر پیٹرسن! ٹیکسی موجود ہے۔“ جیمز نے جھانک کر دیکھا اور کہا ”شکریہ۔“
جب وہ زینے سے اتر رہا تھا تو ڈرائیور نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اسے گاڑی کی طرف لے کر چل پڑا۔ وہ دونوں اب باتیں کررہے تھے۔
”اب آپ کی ٹانگ کیسی ہے؟؟“ ڈرائیور بولا۔
جیمز نے اپنے اضافی وزن لاٹھی پر ڈالتے ہوئے کہا۔ ”ویسی ہی ہے۔“ کوئی بہتری نہیں آئی۔
سرخ چہرے والا ڈرائیور جیمز کو گاڑی میں بٹھا چکا تھا۔
”ہمیں کہاں جانا ہے آج……؟؟“ ڈرائیور نے پوچھا۔
”بنک چلو……“ جیمز بولا۔
”بہت اچھا……“
جب گاڑی سڑک پر دوڑنا شروع ہوئی تو جیمز نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے آہ بھری اور سوچنے لگا کہ ڈرائیور پیٹرسن کو جانتا تھا۔ شکرہے کہ پہلا تجربہ تو بحسن وخوبی انجام کو پہنچا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ پین فیلڈ کے مضافاتی علاقے میں پہنچے تو جیمز سوچنے لگا کہ میری دولت تو محفوظ ہے۔ مجھے واپس جا کراس منحوس شخص کو پہلے موت کے گھاٹ اتارنا چاہیے۔ پھر اس نے سوچا کہ مجھے اس سے چیک پر دستخط کرواتے ہی چھٹکاراحاصل کرلینا چاہیے تھا۔ ٹیکسی اب بڑی سڑک پر چل رہی تھی اور تھوڑی دیر بعد ان کی ٹیکسی نیشنل مرچنٹ بنک کے قریب کھڑی ہوچکی تھی۔ ایک پولیس والا ٹریفک سنبھال رہا تھا۔ ڈرائیور ٹیکسی سے اتر ااور جیمز کو لیتا ہوا فٹ پاتھ کے کنارے چلنا شروع ہو گیا۔ بنک کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور ہر دروازہ کی طرف ایک تختی لگی تھی جس پر لکھا تھا کہ ”رنگ گیلا ہے۔“ جیمز نے اپنا ہاتھ ڈرائیور سے چھڑانے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھام لیا اور کہا ”بہتر ہے کہ آپ سہارا لے کر چلیں۔“
جیمز بولا ”مجھے پتہ ہے کہ تم مجھے سنبھال سکتے ہو مگر یہاں ہر جگہ نیا رنگ ہوا ہے۔ میں خود اپنے آپ کو سنبھال لوں گا۔“
ڈرائیور پھر بضد تھا کہ ”آپ کے کپڑے گندے ہوجائیں گے۔“ اب جیمز کو غصہ آگیا اور اس نے ڈرائیور کو تھپڑ مار دیا۔
”دفعہ ہوجاؤ۔ میں اتنا لاچار بھی نہیں ہوں کہ گیلے رنگ سے دور نہ رہ سکوں جبکہ میں لکھا ہوا بھی دیکھ رہا ہوں“ اور جیمز ہاتھ چھڑاتا ہوا بنک کے اندر چلا گیا۔
ڈرائیور بے سدھ کھڑا جیمز کو تکتا رہا۔
”خوش آمدید مسٹر پیٹرسن۔ ہمیں فون کرنے کا شکریہ۔ کبھی کبھار ہمیں بڑی رقم کیلئے رکنا پڑ جاتا ہے جیسا کہ آج۔“
بنک کا ملازم جیمز سے مخاطب ہوا۔
جیمز کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے اور اس نے جلدی سے چیک نکال کر آگے بڑھا دیا۔
ملازم نے دیکھا۔ مہر ثبت کی اور پچیس ہزار ڈالر نکال کر دو دفعہ گننے کے بعد جیمز کی طرف بڑھا دیے۔ جیمز خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ تھوڑی سی محنت کے بعد ان پیسوں کا مالک بننے والا تھا۔ اس نے ہاتھ ملایا اور رقم پرس میں ڈال کر مڑا تو اگلا منظر اس کے لیے حیران کن تھا۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور کئی رنگ اس کے چہرے پر آئے اور گزر گئے۔
ٹیکسی ڈرائیور بنک میں آیا اور اس کے ساتھ ٹریفک پولیس والا بھی تھا۔ ڈرائیور نے اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے پولیس والے سے کہا ”یہ ہی ہے آفیسر…… یہ آدمی ہے۔ یہ پیٹرسن نہیں ہے۔“
جیمز غصے سے غرایا اور پیچھے کی طرف ہٹا۔ اس کی لاٹھی گر گئی اور اس نے اپنے ہتھیار کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ لیکن پولیس والا تیز رہا اور اس نے اپنی پستول سے فائر کردیا۔ جیمز زخمی ہوچکا تھا اور پورا بنک گھومتا ہوا اس کے قریب آگیا اور مارنے کیلئے اس پر چڑھ دوڑا۔
٭……٭
جب جیمز نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ ہسپتال میں تھا۔ پولیس کا چیف اس کے برابر میں کھڑا تھا اور طنز بھری مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیل رہی تھی۔
”آپ کا واپس آنا مبارک ہو جیمز……“ اس نے کہا۔
”تم نے بہت اچھی چال چلی تھی مگر تم ایک جگہ مار کھا گئے کہ جب تم نے بنک کے باہر تختی دیکھی تو ڈرائیور کو کہہ دیا کہ تم اس کو دیکھ سکتے ہو اور خود گیلے رنگ سے بچ سکتے ہو۔ یہ بہت اہم معلومات تھیں۔ جیمز تکیہ پر لیٹا ٹکٹکی باندھے سنتا رہا اور پھر آنسو بہاتے ہوئے بولا۔ ”تمہارا مطلب کیا ہے؟“
پولیس چیف ہنسنے لگا اور بولا ”جب بارہ سال پہلے تم نے انتقام لینے کیلئے پیٹرسن پر حملہ کیا تھا تو اس کی آنکھوں کی تمام کی تمام شریانیں بے کار ہوگئیں تھیں اور تب سے اس کی آنکھیں پتھر کی ہیں۔
(انگریزی ادب سے ماخوذ)
٭……٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top