skip to Main Content
عظیم تحفہ

عظیم تحفہ

آصف جاوید نقوی

…………………..

شام کا اندھیرا چھانے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ایئرپورٹ کے ڈومیسٹک ارائیول لاؤنج کے گیٹ پر متعین اے ایس آئی نہایت چاق و چوبند دکھائی دے رہا تھا جو اسٹاف کی آمدورفت، مسافروں کے خروج اور اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھنے کی حساس ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ تاخیر سے آنے والی پروازوں کے متعلق بھی لوگوں کے سوالوں کا جواب خوش اخلاقی سے دے رہا تھا گو کہ یہ معلومات فراہم کرنا اس کے فرائض کا حصہ نہ تھا۔
بچوں کے علاوہ بڑے افراد بھی بے چینی سے آنے والوں کے انتظار میں ریلنگ سے نکل کر ارائیول لاؤنج کے شیشوں کے قریب جاپہنچتے اور اندر جھانکنے کی کوشش کرتے۔ ننھا بلال بھی گیٹ تک جا پہنچتا اور اندر جھانکنے لگتا۔ اُس کے والدین واپس ریلنگ میں لاتے، لیکن موقع پاتے ہی وہ پھر گیٹ پر متعین اسٹاف تک جاپہنچتا۔ بالآخر اُس سے رہا نہ گیا اور اس نے نہایت معصومیت سے پوچھا:
’’انکل پولیس، میرے چاچو باہر کب آئیں گے؟‘‘
گیٹ پر متعین ایئرپورٹس سیکورٹی فورس کے اہلکار کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اُس نے محبت سے بلال کے سرخ سیب جیسے رخسار پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔
’’بس اب تو تمہارے چاچو آتے ہی ہوں گے‘‘۔
اور پھر خود بھی ارائیول میں اس طرف نظر گھمائی جیسے وہ آنے والے مسافر کو خوب اچھی طرح پہچانتا ہو۔ اسی اثناء میں بلال خوشی سے اُچھلا، گیٹ پر متعین اہلکار نے اُسے بمشکل روکا وگرنہ وہ دوڑتا ہوا اندر پہنچ چکا ہوتا۔ ریلنگ میں کھڑے بلال کے والدین اور اس کے بہن بھائیوں کے چہرے بھی کھل اُٹھے جو پرواز کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے صبر آزما مراحل سے گزر رہے تھے۔
بلال کا چاچو جیسے ہی ارائیول گیٹ تک پہنچا، بلال نے چھلانگ لگائی اور دوسرے ہی لمحے وہ ان کی بانہوں میں تھا اور وہ محبت سے اُسے چومنے لگے۔ اُن کے بھائی بھابی نے بھی انہیں خوش آمدید کہا۔ ذیشان، عدنان اور سلمیٰ نے بھی اپنے حصے کی محبت وصول کی۔ سامان کی ٹرالی بلال کے والد نے تھام لی، جبکہ آنے والے مہمان کو بچوں نے گھیر لیا اور مختصر سا قافلہ گھر کی طرف روانہ ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
چاچو کیا آتے تھے، بچوں کی تو گویا عید ہوجایا کرتی تھی اور اس بار تو وہ آئے بھی ان دنوں تھے جب اُن کے اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں تھیں۔ بچے ان کی آمد پر بے حد خوش تھے۔ رات کے کھانے کے بعد گھر کے تمام افراد گرما گرم چائے کے ساتھ چپس اور مونگ پھلی سے دو دو ہاتھ کررہے تھے۔ بچوں کے والدین اور دادا دادی گفتگو میں حصہ لے رہے تھے، جبکہ وہ لوگ اپنی باری کے منتظر تھے اور پھر انہیں اپنے تحفے وصول کرنے کی بھی جلدی تھی جو کہ انہیں ملا کرتے تھے، لہٰذا وہ سوٹ کیس کھلنے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ بچوں کی بے چینی سے سبھی لوگ واقف تھے، لہٰذا وہ لمحہ بھی آن ہی پہنچا۔
سوٹ کیس سے کھلونے تو برآمد ہوئے، لیکن وہ سب بلال کے لئے تھے، ذیشان، سلمیٰ اور عدنان کو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی اور مایوسی بھی کہ اُن کے لئے چاچو کچھ نہ لائے تھے۔ اُن کے چاچو نے انہیں مزید افسردہ ہونے سے پہلے کہا!
’’بھئی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے کھلونے میں ایک خاص وجہ سے نہیں لایا، تاکہ اس بار تم سے ایک کھیل بھی کھیلا جائے تاکہ تمہاری ذہانت کا امتحان بھی ہو۔۔۔ بلال چونکہ چھوٹا ہے، لہٰذا وہ اس مقابلے میں شریک نہیں، سو اپنے تحفے وصول کرچکا اور۔۔۔
’’اور کیا۔۔۔ چاچو جلدی سے بتائیں ناں۔۔۔‘‘۔ سلمیٰ بول اُٹھی۔
’’ہاں تو کھیل یہ ہے کہ اس بار تم اپنے لئے کھلونے یا کوئی بھی تحفہ خود خریدوگے اور اس کے لئے تمہیں معقول پیسے ملیں گے۔۔۔‘‘
’’چاچو۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی کھیل ہے‘‘۔ ذیشان نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’بے وقوف بات تو پوری ہونے دو‘‘۔ عدنان نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا جو بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ بچوں کے والدین اور دادا دادی تمام باتیں نہایت دلچسپی اور خاموشی سے سُن رہے تھے۔
’’جی تو بات یہ ہے کہ میرے سوٹ کیس میں صرف ایک خوبصورت اور قیمتی تحفہ رہ گیا ہے اور یہ تحفہ اس کے حصے میں آئے گا تم میں سے جو بہترین تحفہ خریدتے ہوئے یہ مقابلہ جیتے گا۔ ہاں تو کہو کھیل پسند آیا؟‘‘
بچوں کے چہروں پر رونقیں لوٹ آئی تھیں اور وہ یک زبان ہوکر بولے ۔۔۔ ’’جی۔۔۔‘‘
اب بچوں کو آنے والی صبح کا انتظار تھا کہ وہ اپنی پسند کا تحفہ خرید سکیں آخر مقابلہ بھی تو جیتنا تھا، اس خیال کے پیشِ نظر نیند بھی نہ آرہی تھی اور وہ اپنے اپنے تکیوں تلے کاپی پین رکھ کر لیٹے تھے۔ جیسے ہی کسی اچھے تحفے کا خیال آتا وہ خفیہ طور پر اپنی نوٹ بک میں درج کرلیتے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اللہ اللہ کرکے رات گزری اور صبح نمودار ہوئی۔ گو کہ مقابلہ تین بہن بھائیوں میں تھا، لیکن جیت کی خواہش کسے نہیں ہوتی اور پھر بات چاچو کی نظر میں اپنی ذہانت ثابت کرنے کی تھی۔ ناشتے کے بعد اپنی اپنی نوٹ بکس سنبھال کر وہ تحفہ خریدنے کے لئے حتمی انتخاب پر غور کرنے لگے۔ مارکیٹ روانگی سے قبل گھر کا کام کاج کرنے والی بھی اپنے تین چار سالہ بچے کے ساتھ کام کے لئے آچکی تھی۔
مارکیٹ میں بہت رش تھا، اسکولوں کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے بچوں کی بڑی تعداد بھی اپنے والدین کے ہمراہ مارکیٹ میں دکھائی دے رہی تھی۔ تینوں بہن بھائیوں کو تحفے خریدنے میں مکمل آزادی تھی اور انہیں موقع فراہم کیا گیا کہ وہ خفیہ طور پر اپنا تحفہ خرید سکیں۔ خریداری کے بعد وہ لوگ گھر واپس پہنچے اور اپنے اپنے تحفے خوبصورت طریقے سے پیک کئے۔ عدنان اور ذیشان مقابلے کے فوری انعقاد کے خواہش مند تھے، لیکن سلمیٰ کے اصرار پر مقابلہ آئندہ صبح تک ملتوی کردیا گیا۔
بالآخر دوسرے دن کا سورج بھی طلوع ہوا۔ عدنان اور ذیشان مقابلے کا فیصلہ کروانے کے لئے بہت بے چین دکھائی دے رہے تھے، جبکہ سلمیٰ مزید وقت کا تقاضا کررہی تھی۔ اسی اثناء میں دروازے پر گھنٹی بجی، گھر کا کام کرنے والی ماسی اپنے بیٹے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو سلمیٰ کی آنکھوں میں چمک اُبھر آئی اور اس نے کہا۔
’’ہاں اب مقابلہ شروع کیا جائے‘‘۔
سلمیٰ نے یہ گزارش بھی کی کہ وہ اپنا تحفہ سب سے آخر میں کھولے گی جسے جج صاحبان (دادا دادی) نے منظور کرلیا۔ کھیل بہت معمولی انداز میں شروع ہوا تھا، لیکن اس وقت سسپنس کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا تھا۔ کام کرنے والی خاتون بھی کام چھوڑ کر اس دلچسپ مقابلے کا نتیجہ دیکھنے آکھڑی ہوئی، اُس کے ساتھ اُس کا معصوم بچہ بھی تھا۔ سبھی کو تحفے کھلنے کا شدت سے انتظار تھا۔ بلال بھی چاچو کی گود میں براجمان دلچسپی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
سب سے پہلے عدنان نے اپنا گفٹ کھولا۔ اُس میں ایک خوبصورت کتاب اور پین کا سیٹ تھا۔ سب نے اس کی پسند کی تعریف کی۔
دوسری باری ذیشان کی تھی، اُس کے گفٹ میں ایک خوبصورت علمی ذہانت کا کھیل تھا، اُسے بھی خوب سراہا گیا۔ اب سب کی نظریں سلمیٰ پر تھیں، اُس نے اپنا گفٹ کھولا تو اُس میں سے ایک سویٹر اور چند معمولی کھلونے نکلے۔ سلمیٰ نے آگے بڑھ کر وہ چیزیں اُن کے گھر کام کرنے کے لئے آنے والی خاتون کے بچے کے ہاتھ میں گھماتے ہوئے کہا۔
’’کل جب ہم گفٹ کی خریداری کے لئے روانہ ہوئے تو میری نظر اس بچے پر پڑی جس کا سویٹر بہت پرانا اور کئی جگہ سے پھٹا ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ سردی سے کانپ رہا تھا، افسوس کہ ہماری توجہ کبھی اس طرف نہ گئی۔ میں نے سوچا کہ ہمیں تو امی ابو اور کبھی چاچو سے تحفے ملتے رہتے ہیں، پھر کیوں ناں ان پیسوں کے لئے میں اس بچے کے لئے تحفہ خریدوں۔۔۔ آخر بلال کی طرح یہ بھی تو ہمارا بھائی ہے‘‘۔
بچہ تحفے ہاتھ میں تھامے کھلونوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اور اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کی ماں کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوشی سے نم ہوگئیں۔۔۔
وہاں موجود دیگر تمام لوگوں کے چہروں پر ندامت کے آثار تھے کہ آخر وہ اس احساس سے عاری کیوں رہے۔۔۔
سلمیٰ کے دادا نے آگے بڑھ کر اُس کی پیشانی چوم لی اور پھر کہا
’’بلاشبہ میری بیٹی کا تحفہ سب سے خوبصورت اور عظیم تر ہے، لہٰذا مقابلے کی ونر بھی سلمیٰ ہی ہے‘‘۔
کیونکہ ۔۔۔ سب سے بڑی عبادت تو انسانیت کی خدمت ہی ہے۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top