skip to Main Content

صدیقی صاحب کی بپتا

فوزیہ خلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرشمان میرے پاس اپنی کاپی لے کر آیا۔ میں اس وقت رانجھا صاحب سے باتوں میں مصروف تھا۔
’’ کیا ہوا عثمان؟ کچھ پوچھنا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔
’’جی بابا۔۔۔ یہ لکھوا دیں۔‘‘
’’ کیا ہے یہ؟ ‘‘ میں کاپی اس کے ہاتھ سے لے کر پڑھنے لگا، لکھا تھا۔
’’ وقت کی پابندی کے بارے میں ایک شارٹ نوٹ لکھیں۔‘‘ یہ پڑھ کر میں کچھ لمحے خاموش رہا پھر بولا
’’ عرشمان بیٹا۔۔۔ یہ کام آپ کو کب تک مکمل کرنا ہے؟ میرا مطلب ہے ٹیچر یہ کب چیک کریں گے؟‘‘
’’بابا ۔۔۔ یہ چھٹیوں کا کام ہے۔ یعنی جون ، جولائی کا۔ اب اگست میں جب اسکول کھلیں گے تبھی چیک ہوگا۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ پھر تو کوئی مسئلہ نہیں۔ بس کچھ دن رک جاؤ۔ پھر میں کروا دوں گا۔‘‘ میں بولا۔
’’ کچھ دیر رک جاؤں؟‘‘ 
’’ نہیں ۔۔۔ کچھ دن۔‘‘ میں نے کہا۔ اس نے نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں سر ہلایا اور چلا گیا۔
’’ کیوں صدیقی! بچے کو کیوں ٹال دیا؟‘‘
’’اب آپ کو کیا بتاؤں رانجھا صاحب! میں تو خود روزانہ دفتر پہنچتا ہوں تو لیٹ ہوجاتا ہوں۔‘‘ میں نے سرد آہ بھری۔
’’ہاں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا روز ہی ہوجاتا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ دفتر پہنچتا ہوں تو میرے باس طنزیہ نظروں سے مجھے گھڑی دکھاتے ہیں پھر بولتے ہیں۔
’’ صدیقی صاحب۔۔۔ یہ دفتر ہے کوئی چڑیا گھر نہیں ہے کہ آپ اپنی مرضی سے آئیں اور اپنی مرضی سے نکل جائیں۔‘‘
’’ یہ چڑیا گھر ہو بھی نہیں سکتا۔چڑیا گھر میں تو انسان محظوظ ہوتا ہے، خوش ہوتا ہے۔ اس کا خون بڑھتا ہے۔ یہاں تو بس جان جلتی ہے۔ خون جلتا ہے۔‘‘ میں دل ہی دل میں جواب دیتا ہوں۔
’’ لیکن آخر لیٹ ہوجانے کی وجہ؟‘‘ رانجھا صاحب سے نئی نئی دوستی تھی لہٰذا میری پریشانیوں سے ناواقف تھے۔
’’ایک وجہ تو یہ ہے رانجھا صاحب کہ ہماری بیگم کی یاداشت بہت خراب ہے۔ بہت ہی خراب۔‘‘
’’بیگم کی یاداشت کا آپ کے لیٹ ہونے سے کیا تعلق؟‘‘ رانجھا صاحب نے اپنے پھندنے والی ٹوپی ہلا کر حیرانی کا اظہار کیا۔
’’اب ہوتا یہ ہے کہ میں صبح ۸ بجے دفتر کے لیے نکلتا ہوں۔ ۹ بجے دفتر لگتا ہے اپنے حساب سے میں اپنے تمام کام نبٹا کر ۸ بجے جب گھر کے دروازے سے نکلنے کو ہوتا ہوں تو بیگم صاحبہ کی آواز آتی ہے۔
’’ارے ایسی بھی کیا جلدی۔۔۔ آپ تو بس بھاگے ہی جارہے ہیں۔‘‘
’’اب کیا ہوا؟‘‘ میں بولتا ہوں۔ میرے اٹھتے قدم رُک جاتے ہیں۔ 
’’واپسی پر وہ ضرور لیتے آئیے گا۔‘‘ بیگم صاحبہ کہتی ہیں۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ ۔۔۔ وہ ۔‘‘ بیگم صاحبہ سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہتی ہیں۔’’ارے وہی جو سفید ہوتی ہے، چائے میں بھی ڈالتے ہیں مٹھاس کے لیے اور ایک بیماری ہو جاتی ہے اس میں منع کر دی جاتی ہے اور۔۔۔‘‘
’’بس۔۔۔ بس۔۔۔ بیگم ۔ میں سمجھ گیا۔ چینی۔ ہاں لیتا آؤں گا۔ اب جاؤں؟‘‘
’’اب ایسی بھی کیا جلدی۔ ذرا سن لیجئے۔ آج واپسی پر ذرا جلدی آئیے گا۔ ذرا جانا ہے کہیں۔‘‘
’’ کہاں؟‘‘ میں بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہوں۔
’’وہ منا اپنی کلاس میں اوّل آیا ہے۔ لہٰذا آج باہر کھانے کے لیے جائیں گے۔ وہی کھانے، جو ٹھنڈی ہوتی ہے ناں۔ اگر دانت خراب ہوں تو زیادہ ہی ٹھنڈا لگتا ہے میٹھی ہوتی ہے اور۔۔۔‘‘
’’ میں سمجھ گیا۔ آئسکریم کھانے جائیں گے۔ اب براہِ مہربانی مجھے رخصت ہولینے دیجئے۔‘‘
’’ ایک تو آپ بس ہر وقت جلدی میں ہی رہتے ہیں۔‘‘ بیگم برا مان کر کہتی ہیں میں عجلت میں باہر نکل جاتا ہوں۔
’’ پھر یہ تو چلو دس بارہ منٹ ہو گئے۔ پھر آگے؟‘‘ رانجھا صاحب نے بے چین ہو کر پوچھا۔
’’ایک وجہ تو تھی ہماری بیگم کی حد درجہ خراب یاداشت اور دوسری وجہ ہے ہمارے سسر کی حد درجہ تیز یادداشت۔‘‘ میں نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔
’’تیز یاداشت۔۔۔!! یہ تو اچھی بات ہے۔ اس کا تمہارے لیٹ ہوجانے سے کیا تعلق؟‘‘ رانجھا صاحب حیران تھے۔
’’سنتے رہئے، رانجھا صاحب! ۸ بجے میں نکلنے کو تھا کہ بیگم کی باتوں میں سوا آٹھ ہو گئے۔ اب میں سوا آٹھ پر بمشکل باہر نکل ہی پاتا ہوں کہ میرے سسر تشریف لے آتے ہیں۔‘‘
’’ تشریف لے آتے ہیں۔ کیا مطلب۔۔۔ کیا روزانہ؟‘‘
’’ جی روزانہ۔ کیونکہ اگلی گلی میں ان کا گھر ہے۔ انہیں بھی سوا آٹھ پر ہی آنا ہوتا ہے۔ آتے ہی بولتے ہیں:
’’ارے میاں نوشاد احمد خان صدیقی صاحب! ہم خوب جانتے ہیں کہ تم دفتر جارہے ہو۔‘‘
’’جی جناب۔۔۔ اب جا لینے دیجئے۔‘‘
’’ارے جاؤ برخوردار۔ ہم کونسا تمہیں روکے لے جا رہے ہیں۔ارے میاں۔ ہم بھی جب تمہاری عمر کے تھے اپنے بزرگوں سے ایسے ہی کنی کتراتے تھے۔ ہاں تو میاں! یہ بات ہوگی کوئی انیس سو پچھتر کی۔ ارے میاں، تم کیا جانو۔ انیس سو پچھتر میں اپنی خالہ ساس کے بہنوئی کا سالا بڑا سخت بیمار پڑ گیا تھا۔ رنگ ایسا پیلا پڑ گیا تھا جیسے ہلدی۔ میاں، ہلدی کے فوائد بھی بہت ہیں۔ گننے بیٹھو تو رات ہوجائے۔‘‘
’’نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ رات نہیں۔۔۔ میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ دفتر ۔‘‘ میں ہکلا کر آواز نکالتا ہوں تو وہ برا مان کر کہتے ہیں۔
’’جاؤ میاں۔۔۔ تم اپنے بزرگوں سے گھبراتے ہو۔‘‘ میں بڑی مشکل سے قدم آگے بڑھاتا ہوں۔ ساڑھے آٹھ ہو رہے ہوتے ہیں کہ اپنے پیرزادہ صاحب مل جاتے ہیں۔
’’پیرزادہ صاحب کون؟‘‘ رانجھا صاحب نے پوچھا۔
’’ارے یہ پیرزادہ صاحب میرے مالک مکان ہیں۔ میرے گھر کے اوپر ہی رہتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی دھم سے میرے پاس آگرتے ہیں۔‘‘
’’ارے صدیقی صاحب۔۔۔ اس ماہ کا کرایہ آپ نے نہیں دیا۔‘‘
’’ پیرزادہ صاحب۔۔۔ آج تو بیس تاریخ ہے۔ پہلی ہونے میں تو ابھی دس دن باقی ہیں۔ ‘‘ میں رونی شکل بنا کر کہتا ہوں۔
’’یاد رکھئے گا اور ہاں بجلی کا بل بھی وقت پر جمع کرا دیجئے گا۔‘‘
’’ جی یاد رہے گا۔‘‘
’’اور ہاں۔ صدیقی صاحب گیس کا بل بھی۔‘‘
’’ مجھے یاد رہے گا۔ میں گیس ، بجلی، پانی، ٹیلی فون تمام بل اپنی اپنی درست تاریخوں پر جمع کرا دوں گا۔مجھے اجازت دیجئے۔‘‘ میں بالکل رو دینے کو ہوتا ہوں۔
’’ صدیقی صاحب پانی ذرا کم استعمال کیا کریں۔ آپ کے بچے بھی بس ہر روز نہاتے ہیں۔ روز نہا نہا کر اسکول جاتے ہیں۔‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں۔ کل سے بچوں کو ڈرائی کلین کروا کر اسکول بھیجا کریں گے۔ مجھے اجازت دیجئے۔ خدا کے لیے مجھے دفعان ہولینے دیجئے۔‘‘
’’میں گھڑی دیکھتا ہوں تو پونے ۹ ہو رہے ہوتے ہیں اور یوں میں روزانہ لیٹ پہنچتا ہوں۔ یہ روز کی کہانی ہے۔ صرف ایک دن کی نہیں ہے۔‘‘ میں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
اور پھر دفتر پہنچ کر باس کی طنزیہ نگاہیں، سخت فقرے۔
’’اس مسئلے کے دو حل نکل سکتے ہیں۔‘‘ رانجھا صاحب نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔ 
’’ یا تو تم ایک دروازہ اپنی پچھلی طرف بھی نکلوا لو۔ خفیہ دروازہ یاپھر آٹھ کے بجائے سات بجے گھر سے نکلنا شروع کر دو۔‘‘ 
انہوں نے اپنی پھندنے والی ٹوپی ہلا کر قیمتی مشوروں سے نوازا اور پھر جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

*۔۔۔*

’’عرشمان! عرشمان بیٹا۔۔۔ !!لاؤ۔ اپنی ہوم ورک کاپی لے کر آؤ۔ میں تم کو وہ شارٹ نوٹ لکھوا دوں جو تم پندرہ بیس روز قبل پوچھ رہے تھے۔‘‘ میں نے اس شام دفتر سے آتے ہی اسے آواز دے کر کہا۔
’’جی، بابا۔‘‘ وہ دوڑ کر کاپی لے آیا اور کام کرنے لگا۔ کام کرتے کرتے اس نے نظریں اوپر اٹھائیں اور بولا:’’ایک بات پوچھوں بابا؟‘‘
’’ پوچھو بیٹا۔‘‘
’’بابا۔۔۔ اس دن آپ نے مجھے یہ شارٹ نوٹ لکھوانے سے کیوں منع کر دیا تھا؟‘‘
’’اس کی ایک وجہ ہے عرشمان۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شارٹ نوٹ وقت کی پابندی پر ہے۔ ان دنوں مجھے خود بے حد تاخیر ہو رہی تھی۔ وقت کی پابندی خود ہی نہیں کر پا رہا تھا لہٰذا یہ قطعی نامناسب تھا کہ میں تم کو اس چیز کے بارے میں لکھواؤں اور بتاؤں جس پر کہ میں خود عمل نہ کرتا ہوں۔‘‘
’’ پھر بابا اب وہ وجہ دور ہو گئی؟‘‘
’’ ہاں بیٹا الحمد اﷲ ۔ جبھی تو تم کو لکھوا رہا ہوں۔ تم بھی زندگی بھر یہ بات یاد رکھنا اور کوشش کرنا کہ کسی کو نصیحت کرو، کچھ بتاؤ، سمجھاؤ۔ پہلے اس پر خود عمل کرنا۔ ٹھیک ہے ناں؟‘‘ میں نے کہا۔
’’ٹھیک ہے وعدہ۔‘‘ عرشمان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top