skip to Main Content

صدقہ جاریہ

راحت عائشہ

۔۔۔۔۔۔۔

”نیم بابا یہ سورج آخر کتنی دیر اور آگ برسائے گا؟ ….حد ہو گئی ہے میری نازک نازک کو نپلیں اب تو جیسے جھلسنے سی لگی ہیں۔“ پارک میں لگے ننھے گلاب کے پودے نے بڑے سے نیم کے درخت کو مخاطب کر کے کہا۔
نیم کا یہ درخت پارک کا سب سے گھنا اور قدیم درخت تھا۔
”بس میرے بچے کچھ دیر اور…. بس اب اس کے زوال کا وقت ہے، آہستہ آہستہ اس کی تپش میں کمی آتی جائے گی۔ تم پریشان نہ ہو۔“ بوڑھے نیم نے ننھے گلاب کو دلاسا دیا۔
”ہونہہ….“ اتنی سی جان ہے کہ ذرا سی دھوپ نہیں برداشت ہوتی اور کہلائیں گے پھولوں کے بادشاہ۔ “ موتیے کے پودے نے حقارت سے رات کی رانی سے سر گوشی کی لیکن یہ سرگوشی اتنی بلند تھی کہ نہ صرف ننھے گلاب نے سن لی تھی بلکہ نیم دادا کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔نیم دادا نے غصے سے اپنی شاخیں لہرائیں۔
گلاب کا ننھا پودا اپنی جگہ سہم گیا تھا۔” شاید موتیا کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا۔“ اس نے سوچا۔”کچھ دیر کی بات ہے ذرا دھوپ کم ہو تو کھیلنے والے بچے یہاں آنے لگیں گے۔ اِن سرد رویے والے اور بد تمیز پودوں کے ساتھ میں کیا بات کروں۔میں اپنی جگہ پر ٹھیک تھا، ناجانے مالی بابا کو کیا سوجھی کہ مجھے یہاں لگا کر چل دیے۔“
”دیکھا تم نے…. مزاج ہی نہیں ملتے صاحب بہادر کے…. بس بہت ہوا تو نیم دادا سے ایک دو باتیں کرلیں ہمیں تو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔“ موتیا نے اس بار شکایت رات کی رانی کے بجائے اپنے پیچھے دیوار پر موجود عشقِ پیچاں کی بیل سے کی تھی جسے اس کے سفید اور گلابی پھولوں نے سجایا ہوا تھا۔
”ہاں واقعی بھائی تم درست کہتے ہو…. شاید بادشاہت کا ہی زعم ہو ورنہ خوشبو تو تمھاری بھی کم نہیں ہوتی اور خوبصورت تو میں بھی بہت ہوں۔ کل ہی کی بات ہے دو پیاری بچیاں جب میرے پھول جمع کر رہی تھیں تو کہنے لگیں یہ دلھن بیل کس قدر حسین ہے اگر یہ پارک کی ساری دیواروں پر پھیل جائے تو ہمارا پارک سج جائے گا۔ خوشبو بھی زیادہ ہوگی اور ہمیں پھول بھی زیادہ ملیں گے۔“
د لھن بیل نے نزاکت سے اپنے پھولوں کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
”ہونہہ….“ رات کی رانی نے اپناسر جھٹکا، جس کے نتیجے میں اس کے کئی نازک پھول زمیں بوس ہو گئے۔”بڑی آئیں ان کی خوشبو زیادہ ہوگی ،میراایک ہی پودا تم سب کی خوشبو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔“ رات کی رانی نے نخوت سے کہا۔
”ہاں لیکن صرف رات میں۔“ عشقِ پیچاں کی بیل نے دو بدو جواب دیا۔
”تو کیا ہوا…. تمھاری تو نہ دن میں زیادہ نہ رات میں ….“
رات کی رانی نے مذاق اڑایا۔
”زیادتی کسی چیز کی بھی ہو نقصان ہی دیتی ہے۔ یادنہیں،کل دو عورتیں اس بنچ سے یہ کہہ کر اٹھ گئیں تھیں کہ رات کی رانی کی خوشبو دور سے ہی اچھی لگتی ہے قریب بیٹھنے سے تو مانو سر میں درد ہونے لگتا ہے۔“
”ہونہہ بد ذوق لوگ!…. سب ایسے نہیں ہوتے ۔“ را ت کی رانی نے منہ بنایا۔
”میرے بچو! یہ تم لوگوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اتنی خوبصورت جگہ ہو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ خاصیتوں کا مالک بنایا ہے، آپس میں مل جل کر رہو۔“
رات کی رانی کے پاس کھڑے پیپل کے درخت نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”بابا! آپ میرے بجائے اس پیچاں کو کیوں نہیں سمجھاتے؟“ رات کی رانی نے تنک کر کہا۔
”کیو ں کہ تمھیں سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔“
عشق پیچاں کی گلابی پھولوں والی بیل کیوں پیچھے رہتی، ترنت جواب دیا۔
”تم اپنی فکر کرو، مجھے تم جیسوں کے منہ لگنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔“
رات کی رانی بھڑ ک اٹھی۔
”اچھا اچھا بس…. خبردار جواَب کسی نے ایک لفظ لڑائی کا نکالا ،چلو دوستی کرو۔ “
نیم دادا نے ڈپٹ کر ان کی صلح کروانا چاہی۔
”مجھے اُس سے نہیں کرنی کوئی بات وات….“رات کی رانی منمنائی۔
”مجھے بھی اس سے ہاتھ نہیں ملانا….“ عشق پیچاں کی بیل نے بھی اپنے پتوں اور پھولوں کو مزید سمیٹ لیا۔
ہوا کو شرارت سوجھی اوروہ تیز تیز چلی کہ رات کی رانی اور د لھن بیل کو گلے ملوا دے لیکن رات کی رانی اپنی جگہ تن کر کھڑی ہوگئی کہ وہ لہرا کر عشق پیچاں تک نہ چلی جائے اور یہی حال دوسری طرف تھا۔ اپنے آپ کو اکڑانے کے نتیجے میں دونوں کو ہی اپنے ڈھیروں پھولوں سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔
ننھا گلاب کا پودا حیرت سے اُن کی لڑائی دیکھ رہا تھا کہ ا گر دونوں ہی ذرا سی لچک کا مظاہرہ کرتیں تو ان کے اتنے پھول ضائع ہونے سے بچ جاتے۔

….٭….

”ارے واہ! کتنی پیاری ہوا چل رہی ہے۔ چلو کچھ دیر یہیں سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔“
گڈو کی آوازپر گلاب کا پودا چونکا۔ ابھی تو دُور دُور تک کسی بچے کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ یہاں کیسے؟ گڈو نیم کے درخت کے نیچے پڑی بنچ پر بیٹھ چکا تھا۔
” میں سامنے سے جھولا جھول کر آتی ہوں۔“ خالی جھولا دیکھ کر گڑیا کا دل للچایا۔
”نہیں نہیں گڑیا!بہت گرمی ہے۔بس ذرا سانس لے لیں پھر چلتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ ہمارے اسکول کے راستے میں اتنا اچھا باغ آتا ہے۔“
”اور یہ راستہ ہمیں کم بھی پڑتا ہے۔“ گڑیا کھلکھلائی اور اپنی پانی کی بوتل نکال کر پانی پینے لگی۔ یہ بات سچ ہی تھی کہ اسکول کے راستے میں اس پارک کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جاتے تو بچے لمبا چکر کاٹنے سے بچ جاتے تھے۔
گڑیا نے پانی پی کر باقی بچا ہوا پانی گلاب کے ننھے پودے پر چھڑک دیا۔
”چلو بھائی اب چلیں۔“ دونوں گھر کی طرف چل دیے۔
ننھا گلاب کا پودا خوشی سے نہال ہو کر دل ہی دل میں انھیںدعائیں دے رہا تھا جب کہ رات کی رانی اور موتیا کو یہ جلن تھی کہ گڑیا نے پانی ان کے اوپر کیوں نہیں ڈالا۔
”میں کہتا ہوں سدھرجاﺅ…. اس نا اتفاقی کا پھل بہت کڑوا ہوتا ہے۔ “
نیم دادا نے انھیں ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”خود آپ بھی تو کڑوے ہیں۔“ رات کی رانی ہنسی۔
”میں بھی کڑوا ہوں لیکن میری کڑواہٹ انسان کے لیے بہت فائدے مند ہے۔“
نیم نے کہا۔
”جی نیم دادا! ہمیں آپ کے فوائد کا علم ہے۔ آپ اِن لوگوں کی فضول باتوں کو دل پر نہ لیں۔“ امرود کے درخت نے پہلی بار مداخلت کی جو اتنی دیر سے سب سن رہا تھا۔
اچانک ہی ان سب کو خاموش ہونا پڑا تھا۔ کچھ آدمی ان کی طرف چلے آرہے تھے۔ ان کے پاس باغبانی کا سامان دیکھ کر وہ چونکے۔” کیا یہ ہمیں یہاں سے نکالنے والے ہیں؟“ چھوٹے پودے ایک نئی پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔
”لیکن یہ کیا…. وہ تو خالی جگہ میں نئے گڑھے کھودنے لگے تھے۔ ”یعنی کہ نئے پودے لگیں گے۔“
دو دن کی محنت کے بعد وہ آدمی پورے باغ کی حدود میں اُن ننھے پودوں کا اضافہ کرچکے تھے جو یہاں رہنے والے پودوں کے لیے بالکل نئے تھے۔
”تمھارا نام کیا ہے اور تم کہاں کے رہنے والے ہو؟“
آدمیوں کے جانے کے بعد پیپل کے درخت نے ننھے پودوں سے سوال کیا۔
” ہمارا نام کونو کارپس ہے۔ ہم تویہیں پیدا ہوئے لیکن ہمارے آباﺅ اجداد کو امریکہ اور صومالیہ سے یہاں لا کر بسایا گیا تھا۔“ ننھے کو نوکار پس نے جواب دیا۔
”ایک تو یہ مالی بابا کب پانی دینا شروع کریں گے میرا پیاس سے برا حال ہے۔“
نازک سی آواز پر کونوکار پس نے دیکھا،وہ چھوئی موئی کا ایک نازک پودا تھا۔
”پانی آتا ہے تو تم ڈر کر اپنی پتیاں سکیڑ لیتے ہو۔“ موتیا نے اس کا مذاق اڑایا۔
”یہ ہمارے سامنے کن فضول پودوں کو لا کر لگا دیا ہے۔ خوشبو نہ پھول، اُن میں تو عجیب سی بوہے۔“ رات کی رانی کی آواز کو نوکارپس تک بھی پہنچ چکی تھی لیکن وہ خاموش ہی رہے۔ انھیں خاموش دیکھ کر رات کی رانی ہمت بڑھی بلکہ موتیا اور دیگر پودوں نے بھی ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔
کو نوکارپس نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ اور مسکرا دیے جیسے انھیں کسی بات کی پرواہی نہیں تھی۔
تمام پودے انھیں اپنے پھولوں اور پھلوں کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بتا رہے تھے۔
” تم لوگوں کو یہاں سے جانا پڑے گا۔ یہاں بھدّے اور بو والے پودوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔“ رات کی رانی چلائی۔
”یہ تو وقت بتائے گا کسے جانا ہے۔ ہم سے جھگڑا مول نہ ہی لو تو اچھا ہے۔“
کونو کارپس شیطانی ہنسی ہنسا۔
”ہونہہ…. تم نکالو گے ہمیں یہاں سے؟…. لوگ تمھیں پسند ہی نہیں کریں گے۔“
دیسی پودوں کے گروہ بن چکے تھے۔ وہ یوں بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے، اب باقاعدہ لڑنے کے لیے یہ بدیسی پودے بھی آپہنچے تھے۔

….٭….

گرمی بڑھی تو شہر بھر ہیٹ اسٹروک کی زد میں آچکا تھا۔ شدید گرمی میں پانی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ شہر میں پانی کی بھی قلت ہو چکی تھی۔ پینے کو دستیاب نہ تھا تو پودوں کو کیسے ملتا؟ کنویں تک سوکھنے لگے تھے۔ بچے باغ میں بہت کم کھیلنے آتے تھے۔ نازک پودے جلد ہی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے مرجھانے لگے تھے، لیکن ایک حیرت انگیز بات تھی۔ جہاں دوسرے پودے آہستہ آہستہ مرجھا رہے تھے، کونو کارپس کے ننھے پودے اپنا اچھا خاصا قد بڑھا چکے تھے اور ان کے پتے اس شدید گرمی میں بھی ویسے ہی ہرے بھرے رہتے تھے۔
باغ میں لگے سارے پودوں پر کبھی بہار ہوتی تو کبھی خزاں، کسی کے پتے بالکل ہی جھڑ جاتے تو کوئی اپنے پھولوں اور خوشبو سے محروم ہو جاتا لیکن کونو کارپس ہمیشہ ہرا بھرا ہی نظر آتا۔ مالی بابا نے ان کے بڑے ہونے پر ان کی تراش اس انداز سے کی کہ وہ بالکل چھتری معلوم ہوتے تھے۔ ایک عجیب بات اور تھی، ان کے آنے کے بعد خوبصورتی کے لیے لگائے گئے کئی آرائشی پودے دم توڑ چکے تھے۔ کسی قبضہ گروپ کی طر ح وہ بڑی تیزی سے پارک پر اپنا قبضہ جما چکے تھے۔سب سے پہلے چھوئی موئی رخصت ہوا، پھر موتیا کو نجانے کیا بیماری لگی اور آہستہ آہستہ پارک اِن پھولوں والے پودوں اور بیلوں سے خالی ہوتا گیا۔
گلاب کا ننھا پودا اب بڑا ہو چکا تھا، لیکن پانی کی کمی کے اِن دنوں میں وہ بھی کمزوری محسوس کرنے لگا تھا۔
روزانہ کی طرح آج بھی گڑیا جب اسکول سے واپسی پر وہاں سے گزری تو گلاب نے اپنی شاخیں نیچے کر دی تھیں تاکہ وہ اپنی پسند کا پھول توڑ سکے۔ لیکن یہ کیا گڑیا بجائے پھول توڑنے کے بنچ پر بیٹھ کر کھانسنے لگی تھی۔ لگتا تھا جیسے اس کی سانس بھی رُک رُک کر آرہی ہے۔ نیم دادا کو بھی گڑیا سے بہت محبت تھی۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی شاخیں ہلانے لگے۔
” گڑیا کو کیا ہو رہا ہے؟“ گلاب نے نیم سے پوچھا۔
”گڑیا کو سانس لینے میں پریشانی ہو رہی ہے۔“
”لیکن اس وقت تو ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر رہے ہیں اور آکسیجن مہیا کر رہے ہیں۔“ گلاب نے پریشانی سے کہا۔
”ہاں بیٹا! تم کر رہے ہو۔“ خدا نے مجھے تو وہ قدرت دے رکھی ہے کہ میں رات میں بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بجائے آکسیجن ہی مہیا کرتا ہوں لیکن…. “
”لیکن کیا؟“ گلاب نے پوچھا۔
لیکن اب یہاں ایک بڑی تعداد میں ایسے پودے لگے ہوئے ہیں جن کے پولن سے سانس اور دمے کی بیماری پھیلتی ہے۔“ نیم دادا نے دکھ سے کہا۔
” قبضہ گروپ، غاصب پودے۔“امرود بڑ بڑایا۔اِن کا یہ وطن نہیں ہے۔ خدا نے انھیں ان کے وطن اور ماحول کے لیے سازگار بنایا ہے۔ یہ یہاں آئے تو ہمارے اور ہمارے ہم وطنوں کے لیے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں، مگر لگانے والوں کو کئی فکر نہیں ہے۔“
گلاب کو اپنے اندر چبھنے والی جڑیں یاد آئیں۔ کو نوکارپس کو باہر سے پانی نہیں ملتا تھا تو انھیں کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنی جڑیں اِدھر اُدھر پھیلانے میں ماہر تھے۔ ان کی جڑیں زیر زمین پانی کو چوس لیتی تھیں۔ دوسرے پودوں کی جڑوں میں گھس کر انھیں کمزور کر دیتی تھیں، زیر زمین گزرنے والے پائپ لائن، گھروں کی بنیادیں کچھ ان سے محفوظ نہیں تھے۔
”بے چاری گڑیا…. وہ بھی تو کہیں انہی غاصب پودوں سے متاثر نہیں ہوگئی۔ اب تو گڈو بھی اس کے ساتھ اسکول نہیں جاتا۔کالج میں چلا گیا ہے، یہ گھر کیسے پہنچے گی؟“ گلاب محبت سے اپنی پتیوں کا جلترنگ بجاتے ہوئے گڑیا کو ہوا دینے لگا۔
کچھ دیر میں گڑیا کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو وہ اپنا بھاری بستہ اٹھا کر گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ آج وہ اپنا گلاب لینا بھی بھول گئی تھی۔ گلاب کے پودے نے شام میں آنے والے لوگوں پر غور کیا۔ صرف گڑیا ہی نہیں بہت سے نازک بچے، کمزور بوڑھے اور جوان اس بیماری میں مبتلا تھے۔
”یاخدارا ہمیں اِن ظالموں سے بچا۔“ گلاب دل ہی دل میں دُعا کرتا۔

….٭….

آج بہت عرصے بعد سارے ہی پودے گڈو کو دیکھ کر خوش ہو گئے تھے۔کیوں کہ وہ اب اپنی مصروفیات کی وجہ سے کم کم ہی نظر آتا تھا، لیکن آج وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ کچھ نوجوان اور بھی تھے۔ وہ ٹولی کی صورت میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ نیم کو تجسس ہوا اور اس نے اپنی شاخیں ذرا نیچے جھکا دیں۔
”دوستو! یہ ہمارا خوبصورت باغ جس میں ہمارے دیسی ماحول دوست پودے لگے ہوئے تھے، ہمیں آکسیجن مہیا کرتے تھے اور ہمارے لیے صاف ہوا فراہم کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے اورتم سب کو بھی یاد ہوگا۔ یہاں رات کی رانی کی خوشبو پھیلی ہوا کرتی تھی۔ موتیے کے ڈھیروں مہکتے پھول تھے، لیکن کچھ ماحول دشمن کچھ عناصر نے ہمارے ہاں ایسے پودوں کی شجر کاری کروائی جو ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان سے نہ صرف سانس اور دمے کی بیماری پھیلتی ہے بلکہ یہ زیر زمین بھی پانی اور دیگر اشیا کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں، لہٰذا حکومت نے اب ان کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ “گڈو سانس لینے لیے رکا۔ نہ صرف اس کے ساتھی نہایت توجہ سے اس کی بات سن رہے تھے بلکہ سارے پودوں کے کان بھی گڈو کی بات پر لگے ہوئے تھے۔
”پیارے ساتھیو! یہاں سے اب ہماری ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ آﺅ آج سے ہم ان پودوں کو اکھاڑ پھینکیں اور ان کی جگہ خوشبودار اور پھل دار پودے لگائیں۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
﴾مامن غرس غرسا فاکل منہ انسان او دابة الا کان لہ بہ صدقة ﴿
”جو مسلمان کوئی پھل دار درخت لگاتا ہے پھر اس سے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں تو وہ لگانے والے کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔“
کیوں نہ ہم آج سے ہی اس صدقے کا اہتمام کریں جو ہمارے بعد بھی جاری رہے۔کیا تم لوگ میرے ساتھ اس مہم میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو؟ “
”ہاں بالکل…. کیوں نہیں….“ سب لڑکے مل کر بولے اور گڈو کے بڑھے ہوئے پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ ہم وہی اپنے کھجور، ناریل، آم، امرود اور پپیتے کے درخت لگائیں گے۔احمد نے کہا۔
”ہم ان کے ساتھ نیم، پیپل، برگد، بکائین اورہارسنگھار کے درخت بھی لگائیں گے۔“ پودوں کے دل گڈو کی بات پر خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔ نیم کے تنے سے خوشی کے آنسو نکلے اور وہیں جم گئے تھے۔
”یاد رکھو ہمیں ان درختوں کو کاٹنا نہیں بلکہ جڑ سے اکھاڑنا ہے تاکہ یہ دوبارہ نشوونما نہ پاسکیں۔“ گڈو کام کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔
گلاب کے پودے کو اُن کا مل جل کر کام کرنا دیکھ کر اپنے پرانے ساتھی یاد آئے جو کب کے مرجھا چکے تھے۔
”میں سوچتا ہوں اس جگہ ہم رات کی رانی اور موتیا لگائیں۔ یاد ہے نا اپنے بچپن کے دن وہ رات کی رانی اور موتیا یہاں ہی ہوا کرتے تھے اور سارا پارک اُن کی خوشبو سے مہکا کرتا تھا۔“
گڈو نے اپنے دوستوں سے مشورہ کرتے ہوئے اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کیا ۔گلاب کی بھی موتیا اور رات کی رانی کو یاد کرکے آنکھیں بھرآئیں، لیکن اب اسے یقین تھا کہ یہ بچے دوبارہ اس باغ کو ویسا ہی خوبصورت سجا دیں گے۔
”لیکن اب ہم بالکل نہیں لڑیں گے۔“ گلاب کا پودا اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے خود ہی ہنس پڑا تھا۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top