skip to Main Content
شہری کے ابوّ

شہری کے ابوّ

محمد الیاس نواز

آج سے ہمارے دو بیٹے ہیں ….. ساجد اور شہریار۔۔

کردار

عظیم صاحب: ساجد کے والد

ساجد:چھٹی جماعت کا طالب علم

اسد:چھٹی جماعت کا طالب علم

شمس:ساتویں جماعت کا طالب علم

طلحہ:ساتویں جماعت کا طالب علم

شہری:ساتویں جماعت کا طالب علم

پس پردہ آواز:ساجد کی امی

پس منظر

اُلفت کالونی کے ایک محلے کے رہائشی پانچ ذہین اور لائق بچے جوآپس میں دوست بھی ہیں، روزانہ شام کو ایک ساتھ کھیلا کرتے ہیں۔ان میں سے چار آپس میں پڑوسی ہیں۔ اس مرتبہ بھی ان چاروں کے ابوؤں نے امتحان میں اچھے نتائج لانے پراُنھیں ان کی من پسندچیزیں انعام میں دینے کاوعدہ کیا تھا۔مگر ان چاروں نے اپنے انعامات کے بارے میں کیا سوچا؟۔۔۔اور پانچویں بچے کے انعام کا کیا ہوا۔۔۔ملاحظہ فرمائیے۔

منظر

ساجد کے گھر کی بیٹھک کا منظر ہے۔ساجد بے تابی سے ٹہل رہا ہے۔اسے شدت سے اپنے دوستوں کا انتظارہے۔وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے دوستوں کو انعام میں کیا چیزیں ملی ہیں۔اتنے میں گھنٹی بجنے کی آواز آتی ہے۔

(پردہ اُٹھتا ہے)

ساجد:(آواز دیتے ہوے)’’امی ذرا دروازہ کھول دیجئے،اُن تینوں میں سے کوئی آیا ہوگا۔‘‘

 

ساجد کی امی:(اندرسے جواب دیتی ہیں)’’اچھابیٹا۔۔۔‘‘

 

(چند لمحوں بعد طلحہ ہاتھ میں کاغذ کا ایک بڑاساخوب صورت تھیلا لئے اندر داخل ہوتا ہے۔)

 

طلحہ:(ہاتھ بڑھاتے ہوئے)’’السلام علیکم!‘‘

 

ساجد:(ہاتھ ملاتے ہوے) ’’وعلیکم السلام…واہ…. لگتا ہے خوب صورت انعام ملا ہے۔‘‘

 

طلحہ: (تھیلا ساجد کی طرف بڑھاتے ہوے) ’’ہاں یار…. اسے میز پر رکھ دو۔‘‘

 

ساجد: ’’تم نے کھول کر دیکھا ہے؟‘‘

 

طلحہ:’’نہیں یار۔۔۔ویسے اس میں چاکلیٹیں اور ٹافیاں وغیرہ ہی ہوں گی۔۔۔مجھے پتا ہے۔‘‘

 

ساجد:’’جب کھولا نہیں تو پھر کیسے پتا؟‘‘

 

طلحہ: ( صوفے پر بیٹھتے ہوے) ’’ارے یارتمہیں تو پتا ہے مجھے کیا پسند ہے۔۔۔اور ظاہر ہے پچھلے سال کی طرح اس مرتبہ بھی مجھے وہی چیزیں ملی ہوں گی ناں۔۔۔ جو مجھے پسند ہیں۔‘‘

 

ساجد: ’’ہاں۔۔۔مگر تم نے کھول کر کیوں نہیں دیکھا؟‘‘

 

طلحہ:’’اس لئے کہ میں یہ انعام خود نہیں رکھنا چاہتا۔۔۔بلکہ جس حالت میں ہے اسی حالت میں بغیر کھولے آگے دینا چاہتا ہوں۔‘‘

 

ساجد:’’ہیںں؟۔۔۔ تم اپنا انعام کس کو دینا چاہتے ہو؟‘‘

 

طلحہ:(زوردارآواز میں)’’صبر کر جاؤ، دیکھ لوگے۔۔۔اتنی جلدی کس بات کی ہے؟‘‘

 

ساجد:’’(آنکھیں نکالتے ہوے)’’اچھا ناں۔۔۔مت بتاؤ مگر آرام سے تو بولو!۔۔۔اتنا ناراض ہونے والی کیا بات ہے؟‘‘۔۔۔(چند لمحےخاموشی کے بعد آہستگی سے)۔۔۔’’بات سنو!۔۔۔تم نے اپنا انعام’شہری‘کو دینے کا تو نہیں سوچا؟‘‘

 

طلحہ:(حیرانی سے ساجد کی طرف دیکھتے ہوے)’’ہاآں!۔۔۔مگر۔۔۔تمہیں کیسے پتا؟‘‘

 

ساجد:(معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوے)’’تمہاری اور میری سوچ کتنی ملتی ہے۔۔۔مگر۔۔۔صرف اچھے کاموں میں۔‘‘

 

طلحہ:(طنزیہ انداز میں ہنستے ہوے)’’ہاں ٹھیک کہا۔۔۔تمہار ی سوچ کا جتناحصہ اچھا ہے وہ میری سوچ سے ملتا ہے۔۔۔باقی کسی اورکی سوچ سے۔۔۔‘‘

 

ساجد:(کشن طلحہ کی طرف اچھالتے ہوے)’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

 

طلحہ:(ہنستے ہوے)’’مطلب وطلب کچھ نہیں۔۔۔تمہارا طنز تم پر الٹ گیا ہے۔‘‘

 

ساجد:(سنجیدہ ہوتے ہوے)’’اچھا چھوڑو بحث کو۔۔۔یار واقعی تم نے بہت اچھا سوچا ہے۔۔۔میں نے بھی یہی سوچا ہے۔اب دیکھو ناں!پچھلی بار شہری سمیت ہم پانچوں کو اپنے ابوؤں کی طرف سے انعامات ملے تھے۔۔۔مگرقسمت کی بات ہے کہ شہری کے ابواب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘

 

طلحہ:(نہایت افسردگی کے ساتھ)’’ہاں یار!۔۔۔امی تو اس بے چارے کی پہلے ہی اس دنیا میں نہیں تھیں۔۔۔اب ابو بھی نہیں رہے۔۔۔ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اپنے دوست کی اس خاص موقع پر دل جوئی کریں۔‘‘

 

(اتنے میں ایک بار پھر گھنٹی بجتی ہے)

 

ساجد:(اٹھ کر باہر جاتے ہوئے)’’لگتا ہے اسد یاشمس میں سے کوئی آیا ہے۔۔۔میں ذرا دیکھتا ہوں۔‘‘

 

(چند لمحوں بعدساجد کے ساتھ اسد اور شمس دونوں اندر آتے ہیں۔اسد کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ ہے جس کے وزن سے وہ لڑکھڑاتا ہواآرہاہے،جبکہ شمس کے ہاتھوں میں بھی ایک بڑا سا ڈبہ ہے۔)

 

ساجد:’’لو بھئی !یہ دونوں بھی آگئے ہیں۔‘‘

 

اسداورشمس:’’السلام علیکم۔‘‘

 

طلحہ :(اُٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے) ’’وعلیکم السلام۔۔۔کیسے ہو؟‘‘

 

اسد:’’اللہ کا شکر۔‘‘

 

شمس:’’ٹھیک ….تم سناؤ!‘‘

 

طلحہ:’’اللہ کا شکر۔۔۔ٹھیک ہوں۔‘‘

 

ساجد:’’تم لوگ اتنی دیر سے کیوں آے ہو؟۔۔۔اچھااب جلدی سے اپنے انعامات دکھاؤ۔۔۔بڑے بھاری انعامات ملے ہیں تم لوگوں کو۔۔۔مزا ہی آگیا۔‘‘

 

شمس:(صوفے پر بیٹھتے ہوے)’’خود کہہ رہے ہو بھاری ہیں تو ذرا سانس تو لینے دو۔۔۔یہ کون سا خود چل کر آے ہیں۔‘‘

 

اسد:(صوفے پر بیٹھتے ہوے)’’لو!سن لوبات۔۔۔بھئی ہم تمھارے گھر آئے ہیں….اصولاً تو تمھیں سب سے پہلے اپنا انعام دکھانا چاہیے۔‘‘

 

ساجد: ’’یار ابو کے دفتر میں آج کل کام زیادہ ہے۔ وہ جب دفتر سے نکلتے ہیں تو بازار بند ہو چکا ہوتا ہے، اسی لیے ابھی تک میرا انعام نہیں آیا، مگر آج ابو کہہ کر گئے تھے کہ وہ ضرور میرے لیے کچھ اپنی پسند کا خرید کر لائیں گے، لیکن ابھی تک آئے نہیں۔۔۔دیکھو کب تک آتے ہیں،اور کیا لاتے ہیں۔‘‘

 

اسد: (اُٹھ کر بھاری بھرکم بیگ اُٹھاکر کھولتے ہوئے) ’’اوہو!….. اچھاتوکوئی بات نہیں سب سے پہلے میں دکھاتا ہوں۔ یار تم لوگوں کو تو پتا ہے کہ مجھے کہانیوں کی کتابیں بہت پسند ہیں….دیکھو میرے ابو میرے لیے کتنی ڈھیر ساری کتابیں لائے ہیں۔۔۔اس میں انگریزی کی بھی ہیں۔۔۔اردو کی بھی ہیں۔۔۔اور تصویری کہانیاں بھی۔‘‘

 

(اس کے ساتھ ہی اسد بیگ میں سے اُردو اور انگریزی کی رنگ برنگی کہانیوں کی کتابیں نکال نکال کر میز پر پھیلانا شروع کردیتاہے۔)

 

ساجد(طلحہ سے مخاطب ہو کر)’’لو بھئی!تمھارا کہانیوں والا شوق تو پورا ہو جائے گا…..‘‘

 

اسد:’’ارے میرے پاس تو پہلے ہی کہانیوں کی ایک پوری لائبریری موجودہے،جس میں اردو اور انگریزی کی کہانیوں کی بہترین کتابیں موجود ہیں۔تمہارا جب دل کرے اور جتنی دل کرے لے لینا۔۔۔.ویسے بھی تو سارے دوست مجھ سے پڑھنے کے لیے لیتے ہی ہیں۔۔۔‘‘

 

(تینوں دوست اسد کی کتابیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں اور تعریف کرنے لگتے ہیں۔)

 

ساجد کی امی:(اندر سے آواز دیتی ہیں)’’بیٹا چاے لے جاؤو۔‘‘

 

ساجد:’’آیا امی‘‘

 

ساجد:(چاے اور بسکٹ والا ٹرے میز پر رکھتے ہوے)’’لوبھئی منھ بھی چلاتے رہو اورچیزیں بھی دکھاتے رہو۔‘‘

 

شمس:(چاے کی پیالی اٹھاتے ہوے ساجد سے)’’لوبھئی تم کمال کے آدمی ہو۔۔۔کبھی کبھی ہی تو اچھے لگتے ہو۔‘‘

 

ساجد:’’ہاں ہاں پتا ہے۔۔۔پیٹو کہیں کے۔‘‘

 

شمس:(ہاتھ ماتھے پر رکھ کر سلام والے انداز میں)’’تعریف کا شکریہ۔‘‘

 

ساجد:’’اچھا زیادہ باتیں مت بناؤ۔۔۔اپنا ڈبہ کھولو اور دکھاؤ۔‘‘

 

شمس:’’بھئی مجھے آرام سے بسکٹ کھانے دو اور چاے پینے دو۔۔۔مہربانی کرکے خود کھول کر دیکھ لو،تمہیں کسی نے منع تو نہیں کیا۔۔۔شاباش کھولو!۔۔۔‘‘

 

(شمس بسکٹ کھانے لگتا ہے اورساجدڈبہ کھول کر کھلونے باہر رکھنے لگتاہے۔)

 

طلحہ:(خوش ہوتے ہوے)’’واہ یار۔۔۔روبوٹ،ٹرک اور اتنے اچھے اچھے کھلونے۔‘‘

 

ساجد:’’شکر ہے سب کو الگ الگ چیزیں ملیں ہیں۔‘‘

 

اسد:’’یار تم سب لوگ مل کر ایک مشورہ تو دو!‘‘

 

طلحہ:’’کیسا مشورہ؟‘‘

 

اسد:’’یار !شہری کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔اتنا اچھا نتیجہ لانے والے بچے کو انعام دینے والا ہی نہیں رہاتو انعام کون دے گا۔۔۔اس لیے میں اور شمس یہ فیصلہ کرکے آے ہیں کہ میں اپنی ساری کتابیں اور شمس اپنے کھلونے شہری کو دے دیں گے ۔۔۔مشورہ صرف یہ چاہیے کہ یہ بیگ اور ڈبہ اس کے گھر پر پہنچا دیے جائیں یا اس کو یہیں بلا کر اس کے حوالے کیے جائیں؟‘‘

 

طلحہ:(ساجد کی طرف دیکھتے ہوے جذباتی انداز میں)’’واہ یار کمال ہو گیا یہ تو۔۔۔سب نے ایک ہی بات سوچی ہے۔‘‘

 

شمس:’’سب نے کیا مطلب؟‘‘

 

ساجد:’’یار تمہارے آنے سے پہلے ہم بھی یہی فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘

 

اسد:(خوش ہو کر)’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔۔۔اب بتاؤ کہ یہیں دے دیں یا اس کے گھر چلیں؟‘‘

 

طلحہ:’’یار! میرا مشورہ ہے کہ ہمیں اس کے گھر جا کر اس کو ساری چیزیں دینی چاہئیں۔۔۔اس سے وہ عزت محسوس کرے گا۔‘‘

 

ساجد:’’مگر میرا یہ مشورہ ہر گز نہیں۔‘‘

 

اسد:(حیرانی سے)’’پھر؟‘‘

 

ساجد:’’یار تم لوگوں کواچھی طرح پتا ہے کہ اس کی امی کے انتقال کے بعد سے اس کی چچی کا اس کے ساتھ کیا رویہ ہے اور اس کے ابو کے دنیا سے چلے جانے کے بعدچاچا بھی ویسے نہیں رہے۔۔۔اوپر سے قیامت ان کے بچے۔۔۔ساری چیزوں پر جنوں جیسے بچے قابض ہو جائیں گے تو فائدہ؟۔۔۔اور ویسے بھی کچھ پڑھنا ہو یا کھیلنا ہو ،شام کے وقت ہوتا تو سب کچھ یہیں پر ہے۔۔۔تو وہاں لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

 

طلحہ:(تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوے)’’ہاں یار! ویسے کہا تو تم نے سو فیصد ٹھیک ہے ۔۔۔ویسے کبھی کبھی عقل کی بات بھی کرلیتے ہو تم۔‘‘

 

ساجد:’’شکریہ۔۔۔تم سے تو اس کی بھی توقع نہیں۔‘‘

 

اسد:(طلحہ سے)’’ہاں،ساجد کی بات ٹھیک ہے۔۔۔ایسا کرتے ہیں کہ ابھی ویسے ہی اس سے مل آتے ہیں اور دیکھ آتے ہیں کہ وہ آج آیا کیوں نہیں؟‘‘

 

اسد اورشمس:’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘

 

(سارے بچے ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔اسی لمحے عظیم صاحب اندر داخل ہوتے ہیں۔)

 

عظیم صاحب:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔‘‘

 

سارے بچے:(ایک ساتھ)’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔‘‘

 

عظیم صاحب: ’’بھئی ماشاء اللہ آج تو بڑی رونق لگی ہوئی ہے۔۔۔اتنی ساری کتابیں اور کھلونے ۔۔۔ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی میلے کا بازار ہو۔‘‘

 

طلحہ:’’جی انکل!۔۔۔ہمیں جو انعامات ملے ہیں وہ آج ایک دوسرے کودکھانے لاے تھے۔‘‘

 

عظیم صاحب:اچھا۔۔۔بھئی ہم بڑے صحیح وقت پر آئے ہیں۔۔۔مگر آپ لوگوں کی کدھر کی تیاری ہے؟‘‘

 

ساجد:’’ابو!آج شہری نہیں آیا ناں…..تو اسی کاپتاکرنے جا رہے ہیں کہ وہ کیوں نہیں آیا۔‘‘

 

عظیم صاحب:’’بیٹا بہت اچھی بات ہے ،ضرور جاؤ۔۔۔مگر اپنا انعام لے کرتو دوستوں کو دکھاتے جاؤ۔‘‘

 

شمس:(ساجد سے)’’واہ بھئی! تمہارا انعام بھی آگیا۔‘‘

 

عظیم صاحب:’’بھئی انعام تو ہم دیں گے ہی۔۔۔مگر انعام سے پہلے بھی ایک جیتا جاگتا تحفہ۔۔۔‘‘

 

ساجد:(حیرانی سے)’’مگر۔۔۔وہ ہ۔۔۔کیا؟‘‘

 

عظیم صاحب:’’بیٹا تم دعا ء کیا کرتے تھے ناں کہ اللہ تمھیں ایک بھائی عطاء فرماے۔۔۔تو ہم تم سے کیا کہا کرتے تھے؟‘‘

 

ساجد:’’یہی کہ۔۔۔ پتا نہیں اللہ کب اور کس شکل میں یہ دعاء قبول فرمالے۔۔۔‘‘

 

عظیم صاحب:(آگے بڑھ کردونوں ہاتھ ساجد کے کندھوں پر رکھتے ہوے )’’بیٹا تم نے یہ فرمان سنا ہوگا کہ۔۔۔ ’’سب سے بہترگھر وہ ہے جس میں کو ئی یتیم ہو اور اس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہو‘‘۔۔۔اور تمہیں یہ بھی پتا ہوگا کہ یہ فرمان اس ہستی کا ہے جو سب سے عظیم والدبھی تھے اور دُرِیتیم بھی۔۔۔بس بیٹا!۔۔۔ آج ہم تمھارے لیے ایک بھائی لے آے ہیں۔۔۔ ‘‘

 

ساجد:(حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ)’’مگر۔۔۔آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟‘‘

 

عظیم صاحب:(صوفے پر بیٹھتے ہوے)’’بیٹا !۔۔۔آپ لوگ شہری کی طرف جا رہے تھے ناں۔۔۔پہلے وہ بات پوری کر لیں پھرتحفے پر بھی آتے ہیں اور انعام پر بھی۔۔۔بیٹا!شہری ایک عظیم باپ کا بیٹا ہے۔۔۔اس کے ابو نے ساری عمر ایک مجاہد کی طرح اس لیے جاگ کر گزاری تاکہ قوم کے باقی بچوں کے ابو آرام سے سو سکیں….اور پھر ایک دن وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے…..بیٹا! شہری ایک شہید کی نشانی ہے۔۔۔ اور پہلے کی طرح اس کو ایک بیٹے کی حیثیت سے ہی انعام ملنا چاہئے۔۔۔لہٰذا! ۔۔۔وہ ہم سے ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنا انعام وصول کرے گا۔۔۔ساجد بیٹا!آج سے شہری تمہارا بھائی ہے۔۔۔آج سے ہمارے دو بیٹے ہیں ساجد اور شہریار‘‘۔۔۔(اندر کی طرف آواز لگاتے ہیں)۔۔۔’’شہری بیٹا! اندر آجاؤ۔‘‘۔۔۔

 

(ایک خوب صورت سا بچہ اندر داخل ہو کر سلام کرتا ہے۔بچے خوشی سے اسے دیکھنے لگتے ہیں)

 

عظیم صاحب:(آواز لگاتے ہیں)’’لے آؤ بھئی ان دونوں کے انعامات۔‘‘

 

(اتنے میں ملازم دو بڑے بڑے ڈبے لے کر اندر داخل ہوتا ہے اور میز پر رکھ دیتا ہے۔)

 

ساجد کی امی:(اندر سے آواز لگاتی ہیں)’’ہماری طرف سے بھی اِن سب کو انعامات دے دیجئے اوران کا منھ بھی میٹھا کرادیجیے۔‘‘

(اتنے میں دو ملازم اور اندر داخل ہوتے ہیں ، ایک کے ہاتھ میں پانچ خوب صورت پیکٹ اور دوسرے کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہوتا ہے۔ساجد آگے بڑھ کر شہری کو گلے لگا لیتا ہے۔باقی بچے خوشی میں ان کامنھ میٹھا کرانے لگتے ہیں۔)

(پردہ گرتا ہے)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top