skip to Main Content
شمعون قیصر شہید

شمعون قیصر شہید

 شمعون قیصرشہید

……………

شہید شمعون قیصر کے حوالے سے مختلف شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے تاثرات

……………

 

خاندان کے افراد کے تأثرات

……………

میرا نیک فطرت بیٹا

والدہ شمعون قیصر

……………

کئی دنوں سے ہماری طبیعت اندر سے پریشان تھی شاید مجھے ایسا محسوس ہوا کہ فریال کی برسی آرہی ہے اس وجہ سے مجھے ایسا لگ رہا ہے یا ہمارے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ شہادت سے ایک دن قبل شمعون کے چچا کے یہاں رات کو کھانا تھا۔ سارے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میری طبیعت بہت پریشان لگ رہی تھی۔ میں جلدی گھر آگئی۔
شمعون کافی دیر تک سر دباتے رہے پھر مجھے نیند آگئی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ۱۲ /اپریل ہمارے لیے قیامت کا پیغام لے کر آئے گی۔
شمعون میں بہت خوبیاں تھیں۔ والدین کا فرمانبردار، بزرگوں کا اطاعت شعار اور چھوٹوں سے بہت پیار اور شفقت سے پیش آتا تھا۔ بھائی، بہنوں کا بھی بہت چہیتا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی کسی کام سے انکار نہیں کرتا تھا۔ اس کا روزانہ کا معمول تھا کہ رات میں جس وقت بھی گھر آتا ہمارے پاس آکر ضرور بستر پر بیٹھ جاتا یا لیٹ جاتا۔ دن بھر کی روداد سناتا اور ساتھ ساتھ کبھی سر دباتا، کبھی پاؤں دباتا۔ یہ اس کا معمول تھا۔
اپنی دادی امی کی بھی بے انتہا خدمت کی۔ وہ بھی شمعون سے بے انتہا پیار کرتی تھیں۔ نانی کی بھی بہت خدمت کی۔ اپنے بھتیجے، بھتیجی اور بھانجیوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ ہمیشہ ان لوگوں کے لیے تحفے لاتا۔ گھمانے کے لیے لے کر جاتا۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ بچوں سے ایسا پیار تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ اس کے اپنے بچے ہیں۔ گھر آنے کے بعد بچوں کے پاس بیٹھنا اس کا معمول تھا یا بچے اس کے کمرے میں آجاتے تھے۔ خاندان کے بچوں سے بھی بہت محبت اور پیار سے پیش آتا تھا۔ سب اس کو بہت چاہتے تھے۔ پڑھائی سے بہت دلچسپی تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد آگے بھی تعلیم جاری رکھنے کا پروگرام تھا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔
مطالعے کا شوق تھا۔ رات میں سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ مطالعہ کرنا ضروری تھا۔ اس میں ثابت قدمی، تحمل و بردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ گھر کی سجاوٹ میں پیش پیش ہوتے تھے۔ بہنیں اس سے مشورہ لیتی تھیں۔ پہننے اوڑھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ کس کس چیز کی تعریف کروں مجھ میں لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ ہماری کیفیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ہمارے ماشا اﷲ اور بھی بچے ہیں مگر اس کی جدائی کا غم نہیں بھلا سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہے۔
شمعون نے اپنی بڑی بہن فریال کی خدمت اور تیمارداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ساری رات جاگ کر صبح اسکول جانا بڑی ہمت کی بات ہے۔ ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھ سے پہلے چلا جائے گا اور مجھے اس دنیا میں روتا چھوڑ دے گا۔ جانا سب ہی کو ہے کسی کو بہت جلدی ہوتی ہے جیسے ہمارے بیٹے شمعون کو تھی۔ بس اﷲ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرے اور ہمیں اس سے جنت میں ملواے۔ آمین

*۔۔۔*

……………

تجھے اے گوشہ جگر لاؤں کہاں سے؟

سید محمد حامد قیصر

(چچا شمعون قیصر)

……………

آہ! میرے شہید بیٹے شمعون قیصر! تمہارے لیے میں اپنے احساسات کیا تحریر کروں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جواں سال بیٹے کی یادوں کو محض چند صفحوں تک محدود رکھوں میرے بیٹے میں تمہاری ان کاوشوں کو ان جدوجہد کو ان اخلاص کو اور اپنی تمام تر توانائی کو جسے تم نے اپنے لیے سرمایہ حیات جانا تھا۔ اس کا احاطہ کیسے کروں۔ تمہاری یادوں تمہاری باتوں اور تمہاری تمام تر کارکردگی کو ہر جگہ دیکھتا ہوں۔
وہ دن جب میں معمول کے مطابق اپنے بڑے بھائی سید ممتاز قیصر یعنی شمعون کے والد کے یہاں رات ۹ بجے پہنچا تو شمعون گھر سے نکل رہے تھے۔ موٹر سائیکل پر حسب معمول مسکرا کر سلام کیا اور کہا بس ابھی آتا ہوں۔ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ گھر میں بیٹھا ان کی والدہ سے باتیں کررہا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ شمعون کے بڑے بھائی کی کال تھی اس نے کہا :’’ شمعون کو گولی لگی ہے۔‘‘ بس جیسے میرے جسم سے روح نکل گئی ہو مجھے اس بات کا اندازہ تھا۔ ہمارا پورا گھرانہ جس تحریک کا داعی ہے ان کے مخالف نے یہ کام دکھا دیا۔ ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی تھی، بس فوراً ہی اپنی گاڑی نکالی۔ پڑوس سے اپنے بڑے بھائی جاوید قیصر صاحب کو ہمراہ لے کر تیز رفتاری سے عباسی شہید ہسپتال کی طرف روتا دھوتا اﷲ سے سلامتی کی دعائیں مانگتا روانہ ہوا۔ بیس منٹ میں ہسپتال پہنچا۔ وہاں کشف (کزن شمعون قیصر)نے بتایا کہ زخمی ہے، طبی امداد دی جارہی ہے۔ بھاگتا ہوا ایمرجنسی روم گیا تو وہاں بے یارومددگار محض ایک آکسیجن سلنڈر کے ذریعے علاج جاری تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوراً آپریشن تھیٹر لے جاتے اور سرجری کرتے وقت بہت تیزی سے ضائع ہورہا تھا۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ایمبولینس منگوائی۔ اسی میں شمعون کو شفٹ کیا اور آغا خان کی جانب روانہ ہوئے۔ اسی دوران نبض معدوم ہوچکی تھی۔ آغا خان میں آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہی شمعون نے داعی اجل کو لبیک کہا۔۔۔ 
شمعون نے میرے خاندان میں ایک نیا باب کھولنا تھا کہ وہ پی ایچ ڈی کرتے۔ میں نے اس ضمن میں شمعون کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی وہ میرے اس مشن کو کامیاب کرنے کی تیاری کررہا تھا۔ آہ شمعون ایک پیکر مجسم انسانیت جس میں خدمت اور اﷲ کی رضا کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور کئی محکموں کی آرزؤں کو ادھورا چھوڑ گیا۔ مسلسل محنت نے اسے بہت حد تک اپنے گھر والوں سے دور کر دیا تھا۔ گھر کی کوئی تقریب ہو، شمعون کی شرکت مصروفیت کے باعث ناممکن ہوگئی تھی دیگر افراد اہل خانہ ہمیشہ شاکی رہتے کہ تمہارا پتہ ہی نہیں چلتا کہ تم بھی اس خاندان کے فرد ہو۔ شمعون کی گونا گوں مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ کئی کئی راتیں وہ ساتھی کے دفتر میں گزارتے۔ میں تھوڑے سخت لہجے میں اس سے باز پرس کرتا تو وہ مسکرا کر اس کی وضاحت کرتا مگر جب بھی ہمارے درمیان ہوتا وہ کسی کام کو پسِ پشت نہیں ڈالتا۔ فوراً آمادگی ظاہر کرتا اور کوئی پہر ہوتااسے ضرور انجام دیتا۔ شمعون کے پاس اسلامی تاریخ کے حوالے سے بے پناہ معلومات تھیں۔ اتنی سی عمر میں یہ کمال صرف اسے ہی حاصل تھا۔ کبھی نماز روزے اور دیگر فرائض خداوند ی سے غفلت کا مرتکب نہیں پایا ۔ ہمارے لیے وہ ایک بہترین مثال تھا۔ میرے بڑے بھائی کے تمام بچوں میں یہ بات قابل فخر تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے ۔ آج بھی ہمیں اس پر فخر ہے۔ شمعون نے اپنی محنت سے وہ مقام اتنی جلدی بنا لیا جو عمر کے اس حصے میں بنتا ہے جسے بڑھاپا کہتے ہیں۔ ایک پیسے کا بھی مقروض نہ رہنے والا شمعون ہمیں ہمیشہ کے لیے مقروض کر گیا۔ ہم اس کے لیے کچھ نہ کرسکے اسے فرسٹ ایڈ بھی نہ دلوا سکے۔ یہ سوال ہمیشہ میرا ضمیر مجھ سے کرتا رہے گا۔ عید قرباں پر اس کی عمر کے سارے محلے کے بچے نئے نئے کپڑے پہن کر عید کی رعنائیوں میں گم رہتے مگر وہ اپنی بائیک پر گھر گھر قربانی کی کھالیں جمع کرتا رہتا جس سے اس کے کپڑے خون آلودہ رہتے۔ یہ اﷲ کی خوشنودی کا وہ جذبہ تھا کہ محلے کے بڑے لوگ اسے تجسس سے دیکھا کرتے تھے۔ شمعون کی جیب یا اکاؤنٹ میں کبھی کوئی فاضل رقم نہیں ہوتی۔ وہ اس کا مصرف کسی کی مدد کے لیے ڈھونڈ نکالتا ۔ اﷲ تعالیٰ نے شمعون کو ہر وقت مسکراتا چہرہ عطا کیا تھا۔ جو اس بات کی غمازی کرتا کہ احسان ہے اﷲ کا جس نے ہمیں ہر حال میں خوش رکھا۔ جوانی تک شمعون کی آج تک محلے سے کوئی شکات نہیں آئی اور نہ ہی اس کے کسی تعلیمی ادارے سے۔ ایک مخلص بیٹا جس نے ہمیشہ اپنے والدین اور ان کے والدین کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ میری والدہ محترمہ کی جس قدر اس نے خدمت کی وہ ان کی اولادوں کے تصور سے بہت زیادہ تھی۔ شمعون کی ادب کی طرف رغبت نے بہت سوں کو اس جانب متوجہ کیا اور یہی وجہ تھی کہ اس کی بڑی بہن فریال نے بھی جب تک زندگی نے وفا کی تحریر کا عمل جاری رکھا۔ شمعون نے خاندان کے دیگر بچوں کو بھی اس جانب راغب کیا اور آج ماشااﷲ یہ بچے شمعون کے مشن کو کامیاب کررہے ہیں۔ شمعون شہید تمہارے خون کی قسم! تمہارا مشن جاری رہے گا۔ ہم اپنے کئی بیٹے اس کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارا تو مشن ہی یہی ہے۔

نصر من اﷲو فتح قریب
ان اﷲ مع الصابرین
*۔۔۔*

……………

بہت عزیز تھا وہ مجھے

ثمینہ وقار(پھوپھی شمعون قیصر)

……………

میں جگ مگ کرتا تارا بنوں
دل میرا مچلتا رہتا ہے

ملائشین شلوار قمیص پہنے یہ نغمہ چھوٹے سے شمعون کی آواز میں میں نے پہلی دفعہ سنا۔ ایک عجیب سا احساس ہوا اور اس کو دیکھتی رہ گئی۔ عثمان اسکول کی پہچان بنا۔ پہلے اسکول فنکشن میں شمعون کے تمام گھر والوں نے شرکت کی۔ علامہ اقبال کی مختلف نظمیں شمعون، زیاد اور حماد سے ہم لوگ گاہے بگاہے سنتے رہتے تھے۔

؂ اسلام غالب آئے گا

شمعون بڑا ہو گیا۔ اس کی سوچ بڑی ہوئی۔ اسکول سے کالج اور کالج سے یونی ورسٹی تک کے سفر میں بہت سمجھ دار ہو گیا تھا۔ صبح اسکول میں پڑھاتا اور شام کو یونی ورسٹی جانے لگا۔ بہت سی داستان بہت سی باتیں ہم لوگوں سے کرتا۔ جب ہمارے گھر آتا۔ ہمارا موضوع اسکول ہوتا لیکن یہ ساری تجاویز دینا بیکار ہے۔ یہ کہتے ہوئے اٹھنے لگتی تو کہتا: ’’نہیں نہیں آپ یہ ساری باتیں لکھ کر دیں سر نسیم ضرور پڑھتے ہیں۔‘‘ اسکول ورکشاپ سے لے کر گھریلو مستقبل کی باتیں کتنے مسئلے کو حل کرتا۔ غرض ہر طرح کی باتیں ہم سے شیئر کرتا۔ ایک ایک دوست ایک ایک طالب علم کے بارے میں مجھے بتاتا۔ پھر بہت مصروف ہو گیا اور چپکے چپکے بہت بڑے بڑے کام کر گیا جس کا ہمیں اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اس کی ٹیپ کی ہوئی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے

ہو میرا کام غریبوں سے محبت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اﷲ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو رہ ہو اس راہ پر چلانا مجھ کو

۱۱ /اپریل کو میری آخری ملاقات ہوئی۔ فری کی بہت سی باتیں اس کی کتاب پر ہوئیں۔ میں نے خوب گلے لگایا کہ تم نے اپنا حق ادا کردیا۔ آنکھوں میں بہت سے آنسو لیے وہ مجھے آئندہ ایڈیشن کے بارے میں بتانے لگا۔ آخری بات بھی اسکول کی ہی تھی۔ دیکھیے پھوپھی آپ لوگ شامی بھائی جان کو سمجھائیں کہ بچوں کو عثمان سے نہیں ہٹائیں۔ تربیت بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔
آج پورے ۱۳ دن ہوگئے، میں اپنے کمرے میں نماز پڑھتے ہوئے کھڑکی سے آسمان کو دیکھتی ہوں، وہ سچ مچ ایک تارا بن گیا۔ جو بہت دور چلا گیا ہے۔ میں اس کو روزانہ ہر وقت ڈھونڈتی رہتی ہوں۔

’’بہت عزیز تھا وہ مجھے۔۔۔!!‘‘

 *۔۔۔*

…………… 

وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا
انجم داؤد

(ساس شمعون قیصر)

……………

آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے واقعات دل کو دہلائے رکھتے ہیں۔ آج عائشہ منزل کے قریب دھماکا ہواتو دل میں خیال آیا اﷲ تعالیٰ سب کو اپنی عافیت میں رکھے وہاں سے کسی کا گزر نہ ہوا ہو۔ شمعون کو بھی اسی سلسلے میں کال کرنے لگی۔ آخر فون اٹھا لیا گیا۔ زوردار سلام کی آواز آئی ۔مسکراتا ہوا چہرہ سامنے آگیا۔ میری خیریت پوچھی۔ میں نے کہا: ’’تم کیسے ہو؟ تم کہاں ہو، دھماکا ہو گیا ہے۔ وہی مسکراتا ہوا لہجہ :’’ارے آنٹی آپ پریشان نہ ہوا کریں میں ابھی ادھر ہی سے گزرا دو منٹ پہلے۔اﷲ نے بچا لیا۔ زندگی اور موت سب اﷲ کے اختیار میں ہے۔ موت اگر آنی ہوگی تو میں جہاں بھی رہوں آکر رہے گی۔ ایک لمحہ کو میں چپ ہوگئی کہ اتنی عمر میں اتنا پختہ یقین۔ بے شک زندگی اور موت سب اس ذات کے ہاتھ میں ہے۔ واقعی جب موت آئی تو لمحہ کی تاخیر نہیں ہوئی۔ ظالم نے ایسا مارا کہ شمعون قیصر شہید ہوگئے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں۔ انہیں مردہ نہ کہو۔ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔‘‘ (القرآن)
اور وہ ظالم جس نے چند روپوں کی خاطر اس کی جان لے لی۔ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم واصل ہوگیا۔ شمعون کے لیے دل آج بھی روتا ہے۔ رشتے میں داماد مگر سوا سال کے عرصے میں مجھے بیٹے کی طرح عزیز ہو گیا تھا کیونکہ میرا کوئی بیٹا نہیں۔
رشتہ داری تو ہم لوگوں کی پہلے سے تھی مگر اس رشتہ کے بعد دونوں خاندان ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ شمعون شہید کی کیا کیا باتیں بتاؤں۔ اس نے مشترکہ خاندانی نظام میں دادی جان، انجم باجی (امی جان) اور محبت کرنے والے بہترین رشتوں کے ہاتھوں پرورش پائی۔ ہر کوئی اس کے کردار کا معترف تھا۔ میری اس سے فون پر جب بھی بات ہوئی خیریت کے بعددینی موضوعات پر ہی بات ہوئی اور کتابوں پر تبصرہ اسوہ رسولؐ و صحابہ کرامؓ پر گفتگو ہوئی۔ شایدیہی وجہ ہے کہ وہ بچہ مجھے بہت پیارا ہوگیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کو بھی اپنے نیک بندوں کی کیا ادا پسند آتی ہے کہ وہ بس حکم دے دیتا ہے کہ آجاؤ اور وہ بندہ ہم سے زیادہ اﷲ کا محبوب ہو کر ابدی زندگی کی طرف کوچ کرجاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو اس کے بہترین اعمال کا بدلہ جنت میں بلند درجات کی صورت میں عطا کرے (آمین) بلکہ کرچکے ہوں گے۔ 
اس پیارے بیٹے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ بچوں کی زندگی اسلام کے سنہرے اصولوں کے زیر اثر گزارنے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت دونوں دین کی پیروی کے ساتھ ہو۔ اس کے لیے خود شمعون اور ان کی لاڈلی بہن فریال یاور مل کر ہی کام کررہے تھے۔ فریال یاور کاٹھیک اسی تاریخ کو یعنی ۱۲ ؍اپریل ۲۰۱۳ء میں پچھلے سال انتقال ہوا۔ اسی گھرانے کے لیے دو لاڈلے بچوں کی موت۔ دونوں کا مقصد بھی ایک۔ ان کی والدہ نے بہت بڑا صدمہ برداشت کیا۔ اس کے علاوہ بھی جو چیز میں نے محسوس کی جو شمون قیصر کی خوبیاں تھیں۔ اس کی سادگی، جھوٹ سے پرہیز، فضول خرچی تو سخت ناپسند تھی۔ والدین کی خدمت، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت سب سے بڑھ کر اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا اور جتنے رشتے اﷲ نے دیے تھے۔ ان سب کو مقدم جاننا اپنی اپنی جگہوں پر اور سب کے کام آنا۔ غرض کہ ان بے ریا خوبیوں نے اس کے چہرے پر ایک نور سا بکھیرا ہوا تھا اور وہ چہرہ بھولتا نہیں۔ زندگی کے اتنے کم عرصے میں اتنی محبتیں دے اور لے کر وہ روشن آنکھوں والا مسکراتا چہرہ اب شہادت کا درجہ پا کر ان شاء اﷲ ابدی جنتوں کی طرف محو پرواز ہے اور پیچھے ہم بھی اپنی باری کے منتظر ہیں۔ ہمارے دلوں میں یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا۔ اس کے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کے لہو کے قطرے ہم سے کہہ رہے ہیں

زندگی میری فقط تیری رضا کے واسطے
اور جان دے دوں میرے پیارے خدا تیرے لیے

 *۔۔۔*

……………

روشنی کا سفر
عذرا ظہور

(منکوحہ شمعون قیصر)

……………

شمعون قیصر سے پاکستان کے بچوں کے متعلق اکثر بات ہوتی تھی کیونکہ یہ ایک طرح سے ان کا پیشہ ہی تھا۔ ان کو بچوں سے بہت لگاؤ تھا۔ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر زور دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ آج کل کے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پہ بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے لحاظ سے بھی اور اسلامی اعتبار سے بھی۔ بچوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ بچوں کی رہنمائی کرنا ہمارا کام ہے۔ چاہے وہ ان کی پڑھائی سے متعلق ہو۔ آگے اعلا تعلیم کا شعبہ منتخب کرنے میں ہو یا دینی معاملات میں رہنمائی کرنی ہو۔ وہ خود کوششوں میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح سے بچوں میں تبدیلی لاسکیں۔ بچوں کی آئیڈیل سیاسی شخصیات، کھیلوں اور اداکاروں وغیرہ کے بجاے واپس ان شخصیات کو بنائیں جو واقعی اس کے لائق ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کریں، ان کی زندگیوں سے سیکھیں اور ان تعلیمات کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کریں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنا اصل رول ماڈل بنائیں تاکہ یہ بچے آگے چل کر صحیح مسلمان بنیں، دنیا میں بھی فلاح پائیں اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں۔
امید ہے شمعون کی یہ کوششیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان کے اس مقصد حیات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہمیں بھی محنت کرنی ہوگی اس کا اجر شمعون کے لیے بھی صدقہ جاریہ کے طور پر اﷲ تعالیٰ دے گا اور ہم بھی اس میں شامل ہوجائیں گے۔ ان شاء اﷲ!

 *۔۔۔*

…………… 

 دوستوں،ساتھی قلم کاروں کے قلم سے

……………

شمعون قیصر میرا دوست، میرا بھائی

نجیب احمد حنفی

(سابق مدیر ساتھی)

……………

مجھے کیا معلوم تھا کہ اب شمعون بھائی کے بارے میں لکھنا پڑ جائے گا۔ کیا میں وہ سب لکھ سکوں گا جو شمعون بھائی کی خوبیاں تھیں؟ کیا چند الفاظ ایک جیتے جاگتے انسان کا وہ خاکہ پیش کرسکیں گے جو کہ وہ تھا؟
تعریفیں تو ہم سب ہی جانے والوں کی کرتے ہیں۔ اسلام نے اس کی تاکید کی ہے مگر شمعون بھائی کے بارے میں بتانا میرے لیے انتہائی دشوار ہے۔ اتنا دشوار کہ میں لکھنا بھی نہیں چاہ رہا تھا مگر ساتھی والوں کے اصرار پر میں نے لکھنے کا فیصلہ کیا کہ شاید میں ان کی کچھ ایسی باتیں اگلی نسل تک پہنچاسکوں جس پر عمل پیرا ہو کر وہ امت مسلمہ کو پھر عروج پر لے جاسکے۔ یہی شمعون بھائی کا خواب تھا مگر وہ بہت ساروں کی طرح صرف خواب ہی نہیں دیکھتے رہے بلکہ انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ وہ نہ صرف خود نئی نسل کی تربیت کریں گے بلکہ اس کام کو کرنے والے نوجوانوں کاایک پورا گروپ بنائیں گے تاکہ مسلمان اس دنیا میں پھر سے ترقی کرسکیں۔
مجھے اچھی طرح وہ دن یاد ہیں جب میں مدیر ساتھی تھا۔ شمعون بھائی ان دنوں نئے نئے بزم ساتھی کے جنرل سیکرٹری بنے تھے۔ وہ بہت محنت سے پورے کراچی میں بچوں کے پروگرامات کروارہے تھے۔ ’’ساتھی‘‘ کے نائب مدیر بلال حنیف بھائی جو کہ بہت فعال طریقے سے ساتھی میں موجود تھے۔ وہ انتہائی باصلاحیت اور نیک فرد تھے۔ اچانک آنکھوں کے آپریشن میں ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے وہ انتقال کرگئے۔ یہ وقت ادارہ ساتھی کے لیے انتہائی درد ناک تھا۔ ہر فرد افسردہ تھا۔ خود شمعون بھائی بھی بلال بھائی کے بہت گہرے دوست تھے اور انہوں نے بھی اس واقعے کا بہت اثر لیا۔ اب ایک مسئلہ یہ بھی آپڑا تھا کہ اب ساتھی کے لیے نیا فرد کہاں سے لایا جائے جو بلال بھائی کی جگہ لے سکے۔ اس وقت شمعون قیصر بھائی سے بات کی۔ شمعون قیصر بھائی نے فوراً اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا اور پھر واقعی انہوں نے اس محنت و محبت سے کام کیا کہ حق ادا کردیا۔ مجھے تو ان میں بلال حنیف ہی نظر آتے تھے۔ میرے بعد شمعون بھائی ہی ساتھی کے اگلے مدیر بنے۔ اسی دوران شمعون بھائی سے قربت بڑھتی رہی۔ ان کا کردار دیکھ کر واقعی رشک آتا کہ کتنے نیک اور پاکیزہ خیالات اور عادات کے مالک ہیں۔
اسی دوران انہوں نے عثمان پبلک اسکول میں بچوں کو پڑھانا بھی شروع کردیا۔ ان کی تعلیم بینکنگ اینڈ فنانس میں جاری تھی مگر اس میں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ اسی پریشانی میں وہ ایک دن میرے پاس آئے اور یہ بتایا کہ بینکنگ میں دل نہیں لگ رہا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ کا دل کس میں لگتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں کو پڑھانے میں مجھے بہت لطف آتا ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ پھر آپ ایجوکیشن میں ماسٹرز کرلیں۔ یہ بات انہیں بہت پسند آئی اور انہوں نے ایجوکیشن میں ایم اے کرنا شروع کیا۔ پھر تو انہوں نے خوب دل لگا کر پڑھا اور جامعہ کراچی میں اپنی کلاس میں نمایاں طلبہ میں شامل ہوگئے۔
ان کی زندگی کا بڑا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت تھا۔ جس کے حوالے سے وہ بہت فکر مند رہا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ’’ساتھی‘‘ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ’’وی شائن‘‘ کے تحت نکلنے والے رسالے ’’جگمگ تارے‘‘ کی ادارت سنبھال لی جو پرائمری کے بچوں کے لیے نیا نیا نکالا جارہا تھا۔ انہوں نے سخت محنت کرکے اسے اتنا خوبصورت بنایا کہ ہر ایک دیکھ کر خوش ہوتا۔
’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ ایک رفاہی ادارہ ہے جو کہ پاکستان کے سات ہزار یتیم بچوں کے لیے کام کررہا ہے۔ ان بچوں کی تربیت کے حوالے سے اس ادارے نے ہم سے رابطہ کیا۔ شمعون بھائی اس حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ ہمیں ان بچوں کی تربیت کے لیے سالانہ نصاب بنانا تھا۔
شمعون بھائی اور فصیح اللہ حسینی بھائی اس کام میں میرے ساتھ مسلسل لگ گئے۔ اس کام کے لیے ہم لوگوں نے شمعون بھائی کی شہادت سے تقریباً ایک ماہ قبل تقریباً پورے ملک کا دورہ کیا جگہ جگہ بچوں سے ملے۔ ان کے حالات جانے۔ کئی گاؤں میں گورنمنٹ اسکولوں کا دورہ کیا۔ میرپور خاص، کندھ کوٹ، ڈیرہ غازی خان، لاہور، خوشاب، اسلام آباد، چارسدہ اور دیگر کئی مقامات پہنچ کر فصیح بھائی اور شمعون بھائی نے بچوں میں کام کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی۔ اس سفر میں شمعون بھائی کی خوبیاں اور کھل کر سامنے آئیں کہ کس طرح وہ اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتے ہیں۔
اپنی شہادت سے ایک دن پہلے انہوں نے یتیم بچوں کی تربیت کے حوالے سے نماز ڈائری پر کام کیا اور اس کی فائل مجھے ای میل کی۔ اس کے علاوہ ’’جگمگ تارے‘‘ کا بھی زیادہ تر کام وہ مکمل کرچکے تھے۔ ۱۲/ اپریل کو ان کی بہن فریال یاور کے انتقال کو ایک سال ہوا تھا اس لیے وہ دفتر نہیں آئے۔ کسے معلوم تھا کہ اسی دن وہ اپنی اس بہت محبت کرنے والی بہن سے ملنے چلے جائیں گے۔ بہرحال شمعون بھائی نے جو زندگی گزاری وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ ہمیں بہت کچھ سکھا گئے۔ ہر دل افسردہ ہے، ہر ایک غمزدہ ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کیا ہم شمعون بھائی کے اصل کام اوران کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم خود شمعون بھائی کی طرح اپنی زندگیاں اسلام کی سربلندی اور نئی نسل کی تعمیر کے لیے لگائیں گے؟
اگر ایسا ہے تو پھر بہت افسوس کی بات نہیں کیوں کہ شمعون بھائی تو چلے گئے مگر اپنے پیچھے ہزاروں شمعون تیار کرگئے۔

وہ ایک دیا بجھا تو سیکڑوں دیے جلا گیا

شمعون بھائی کے آخری لمحات
۱۲ /اپریل ہفتہ رات دس بجے میں ایک درس قرآن میں شریک تھا۔ درس کے اختتام پر چاے کا اہتمام تھا۔ اسی وقت اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ موبائل آن کیا تو دوسری طرف شمعون بھائی کی آواز آئی۔
’’نجیب بھائی جلدی عباسی شہید ہسپتال پہنچیں، مجھے گولی لگ گئی ہے۔‘‘
میں نے فوراً کشف بھائی (شمعون بھائی کے چچا زاد بھائی) کو ساتھ لیا اور ہم ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں سب سے پہلے ہم لوگ ہی پہنچے تھے۔ ایک اسٹریچر پر شمعون بھائی موجود تھے جن کو سامنے سے گولی لگی تھی اور پیٹھ سے نکل گئی تھی۔ ہسپتال میں انتہائی کم عملہ تھا اور ڈاکٹر تو نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ 
ہم نے فوراً خون کا انتظام کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی مگر اتنے بڑے ہسپتال میں سہولتوں کی بہت کمی تھی۔ اس دوران دیگر بہت سے افراد آچکے تھے۔ شمعون بھائی کو فوراً ایک اور ایمبولینس منگوا کر ایک بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا مگر وہ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے تھے۔’’اِنَّ لِلّٰہِ و اِنَ الیہِ راجِعون‘‘
جب شمعون بھائی کی شہادت کی خبر آئی تو میں ہسپتال میں قرآن پڑھ رہا تھا۔ شہادت کی خبر ملنے پر میں جن آیتوں کی تلاوت کررہا تھا ان کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں گے اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ انہیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ آیت ۱۵۴ تا ۱۵۷)
یہ آیتیں اسی وقت تلاوت میں آنا میرے لیے ایک معجزہ تھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کی طرف سے اشارہ ہے کہ شمعون بھائی اپنے صحیح مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ بعد میں بینک میں لگے ویڈیو کیمرے کی فوٹیج سے معلوم ہوا کہ شمعون بھائی جب بینک کے اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکال کر باہر نکلے تو ایک آدمی نے ان سے پستول دکھا کر پیسے مانگے مگر شمعون بھائی نے اسے دینے سے صاف انکار کردیا جس پر اس نے انہیں گولی ماردی۔
اس طرح شمعون بھائی باطل کے سامنے نہ جھکنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔

*۔۔۔*

……………

وہ یار کم سخن کئی حکایتیں سنا گیا
فصیح اللہ حسینی

(مدیر ماہنامہ ساتھی)

……………

زندگی کسی سے وفا نہیں کرتی۔ ہمارے بہت سے چاہنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سے روٹھ جاتے ہیں اور ہم صرف صبر کرتے رہ جاتے ہیں۔ مگر اللہ کے کچھ نیک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ زندہ ہوتے ہیں تو ہمیں ان کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ان کے چلے جانے کے بعد ہمیں اپنی یتیمی کا احساس ہوتا ہے۔ پھر ہم ان کی سیرت کے روشن پہلوؤں پر فخر کرتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ شمعون بھائی میرے لیے ،بلکہ ہم سب کے لیے ایسے ہی ثابت ہوئے۔
میں 2008میں نیا نیا ساتھی میں آیا تھا۔ اس وقت ساتھی میں نجیب بھائی، عمیر صفدر بھائی سے ملاقات ہوئی۔ شمعون بھائی حج پر گئے ہوئے تھے، اس وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک روز نجیب بھائی کے پاس شمعون بھائی کا فون آیا۔ انہیں جب پتا چلا کہ میں بھی ساتھی میں آگیا ہوں تو انہوں نے نجیب بھائی سے کہہ کر مجھ سے بات کی۔ ساتھی میں آنے کے بعد یہ میری ان سے پہلی دفعہ بات ہوئی تھی ۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ میرے آنے پر بہت خوش ہیں۔ پھر جب وہ حج کر کے واپس آئے تو ان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں، دوستی اور رفاقت میں تبدیل ہوگئیں۔ وہ نہایت نرم مزاج، خوش اخلاق اور کم گو انسان تھے۔ کبھی گفتگو میں حصہ لیتے تو بہت محتاط رہتے کہ کہیں کوئی غلط بات نہ کر جاؤں۔ایک روز میں نے کہا کہ آپ ہمارے درمیان تو بہت کم بولتے ہیں۔ اسکول میں پڑھاتے کیسے ہیں؟ بظاہر کوئی جواب نہ دیا اور صرف مسکرا دیے۔۔۔ مگر آج ان کے جانے کے بعد ان کے شاگردوں کی زبانی شمعون بھائی کی محبت کے قصے سنتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے غلط تھے اور وہ کتنی محبت کرنے والے استاد تھے۔ ان کے پاس شاید بچوں کو مطمئن کرنے والے دلائل نہ ہوتے ہوں، مگر وہ اپنی محبت اور خلوص سے ان کے دل موہ لیتے ہوں گے۔عثمان پبلک اسکول میں پڑھانے کے دوران بزم ساتھی کی نظموں کے لیے انہوں نے ہی بچوں کو تیار کیا۔ آج ان کے ہاتھوں سے تیار ہوئے بچے ہیں جن کی آوازیں ہمیں شمعون بھائی کی محنت یاد دلاتی ہیں۔ بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر لانا اور تیاری کروانا۔ پھرریکارڈنگ کے بعد سب کو گھر پر چھوڑنا۔ اس دوران ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا۔ کسی کے والدین کو کوئی شکایت ہے تو وہ دور کرنا۔ یہ سارے کام وہ محبت اور خندہ پیشانی سے انجام دیتے۔ بچے بھی خوشی خوشی ان کے کہنے پر آجاتے تھے۔
وہ بہت نفاست پسند تھے۔ کھانے کے معاملے میں بھی چیزوں کا بہت خیال رکھنے والے تھے۔کھانے کے دوران اگر کسی جانور یا مکروہ چیز کا ذکر آجاتا تو کھانا چھوڑ دیتے تھے۔ نازک طبیعت ہونے کی وجہ سے ان کو متلی شروع ہوجاتی۔ ایک دفعہ دفتر میں چوہا گھس آیا۔ دفتر میں میرے اور ان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ہم دونوں مل کر چوہے کو مارنے لگے۔ پونچھا لگانے والے پونچھے سے ہم نے اس کو قابو کیا۔ شمعون بھائی بدستور منھ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ چوہا جب پونچھے میں الجھ گیا تو میں نے موقع پا کر اس پر ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔ چوہا تڑپنے لگا۔ شمعون بھائی نے جب چوہے کی یہ حالت دیکھی تو اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اس طرح کے معاملات میں وہ بہت حساس واقع ہوئے تھے۔ایک جانور کا یہ حشر ہوتا دیکھ کر بھی وہ برداشت نہ کرسکے۔
شمعون بھائی سادہ طبیعت ہونے کی وجہ سے اکثر فیصلہ کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ایک روز ہم کچھ طے کر رہے تھے کہ میں نے ان سے کہا کہ اس طرح نہ کریں۔ اس بات پر میرا ان سے اختلاف ہوگیا اور میں ناراض ہوکر چلا گیا۔ دو تین دن تک ان سے ملاقات نہیں کی۔ تیسرے روز وہ میرے گھر آگئے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ان سے نہ ملوں اور بہانا کردوں۔ مگر پھر یہ احساس ہوا کہ وہ اتنی دور سے آئے ہیں۔ ان کو گھر پر بٹھایا۔ میرے اندر غلطی کا شدید احساس تھا۔میں ان سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ مجھے ڈانٹیں گے۔ اس لیے کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی۔ بالآخر شمعون بھائی نے ہی بات کا آغاز کیا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ دفتر کب آئیں گے؟ ان کی بات سن کر تو میری کیفیت ہی بدل گئی۔ پھر جو ناراضی تھی وہ چند باتوں کے دوران ختم ہوگئی۔ میں نے اور انہوں نے ساتھ کھانا کھایا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں تو عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ کیسا میٹھا انداز تھا ان کا منانے کا۔
جب ساتھی میں وہ مدیر تھے تو ایک روز موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے ان کو حادثہ پیش آگیا۔ ٹانگ میں چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے ان کو کافی تکلیف تھی۔ مگر دوسری طرف ساتھی میں کام بہت زیادہ تھا اور ان کے پاس اسکول کا کام بھی بہت جمع ہو گیا تھا۔ شمعون بھائی چاہتے تو کچھ دن گھر پر آرام کر سکتے تھے۔ لیکن شمعون بھائی نے سامان سمیت ساتھی میں ڈیرہ ڈال لیا اور تین چار روز تک ساتھی میں رہتے رہے۔ہم میں سے کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ رک جاتا تھا۔ اپنے مقصد اور کام سے انہیں اس حد تک لگاؤ تھاکہ وہ راتوں کو دیر تک جاگ جاگ کر اپنا کام نمٹاتے رہتے تھے۔ شہادت کے بعد بھی ساتھیوں نے بتایا کہ اکثر رات میں ہمارے گھر آجاتے کہ رات دیر تک جاگ کر کام کرنا ہے۔ راتوں کو جاگ کر کام کرتے اور پھر صبح اپنی مصروفیات میں لگ جاتے۔ پتا نہیں نیند کب کرتے تھے؟ شہادت سے تقریباً ایک سال پہلے سے ان کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ اکثر رات میں تین چار گھنٹے ہی سو پاتے تھے اور صبح اسکول چلے جاتے تھے۔ مگر اس آخری سال میں وہ اپنی زندگی کا ایک خواب ضرور پورا کر گئے۔ 
شمعون بھائی کی شہادت سے پورے ایک سال پہلے ان کی بہن اور ساتھی کی قلمکار فریال باجی کا انتقال ہوا تھا۔ باجی کے انتقال کے بعد شمعون بھائی کی صرف ایک ہی خواہش رہ گئی تھی کہ کسی طرح باجی کی ساتھی میں شائع ہونے والی کہانیاں کتابی صورت میں آجائیں۔ شمعون بھائی اس کام میں نہ صرف خود انہماک سے لگے بلکہ ہم سے بھی کتاب پر کام کرنے کے حوالے سے بار بار پوچھتے رہتے تھے۔ کتاب کی ترتیب، اس کی پروف خوانی اور تصحیح سے لے کر اس کے شائع ہو کر آجانے تک شمعون بھائی بے چین رہے۔ بس ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ باجی کی کتاب جلدی سے آجائے۔ شاید انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ مہلت عمل بہت کم ہے۔ ۱۲؍اپریل کو ہفتہ کے روز شمعون بھائی کی شہادت ہوئی۔ ۲؍ اپریل کو باجی کی کتاب شائع ہوکر آئی ۔ ہم نے شمعون بھائی کو گھر والوں کے لیے کتابیں دینا چاہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں۔۔۔ آپ سب (ساتھی کی ٹیم) میرے گھر آئیں اور سب کے سامنے کتابیں دیں۔ شہادت سے پہلے والے ہفتے کو ہم ان کے گھر پر تھے۔ شمعون بھائی نے اپنے سارے چچا اور چچا زاد بھائیوں کو گھر میں جمع کیا ہوا تھا اور سب کے لیے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ شمعون بھائی نے میرے ہاتھوں سے سب کو کتاب دلوائی۔ اس دوران وہ خود تصویریں بناتے رہے۔ پھر میں نے ان کو کتاب پیش کی۔ اس دن وہ بہت خوش تھے، گویا بہت بڑی ذمہ داری انہوں نے پوری کردی ہو۔
انگریزی میگزین وی شائن کے تحت نجیب بھائی کے ساتھ مل کر میں اور شمعون بھائی ہیلپنگ ہینڈ کے یتیم بچوں کے لیے ایک تربیتی نصاب پر کام کر رہے تھے۔ مارچ کے مہینے میں ہم دونوں کو سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں کا دورہ کرنا تھاجس میں ہمیں سندھ اور پنجاب کے بچوں سے ملنا تھا۔ اس دوران ہم مختلف اسکولوں میں جاتے رہے اور بچوں سے ان کی دلچسپیوں، ان کے مشغلوں اور ان کی تعلیم سے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے۔ ہم جہاں جاتے شمعون بھائی بچوں میں گھل مل جاتے۔ جب ہم جا رہے ہوتے تب تک بچے بھی شمعون بھائی کے گرویدہ ہو جاتے۔ کبھی بچے ان سے آٹو گراف لیتے، کبھی اپنے ہاتھوں پر شاباش لیتے۔ ایک اسکول میں شمعون بھائی نے بچوں کو سرگرمی کروائی اور اس کے بعد چیک کرنے لگے۔ چیک کرتے ہوئے وہ ہر بچے کے صفحے پر اس کو شاباش دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کا ہجوم ان کے گرد ایسا جمع ہو ا کہ ہماراباہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ ڈیرہ غازی خان میں ہم نے کچھ بچوں سے ان کے گھروں پر ملاقات کی۔ اس مختصر سی ملاقات میں شمعون بھائی بچوں سے یوں مانوس ہوگئے کہ ہمیں لگا ہم کئی سالوں سے ان بچوں کو جانتے ہیں۔ بچے بھی ایسے بے تکلف ہوئے کہ جاتے وقت انہوں نے ہمارا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اور دوبارہ ملنے کی درخواست کی۔ شمعون بھائی کی شہادت کی خبر جب ان بچوں کو ہوئی تو ہیلپنگ ہینڈ کی طرف سے ان بچوں کے ہاتھوں سے لکھا ہوا تعزیتی پیغام مجھے ای میل پر موصول ہوا۔ اس پیغام میں چھپا بچوں کا درد صاف واضح ہو رہا تھا۔ شمعون بھائی واقعی ایسے تھے کہ ملنے والے پر اپنا اچھا تاثر چھوڑ دیتے تھے۔
یہ تو شمعون بھائی کا بچوں کے ساتھ تعلق تھا۔ مگر وہ تو ہر ایک کے ساتھ ایسے ہی پیش آتے تھے۔ کوئی کتنا بھی ان کے ساتھ برا کرلے مگر شمعون بھائی کبھی بدلہ نہیں لیتے تھے۔ انہیں ہر وقت یہی فکر لگی رہتی کہ میری وجہ سے کوئی ناراض نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوراََ دوسرے سے غلطی کی معافی مانگ لیتے تھے۔ سندھ اور پنجاب میں اسکولوں کے دورے کے بعد ہم سفر کے دوران اسکول میں کی جانے والی سرگرمیوں کی یادداشت تحریر کرتے تھے کہ کوئی خاص نکتہ ہمارے ذہن سے رہ نہ جائے۔ اس دوران تھکن کے مارے میرا برا حال ہوتا، مگر شمعون بھائی بڑی تکلیف اٹھا کر دوران سفر لکھتے جاتے۔ پھر وہ مجھ سے کہتے کہ رات میں بیٹھ کر اس کو مکمل کر لیں گے۔ مگر جب رات کو ہم بیٹھتے تو میری ہمت جواب دے جاتی اور نیند کی وجہ سے اونگھنے لگتا۔ مگر شمعون بھائی یہاں بھی درگزر سے کام لیتے اور خود سارے نکات تحریر کر لیتے۔ میں جواب میں کہتا کہ آپ یادداشتیں لکھ لیں ، میں رپورٹ تیار کرلوں گا۔ ہوا بھی یہی کہ تمام دورے کے دوران صرف وہ ہی یادداشتیں لکھتے رہے اور ہم ان سے کہتے رہے کہ آپ یہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ بعد میں ہمارے کام آئے گا۔ کسے معلوم تھاکہ شمعون بھائی ہمارے لیے یہ آخری کام کر رہے ہیں۔ میں نے بعد میں اسکولوں کی رپورٹ ان کی یادداشتوں کی بدولت ہی مکمل کی۔ سندھ و پنجاب کے دورے کے دوران ہم لاہورگئے جہاں اسلامک سوسائٹی آف چلڈرن ہابیز پاکستان کے تحت پورے پاکستان سے شائع ہونے والے چھ رسائل اور بچوں میں کام کرنے والی چار بزموں کی ٹیم کے لیے ٹریننگ کیمپ منعقد ہونا تھا۔ شمعون بھائی کو بھی اس کیمپ میں پروگرام کرنا تھا۔ ہم رات کو دیر سے لاہور پہنچے اور دفتر آکر سو گئے۔ صبح فجر میں آنکھ کھلی تو شمعون بھائی بھی جاگ گئے تھے۔ شمعون بھائی نے اچانک مجھ سے پوچھا۔ ’’فصیح بھائی! آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں؟‘‘ میں اس اچانک سوال پر پریشان ہو گیا۔ میں نے کہا :’’ نہیں ! میں کیوں ناراض ہوں گا؟ خیریت تو ہے آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘ کہنے لگے:’’ بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا۔ ‘‘
شمعون بھائی کی شہادت کے بعد ان کی زندگی کے آخری ایام پر نظر دوڑاتا ہوں تو ان کی زندگی اختتام کی طرف جاتی محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کو احساس ہو گیا تھا کہ وقت کم ہے۔ ان کے آخری ایام میں ان کے سارے کام ترتیب وار ہوتے گئے۔ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے ہمیں مذکورہ کیمپ کا ایجنڈا بھی ترتیب دینا تھا۔میں نے ان سے کہا کہ دوپہر میں ایجنڈا بنالیتے ہیں۔ کہنے لگے ۔۔۔’’نہیں! امی کو پاسپورٹ بنوانے کے لیے لے جانا ہے۔ آج کا دن طے کیا تھا میں نے امی سے۔ آج نہ لے کر گیا تو پھر پندرہ دن بعد واپسی ہوگی۔‘‘
شمعون بھائی نے جاتے جاتے ہمارے لیے اللہ پر بھروسے کی عمدہ مثال پیش کی۔ان کی شہادت بھی اس کیفیت میں ہوئی کہ انہوں نے اپنی ساری رقم دوسروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دی ہوئی تھی۔ فریال باجی کی کتاب کے لیے انہوں نے جو پیسے رکھے ہوئے تھے وہ ایک ضرورت مند دوست کو دے دیے تھے۔ جب کتاب شائع ہو کر آگئی تو اس کی ادائیگی انہوں نے اس رقم سے کردی جو ان کو وی شائن میگزین سے ملنی تھی۔ ڈکیتی کے دوران جب ڈاکو نے ان سے پیسے چھیننا چاہے تو ان کے پاس صرف پانچ سو روپے تھے جو انہوں نے اے ٹی ایم مشین سے نکالے تھے۔ انہوں نے وہ بھی ڈاکو کو نہ دیے اور مزاحمت کی۔ میں سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جب ان سے پوچھیں گے کہ بتاؤ تم نے اپنی جان کس راستے میں دی تو کہیں گے کہ ’’ اے اللہ میں نے آپ کے راستے میں دین کی خدمت کرتے ہوئے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے ان کی تحسین کریں گے۔ پھر اللہ پوچھے گا کہ تم نے جو مال کمایا وہ خرچ کہاں کیا؟ اور جو مال تم نے کمایا اس کا حساب دو۔ شمعون بھائی مسکراتے ہوئے جواب دیں گے کہ ’’اے اللہ میں نے جو مال کمایا وہ تیرے بندوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور تیرے دین کے کام میں خرچ کیا۔اب میں اس حال میں تیرے پاس آیا ہوں کہ میرا سارا مال تیرے بندوں کے پاس ہے اور یہ آخری پانچ سو روپے میرے اکاؤنٹ میں تھے جن کی حفاظت کرتے ہوئے میں نے اپنی جان دے دی۔‘‘
شمعون بھائی کی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت ہمیں بہت سارے پیغام دے گئی اور ہمیں سوچنے پر مجبور کر گئی کہ ہم دنیا کے کھیل تماشوں میں اپنی خواہشات کی پیروی کریں یا اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کے راستے پر اپنی زندگی کو وقف کرتے ہوئے نئی نسل کی تربیت کا کام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شمعون بھائی کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے مشن کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ آمین

*۔۔۔*

……………

خزاں پرستوں کا ایک اور شکار
اعظم طارق کوہستانی
(نائب مدیر ماہنامہ ساتھی)

……………

میری ایسی حالت پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ کچھ چھن جانے کا احساس۔۔۔ افسوس جیسے لفظ سے گہری آشنائی اور غم سے دل کا بوجھل ہونا کیا ہوتا ہے یہ مجھے شمعون بھائی کی شہادت کے وقت پتا چلا۔ منٹوں میں حالت اس درخت جیسی ہوگئی تھی جو راتوں رات خزاں کی لپیٹ میں آکر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ یہ کیفیت وقتی نہیں تھی۔ میں شمعون بھائی کو جتنا سوچتا ہوں اتنا ہی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہوں۔ مجھے ان کی موت کا یقین نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اچانک میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے مخاطب کریں گے۔ ’’اعظم بھائی! چلیں۔‘‘
دو سال۔ جی ہاں۔ صرف دو سال کا عرصہ تو ہم نے ایک ساتھ گزارا تھا۔ ساتھی کی ادارت میں آنے کے بعد ہم مزید قریب آگئے تھے۔ کہیں کھانے کے لیے چلنا ہو یا کوئی مختصر سفر۔۔۔ میری خواہش ہوتی کہ ان کے ساتھ ساتھ رہوں۔ یادوں کا ایک سیل رواں ہے جو بہہ رہا ہے۔ ایک ایک لمحہ کسی جیتی جاگتی فلم کی طرح یاد آرہا ہے۔ شمعون بھائی کے حوالے سے تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے مگر فی الحال ہمت نہیں ہورہی کہ اسے قرطاس پر منتقل کرسکوں۔ ان شاء اللہ بہت جلد ان تمام یادوں کو تحریر کروں گا۔ جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
ان کی شہادت پر دل غمگین تھا اور آنکھ آنسو بہا رہی تھی لیکن ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہی کہیں گے کہ جو ہمارا رب چاہے ہماری رضا اس میں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کا مجموعی احساس آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ ہماری بے حسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ہم مزاحمت کرنے والوں میں سے نہیں رہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں برائیوں نے اتنی شدت کے ساتھ سر اٹھایا ہے کہ اس کا اندازہ اب ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ شمعون قیصر بھائی نے مزاحمت کی روایت کو زندہ رکھا۔ مجھے فخر ہے کہ شمعون بھائی نے مزاحمت کی اور اس حدیث کے مصداق جنت کے مسا فر ٹھہرے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول یہ فرمائیے! اگر کوئی آدمی زبردستی میرا مال مجھ سے لینے کی نیت سے آئے تو میں کیا کروں؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اپنا مال اسے مت دے۔‘‘
اس نے کہا:’’اگر وہ مجھ سے لڑے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو بھی اس سے لڑ۔‘‘
اس نے کہا:’’اگر وہ مجھے قتل کردے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو۔۔۔تو شہید ہے۔‘‘
اس نے کہا:’’ اگر میں اسے قتل کردوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘(صحیح مسلم)

*۔۔۔*

……………

رہتے ہو تم دلوں میں
عبدالصمد بھٹی

(نائب مدیر ماہنامہ ساتھی)

……………

’’بھیا یہ خط پوسٹ کرنا ہے کیسے کروں‘‘؟
میں نے جواب دیا پوسٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں جاؤں گا تو ہاتھ کے ہاتھ دے دوں گا۔
’’ ٹھیک ہے بھیا لیکن یاد سے پہنچا دیجیے گا‘‘۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
’’آپ لکھتے کیوں نہیں ؟لکھا کریں نا‘‘۔
نہ لکھنے کی وجہ بتائی تو فرمایا کہ’’ بھائی کی زندگی پر لکھیں جو ایک مثال ہے۔ ہم اسے شائع کریں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے ان شاء اللہ کوشش کروں گا‘‘
میں نے جواباً کہا۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
’’ہم آپ کے پاس آئیں گے واپسی پر۔ ہمیں بھی بہت شوق ہے آپ کا گاؤں دیکھنے کا‘‘۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
’’معذرت ہم نہیں آسکیں گے۔ شیڈول بہت مصروف ہے۔پھر کبھی خاص آپ کے لیے آئیں گے ان شاء اللہ۔آپ ناراض مت ہوں۔ہم ان شاء اللہ ضرور آئیں گے‘‘۔
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔
ذہن و دل میں عجیب قسم کے خیالات کی ہلچل مچی ہوئی ہے۔میرا چھوٹا بھائی اپنے معصوم ہاتھوں سے لکھا خط مجھے دیتا ہے کہ ساتھی کے دفتر پہنچانا ہے۔خط نہیں پہنچ پاتا۔خاندان بھر بلکہ محلے بھر کا راج دلارااور چھوٹی سی عمر میں تمام روزے سخت گرمی میں ہمت سے پورے کرنے والا (حالانکہ روزے فرض بھی نہیں ہیں)نمازی،تحریر و تقریر کا شہسوار اچانک روتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ مجھے فکری اور نظریاتی طور پر لاوارث کر جاتا ہے۔اس کے جانے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اسکی اتنی مثالی زندگی پر لکھیں جو یقیناًدوسروں کے لیے مشعل راہ ہے۔کوشش کا ارادہ اور وعدہ کرکے رخصت ہوتا ہوں تو ایک سال تک ملاقات اور بات نہیں ہو پاتی۔ایک سال بعد ملاقات سے نئے سپنے،نئے وعدے اور نئی امنگیں جاگتی ہیں۔رابطہ بڑھتا ہے۔کراچی سے گاؤں جاتا ہوں، وہ بھی آنے کا وعدہ کرتے ہیں۔پھر نہ آسکنے پر بار بار معذرت اور آئندہ آنے کا وعدہ۔ لیکن پھر ایک دن وہ بھی چلے جاتے ہیں اچانک اسی طرح روتا تڑپتا چھوڑ کر۔ہر بات مان لینے والے کوئی بات نہیں مانتے اور چلے جاتے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے۔کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ پہلے تو لاوارث تھا اب یتیم بھی ہو گیا۔ابھی تو بھائی کی زندگی پر کچھ نہیں لکھا تھا۔آپ نے دو دن پہلے تو گاؤں پر لکھنے کا کہا تھا اور اب کچھ بھی لکھوائے بنا چلے گئے۔وہ جو آنے کا وعدہ تھا وہ کیا ہوا؟آپ تو اپنے وعدے کے بہت پکے تھے۔آپ نہ آئیں یہ تو دیکھیں میں نے بھائی کی زندگی پر قلم اٹھایا ہے۔آپ کی خواہش پوری کر دی ہے۔
یہ تذکرہ ہے ان پاکبازوں کا جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے،جہانزیب احمد میرا چھوٹا بھائی ۱۱ ستمبر ۲۰۱۱ء کو رخصت ہوا(اور چھوٹا ہونے کے باوجود ہمیں اپنے نقش قدم پر چلنے کی راہ سجھا گیا) اور میرے بڑے بھائی شمعون قیصر،شمعون بھائی نے مجھے جہانزیب کی زندگی پر لکھنے کا کہا تھا لیکن آہ! اس کے ساتھ ہی آپ کے لیے بھی لکھنا پڑ رہا ہے۔دل غم سے بوجھل ہے لیکن زبان سے وہی کہیں گے جو اللہ کو پسند ہو۔

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے

*۔۔۔*

……………

مثالی استاد

یوسف منیر

( ساتھی استاد، عثمان پبلک اسکول)

……………

یہ کیسی اضطرابی اور غم کی کیفیت ہے جو آج پھر محسو س ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اپنا بہت قریبی مجھ سے کوسوں دور چلا گیا؟ شا ید ایسا ہی ہے۔ شہید شمعون قیصر بھائی سے میرا تعلق بہت لمبے عرصے پر محیط نہیں تھا۔ ویسے تو ما ہنامہ ساتھی کے حوالے سے ان سے معمولی تعارف تو تھا مگر ان سے قلبی تعلق اس وقت پختہ ہوا جب عثمان پبلک اسکول کے حلقہ درس و تدریس میں بحیثیت مدرس میں شامل ہوا۔ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک، انتہائی ملنسار، شفیق، محنتی اور حقیقت میں ایک معلم تھے۔ وہ ہر وقت عملی طورپراس کوشش و فکر میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح ہر طالب علم بہترین صلاحیتوں کے حصول کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کا بہترین نمونہ بن جائے۔ اُن کی شخصیت کا کچھ نمایاں طرہ امتیاز بھی تھا اور آج جبکہ وہ شہید ہو چکے ہیں محسو س ہو تا ہے کہ ایسے لو گوں کو یہ رتبہ ملا کرتا ہے۔ وہ اکثر جب اسکول پہنچتے تو ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہو تی تھی۔ تدریس سے فراغت کے بعد میز پر سر رکھ کر سو جایا کرتے اور اکثر پو چھنے پر بتاتے کہ آج رات گئے تک ساتھی یا جگمگ تارے کا کام مکمل کررہا تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عالم اسلام کا مستقبل علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر شخصیت کے حامل بچے ہی ہو ں گے ۔اس لیے وہ اپنے شب و روز اور اپنی بھر پور صلا حیت صرف کر رہے تھے۔ وہ بچوں و اسا تذ ہ کے لیے آئیڈیل تھے کیو نکہ وہ کردار کے غازی تھے۔ ہمارے سیکشن میں نماز ظہر کے امام تھے ۔نماز کے بعد اکثر بچوں کی اخلاقی بڑھوتری کے لیے انتہائی خوب صورت کہا نی کے انداز میں درس حدیث دیتے تھے۔ وہ کبھی کسی سے نالاں نہیں رہے ۔اکثر اپنی خامیوں پر بھی گرفت کرتے تھے ۔ درس کے لیے نت نئے انداز و ذرائع کا استعمال ان ہی کا خاصہ رہتا تھا۔ ایک خا ص بات یہ ہے کہ عموما لوگ اپنے کمپیو ٹر کے وال پیپر کے لیے کوئی خوب صورت منظر منتخب کرتے ہیں مگر شہید شمعون قیصر بھائی کے وال پیپر پر ’’اے اللہ مجھے جہنم کی آگ سے بچا‘‘ کی تصویر لگی رہتی تھی اورہم گواہ ہیں اے اللہ !ان کی ساری زندگی کی تگ و دوبس اسی آگ سے نجات کے لیے تھی۔ کمرہ اساتذہ (اسٹاف روم) کے اندر ان کی گفتگو کامحور بھی اکثر کسی طالب علم کی صلاحیت، کمزوری کی اصلاح، اخلاق و کردار کی بہتری ہی رہتی تھی۔ وہ مجھ جیسے بہت سارے استادوں کے رہنما بھی تھے ۔ہر طرح کے مسئلے اور دلچسپی سے متعلق ہم ان سے رہنما ئی طلب کرتے تو وہ بہت نرم انداز میں، مختلف حوالوں سے مثالوں کے ساتھ ہماری رہنمائی فرماتے۔ یہی و جہ تھی کہ تما م ہی استادوں کی آنکھیں ان کے جنازے والے روز نم ناک تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہید شمعون قیصر بھائی کی بے داغ جوانی کی قسم کھا ئی جا سکتی ہے اور جب اس کا آخری دیدار ہوا تو بے اختیار دل میں سورۃ الفجر کی یہ آیت رواں ہو گئی ۔’’اے نفسِ مطمئن، چل اپنے ربّ کی طرف۔ اِس حال میں کہ تْو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش ( اور اپنے ربّ کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔‘‘(سورۃ الفجر) واقعی جنت کی حسن و رعنائی اور آسائشیں ایسے لو گوں کے لیے ہی ہوں گی جن کی زندگی شہید شمعون قیصر بھائی کی طرح بسر ہوئی ہوگی۔ میں عزم کرتا ہو ں کہ اِن شاء اللہ بقیہ زندگی میں ان کے مشن کو آگے بڑ ھاؤں گا۔ ان کی کوشش تھی کہ معمار امت پیدا کریں میری بھی جدوجہد یہی رہے گی تاکہ جنت میں ہماری ملا قات ہو اور اس موضوع پر ہما ری محفل جمے۔ اِن شاء اللہ

*۔۔۔*

……………

مثالی بھائی

فوزیہ خلیل

(ساتھی قلم کارہ)

…………… 

یہ تو صرف اﷲ رب العزت ہی جانتے ہیں کہ جب وہ کسی بندے کو اپنے پاس بلاتے ہیں تو اس میں اس کی کیا مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے اور ایک ایسا بندہ جو کہ اس کی مخلوق کے بہت سے کاموں کو لے کر چل رہا ہو۔ وہ کام تو ادھورے رہ جاتے ہیں اور بندہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ بے شک ہماری محدود عقلوں کی رسائی نہیں کہ وہ یہ حکمتیں سمجھ سکے۔ مگر ہم اس کی رضا پر راضی رہیں گے۔ آنکھیں بے شک آنسو بہائیں مگر دل کو راضی رکھیں گے۔
شمعون بھائی سے لکھنے لکھانے کے حوالے سے تعلق بہت پرانا ہے۔ اکثر ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔ اکثر کہانیاں لکھنے کے لیے ایسے آئیڈیاز دیا کرتے تھے کہ سن کر مزہ آجاتا تھا۔ میں فریال یاور کے انتقال پر ان کے گھر گئی تھی۔ اس وقت غسل دیا جا رہا تھا۔ شمعون بھائی سر جھکائے تیزی سے کام میں لگے تھے۔ کبھی پانی گرم کرکے دینا کبھی خواتین اندر سے کسی چیز کا تقاضا کرتیں۔ وہ دوڑتے پھررہے تھے۔ زندگی میں بھی مثالی بہن اور موت کے بعد بھی ان کے لیے کوشاں ۔ اسی محبت سے فریال یاور کے لیے انہوں نے بہترین کتاب چھپوائی۔ خود میری اپنی کتاب چھپوانے میں ان کی ذاتی دلچسپی اور کوششیں تھیں۔ امید ہے شمعون بھائی کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی۔ ایسی جنتیں جن کے لیے اﷲ نے مومنین سے وعدے کررکھے ہیں۔

اپنے لہو سے روشن کردیں گلیاں اس ویرانے کی 
گرچہ تنگ بہت تھیں راہیں شہر وفا کو جانے کی
اک جان تھی وہ بھی دے دی پھر بھی رہے شرمندہ سے
دل والے خود ہی لکھ لیں گے سرخی اس افسانے کی

*۔۔۔*

……………

کرہ ارض کے چراغ

محمد الیاس نواز

(صدر ساتھی گائیڈنس فورم)

……………

ایک تربیت یافتہ فرد کے دنیا چھوڑ جانے سے صرف اس کے خاندان ، دوستوں ا ور احباب کاہی نقصان نہیں ہوتا بلکہ پورے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ معاشرے کاا صل حسن یہی لوگ ہوتے ہیں اور افراتفری والے معاشرے میں دراصل تربیت یافتہ اور اخلاقیات کے حامل افراد کی ہی کمی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں کیونکہ یہی لوگ معاشرے کی صحیح خطوط پرتعمیر اوردرست تربیت کا سامان ہوتے ہیں اور پھر جو فرد ایک استاد کی حیثیت رکھتا ہو، اس کی شہادت کوبھلا کون فراموش کر سکتا ہے۔ شمعون قیصر بھائی کی نماز جنازہ میں چہروں کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کون سے چہرے ہیں جنہوں نے ان کی تربیت کی اور کون سے چہرے ہیں جن کی وہ تربیت کر رہے تھے۔
اُن کی شہادت نے میرے اس یقین کو یقین محکم میں بدل دیاہے کہ ’’اچھے افراد اکثرو بیشتر دنیا سے جلدی چلے جاتے ہیں۔‘‘ شاید اس لیے کہ وہ ہماری طرح صرف جینے کے لیے نہیں جیتے بلکہ بامقصد جینے کے لیے جیتے ہیں اور جب وہ مقصد پورا ہو جائے توان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ…اِدھر رخت سفر باندھا….. اور اُدھرروانہ ہوئے…..اگر ہم اپنے بھائی کی زندگی کو دیکھیں تو لگتاہے کہ شاید شمعون بھائی بھی اپنا کام پورا کر چکے تھے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنی(اور ہم سب کی)عظیم بہن مرحومہ فریال یاور کی پر آزمائش زندگی میں ان کا سہارا بنے رہے۔ فریال باجی کی بیماری میں ان کی خدمت وعیادت میں پوری تن دہی سے مصروف رہے اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس فکر میں رہے کہ کس طرح ان کے تحریری کام کو کتابی شکل میں لا کرہر خاص و عام کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنایا جائے اور جب یہ کام مکمل ہو گیایعنی ان کا تحریری کام ’’لکڑی کا منات‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تو چند ہی دن کے بعد خود بھی دنیا ے فانی سے کوچ کر گئے کہ گویا جو کام تھا وہ ہو گیا۔ انسان مر جاتا ہے مگر نیکی ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور یہ ایسا آب حیات ہے جو انسان کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے۔
ہفتہ ۱۲؍اپریل کو ان کی شہادت ہوئی جبکہ ٹھیک ایک ہفتہ پہلے یعنی ہفتہ۵؍ اپریل والے دن ماہنامہ ساتھی کے تحت ہونے والی تربیتی ورکشاپ میں وہ میرے آگے والی نشست پر بیٹھے تھے، میں نے پیچھے سے ان کے کان میں سرگوشی کی: ’’ماشاء اللہ کتاب(فریال باجی کی’’لکڑی کا منات‘‘) تو اچھی لے آئے ہیں آپ‘‘…..اٹھ کر میرے ساتھ والی نشست پر آبیٹھے اور کہنے لگے: ’’آپ نے دیکھی؟ اچھی ہے ناں۔‘‘ میں نے کہا: ’’جی! دیکھ لی…بہت اعلا ہے‘‘…. پھر کتاب کے حوالے سے کچھ مزید گفتگوہوتی رہی اس کے بعد موضوعات بدل گئے۔ مجھے اُس وقت وہ دن یاد آگئے جب وہ ماہنامہ ساتھی کے مدیر تھے۔ان دنوں جب ہم ساتھی کے دفتر جاتے تو انتہائی پرتپاک انداز میں ہمیں نہ صرف خوش آمدید کہتے بلکہ مختلف خیالات(آئیڈیاز) پر گفتگو کرتے اور بعض اوقات جب کافی دن ہو جاتے تو کال کرکے خود بھی بلایا کرتے تھے۔
ان میں دو اوصاف ایسے تھے کہ جن کا ذکراگرنہ کیا جائے تو شمعون بھائی کا ذکرپورانہیں ہو سکتا۔ایک تو یہ کہ ہر موقع پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ ان کے چہرے کی رونق بنی رہتی تھی اوریہی مسکراہٹ ان کی گفتگو کے ہرجملے کی تمہید ہوتی تھی اوردوسرایہ کہ وہ ہمیشہ ایک دھن میں رہتے تھے کہ اپنے سے کم علم سے بھی وہ کچھ سیکھ لیں اور دراصل یہ ان کے احترام اور طبعی تواضع کا ایک انداز بھی تھا۔بقول مجیدامجد ؂

ہائے وہ لوگ ،خوب صورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے

شمعون بھائی جیسے لوگ کرۂ ارض کے ایسے چراغ ہواکرتے ہیں کہ جو خود بجھ بھی جائیں تو اپنے حصے کی کئی شمعیں جلائے جاتے ہیں۔مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھناپڑرہا ہے کہ حیرت ہے انسانی ہمدردی کی دعوے دار اُن قوتوں پر جو آج خود تو مادی ترقی کی معراج پر ہیں مگر ہماری زمین پر امن تک انہیں گوارانہیں۔

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ بھی سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو!
کرۂ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کوآخرت میں بھی اسی طرح عزت عطاء فرماے جیسے انہیں دنیا میں عطاء فرمائی تھی۔آمین یا رب العالمین۔

*۔۔۔*

……………

مشکل میں ساتھ دینے والا

حماد ظہیر

(ساتھی قلم کار)

……………

۲۲ مارچ ۲۰۱۴ء کی شام تھی۔ کل یعنی ۲۳ مارچ کو ہم نے ایک ڈراما پورے کراچی کے لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا۔ صرف شہر کے ہی لوگ ہوتے تو بھی بات بڑی ہی تھی مگر میڈیا کے بھی کئی نمائندوں نے آنا تھا، اس طرح ہم نے پوری دنیا کے سامنے وہ ڈراما پیش کرنا تھا۔
ڈرامے میں کل ۹ کردار تھے جو کافی عرق ریزی کے بعد منتخب کیے گئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے وہ طالب علم اور نوجوانان تھے، پروفیشنل تو نہ تھے، لہٰذا ان کو ڈائیلاگ بولنے اور یاد کرنے میں مشکل ہورہی تھی۔ پھر جب انہیں یہ احساس ہوا کہ ایک بڑے جلسے میں اسے پیش کرنا ہے تو ان میں سے کچھ تو بری طرح بوکھلا گئے، نتیجتاً ۹ میں سے ۳ اس شام غائب تھے۔ اسی رات یعنی ۲۲ مارچ کو ہم نے ڈرامے کی مکمل تیاری جلسہ کے مہتمم حضرات کو بھی دکھانی تھی اور ہمارے ۳ کردار غائب تھے۔ جہاں لوگ تین تین دن تیاری کرکے ’’بھاگ‘‘ نکلے تھے وہاں چند گھنٹوں میں کوئی نیا ٹیلنٹ تلاش کرنا محال تھا۔ ہم تو اس میں مصروف تھے کہ کس کس کو دو ،دو کردار دیں، ایک آدھ مصنف کو بھی دے دیں وغیرہ اور لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ بھی وہی ہوا جیسے بل دینے والوں کو نادہندہ کا بھی دینا پڑتا ہے، دوسرے لفظوں میں ’اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘ ایک ساتھی نے کہا: ’’کم از کم ایک ہشیار بندہ میں تیار کرسکتا ہوں، جو قربانی دے کر آجائے گا، اگر آپ مدد کریں۔‘‘ ہمارے حامی بھرنے پر انہوں نے شمعون قیصر کو فون ملایا اور ان کی ہچکچاہٹ پر ہم سے بات کرادی۔ ۱۵ منٹ بعد شمعون بھائی ہمارے درمیان موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور میرے لیے یہ کافی مشکل ہوگا، پھر بھی میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
ہم نے ان کو کچھ ہدایات دیں، وہ تیز تیز بولنے کے عادی تھے۔ ہم نے تھوڑا ٹھہراؤ پیدا کرایا اور فقط نصف گھنٹے کی تیاری سے انہوں نے منتظمین کے سامنے اپنے کردار کو پیش کیا اور خوب نبھایا۔ ہمارا ارادہ ساری رات تیاری کا تھا لیکن وہ یہ معذرت کرکے چلے گئے کہ انہیں اپنی والدہ کو کسی تقریب میں لے جانا ہے اور اگر وہ نہ گئے تو والدہ جا نہیں پائیں گی۔ ہمیں کچھ شک پڑا کہ کہیں وہ بھی غائب نہ ہوجائیں مگر اگلی صبح وہ سب سے پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔
ان کے آنے سے نہ صرف ایک کردار کا بوجھ کم ہوا، بلکہ باقیوں کے بھی خوب حوصلے بڑھے یہاں تک کہ مصنف صاحب (جو کہ اتفاقاً ہم ہی تھے) نے بھی ایک چھوٹا سا کردار ادا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔
۲۳ مارچ کو مستقبل کے اسلامی پاکستان میں مشیر قانون کا کردار ادا کرتے ہوئے شمعون بھائی نے کہا کہ اب ملک بھر میں پورے ماہ میں بھی فقط چند ایک سے زیادہ قتل نہیں ہوتے اور مجرموں کو فوراً شرعی سزائیں مل جاتی ہیں۔
مستقبل کا یہ پرامن خواب دکھانے والا خود اس کی تعبیر تو نہیں دیکھ سکا لیکن اس جیسے لوگوں کی قربانیوں سے ایک نہ ایک دن وہ خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا ۔ ان شاء اﷲ

*۔۔۔*

……………

وہ بہترین مدیر تھے

 شازیہ فرحین

(ساتھی قلم کارہ)

……………

بہن فریال یاور کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ بھائی شمعون قیصر بھی شہادت کا تاج سجائے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ بے شک ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ بھائی شمعون کی موت کی خبر ہمیں کلیم چغتائی کی اہلیہ نے سنائی ۔ یوں لگا جیسے پیروں سے زمین نکل گئی۔ ’’کیا آپ ساتھی والے شمعون قیصر کی بات کررہی ہیں۔‘‘ ہم نے تصحیح چاہی۔
’’ہاں ہاں رات ہی تو انہیں گولی لگی ہے اور کلیم چغتائی انہی کی نماز جنازہ میں گئے تھے۔‘‘ انہوں نے افسردگی سے کہا اور ہم حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ کیا سارے اچھے انسان اسی طرح خاموشی سے اس فانی دنیا سے کوچ کرتے جائیں گے۔ ہم نے حیرانی سے اپنے آپ سے ہی سوال کیا اور یادوں کے دریچے سے ماضی میں جھانکتے گئے۔
’’جی مجھے محترمہ شازیہ فرحین سے بات کرنا ہے میں ماہنامہ ساتھی سے شمعون قیصر بات کررہا ہوں۔‘‘ آواز میں دھیما پن اورمتانت ہوتی۔
’’ جی جی فرمائیے۔‘‘ ہم بھی سنجیدگی سے جواب دیتے۔
’’ ساتھی کے لیے کوئی تازہ تحریر روانہ کر دیجیے۔‘‘ انتہائی شائستگی سے مطالبہ ہوتا۔
’’جی ضرور ان شاء اﷲ پہلی فرصت میں کوشش کروں گی۔‘‘ ہم ان کا مطالبہ سنتے اور پھر پہلی فرصت میں ہی کچھ لکھ کر بھجوا دیتے۔ گو کہ ہمارا اوربھائی شمعون کا ٹیلی فون پر اکثر رابطہ رہتا جب تک وہ ادارت میں رہے انہوں نے کئی بار فرمائشیں کرکے خصوصی موضوعات پر ہم جیسے سست قلمکار سے کئی تحریریں لکھوائیں۔ بھائی شمعون کی شخصیت میں متانت، سنجیدگی ، وقار ، شائستگی اور وہ سب کچھ تھا جو ایک مدیر میں لازم و ملزوم ہونا چاہیے۔ گفتگو میں ان کا انداز نپا تلا تھا گو کہ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے اور ان کے دور میں ساتھی نے خوب ترقی کی۔ اﷲ پاک ان کے والدین اور ان کے ساتھیوں کو صبر جمیل عطا فرماے (آمین)

*۔۔۔*

……………

روشنی کا سفیر

ام حور الحرم صدیقی

(ساتھی قلم کارہ)

…………… 

کچھ لوگ جو بہت کم عمر پاتے ہیں لیکن اپنے پیچھے اتنے محبت کرنے والے دل اور اتنے دعا کرنے والے ہاتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کوئی شاید سو سال میں بھی اتنی محبت جمع نہ کرسکے۔ انہی انمول ہستیوں میں سے ایک شمعون بھائی بھی تھے جو بلاشبہ اپنی کم عمری کے باوجود اپنے لیے بے شمار افراد کو صدقہ جاریہ بنا گئے۔ آج سے تقریباً پانچ سال قبل شمعون بھائی کے پرخلوص اصرار پر میں نے ساتھی کے لیے قلم اٹھایا یہ ان کی حوصلہ افزائی اور پرخلوص مشورے ہی تھے کہ آج ساتھی کے لیے لکھنا میری اولین ترجیح ہے۔ دل و دماغ یقین ہی نہیں کر پا رہے کہ وہ روشنی کا سفیر اب ہم میں نہیں ہے۔ وہ دلوں کو تسخیر کرنے کا فن جانتے تھے۔ اصلاح کے جذبے کے ساتھ نہایت مخلصانہ قیمتی مشورے دیتے تھے۔ بلاشبہ بہترین انسان تھے ایسے انسان کہ جو اپنی منفرد شخصیت کا ایسا خلاء چھوڑ گئے ہیں کہ شاید ہی کوئی دوسرا اسے پر کرسکے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں آگے بھی ہر منزل پر بھی کامیاب و کامران کرکے جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرماے اور ان کے تمام اہل خانہ اور ساتھیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)

*۔۔۔*

……………

لوگ خوابیدہ سہی، ہمیں اذاں دینی ہے

اسماء ہاشمی

(ساتھی قلم کارہ)

……………

شمعون قیصر سے بیشتر یادیں وابستہ ہیں۔ ہماری ان سے پہلی ملاقات (جو کہ اب آخری بن چکی ہے) تب ہوئی جب ہم رائٹرز ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہم نے انہیں بیج سے پہچانا۔ جب ہم ذرا حوصلہ بڑھا کر ان سے آٹو گراف لینے گئے تو انہوں نے بے حد خوش اسلوبی سے آٹو گراف میں ایک شعر لکھ کر دیا۔ جب ہم نے وہ شعر پڑھا تو ہمیں سمجھ نہ آیا۔ بعد ازاں جب سمجھایا گیا تو ہمیں اس شعر کی گہرائی کا اندازہ ہوا جو کہ ان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ جب ہمیں شمعون قیصر کے انتقال کی خبر ملی تو ان سے ملاقات ہماری آنکھوں میں گھوم گئی اور وہ شعر کانوں میں گونجنے لگا۔

ہم نے سیکھا ہے اذانِ سحر سے یہ اصول
لوگ خوابیدہ سہی، ہمیں اذاں دینی ہے

*۔۔۔*

……………

زندگانی منتظر تھی جاوداں تیرے لیے

رمشاء جاوید

(ساتھی قلم کارہ)

…………… 

پتا نہیں کیوں ان کی شہادت کو دل ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پہلی بار شدت سے دل چاہا کہ فصیح بھائی مجھے خوب ڈانٹیں کہ میں نے ان سے یہ کیسا سوال پوچھا ہے۔ کیا میرا دماغ چل گیا ہے؟ شمعون بھائی تو بالکل ٹھیک ہیں اپنے گھر میں ہیں۔‘‘
مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ شمعون بھائی واقعی شہید ہو گئے تھے۔ انہیں ظالموں نے محض چند رپوں کے عوض شہید کر دیا تھا۔ کیا ملا انہیں یہ سب کرکے؟ کیا ملا ہمارے شمعون بھائی کو ہم سے چھین کر؟ کیا ان پیسوں سے ظالموں نے اپنا محل تعمیر کر لیا یا پھر انسانی خون بہا کر انہوں نے تمام ضروریات زندگی خرید لیں؟ وہ کیوں ظالم قابیل بن گئے جس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے محبت کرنے والے چاہنے والے ان کا انتظار کررہے ہوں گے۔ 
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے اپریل ہی کے مہینے میں فریال باجی انتقال کر گئی تھیں۔ جولائی ۲۰۱۳ء کے شمارے میں فریال یاور کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے شمعون بھائی نے ایک جملہ کہا تھا۔ جسے پڑھ کر آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں ، کسے معلوم تھا کہ ان کا یہ جملہ آگے ایک سال بعد ہمارے دل کو چھلنی کرجائے گا۔ انہوں نے کہا تھا: ’’ماہ اپریل ہمارے لیے اتنا سخت ہوگا یہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔‘‘
رب سے دعا ہے کہ اے مالک یوم الدین ہمارے بہت ہی پیارے شمعون بھائی سے نرمی اور آسانی والا سلوک کرنا۔ جتنی عزت تونے دنیا میں انہیں دی تھی۔ اپنے ہاں اس سے بھی دگنی عزتیں دینا۔ شمعون بھائی کی والدہ کو صبر عطا فرمانا۔ (آمین)

*۔۔۔*

……………

ستم کا آشنا تھا وہ

سیدہ ارفع معراج

(ساتھی قلم کارہ)

……………

ساتھی ان پانچ سالوں میں یعنی ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۴ء تک پانچ بڑے لکھنے والوں سے محروم ہوچکا ہے۔ پہلے قاسم بن نظر اور چوہدری بلال حنیف ، پھر مظہر یوسف زئی اور محترم فریال یاوراور اب شمعون قیصر صاحب۔۔۔ ایک کے بعد ایک سب اس دنیا سے چلے گئے۔ محترمہ فریال یاور صاحبہ سے بچھڑنے کا دکھ ابھی تک دل میں تازہ تھا کہ اب یہ سانحہ ہو گیا۔ جب سے یہ خبر ملی ہے ساتھی کے وہ تمام شمارے جو محترم شمعون قیصر صاحب کے زیر ادارت شائع ہوئے تھے۔ نظروں کے سامنے آنے لگے۔۔۔ میری پہلی کہانی بھی اسی دور میں شائع ہوئی تھی۔ اسی سلسلے میں ایک مرتبہ شمعون بھائی سے بات بھی ہوئی تھی۔ یہ سارے واقعات آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔ محترمہ فریال یاور کے انتقال پر جس طرح شمعون صاحب نے صبر کیا اور پکا ارادہ ظاہر کیا کہ ان کی تصنیف کو کتابی شکل میں لائیں گے، یقیناًاﷲ رب العزت نے انہیں اس کا موقع دیا۔ اور لکڑی کا منات کے شائع ہونے کے محض دس دن کے بعد آپ بھی اپنے رب کے پاس چلے گئے۔

ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی، سحر ہوئی چلا گیا

*۔۔۔*

…………… 

ایک تعزیتی خط دیر سے مگر دل سے

نسرین لئیق

(ساتھی قلم کارہ)

…………… 

یہ کیسا سانحہ ہوا۔۔۔ جب میں نے یہ خبر سنی کہ شمعون قیصر کو شہید کر دیا گیاتو میں نماز پڑھ رہی تھی جب کانوں میں یہ الفاظ گئے تو میرے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ دل بیٹھنے لگا ۔ وہ یقیناًاﷲ کے ایسے مومن بندے تھے کہ ان کے اس طرح سے اچانک چلے جانے کا نقصان برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ کافی دن یہی کیفیت رہی مگر پھر اﷲ صبر اور حوصلہ دے ہی دیتا ہے ورنہ تو کوئی جانے والے کے بغیر جی نہیں پاتا یہ سوچ کر دل ہولتا ہے کہ ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ ان کے ماں، باپ، بھائی اور شریک حیات کو کیسے صبر آئے گا۔ اﷲ تعالیٰ انہیں یہ سب برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ آمین۔
میرا ان سے صرف شاگرد اور استاد کا رشتہ تھا۔ وہ اس وقت ساتھی کے مدیر تھے۔ میری پہلی کہانی ’’گھر کا بھیدی‘‘ شائع ہوئی۔ یہ میری پہلی ورک شاپ کا پہلا ہوم ورک تھا۔ اس سے پہلے تو میں صرف سیاسی اور سماجی موضوعات پر تحریریں اخبارات کو بھیجتی تھی۔ میں شمعون قیصر صاحب کی بہت ممنون تھی کہ انہوں نے ایک ایسی لکھنے والی کی تحریر کو ساتھی میں جگہ دی جس نے پہلے کبھی کہانی نہیں لکھی تھی۔ اس کے علاوہ مجھ میں ایک برائی اور بھی ہے کہ میں موبائل فون استعمال نہیں کرتی اور خط لکھنے میں بھی بہت ہی نااہل ہوں۔ اس لیے آج تک ساتھی میں کوئی خط نہیں لکھا۔ پچھلے سال شمعون قیصر کی بہن فریال یاور کی وفات پر میں تعزیتی خط لکھنے کا سوچتی رہ گئی ۔ سب لوگ میری بداخلاقی کو بہت محسوس کررہے ہوں گے۔ اس کی میں معافی چاہتی ہوں۔ ابھی کچھ دنوں سے میں سوچ رہی تھی کہ دیر تو بہت ہوگئی ہے مگر مجھے شمعون قیصر سے ان کی بہن کے انتقال پر تعزیتی خط لکھ دینا چاہیے کہ اچانک ہی ان کی شہادت کی اطلاع ملی۔ کاش مجھے پتا ہوتا تو میں وقت پر ان سے تعزیت کرلیتی۔ اس بات کا مجھے بہت ہی افسوس رہے گا۔ میں ساتھی کے ذریعے سے ان سانحات پر کہتی ہوں آپ کا صدمہ جتنا بڑا ہوگا۔ اس پر اجر بھی بڑا ہوگا۔ ان شاء اﷲ۔

*۔۔۔*

…………… 

میری پہلی ملاقات

فرحت حسین فرحت

(قلم کار)

……………

۱۲ /اپریل کی رات ۱۲ بجے میں نے اپنے موبائل میں جو پیغام پڑھا اس پیغام نے میری نیند، میرا سکون، میرا چین یکسر غائب کردیا۔ میرا عزیز دوست، عظیم ساتھی اس فانی دنیا سے کیسے رخصت ہو گیا۔ شمعون قیصر جس سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا مگر بھائی چارے اور انسانیت کا رشتہ تھا۔ دوستی اور محبت کا رشتہ تھا۔ شمعون بھائی کی اچانک موت پر اس ماں کو یاد کررہا ہوں جس ماں نے ابھی ۔۔۔ کچھ۔۔۔ عرصہ پہلے ہی تو فریال یاور کا صدمہ برداشت کیا تھا۔ سبحان اﷲ۔۔۔ اس بوڑھی ماں کو میں سلام پیش کرتا ہوں، جس نے بغیر کسی شکوے شکایت کے یہ دوسرا جان لیوا صدمہ بھی برداشت کر لیا۔
شروع ادوار میں جب میں نے ساتھی کے لیے لکھنا شروع کیا تو میرا تعلق نجیب احمد حنفی سے قائم ہوا۔ وہ انتہائی مخلص شخص ہیں بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ ساتھی سے وابستہ ہر شخصیت مخلص، نرم خو اور انتہائی شفیق ہے۔ یہ سطور لکھ ہی رہا ہوں کہ مئی ۲۰۱۴ء کے دو شمارے بذریعہ ڈاک مجھے موصول ہوئے ہیں۔ ماہنامہ ساتھی اور ماہنامہ شاہین اقبال پشاور، رسائل کے مدیر ان نے اداریے میں لکھا ۱۲/ اپریل ۲۰۱۳ء کی تاریخ فریال یاور ، شمعون قیصر بھائی کی ہمشیرہ ہم سے جدا ہوئیں اور پھر اگلے سال اسی تاریخ کو یعنی ۱۲/ اپریل کو شمعون قیصر بھائی ہم سے جدا ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے ۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ہر کام کو پہلے مکمل کیا جیسے انہیں معلوم ہو کہ ان کی زندگی کا اختتام قریب ہے۔ شمعون بھائی ہمیں غفلت کی زندگی سے نکلنے کا پیغام دے گئے ہیں۔
ایک دفعہ جب میں ساتھی کے دفتر پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے عزت کے ساتھ بٹھایا اور فون پر چاے اور بسکٹ کا آرڈر دے دیا جب پندرہ منٹ تک چاے نہیں آئی تو وہ خود نیچے اترے اور میرے لیے چاے اور بسکٹ لے کر اوپر آئے۔ میں خاصا شرمندہ ہو رہا تھا کہ میری وجہ سے شمعون بھائی کو یہ تکلیف اٹھانی پڑی۔ میں نے معذرت کرنی چاہی تو انہوں نے مجھے بڑے ہی پیار سے سمجھایا کہ مہمان کی خدمت کرنا، ہر مسلمان کا فرض ہوتا ہے۔ یہ زحمت یہ تکلیف میں کسی کے لیے بھی اٹھا سکتا ہوں۔ اس میں آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 
شمعون بھائی مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ فرحت بھائی زیادہ غصہ مت کیا کریں۔ یہ غصہ آپ کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ تحریر لکھیں نرم زبان میں۔ بچوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اور سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک کہانی کو بار بار لکھیں۔ جب خود مطمئن ہوجائیں تو ہمیں بھیج دیں۔ ان شاء اﷲ شائع ہوجائے گی اور مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ خوب پڑھیں۔ ہر کتاب کو پڑھیں۔ انہوں نے مجھے اپنی مثال بھی دی کہ میں ایک تحریر لکھتا ہوں تو اسے بار بار پڑھتا ہوں اور دوبارہ بھی لکھتا ہوں۔ اس سے غلطیاں اور خامیاں درست ہوجاتی ہیں، بس یہ بات میں نے اسی دن سے سمجھ لی تھی اور اپنی ہر تحریر کو خوب سوچ سمجھ کر لکھتا تھا۔ مضامین کے لیے مختلف کتاب خانے جانے لگا جس سے مجھے خاطر خواہ فائدہ ہوا، یعنی یہ بات ضروری نہیں ہے کہ آپ کب سے لکھ رہے ہیں بلکہ آپ کیا لکھ رہے ہیں یہ بات اہم ہے۔ شمعون بھائی ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے۔

*۔۔۔*

……………

شاگردوں، طالب علموں کے احساسات

…………… 

سر شمعون اب یاں نہیں ملیں گے

طلحہ علی یوسف (ہشتم)

عثمان پبلک اسکول۔ کیمپس ۹

……………

اتوار کی صبح سورج طلوع ہوا تو میں نے ایک خبر سنی۔ کیا یہ خبر ایک عام سی خبر تھی؟ نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں۔ اس خبر نے تو چند لمحوں کے لیے میرے اوسان ہی بحال نہ رہنے دیے۔ خبر سنی تو یوں لگا کہ جیسے وقت تھم گیا ہو۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اتوار کی صبح میرے والد نے مجھے یہ اندوہناک اور دلدوز خبر سنائی کہ اب سر شمعون مجھے کبھی نہیں مل سکیں گے۔ سر شمعون سے میرا تعلق تقریباً پانچ سالوں پر محیط ہے۔ وہ بحیثیت استاد اور بحیثیت مدیر۔
’’نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو‘‘ کی عملی تصویر تھے۔ ان کا پڑھانے کا انداز دوسرے تمام اساتذہ سے جدا تھا۔ انہوں نے میری جھجھک کو ختم کرکے میرے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کیا۔ ان کی ملامت میں پیار اور ڈانٹ میں دلسوزی ہوتی تھی۔ وہ اپنے تمام شاگردوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ ایسے اساتذہ شاید دنیا میں بہت کم ہوں گے۔
میں نے سر شمعون کو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا۔ کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں دیکھے۔ اسکول کے تمام اساتذہ بھی ان کی ملنساری اور خوش اخلاقی کی گواہی دیتے ہیں۔ اسکول کے علاوہ بھی جہاں کہیں میری ملاقات سر شمعون سے ہوئی، وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہی ملے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا مگر وہ ہر ایک سے انکساری سے ہی پیش آتے تھے۔ ہمارے ایک استاد نے گواہی دی کہ سر شمعون کبھی کسی غلط مذاق میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ 
ان کی شہادت کی خبر سن کر اس پر یقین کرنا بہت ہی مشکل ہورہا تھا۔ بچے ان سے اپنی آخری ملاقات کو یاد کررہے تھے۔ جب ان کا آخری دیدار کروایا گیا تو وہ آنسو جو صبح سے بہنے کے منتظر تھے وہ بہہ نکلے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور کیوں نہ روتا۔ میرے شفیق اور ہر دلعزیز استاد اب مجھے کہاں مل سکیں گے؟ ڈاکوؤں کو کیا معلوم کہ چند سو روپوں کے لیے انہوں نے ایک ہیرا مٹی میں ملا دیا۔ ان کے جانے کے بعد پورا اسکول غمزدہ ہے۔ ان کے حق میں بہت ساری گواہیاں جمع ہورہی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ ہمیں ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنا دے۔ (آمین)

*۔۔۔*

……………

ہمارے استاد

محمد شہیر احمد

(عثمان پبلک اسکول، ششم)

…………… 

ہمارے پیارے ہردلعزیز پررونق چہرے والے سر شمعون اب اس دنیا میں نہیں۔ میرا اور سر شمعون کا دو سال کا ساتھ رہا۔ وہ ہمیں بہت اپنائیت اور محبت سے پڑھاتے تھے۔ ابھی بھی اسکول میں ایسا لگتا ہے کہ سر شمعون کہیں سے آجائیں گے۔ پیارے اﷲ تعالیٰ شہیر کی فریاد ہے۔ ہمارے سر شمعون قیصر کو جنت الفردوس کے بلند درجات عطا فرما اور ہمیں ان جیسا ایماندار بنا۔

*۔۔۔*

  ……………

قارئین  کے دل سے نکلی باتیں

……………

کڑے سفر کا تھکا مسافر

بنت احمد

(چینجی، تلہ گنگ ۔پنجاب)

……………

اس بار بھائی جب گاؤں آئے تو انھوں نے بتایا کہ ان کے کچھ دو ست ہمارے گھر آئیں گے۔ جن میں شمعون قیصر بھائی، فصیح اللہ حسینی بھائی، اعظم طارق کوہستانی،طلال بھائی اور چند اور دوست شامل تھے۔ بھائی کے ساتھ ساتھ ہم سب گھر والے بھی بہت خوش تھے لیکن کچھ دن بعد بھائی نے بتایا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر ان کے دوست نہیں آ سکیں گے۔ سب کو ان کے نہ آنے کا بہت افسوس ہوا۔ بھائی کے گاؤں میں قیام کے دوران ہی بھائی نے شمعون بھائی کے حوالے سے اتنی باتیں کیں کہ ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ میں انھیں بہت قریب سے جانتی ہوں۔ کراچی واپس چلے جانے کے بعد جب بھی بھائی سے فون پہ بات ہوتی تو شمعون بھائی کا تذکرہ لازمی ہوتا۔ بھائی ہمیشہ ان کی بہت تعریف کرتے کہ شمعون بھائی ہر ایک کا خیال رکھنے والے، با اخلاق،ملنسار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ 11 اپریل کی شام سے ہی کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے اور 12 اپریل کی صبح کو اس بے چینی کا راز کھلا۔ ابو کا فون آیا، امی نے کال اٹھائی اور امی کے منھ سے پریشانی میں ڈوبی آواز سنائی دی اور پھر امی نے فون مجھے پکڑا دیا۔ابو نے بتایا کہ شمعون قیصر بھائی رات کو گولی لگنے سے شہید ہو گئے۔مجھے لگا شاید سننے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے۔دوبارہ پوچھا کہ کون؟ درد میں ڈوبی آواز سنائی دی کہ \”شمعون قیصر شہید ہو گئے\”۔پھر بھی یقین نہیں آیا کہ شمعون بھائی اتنی جلدی کیسے جا سکتے ہیں؟ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بہت قریبی بچھڑ گیا ہو۔کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔امی بھی رو رہی تھیں۔رات کو بھائی کا فون آیا تو ہم دونوں سے بات نہ کی گئی۔ سلام کے بعد دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔ صرف سسکیوں کی آوازیں تھیں۔ ادھر بھائی کے آنسو اور ادھر میرے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ کافی دیر کے بعد بات کرنے کے قابل ہوئے تو صرف شمعون بھائی کی باتیں تھیں۔بھائی کہنے لگے’’شمعون بھائی تو مجھے یتیم کر گئے ہیں‘‘
قابل رشک ہیں شمعون بھائی کہ جنھوں نے جوانی میں ہی اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کر دکھایا اور اس کی جنتوں کے مستحق ٹھہرے۔ شمعون بھائی خود چلے گئے لیکن انکی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

کڑے سفر کا تھکا مسافر،تھکا ہی ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے

*۔۔۔*

……………

عزت دینے والے

سید منتہیٰ علی

(ساتھی قاریہ)

……………

میسیج کی رنگ ٹون کے بجتے ہی جیسے میسج کھولا تو یہ خبر گویا ایٹم بم کی طرح گری ۔ ایک بے یقینی کی کیفیت تھی جو اس دلدوز خبر پر یقین نہ ہونے دیتی تھی۔ دو تین جگہ سے تصدیق کی تو آنکھیں نم اور زبان گنگ رہ گئی۔ شمعون صاحب میرے بھائی کے استاد محترم ہونے کی وجہ سے میرے لیے بھی قابل عزت تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ میرے بہترین رسالے کے سابق مدیر بھی تھے۔ ان کا شفیق چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ جب ہم ان سے سے پہلی بار ملنے کے لیے ایکسپو سینٹر گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا: ’’اچھا یہ ہیں سیدہ منتہیٰ علی۔ تو ہمارے دل میں خوشی کے غبارے پھوٹنے لگے تھے اور ایک مرتبہ جب انہوں نے میرے بھائی کے اسکول میں اس کی کلاس میں ہمارا تعارف کروایا: ’’دیکھو مجتبیٰ! تمہاری بہن کتنی مشہور ہیں۔‘‘ اور میرے بھائی نے جب یہ بات مجھے بتائی تو جانے کتنی بار میں نے تصدیق کی تھی۔ ایک یادوں کا ریلہ تھا جو بہائے لے جا رہا تھا اور زبان سے دعاے مغفرت نکل رہی تھی۔ اﷲ تعالیٰ ان کے والدین ان کی منکوحہ کو صبر جمیل عطا فرماے (آمین)

*۔۔۔*

……………

ایک ستارہ تھا جو کہکشاں ہو گیا

سید حاشر سرفراز

(ساتھی قاری)

…………… 

جب میں عثمان پبلک اسکول کیمپس ۹ میں ۲۰۱۰ء میں داخل ہوا تو ان کو نہیں جانتا تھا لیکن رفتہ رفتہ میری ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم ساتھی کے لیے خط وغیرہ کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے اسی وقت ایک مختصر تبصرہ لکھ کر ان کے حوالے کر دیا۔ جب وہ خط شائع ہوا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ جس کو انہوں نے بھی محسوس کیا اور پھر میں نے خطوط لکھنے شروع کر دیے۔ جب وہ ساتھی کے ایڈیٹر تھے تو اسی زمانے میں میری ۵۰۰ روپے کی لائبریری نکلی۔ ساتھی کے بعد وہ ’’جگمگ تارے‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ تم مجھے کسی جانور پر لکھ کر دو تو میں نے انہیں جنگل کا وزیر اعظم ریچھ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر دیا جو کہ شائع ہوا۔ اپنی شہادت سے پندرہ بیس روز قبل ان کا میرے پاس فون آیا اور انہوں نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ وہ اس جوہری کی مانند تھے کہ جو کان سے نکلے ہوئے ہیرے کو تراش خراش کر اسے قیمتی بناتا ہے۔ میں نے ان کے جنازے میں کتنے ہی غمزدہ لوگوں کو دیکھا تھا جو ان کی یاد میں رو رہے تھے۔

*۔۔۔*

……………

انمول موتی

سید بلال فیض

(ساتھی قاری)

……………

ابھی چند دنوں ہی کی بات تھی کہ میں نہم جماعت کے کیمسٹری کے پرچے کی تیاری کررہا تھا کہ بھائی کے موبائل پر میسج آیا کہ سر شمعون ڈاکوؤں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ ایسا لگا کہ گویا دل ایک لمحے کے لیے رک سا گیا ہو۔ پھر امی ابو نے دلاسہ دیا اور پھر ابو کے ساتھ جنازے میں شرکت کے لیے گئے۔ رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ جب میں عثمان پبلک اسکول کیمپس ۹ میں پہلی بار کلاس ۶ میں آیا تو اس وقت میں خاصا شرمیلا تھا۔ لیکن سر شمعون نے ۱۴ /اگست کے موقع پر قائد اعظم کا گیٹ اپ مجھے زیب تن کروا یا۔ وہ آنکھوں کے نیچے چاک لگانا بڑھاپے کے لیے۔ سر پر جناح ٹوپی شفقت سے رکھنا ۔۔۔پھر اسی سال رمضان کے مہینے میں سر شمعون نے مجھ سے کہا کہ اپنی روزہ کشائی پر لکھو کیونکہ وہ ساتھی سے منسلک تھے۔ اپنائیت کا عالم تو دیکھیے مضمون کی تصویر کے لیے میرے گھر تشریف لے آئے۔ پھر اﷲ کے کرم سے اور سر شمعون کی کاوشوں سے ’’میرا پہلا روزہ‘‘ کے عنوان پر میرا مضمون چھپا بھی اور سعودیہ تک پڑھا گیا۔ سعودیہ میں میری خالہ رہائش پذیر ہیں۔ اسی سال میرے اندر ساتھی پڑھنے کا جذبہ اپنے جوبن پر تھا تو میں نے سر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جون ، جولائی کی چھٹیوں میں آپ ساتھی میرے گھر پر دینے آئیں کیونکہ میں ساتھی اسکول سے لیتا تھا۔ ایک دن میں سورہا تھا۔ سر شمعون کا فون آیا اور کہا کہ نیچے آکر ساتھی لے لو۔ میں نے شکریہ کے ساتھ ان سے ساتھی وصول کیا۔ اﷲ تعالیٰ سر شمعون کی قبر کو جنت کا باغ بنائے (آمین)

*۔۔۔*

……………

ایک چارہ گر تھا ، نہ رہا

سید عارب سرفراز

(ساتھی قاری)

……………

شمعون نہ صرف میرے ساتھی تھے بلکہ وہ میرے رہنما اور استاد بھی تھے۔ جب میں نے عثمان پبلک اسکول میں جماعت چہارم میں داخلہ لیا تو سر شمعون ہی میرے سائنس کے استاد تھے۔ ان ہی کے کہنے پر میں نے ساتھی کو اپنا پہلا خط لکھا اور جب وہ رسالہ میں شائع ہوا تو انہوں نے ہی میری حوصلہ افزائی کی۔ سر شمعون بہت ہنس مکھ تھے اور ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ ساتھی کے لیے اپنے مضامین میں رہنمائی بھی میں ان ہی سے لیا کرتا تھا۔ اپنے اسکول میں، میں جب ان کی جگہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے بہت عجیب سا لگتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ وہ میرے سامنے آجائیں ویسے ہی مسکراتے ہوئے مگر۔۔۔

تیرے بغیر بزم دوستاں بہت اداس ہے
مگر تمہارے غمزدوں میں خوف نہ ہراس ہے
حسینی راہ گزر پہ زیب تن کفن لباس ہے
قدم یہ ڈگمگائیں گے نہ چال لڑکھڑائے گی
شمعون تیری یاد ہم کو عمر بھر رلائے گی
عظیم والدین کو یہ خوب آشنائی ہے
بیان الکتاب سے سمجھ میں بات آئی ہے
کہ عارضی یہ زندگی، عارضی جدائی ہے
بروز حشر شان سے تیری بارات آئے گی
شمعون تیری یاد ہم کو عمر بھر رلائے گی
شاعر: افضال صدیقیؔ

*۔۔۔*

……………

وہ بھی سو گئے داستاں کہتے کہتے۔۔۔

حافظ محمد عبداﷲ جاویداقبال

(ساتھی قاری)

……………

میں اپنے پیارے اور سابق مدیر ماہنامہ ساتھی رسالہ شمعون قیصر بھائی کے لیے اور کچھ تو نہیں اس کلمے سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ افق کے چمکدار ستارے تھے۔ جس کو اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکنے کا پوری طرح موقع ہی نہیں ملا اور موت کے آہنی ہاتھوں نے اس کو بہت جلد اپنے شکنجے میں گرفتار کر لیا۔ میں اپنے پیارے بھائی شمعون قیصر کے لیے دعاگو ہوں۔ (آمین)

*۔۔۔*

……………

خوش گفتار شمعون بھائی

محمد بلال لطیف

(ساتھی قاری)

……………

’’بے شک ہم اﷲ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
۱۲ اپریل ۲۰۱۴ء کی وہ کالی رات جب ظالموں نے ایک خوش گفتار اور خوش اخلاق ساتھی ہم سے چھین لیا۔ ہماری شمعون بھائی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ساتھی گائیڈنس فورم میں۔ جب فریال یاور باجی اور شمعون بھائی کے ساتھ بیٹھ کر ہم ان کی گاڑی میں گھر کے راستے تک آئے۔ لہجے کی چاشنی، بولنے کا انداز، اپنائیت کا احساس، کہیں سے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم ان سے پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔ اس کے بعد گاہے بہ گاہے ملاقات ہوتی رہی اور قربتیں بڑھتی گئیں۔ ساتھی کو ترقی دی۔ ادارت چھوڑنے کے بعد بھی ان کا ساتھ ساتھی سے نہ چھوٹا بلکہ وہ جڑے رہے۔

*۔۔۔*

……………

چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

اسامہ محمد عزیز

…………… 

۳۰ اپریل کو جب میں نے ’’انوکھی کہانیاں‘‘ کے مئی کا شمارہ کھولا تو اتفاق سے وہ صفحہ سامنے آگیا جس میں محترم شمعون قیصر کے انتقال کا ذکر تھا۔ میں سمجھا کہ شاید ان کی آپ بیتی شائع ہوئی ہے مگر جب تصویر میں ان کے نام کے ساتھ مرحوم لگا دیکھاتو یقین جانیے کہ اک دم سکتہ طاری ہو گیا کہ آہ۔۔۔ شمعون قیصر صاحب بھی ہم سے بچھڑ گئے۔
میری ان سے بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی میں نے ماہ نامہ ساتھی میں لکھا لیکن جب بھی وہ یاد آتے ہیں تو ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ میری جان پہچان ان سے صرف اسی رسالے کی بدولت تھی۔ انہوں نے بہت کم لکھا مگر بطور مدیر ان کی قابلیت قابل رشک ہے۔

*۔۔۔*

……………

ایک مسافر تھا
ماہم جاوید

……………

’’سابق مدیر ساتھی شمعون قیصر کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ خبر تیر بن کر دل میں پیوست ہو گئی دل تو یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا مگر حقیقت یہی تھی کہ شمعون بھائی اب اس دنیا سے منھ موڑ چکے ہیں۔ آخر یہ سوچ کر کہ یہ دنیا تو فانی ہے یہاں سے سب کو چلے جانا ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کے بعد شروع ہوگی اپنے آنسو ضبط کیے۔ ان کی جدائی پر جس شدید صدمے سے میں دوچار ہوئی۔ اس نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا کہ آخر مجھے کیوں اس قدر صدمہ ہے۔پھر چند دن بعد ہی مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ جب مما نے فرائیڈے اسپیشل میں شمعون بھائی کے بارے میں فصیح بھائی کی لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر کہا کہ ’’ جو لوگ اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ تمام مخلوق کے دل میں ان کی محبت ڈال دیتا ہے۔‘‘ بالکل درست میرا دل اتنا مغموم کیوں ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب مل گیا۔

*۔۔۔*

……………

کہنا کہ مسافر تو گیا
امِ عمر

…………… 

را ت جب سونے کے لیے لیٹی تو موبائل کی بار بار بجنے والی میسج ٹون نے نیند اچاٹ کر دی۔ نیند پھر تھکن، آج کا سارا دن بہت مصروف تھا۔ ہمت نہیں ہوئی کہ موبائل اٹھا کر دیکھا جائے۔ فجر کی نماز پڑھتے ہوئے ابھی سجدے میں تھی کہ چھوٹی بیٹی کی آواز نے دل دہلا دیا۔ جلدی جلدی التحیات پڑھ کر سلام پھیرا تو اس نے شاک کی حالت میں شمعون کی شہادت کی خبر سنائی۔ رات کو یہی میسج مختلف رابطوں سے آرہا تھا۔ درد کی ایک لہر نے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کس طرح ایسے جیتے جاگتے وجود اچانک دنیا کے پردے کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ عمر سے شمعون کی دوستی کب پروان چڑھی معلوم نہیں لیکن ساتھی کے ایڈیٹر کے طور پر اس کا تحریروں کے لیے بار بار اصرار، عمر کے ذریعے پہنچتا رہتا تھا۔ میں نے صرف ایک بار ساتھی رائٹر ایوارڈ کی کسی تقریب میں اسے دیکھا تھا لیکن ذکر اتنا سنا کہ اس کی شخصیت کی تصویر ذہن میں بن گئی۔ کم گو، کام سے کام رکھنے والا ، سنجیدہ، بردبار ، درد مند، ہمہ وقت لوگوں کے کام آنے والا۔ کتنی ہی آوازیں میرے کانوں میں اس وقت گونج رہی ہیں۔ عمر چھوٹی بہن سے کہہ رہا ہے: ’’ناول کی قسط اگر لکھ لی ہے تو دے دوں، شمعون بھائی آئے ہوئے ہیں کہہ رہے ہیں، میں ہی ساتھی کے آفس لے جاتا ہوں ورنہ آپ کو دینے آنا پڑے گا۔‘‘
’’امی شمعون بھائی نے پوچھا ہے کہ کیا باجی سے کہانی لکھوانے کے لیے خود سعودیہ فون کرنا پڑے گا۔‘‘
’’امی انہیں کھانا بہت پسند آیا، بطورِ خاص حلوہ۔‘‘
ایک دن عمر اس کے آنے کے بعد چاے لیکر نیچے گیا لیکن پھر واپس آگیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا، چلے گئے؟ کہنے لگا: ’’وہ تو بے خبر بستر پر سو رہے ہیں شاید کہیں سے بہت تھکے ہوئے آئے تھے۔ یہ بڑا سا کتابوں کا بیگ لٹکائے پتا نہیں کس کس کے کام کرتے رہتے ہیں۔‘‘
پھر ان کے نکاح کے دن اس میں شریک ان سب دوستوں کی خوشی۔۔۔پتہ چلا کہ عثمان پبلک اسکول کے ٹیچر کی حیثیت سے شاگردوں میں وہ بہت مقبول ہے۔ ایسی ہی کتنی باتیں میں نے سنیں لیکن شمعون سے زندگی میں کبھی روبرو بات نہیں ہو سکی، بس ایک نقشہ ذہن میں کھنچتا تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے اس مفہوم سے مناسبت رکھتا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے پاس سے گزر جائیں تو ان کا پتا بھی نہ چلے، لیکن اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر دے۔
قسم کا تو معلوم نہیں لیکن اس کی لگن پوری ہوتے ہم نے بھی دیکھی۔ شاید فریال کے بعد زندگی کا ایک سال اللہ کی طرف سے اسکو اسی لیے دیا گیا۔ ’’لکڑی کا منات‘‘ جب ہاتھ میں آئی تو میں سوچ رہی تھی کہ ایک بھائی نے اس کتاب کے ذریعے بہن کی محبت کو کیسی حیات بخشی اور کا م پورا ہوگیا تو خود حیاتِ جاوداں پاگیا۔ ایسے ہی اور کتنے کام کیے ہوں گے۔ ہم آپ تو نہیں جانتے لیکن رب جانتا ہے۔ آج اس وقت جب رات دھیرے دھیرے بیت رہی ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کسی خاص مشن پر دنیا میں بھیجتا ہے، جب وہ پورا ہوجاتا ہے تو اپنی جنتوں سے ان کی دوری اسے گوارا نہیں ہوتی، جو دنیا کو عزیز ہوتے ہیں وہ اللہ کو بھی پیارے ہوتے ہیں اور وہ ہماری نگاہوں سے چھپ کر بقا کے اس سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ جب شمعون کا جنت کی طرف واپسی کا یہ سفر شروع ہوا ہوگا تو قرآن کے بیان کے مطابق فرشتوں نے اس کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا ہوگا اور اس کے کان میں کہا ہوگا: ’’اے نفسِ مطمئنہ، لوٹ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس داخل ہوجا میرے خاص بندوں میں اور داخل ہو جا جنت میں۔‘‘ (سورہ فجر آیت ۲۷۔۳۰)

*۔۔۔*

……………

شمعون قیصر ایک مہکتا پھول

سید مطاہر علی

……………

یہ بات ۲۰۰۵ء کی بات ہے جب شمعون قیصر سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ نارتھ کراچی میں بزم ساتھی یونٹ عثمان غنی کے صدر تھے اور روز تقریباً ۸ کلومیٹر کا سفر طے کرکے سائیکل پر پروگرامات کرانے آتے۔ ان کی مستقل مزاجی اور بچوں سے حسن سلوک کی وجہ سے وہ بچوں میں بہت مقبول تھے۔ آج بھی عثمان غنی کی گلیاں شمعون قیصر کے نام سے جگمگاتی محسوس ہوتی ہیں اور ہر زبان پر شمعون قیصر کی یادیں اور باتیں سنائی دیتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس عطا فرماے ۔(آمین)

*۔۔۔*

 …………… 

منظوم خراج تحسین

 

…………… 

ہمیشہ کی ملی ہے زندگی شمعون قیصر کو
عبدالقادر

……………

شہادت کی سعادت پائی ہے شمعون قیصر نے
بلندی اور عظمت پائی ہے شمعون قیصر نے
وہی شمعون قیصر جس نے ’’ساتھی‘‘ کی ادارت کی
ہمیشہ پارسائی اور نیکی کی نصیحت کی
عَلَم اونچا رکھا شمعون قیصر نے صحافت کا
جوانی میں انہیں حاصل ہوا درجہ شہادت کا
سِتمگرنے لہو معصوم انساں کا بہایا ہے
نشانہ ظلم کا شمعون قیصر کو بنایا ہے
چلا کر گولیاں قاتل نے سب پر ظلم ڈھایا ہے
دلوں کو کر دیا زخمی، ہزاروں کو رُلایا ہے
شہادت سے فضیلت پائی ہے شمعون قیصر نے
دلوں میں سب کے عزت پائی ہے شمعون قیصر نے
کیا ہے قتل اُن کو دن دہاڑے ایک جاہل نے
انہیں نہلا دیا ہے خون سے سفاک قاتل نے
شہادت کا ملا ہے تاج جب شمعون قیصر کو
ہمیشہ کی ملی ہے زندگی شمعون قیصر کو
بسا تھا اُن کے دل میں شوق اﷲ کی عبادت کا
شرف حاصل ہوا حج کا، مدینے کی زیارت کا
بزرگوں سے سدا ملتے تھے عزت اور عقیدت سے
ہر اک انساں سے پیش آتے محبت اور شفقت سے
شریف النفس تھے اور زندگی میں خیر خواہی کی
بھٹکنے والے انساں کی ہمیشہ رہنمائی کی
سدا مجبور اور آفت زدوں کی غم گساری کی
شرافت کے اصولوں کی ہمیشہ پاس داری کی
تبسم جس پہ رہتا تھا، وہ چہرہ یاد آئے گا
حلاوت جس کے اندر تھی، وہ لہجہ یاد آئے گا
بہن کی موت آئی، بھائی نے پھر گولیاں کھائیں
کئی صدمات کی موجیں تواتر سے چلی آئیں
بہن اور بھائی دونوں کی ، الٰہی مغفرت فرما
مدارج اُن کے اونچے کر، انہیں فردوس میں پہنچا

*۔۔۔*

…………… 

ہمار ا بھائی شمعون قیصر

ابن احسن (نذیر احمد عباسی)

……………

محبتوں ، الفتوں کا پیکر
رہ عزیمت کا یہ سپاہی
شہید حق وہ عظیم رہبر
ہمار ا بھائی شمعون قیصر
وہ نسل نو کی فلاح کی خاطر
رضاے رب، دین حق کی خاطر
محبتوں کا امین بن کر
میرا مربی شمعون قیصر
قلم کی جنگ کا جری مجاہد
امین، صادق، سخی مجاہد
محبتوں کا علم اٹھائے
چلا گیا ہے شمعون قیصر
تمنا ، خواہش عظیم لے کر
وہ راہِ حق میں نکل پڑا تھا
اسی نے علم وہنر سکھائے
میرا معلم شمعون قیصر
کہانی، افسانہ اور نظم کو
ادب کے سانچے میں ڈھالتا تھا
نوخیز ذہنوں کی سوچ کا وہ
مدیر ساتھی شمعون قیصر
میں کیسے احسنؔ یہ بھول جاؤں
شمعون قیصر اک انجمن تھا
ادیب، استاد اور صحافی
میرا یہ محسن شمعون قیصر
*۔۔۔*

……………

شمعون قیصر شہید

نعیم الدین نعیم

……………

سلام تم پر شمعون قیصر
ملی شہادت زہے مقدر
لہو میں اپنے گلاب ہے تر
خودی کا خوگر، وفا کا پیکر
ہے سب کومرنا یہ بات طے ہے
شہید کی موت سب سے بہتر
لہو سے روشن چراغ لے کر
چلا ہے پینے وہ جام کوثر
ہمیشہ برسے خدا کی رحمت
شمعون قیصر تیری لحد پر
چنا ہے دست قضا نے اس کو 
جو گل تھا گلشن میں سب سے بہتر
*۔۔۔*

……………

چند لفظوں میں

رحمہ وقار

(کزن شمعون قیصر)

……………

ایک مختصر افسانہ تھا وہ
جو لکھا بھی گیا پڑھا بھی گیا
اپنے ہی چند لفظوں میں
وہ لاکھ قصص سنا بھی گیا
وہ ایک دمکتا انگارہ
جو روشنیوں کا مسکن تھا
وہ علم کا منور گہوارا
جلا بھی گیا، بجھا بھی گیا
ہر شخص اس کا پرستار بنا
وہ ایک مایاناز شاہکار بنا
وہ اپنے قلم کی طاقت سے
ایک انمول سبق پڑھا بھی گیا
ہر ایک کا درد سمجھتا تھا
وہ کام انوکھے کرتا تھا
وہ ہمدردی کی خاطر خود کو
بچھا بھی گیا، لٹا بھی گیا
وہ پائے رب کی خوشنودی
ایک ٹھوس اٹل دیوار بنا
فی سبیل اﷲ چلتے چلتے
اپنا سکہ منوا بھی گیا
آج پھر آنکھ اشکبار ہوئی
دل پر پھر ایک بوجھ لگا
وہ ماضی کی چلمن سے خود کو
دکھلا بھی گیا ، یاد آبھی گیا
وہ ٹوٹتا تارا بہت جلد
بہت دور چلا بھی گیا
چلا بھی گیا۔۔۔
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top