skip to Main Content

شانو کی شامت

خالدہ شفیع
۔۔۔۔۔

شانو کے لاڈ پیار نے تو جلا مارا، ذرا جو رونے کے لیے اس کے چہرے کے زاویے بگڑے ۔امی لپک کر دوڑ پڑتیں”ہائیں میری چھانو کو کیا ہوا۔۔۔ذراکوئی ہاتھ تو لگائے۔“دراصل بات یہ تھی کہ شانو چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔امی ابا تواس پر جان دیتے تھے مگر گلو اور چنو منو سے اگر کوئی پوچھے کہ بھئی تمہیں بھی شانو اچھی لگتی ہے تو پوچھنے والے کی شامت۔
جیدو ،گلو، چنو اور منو سب شانو سے بڑے تھے۔ شانو کی لاڈ سے بنی ہوئی تھوتھی ان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ چنو منو کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں ۔ ان کے خیال میں تو جب سے یہ پیدا ہوئی تھی، امی نے باقی اولاد کو تو سوتیلا سمجھ لیا تھا اور ان کی واحد اولاد صرف شانو ہی تھی۔موٹی سی گول مٹول شانو جو دن بدن چوڑائی میں زیادہ مگر لمبائی میں کم ہوتی جا رہی تھی۔ لال لال خون بھرے غبارے کی طرح گال تھے۔ سوئی چبھو دو تو خون کی پچکاری نکل آئے مگر امی کی یہ حالت کہ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے شانو کو خوب خوب پیار کرتیں اور پھر اگر بہت زیادہ محبت امنڈ پڑتی تو کہتیں ”آج میری بٹیا کا چہرہ کیسا اترا اترا سا لگ رہا ہے۔“اور شانو بڑے لاڈ سے اچھی بھلی انگلی بتاتی ”امی جان یہ بہت درد کر رہی ہے۔“
”ہاں بڑی درد کر رہی ہے جیسے، ہمارے جو اِتے زور سے چوٹ لگی تھی، ہم تھوڑا ہی دکھاتے پھرتے ہیں۔“منو ویسا ہی منہ بنا کر شانو کو چڑا دیتا اور شانو بگڑ کراور زیادہ لاڈ پر اتر آتی اور پھر امی چنو منو کو ڈانٹ کر بھگا دیتیں مگر اس ڈانٹ کا غصہ چنو منو امی کی غیر موجودگی میں جی بھر کر اتارتے۔ چنو منو کا بس چلتا تو موٹی سی شانو کو مار مار کر گوندھے ہوئے آٹے کی ڈھیری بنا دیتے مگر شانو کی بھائیں بھائیں خطرے کی گھنٹی بن کر دہلائے رہتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا اب امی آئیں کہ اب آئیں۔ کسی طرح بھی چنو منو کی بھڑاس نکل ہی نہ چکتی تھی۔لاکھ سوچا کہ کس طرح اسے امی سے پٹوایا جائے مگر ہر وار ناکام رہا۔ ایک دن وہ آگیا کہ امی شانو کو صاف ستھرے دھلے ہوئے کپڑے پہنا کر اسکول بٹھا آئیں۔ شانو کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی۔ منہ پھاڑ پھاڑ کر روئی مگر اس دن تو امی پر بھی کچھ زیادہ اثر نہ ہوا۔ شانو کو امی کی یہ ادا قطعی پسند نہ آئی۔ سب لڑکیاں جمع ہو کر یوں دیکھنے لگیں جیسے چڑیا گھر میں کوئی عجیب سا جانور آگیا ہو۔
نئے نئے اجنبی چہرے دیکھ کر شانو کو اور بھی رونا آیا اور کچھ ہی دیر بعد وہ گھر پہنچادی گئی۔ چنو منو نے روتی بسورتی شانو کا تالیاں بجا بجا کر استقبال کیا۔ دوسرے دن امی نے اسکول کے جانے کے لئے لاکھ بہلایا، چوکلیٹوں سے جیبیں بھر دیں مگر اس کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی۔ پہلے ہی دلاری بچی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔چپ ہو کر بیٹھ رہیں۔ چھوٹی ہی تو ہے سمجھ جائے گی۔بڑی ہو کر کون نہ سیکھا۔مگر چنو منو کی بے چینی بدستور تھی اور اب تو شانو اس قدر ڈھیٹ اور ضدی ہو گئی تھی کہ بالکل ہی امی کا کہنا نہ مانتی۔امی ذرا جو قاعدہ لے کر پاس بٹھاتیں تو امی کی نظر ہٹتے ہی شانو یہ جا وہ جا۔لہٰذا کچھ ہی دنوں بعد ایک ماسٹر صاحب رکھ دیے گئے جو گھر ہی میں آکر شانوں کو پڑھاتے۔چنو منو روزانہ پرے کمرے کی چوکھٹ پر بیٹھ کر دیکھتے کہ کب شانو کو مار پڑے اور ان کے لڈّو پھوٹیں مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی اور جب ایک مہینے بعد امی نے شانو سے سبق سننا چاہا تو وہ بالکل ہی کوری نکلی۔اس پر بھی ڈانٹ ماسٹر صاحب کو پڑی کہ وہ کیوں توجہ سے نہیں پڑھاتے۔مگر زندگی میں ایک نہ ایک بار ضرور شامت آتی ہے۔چنو منو کو اس پر پکا یقین تھا اور اسی یقین پر وہ صبر کئے چلے آ رہے تھے۔
بات یوں ہوئی کے امی کی بڑی سی گھڑی جو پچھلے سال ابا ولایت سے لائے تھے،شوکیس میں رکھی ہوئی تھی۔رات شادی سے واپس آ کر امی نے جلدی میں وہیں رکھ دی تھی۔شانو کی جو نظر پڑی تو منہ سے رال ٹپک پڑی۔ ”ہائے کتنی پیاری ہے پہن کر تو دیکھیں۔“اور شوکیس کا دروازہ کھولنے لگی ، مگر جیدی نے بہت روکا،چیخ کر کہا،” ٹھہرو ہم اتار کر دیتے ہیں۔تمہارا ہاتھ نہیں جائے گا۔“لیکن اس نے ایک نہ سنی اور اپنی ضد میں بلاخوف جوں ہی گھڑی اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا، چھن سے گلاس نیچے آ رہے اور ساتھ ہی گھڑی بھی۔شانو کا پہلی بار زور سے دل دھڑکا۔ اس سے پہلے کہ شانو اپنا بچاؤ کرتی، امی موقع واردات پر پہنچ چکی تھیں۔کئی ایک زور دار تھپڑ جماکر مارے اور گلو، جیدو اور چنو منو کو پہلی اور صرف پہلی بار امی کی یہ ادا پسند آئی اور اب شانو کو اچھی طرح پتہ چل گیا تھا کہ بری بات ہمیشہ بری ہوتی ہے، اس کا انجام بھی برا ہوتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top