skip to Main Content
سکے کی کہانی

سکے کی کہانی

محمد علی ادیب

۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے ایک روپے کا نوٹ بھور ے رنگ کا اور دو روپے کا نوٹ نیلے رنگ کا ہوتا تھا۔ یہ اس لیے معلوم تھا کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تب ہمیں کبھی ایک روپیہ اور کبھی دو روپے ملا کرتے تھے۔ کچھ بڑے ہوئے تو پانچ روپے کا نوٹ ملنا شروع ہوگیا۔ اس کے بعد دس روپے کا نوٹ اور پھر پچاس روپے کے نوٹ کو ہم مہینہ بھر چلاتے تھے۔ میڑک میں ہمیں صرف سو روپے ماہانہ خرچہ ملتا تھا۔

یاد آیا کہ ہمارے سکے کی تاریخ بھی بڑی پرانی ہے کیوں ناں اس کی تاریخ پر لکھا جائے انسان کہ سب سے پہلے چیزوں کی لین دین میں کیا چیز استعمال کرتے تھے، اُس کا نام کیا تھا۔ اس کے بعد جیسے جیسے دور تبدیل ہوا تو اس میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ چلیں پھر پڑھتے ہیں سکہ کہانی کو جو ہے بڑی پرانی۔۔۔

پرانے وقتوں میں جب سکہ ایجاد نہیں ہوا تھا، تب انسان کو ابتدا سے ہی اپنی بقا کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی اور انسان کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس طرح مختلف چیزوں پر مختلف لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور لوگوں کو ضروریاتِ زندگی کے حصول میں مشکلات پیش آنا شروع ہوگئیں۔ انہی مشکلات کے پیش نظر نظام تبادلہ وجود میں آیا۔ اس طرح لوگوں کو روزمرّہ زندگی میں آسانی آگئی لیکن اس نظام کی خامی یہ تھی کہ ایک انسان کو گندم کی ضرورت تھی مگر دوسرے کے پاس کپاس تھی اور تیسرے انسان کے پاس چاول تھے۔ اس طرح یہ نظام بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتا مگر اس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ کچھ عرصے تک یہ نظام رہا پھر ختم ہوگیا۔

ایک ہزار قبل مسیح میں پہلی بار کرنسی سکوں کی صورت وجود میں آئی۔ ابتدا میں سکّے مٹی سے بنائے جاتے تھے چونکہ مٹی کے سکّے زیادہ دیرپا نہ ہونے کی وجہ سے ختم کر دیے گئے اس کے بعد لوگوں کے علم و ہنر میں بھی اضافہ ہوا جس کا اثر سکّوں پر بھی پڑا۔ پھر سکے غیر مصفّٰی دھات سے بنائے جاتے تھے بعد میں سونا اور چاندی اور تانبے سے سکے بنائے جانے لگے۔ پوری دنیا کی طرح برصغیر میں بھی سکوں کے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت ایک خود ساختہ کرنسی بھی برصغیر میں استعمال ہو رہی تھی جو کہ کوڑی کے نام سے مشہور تھی۔ خراب کوڑی کو پھوٹی کوڑی کہا جاتا تھا۔ تین پھوٹی کوڑیاں ایک کوڑی کے برابر ہوتی تھیں اور اٹھاراں سو کوڑیاں ایک روپے کے برابر ہوتی تھیں۔

شیر شاہ سوری کے دور میں روپیہ کا آغاز ہوا اور سکہ سازی میں ٹھوس اصطلاحات ہوئیں۔ جس کے مطابق سکوں کا وزن مقرر ہوا۔ روپیہ سنسکرت کے لفظ ’’روپا‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے’’ سفیدچمکتی ہوئی چیز۔‘‘

چاندی کے سکے کو روپیہ تانبے کے سکے کو پیسہ اور سونے کے سکے کو اشرفی کہا جاتا ہے۔ جہاں سکے بنتے ہیں۔ اس جگہ کو منٹ کہا جاتا ہے۔ منٹ کو اردو میں ٹیکسال کہتے ہیں۔ لفظ ٹیکسال دو الفاظ کامرکب ہے۔’ٹنگ‘ اور ’سال‘۔۔۔ ٹنگ سکے کو کہتے ہیں اور سال کا مطلب گھر ہے یعنی ٹیکسال کا مطلب ہے سکے بنانیوالے کا گھر ۔۔۔

اٹھارہویں صدی میں پیتل دریافت ہوا جو کہ دو دھاتوں کا مرکب ہے۔ اس کے بعد پیتل کے سکے بھی بننے شروع ہو گئے۔ آج کل بھی زمانہ قدیم کی طرح مختلف دھاتوں کو ملا کر بھی سکے بنائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں بائی میٹل سکے بھی بنائے جا رہے ہیں جن میں دونوں دھاتیں واضح طور پر الگ الگ دکھائی دیتی ہیں۔ آج کل سٹیل، کاپر، نکل، ایلومینیم، پیتل، سونا اور چاندی کے سکے بنائے جا رہے ہیں۔

یہاں پر ایک مزے کی بات میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ جب میں میٹرک میں تھا، تب دو روپے کا سنہری سکہ متعارف کروایا گیا۔ ان سکوں میں کسی میں تین بادل بنے ہوئے ہوتے تھے۔تب یہ افواہ پھیل گئی کہ یہ بادل سونے کے بنے ہوئے ہیں اور لوگوں نے منھ مانگی قیمت میں وہ سکے خریدے لیکن جب حقیقت معلوم ہوئی تب افسردہ چہرے لے کر بیٹھ گئے۔

جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ کاغذ کی ابتدا چین سے ہوئی اور اس طرح پیپر کرنسی کا آغاز ۷۰۰ عیسوی میں چین سے ہی ہوا اور پھر مختلف ممالک نے بھی پیپر کرنسی بنانا شروع کردی۔ پہلے پہل بننے والے نوٹ یک طرفہ ہوا کرتے تھے یعنی ایک طرف ہی چھپائی ہوتی تھی اور پھرنوٹوں کے دونوں طرف چھپائی ہونا شروع ہوگئی۔ نوٹ بنانے کے لیے زیادہ تر کاٹن بیس پیپر استعمال ہوتا ہے۔ دنیا میں پہلی بار ۱۹۸۸ء میں آسٹریلیا نے پلاسٹک (پولیمر) کا نوٹ جاری کیا جس کی مالیت دس ڈالر تھی۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے بھی پولیمر نوٹ جاری کیے اس دوران مختلف اشیا کے آمیزہ (ہائی بریڈ) سے نوٹ بنانے کا بھی تجربہ کیا گیا لیکن وہ پولیمر نوٹوں کی نسبت زیادہ کارگر ثابت نہ ہو سکے۔ آج دنیا کے کم و بیش ۶۰ ممالک ایسے ہیں جنھوں نے پولیمر نوٹ جاری کیے جن میں سنگاپور‘ رومینیا‘ میکسیکو‘ نائیجیریا وغیرہ شامل ہیں۔

چلیں اب پڑھتے ہیں کہ پاکستان میں جدید کرنسی کے دور کی ابتدا کب ہوئی۔ یہ یکم اپریل۱۹۴۸ء کی بات ہے جب اْس وقت کے وزیر خزانہ ’غلام محمد ‘نے ایک پائی، آدھا آنہ، دو آنہ، پاؤروپیہ، نصف روپیہ اور ایک روپیہ کے سات سکوں کا ایک سیٹ جاری کیا اورایک تقریب میں یہ خوب صورت سیٹ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو پیش کیا۔

جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح ہوا۔ اس افتتاح کے بعد پاکستان میں نئے کرنسی نوٹوں کی تیاری اور پاکستان کے اپنے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کے قیام کے لیے کوششیں تیز کردی گئیں، ان کوششوں کے نتیجے میں درج ترتیب سے سکوں اور نوٹوں کا اب تک اجرا ہوتا رہا ہے۔ یکم اکتوبر ۱۹۴۸ء کو حکومت پاکستان نے پانچ روپے، دس روپے اور سو روپے کے کرنسی نوٹ جاری کیے۔ یہ نوٹ برطانیہ کی فرم میسرز ڈی لاروا اینڈ کمپنی میں طبع کیے گئے تھے۔ یکم مارچ ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان نے ایک اور دو روپے مالیت کے دو کرنسی نوٹ جاری کیے۔ ایک روپیہ پر وزارت داخلہ کے سیکرٹری ’’وکٹر ٹرنر‘‘ کے دستخط جبکہ دو روپے پر’پہلی مرتبہ‘ اسٹیٹ بینک کے گورنر زاہد حسین کے دستخط شائع ہوئے۔ اس سے قبل نوٹوں پر وزیر خزانہ غلام محمد کے دستخط شائع ہوتے تھے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے یکم ستمبر ۱۹۵۷ء کو پانچ روپے اور دس روپے کے نوٹ جاری کیے گئے۔

اسٹیٹ بینک نے ۲۴ دسمبر ۱۹۵۷ء کو سو روپے مالیت کا نوٹ جاری کیا جس پر باباے قوم محمد علی جناح کی تصویر نقش تھی۔ اس کی دوسری طرف بادشاہی مسجد لاہور کی تصویر تھی۔ اس پر گورنر اسٹیٹ بینک عبدالقادر کے دستخط تھے۔پاکستان میں پہلی بار یکم جنوری ۱۹۶۱ء کو اعشاری سکے جاری کیے گئے جن کی وجہ سے ایک پائی، پیسہ، اکنی، دونی، چونی اور اٹھنی کی قانونی حیثیت ختم کرکے رفتہ رفتہ ایک، دو، پانچ، پچیس، پچاس پیسے کے سکے اور ایک روپے کا سکہ رائج ہوا۔ ۱۲جون ۱۹۶۴ء کو اسٹیٹ بینک نے پچاس روپے مالیت کا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ اس نوٹ پر گورنر اسٹیٹ بینک شجاعت علی کے دستخط تھے۔ ۷ جون ۱۹۷۱ء کو پاکستان کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا ء پر ایک سو اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے، اس لیے عوام ایک سو اور پانچ سو کے نوٹوں کوبینکوں اور مقرر کردہ اداروں میں جمع کرواکر ان کی رسید لے لیں تاکہ بعد میں ان کے متبادل دوسرے نوٹ حاصل کرسکیں۔پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ ۲۵ دسمبر ۱۹۶۶ء کو حکومت نے چاندی اور سونے کے سو اورپانچ سو روپے کے دو یادگاری سکے جاری کیے، جو کہ وینزیلا میں تیار کیے گئے تھے۔ ۲۰جنوری ۱۹۸۲ء کو حکومت پاکستان نے ایک روپیہ مالیت کا اور بعد ازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پانچ، دس، پچاس اور ایک سو روپے مالیت کے چار نئے کرنسی نوٹ جاری کیے۔ جن کی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ اس پر بنگالی زبان کی عبارتیں حذف کردی گئی تھیں اور دوسری بات یہ کہ ان کی پشت پر اُردو میں’رزق حلال عین عبادت ہے۔‘ کی عبارت طبع تھی۔

یکم اپریل ۱۹۸۶ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پانچ سو روپے مالیت کا نیا کرنسی نوٹ جاری کردیا۔ ۱۸ جولائی ۱۹۸۷ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک ہزار روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا جو مالیت کے اعتبار سے اْس وقت پاکستان کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ تھا۔ اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے ۲۹جنوری۱۹۹۶ء کو حکومت پاکستان نے ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر اقوام متحدہ کا لوگو اور پچاس کا ہندسہ کندہ تھا۔

۲۲مارچ ۱۹۹۷ء کو حکومت نے پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے پچاس روپے مالیت کا ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر پاکستان کا پرچم بنا تھا اور پچاس سالہ جشن آزادی پاکستان ۱۹۴۷ء تا ۱۹۹۷ء کے حوالے ہی سے اسے جاری کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پانچ روپے کا ایک خصوصی نوٹ جاری کیاجس کی پشت پر ملتان میں واقع شاہ رکن عالم کے مزار کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ ۲۶ مئی ۲۰۰۶ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ (جو کہ پانچ ہزار مالیت کا تھا) کے اجرا کا اعلان کیا۔ اسی روز دس روپے کا نیا نوٹ بھی جاری کیا گیا جس کا رنگ سبز جبکہ اس کی پشت پر باب خیبر کی تصویر شائع کی گئی تھی۔26 مئی ۲۰۰۶ء کو اسٹیٹ بینک کی طرف سے دس روپے مالیت کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا جس کا رنگ سفید اور وزن ۲۵. ۸ گرام تھا۔ اس کے بعد یکم اکتوبر۲۰۰۹ء کو عوامی جمہوریہ چین کے ساٹھویں جشن آزادی کے موقع پر دس روپے مالیت کا ایک یادگاری سکہ جاری کیا گیا۔اس کی پشت پر پاکستان اور چین کے پرچموں کی تصویروں کے ساتھ’ساٹھ سالہ جشن آزادی عوامی جمہوریہ چین ‘ اور’ پاک چین دوستی زندہ باد‘ کی عبارت درج تھی۔

دوستو!میرے کزن کو مختلف ممالک کے سکے جمع کرنے کا بہت شوق ہے اور آج بھی جب میں اس کے پاس جاتا ہوں تب وہ سکے ضرور دیکھتاہوں۔ ویسے جب میں نے اس بارے میں تحقیق کی تو یہ معلوم ہوا کہ سکے جمع کرنے کا آغاز رومن بادشاہ آگسٹس کے دور میں ہوا۔ آگسٹس کو ہی دنیا کا پہلا کولیکٹر کہا جاتا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ اپنے آباو اجداد کے دور میں چلنے والے سکے بطور نشانی جمع کیے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top