skip to Main Content

سچی دوستی

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو عبداللہ بن عمر واقدی دوسری صدی ہجری میں مشہور عالم،مورخ اور سیرت نگار گزرے ہیں۔ان کے دادا کا نام واقد تھا،انہی کی نسبت سے واقدی کہلائے جاتے ہیں۔عباسی خاندان کا ساتواں خلیفہ مامون الرشید(المامون)ان کا بڑا قدردان تھا اور اس نے ان کو بغداد کے مشرقی حصے کا قاضی بنادیاتھا۔واقدی بڑے دریادل آدمی تھے اور غریبوں مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کے لئے اپنا مال بے دریغ خرچ کرتے رہتے تھے اس لئے اکثر مقروض رہتے تھے۔اپنی سخاوت کی وجہ سے بعض اوقات خود مفلس ہو جاتے تھے۔ان کا بیان ہے کہ”ایک مرتبہ عید سر پر آگئی اور میرے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے اہل وعیال کے لئے نئے کپڑے خرید سکوں۔اس مشکل کے حل کے لئے بہت سوچا لیکن اس کے سوا اور کوئی تدبیر سمجھ نہ آئی کہ اپنے کسی دوست سے قرض لوں۔یہ سوچ کر اپنے ایک تاجر دوست کے پاس گیا اور اس سے کچھ روپیہ قرض مانگا۔اس نے کسی حیل حجت کے بغیر درہموں سے بھری ہوئی کئی تھیلیاں میرے سامنے رکھ دیں۔ان میں ایک لاکھ دوسو درہم تھے۔میں انہیں لے کر گھر آگیا۔
تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا اور کہا کہ آج کل مجھ پر پیغمبری وقت آپڑا ہے۔اس کی وجہ سے سخت پریشان ہوں۔بہت سی ضرورتیں منہ پھاڑے کھڑی ہیں۔لیکن میرے پاس اتنا بھی نہیں کہ اپنی ایک ضرورت بھی پوری کر سکوں۔مہربانی کر کے مجھے کچھ روپیہ قرض دو۔میں نے اس کو مردان خانے میںبٹھایا اور کہا کہ میں گھر کے اندر جا کر بیوی سے مشورہ کرتا ہوں پھر تمہیں آکر بتاﺅں گا کہ تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں،تم یہیں بیٹھو ۔“یہ کہہ کر میں گھر کے اندر گیا اور بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے کہا:
”توپھر آپ نے کیا سوچا ہے؟“
میں نے کہا”میرے خیال میں جو رقم میرے تاجر دوست نے دی ہے اس میں سے آدھی رقم اپنے اس ہاشمی دوست کو دے دوں۔“میری بیوی بولیں:
”سبحان اللہ!آپ اپنے دوست کے پاس گئے اور اپنی ضرورت بیان کی تو اس نے کسی حیل وحجت کے بغیر آپ کو ایک لاکھ دوسو درہم دے دئیے۔اب آپ کے پاس ایک ایسا دوست اپنی ضروریات لے کر آیا ہے جو ہاشمی ہونے کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے نسبت رکھتا ہے،آپ اس کو آدھی رقم پر ہی ٹالنا چاہتے ہیں یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں یہی مشورہ آپ کو دوں گی کہ آپ ساری رقم ہاشمی دوست کو دیجئے۔“
میں نے بیوی کے مشورہ کے مطابق ساری رقم(ایک لاکھ دو سودرہم)ہاشمی دوست کو دے دی اور وہ خوش خوش اپنے گھر گیا۔
اب اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے ایک لاکھ دوسو درہم دینے کے بعد میرا تاجر دوست خالی ہاتھ رہ گیا اور اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے وہ بھی قرض لینے پر مجبور ہوگیا۔اس غرض کے لئے وہ میرے ہاشمی دوست کے پاس آیا جو اس کا بھی پرانا دوست تھا۔ہاشمی نے اس کو پریشان اور ضرورت مند دیکھ کر وہ رقم اس کے سامنے رکھ دی جو مجھ سے لی کر گیاتھا۔تاجر دوست نے رقم والی تھیلیوں کو دیکھا تو یہ وہی تھیں جو اس نے مجھے دی تھیں۔وہ حیران ہوکر فوراً میرے پاس آیا اور پوچھا کہ ”بھائی یہ کیا قصہ ہے؟“
میں نے اسے ساراقصہ شروع سے اخیر تک سنایا۔اب ہم نے اپنے ہاشمی دوست کو بھی بلا بھیجا۔وہ آیا تو ہم تینوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کر کے آپس میں بانٹ لیں کیونکہ تینوں ہی حاجت مند ہیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ہوتے ہوتے اس واقعہ کی خبرخلیفہ مامون الرشید تک پہنچ گئی۔اس نے قاصد بھیج کر مجھے طلب کیا۔میں حاضر ہوا تو اس نے مجھ سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا۔میں نے سارا قصہ عرض کر دیا جس میں اپنے ارادے اور بیوی کے مشورے کا ذکر بھی کیا۔خلیفہ تینوں دوستوں کی ایک دوسرے کے ساتھ بے غر ض نیکی اور ہمدردی کا حال سن کر بہت خوش ہوا۔اس نے خادم کو حکم دیا کہ وہ سامنے پڑی ہوئی تھیلی اٹھا لاﺅ۔وہ تھیلی لایا اور اسے کھولا گیا تو اس میں دس ہزا ردینار تھے۔(اس زمانے میں دینار سونے کا ایک وزنی سکہ ہو تا تھا جس کی قیمت اس زمانے میں کئی ہزار روپے بنتی ہے)خلیفہ نے دو دو ہزار درہم تینوں دوستوں کو انعام کے طور پر دئیے اور چار ہزار دینار یہ کہہ کر میری بیوی کو بھجوائے کہ ”یہ نیک دل خاتون تم تینوں سے زیادہ سخی ہے۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top