skip to Main Content
سپاہی

سپاہی

محمد الیاس نواز

کائنات کے خدا کی فوج کا سپاہی کون ہوتا ہے….

کردار:
قاضی ، سپاہی،سپہ سالار،فرشتے، انسان

 

پس منظر

عدالت لگی ہوئی ہے۔قاضی اپنی مسند پر پُروقار انداز میں بیٹھاہے۔مقدمے کی کارروائی شروع ہوا ہی چاہتی ہے۔ کارروائی دیکھنے والوں کا اچھا خاصا جم غفیر لگا ہوا ہے۔ آج ایک انوکھا مقدمہ پیش کیا جانے والا ہے۔ایک سپاہی فوجی لباس میں مدعی کی حیثیت سے کھڑا ہے۔سپہ سالار بطور مدعا علیہ موجود ہے۔ 

 

پہلا منظر

 

عدالت کا نقیب کارروائی شروع کرنے کا اعلان کرتا ہے۔باتیں کرتے حاضرین خاموش ہو جاتے ہیں۔ کارروائی شروع ہوتی ہے۔

 
قاضی:(مدعی سپاہی سے)’’اپنا دعویٰ پیش کرو۔‘‘

 
سپاہی:’’جناب عالی! میں اسی شہر کا باسی ہوں اور کچھ عرصہ قبل میں نے فوج میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔فوج میں شمولیت کے وقت مجھ سے پیشہ ورانہ فرائض کی پابندی،فوجی قوانین پر سختی سے عمل اورنظم و ضبط پر قائم رہنے کا اقرار اور وفاداری کا زبانی او رتحریر حلف لیا گیا۔پھر اس کے بعد تربیت کے سخت مراحل سے گزارا گیا، جہاں سے کئی لوگ گھبرا کر واپس ہو جاتے ہیں مگر چونکہ میں اپنے شوق سے سپاہی بننے آیا تھا،اس لیے بڑے حوصلے کے ساتھ بہتر انداز میں تربیتی مراحل طے کیے اور سپاہی بن گیامگر تھوڑے ہی دن بعد فوج سے نکال باہر کیا گیا۔جناب عالی!اتنی سخت محنت والی تربیت میں نے اس لئے نہیں لی تھی کہ چند دن میں نکال دیا جاؤں۔لہٰذا عدالت عالیہ سے میری استدعا ہے کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔‘‘

 
قاضی:(سپہ سالار سے مخاطب ہو کر)’’عدالت آپ سے جاننا چاہتی ہے کہ جب ایک معزز شہری نے فوج میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔فوج کے قوانین اور نظم و ضبط کی پابندی کا حلف اٹھایااور پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کا اقرار بھی کیا۔پھر کیا وجہ ہوئی کہ اس کو فوج سے نکال دیا گیا؟بطور فوجی سربراہ جواب دیجئے۔‘‘

 
سپہ سالار:(دوقدم آگے بڑھ کر)’’جناب عالی!اس میں کوئی شک نہیں کہ مدعی نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔قوانین اور نظم و ضبط کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کا بھی اقرار کیا۔مگر مدعی کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ سوچ سمجھ کراپنے شوق سے فوج میں شامل ہوا۔‘‘

 
قاضی: (حیران ہوتے ہوئے)’’تو کیاانہیں زبردستی شامل کیا گیا؟‘‘

 
سپہ سالار:’’حقیقت یہ ہے کہ انہیں فوج میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا ۔چونکہ مدعی کے والد اسی فوج میں سپاہی تھے تو انہیں خیال آیا کہ سپاہی کے بیٹے کو سپاہی ہوناچاہئے،لہٰذا انہوں نے فوج میں بغیر سوچے سمجھے شمولیت اختیار کر لی۔‘‘

 
قاضی:’’تو کیا سپاہی کا بیٹا سپاہی نہیں ہو سکتا؟‘‘

 
سپہ سالار:’’جناب عالی! ایک سپاہی کا بیٹا فوج میں سپاہی بن سکتا ہے مگرپیشہ ورانہ فرائض(ڈیوٹی) ادا کیے بغیراور نظم و ضبط کی پابندی کیے بغیر صرف اس وجہ سے سپاہی نہیں رہ سکتا کہ ایک سپاہی کا بیٹا ہے تو سپاہی ہی رہے گا۔بغیر فوجی قوانین کی پابندی کیے صرف فوجی لباس پہننے اوراپنے آ پ کو سپاہی کہنے یا سمجھنے سے کوئی فوج کا سپاہی کیسے رہ سکتا ہے۔جناب عالی!ہماری زمینی فوج میں شامل ہونے اور اس میں رہنے کے تین اصول یا شرائط ہیں۔پہلی تو یہ کہ شامل ہونے والا زبانی اور تحریری اقراراور اعلان کرے کہ وہ اس فوج میں شامل ہو گیا ہے اورنظم و ضبط کی پابندی کا حلف اٹھاے۔دوسرایہ کہ اس کے ذمے جو روزانہ کے فرائض ہوں ان کو بخوبی ادا کرے۔جناب عالی! پہلی شرط تو انہوں نے پوری کی اور شامل ہو گئے مگر روز انہ کے فرائض کے لیے یہ ایک دن بھی نہیں آے۔آپ گواہوں سے پوچھ سکتے ہیں۔‘‘

 
قاضی:(پہلے گواہ سے)’’کیا کہتے ہو تم اس بارے میں؟‘‘

 
گواہ:’’جناب عالی! میں پیشے کے لحاظ سے سنار ہوں اور شہر کے مرکزی بازار میں فوجی چھاؤنی کے بالکل ساتھ میری دکان ہے۔مدعی میرا دوست ہے۔یہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے اوقات میں میری دکان پر بیٹھا رہتا ہے۔بعض اوقات چھاؤنی سے حاضری کے اوقات میں مخصوص اعلان ہوتا رہتا ہے مگر یہ پھر بھی بیٹھا رہتا ہے یا بازار میں آوارہ گھومتا رہتا ہے‘‘۔

 
دوسرا گواہ:’’جناب عالی!میں مدعی کا پڑوسی ہوں۔ شام کی حاضری کے اوقات میں موصوف یاتوگھر کے باہر گلی میں بیٹھے ہوتے ہیں یا محلے میں گھومتے پھرتے ہیں۔‘‘

 
قاضی:’’مدعاعلیہ(سپہ سالار)کی وضاحت اور گواہوں کی گواہی کے بعدتمہارا دعویٰ نہ صرف غلط ثابت ہوتا ہے بلکہ تمہاری اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے لا پروائی ثابت ہوتی ہے۔جس کے بعد تمہیں سپاہی کہلانے کاحق نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا عدالت تمہاری برطرفی کو برقرار رکھتے ہوے سپہ سالار کو حق بجانب قرار دیتی ہے‘‘۔

 
سپہ سالار کے چہرے پر قدرے اطمینان نظر آتا ہے جبکہ مدعی کا چہرہ لٹک جاتا ہے۔مجمع میں کچھ اس طرح کے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں ….’’.نکما ہے‘‘…. ’’سپاہی اور سنار کی دوکان؟‘‘…..دعویٰ دیکھو کیسے کرنے آگیا۔‘‘وغیرہ……عدالت برخاست ہونے کو ہے کہ اچانک مجمع سے ایک اور سپاہی نکل کر آگے بڑھتا ہے اور قاضی سے مخاطب ہوتا ہے۔

 
سپاہی:’’جناب عالی! اس سے پہلے کہ عدالت برخاست ہو،آپ سے میری استدعا ہے کہ میری عرض بھی سن لی جاے، میرا دعویٰ بھی سپہ سالار کے خلاف ہی ہے۔‘‘

 
سپہ سالار ششدر سا ہو جا تاہے جبکہ تبصرے کرتے مجمع پر بھی مکمل خاموشی چھا جاتی ہے ۔ قاضی سمیت سارے حاضرین حیرانی سے سپاہی کو دیکھنے لگتے ہیں۔چند لمحوں کی خاموشی کے بعد….

 
قاضی:(سپاہی سے)’’اپنا دعویٰ پیش کرو‘‘۔

 
سپاہی:’’جناب عالی !میں بھی بالکل اسی طرح زمینی فوج میں شامل ہوا۔تمام قوانین کی پابندی کا عہد کیا اور پیشہ ورانہ فرائض بھی پوری توجہ اور مستعدی سے ادا کیے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چھاؤنی سے حاضری کے اوقات میں مخصوص اعلان ہوا ہو اور میں پہلے سے موجود نہ رہاہوں۔میں نے فرائض کی ادائیگی سے نہ کبھی چھٹی کی اور نہ کبھی رعایت مانگی مگر پھر بھی فوج سے نکال دیا گیا۔‘‘

 
یہ کہہ کر سپاہی چپ ہو جاتا ہے۔عدالت جو برخاست ہونے لگی تھی اس کے ماحول میں پھر سنجیدگی واپس آجاتی ہے۔سپہ سالار جوپہلے پریشان نظر آرہا ہوتا ہے،دعویٰ سننے کے بعد مطمئن لگنے لگتا ہے۔

 
قاضی:(سپہ سالار سے)’’اس دعویٰ کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟‘‘

 
سپہ سالار:’’جیساکہ میں نے عدالت عالیہ کے سامنے عرض کی ہے کہ فوج میں شامل ہونے اور شامل رہنے کی تین ہی شرائط ہیں۔یعنی فوج میں شامل ہونے کا حلفیہ اعلان،پیشہ ورانہ فرائض اورقوانین کی پابندی۔ ان دونوں کی حد تک تو مدعی بالکل درست کہتا ہے مگر ہماری تیسری شرط یہ ہے کہ شامل ہونے والا فرد اخلاقی طور پر بھی اچھا ہویعنی اس کے باقی سارے معاملات بھی بہتر ہوں مگر اس کا حا ل یہ ہے کہ آئے دن شکایتیں آتی رہتی ہیں۔اس شخص سے پڑوسی ،رشتہ دار، عزیز اور فوج کے لوگ سارے ہی تنگ ہیں،نہ کوئی اس کے ہاتھ سے محفوظ ، نہ زبان سے۔عدالت عالیہ کی اجازت ہوتو ایک زندہ گواہی پیش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 
قاضی:’’اجازت دی جاتی ہے۔‘‘

 
سپہ سالار اپنے ساتھ آنے والے سپاہیوں میں سے ایک ایسے سپاہی کو پیش کرتا ہے جس کی ایک آنکھ ہے۔ وہ قاضی کے سامنے آکر مدعی کے بارے میں بتانے لگتا ہے۔

 
گواہ:’’جناب عالی !میں اس فوج کا پرانا سپاہی ہوں اور مدعی جب فوج میں تھا تو میں اس کا افسر بھی رہا ہوں۔اس کے اور میری درمیان ایک چھوٹی سی تلخ کلامی کیا ہوئی کہ اس نے مجھے اس زور کا گھونسہ مارا کہ(بائیں آنکھ کی جگہ خالی گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)میری آنکھ ضائع ہو گئی۔جبکہ بعد کی تحقیق میں غلطی بھی مدعی کی ہی ثابت ہوئی۔‘‘

 
گواہ کی گفتگو سے بے چارگی اور چہرے سے محرومی کا کرب نظر آتا ہے توعدالت کا ماحول افسردہ ہو جاتا ہے۔چند لمحے قاضی سمیت سارے لوگ کبھی مدعی اور کبھی گواہ کو دیکھتے رہتے ہیں،پھراسی طرح اس کے خلاف مجمع سے بھی کئی گواہیاں مل جاتی ہیں،جس کے بعدقاضی اس سے مخاطب ہوتا ہے…

 
قاضی:(سپاہی سے)’’تمہاری برطرفی نہ صرف یہ کہ سو فیصد درست ہے بلکہ ہم حیران ہیں کہ اس حد تک اخلاقی معاملات کی خرابی کے با وجود تمہیں دعویٰ کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟تمہارے دعویٰ کرنے کی تمہیں یہ سزا دی جاتی ہے کہ تم پر ہمیشہ کے لیے سرکاری ذمہ داریوں کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔آئندہ تمہیں کسی سرکاری محکمے میں کوئی ذمہ داری نہیں دی جا سکتی۔‘‘

 
اس کے ساتھ ہی قاضی اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،اورناظرین کی تالیوں کی گونج میں عدالت برخاست ہو جاتی ہے۔

 

دوسرا منظر

چاند کی روشنی میں فرشتوں کا گرہ نمودار ہوتا ہے۔سر سے پاؤں تک سفید لباس ہے۔چہروں کی جگہ صرف روشنی نظر آرہی ہے۔فرشتوں کے گروہ کاسربراہ آگے چل رہا ہے۔جبکہ باقی اس کے پیچھے دائیں بائیں ہو کر چل رہے ہیں۔سربراہ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر ایک بے ہوش انسان کو اٹھا رکھا ہے۔وہ خالی میدان کے درمیان آکر رک جاتا ہے تو پیچھے والے بھی رک جاتے ہیں۔

 
سردارفرشتہ:(سرجھکا کر)’’تمام تعریفیں کائنات کے خداکے لیے ہیں۔‘‘

 
سارے فرشتے:’’تمام تعریفیں کائنات کے خدا کے لیے ہیں۔‘‘

 
سردارفرشتہ:(آسمان کی طرف رخ کرکے)’’یہ بے ہوش انسان پوچھتاہے کہ اس نے کائنات کے خدا کی فوج میں بطور سپاہی شامل ہونے کا اقرار کیا۔پھر روزانہ کے فرائض جو اس کے ذمے لگے ،وہ ادا کیے۔ جو قوانین سپاہی کی زندگی کے لئے مقرر کیے گئے ان کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کیے،اور اخلاقی معاملات کو بھی ہمیشہ بہتر رکھنے کی کوشش کی ۔تو کیا یہ کائنات کے خدا کی بارگاہ میں کامیاب ہو گیا؟‘‘

 
فرشتے پھر سر جھکا کر کھڑے ہو جاتے ہیں،اچا نک آسمان سے گرج دار آواز آتی ہے کہ فرشتوں کو جھرجھری آجاتی ہے۔

 
آسمانی آواز:’’یہ اگرزمینی(انسانی) فوج کا سپاہی ہوتا تو اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ یہ سپاہی ہونے کا اقرار کرے،فرائض(پیشہ ورانہ) ادا کرے اور اخلاقی معاملات کو سیدھا رکھے مگرکائنات کے خدا کی فوج میں اقرار کرکے آنے والے سپاہی کے لئے صرف حلف کافی نہیں ہے،نہ روزانہ کے فرائض اور رسومات کافی ہیں۔نہ یہ کافی ہے کہ اپنی زندگی میں سپاہیانہ لباس پہنے رکھے اور اپنی زندگی میں سپاہیانہ قانون کے مطابق عمل کرے بلکہ وہ اپنی ہر بات او ر ہر کام سے دوسرے انسانوں کو یہ بات بتائے اور سمجھائے کہ کائنات کے خدا کی فوج ہی اصل فوج ہے اور اسی فوج کا سپاہی سچا سپاہی ہوتا ہے۔ اس سپاہی کے لئے لازم ہے کہ ساری زندگی دوسروں کو خدائی فوج میں شامل ہونے کی دعوت دے ورنہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اسے بتاؤ!کہ پہلے کائنات کا خدااس کام کے لیے اپنے کمان دار اور افسر بھیجا کرتا تھامگر اب اس نے یہ سلسلہ ختم کرکے ہر سپاہی پر یہ ذمہ داری عائد کر دی ہے۔
جاؤووو!اس پر سخت غفلت اور بے ہوشی کے دورے پڑ رہے ہیں،اسے جگاؤ اور سمجھاؤ کہ تم نیک بن بھی جاؤ تو کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک نیکی کو پھیلاؤ گے نہیں….. جاؤووو! اور سمجھاؤ…‘‘

 
فرشتے: (حکم سن کر سرکوتھوڑا سامزید جھکا کر واپس جانے کو مڑتے ہوئے)’’تمام تعریفیں کائنات کے خدا کے لئے ہیں۔‘‘اور ناظرین کی تالیوں کے شور میں واپس چلے جاتے ہیں….

تیسرا منظر

بے ہوش انسان زمین پر لیٹا ہوا ہے۔اس کے ارد گرد فرشتے کھڑے ہیں،دو فرشتے اسے جھنجوڑنے میں لگے ہوے ہیں اور ساتھ ہی کہہ بھی رہے ہیں۔

 
فرشتے:’’اٹھو!دیکھو تم اس طرح غفلت میں رہے تو کامیاب نہیں ہو سکتے، دیکھو کامیابی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔اٹھ جاؤ! تمہارے پاس وقت تھوڑا ہے اور تم پہلے ہی بہت بے ہوشی کی نیند سو لیے …‘‘

 
اتنے میں بے ہوش انسان کی نیند آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگتی ہے او ر وہ آنکھیں کھولنے لگتا ہے۔فرشتے فوراً خوش ہو کر اسے مبارک باد دینے لگتے ہیں۔دو فرشتے اور نمودار ہوتے ہیں ،جن کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار ہیں ،وہ انسان کے گلے میں ڈال دیتے ہیں……………

 

(تالیوں کی گونج میں پردہ گرتا ہے)۔

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top