skip to Main Content

سونے کے پروں والا کبوتر

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پرانے زمانے کا قصہ ہے۔ایک تھا گاﺅں اور اس گاﺅں کے اندر رہتا تھا ایک کسان۔یہ کسان اولاد سے محروم تھا۔بس وہ تھا اور اس کی بیوی تھی۔کسان اپنے کھیت میں کام کرکے جو کچھ کما لیتا تھا اس سے اچھی خاصی گزر بسر ہو جاتی تھی۔میاں بیوی کو کسی قسم کی فکر نہیں تھی اور فکر ہوتی بھی کیوں کر۔گھر کے اخراجات بس اتنے تھے کہ کسان کی آمدنی سے سہولت کے ساتھ پورے ہو جاتے تھے۔ان کی زندگی ٹھیک ٹھاک گزر رہی تھی کہ ایک روز کسان نے اپنے گھر سے دور ایک امیر آدمی کو دیکھا جو بڑی شان دار حویلی میں رہتا تھا۔شان دار لباس پہنتاتھا اور جب بھی گھر سے نکلتا تھا ،ارد گرد لوگ ادب سے کھڑے ہو کر اسے سلام کرتے تھے۔اس آدمی کو دیکھ کر کسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہو گئی اور خواہش یہ تھی کہ وہ بھی اس امیر آدمی کی طرح ٹھاٹ سے زندگی گزارے،عالی شان مکان میں رہے،اعلا درجے کالباس پہنے اور امیر کی طرح اس کی بھی لوگ عزت کریں۔چند روز تک تو اس کی یہ خواہش اس کے دل ہی میں رہی،کسی سے بھی اس نے اس کا ذکر نہ کیا۔پھرایک شام اپنی بیوی کو یہ بات بتادی۔اس کی بیوی نے ساری زندگی غریبی کی حالت میں شوہر کا ساتھ دیا تھا۔دولت مند بننے کی آرزو اس کے دل میں بھی تھی،تاہم وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھی کہ ہر انسان کو اپنی چادر کے مطابق پاﺅں پسارنے چاہئیں۔ چادر سے زیادہ پاﺅں پسارنے کی کوشش کی جائے گی تو ضرور چادر پھٹ جائے گی اور کوئی بے وقوف ہی ایسی حرکت کرے گا۔اس نے شوہر کو سمجھایا کہ ہماری اچھی بھلی بیت رہی ہے۔نہ تو کسی کا قرض دینا ہے نہ کسی کی محتاجی ہے۔ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے،جس نے ہمیں عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق دی ہے۔
کسان بیوی کی بات سن کر اس وقت تو چپ ہو گیا،مگر وہ خواہش اس کے دل میں ہی رہی بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،یہ خواہش بڑھتی ہی گئی۔ رات کو سونے کے لیے بستر پر لیٹتا توشان دار مکان،شان دار لباس اور مکان کے اندر بیش قیمت فرنیچر کے خواب دیکھنے لگتا۔بیوی اطمینان سے سو جاتی،مگروہ بار بار کروٹیں بدلتا رہتا۔
وہ جو کچھ کماتا تھا اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ کچھ رقم بچا کر اپنی بیوی کے ساتھ شہر کی سیر کر آئے،یا ذرا بڑھیا لباس پہن لے۔ اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔آمدنی میں اتنا اضافہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اس کا خواب پورا ہو جائے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اندر ایک کشمکش سی برپا رہنے لگی اور یہ اسی کشمکش کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنا کام بے دلی سے کرنے لگا۔آمدنی میں اضافے کے بجائے کمی آگئی ۔بیوی کو افسوس ہوا،مگر وہ بے چاری شوہر کو سمجھانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
کسان آدمی نیک دل اور نیک چلن تھا۔دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ برتاﺅ کرکے اسے خوشی ہوتی تھی۔اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے لوگ اسے اچھا آدمی سمجھتے تھے اور دل میں اس کی عزت بھی کرتے تھے۔
ایک روز کسان شام کے قریب بازار سے سودا سلف لے کر گھر لوٹ رہا تھا۔سردی کا موسم تھا۔ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھاکہ ایک تھڑے کے اوپر بیٹھا سردی سے کانپ رہا ہے۔کسان نے اس بوڑھے کی یہ حالت دیکھی تو دل میں کہا،یہ آدمی ہمدردی کا مستحق ہے۔اس کی مدد کرنی چاہئے اور اس نے جب اس بوڑھے آدمی سے بات کی تواسے معلوم ہوا کہ یہ واقعی ہمدردی کا مستحق ہے۔بہت دور ایک گاﺅں میں رہتا ہے۔گرم کپڑے اس کے پاس نہیں ہیںاور سفر کافی لمبا ہے۔بے چارہ صبح سے بھوکا بھی ہے۔
کسان اسے اپنے گھر لے آیا،اسے کھلایا پلایا،آرام دہ بستر پر لٹایا۔صبح جب سورج چمک رہا تھا تو مسافر بولا:
”اے نیک دل انسان!تم نے میری بڑی مدد کی۔میں اس وقت تو تمہارے احسان کا بدلا نہیں دے سکتا،البتہ جمعرات کی صبح کو آﺅں گا اور تمہیں ایک ایسی چیز دے جاﺅں گا کہ تمہاری حالت ہی بدل جائے گی۔“
یہ کہہ کر بوڑھا چلا گیا ۔اس کے جانے کے بعد کسان بڑی بے تابی سے جمعرات کا انتظار کرنے لگا۔
جمعرات کی صبح ابھی پو پھٹنے میں کچھ دیر تھی کہ کسان کے دروازے پر دستک ہوئی۔کسان تو جاگ ہی رہا تھا۔جھٹ بستر سے اٹھا اور دروازے پر آگیا۔اس نے دیکھا کہ دروازے پر وہی بوڑھا کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک پنجرہ ہے،جس کے اندر سفید پروں والا ایک کبوتر نظر آرہا ہے۔
”تم نے میرے ساتھ نیکی کی تھی ،یہ اس کا بدلا ہے۔“
”یہ کبوتر لے کر میں کیا کروں گا۔“کسان کبوتر دیکھ کر مایوس ہو گیا تھا۔
وہ بوڑھا بولا:”ارے میاں!تم کیا جانو یہ کبوتر کتنا قیمتی ہے۔سنو،جمعرات کی آدھی رات کو اس کے پر سونے کے ہوجاتے ہیں۔فوراً اس کے چند پر اتار لینا اور اسے پنجرے سے نکال کر آزاد کردینا۔یہ چند پر بیچوگے تو ہزاروں کیا لاکھوں روپے پالوگے۔شرط یہ ہے کہ آدھی رات کو جاگتے رہنا ہوگا۔اگر تم نہ جاگے تو اس کے پر پھرویسے سفید ہو جائیں گے۔“
کسان نے کبوتر کی یہ خوبی سنی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا خواب ایک دم پورا ہوگیا ہے۔اس نے فوراً ہاتھ بڑھا کر پنجرہ لے لیا اور بوڑھے کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔بوڑھاایک منٹ بھی نہ ٹھہرا،چلا گیا۔مگر جاتے جاتے یہ کہہ گیا۔خبردار یہ بات کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور کسان نے اس کا عہد کرلیا۔کسان خوشی خوشی پنجرہ اندر لے آیا۔
بوڑھے نے منع کردیا تھا کہ راز کسی کو بھی نہ بتایا جائے،مگر کسان کی بیوی نے جب بڑا اصرار کیا تو کسان نے اسے اصل واقعہ سنا دیا اور وعدہ لے لیا کہ یہ راز کسی کو بھی نہیں بتائے گی۔دونوں پنجرے کے پاس بیٹھ گئے اور آدھی رات کا انتظار کرنے لگے ۔آدھی رات ہونے میں آدھا پون گھنٹہ باقی تھا کہ دونوں سو گئے اور اس وقت آنکھ کھلی جب دن طلوع ہو چکا تھا۔
دونوں بہت پچھتائے مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔انہوں نے کبوتر کو دانہ دنکا کھلایا اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
پھر جمعرات کی رات آئی۔دونوں نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ ساری رات نہیں سو ئیں گے،لیکن ایسا نہ ہو سکا۔آدھی رات سے کچھ دیر پہلے پھر ان کی آنکھ لگ گئی۔اسی طرح اگلی جمعرات بھی بیت گئی۔
خیرکوئی بات نہیں۔کبوتر ہمارے گھر میں ہے جائے گا کہاں ؟کسان مایوس نہیں ہوا تھا۔
کسان کی بیوی یوں تو بڑی عقل مند اور ہوش مند تھی،مگر اس میں ایک کمزوری بھی تھی۔وہ کوئی راز چھپا کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ایک روز اس نے اپنی پرانی ہمسائی کو یہ بات بتادی۔ہمسائی نے اپنے شوہر کو بتایا۔شوہر گاﺅں کے سب سے امیر آدمی کے ہاں ملازمت کرتا تھا ۔اس نے امیر آدمی کو یہ قصہ سنا دیا۔
امیر آدمی کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی مگر تھا بڑا حریص۔اس نے یہ سوچا کہ اگر یہ کبوتر مجھے مل جائے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ اس نے کسان کے ہمسائے اور اپنے ملازم سے کہا:
”اگر تم کسی طرح وہ پنجرہ میرے یہاں لے آﺅتو تمہیں انعام سے مالا مال کردوں گا۔“
اس آدمی نے اپنی بیوی کی مدد سے وہ پنجرہ امیر آدمی کے گھر پہنچا دیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
کسان کام کرکے گھر آیا تو پنجرہ غائب تھا۔اس نے تو سر پکڑ لیا اور بیوی پر سخت ناراض ہوا کہ اس کی غفلت کے کارن کوئی پنجرہ گھر سے لے گیا ہے۔
بیوی جانتی تھی کہ اس نے کبوتر کا رازصرف اپنی ہمسائی سے کہا تھا۔وہ ہمسائی سے ملی اور رو پیٹ کر اسے مجبور کر دیا کہ اصل حقیقت بتا دے۔ ہمسائی نے پہلے تو اس سے قسمیں لیں کہ وہ کسی کو بھی اس کا نام نہیں بتائے گی۔پھر اسے بتا دیا کہ کبوتر گاﺅں کے سب سے امیر آدمی کے گھر پہنچ گیا ہے۔
اس زمانے کا دستور یہ تھا کہ کسی کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوتی تھی تو وہ قاضی کی عدالت میں پہنچ کر دادفریاد کرسکتا تھا اور قاضی اس کے ساتھ پورا پوراانصاف کرتا تھا۔
یہ قاضی شہروں میں رہتے تھے مگر دیہاتوں میں بھی آتے جاتے رہتے تھے۔کسان کی بیوی نے اپنے شوہر کو بتا دیا کہ کبوتر کا پنجرہ چودھری الٰہ دین کی حویلی میں ہے اور اس حویلی میں کوئی بھی نہیں جا سکتا۔کسان چودھری سے بہت ڈرتا تھا۔وہ کیا سارا گاﺅں اس سے ڈرتا تھا۔کون اس کے خلاف شکایت کر سکتاتھا۔کسان دن بھر سوچتا رہا۔اس نے اپنی بیوی کو بھی نہ بتایا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔دوسرے دن وہ کسی سے کچھ کہے بغیر شہر چلا گیا اور قاضی کو ساری بات سنا دی۔
قاضی نے کہا:”اس وقت تم چلے جاﺅ۔میں عن قریب تمہارے گاﺅں میں آ رہا ہوں۔تمہارا کبوتر تمہیں مل جائے گا۔“
دوسرے دن سارے گاﺅں میں یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ قاضی گاﺅں میں آکر چودھری الٰہ دین کے ہاں مہمان ہوا ہے۔
قاضی نے چودھری کے ہاں کبوتر والا پنجرہ دیکھا تو بولا:
”چودھری صاحب! مجھے تو ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ یہ کبوتر اس نے ایک غریب کسان کو دیا تھا۔آپ کے ہاں کیوں کر پہنچ گیا؟“
چودھری صاحب کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔اس نے اپنی طرف سے قاضی کو ہر طرح دھوکا دینے کی کوشش کی،مگر قاضی کے آگے اس کی کوئی پیش نہ چلی اور وہ سچی بات کہنے پر مجبور ہو گیا۔
”یہ پنجرہ فوراً کسان کے حوالے کردو۔“
چودھری تھا حریص۔سوچنے لگا”میں یہ کبوتر کسان سے خرید ہی کیوں نہ لوں۔“چناں چہ قاضی سے کہنے لگا:
”قاضی صاحب!میں اگر یہ خریدنا چاہوں تو؟“
”اگر کسان بیچنے پر راضی ہو اور تم اس کی وہ قیمت ادا کردو جو وہ مانگتا ہے تو خرید لو۔“
قاضی نے کسان کو بلوالیا۔چودھری جب کبوتر کی اتنی قیمت دینے پر راضی ہوگیا جس کا کبھی خیال بھی کسان نہیں کر سکتا تھا تو کسان راضی ہوگیا اور رقم لے کر گھر لوٹ آیا۔
دوسری صبح کسان سوہی رہا تھا کہ اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔دروازہ کھولا تو باہر وہی بوڑھا کھڑا تھا جس نے کسان کو اُس نیک سلوک کے بدلے میں کبوتر کا پنجرہ دیا تھا۔
”میں نے سنا ہے چودھری نے وہ کبوتر بھاری قیمت ادا کرکے خرید لیا ہے۔“بوڑھے نے پوچھا۔
”جی ہاں۔مجھے بہت بھاری قیمت مل گئی ہے۔“کسان نے جواب دیا۔
”بس یہی میں چاہتا تھا۔“بوڑھے نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میں کچھ سمجھا نہیں بزرگ۔“
بوڑھا پھر ہنسااور بولا:
”کبھی کبوتر کے پر سونے کے بھی ہوئے ہیں۔وہ تو ایک عام کبوتر تھا۔جو کچھ ہوا ہے میرے منصوبے کے عین مطابق ہوا ہے۔اب تمہارے پاس کافی روپیہ ہے۔ اور زمین خریدو،محنت کرو۔دولت مند ہو جاﺅ گے۔اس وقت تمہاری پرانی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔“
وہ کسان کچھ مدت بعد واقعی کافی دولت مند ہو گیا۔اس نے شان دار مکان خرید لیا،اچھا لباس بنوایا اور شان سے رہنے لگا۔دوسری طرف چودھری نے آخر مایوس ہو کر کبوتر کو پنجرہ کھول کر اڑادیا،کیوں کہ کئی مہینے گزر گئے تھے اور کسی جمعرات کی رات کو بھی اس کے پر سونے کے نہیں ہوئے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top