skip to Main Content

سمندر کی تہہ میں

تخلیص: شہباز شاہین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمندر کی تہہ میں لڑی جانے والی خوف ناک جنگ کی انوکھی کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس وقت جزائر ”سینٹ میری“ کے مضافات میں اپنی کشتی کے فرش پر خون میں لت پت پڑا تھا۔ انجن ساکت تھا اور کشتی دھیرے دھیرے سے سطح آب پر ہچکولے کھارہی تھی۔میں جنگلے کا سہارا لے کراٹھا، گرتا پڑتا کبین تک پہنچا اور وہاں پڑی ادویہ کی مدد سے اپنی مرہم پٹی کر لی۔ بعد ازاں شدید تکلیف کے باوجود انجن چالو کرکے کشتی کا رخ ساحل کی طرف موڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ میری کشتی میں جدید ترین نظام نصب تھا۔ میں نے اسے خود کار پائلٹ پر لگانے کے بعد رائفل اور کینوس کا تھیلا کشتی کے مخصوص خفیہ خانے میں چھپایا اور کیبن کے دروازے پر پہنچ کر ڈھیر ہوگیا۔ تاریکی نے ایک بار پھر مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

٭……٭

میں کوئی عادی مجرم نہیں۔ میرا مجرمانہ ماضی ڈاکہ زنی کی فقط دو بڑی وارداتوں پر مشتمل تھا۔ پہلی واردات اسپیشل سروس بٹالین کی خون اور بارود سے بھر پور زندگی سے نکلنے کے بعد کی۔ میں نے دوسری کامیاب واردات جرائم پیشہ افراد کے ایک زیر زمین گروہ کی مدد سے کی تھی۔ واردات میں ایک لاکھ پونڈ میرے حصے میں آئے۔ اپنا حصہ موصول ہونے کے فوراً بعد میں نے چہرے کے خدوخال پلاسٹک سرجری سے تبدیل کرائے اور زیورچ سے ہوتا ہوا پیرس پہنچ گیا۔ وہاں ”جانی ڈیپ“ کے نام سے پاسپورٹ بنوا کر سڈنی روانہ ہوا۔ میں نے پھر جدید ترین سازو سامان سے آراستہ غوطہ زنی کی کشتی خریدی اور تین ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے افریقی علاقے زنجبار پہنچ گیا۔
اب میں نے جرائم پیشہ زندگی سے تائب ہوکر پر امن زندگی کا آغاز کردیا۔ میرا نیا پیشہ سیاحوں کو معقول معاوضے پر سمندر میں بکھرے جزائر کی سیر اور غوطہ خوری کرانا تھا۔ لیکن آج رونما ہونے والے خونی واقعے کے بعد مجھے اپنی نو مولود پر سکون زندگی کا شیرازہ بکھرتا نظر آرہا تھا۔
پانچ روزقبل ”گوتھر“ اور ”ماتھرے“ ایک مقامی گائیڈجمی کے ہمراہ میرے پاس آئے۔ انہیں ایک ہفتے کے لیے کشتی درکار تھی۔ بدلے میں مجھے ایک خطیر رقم کی پیشکش ہوئی۔مجھ سے درخواست بھی کی گئی کہ میں زنجبار میں ان کی موجودگی صیغہ راز میں رکھوں۔میں نے منھ مانگی قیمت پر ان کی شرائط قبول کرلیں۔ تین دن بعد ہی میں نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اندازہ لگا لیا کہ گوتھر اور ماتھرے دنیائے جرائم کے باسی ہیں۔
ان کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ انہیں سینٹ میری کے آس پاس پھیلے جزیرے میں سے کسی مخصوص جزیرے کی تلاش ہے۔ میں جمی کو چار سال سے جانتا تھا۔ وہ ایک سیدھا سادہ مگر پر جوش نوجوان تھا جس کی خصوصیت گہرے پانی میں غوطہ خوری تھی۔ مجھے اس پر ترس آیا کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کے مکار لوگوں میں گھر گیا ہے۔
وہ سمندر میں ہماری آوارہ گردی کا پانچواں دن تھا جب جمی نے زنجبار سے کافی دور ایک جگہ کشتی روکنے کو کہا۔ وہاں سے ”پرنس ایڈورڈ“ نامی جزیرہ خاصا قریب تھا۔ گوتھر اور ماتھرے کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جزیرہ کی نشانی تھا۔ دراصل انہیں اس کے قریب غوطہ خوری کرنا تھی۔
میں لانچ کے برج پر بیٹھا بظاہر دور بین سے آبی پرندوں کی پروازوں کا نظارہ کر رہا تھا مگر درحقیقت میری نظر ان کی سرگرمیوں پر تھی۔ جب گوتھرنے غوطہ لگایا تو وہ کافی دیر زیر آب رہا۔ نمودار ہوکر اس نے جیسے ہی سر پر سے آبی خول اتارا۔ اس کی کھلی باچھیں دیکھ کر مجھے انداز ہ ہوگیا کہ وہ مطلوبہ شے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر تک ماتھرے اور گوتھر سر جوڑے بحث میں مصروف رہے۔ پھر جمی ان کے اشارے پر آبی لباس اور آکسیجن سلنڈر لگا کر تہہ آب میں اترگیا۔ وہ اپنے ساتھ نائیلون کی رسی بھی لے گیا جو عرشے پر موجود کرین کی چرخی سے لپٹی ہوئی تھی۔ میں جان گیا کہ وہ تہہ آب سے کوئی شے نکالنا چاہتا ہے۔
آدھ گھنٹے بعد جمی سطح آب پر ابھر آیا۔ اس کے عرشے پر پہنچتے ہی گوتھر نے کرین کی مدد سے کینوس کا ایک تھیلا تہہ آب سے نکال لیا۔ میری حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب گوتھر، ماتھرے نے تھیلا کھولنے کے بجائے مزید کینوس میں لپیٹ دیا۔
”جانی ذرا نیچے آنا۔“ گوتھر نے میری جانب پلٹ کر زور سے کہا۔
میں اپنا تجسس چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نیچے اتر آیا۔ تھیلا گوتھر کے قدموں میں پڑا تھا اور ماتھرے کے ہونٹوں پر ایک مکارانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔ میں نے ابھی کشتی کے جنگلے کا سہارا لے کر ان کی طرف رُخ کیا ہی تھا کہ گوتھر کے ہاتھ میں خوفناک ریوالور دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ جمی نے اپنے چہرے سے آکسیجن ماسک اتار لیا تھا۔ وہ غیر ارادی طورپر ریوالورکی طرف جھپٹا مگر ماتھرے نے لات مار کر اسے ایک طرف دھکیل دیا۔میں اپنے بچاؤ کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ اعشاریہ پینتالیس کی مہیب نال سے نکلنے والی گولی نے مجھے جنگلے سے الٹا کر سمندر میں گرادیا اور میری آنکھیں تاریک پانی میں کھلیں۔ میرے پھیپھڑوں سے ہوا خارج ہوچکی تھی پھر بھی میں نے اپنا وجود ممکنہ حد تک سمیٹا اور غوطہ لگاکر کشتی کے نیچے پہنچ گیا۔ خالی پھیپھڑوں کے ساتھ یہ ایک صبر آزما عمل ثابت ہوا۔
آہستہ آہستہ میرے بدن کا دایاں حصہ شل ہوتا جارہا تھا۔ میں پیندے تلے سے ہو کر کشتی کے عقب میں سطح آب پر نمودار ہوا۔رسی ابھی پانی میں لٹکی ہوئی تھی۔میں نے طویل سانس لے کر توانائی مجتمع کی اور رسی کی مدد سے کشتی کے عقبی حصے میں چڑھ گیا۔ زخم سے بہنے والے خون نے عرشے کو رنگین کر دیا۔ اچانک مجھے کھانسی کا شدید دورہ پڑا جس پر میں نے بروقت قابو پالیا۔ مجھے احساس تھا کہ میرے پاس وقت بالکل نہیں ہے۔
محفوظ ہوکر میں نے قمیص اتاری اور اسے پٹی کی مانند اپنے کاندھے پر لپیٹ لیا۔ اس طرح خون بہنا رک گیا۔ اب میں کچھ عرصے کے لیے ہوش میں رہ سکتا تھا۔ اگلے حصے سے گوتھر کے تیز تیز بولنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ ماتھر ے سے کسی بات پر الجھ رہا تھا۔ درمیان میں کبھی جمی کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ میں جنگلے کا سہارا لے کر کیبن کی طرف رینگنے لگا۔ بڑی جدوجہد کے بعد میں کشتی کے اگلے حصے میں جانے میں کامیاب ہوا جہاں وہ تینوں موجود تھے۔ جمی اپنا آبی لباس درست کر رہا تھا۔ اس کی تیز آواز میری سماعت کو چیررہی تھی: ”قاتلو! میں اسے تلاش کرنے سمندر میں اتر رہا ہوں۔“ غصے کی شدت میں اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
”ابھی ہمیں اس بدبخت کی ضرورت ہے۔“ ماتھرے نے تیز لہجے میں جواب دیا۔
”میں تمہارے لیے کام نہیں کررہا۔“ جمی بدستور غصے میں تھا۔ مجھے اس نوجوان کی جرأت پر حددرجہ حیرت ہورہی تھی کہ وہ دونوں خونیوں کے سامنے نہتاہونے کے باوجود ڈٹا ہوا تھا۔
”مجھے روک سکتے ہو تو روک لو۔“ یہ کہہ کر جمی نے ماسک دوبارہ چہرے پر چڑھایا اور سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے جنگلے کی طرف پلٹ گیا۔ اس کی پشت گوتھر کی طرف تھی۔ گوتھر نے تاسف بھرے انداز میں سر جھٹکا اور ریوالور کی نالی جمی کی کھوپڑی پر جما کر لبلبی دبادی۔ سیاہ آبی خول کے چیتھڑے اڑ گئے۔ جمی کا وجود کٹے تنے کی مانند جھوم کر پانی میں جاگرا۔ ”آکسیجن سلنڈر کاوزن اسے ڈبو دے گا۔“ اس نے پانی میں تھوکتے ہوئے کہا۔
ان دونوں کا قصہ تمام ہوا۔ اب تخت طاؤس ہمارا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کشتی کے ذریعے ہم بہت جلد سمندر کی آغوش سے بازیاب کرلیں گے۔“
”ہم نہیں میری جان۔“ ماتھرے نے اپنی بیلٹ میں اڑسا ہوا پستول کھینچ کر ہاتھوں میں تھام لیا۔ ”کیامطلب۔“ گوتھر کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔ اسی لمحے اس کا ہاتھ ریوالور کے دستے پر جا پڑا جسے اس نے دوبارہ ہولسٹر میں رکھ لیا تھا۔ میں سانس روکے کیبن کے کونے کا سہارا لیے کھڑا تھا۔ میں ایسے مقام پر تھا جہاں سے انہیں دیکھ سکتا تھا مگر ان کی نظر مجھ پر بمشکل ہی پڑتی۔
”یہ خزانہ میراہے۔ صرف اور صرف میرا۔“ ماتھرے نے شیطانی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ اس سے قبل کہ گوتھر اپنا دفاع کرتا۔ گولیوں نے اس کے سینے پر ترچھی لکیر کھینچ دی۔ ریوالور گوتھر کے ہاتھ سے چھوٹ کر سمندر میں گرا اور وہ جنگلے کا سہارا لیے درد سے دہرا ہوگیا۔ ماتھرے نے اپنا پستول اس کی کنپٹی پر رکھ کر لبلبی دبائی تو کھوپڑی کے اسی انداز میں پرخچے اڑگئے جیسے کچھ دیر قبل جمی کے اڑے تھے۔
میں نے زندگی میں بڑی عبرتناک اموات دیکھی تھیں مگر جمی اور اس کے بعد گوتھر کی موت نے میرے اعصاب کو زبردست جھٹکا پہنچایا۔ میں ہزار کوشش کے باجود خود کو نہ سنبھال سکا اور کیبن کے اندر جاگرا۔ تھوڑی دیر بعد نیچے سے عرشے پر وزنی قدموں کی دھمک ابھری۔ شاید میرے گرنے سے جوآواز بلند ہوئی اس نے گوتھر کو متوجہ کرلیا۔ میں شدید درد برداشت کرتے ہوئے انجن روم کی طرف گھسٹنے لگا۔ وہاں پہنچتے ہی میں نے انجن کا اوپری تخت کھسکانے کے لیے زورلگایا۔ اسی لمحے گوتھر کی غراہٹ میری سماعت کو مرتعش کرگئی۔
”جانی تم اتنے سخت جان نکلو گے؟ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور پستول کا خالی میگزین بھردیا اور اسی لمحے میں تخت اکھاڑ کر خفیہ خانے میں ہاتھ ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ ”یہ لو…… موت کا مزا چکھو۔“ گوتھر میری طرف بڑھتے ہوئے بولا…… میں نے اسی لمحے خفیہ خانے میں پڑی کاربین ہاتھوں میں تھامی اور گوتھر کی جانب پلٹ گیا۔ میرے ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اسی لمحے کار بین کے چھرے اس کے پیٹ اور سینے میں لاتعداد سوراخ کر گئے اور وہ تقریباً اڑتا ہوا سمندر میں جاگرا۔ مجھے یہ تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ سمندری سفر کے دوران ملاحوں کا واسطہ بحری قزاقوں کے ساتھ ساتھ خونخوار سمندری جانوروں سے بھی پڑتا ہے۔ اس لیے ہم کشتی میں طاقتور ہتھیار بھی رکھتے ہیں۔ کاربین چلنے کے جھٹکے نے میرے رہے سہے اوسان بھی خطا کر ڈالے اور میں کیبن کی دیوار سے ٹکر ا کر ڈھیر ہوگیا۔ کیبن میں بارود اور خون کی ملی جلی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اگلے ہی لمحے میں ہوش و ہواس سے بیگانہ ہوگیا۔

٭……٭

میری آنکھ کھلی تو میں زنجبار کے اسپتال میں تھا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ مجھے چھ بوتلیں خون دے کر بچایا گیا ہے۔ جب میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو انسپکٹر ”اوریلی“ اور کانسٹیبل ”ملر“ آ دھمکے، انسپکٹر اور ریلی زنجیارمیں میرے اکلوتے دوست جیکب کابھانجا تھا۔ جیکب میری کشتی پر کام کرتا تھا مگر گوتھر اور ماتھرے کے اصرار پر میں نے اسے ایک ہفتے کی چھٹی دے دی تھی۔ میری کشتی ساحل کے قریب تیرتی پائی گئی تھی اور اسے جیکب نے دریافت کیا تھا۔ وہ میرا وفادار ملازم تھا۔
انسپکٹر او ریلی حقائق جاننے کے لیے بے تاب تھا۔ میں نے اسے وہ گھڑی گھڑائی کہانی سنا دی۔ جس کا خاکہ پہلے ہی ذہن میں تیار کر چکا تھا۔ گوتھر اور ماتھرے کے بارے میں اتنا ہی بتایا جتنا میرے حق میں بہتر تھا۔ مثلاً یہ انکشاف نہیں کیا کہ وہ لوگ سمندر کی تہہ سے کوئی شے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ گو اب میں خود یہ جاننے کے لیے بے تاب تھا۔ یہ یاد رہے کہ تمام واقعات زنجبار کے شمال میں واقع جزیرہ پاٹ کریگ کے قریب رونما ہوئے۔ اس جزیرے پر ”بڈل گاڈ“ نامی ایک پادری کی غیر رسمی حکومت تھی۔ بڈل گاڈنے ہی اس جزیرے کو دریافت کیا تھا۔ وہ جزیرہ برطانوی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا تھا۔ مگر اس کے سیاہ سفید کا مالک المعروف ”بڈ“ تھا۔ بڈ نے نئی زندگی کا آغاز کرنے میں میر ی مدد کی تھی۔
کچھ عرصے بعد عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔ حاضرین میں بڈ، میرا ایک دوست پارکنسن اور انسپکٹر اوریلی اپنے عملے کے ہمراہ موجود تھا۔ جلد بڈ نے مجھے بے گناہ اور مقتولین کو جرائم پیشہ ثابت کردیا۔ جمی کی موت کا سب کو دکھ تھا۔
جیکب نے تنہائی میسر آتے ہی مجھے بتایا کہ میر ی علالت کے دنوں میں چند افراد نے کچھ عرصہ قبل رات کی تاریکی میں کشتی کی تلاشی لی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ انہیں اسی پراسرار تھیلے کی تلاش تھی۔ یقینا کوئی لمبا چکر تھا جس کی بنا پر گوتھر اور ماتھرے نے نہ صرف مجھے اور جمی کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا بلکہ ایک دوسرے کی جان کے در پے ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تنہا نہیں ہوں گے۔ ان کا تعلق زیر زمین دنیا کی کسی بڑی جرائم پیشہ تنظیم سے تھا۔ بہرحال مجھے اس لحاظ سے فوقیت حاصل تھی کہ صرف میں جانتا تھا جمی نے آخری بار کس مقام پر غوطہ خوری کی تھی اور یہ کہ تہہ آب سے نکالی گئی وہ نامعلوم شے کہاں ہے۔
اسپتال سے رخصت ہونے کے بعد میں نے ایک ماہ گھر پر آرام کیا۔ اس دوران کشتی کی دیکھ بھال جیکب اور اس کے بھانجے اینجلو نے اپنے ذمے لیے رکھی۔ میں نے ان دونوں کی وفاداری دیکھ کر فیصلہ کر لیا کہ انہیں نہ صرف مستقل عملے میں شامل کروں گا بلکہ اپنا ہم راز بھی بنادوں گا۔ چند ہفتے آرام کرنے سے میرا زخم بھر گیا۔ ایک شام میں اپنی رہائش گاہ پر جیکب اور اینجلو کے ساتھ بیٹھا مستقبل کے منصوبے بنا رہا تھا کہ مقامی ہوٹل کا ملازم یہ پیغام لے کر آیا کہ ایک خاتون مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ میں جزیرے کی کسی خاتون سے واقف نہیں تھا۔میں ہوٹل ملازم کی رہنمائی میں ہوٹل جاپہنچا جہاں وہ خاتون میری منتظر تھی۔
”میں جانی ڈیپ ہوں۔“ تعارف کراتے ہوئے میں نے بتایا۔
”میں شیری ہوں۔“ اس نے کہا۔”جمی کی ہمشیرہ۔“
میری نظروں کے سامنے جمی کا معصوم چہرہ لہرا گیا۔ جمی کی زبانی میں نے اکثر اس کی بہن کا ذکر سنا تھا۔ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے ایک معقول رقم اسے بھیجا کرتا تھا۔
”مجھے جمی کی موت کا دکھ ہے۔“ میں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا اور اس کے اشارے پر سامنے بیٹھ گیا۔
”میں غم سے نڈھال ہوں۔“ وہ ایک طویل آہ بھر کر بولی۔”اس لیے میں اس مہم کو مکمل کرنا چاہتی ہوں جس کی وجہ سے میرے بھائی کی جان گئی۔“
”دیکھیے مجھے جمی کی موت کا بہت افسوس ہے مگر میں اس کی مہم کے سلسلے میں کچھ نہیں جانتا۔“ میں نے جان چھڑانے والے انداز میں جواب دیا۔ ”اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ میری کشتی کرائے پر لی تھی۔ میں نے ان لوگوں کے ساتھ سمندر میں چند روز آوارہ گردی کی اور پھر یہ اندوہناک واقعہ پیش آگیا۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا۔“
چند ثانیے سوچنے کے بعد جمی کی بہن نے پرس سے ایک بوسیدہ اخباری تراشا نکالا اور میرے سامنے رکھ دیا۔ تراشے کی عبارت پڑھتے ہی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔ تراشے میں میری زندگی کی آخری واردات کا تفصیلی ذکر تھا۔
”میں کچھ سمجھا نہیں محترمہ۔“ میں نے اپنے چہرے کے تاثرات چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔“ وہ بدلے لہجے میں بولی۔ ”آپ کا اصل نام ”ڈیلٹن او برائن“ ہے اور اس ڈکیتی میں مرکزی کردار آپ تھے۔ آپ نے اپنا چہرہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے چھپا لیا مگر انگلیوں کے نشانات نہیں بدلے جاسکتے مسٹر اوبرائن؟“
خدا جانے کیا اول فول بک رہی ہو؟“ یہ کہہ کر میں جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جانے کے لیے پلٹا ہی تھا۔ اس کی آواز جیسے قدموں کی زنجیر بن گئی۔
”مسٹر اوبرائن! میں آپ سے سودے بازی کرنے نہیں آئی بلکہ آپ کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔“ میں آہستہ سے اس کی طرف پلٹا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ”اگر ہم جمی کے گھر جا کر بات کر لیں تو مناسب رہے گا۔ آپ کی جان اس وقت خطرے میں ہے۔ جرائم کی دنیاکا ایک نہایت خطر ناک گروہ آپ کی ٹوہ میں لگا ہوا ہے۔“
میں نے اس کی بات جھٹلانا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے ہمراہ ہوگیا۔ جمی کی موت کے بعد اس کا چوبی مکان بند تھا۔ اس کی چابی شاید جمی کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں جاچکی تھی۔ میں نے شیری کے کہنے پر تالا توڑا اور اندر داخل ہوگیا۔
”تم میرے بارے میں یہ سب کیسے جانتی ہو۔“ میں نے اس سے پوچھا۔
”تم نے جس گروہ میں شامل ہوکر ڈکیتی کی تھی، میں اور جمی بھی اس کے رکن رہ چکے ہیں۔ سینٹ میری آنے سے قبل جمی بھی تمہارے بارے میں ساری معلومات جمع کر چکا تھا۔ اگر تم جمی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ نہ ہوتے تو یہ تمہارے ماضی کی آڑ لے کر تمہیں استعمال کرتے مگر افسوس قسمت نے انہیں مہلت نہ دی۔“ اس کے یہ الفاظ سن کر مجھ پر جیسے بجلی گر پڑی میں نے پیڈ رونامی غنڈے کے گروہ سے مل کر وہ ڈکیتی کی تھی اور وہ کتنا خطرناک آدمی تھا۔ یہ میں اچھی طرح جانتا تھا۔
”تم ”پیڈ رو“ کے لیے کام کرتی ہو۔“ میرے لبوں سے سرسراتی ہوئی آواز نکلی۔
”کرتی تھی۔“ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اب خزانہ تلاش کرکے سکون کی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ ہمارے پاس وقت بالکل بھی نہیں۔ اگر تم جمی کی رہ نمائی میں مخصوص جزیرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے تو برائے مہربانی مجھے سب کچھ بتا دو۔ میں تمہیں خزانے میں سے جائز حصہ دوں گی۔ اگر تم نے فضول باتوں میں وقت ضائع کیا اور پیڈ روکے آدمی میرے یا تمہاری بوپر یہاں پہنچ گئے تو روئے زمین پر ہمیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔“
”جب تک تم مجھے تفصیل سے سارا ماجرا نہیں بتاتی میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔“ میں نے کرسی کی گرد جھاڑتے ہوئے کہا۔”اگر تم میرے بارے میں معلومات رکھتی ہو تو تمہیں علم ہوگا کہ دھوکا دینا میری سرشت میں شامل نہیں۔“
”میں جانتی ہوں۔“ وہ بے چینی سے ٹہلتے ہوئے بولی۔”اسی لیے میں تمہارے پاس آئی ہوں مگر یاد رکھو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔“
اس کے بعد شیری نے مجھے جو کچھ بتایا وہ کسی الف لیلوی داستان سے کسی طرح کم نہیں …… آپ بھی سن لیجئے۔
”1665ء میں ایک فرانسیسی جہاز ران اورشہرہ آفاق جوہری ”ٹیورنر“ کو مغل شہنشاہ اورنگزیب سے ملنے کا موقع ملا۔ اورنگزیب کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے بعد ٹیورنر واپس پیرس پہنچا تو اس نے مغل دربار میں گزرے اپنے تجربات کو ”مشرق میں سفر“ کے عنوان سے قلمی شکل دے ڈالی۔ اس کتاب میں خزانوں کے ساتھ ساتھ ایک غیر معمولی سفید ہیرے کابھی ذکر ہے۔ ٹیورنر کے بیان کے مطابق 280 قیراط کا یہ ہیرا گولگنڈہ کی مشہور کان سے نکالا گیا تھا۔ آرلوف اور کوہ نور کے بعد یہ دنیا کا سب سے قیمتی پتھر شان مغل تھا…… جس کی بابت اس وقت تک بہت کم لوگ جانتے تھے۔“ یہ داستان سن کر شیری چپ ہوگئی۔ بہت پہلے ایک کتاب میں کوہ نور ہیرے کا تذکرہ پڑھ کر دل میں اسے پانے کی خواہش ابھری تھی۔ اب شیری مجھے ایسے ہی ایک قیمتی پتھر کی بابت بتارہی تھی۔ ”تمہیں معاملہ سمجھ میں تو آرہا ہے نا۔“ وہ مجھے کھویا ہوا دیکھ کر بولی۔ میں نے سابقہ زندگی کے دوران فوجی کتب خانے میں مغل بادشاہوں کی تاریخ سے متعلق چند کتب پڑھی تھیں۔ وہ معلومات آج کا م آرہی ہیں۔ میں نے جواب دیا: ”تم بولتی جاؤ میں سن رہا ہوں۔“

”1739ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی پر قبضہ کرلیا۔ جہاں سے کوہ نور اور تخت طاؤس اس کے ہاتھ لگا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ نے بعد ازاں تخت طاؤس کے نعم البدل کے طور پر ایک دوسرا تخت بنوایا۔ جس کا ذکر تاریخ میں خال خال ملتاہے۔ ہندوستان میں انگریز سفیر سر تھامس کی آپ بیتی میں تخت کے سلسلے میں چند انکشافات سامنے آئے۔ تھامس کے مطابق اس نے مغل بادشاہ کو تخت طاؤس پر بیٹھے دیکھا تھا۔ اس تخت کی شکل کسی چیختے ہوئے مور جیسی تھی۔ جس کے سر پر آنکھ کی جگہ ایک قیمتی پتھر جگمگا رہا تھا۔ مور کا جسم سونے چاندی اور قیمتی پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ یہ تخت اصل طاؤس کی نقل تھا۔ اصل تخت طاؤس میں کوہ نور جڑا ہواتھا۔ جب کہ دو نمبر تخت طاؤس میں شان مغل جڑا ہوا تھا۔ سر تھامس کادعویٰ ہے کہ انہوں نے دونوں تخت دیکھے ہیں اور دونوں اپنی مثال آپ تھے۔ سر تھامس کی آپ بیتی کے بعد شان مغل کے بارے میں تاریخ عرصے تک خاموش رہی۔ اس دوران تاج برطانیہ کی حکومت اس درجے وسعت اختیار کرگئی۔ اس کے بارے میں کہا جانے لگا کہ اس سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا۔“ اس موقع پر شیری پھر خاموش ہوگئی۔ چند ثانیے بعد شیری ایک بار پھر گمشدہ زنجیر کی کڑیاں ملانے لگی۔
”تخت طاؤس کی نقل 16ستمبر 1857ء کو اس وقت ڈرامائی انداز میں منظر عام پر آئی۔ جب جنگ آزادی کے باعث دہلی کی سڑکیں مقتولین اور زخمیوں سے اٹی پڑی تھی۔ جنگ آزادی ختم ہوئی تو دو انگریز افسر، کیپٹن میتھو لانگ اور کرنل گڈ مین کے سر کردگی میں رجمنٹ نمبر 101 دریا کے پار شمالی سڑک کی نگرانی کرنے لگی تاکہ شاہی خاندان کے باقی ماندہ افراد وہاں سے فرار نہ ہوسکیں۔ اس رات دہلی کے باہر جنگل کی طرف جانے والی سنسان سڑک پرجو کچھ ہوا اس کا علم چند لوگوں ہی کو تھا۔ چھ ماہ بعد کیپٹن میتھولانگ اور صوبیدار مان سنگھ نے فوجی عدالت میں گواہ دی جس کے نتیجے میں نہ صرف اس راز سے پردہ اٹھا بلکہ کرنل گڈ مین کا کورٹ مارشل بھی ہوگیا۔ ان دونوں کی گواہی کے مطابق وہ شمالی سڑک کی حفاظت کررہے تھے کہ چند مسلم رؤسا اور درباریوں نے دو گھوڑوں پر سوار مغل شہزادیوں کے ہمراہ شہر سے نکلنے کی کوشش کی۔ کیپٹن میتھو کی موجودگی میں ایک شہزادی نے کرنل گڈمین کوآزادی کی قیمت کے طور پر ایک تخت پیش کیا جسے کرنل نے قبول کرلیا۔ یہ تخت مور کی شکل کاتھا جس کی ایک آنکھ تھی۔ کرنل کی ہدایت پر تخت کئی حصوں میں تقسیم کر کے بیل گاڑیوں میں چھپا دیا گیا۔ اس کے بعد کرنل کے حکم پر شہزادیوں اور امراء سمیت تمام افراد قتل کردیے گئے۔ یہاں سے کرنل گڈ مین پندرہ سپاہیوں اور بیل گاڑیوں کے ہمراہ میتھو سے جدا ہوگیا۔ مان سنگھ کے بیان کے مطابق کرنل چھ روزبعد الہٰ آباد پہنچا۔ بعدازاں صوبیدار مان سنگھ اور کیپٹن میتھو نے اس واقعے کی رپورٹ کمانڈنگ آفیسر کو کردی۔ یوں کرنل کو گرفتار کر کے اس کا کورٹ مارشل کر دیا گیا۔ کرنل آخری دم تک اپنے جرم سے انکار ی رہا۔ بطور سزا اسے جبری سبکدوش کرکے کالے پانی میں بھیج دیا گیا۔ جہاں وہ 1871ء میں چل بسا۔“
شیری نے اس انداز میں کہانی سنائی تھی کہ مجھے لگا جیسے وہ واقعات میری آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے ہوں۔ ”لیکن اس سارے چکر سے تمہارا،جمی اور پھر پیڈ روکا کا تعلق کہاں سے نکل آیا؟“
”میں کرنل گڈ مین کی پڑ پوتی ہوں۔“ اس نے بتایا۔
”کیا؟“ میں حیرت زدہ لہجے میں بولا۔”ہاں اور میں خزانہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتی ہوں۔“ اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔
”جمی کو اپنے دادا کے ذاتی کاغذات میں سے ایک بہت پرانی ڈائری ملی تھی جس میں کسی ڈان لائٹ نامی بحری جہاز کا ذکر تھا۔ ڈائری میں ایک خط کی نقل بھی تھی۔ جس میں لکھا تھا کہ ڈان لائٹ میں پانچ آہنی بکس لاد کر افریقہ روانہ کیے جارہے ہیں۔ مجھے یقین ہے انہیں بکسوں میں تخت طاؤس پوشیدہ ہے۔“
ڈان لائٹ کا ذکر سنتے ہی میرے ذہن میں سارا گورکھ دھندا واضح ہوتاچلا گیا۔ ڈان لائٹ نامی جہاز کی غرقابی کا قصہ میں نے زنجبار آنے والے کئی سیاحوں کی زبانی سنا تھا۔ یہ عظیم جہاز 1857ء میں بمبئی سے روانہ ہوا تھا۔ اسے سینٹ میری، کیپ آف گڈ ہوپ اورسینٹ ہیلنا سے ہوتے ہوئے لندن پہنچنا تھا۔ روانگی کے چوتھے روز جہاز سمندری طوفان میں پھنسا اور پھر جزائر سینٹ میری کے قرب و جوار میں غائب ہوگیا۔ اب تک طالع آزما اس گمشدہ جہاز کی تلاش میں غوطہ خوری کرچکے تھے مگر غرقابی کا اصل مقام معلوم نہ ہونے کے باعث کسی کی قسمت نے یاوری نہ کی۔ یقینا جمی نے اپنے دادا کے کاغذات کی مدد سے اصل مقام کھوج نکالا ہوگا۔
”ناقابل یقین۔“ میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا: ”یوں لگا جیسے میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہوں۔“
”جب جمی نے دادا کے کاغذات میں یہ راز دریافت کیا تو ہماری بھی یہی کیفیت ہوئی تھی۔“ شیری اٹھ کر ٹہلتے ہوئے بولی۔“ جمی چار سال سے اس جزیرے میں اسی لیے رہائش پذیر تھا۔ وہ دوسروں کو سیر اور غوطہ خوری کرانے کے بہانے ڈان لائٹ کا کھوج لگاتا رہتا۔ بالآخر وہ کامیاب ہو گیا مگر ہمارے پاس اس مہم کے لیے مناسب رقم نہیں تھی۔ اس لیے جمی نے پیڈ روکے گروہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس نے انہیں تخت طاؤس کا تو نہیں بتایا۔ البتہ اتنا بتا دیا کہ سمندر کی تہہ میں ایک انمول خزانہ چھپا ہوا ہے۔“
”بس آگے میں سب سمجھ گیا۔“ میں نے اٹھ کر ٹہلتے ہوئے کہا۔ ”لیکن میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟“
”تمہارے پاس جدید ترین اوزار سے لیس کشتی اور غوطہ خوری کا سامان ہونے کے علاوہ وسیع تجربہ بھی ہے۔“ وہ بولی: ”اگر تم راہ نمائی کرو، تو ہم بہت کم مدت میں خزانہ نکال سکتے ہیں۔“
”لیکن پیڈ روکا کیا بنے گا؟“ میں نے کہا۔ ”وہ تو ہمیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔“
”یہ میری زندگی کا خطرناک کھیل ہے۔“ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولی۔ ”اکلوتے بھائی کی موت کے بعد میری زندگی بس اسی طرح سنور سکتی ہے۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا، تو ہم پیڈ روکو شکست دے سکتے ہیں۔“
”اگر یہ بات ہے تو ہم ابھی اس مہم پر روانہ ہوتے ہیں۔“ یہ کہہ کر میں اس کے ہمراہ ساحل پر جا پہنچا۔ جہاں میری کشتی میں جیکب اور اینجلو موجود تھے۔ میں نے شیری کو ان دونوں کی وفاداری کا یقین دلایا اور اسے رضا مند کر لیا کہ انہیں بھی اس مہم میں شامل کرلیا جائے۔ سمندر کی تہہ کھنگا لنا بچوں کا کھیل نہیں، اس مقصد کے لیے ہمیں سمندر کے درمیان واقع ایک جزیرے کے اندر عارضی ٹھکانہ بنانا پڑا۔ ہم نے وہاں غار میں وافر ایندھن اور خوراک ذخیرہ کرلی۔

٭……٭

جب تمام انتظام مکمل ہوگئے تو میں نے شیری کے سامنے کینوس کا وہ تھیلا کھولا۔ جسے جمی نے تہہ آب سے نکالا تھا۔ اس میں سے پیتل کی ایک گھنٹی برآمد ہوئی تھی۔ صفائی پر گھنٹی کی اصل سطح عیاں ہوئی تو اس پر ڈان لائٹ کے ابھرے ہوئے الفاظ لکھے دیکھ کر ہماری آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ وہ گھنٹی اس بات کی دلیل تھی کہ اس مقام پر جہاز کا ڈھانچہ سمندر کی تہہ میں پڑا ہے۔ ہم نے جس جزیرے پر پڑاؤ ڈالا۔ وہ غیر آباد تھا۔ اولڈ مین نامی اس جزیرے پر انگریزوں کے دور حکومت کا ایک پھانسی گھاٹ بھی موجود تھا۔ اشیائے خورونوش کے ساتھ ہم نے آتشی اسلحے اور بارود کا بھی انتظام کیا تھا۔ ہتھیار…… پیڈرو سے نمٹنے ……جب کہ بارود……سمندر کی تہہ میں پڑے ڈان لائٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تھا۔
جزیرے پرآمد کے دوسرے ہی روز ہم نے کام کا آغاز کردیا۔ طاقتور ڈائنا مائیٹ ٹرانزسسٹربیٹریوں اور سوئچ بکسوں کے ساتھ منسلک تھا۔ بیٹریوں کے تاروں کی لمبائی اتنی تھی کہ انہیں باآسانی سمندر کی تہہ تک لے جایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس مخصوص دھماکہ خیزڈیٹو میٹر صندوق بھی تھا۔
شیری میراساتھ دینا چاہتی تھی مگرڈان لائٹ کا پتا چلانے کے لیے میں نے تنہا غوطہ خوری کا فیصلہ کیا۔ پہلا غوطہ لگانے کے بعد سرعت سے تہہ کی جانب سفر طے کر کے میں نے گھڑی اور گہرائی بتانے والا آلہ دیکھا۔ سو فٹ کی گہرائی میں واقع زمین تک پہنچنے میں پانچ منٹ صرف ہوئے تھے۔ میں اندازے کے مطابق چٹانوں اور آبی جانوروں میں راستہ بناتا کسی قدر کھلے علاقے میں پہنچ گیا۔ وہاں سورج کی کرنیں بمشکل پہنچ رہی تھیں۔ زیر آب چٹانوں پر سمندری پودے کسی بھکاری کے ہاتھوں کے مانند لہرارہے تھے۔ مجھے احساس ہوگیا کہ جہاز کی تلاش اور سمندر کی تہہ کھنگالنا آسان نہیں۔
مجھے آکسیجن کا تازہ سلنڈر لینے کے لیے تین بار اوپر جانا پڑا۔ ہر بار شیری مجھ سے جہاز کے بارے میں سوال کرتی مگر میرا جواب نفی میں ہوتا۔پانچویں بار میں نے ذراہٹ کر غوطہ لگاا ور طاقتور ٹارچ کی روشنی ادھر ادھر پھینکتا…… عجیب و غریب آبی جانداروں کے درمیان سے راستہ بناتا ایک چٹان کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ وہاں آبی حیات کی اتنی کثرت تھی کہ دس فٹ سے آگے ٹارچ کی روشنی بھی بے اثر ہوجاتی۔ چند ثانیے بعد چٹان کی غیر معمولی ساخت مجھے تشویش میں مبتلا کرتی رہی۔ میں مایوس ہو کر اوپر جانے لگا ہی تھا کہ چٹان کے قریب ایک گول سلنڈر نما شے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ اس کی اصل شکل آبی پودوں اور مونگے کی تہہ نے چھپالی تھی۔ میں نے چاقو کی مد د سے اسے ٹھونک بجا کر دیکھا تو مارے خوشی اور ہیجان کے خود پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ جس شے کو میں چٹان سمجھ رہا تھا۔ وہ دراصل سمندر کی تہہ میں اوندھا پڑا دیو ہیکل جہاز کا پیندا تھا۔ اور وہ سلنڈر نماشے اس کے اگلے حصے میں نصب توپ کا دہانہ تھا۔میں تیزی سے سطح سمندر پر پہنچا اور ساتھیوں کو خوشخبری سنانے کے بعد اینجلو کے ہمراہ اوزار لے کر پھر نیچے چلا گیا۔
جہاز کی توپیں عرشہ توڑ کر ڈھانچے کے قریب آگری تھیں۔ انہیں لگانے کا مقصد یقینا بحری قزاقوں سے نمٹنا ہو۔آبی پودوں اور مونگے کی تہہ نے جہاز کے ملبے کو ٹھوس شکل میں بدل ڈالا تھا۔ جہاز اس انداز سے اوندھا پڑا تھا کہ اس میں داخلے کی تمام راہیں مسدود ہوچکی تھی۔ جہاز کا جائزہ لینے کے بعد ہم واپس کشتی پر آگئے۔کافی دیر کے بعد ہم نے دھماکا خیز مواد لگانے کا فیصلہ کیا……مگر سمندر میں مدوجز کی کیفیت رہی جس کے باعث ہم اپنے منصوبے پر عمل نہ کرسکے۔ تیسرے روز سمندر پر سکون ہوا تو میں نے اینجلو کے ہمراہ غوطہ لگا یا او رہم نے جہاز کے دو مناسب مقامات پر ڈائنامائٹ نصب کرکے اوپر پہنچ گئے جیکب نے ہمارا اشارہ ملتے ہی سوئچ باکس کا بٹن دبا دیا۔ دھماکے والی جگہ پر پانی بیسیوں فٹ فضا میں اچھلا…… چند لمحے بارش کا سماں رہا اور پھر آہستہ آہستہ سطح آب پر سکون ہوگئی۔
آدھ گھنٹے کے بعد میں اینجلو کے ہمراہ ضروری سازو سامان سے لیس ہوکر سمندر میں جا اترا۔ ہم نے آدھا فاصلہ طے کیا تھا کہ بیسوں مردہ مچھلیاں الٹی تیرتی نظر آئیں۔ ہم آبی جانوروں کے درمیان سے راستہ بناتے تہہ تک پہنچ گئے۔ دھماکوں کے باعث تہہ میں ریت کے ذرات کی دھند چھائی ہوئی تھی۔ جو رفتہ رفتہ بیٹھ رہی تھی۔

دھماکے سے ہمارا مقصد پورا ہوا…… جہاز کے پیندے کا اتنا حصہ کھل چکا تھا کہ ہم باآسانی اندر داخل ہوسکتے تھے۔ میں نے نائیلون کی پھر کی اینجلو کو پکڑائی اور جہاز کا معائنہ کرنے لگا۔ دھماکے کے بعد بکھرے ملبے میں گھومنا پھر نا نازک مرحلہ تھا۔ آلودہ پانی میں ٹارچ بھی دور تک کام نہیں کر رہی تھی۔ میں جس جگہ داخل ہوا اور وہ دراصل توپ خانہ تھا۔ جہاں گولے دوسرے آلات او رمشینوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا۔ میں اس راستے جہاز کے نسبتاً کھلے حصے میں آگیا، یہاں پانی کچھ صاف تھا۔ میں احتیاط سے تیرتا ہوا آگے بڑھا۔کچھ دور جاکر ٹارچ کی روشنی اوپر پھینکی تو مجھے پندرہ فٹ کے فاصلے پر ایک چوکور خلا نظر آیا۔ میں تیرتا ہوا سوراخ سے اوپر نکلا تو جیسے کسی جہان حیرت میں آپہنچا۔ جہاز کا اندرونی حصہ مونگے اور آبی روئیدگی کی دست بردسے کسی حد تک محفوظ تھا البتہ کائی کی لمبی لمبی تہہ پردوں کے مانند لہرا رہی تھیں۔ سمندر کے کھارے پانی نے جہاز کے ڈھانچے کو خستہ بنا ڈالا تھا۔ جہاز کے کئی حصے میرے وجود سے مس ہوتے ہی ریزہ ریزہ ہوگئے۔ وہ توپ خانے کا حصہ تھا جو جہاز اوندھا ہو جانے سے بالائی حصہ بن گیا۔ وہاں گلی نما راستے کے اطراف میں دروازے دکھائی دیے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ عملے کے اقامتی کمروں کے دروازے تھے۔
اگر میرا اندازہ درست تھا تو ان میں سے کوئی دروازہ گودام کا بھی تھا۔ بیشتر دروازے اس قدر خستہ تھے کہ ہاتھ لگاتے ہی ڈھیر ہوجاتے۔ برسوں پرانازنگ ان کے کواڑ چاٹ چکا تھا۔ میں ہر کمرے میں جھانکتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ میری توقع کے مطابق آخری کمرا گودام ثابت ہوا۔ اس میں چھوٹے بڑے کئی آہنی صندوق اوپر تلے ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے۔ اس ڈھیر میں سے اپنے کام کے چھ صندوق ڈھونڈ نا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ادھر میرے پاس آکسیجن کی مقدار کم ہورہی تھی۔ ابھی میرا ذہن انہی سوچوں میں گم تھا کہ نائیلون کی رسی میں تناؤ پیدا ہونے لگا۔ یہ میرے لیے اینجلو کی طرف واپسی کا اشارہ تھا۔ میں رسی کی راہ نمائی میں واپس تیرنے لگا۔ جہاز کے ڈھانچے سے باہر نکلتے ہوئے مجھے جو کچھ نظرآیا وہ میرے اوسان خطا کر دینے کے لیے کافی تھا۔ دھماکے سے مرنے والی سینکڑوں مردہ مچھلیوں نے شارک مچھلیوں کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔
اینجلو شارکوں کے خوف سے توپ خانے کے سوراخ میں دبکا ہوا تھا۔ وہ اتنا خوف زدہ تھا کہ تیز تیز سانسیں لے کر اس نے اپنی آکسیجن تقریبا ختم کر دی تھی۔ میں نے اسے وقفے وقفے سے سانس لینے کا اشارہ کیا اور سوراخ میں سے باہر جھانکا۔ چھوٹی شارکوں کے درمیان مجھے تقریباً ایک درجن کے قریب وہ سلنڈرنما شارک مچھلیاں بھی نظر آئیں جنہیں جزیروں کے باسی البکور شارک کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ اپنے جہازی جبڑے کھول کر تیزی سے مردہ مچھلیاں نگل رہی تھی۔ میں البکور شارک سے خوفزدہ نہ تھا۔ میرے خوف کا سبب وہ مہیب لچکدار سائے تھے جن کی حرکت کرنے کا انداز آسام کی وسعتوں میں محو پرواز عقاب کی مانند پر کشش اور شان دار تھا۔ یہ سمندر کی دہشت ناک سفید شارک کا جوڑا تھا۔ دونوں کی لمبائی تقریبا بارہ فٹ تھی۔ غار جیسے دہانوں میں سے جھانکتی ہوئی ان کے نوکیلے دانتوں کی دہری قطاریں سیب کے کانٹوں کے مشابہ تھیں اور پشت کا کھڑا ہوا پر باز برابر لمبا تھا۔
دفعتاً ان میں سے ایک کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ لچکداردم کی ایک ہی جنبش نے اسے میرے سر پر پہنچا دیا۔ اگر میں بر وقت سوراخ میں نہ گھس جاتا تو میرا سر اس کے دہانے میں کچلا جاتا۔ اینجلو کا دہشت کے مارے برا حال تھا۔ ادھر اس کے سلنڈر میں آکسیجن کی مقدار نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ لیکن اس حالت میں اس کا سطح آب پر جانا خودکشی کے مترادف تھا۔ میں نے اشاروں کی مدد سے اسے بتایا کہ میں اس کے لیے آکسیجن کا فالتو سلنڈر لینے اوپر جارہا ہوں تب تک وہ سوراخ میں دبکا رہے۔ اس بے چارے نے مجھے روکنے کے لیے مضمحل انداز میں اشارے کیے مگر میں نے زندگی اور موت کے اس مرحلے پر اینجلو کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ وہ میری زندگی کا سب سے کڑا امتحان تھا۔
اب سفید شارک بھی مردہ مچھلیوں کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔ میں جہاز کے پیندے کے ساتھ چپک کر اور ایک گہرا سانس لے کر میں نے اپنے پیر نیچے سوراخ کے کناروں پر جمائے اور ایک بھرپور جست کے ساتھ تیر کی مانند اوپر اٹھا۔ اوپر پانی کی سطح چاندی کے محلول کی طرح لہریں لے رہی تھی۔ اس میں میری کشتی کا سیاہ پیندا واضح نظر آرہا تھا۔
کشتی کی جانب آدھا سفر طے کرنے کے بعد میں نے نیچے دیکھا۔ ایک سفید شارک نیلی گہرائیوں سے آہستہ آہستہ چکر کاٹتی ہوئی اوپر اٹھ رہی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی رفتار میں تیزی آگئی۔ موت کے خوف نے میرے بدن میں نئی قوت بھر دی۔ میں سطح آب کو چیرتاہوا کمر تک پانی سے باہر نکل آیا۔ میرا ہاتھ کشتی کے جنگلے پر جھانکتے جیکب کی طرف پھیلا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے میری جانب ہاتھ بڑھایا۔ میں پوری قوت سے جسم آگے دھکیلتے ہوئے اس کی جانب لپکا، عین اسی لمحے میرے عقب میں پانی کی سطح سے جھاگ کی تہہ پھٹی اور شارک کا چکنا وجود میری کمر کو مس کرتا کشتی کے پیندے سے جا ٹکرایا۔ اس لمحے جیکب نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اوپر کھینچ لیا اور میں کسی بے جان شے کے مانند کشتی میں جاگرا۔
شارک ایک بار پھر کشتی سے ٹکرائی۔ کشتی اب بری طرح ڈول رہی تھی جیکب اورشیری میری حالت دیکھ کر بھونچکے رہ گئے۔ میں نے ربڑ ماسک چہرے سے ہٹایا اور تیز تیز سانسیں اندر کھینچے لگا۔
”اینجلو کہاں ہے؟“ جیکب چیخا۔
میں کروٹ لے کر ہانپتا ہوا اٹھا اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جلدی جلدی انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ ”تمہاری حالت ایسی نہیں کہ دوبارہ نیچے جاسکو۔“ جیکب نے مجھے روکنا چاہا: ”تمہاری جگہ میں جاتا ہوں۔“
”نہیں۔“ میں نے ہانپتے ہوئے کہا۔
”میں نیچے کے منظر سے واقف ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ کہاں پھنسا ہوا ہے۔ تم مجھے ضروری سازوسامان دے کر جانے دو۔“ جیکب نے مجھے پھرتی سے زیر آب استعمال ہونے والے ہتھیار سے مسلح کرنے کے بعد فالتو سلنڈر دیا اور میں آبی بندوق کے دستے پر گرفت مضبوط کیے پانی میں جا کودا۔ میرے اعضا درد کرنے لگے تھے مگر میرے سر پر اینجلو کو بچانے کا بھوت سوار تھا۔ میں سطح آب سے نوے فٹ نیچے پہنچا تو تہہ سے ہوا کے بلبلے اٹھتے نظر آئے۔ اس کا مطلب تھا کہ اینجلو ابھی زندہ ہے، میں کچھ اور قریب گیا تو مجھے سوراخ میں سے اس کا سرجھانکتا نظر آیا۔ جیسے ہی میں اس کی طرف بڑھا وہ خوفزدہ انداز میں مجھے اشارے کرنے لگا۔
میں نے پاؤں کو حرکت دی اور گھوم کر پلٹا۔ ایک سفید شارک سرعت سے میری جانب بڑھ رہی تھی۔ میں ایک آبی چٹان کے بھرے ہوئے حصے سے جا لگا اور ٹخنے سے بندے ہوئے بکس سے شارک کو بھگانے والا مخصوص اکلوتا کیپسول نکال کر پھاڑ دیا۔ فوراً لال رنگ کے سیال نے مجھے حصار میں لیا۔ حملہ آور شارک کو دھوئیں کے اندر گھستے ہی گڑ بڑ کا احساس ہوا۔ لال رنگ کے کیمیائی غبار نے اس کے گلچھڑوں میں آگ لگادی تھی۔ شارک سرعت سے گھوم کر مجھ سے دور ہوگئی۔ گھومتے گھومتے اس کی دم میری چھاتی پر لگی اور میں اڑتا ہوا دھوئیں کے حصار سے نکل گیا۔ ابھی میں سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ شارک دوبارہ میری جانب لپکی اس کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ میرے پاس تیر کر دور نکلنے کا وقت نہ رہا تھا۔ جیسے ہی شارک مجھ پر جھپٹی میں نے فالتو سلنڈر اس کے کھلے ہوئے جبڑوں میں دے مارا اور تیر کی مانند اوپر کی جانب تیرتا چلا گیا۔ بیس فٹ نیچے شارک سلنڈر کو گوشت کا ٹکرا سمجھ کر چپانے میں مصروف تھی۔
یہ اس عفریت کو ٹھکانے لگانے کا شاندار موقع تھا۔ میں سرعت سے ٹانگیں چلاتا ہوا اس کے سر پر پہنچ کر معلق ہو گیا اور آبی بندوق سے اس کی آنکھوں کے درمیان نشانہ باندھ لیا۔ لبلبی دباتے ہی ایک دھماکے ساتھ پانی میں ہلچل پیداہوئی اور سیسے کی وزنی گولی شارک کی تھوتھنی میں سوراخ کرتی گزر گئی۔ وہ بری طرح تڑپی لیکن جلداس کا دیو ہیکل وجود ساکت ہوگیا۔ چند ثانیے بعد وہ دم کے بل پانی میں معلق ہوگئی۔ میں نے آبی بندوق میں دوسری گولی بھری اور شارک کے جبڑوں میں اٹکا سلنڈر الگ کرنے سے پیشتر وہ بھی اس کے بھیجے میں پیوست کردی۔
سلنڈر محفوظ تھا ماسوائے چند خراشوں کے لیکن شارک کے ساتھ جنگ کے دوران اینجلو کے سلنڈر میں آکسیجن ختم ہوچکی تھی وہ لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس حالت میں بھی اس نے سوراخ سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور میرا انتظار کرتا رہا۔ میں نے نئے سلنڈر کا ماؤتھ پیس اس کے منھ سے لگا کر سانس لینے میں اس کی مدد کی۔ چند لمحوں بعد اس کے سینے کا زیرو بم بحال ہونے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرا کندھا تھپک کر مجھے اپنی خیریت کا یقین دلایا۔ اوپر جانے کے لیے ہمارے پاس خاصی آکسیجن باقی تھی۔ میں نے سوراخ سے باہر جھانکا۔ مردہ مچھلیوں کا صفایا کرنے کے بعد شارکیں وہاں سے رخصت ہونے لگی تھیں۔ میں اینجلو کی کلائی پکڑے سوراخ سے نکل آیا۔ ہم دونوں غرقاب جہاز کے سائے میں اوپر بلند ہونے لگے۔ سطح آب سے بیس فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر کشتی کا پیندا صاف نظر آنے لگا۔ اسی لمحے مجھے تہہ آب میں دیو ہیکل سایہ متحرک نظر آیا اور میرے دل کی دھڑکن جیسے تھم گئی۔ یہ دوسری سفید شارک تھی۔ جو پچاس فٹ نیچے آہستہ آہستہ حرکت کرتی اوپر اٹھ رہی تھی۔ اینجلو خوفزدہ انداز میں مجھ سے قریب ہوگیا۔ ہم تیزی سے تیرتے ہوئے سطح آب کی جانب بڑھے۔
جیکب نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا، وہ کشتی کو عین ہمارے سروں کے اوپر لے آیا۔ اس دوران شارک خطرناک حد تک ہمارے قریب آچکی تھی۔ میں نے بندوق شارک کی طرف سیدھی کر لی اور اینجلو کو اوپر جانے کا اشارہ کیا۔

٭……٭

جیسے ہی اینجلو نے اوپر اٹھنا شروع کیا شارک اس کی طرف لپکی۔ میں اس وقت ان دونوں کے عقب میں معلق تھا۔ جیسے ہی شارک میرے نشانے کی زد میں آئی۔ میں نے لبلبی دبا دی۔ حلق میں پیوست ہونے والی گولی کے دباؤ نے شارک کا رخ تبدیل کر دیا اور وہ سطح آب کو چیرتی اوپر اٹھی اور واپس پانی میں آگری۔ اس کا جہاز ی وجود اذیت بھرے انداز میں بل کھا رہا تھا اور وہ باربار اپنے جبڑے کھول اور بند کررہی تھی۔ اس دوران جیکب اینجلو کو اوپر اٹھا چکا تھا۔ شارک غضبناک ہو کر میرے گرد چکر کاٹنے لگی۔ میں اس کے ساتھ ساتھ گھومتاآہستہ آہستہ اوپر اٹھتا جارہا تھا۔ میں کشتی سے پانچ فٹ نیچے تھا کہ اچانک شارک میری جانب لپکی۔ میں فوراً رک گیا۔ ساتھ ہی حملہ آور شارک کی رفتار کم ہوگئی اور وہ میرے مقابل آکر پانی میں معلق ہوگئی۔ اب دس فٹ کے فاصلے سے ہم ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔ میں نے دھیرے دھیرے بندوق اس کی جانب سیدھی کرلی۔ شارک ابھی تک ساکت تھی۔ میں نے غیر محسوس انداز میں لبلبی کے گرد انگلی کاحصار بنا لیا جیسے ہی شارک نے جبڑے کھولے۔ میں نے لبلبی دبا دی۔ گولی اس کی کھوپڑی کے ٹکڑے ٹکڑے کر گئی۔ میں اس کا حشر دیکھنے کے بجائے پوری قوت سے کشتی کی جانب لپکا۔ جیسے ہی میں سطح آب پر نمودار ہوا۔ جیکب کی آہنی گرفت نے مجھے کشتی پر کھینچ لیا۔
تباہ شدہ جہاز کے ڈھانچے میں دودن بعد ہمارا وہ تیسرا غوطہ تھا۔ جب میں گودام کے بے ترتیب سامان سے ایک آہنی صندوق گھسیٹ لانے میں کامیاب ہوا۔ وہ مقفل تھا مگر برسوں کے زنگ نے اسے اس قدر خستہ کر ڈالا تھا کہ گھسیٹنے سے اس کا قفل ٹوٹ گیا۔ میں نے اس کے گرد آہنی پٹیاں الگ کیں اور ڈھکن اٹھا دیا۔ صندوق کے اندر سفید ریشے سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے ٹارچ اینجلو کو پکڑائی اور ریشے ٹٹولنے لگا۔ نکلنے والی شے نے مجھے چند لمحوں کے لیے پھر سحر زدہ کردیا۔
صندوق میں مور کا نقرئی سر یوں پڑا تھا کہ مجھے لگا جیسے وہ ابھی اچھل کر اپنی چونچ میں میرا ہاتھ دبا لے گا۔ صندوق تقریباً گل چکا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ طلائی سر دو سو پونڈ کے قریب وزنی تھا۔ وہ اندر سے کھوکھلا تھا اور سونے کی پرت ایک انچ موٹی تھی۔ سطح طویل عرصہ زیر آب رہنے کے بعد خراب ہوگئی تھی۔ اس کے باوجود میرے اندازے کے مطابق اس کی قیمت لاکھوں پاؤنڈ تھی۔ میں نے اینجلو کی مدد سے سر مضبوط چرمی تھیلے میں لپیٹا اور اسے لے کر عرشے پر چلا آیا۔ شیری کی حالت اس وقت بیان سے باہر تھی۔ مور کا طلائی سردیکھ کر جیسے اس کی قوت گویائی ہی سلب ہوگئی۔
طلائی سرکشتی پر پہنچانے کے بعد ہم نے دوسرا غوطہ لگایا اس دفعہ پہلے سے ملتا جلتا ایک اور صندوق نکال لانے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ صندوق کسی مضبوط دھات کا بنا ہوا تھا۔ کیوں کہ طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ پانی کی دست برد سے محفوظ تھا۔ صندوق لے کر ہم کشتی پر پہنچے، مد جزر کی کیفیت خطرناک ہوچکی تھی۔
شیری اور جیکب کے خیال میں اس روز اتنی ہی غوطہ خوری کافی تھی۔ دوسری طرف طوفان، سمندری ہوائیں لمحہ بہ لمحہ تیز ہورہی تھی۔ اب ہمارا مزید وہاں رکنا ممکن نہ تھا۔ میں کشتی واپس جزیرے پر لے آیا۔ دوسرا صندوق اگرچہ جسامت میں چھوٹا تھا مگر اس نے کھلنے میں خاصا وقت لیا۔ ڈھکن اٹھاتے ہی ہم سب کی آنکھیں کھلی کی کھلیں رہ گئیں۔ صندوق میں دیا سلائی کے سر سے لے کر انگور کے دانے برابر ہمہ قسم کے پتھر موجود تھے۔ بے شمار قیمتی اور نایاب پتھر، مثلاً نیلم، زمرد، یاقوت،عقیق،ہیرے موتی وغیرہ، اکثر پتھروں کے بارے میں ہم نے محض قیاس آرائی کی ورنہ انہیں شناخت نہیں کرسکے۔
انہی انمول پتھروں کے نیچے سے وہ نایاب ہیرا برآمد ہوا۔ جس کا نام فرانسیسی جوہری ٹیونر نے شان مغل رکھا تھا۔ انڈے جیسے اس پتھر کی تراش ایسی تھی کہ صندوق میں بھرے تمام پتھروں کی چمک دمک بھی شان مغل کی شان کے سامنے ماند پڑگئی۔ ہم نے وہ خزانہ ایک مضبوط آہنی صندوق میں مقفل کیا، درختوں کے ایک جھنڈ کے دامن میں گڑھا کھودا اور اس میں دفن کر دیا، احتیاط سے مٹی برابر کرنے کے بعد ہم نے اپنی کارروائی کا ہر نشان مٹا دیا۔
رات کے کسی پہر تیز ہوا کے شور سے میری آنکھ کھلی تو میں نے فضا میں خنکی محسوس کی۔ جیکب شیری اور اینجلو اپنے بستروں میں گھسے خراٹے لے رہے تھے۔ میں جلدی سے غار سے نکلا تو جزیرے کی فضا کو گرد آلود پایا۔ چاند کا دھند لاعکس لمحہ بھر کے لیے بادلوں کی اوٹ سے جھانک کر پھر روپوش ہوجاتا۔ چودہویں ہونے کے باعث سمندر میں پہلے ہی مدو جزر زوروں پر تھا مگر طوفانی بادلوں کے شور نے قیامت برپا کر رکھی تھی۔ میں نے جلدی سے غار میں آکر ان تینوں کو جگایا۔ طوفان کی آمد کا سن کر وہ بھی پریشان ہوگئے۔
”کوئی بات نہیں۔“ میں نے شیری کو پریشان دیکھ کر اس کی دلجوئی کی۔ ”ہمارے پاس خوراک کا اتنا ذخیرہ ہے کہ تین دن آرام سے گزار سکتے ہیں۔“
”لیکن ابھی ہم نے باقی صندوق بھی تو سمندر سے نکالنے ہیں۔“ وہ پریشان لہجے میں بولی۔
”تم یہاں جیکب کے ساتھ رہو۔ میں اینجلو کے ساتھ کشتی ساحل تک کھینچ لاؤں تاکہ وہ طوفانی لہروں میں ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہے۔“ یہ کہہ کر میں اینجلو کے ہمراہ باہر نکل آیا۔ ہوا کی شدت میں اضافہ ہوچکا تھا، طوفانی ہوائیں درختوں کو یوں ہلا رہی تھیں کہ جیسے وہ درخت نہیں بلکہ شاخیں ہوں۔ ہم دونوں ہاتھوں سے سر ڈھانپے، درختوں کی گرتی شاخوں اور ٹہنیوں سے خود کو بچاتے ساحل تک پہنچ گئے۔ ہماری کشتی یوں ہچکولے کھارہی تھی جیسے بچوں کا کھلونا۔ ہم بڑی مشکل سے اسے گھسیٹ کر ساحل کے ایک محفوظ مقام تک لائے اور کشتی کے کھلے حصوں پر ترپال ڈال کر اسے نائیلون کی رسی سے باندھ دیا۔ میری کشتی دیکھنے میں چھوٹا بحری جہاز لگتی تھی مگر فائبر سے بنی ہونے کے باعث وزن میں بے حد ہلکی تھی۔ اگر کرین وار موٹر کا وزن نہ ہوتا تو میں اسے تنہا ہی ساحل تک گھسیٹ لاتا۔ بہرحال اب کشتی محفوظ تھی۔
واپسی کا سفر ہماری توقع سے زیادہ کٹھن ثابت ہوا۔ ہوا اس قدر تیز ہوگئی تھی کہ ناریل درختوں سے اکھڑ اکھڑ کر بموں کے مانند زمین پر گر رہے تھے۔ ہم نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ساحل کے قریب کسی غار میں پناہ لے لیں۔ شیری اور جیکب اپنے غار میں محفوظ تھے۔
ایک غار میں پہنچ کر میں نے اپنے کوٹ سے مٹی اور ریت جھاڑی۔اسی لمحے پشت سے میرے سر پر کسی ٹھوس شے کی ضرب پڑی۔ میں اینجلو کی جانب پلٹتے پلٹتے اس کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔ میری آنکھوں نے آخری منظر یہ دیکھا کہ اینجلو کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رقصاں ہے اور اس نے ہاتھوں میں سیاہ پستول تھام رکھا ہے۔

٭……٭

معلوم نہیں میں کتنی دیر بے ہوش رہا، جب دوبارہ ہوش آیا تو میں غار کے دہانے کے قریب اس حال میں پڑا تھا کہ میرے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے بندے ہوئے تھے۔ باہر تیز دھوپ چمک رہی تھی۔ سمندر کی لہریں پر شور انداز میں چٹانوں سے یوں سرٹکرارہی تھیں جیسے میری حالت پر ماتم کر رہی ہوں۔ اینجلو ایک چٹانی پتھر پر بیٹھا سگریٹ کے گہرے گہرے کش لے کر دھوئیں کے دائرے فضا میں چھوڑ رہا تھا۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ میرے قریب آیا اور دانت نکال کر بولا: ”مجھے افسوس ہے جانی مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔“ میرے سر میں جہاں چوٹ لگی تھی، وہاں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ ”کاش میں نے تمہیں شارک کا نوالہ بن جانے دیا ہوتا۔“ میں نے ایک درد بھری کراہ کے ساتھ کہا۔
”میں نے تم پر اور جیکب پر اعتماد کرکے اپنی زندگی کی سب سے بڑی بھول کی ہے۔“
”بے چارا جیکب تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔“ وہ میرے بال مٹھی میں جکڑ کر بولا: ”وہ تو اب بھی تمہارا وفادار ہے۔ تھوڑی دیر بعد اسے پیڈ رو کے آدمی بے خبری میں جاپکڑیں گے۔ افسوس طوفان نے ہمارے منصوبے کا بیڑہ غرق کر دیا ورنہ کل رات ہی تم تینوں کا قصہ پاک کردیتے۔“
یہ سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر سرایت کرگئی۔ میں بندھا ہوا ہونے کے باوجود زخم خوردہ سانپ کے مانند ادھر ادھر لوٹنے لگا۔
اس نے آگے بڑھ کر میری پیٹھ پر اپنا وزنی پاؤں رکھا۔ ریوالور کی نال میری کھوپڑی پر رکھتے ہوئے بولا۔ ”زیادہ بکواس مت کرو، تم اب تک صرف اس لیے زندہ ہوکہ تم نے میری جان بچائی تھی ورنہ میں تمہیں ختم بھی کر سکتا تھا۔ تم جانتے ہو کہ خزانے کا راز مجھے معلوم ہوگیا ہے۔“ میں یہ سن کر ساکت ہوگیا، وہ درست کہہ رہا تھا۔ میں مکمل طور پر اس جنگلی کے رحم وکرم پر تھا۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگنے لگا کہ شیری اور جیکب کسی طرح خبردار ہو جائیں اور کم ازکم ان کی جان بچ جائے۔ چند ثانیے بعد ہوا کے دوش پر انجن کی گھرر گھرر میری سماعت سے ٹکرائی۔ اینجلو فوراً غار کے دہانے تک گیا اور پر مسرت لہجے میں بولا۔
”وہ لوگ آگئے۔“ وہ شیطانی انداز میں قہقہے لگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد غار کے باہر جوتوں کی دھمک گونجی اور چار ہیولے غار میں داخل ہوئے۔ وہ چاروں سر تا پا سیاہ لبادوں میں ملبوس تھے۔ چہروں پر منڈھے نقابوں میں جھانکتی لال لال آنکھیں انہیں انسانوں کے بجائے درندے ظاہر کرتی تھیں۔ ان کے کندھوں سے ہلکی مشین گنیں جھول رہی تھیں۔ انہوں نے میری پاؤں کی بندشیں کاٹیں اور دھکیلتے ہوئے غار سے باہر لے آئے۔ ساحل کے ساتھ دو لانچیں لنگر انداز تھیں۔ آس پاس چٹانوں پر سیاہ لبادوں ہی میں ملبوس دس بارہ مسلح افرادیوں کھڑے تھے گویا کسی طوفان سے نبرد آزما ہونے جارہے ہوں۔ ان کے وسط میں کھڑے شخص کو میں نے پورے چھ سال بعد دیکھا۔

چھ فٹ سے بھی نکلتے ہوئے قد کا پیڈرو چٹان پر تن کر کھڑا تھا۔ سیاہ رنگ کے لمبے چوغے میں وہ ڈراؤنی فلموں کا کوئی کردار معلوم ہوتا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسا جرم ہو۔ جو پیڈ رو نے نہ کیاہو جس کا چہرہ اس کے اعمال سے میل کھاتا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ کسی انسان کا چہرہ اس قدربھیانک اور غیر فطری بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی بائیں آنکھ کسی حادثے میں ضائع ہوچکی تھی۔ ناکارہ آنکھ پر وہ چمڑے کا سیاہ ٹکڑا باندھے رکھتا تھا جس سے اس کاچہرہ مزید خوفناک لگتا۔ مجھے دیکھ کر وہ مکار چیتے کی مانند چھلانگ لگا کر چٹان سے اتر آیا۔
”سمندر سے مغلوں کا گمشدہ خزانہ نکال لانے کا شکریہ جانی۔“ اس کی تیز آواز میرے کانوں میں برمے کی طرح لگی۔ میں خاموشی سے اسے تکتا رہا۔ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ میری سلامتی کا واحد دارومدار شیری اور جیکب کے فرار پر تھا۔ پیڈرو چھوٹے چھوٹے قد م اٹھاتا میرے سر پر پہنچ گیا۔ اس کی اکلوتی لال آنکھ کی سیاہ پتلی حرکت کرتی تو مجھے بے اختیار صحراؤں کی فضاؤں میں پرواز کرنے والے منحوس گدھ یاد آتے جو مردار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ جونہی انہیں کوئی لاش نظر آئے۔ وہ دائرے بناتے نیچے اترنے لگتے ہیں۔
”ابھی میرے کارندے تیرے ساتھیوں کو ڈھونڈ لائیں گے اور پھر میں اس انمول خزانے کا مالک بن جاؤں گا۔“ وہ یہ کہہ کر شیطانی انداز میں ہنسنے لگا۔ اس کے قہقہے تب تھمے۔ جب چٹانوں کی اوٹ سے دو مسلح سیاہ پوش بھاگتے ہوئے ہماری سمت آئے۔ ”ان دونوں کا کہیں کچھ پتا نہ چلا۔“ ایک سیاہ پوش نے ہانپتے ہوئے کہا: ”غار خالی ہے۔“
میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی کہ جیکب، شیری کو ساتھ لے کر کسی طرح وہاں سے نکل جائے۔ میں پیڈرو کی سفاکی سے بخوبی واقف تھا۔ ”چلو جلدی ہمیں خزانے تک لے چلو۔“ پیڈرو نے اینجلو کو حکم دیا۔ وہ مجھے اپنے نرغے میں لیے اینجلو کی رہنمائی میں اس طرف روانہ ہوگئے جہاں ہم نے گزشتہ روز خزانہ دفن کیا تھا۔ ”خزانہ یہاں دفن ہے جناب!“ اینجلو نے مقررہ مقام پرپاؤں مارتے ہوئے کہا۔ ”تمہارا کام ختم ہوا اینجلو بیٹا۔“ پیڈ رو نے ایک کارندے کو مخصوص انداز میں اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”اور میرا اصول ہے کہ کام ختم، آدمی ختم۔“
اگلے ہی لمحے مشین گن کا پورا برسٹ اینجلو کی چھاتی اور پیٹ پر ترچھی لکیریں کھینچ گیا۔ وہ اگلے جہاں کو روانہ ہوا تو اس کی آنکھوں میں حیرت صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ مجھے اس کی موت پر خوشی ہوئی کہ غدار کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے۔ سیاہ پوشوں نے اس کی لاش ایک طرف پھینکی اور پیڈرو کے اشارے پر کھدائی کرنے لگے۔ اس وقت میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ مجھے یقین تھاکہ خزانہ برآمد ہوتے ہی میرا بھی اینجلو سے ملتا جلتا حشر ہونے والا ہے۔دکھ اس بات کا تھا کہ وہ انمول خزانہ جسے میں نے موت سے سہ بارگی پنجہ آزمائی کے بعد حاصل کیا۔ ایک بے وقوف کے باعث ہاتھوں سے نکلا جارہا تھا۔
میرے قریب کھڑے دو محافظوں کے علاوہ باقی سب افراد کھدائی کے مقام پر گھیراؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جب دھات سے دھات ٹکرانے کی آواز آئی تو مجھے یوں لگا جیسے بیلچہ صندوق سے نہیں بلکہ میرے دل سے ٹکرایا ہے۔ ایک کارندہ گڑھے میں کود گیا۔ پیڈرو نے اسے صندوق احتیاط سے نکالنے کاحکم دیا اورخود گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر انہماک سے اندر جھانکنے لگا۔
اس سے آگے جوکچھ ہوا۔ اس کی کم از کم مجھے توقع نہ تھی۔ پیڈ رو کے عقب میں واقع بلند بالا چٹان کی چوٹی پر ایک انسانی ہیولا ابھرا۔ وہ شیری تھی۔ شیری نے اپنا دایا ں ہاتھ فضا میں بلند کیا اور مجھے نیچے لیٹنے کا اشارہ کیا اس دوران باقی افراد کی بھی اس پر نظر پڑگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان سب کی مشین گنوں کے دہانے چٹان کی جانب اٹھ گئے۔ پیڈ رو بھی کسی وحشی درندے کی مانند اس کی طرف پلٹ گیا اور اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتے شیری اپنا کام کر چکی تھی۔
ایک سماعت شکن دھماکہ ہوا اورگڑھے کے اطراف میں کھڑے افراد روئی کے گالوں کی طرح فضا میں بکھر گئے۔ مٹی اور ریت کا ایک دبیز ستون کئی سو فٹ بلند ہو گیا۔ کافی دیر بعد جب میرے حواس بحال ہوئے تو گرد اور بارود کا طوفان تھم چکا تھا۔ میں نے اپنی جگہ لیٹے لیٹے سر اٹھایا تو خزانے کا مقام میدان حشر کی مانند میرے سامنے تھا۔
گڑھے کے قریب سے اکا دکا کراہیں اور دم توڑتی سسکیاں بلندہورہی تھیں۔ میرے کان جھنجھنا رہے تھے۔ میں قدموں کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ سامنے بڑا ہولناک منظر تھا۔ گوشت اور خون کے ملغوبے میں انسانی اعضا دور دور تک بکھرے ہوئے تھے۔
اچانک لاشوں کے ڈھیر میں سے ایک انسانی ہیولا رفتہ رفتہ ابھرا۔ تار تار لباس ادھڑی ہوئی کھال اور ایک ہاتھ کلائی پر سے غائب تھا۔ یہ خون میں لت پت پیڈرو تھا۔ چند لمحے وہ اپنی اکلوتی آنکھ سے مجھے گھورتا رہا۔ خوفناک دھماکے میں اس کازندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ دفعتاً فضا میں فائر کی باز گشت سنائی دی اور پیڈ رو کا دم توڑتا وجود زمین بوس ہوگیا۔
میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ برطانوی بحریہ کے بیسوں سپاہی شیری کو نرغے میں لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ شیری کے ہاتھ میں لمبی نالی کا سیاہ پستول تھا اور وہ ماہرانہ انداز میں فوجیوں کو ہدایت دے رہی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ مجھے کچھ یاد نہیں۔ میرے حواس بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے۔

٭……٭

جب میں حواس کی دنیا میں واپس لوٹاتو خود کوزنجبار کے فوجی اسپتال میں پایا۔ میری ایک ٹانگ اور بازو پٹیوں میں لپیٹے ہوئے تھے اور جسم کو توانائی دینے کے لیے بازو سے ڈرپ منسلک تھی۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر میرے سرہانے بیٹھا جیکب میرے سامنے آگیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بوسہ لینے لگا۔ میرے اشارے پر اس نے مجھے پانی پلایا تو میری زبان کچھ بولنے کے قابل ہوگئی۔ ”شیری کہاں ہے؟“ میں نے گویائی بحال ہوتے ہی پوچھا۔“
”شیری نہیں جانی۔“ جیکب نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ”برطانوی بحریہ کی خصوصی برانچ سے وابستہ کیپٹن لورنا۔“
میں نے اپنی سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔ اگر وہ سچ کہہ رہا تھا تو میرے سارے کئے کرائے پر پانی پھر چکا تھا۔ اس سے قبل کہ جیکب مجھے مزید کچھ بتاتا۔ کمرے کے دروازے میں شیری کا سراپا نمودار ہوا۔ اس نے لمباکوٹ اور اس کا ہم رنگ ٹوپ پہنا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے بحریہ کے چار اہل کارتھے۔ ”اب کیسی طبیعت ہے تمہاری۔“ وہ میرے قریب آکر چشمہ اتارتے ہوئے گویا ہوئی۔ ”طبیعت کچھ سنبھلی تھی مگر تمہاری حقیقت جان کر پھر بگڑ گئی۔“ میں نے کہنیوں کے بل تھوڑا سا اوپر کھسک کر کہا۔ ”مجھے افسوس ہے کہ اینجلو کی بے وفائی نے تمہیں اس حال کو پہنچا دیا۔ ورنہ میرا منصوبہ تو بے داغ تھا۔“ اس نے میرے زخم زخم وجود پر نظر ڈال کر کہا۔ ”وہ دھماکہ، پیڈ رو…… یہ سب کیا تھا۔“ میں نے جھرجھری لے کر کہا۔
”اسی رات بحریہ کے کمانڈروں نے خزانے کا صندوق زمین سے نکال کر اس کی جگہ ریموٹ کنٹرول ڈائنا مائٹ سے بھرا صندوق دفن کر دیا تھا۔“ اس نے بتایا: ”ہمارے جاسوسوں کے مطابق پیڈرو خزانے کی تلاش میں جلد وہاں پہنچنے والا تھا۔ ہمارامقصد اسے زندہ گرفتار کرنا نہیں تھابلکہ ہم اسے کیفر کردار تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کے گرفتار ہونے والے ساتھیوں سے اس کے مکروہ دھندوں اور خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں نہایت اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔“ یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ ”ہمارا منصوبہ تمہارے ذریعے مجرموں اورخزانے تک پہنچنا تھا۔ یہ کام اگر کسی اور ذریعے سے انجام پاتا تو شاید ناکامی، بربادی اورانسانی جانوں کا ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تمہاری مدد سے ایک نہایت خطر ناک گروہ خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچ گیا۔“
”تمہاری کہانی میں حقیقت کتنی تھی اور فریب کتنا؟“ میں نے اس سے پوچھا۔ ”باقی سب سچ تھا سوائے میری اصلیت کے۔“ وہ دوبارہ چشمہ لگا کر بولی:”جمی کی بہن کو پیڈرو نے جمی کی موت کے بعد قتل کردیاتھا۔ اگر میں بہروپ بدل کر تمہارے پاس نہ آتی تو شاید تم کبھی میری مدد پر آمادہ نہ ہوتے۔“
”خزانے کا کیا ہوگا؟“ میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”قانون کے مطابق وہ سرکاری خزانے کی زینت بنے گا تاہم قانون کی مدد کرنے کے صلے میں تمہیں نہ صرف معافی ملے گی بلکہ خزانے میں سے دس فیصد حصہ بھی دیا جائے گا۔“ اس سے آگے میں نے کچھ پوچھنا ضروری نہ سمجھا۔ ہفتے بعد مجھے اسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ لورنا نے عدالت میں گواہی دی کہ میں اتفاق سے اس چکر میں پھنس گیا تھا ورنہ میں اپنی مجرمانہ روش سے باز آکر سینٹ میری میں شریفانہ زندگی بسر کررہا تھا۔ بڈ کی گواہی بھی میرے کام آئی اور اس طرح سے میری کہانی یہیں پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top