skip to Main Content

سرکاری ہسپتال

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ ماحول بھی تبدیل ہو تا رہتا ہے۔ماحول سے مراد میرے حالات ہیں۔ حالات بعض چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ بہتر شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ جبکہ بعض برُے حالات کا شکار ہو جاتیں ہیں۔
ایک روز معمول کے مطابق جب میری آنکھیں کھلیں تو طبیعت بوجھل بوجھل سی محسوس ہوئی۔ ماتھے پر ہاتھ رکھا لیکن کچھ سمجھ نہ پایا۔ رات کی کھانسی یاد آئی مگر پھر خیال آیا کہ اسکول سے چھٹی مارنے کے روز بہانوں کے بعد شاید اب طبیعت ہی ایسی ہوچکی ہے کہ صبح اُٹھتے ہی بوریت ہونے لگتی ہے مگر جب کمرے سے لڑ کھڑا تے ہوئے باہر آیا تو سب نے محسوس کیا کہ آج تو موصوف بدلے سے ہیں۔
’’بیٹا! تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘والدہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی ۔ ماں ہستی ہے ہی ایسی ہوتی ہے جسے سب سے زیادہ فکر اولاد ہی کی ہوتی ہے۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے مدہم سی آواز میں جواب دیا’’ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ میرے والد صاحب کے منہ سے بے اختیار آواز نکلی۔ روزطبیعت کی خرابی کا بہانہ کرنے والا آج کیسے ’’ٹھیک ہوں‘‘ کا لفظ ادا کر رہا ہے۔
’’تیری طبیعت تو ٹھیک نہیں لگتی ؟‘‘ والدہ نے آگے بڑھ کر ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انکشاف کر دیا۔
مانا کہ مائیں ایم ۔بی۔ بی ۔ایس کی ڈگری لئے نہیں ہوتیں مگر مرض کی تشخیص ڈاکٹر سے بھی پہلے کر دیتی ہیں۔آج کئی دنوں پہلے کا دیکھا ہوا اُدھورا خواب پورا ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگا لہذا جلدی سے بول پڑا’’ہاں !طبیعت کچھ بوجھل بوجھل سی ہے رات بھر کھانسی بھی رہی۔‘‘
’’اب لائن پر آیا نا!‘‘والد صاحب نے اتناکہا اور مسکرانے لگے، مگر والدہ ابھی تک بے چین ہی دکھائی دے رہی تھیں لہذا حوصلہ قائم رہا۔
’’بیٹا! تم اسکول نہ جاؤ ، بلکہ۔۔۔۔۔۔ ہسپتال چیک کروا کے دوائی لے آنا اور جب تک تیری طبیعت بالکل ٹھیک نہیں ہوجاتی میں تجھے اسکول نہیں جانے دوں گی۔‘‘والدہ نے فیصلہ سنادیا۔
’’ٹھیک ہے ماں!‘‘ میں نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی کہ کہیں یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے کچھ نہیں تو کم از کم ہسپتال ہی دیکھ آئیں گے۔
سرکاری ہسپتال گھر سے کوئی بیس منٹ کی واک پر تھا جانے کو تو میں پیدل بھی جاسکتا تھا مگر موٹر سائیکل کس مرض کی دوا تھی، ویسے بھی یہ فیشن بن چکا ہے کہ کہیں بھی جانا ہو تو پیدل نہیں جانا کوئی نہ کوئی سواری ضرور استعمال ضرور کرتا ہوں چاہے وہ سائیکل ہی کیوں نہ ہو۔ گھومنے پھرنے کا شوق نہ ہو نے کی وجہ سے آج تک ہسپتال کی بلڈنگ کا دیدار نہیں کیا تھا ، خیر! پوچھتے پوچھتے ہم وہاں تک پہنچ ہی گئے۔ موٹر سائیکل کھڑی کی ،ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں یوں لگا جیسے ہر کوئی میری اس بے زباں موٹر سائیکل کی طرف ہی بے رحم نظروں سے دیکھ رہا ہو، خدا سے دعا مانگی اور موٹر سائیکل لاک کیا۔ سڑک پر ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک نظر آرہی تھی۔’’NO PARKING ‘‘ کے بورڈ پر نگاہ پڑی اسی کے عین نیچے گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں مگر میں تو پریشان تب ہوا جب ہسپتال کے گیٹ پر پہنچا سامنے لوگوں کا ہجوم یوں نظر آیا تھا جیسے یہ غلہ منڈی ہو پہلے مجھے شک ہوا کہ میں غلط جگہ آگیا ہوں اب اس منظر کے بعد تو شک یقین میں بدلنے لگا لہذا میں نے پاس کھڑے ایک صاحب سے تصدیق کرنے کے لیے پوچھ لیا۔
’’جناب ! یہ سرکاری ہسپتال ہی ہے؟‘‘
’’کوئی آسان سوال پوچھتے۔‘‘ صرف اتنا ہی جواب ملا مگر اس جواب نے ایسی تسلی دی کہ شاید مجھے پوری زندگی کسی سرکاری ہسپتال کی تصدیق نہ کروائی پڑے گی۔مین گیٹ سے اند ر داخل ہوا عمارت تو واقعی بہت بڑی تھی مگر اسے سفیدی کئے کچھ زیادہ عر صہ بیت چکا تھا یا۔۔۔۔۔۔شاید۔۔۔۔۔۔ دیواروں پر پینٹنگز کی گئیں تھیں کہ جس جانب بھی نگاہ دوڑاؤ اس کے عکس میں کچھ نہ کچھ نظر ضرور آجاتا یا۔۔۔۔۔۔۔ بن جاتا میرابھی ادب سے دور کا نزدیکی رشتہ تھا لہذا میں بھی وہیں کھڑے کھڑے ان تصویروں کی گہرائی میں جانے لگا ابھی خیالات کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوئے آدھا منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک صاحب کے زبردست دھکے نے مجھے واپس حقیقت کی دنیا میں آنے پر مجبور کیا۔ تھوڑی دیر میں ہی ہمیں اپنا وارڈ مل گیا ایک جانب پرچی بنائی جارہی تھی۔قطار پر نظر پڑی تو یوں محسوسہواجیسے آج بنک میں بل جمع کروانے کی آخری تاریخ ہو آخر نہ چاہتے ہوئے بھی لائن میں کھڑے ہو گئے۔ خد ا خدا کر کے ہماری بھی باری آہی گئی پرچی لی اور متعلقہ کمرے کی جانب بڑھے مگر کرسی کو خالی پا کر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔کچھ نہیں تو اطمینان تو تھا کہ پہلی باری اپنی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ایک مریض تو یوں کھانس رہا تھاجیسے زندہ سانس لینے پر نہیں کھانسنے پر ہو۔
آخر ڈاکٹر صاحب بھی آ پہنچے ایک ایسا آدمی جسے چوبیس گھنٹے نہیں تو کم از کم ڈیوٹی ٹائم کا مکمل پابند ہونا چاہے تھا وہی۔۔۔۔۔۔۔ قیاس کیا کہ پاکستان حکومت نے آبادی کنڑول کرنے کے لیے جو اقدامات کئے ہیں یہ ان اقدامات کی ایک کڑی نہ ہو کہ لوگ بیماریاں اور سہولیات کی ناقص فراہمی کی وجہ سے بے جان ہوتے جائیں گے، اسی طرح آبادی کچھ کم ضرور ہوگی مگر پھر مجھے خیال آیا کہ شاید یہ بات تو پاکستان کے دستور میں لکھی جا چکی ہے کہ وقت پر کام کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ اب آپ ہی دیکھ لیں ہر تقریب ، ہر میٹنگ ، ہر فنکشن گویا کہیں بھی آئین کی خلاف ورزی کا کام نہیں کیا جاتا مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جیساکہ ہر سوسائٹی میں ہوتے ہیں،جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان افراد میں اپنا نام داخل کرتے ہوئے مجھے ذرا بھی عار محسوس نہیں ہورہی یہ اور بات ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے تحاشا ہو رہی ہے۔ جیساکہ پہلے نمبر پر موصوف تھے لہذا فوراً کمرے میں داخل ہوکر ڈاکٹر کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر صاحب چائے کے کپ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ چُسکی لگاتے ہوئے اور کپ رکھ دیتے۔ میں یہ کاروائی دیکھتا رہا کچھ بول نہ سکا ،آخر ڈاکٹر صاحب کا کپ ختم ہوا اور وہ میری طرف گویا ہوئے۔
’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘
’’ج۔۔۔ج۔۔۔۔جی!‘‘ ان کے اچانک پوچھنے پر میں بوکھلا گیا۔
’’میں نے پوچھا ہے کہ کیا بیماری ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب کا لہجہ تلخ تھا بالکل ایک تھانیدار کی طرح اور میں نے بھی ایک ایک بات یوں بتادی جیسے میں جیل میں بند مجرم ہوں جو مار پڑنے پر ہر بات طوطے کی طرح بول دیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک پرچی پر کچھ لکھا اور مجھے تھماتے ہوئے باہر جانے کا اشارہ کیا۔ میں نے باہر نکل کر پرچی پر نگاہ دوڑائی تو اپنی قابلیت پر شک ہوا مگر پھر یاد آیا کہ ان ڈاکٹر لوگوں کی ہینڈ رائیٹنگ تو منفرد ہوتی ہے بلکہ ’’انمول ‘‘ کہاجائے تو زیادہ بہتر ہو گا اس لیے اگر میں نہیں سمجھاسکا تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ ان کی ہینڈ رائینٹگ کو تو ’’اچھے اچھے‘‘ بھی سمجھ نہیں پاتے۔
میرے ایک قریبی رشتے دار کے بقول ایک دفعہ انہوں نے ایک ڈاکٹر سے نسخہ لکھوایا دوائی تو آہی گئی مگر اُس نسخے پر لکھی ہوئی ’’انمول تحریر‘‘ کی وجہ سے انہیں کئی پارٹیاں کھانے کا موقع بھی میسر آیا، اس تحریر کو سفارشی رقعہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کئی افسران سے کام نکلوائے اور اب تو ان کا نسخہ ان کے بیٹے کے پاس ہے جو اُسے سامنے رکھ کر پیانو بجایا کرتا ہے۔
مجھے کچھ حوصلہ ہوا، نسخہ ہا تھ میں پکڑے ڈسپنسری پہنچا۔ بے شک کہ قطار بہت لمبی تھی مگر جیسے جیسے گھٹ رہی تھی مجھے خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ جب سے ہسپتال آیا تھا تب سے یہ پہلی خوشی نصیب ہوئی تھی۔ کچھ لمحوں بعد میری باری بھی آگئی۔
میں نے پرچی اس شیشے کی کھڑکی سے اندر بیٹھے ڈسپنسر کے ہاتھ میں دی جسے اس نے بڑا گھور کر دیکھا۔
’’یہ گولیاں ختم ہوچکی ہیں بازار سے خرید لیں۔‘‘
ایک منٹ سے پہلے ہم پر جو خوشی تھی وہ بھی حقیقت کھلنے پر مردہ ہو گئی۔میں نے اس جگہ سے جلداز جلد نکلنے کا فیصلہ کیا۔ ہسپتال میں رش عروج پر تھا۔ بہت سوں کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا ، اس حقیقت سے مکمل طور پر آشنا ہو گیا کہ ہمیشہ اپنے سے کم تر کو کیوں دیکھنا چاہیے؟
میں نے اپنی رفتار دوگنی کردی کندھے سے کندھا ٹکرا رہا تھا’’دھیان سے بھئی! بہت جلدی ہے کیا؟‘‘ یہ الفاظ عام سننے کو مل رہے تھے مگر میں نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہسپتال کی بلڈنگ سے باہر آیا تو دو رکعت نفل پڑھنے کا تہیہ کرلیا، موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے یوں دوڑائی جیسے میں پولیس اسٹیشن سے بھاگا ہوں اور پولیس میرے پیچھے لگی ہو۔ مارکیٹ سے دوا خریدی اور گھر پہنچ کر سارا دن مکمل آرام کیا۔
اگلی صبح میر ی والدہ نے آکر جگایا تو میں نے کسی حیل و حجت تیاریاں شروع کردیں ۔ سارے گھر والے حیران و پریشان مجھے دیکھ رہے تھے کہ اس کو کیا ہو گیا؟ اتنی بڑی تبدیلی کیسے رونما ہوگئی؟ آخر کھانے کی میز پر والد صاحب نے پوچھ ہی ڈالا۔
’’تمھاری طبیعت کیسی ہے؟ٹھیک تو ہو نا؟‘‘
’’جی !بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ٹھیک !‘‘میں نے بھرپور انداز میں کہا
’’لگتا ہے سرکاری ہسپتال کی دوا راس آگئی ہے؟‘‘ والد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
’’سرکاری ہسپتال کی دوا نہیں ، سرکاری ہسپتال راس آگیا ہے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top