skip to Main Content

سبز خون

:ایک پولیس آفیسر کی ڈائری

آئی جی غلام رسول زاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں کا منظر دیکھ کر حیرت اور صدمے سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں

۔۔۔۔۔۔۔

”خدایا! یہ کیا ہو رہا ہے….“
عین اُن کی آنکھوں کے سامنے ایسا واقعہ رونما ہوا کہ چند لمحوں کے لیے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔
وہ پہاڑی علاقے کی سرسبز و شاداب وادی میں بل کھاتی ہوئی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ موسم نہایت خوشگوار تھا۔ بلند و بالا درخت، گھنے پیڑ، سبزے کی بہار اور پہاڑوںکے دامن میں سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا دریا۔ یہ سب مناظر ایک دلفریب سماں باندھ رہے تھے۔
اُن کے سامنے ایک سست رفتار موٹر سائیکل پر ایک ادھیڑ عمر شخص ہیلمٹ پہنے سڑک کے کنارے کنارے چلا جا رہا تھا۔ اچانک ان کے پہلو سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل زن کرکے نکلی اور آناً فاناً پہلی موٹر سائیکل کے پہلو میں جا پہنچی۔ اس تیز رفتار موٹر سائیکل پر ایک نوجوان آدمی سوار تھا۔ اس نے بجلی کی تیزی سے خنجر نکالا اور اَدھیڑ عمر شخص کے کندھے سے بندے ہوئے بیگ کی پٹی کو ایک ہی وار میں کاٹ ڈالا۔ ساتھ ہی اس نے بڑی چابک دستی سے بیگ کو جھپٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس چھینا جھپٹی میں دونوں موٹر سائیکلیں نیچے گر گئیں۔ نوجوان شخص نے پھرتی سے اپنی موٹر سائیکل سیدھی کی اور اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا۔ اسی اثنامیں انسپکٹر کاشان اور سب انسپکٹر تیمور کی گاڑی اس کے سر پر پہنچ گئی۔
انسپکٹر کاشان کو ایک دن پہلے ایک خاص ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ دلفریب پہاڑوں میں واقع گلشن آباد میں بڑھتے ہوئے جرائم کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے بہت پریشان تھے۔ سردار بلند بخت وہاں کے ایک نامور سیاست دان اور رئیس تھے۔ اُن کی درخواست پر دارالحکومت سے ایک خاص قسم کی ٹیم تشکیل دی گئی جس کا سربراہ انسپکٹر کاشان کو مقرر کیا گیا۔ گلشن آباد کے گھنے جنگلات خوف ناک ڈاکوﺅں کی آماجگاہ بن چکے تھے۔ مقامی پولیس ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکی تھی۔ سردار بلند بخت کو یہ شک بھی تھا کہ گلشن آباد کی پولیس اور انتظامیہ اِن ڈاکوﺅں کے ساتھ مل چکی ہے۔ اس لیے ان کی درخواست پر انسپکٹر کاشان اور ان کی ٹیم سادہ لباس اور عام گاڑیوں میں سفر کر رہے تھے۔ انسپکٹر کاشان اور سب انسپکٹر تیمور ایک الگ جیپ میں تھے جبکہ دس دوسرے اعلیٰ تربیت یافتہ افراد ایک وین میں کچھ فاصلے پر آرہے تھے۔ سردار بلند بخت نے ایک پر فضا مقام پر ان کی رہائش کا بندوبست کیا تھا جہاں سے وہ نقل و حرکت اور آپریشن کے معاملات رازداری سے انجام دے سکتے تھے۔ گلشن آباد سے کچھ فاصلے پر ایک سرکاری عمارت میں پولیس کا خصوصی دستہ بھی قیام کے لیے بھیجا جا رہا تھا تاکہ بڑے آپریشن کی صورت میں فوری مدد ستیاب ہوسکے۔
سب انسپکٹر تیمور نے موٹر سائیکل کے قریب پہنچتے ہی زورسے بریک لگائے۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔ انسپکٹر کاشان نے فوراً جیپ کا دروازہ کھولا اور باہر کی طرف لپکے۔ اتنی دیر میں نوجوان آدمی نے موٹر سائیکل کو چھوڑا اور بھاگ کر پہاڑی پر چڑھنا شروع کردیا۔ بیگ اس کے ہاتھوں میں جھول رہا تھا۔
”تیمور! تم یہیں رکو…. میں اس کا تعاقب کرتا ہوں۔“ انسپکٹر کاشان پوری طاقت سے چلائے اور ملزم کے پیچھے پیچھے پہاڑی کا رخ کیا۔
ملزم کے پاﺅں میں تو جیسے بجلی بھری تھی۔ وہ گویا اڑتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن انسپکٹر کاشان نے اسے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ جوں جوں وہ سڑک سے ہٹتے چلے گئے، جنگل گھنا ہوتا چلا گیا۔ جنگل کے دشوار گزار رستوں پر یہ تعاقب نہ جانے کتنی دیر سے جاری تھا۔ انسپکٹر کاشان شاید ساری زندگی اتنی تیزی سے اتنی دیر تک نہیں بھاگے تھے۔
انھیں محسوس ہوا کہ وہ سڑک سے کئی کلو میٹر دور جنگل کے درمیان پہنچ چکے ہیں۔” اگر اچانک ڈاکوﺅں کے خطرناک گروہ سے سامنا ہوگیا تو اِن حالات میں مقابلہ مشکل ہو جائے گا…. ہوسکتا ہے یہ نوجوان شخص بھی انہی ڈاکوﺅں کا ساتھی ہو اور اس نے مجھے گھیرنے کے لیے یہ چال چلی ہو۔“ ان کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آرہے تھے۔
پھر اچانک جنگل کی گھنی جھاڑیوں میں وہ ملزم غائب ہوگیا۔ انسپکٹر کاشان نے بہت تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اچانک ان کے کانوں میں دور سے ایسی آواز پڑی جیسے کہیں آرا چل رہا ہو۔ وہ بہت تھک چکے تھے لیکن انھوں نے اپنی تھکن کی پروا کیے بغیر اُس آواز کی سمت میں چلنا شروع کردیا۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ پیدل چلنے کے بعد وہ گھنے جنگل میں ایک ایسی جگہ پہنچے کہ وہاں کا منظر دیکھ کر حیرت اور صدمے سے اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
” خدایا! یہ کیا ہو رہا ہے….“ انھوں نے خود سے سرگوشی کی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے گھنے جنگل کے بیچوں بیچ ایک وسیع میدان میں کٹے ہوئے تناور درختوں کے لاتعداد تنے پڑے ہوئے تھے۔ درختوں کی اس لکڑی کے چاروں طرف مسلح افراد پہرہ دے رہے تھے۔ قریب ہی ایک درخت کو برقی آرے کے ساتھ کاٹا جا رہا تھا۔
وہاں بہت سے مزدور کام کررہے تھے۔ ایک طرف ایک خیمہ نصب تھا جس کے عین سامنے میز کرسی جمائے ایک دبلا پتلا بوڑھا شخص اپنے سامنے دھرے رجسٹر پر کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کے سر پر ٹوپی تھی اور ناک کی پھننگ پر سنہری فریم کی ایک عینک ٹکی ہوئی تھی۔ انسپکٹر کاشان نے ایک درخت کی اوٹ سے بھر پور جائزہ لیا۔ چھ مسلح گارڈ مختلف جگہوں پر کھڑے حفاظت کر رہے تھے۔ میدان کی دوسری طرف ایک ٹرک کھڑا تھا جس پر درختوں کے کٹے ہوئے تنے لادے جا رہے تھے۔ ٹرک کے سامنے ایک کچا رستہ نظر آرہا تھا جو بل کھاتا ہوا پہاڑی کے نشیب میں گم ہوجاتا تھا۔
سرسبز درختوں کا جس بے رحمی سے قتل عام ہو رہا تھا اُس پر انسپکٹر کاشان کا خون کھول اٹھا۔ وہ ایک محبِ وطن اور ماحول دوست انسان تھے۔ انھیں احساس تھا کہ ایک ایک درخت زمین اور قوم کا سرمایہ ہے جسے پروان چڑھنے میں بعض اوقات سینکڑوں سال لگتے ہیں۔ جنگل زمین کے لیے نظامِ تنفس کا کام دیتے ہیں۔ درختوں کی بیش قیمت لکڑی قومی اثاثہ ہے۔
”ان ظالموں کی وجہ سے ماحول میں زہر بھر گیا ہے۔ بارشیں کم ہوگئی ہیں اور سیلاب روکنے کا فطری ذریعہ ختم ہو رہا ہے۔ ہر سال تین سے پانچ سو ارب روپے کے درخت ان ڈاکوﺅں کی ہوس کی نذر ہوجاتے ہیں۔“وہ اپنے خیالات سے چونکے جب جنگل کی شاخوں سے الجھتا ہوا بلند قامت درخت نیچے گرا اور پرندوں نے شور مچادیا۔ بوڑھے منشی نے رجسٹر سے نظریں اٹھا کر قتل ہوجانے والے سرسبز درخت کو دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ ناچنے لگی۔ انسپکٹر کاشان کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ ایک قتل گاہ میں کھڑے ہیں اور ان کے سامنے لاشوں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ ہر طرف انھیں خون نظر آرہا تھا…. سبز خون!
اچانک وہ دھک سے رہ گئے۔ ان کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تھا۔
وہ بے ساختہ مڑے تو دیکھا کہ ان کے سامنے بیگ چھین کر بھاگنے والا ملزم کھڑا تھا۔ ملزم نے انسپکٹر کاشان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ان کے ساتھ دبے پاﺅں اس جگہ سے دور ہٹنا شروع کردیا۔ جب وہ محفوظ فاصلے پر پہنچ گئے تو نوجوان ملزم نے دھیمی آواز میں کہا:
”انسپکٹر صاحب، میں آپ کو اس جگہ لانا چاہتا تھا۔ دوسرے موٹر سائیکل پر سوار ادھیڑ عمر شخص بھی میرا ساتھی ہے۔ میرا نام عثمان زکریا ہے، میرے ساتھی کا نام اختر الیاس ہے۔ ہم دونوں محبِ وطن شہری ہیں۔“
”لیکن تم میرے بارے میں کس طرح جانتے ہو؟“انسپکٹر کاشان نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”جناب! میں سردار بلند بخت کا بے حد قابلِ اعتماد ماتحت ہوں۔ انھوں نے دارالحکومت سے گلشن آباد کے ڈاکوﺅں کے خاتمے کے سلسلے میں جو مدد مانگی تھی اس کی ہر تفصیل میرے سامنے طے ہوئی ہے،لیکن میں چاہتا ہوں جناب کہ آپ اس علاقے کے بلکہ اس ملک اور اس وطن کے سب سے خطرناک ڈاکوﺅں کا خاتمہ کریں۔ میں نے سردار بلند بخت سے بھی درخواست کی تھی لیکن ان کے پاس ہر روز کوئی نہ کوئی شہری ڈاکوﺅں کے ہاتھوں لٹ کر دہائی دینے پہنچ جاتا ہے…. بے چارے درخت کس کے سامنے جاکر فریاد کریں…. ہمارا وطن سرسبز نہ رہا تو اس کی سرزمین ریگستان میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس کی فضاﺅں میں زہر گھل جائے گا۔“
انسپکٹر کاشان اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہے تھے۔ خود ان کے بھی یہی جذبات تھے۔ انھوں نے عثمان زکریا کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے کہا:”میں تمھارے جذبے کی قدر کرتا ہوں….لیکن میں تم سے مکمل تعارف کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں…. خیر یہ بعد میں ہوجائے گا…. ابھی ایک بار پھر ہمیں اس جگہ جانا ہوگا۔“
جب وہ دوبارہ اس جگہ پہنچے تو مزدور ایک اور درخت کو کاٹ رہے تھے۔ بوڑھا منشی موبائل فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ پھر اچانک وہ اٹھا اور ٹرک کی طرف بڑھا، لیکن رستے میں ہی اس نے رخ تبدیل کیا اور جنگل کی طرف ہولیا۔ اس نے موبائل فون کو بند کرکے ایک چٹانی پتھر پر رکھا اور بہت محتاط انداز میں ایک کھائی کی طرف بڑھا۔
”منشی صاحب کو جنگلی خرگوش نظر آیا ہے….“ عثمان زکریا نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے انسپکٹر کاشان کے کان میں سرگوشی کی،لیکن وہ حیران رہ گیا جب اگلے ہی لمحے انسپکٹر کاشان چیتے کی تیزی سے لپکے وہ چٹان پر رکھے ہوئے موبائل کو اٹھا کر اس پھرتی سے واپس ہوئے کہ عثمان زکریا اَش اَش کر اٹھا۔
”منشی بے چارہ تو محض ایک کارندہ ہے…. اس موبائل کے ذریعے ہم اصل ڈاکو تک پہنچ سکیں گے کیوں کہ وہ منشی سے رابطہ ضرور کرتا ہوگا۔“ انسپکٹر کاشان نے موبائل کو بند کرکے اس کی سم اور بیٹری نکال لی اور سب کچھ سنبھال کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔
”میرے پاس اس بیگ میں چند اہم ثبوت موجود ہیں۔“ عثمان زکریا نے اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”اگر آپ مناسب سمجھیں تو اب ہمیں یہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے۔ باقی باتیں سردار بلند بخت کی طرف سے آپ کے لیے فراہم کردہ رہائش گاہ پر ہوں گی۔“
جب وہ روانہ ہو رہے تھے تو ان کے کانوں میں منشی کی آواز گونجی: ”ارے…. میرا موبائل فون کہاں گیا؟…. یہیں اس چٹان پر تو رکھا تھا۔“
”آپ بھی کمال کرتے ہیں میر صاحب! اس ڈھلوان سے آپ کا موبائل فون ذرا بھی سرک گیا ہوگا تو نیچے گہری کھائی میں گر گیا ہوگا…. سورج ڈھلنے کو ہے، اب صبح ہی تلاش کیا جاسکتا ہے اسے!“ ایک اور آواز گونجی۔
”خرگوش بھی نکل گیا اور میرا قیمتی موبائل بھی کھوگیا…. آج کا دن میرے لیے بہت برا رہا۔“بوڑھے منشی کے آخری الفاظ انھیں بہ مشکل سنائی دئیے کیوں کہ وہ خاصے دور نکل آئے تھے۔
انسپکٹر کاشان اور سب انسپکٹر تیمور کو اپنے ٹھکانے پر پہنچتے پہنچتے رات ہوگئی تھی۔ فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ عثمان زکریا اور اختر الیاس نے اُن کے لیے آتش دان میں آگ روشن کردی تھی، خانساماں رات کا کھانا تیار کر چکا تھا لیکن انسپکٹر کاشان گہری سوچ میں گم تھے، عثمان زکریا کے بیگ میں نہایت اہم تصاویر اور دستاویزی ثبوت موجود تھے۔ اِس گھنے جنگل میں کئی وسیع قطعات تھے جہاں درختوں کو کاٹ کر لکڑی کے ڈپو کی شکل دے دی گئی تھی، کچے راستوں کے ذریعے نامانوس اور غیر معروف اطراف سے ٹرکوں پر کٹے ہوئے درخت جنگل سے باہر روانہ کیے جاتے تھے۔ ان راستوں اور قطعات کی نشاندہی اور نقشے اس بیگ میں موجود تھے۔ لکڑی کے اس کالے دھندے میں ملوث مجرم ایک خاص مدت کے بعد جنگل میں آگ لگا کر اپنی چوری کے ثبوت بھی مٹادیتے تھے۔ اس جرم میں محکمہ جنگلات کے علاوہ علاقے کے سرکاری اہلکار اور با اثرلوگ بھی شامل تھے۔
”جناب!“ عثمان زکریا نے انسپکٹر کاشان کو ساری تفصیل سے آگاہ کرنے کے بعد کہا ”جن ڈاکوﺅں کی تلاش میں آپ آئے ہیں ان کو پکڑنا بہت آسان ہے…. میں آپ کو صرف دو نام دوں گا۔ ان میں سے ایک پولیس سب انسپکٹر ہے اور دوسرا یہاں کا ایک نام ور سیاست دان…. ان کے ذریعے پندرہ منٹ میں آپ کو ڈاکوﺅں کے ٹھکانے، ان کی تعداد اور ان کی ہر تفصیل معلوم ہوجائے گی…. لیکن میری درخواست ہے کہ پہلے آپ ان بڑے ڈاکوﺅں پر ہاتھ ڈالیں جو ہمارے درختوں اور ہمارے قدرتی سرمائے کے چور ہیں۔ یقین جانیے یہ سب سے بڑے ڈاکو ہیں۔“
اگلے دن صبح سویرے سردار بلند بخت ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ لیکن انسپکٹر کاشان منہ اندھیرے اپنی جیپ پر کہیں نکل چکے تھے۔ وہ اپنے اعلیٰ افسروں سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے انھیں صورت حال سے آگاہ کرنا چاہتے تھے لیکن پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں خود جاکر آئی جی صاحب کو ساری بات بتانی چاہیے۔ مقامی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے تعاون کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ آئی جی صاحب کے ذریعے ان کے اعلیٰ حکام سے بھی مدد حاصل کرنا چاہتے تھے۔
”یہاں لوگ لٹ رہے ہیں اور انسپکٹر صاحب سیر و تفریح کے لیے باہر نکل گئے ہیں…. میں ان کی شکایت کروں گا۔“ سردار بلند بخت نے انسپکٹر کاشان کی عدم موجودگی کا نہایت برا منایا۔ سب انسپکٹر تیمور خاموش انھیں تکتے رہے۔
انسپکٹر کاشان کی واپسی دوسرے دن شام کے وقت ہوئی۔
”ہماری تیاریاں مکمل ہیں…. کل ہماری ٹیمیں ایک ہی وقت میں ان تمام ٹھکانوں پر چھاپا ماریں گی جہاں درختوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور ہمارے قدرتی ماحول پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔“ انھوں نے سب انسپکٹر تیمور اور عثمان زکریا کو پر عزم انداز میں بتایا۔
”بوڑھے منشی کے موبائل سے کوئی ریکارڈ مل سکتا ہے جناب؟“ سب انسپکٹر تیمور نے پوچھا۔
”بہت سنسنی خیز انکشافات ہیں تیمور!“ انسپکٹر کاشان معنی خیز انداز میں مسکرائے۔
اگلا دن بہت ہنگامہ خیز تھا۔ درخت کاٹ کر چوری کرنے والے سارے گروہ گرفتار ہوچکے تھے۔ اس جرم کے ذریعے ملک کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ کروڑوں نہیں اربوں میں تھا۔
”ہم نے ڈاکوﺅں کی سرکوبی کے لیے آپ کو بلایا تھا اور آپ لکڑی چوروں کے پیچھے پڑگئے۔“ سردار بلند بخت نے پہلی نظر پڑتے ہی انسپکٹر کاشان سے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
”شہریوں کا مال و دولت لوٹنے والے ڈاکوﺅں کو میری دوسری ٹیم سب انسپکٹر تیمور کی سربراہی میں گرفتار کرچکی ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سب انسپکٹر دلاور تاری اور نواب وقار گیلانی بھی شامل تھے…. لیکن آپ کی دعوت کی وجہ سے ہمارے وطن کے بہت بڑے ڈاکو پکڑے گئے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ چند گھنٹوں بعد یہاں ملکی اور غیر ملکی میڈیا پہنچ رہا ہے، لیکن ان سے پہلے چند وزرا اور آئی جی صاحبان بھی پہنچ رہے ہیں۔ آپ نے بہت بڑی قومی خدمت سرانجام دی ہے سردار بلند بخت صاحب!“
”واقعی؟“ سردار بلند بخت خوشگوار حیرت سے اچھل پڑے۔ ”میں درخواست کروں گا کہ ان سب لوگوں کی میزبانی کا موقع مجھے دیا جائے۔ وقت کم ہے مجھے بہت سے انتظامات کرنے ہوں گے۔“
سہ پہر تک اس دور افتادہ پر فضا مقام پر بے انتہا رونق ہوچکی تھی۔
سرکاری اور سیاسی شخصیات کے ساتھ میڈیا کا ایک ریلا امڈ آیا تھا۔ جنگلات کی چوری کرنے والوں کے خلاف اتنی بڑی کارروائی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سب انسپکٹر کاشان اور ان کی ٹیم کو مبارک باد پیش کر رہے تھے۔ ان کے لیے خصوصی انعامات کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ انسپکٹر کاشان نے عثمان زکریا اور اس کے ساتھی کے لیے خفیہ طور پر بھاری نقد انعام کی منظوری حاصل کی تھی۔ اس کو خفیہ اس لیے رکھا گیا تھا تاکہ انھیں یا ان کے خاندانوں کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچ سکے۔
پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے سب انسپکٹر تیمور نے ایک فائل انسپکٹر کاشان کے حوالے کی۔ اس فائل کو پڑھتے ہی وہ آئی جی صاحب کی طرف لپکے۔
”جناب! نہایت اہم انکشاف ہوا ہے؟“
آئی جی صاحب انسپکٹر کاشان کو ایک طرف لے گئے۔
”کیا بات ہے کاشان؟ وزیر صاحب کانفرنس شروع کر رہے ہیں میرا اُن کے ساتھ موجود ہونا ضروری ہے۔“
”سر! منشی قربان میر کے موبائل فون ریکارڈ کی بنیاد پر اس سے تفتیش جاری ہے۔ منشی نے اس جرم میں ملوث گروہ کے اصل سر غنہ کا نام بتادیا ہے؟“
”کون ہے وہ؟“ آئی جی صاحب تیزی سے بولے۔
”وزیرِ جنگلات نعمان ابدالی….!“
”کیا!؟“ آئی جی صاحب اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکے۔ سب نے اُن کی طرف چونک کر دیکھا۔
”وہی تو اس کارنامے پر حکومت کی طرف سے پریس کانفرنس کر رہے ہیں….“
وہ اپنی آواز کو سرگوشی میں تبدیل کرتے ہوئے بولے۔
”ثبوت مکمل ہوتے ہی ہمیں نعمان ابدالی کو گرفتار کرنا ہوگا سر!“
”یقینا…. اس خبر کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھیں…. میں بھی حیران تھا کہ وزیر صاحب کا چہرہ اترا ہوا تھا…. ہمیں اپنی کارروائی ہر لحاظ سے مکمل اور مضبوط رکھنا ہوگی!“
”میں محکمہ جنگلات اور پولیس کو اس شاندار کارنامے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔“
نعمان ابدالی کی تھکی تھکی سی آواز مائیک سے برآمد ہو رہی تھی۔
انسپکٹر کاشان بلڈنگ سے باہر آکر لان میں کھڑے ہوگئے۔ اُن کے سر پر ایک خوب صورت اور سرسبز درخت لہلہا رہا تھا۔ درخت سے ایک پھولوں بھری شاخ گری اور ان کے لباس پر اٹک گئی۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے پھولوں کی ڈالی کو اٹھایا اور اوپر کی طرف نظر دوڑائی۔ درخت کی شاخیں تازہ ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہی تھیں۔ انسپکٹر کاشان کو ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا کہ درخت ان کا شکریہ ادا کر رہا ہے اور خوشی سے جھوم رہا ہے۔
” اب اس سرسبز و شاداب جنگل میں کہیں درخت کا سبز خون نہیں بہے گا! کسی پیڑ کا قتل نہیں ہوگا۔ کہیں ان درختوں اور ان پیڑوں کی لاشوں کے ڈھیر نہیں سجیں گے۔ ان شاءاللہ!“ انھوں نے زیرلب کہا اور مسکرا دیے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top